Tag: اردو شاعری

  • صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    صہباؔ اختر: ‘میں ابر تھا چھایا رہا!’

    ادب اور شاعری سے شغف رکھنے والی نئی نسل اور نوجوان شعراء میں‌ بھی بہت کم ایسے ہوں گے جنھیں صہباؔ اختر کے اشعار یاد ہوں‌ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اکثر نے ان کا نام تک نہ سنا ہو، لیکن یہ کچھ ایسا تعجب خیز بھی نہیں۔ وقت کی گردش اور زمانے کی رفتار میں‌ کئی نام سامنے نہیں رہے، لیکن اردو ادب میں ان کا مقام اور حیثیت برقرار ہے۔ صہبا اختر انہی میں‌ سے ایک ہیں۔ صہبا اختر کے مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں جو طنطنہ رعب اور گھن گرج تھی۔ وہ انہی سے مخصوص ہے۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی اس لحن میں غزل یا نظم نہیں پڑھ سکا۔ آج اردو کے ممتاز شاعر صہبا اختر کا یومِ وفات ہے۔

    صہبا صاحب نے اپنے زمانے میں اردو غزل اور نظم گوئی میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان کی بیشتر نظمیں وطن سے ان کی محبت اور اس مٹی سے پیار کا والہانہ اظہار ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ان مسائل کو بھی شاعری میں خوب صورتی اور شدت سے بیان کرتے ہیں‌ کہ جو ان کی نظر میں وطن کی صبحِ درخشاں کو تیرگی اور تاریکی کا شکار کرسکتے ہیں۔ ان کا لحن اور جذبہ ان کی شاعری میں دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔

    صہباؔ اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور صہبا اختر کم عمری میں شعر کہنے لگے۔ انھوں نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا، علی گڑھ سے بی اے کی سند لی اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمۂ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے غزل کے علاوہ حمد و نعت، مرثیہ گوئی، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور گیت نگاری کے ساتھ ان کی ملّی شاعری نے انھیں بڑی شہرت دی۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ بعد از مرگ صہبا صاحب کے لیے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔

    احمد ندیم قاسمی نے اپنے مضمون میں‌ صہباؔ صاحب کے بارے میں‌ لکھا تھا:’’صہبا اختر کے ہاں جذبے اور احساس کے علاوہ ملکی اور ملی موضوعات کا جو حیرت انگیز تنوع ہے وہ انھیں اپنے معاصرین میں بہرحال ممیز کرتا ہے۔ نظم ہو یا غزل مثنوی ہو یا قطعہ وہ اپنے موضوع میں ڈوب کر اس کے آفاق پر چھا کر شعر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں قاری یا سامع کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لینے کی جو توانائی ہے، وہ اس دور میں بے مثال کہی جا سکتی ہے۔ بظاہر وہ بلند آہنگ شاعری کرتے ہیں لیکن اس طرح کا خیال عموماً ان لوگوں کا ہوتا ہے جنھوں نے صہبا اختر کو مشاعروں میں پڑھتے سنا مگر ان کے کلام کے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہی احباب صہبا اختر کے کلام کو یکجا دیکھیں گے تو انھیں معلوم ہو گا کہ یہ شاعر جو مشاعروں میں گرجتا اور گونجتا ہے اپنے کلام کی گہرائیوں میں کتنا اداس اور تنہا ہے۔ ‘‘

    صہبا صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے، نہایت کم گو تھے اور دوسرو‌ں کے متعلق یا اپنے ہم عصر شعراء کی عیب جوئی یا کسی پر نکتہ چینی کبھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک مشاعرے اور صہبا صاحب کا یہ تذکرہ پڑھیے: ’’غالباً 1955ء کا ذکر ہے، نواب شاہ میں ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ کراچی سے شرکت کرنے والوں میں ایک چھیل چھبیلا جوان العمر شاعر بھی تھا۔ گھنے گھنے، گھنگریالے سیاہ اور چمکتے دمکتے بال، گول مٹول سا بھرا بھرا چہرہ، خمار آلود شربتی آنکھیں، ستواں ناک، متناسب لب اور دل کش قد و قامت کے ساتھ ساتھ تنومند جسم پر ململ کا کڑھا ہوا کرتا اور صاف و شفاف لٹھے کا ڈھیلا پاجامہ۔ یہ تھی صہبا اختر کی سج دھج، جنھوں نے اپنی باری آنے پر بڑی لمبی بحر کی غزل چھیڑی اور وہ بھی منجھے ہوئے ترنم سے۔ حاضرین منتظر ہیں کہ ذرا کہیں رکیں تو داد و تحسین سے نوازے جائیں۔ اُدھر بھائی صہبا اختر کی محویت کا یہ عالم کہ جیسے ایک ہی سانس میں پوری غزل سنا ڈالیں گے۔ مسئلہ پوری غزل کا نہیں بلکہ مطلع ہی ایسی بحرِ طویل کو تسخیر کر رہا تھا کہ سانس لینے کی فرصت کسے تھی۔ بہرکیف غزل خوب جمی اور داد بھی بہت ملی۔

    یہاں‌ صہبا اختر کی ایک غزل ہم قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    صہبا اختر ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے لیے بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ ان کے تحریر کردہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا شامل ہیں۔

    19 فروری 1996ء کو صہبا اختر انتقال کرگئے تھے۔ انھیں کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    اردو ادب میں محسن بھوپالی کا نام ایسے شاعر کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا جس نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن سے کوچۂ سخن کو نکھارا اور اسے ایک نئی صنف ’’نظمانے‘‘ سے آراستہ کیا۔ آج اردو زبان کے ممتاز شاعر محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    محسن بھوپالی نے اردو زبان میں غزل جیسی معتبر اور مقبول صنفِ سخن میں اپنے جذبات اور احساسات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے عام قارئین کی توجہ حاصل کی اور ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی۔ اردو ادب کے نقّادوں نے بھی محسن بھوپالی کے فنِ‌ شاعری کو سراہا ہے۔ محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    زمانۂ طالبِ علمی کے بعد نوکری کا آغاز ہوا، تب بھی محسن بھوپالی ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ ان کی شاعری بھی مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہی جس نے انھیں باذوق حلقوں میں‌ متعارف کروایا۔ مقامی سطح پر منعقدہ مشاعروں میں شرکت اور علمی و ادبی حلقوں میں پہچان بنانے والے محسن بھوپالی کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھی مشاعرہ پڑھنے کی دعوت ملنے لگی اور ان کا کلام ہم عصر شعراء اور باذوق سامعین نے بہت پسند کیا۔ بطور شاعر جلد ہی ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    محسن بھوپالی کراچی کے علاقے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    اردو کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی موت کے بعد ان کا کلیات ‘‘ماہِ تمام’’ کے نام سے مداحوں تک پہنچا تھا۔ اس سے قبل پروین شاکر کے مجموعہ ہائے کلام ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے نام سے منظرِ‌عام پر آچکے تھے۔

    پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی ہار دی تھی۔ آج اردو کی اس مقبول شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں پروین شاکر کو ان کے رومانوی اشعار کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو نسائی جذبات کے عصری شعور کے ساتھ اظہار کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو اس شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پاکستان اور دنیا بھر میں موجود اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں مقبول پروین شاکر کو اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ اشعار ان کے کتبے پر درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • اطہر نفیس: خوابوں کا صورت گر شاعر

    اطہر نفیس: خوابوں کا صورت گر شاعر

    پاکستان کی معروف گلوکارہ فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا سفر 60 کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ یوں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ان کی آواز میں کئی غزلیں، نظمیں اور گیت مقبول ہوئے، لیکن اطہر نفیس کی ایک غزل نے انھیں لازوال شہرت دی۔

    اس غزل کا مطلع آپ کی سماعتوں‌ میں‌ بھی محفوظ ہوگا۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اردو کے معروف شاعر اور صحافی اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اطہر نفیس کا شمار اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شعرا میں‌ کیا جاتا ہے۔ فریدہ خانم کی مدھر آواز میں اطہر نفیس کی یہ غزل اس قدر مقبول تھی کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہر پروگرام میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی۔ فریدہ خانم پروگراموں اور نجی محفلوں میں غزل سرا ہوتیں تو یہ غزل سنانے کی فرمائش کی جاتی۔ اس کلام کی بدولت فریدہ خانم کی شہرت کو گویا چار چاند لگ گئے تھے۔

    ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی اطہر نفیس کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے۔‘‘

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ ادبی صفحہ کے نگراں رہے اور اس کام کے ساتھ ان کی مشقِ سخن بھی جاری رہی۔ اطہر نفیس نے شادی نہیں کی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب سے ہم عصر شعرا کے درمیان اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ اپنے تخلیقی وفور اور دل کش اندازِ‌ بیان کے سبب ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول تھے۔ اطہر نفیس نے اردو غزل کو خیال آفرینی اور اس کے ساتھ ایک خوب صورت، لطیف اور دھیما لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔

    اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
    اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

    اطہر نفیس کی یہ مشہور غزل فریدہ خانم کے بعد دوسرے پاکستانی گلوکاروں نے بھی گائی۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

  • شکیب جلالی: وہ شاعر جس نے صرف 32 سال کی عمر میں‌ زندگی سے ناتا توڑ لیا

    شکیب جلالی: وہ شاعر جس نے صرف 32 سال کی عمر میں‌ زندگی سے ناتا توڑ لیا

    12 نومبر شکیب جلالی کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ 1966ء میں اس روز انھوں نے خودکُشی کرلی تھی۔ شکیب جلالی دنیائے ادب میں اپنی خوب صورت شاعری کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ 32 سال کی عمر میں‌ اس نوجوان شاعر نے ٹرین کے سامنے آکر اپنی زندگی ختم کرلی تھی۔

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

    بدقسمتی سے شکیب نے نوعمری میں اپنی والدہ کو اسی طرح ٹرین کے نیچے آکر زندگی کا خاتمہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اور وہ سانحہ تھا جس نے شکیب کو ہمیشہ مضطرب رکھا اور وہ شدید ڈپریشن کا شکار رہے۔ کوئی پختہ عمر اور مضبوط اعصاب کا مالک بھی شکیب جلالی کی جگہ ہوتا تو اسی کرب اور اذیت سے دوچار ہوتا جس نے شکیب کو ہمیشہ بے حال رکھا، اس وقت وہ صرف دس سال کے تھے۔ ان کی والدہ نے بریلی ریلوے اسٹیشن پر خود کشی کی تھی۔

    ان کا اصل نام سیّد حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد شکیب جلالی کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے ذہن کے پردے پر وہ قیامت خیز منظر ایک فلم کی طرح چلتا رہتا تھا۔ وہ شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا رہے اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر ایک دن خود بھی سرگودھا میں موت کو گلے لگا لیا۔ شکیب جلالی لاہور میں ذہنی امراض کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد بھی ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے مسائل اور پریشانی نے شکیب جلالی کی والدہ کو خود کشی پر آمادہ کرلیا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ان کے والد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے اور انھوں نے ہی اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو شاعری میں شکیب جلالی اپنے جداگانہ انداز کے سبب ہم عصرو‌ں میں نمایاں ہوئے۔ ان کا مجموعہٌ کلام اُن کی خودکُشی کے بعد احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کا نمایاں ترین شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    شکیب جلالی نے بدایوں سے میٹرک کیا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز کرنے والے شکیب جلالی ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ شکیب نے چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور بعد میں ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ پھر انھیں ایک محکمہ میں ملازمت مل گئی، لیکن اس عرصہ میں ان کی ذہنی الجھنیں بڑھ گئی تھیں۔ تاہم مشقِ سخن جاری رہی۔ شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے انھیں ہم عصر شعرا کے درمیان امتیاز اور خوب شہرت دی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا، وہیں باذوق قارئین میں بھی مقبول ہوئے۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے۔

    شکیب جالی کے چند مشہور اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

  • اُردو شاعری اور آزاد نظم

    اُردو شاعری اور آزاد نظم

    سانیٹ کے بعد اردو شاعری میں سب سے زیادہ آزاد نظم کی ہیئت میں تجربے کیے گئے۔ آزاد نظم دراصل انگریزی کے فری ورس کا اردو ترجمہ ہے۔

    فری ورس کی کوئی متعین کردہ ہیئت نہیں ہوتی اور اس کا آہنگ بھی متنوع ہوتا ہے۔ اس کا آہنگ جذبہ و خیال کے اتار چڑھاؤ سے تشکیل پاتا ہے۔فری ورس کی اکائی رکن یا مصرع ہونے کے بجائے اسٹرافی ہوتا ہے، جس میں تمام مصرعے ایک دوسرے سے پیوست ہو تے ہیں۔

    چوں کہ آزاد نظم میں آہنگ کی بنیاد لہجے کی تاکیدوں پر رکھی جاتی ہے، اس لیے نہ صرف مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ مختلف بحروں کے امتزاج سے بھی تعمیر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو محض نثری ترتیب سے قائم ہوتے ہیں۔ اردو آزاد نظم میں مصرعے جذبہ و خیال کے نشیب و فراز کے ہم قدم تو ہوتے ہیں لیکن اس میں کسی ایک مخصوص بحر کی پابندی لازمی ہوتی ہے، اس میں مصرعوں کی ترتیب پابند نظموں کی طرح متعین ارکان پر نہیں ہوتی۔ ان کا انحصار جذبہ و خیال کے ایک جزو کی تکمیل پر ہوتا ہےاور مصرعوں کے ارکان گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔

    کہتے ہیں‌ کہ اردو میں تصدق حسین خالد تھے جنھوں نے سب سے پہلے آزاد نظم لکھی۔

    تصدق حسین خالد کے بعد ن م راشد، میرا جی، محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، مجید امجد، یوسف ظفر، علی جواد زیدی وغیرہ آزاد نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ آزاد نظم کی ہیئت کو معیار و وقار عطا کرنے میں ن م راشد اور میرا جی کا ہاتھ ہے۔ بعض نقادوں کے مطابق ن م راشد کی پہلی آزاد نظم ’’اتفاقات‘‘ تھی جو 1935ء میں شائع ہوئی تھی۔

    آزاد نظم کا آغاز 1901ء میں عبد الحلیم شرر اور عظمت اﷲ خاں کے ہاتھوں ہوا۔ ان کے کامیاب تجربوں کے بعد آزاد نظم لکھنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آزاد نظم اردو شاعری میں اظہار کا ایک مقبول و مشہور وسیلہ بن گیا۔

  • داغ دہلوی کے جانشین شاعر نوح ناروی کا تذکرہ

    داغ دہلوی کے جانشین شاعر نوح ناروی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب میں‌ نوح ناروی کو ایک کہنہ مشق اور استاد شاعر کے طور پر تو یاد کیا ہی جاتا ہے، لیکن داغ دہلوی کی جانشینی اُن کا طرّۂ امتیاز ہے۔ نوح ناروی اردو کے مشہور استاد شاعر حضرت داغ کے تلامذہ میں سے ایک تھے۔

    نوح ناروی نے اردو شاعری میں روایتی موضوعات اور عام بندشوں کو اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ میں جس خوب صورتی سے پیش کیا، وہ انھیں حضرتِ داغ کا قابل اور باصلاحیت شاگرد ثابت کرتی ہے۔ وہ اردو کے اُن شعراء میں سے ہیں جس نے اپنے تخلّص کی رعایت سے خوب اشعار نکالے اور ان کے مجموعہ ہائے کلام بھی اسی تخلّص کی مناسبت سے بعنوان سفینۂ نوح ، طوفانِ نوح ، اعجازِ نوح شایع ہوئے۔

    اردو زبان کے اس شاعر کا اصل نام محمد نوح تھا۔ انھوں نے یہی تخلّص اختیار کیا۔ تذکروں میں ان کا سنہ پیدائش 1878ء لکھا ہے۔ نوح ناروی کا آبائی علاقہ ضلع رائے بریلی تھا۔ دست یاب معلومات کے مطابق نوح ناروی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بعد میں انھوں نے میر نجف علی سے فارسی، عربی کا درس لیا اور ان زبانوں پر قدرت حاصل کی۔

    نوح ناروی استاد حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے، اور اُن کے کلام پر بھی داغ جیسا بانکپن اور وہ بے باکی غالب ہے جس کے لیے داغ مشہور تھے۔ نوح ناروی نے اردو حسن و عشق کے موضوعات کو نہایت خوب صورتی اور نزاکت سے نبھایا۔

    یہاں‌ ہم نوح صاحب سے متعلق ایک قصّہ نقل کررہے ہیں‌ جو اُن کے استاد داغ دہلوی کی شاعرانہ عظمت کے ساتھ نوح ناروی کی اِس نسبت سے پذیرائی کو بیان کرتا ہے۔ یہ قصّہ پنڈت رتن پنڈوری نے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، نواب حامد علی خاں والیِ رامپور کے ہاں مشاعرے میں نوح ناروی صاحب کو ایک دفعہ شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی زندہ تھے۔ نوح ناروی مشاعرہ ختم ہونے کے بعد تسلیم صاحب کی خدمت میں پہنچے کیونکہ وہ پیرانہ سالی کے سبب شریک مشاعرہ نہیں ہوسکے تھے۔ جا کر دیکھا کہ تسلیم صاحب چارپائی پر آنکھیں بند کیے ہوئے لیٹے ہیں۔

    نوح ناروی صاحب جا کر پیر دبانے لگے۔ تسلیم صاحب نے آنکھیں کھول دیں اور حالات پوچھنے لگے جب انہیں معلوم ہوا کہ نوح ناروی، حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہیں تو فرمایا ’’تم نے انہیں دیکھا بھی ہے یا خط کتابت کے ذریعے شاگرد ہوئے ہو؟‘‘ نوح صاحب نے کہا ’’میں بہت دنوں تک ان کی خدمت میں رہا ہوں۔‘‘ یہ سن کر تسلیم صاحب نے کہا ’’ذرا مجھے سہارا دے کر بٹھاؤ‘‘

    نوح صاحب نے سہارا دیا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا، ’’میری انگلیوں کو اپنی آنکھوں پر رکھو۔‘‘ نوح صاحب نے ان کی انگلیاں آنکھوں پر رکھیں، دوتین منٹ کے بعد وہ اپنی انگلیوں کو نوح صاحب کی آنکھوں سے ہٹا کر چومنے لگے اور فرمایا ’’تمہاری ان آنکھوں نے میرے دوست کو دیکھا ہے، اس باعث میں نے بوسہ لیا۔ ‘‘اور یہ کہہ کر اپنی آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ اس کے بعد نوح ناروی صاحب کے چند شعر سنے اور تعریف کی۔

    نوح ناروی نے 1962ء میں آج ہی دن انتقال کیا۔ حضرت نوح ناروی کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ادا آئی، جفا آئی، غرور آیا، حجاب آیا
    ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا

    محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
    پہلے تھے آپ، آپ سے تم، تم سے تُو ہوئے

    ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
    پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

    آج آئیں گے، کل آئیں گے، کل آئیں گے آج آئیں گے
    مدت سے یہی وہ کہتے ہیں، مدت سے یہی ہم سنتے ہیں

  • جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    بی آر چوپڑا کو ہندوستان کا عظیم فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے بولی وڈ کو کئی سپرہٹ فلمیں دیں۔ مشہور شاعر اور کام یاب فلمی گیت نگار کی حیثیت سے ساحر لدھیانوی کو بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس دوران ان دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق استوار ہوگیا۔ یہاں ہم جو قصّہ بیان کرنے جارہے ہیں، اس کا تعلق ساحر لدھیانوی کی حقیقی زندگی سے ہے۔

    ‘گمراہ’ بی آر چوپڑا کی فلم تھی اور جن دنوں وہ یہ فلم بنا رہے تھے، ان کا کسی کام سے ساحر کے گھر جانا ہوا۔ وہاں میز پر ساحر لدھیانوی کی ڈائری رکھی ہوئی تھی جسے فلم ساز نے اٹھایا اور ورق گردانی شروع کر دی۔ انھیں اس میں تحریر کردہ ایک نظم بہت پسند آئی۔ فلم ساز بی آر چوپڑا نے ساحر سے کہا کہ وہ اس نظم کو اپنی فلم ‘گمراہ’ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ساحر نے انکار کر دیا۔ بی آر چوپڑا نے اصرار کیا تو ساحر نے انھیں کہاکہ یہ نظم نہیں‌ ہے بلکہ اس کی آپ بیتی ہے، اور چوں کہ ان اشعار کا تعلق اس کی ذات سے ہے، اس لیے وہ اسے کسی فلم کے لیے نہیں دے سکتا۔ ساحر لدھیانوی کے عشق اور رومان کے قصّے اس زمانے میں عام تھے۔ ساحر ایک قبول صورت انسان تھے، لیکن ایک مقبول شاعر ضرور تھے اور رومان پرور مشہور تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم ساحر نے سدھا ملہوترا سے اپنے ناکام عشق کے بعد لکھی تھی۔ بی آر چوپڑا نے کہا کہ میری آنے والی فلم کے ایک منظر کے لیے اس سے اچھی نظم کوئی نہیں ہو سکتی اور تم مجھے انکار نہ کرو۔ ساحر نے بار بار اصرار کرنے پر وہ نظم بی آر چوپڑا کو دے دی۔

    موسیقار روی کے ساتھ مہندر کپور کی آواز میں یہ نظم بی آر چوپڑا نے اپنی فلم ‘گمراہ’ میں شامل کر لی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ یہ نظم آپ نے بھی سنی ہوگی، ‘چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں…’

    اس نظم کے یہ اشعار اس زمانے میں ہر دل شکستہ، ناکام عاشق اور حالات کے آگے ڈھیر ہوجانے والا ضرور پڑھتا یا اپنی ڈائری میں لکھ لیتا تھا اور لوگ اس نظم کے یہ اشعار خاص طور پر پڑھتے تھے۔

    تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
    تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
    وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
    اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
    چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

  • سُر، لفظ اور تال

    سُر، لفظ اور تال

    فن موسیقی تین چیزوں کا امتزاج ہے سُر، لفظ اور تال۔ موسیقی میں ان تینوں عناصر کی اپنی اپنی جداگانہ اہمیت ہے جس میں یہاں ہم لفظ کی غنائی نوعیت کو موسیقی کی مختلف صورتوں کے ذریعے زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

    قارئین، ہر لفظ اپنی ایک غنائی ترکیب کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے صوت، لفظ اور غنا دونوں پر مقدم ٹھہرتی ہے، کیونکہ صوت سے ہی لفظ تشکیل پاتا ہے اور غنا (موسیقی) بھی صوت ہی سے ترتیب پاتی ہے۔

    لفظ آوازوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ آوازوں کے اس مجموعے کو ایک خاص معنویت دے دی جاتی ہے۔ ماہرِ لسانیات کے نزدیک زبان گلے سے نکلی ہوئی ایسی آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں اس کی معنویت اس زبان کے بولنے والوں نے شعوری طور پر متعین کی ہوتی ہے۔ اس کی معنویت میں اشاروں، چہرے اور ہاتھوں کی حرکات و سکنات سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔

    کچھ لوگ زبان کے اس عمل کو شعوری کی بجائے نفسیاتی عمل قرار دیتے ہیں، کچھ اس عمل کو حیاتیات سے جوڑ دیتے ہیں اور کچھ کے نزدیک زبان مخصوص علامات کا ایک نظام ہوتا ہے۔ پیش نظر مضمون میں موسیقی کے حوالے سے ہمارا تعلق صرف لفظ کے معنوی اور صوتی تصور سے ہو گا۔

    لفظ اور معانی کا آپس جو رشتہ استوار ہوا ہے یہ عمل کس بنیاد پر ہوا ہے، یعنی اس کے پس منظر میں وہ کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں جو لفظ کی معنویت کا تعین کرتے ہیں۔ یہ وہ پیچیدہ مسئلہ ہے جو صدیوں سے لسانیات کا موضوع رہا ہے۔ موسیقی کا، لفظ اور معانی کے اس پیچیدہ مسئلے سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ کے غنائی یا صوتی تصور کے حوالے سے دیکھا جائے تو موسیقی میں میں حروف علّت (vowel) حروفِ صحیح (consonant) کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی کا اصل تعلق حروفِ علّت سے ہے تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ یہی وہ حروف ہیں جن کو کھینچ تان کر کے یا گھٹا بڑھا کر ان سے صوتیت یا غنا پیدا کی جاتی ہے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے یہ جملہ دیکھیے:

    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا
    میں آج گھر، جاؤں گا
    میں آج، گھر جاؤں گا
    میں آج گھر جاؤں گا؟
    میں آج گھر جاؤں گا!

    آپ اس جملے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اسے روزمرّہ کے مطابق مختلف طریقوں سے ادا کیا جائے تو مختلف معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جملے سے مختلف معانی برآمد کرنے کے لیے صرف الفاظ پر تاکید کو بدلنا ہوگا۔ جملے میں مختلف مقامات پر ٹھہرنے اور کچھ الفاظ کو کھینچ کر ادا کرنے سے مفاہیم میں تبدیلی واقع ہوتی جائے گی۔ یہ معنی آفرینی عمل موسیقی میں اساسی حیثیت رکھتا ہے۔

    موسیقی میں حروف علّت پر معنی آفرینی کے اس عمل سے ایک ہی لفظ سے مختلف احساسات اور اس کی معنویت کو برآمد کرنا ممکن ہے۔

    اس طرح ایک ہی لفظ سے حیرت، استعجاب، خوف، امید، مسرت، طنز، نفی، اثبات اور استفہام کی معنویت برآمد کی جاسکتی ہے۔ اور ایک ہی لفظ سے کثیرالمعانی کے اس امر کی مثالوں کو صرف اور صرف موسیقی سے ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ایک لفظ کو مختلف غنائی لہجوں میں ادا کیا جائے تو اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔

    زبان کے عام بول چال کے لہجہ کے برعکس زبان کے غنائی لہجہ سے الفاظ کی معنویت بدلتی ہے۔ عام بول چال کے لہجے میں لفظوں کی معنویت متعین ہوتی ہے جب کہ موسیقی میں ماہر مغنّی اپنے غنائی لہجے کے اتار چڑھاؤ سے ان کے معنی اور احساسات میں رد و بدل کرتا ہے۔ معنی آفرینی کا یہ عمل موسیقی میں خاص کر ان جذبات و کیفیات کےابلاغ کا سبب بنتا ہے جہاں ابلاغ کے دیگر ذرائع پوری طرح ساتھ نہیں دے پا تے۔ بقول رشید ملک:“جہاں ابلاغ کے مختلف ذرائع کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے موسیقی کی اقلیم شروع ہوتی ہے۔ موسیقی بھی ایک زبان ہے۔ جس کے اپنے حروفِ تہجی، اپنے الفاظ، اپنی لسانی ترکیبیں، اپنا روزمرّہ، صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت کے لیے اپنے معیار ہیں۔ یہ زبان ان کیفیات اور جذبات کا ابلاغ کرتی ہے جن کی ترسیل کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    یہی وجہ ہے کہ کسی فلم میں ڈرامائی عناصر کو تقویت دینے میں موسیقی ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ فلمی گانوں کو فلمی سین، کسی ایکٹر کی شخصیت یا اس کے جذبات و احساسات کو اجاگر کرنے یا ابھارنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ فلم یا ڈراما میں کسی کردار کی باطنی کیفیت کا ابلاغ کسی گانے ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔

    فلمی موسیقی میں شعری ضابطے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور گانے کے الفاظ کا معانی کے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ استوار کرنے کے لیے چاہے فنِ موسیقی کے دیگر اصول و ضوابط کو نظرانداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہی صورتحال عوامی موسیقی میں ہوتی ہے۔ عوامی موسیقی میں بھی شاعری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لفظوں کی ادائیگی میں گانے والا معانی اور تفہیم کے عمل کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، گائیکی کے اس عمل میں سُر کی اور دیگر فنِ موسیقی کی شعریات ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی میں اکثر گانوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ فلمی موسیقی اپنی ذات میں ایک فن نہیں ہے بلکہ ایک ہنر یا تکنیک ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ڈرامائی عناصر کو تقویت دینا ہوتا ہے۔ فلمی موسیقی ہو یا فلمی شاعری دونوں فلم کی کہانی کے تابع ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے فلمی موسیقی ہر دور میں ایک خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔

    اس کی اپنی ایک خاص وضع قطع ہوتی ہے۔ فلمی گانے کافی چنچل اور شوخ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اثر انگیز ہوتے ہیں جن میں معنوی گہرائی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔ فلمی موسیقی اور فلمی شاعری خاص طرح کا رومانی تأثر لیے ہوئے ہوتے ہیں جس سے ڈرامائی کیفیت کا تأثر بھرپور انداز سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

    کلاسیکی موسیقی یا موسیقی کی آرٹ فارم جو کافی ریاضت طلب فن ہے، فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی سے کافی مختلف ہے۔ فلمی موسیقی اور عوامی موسیقی کے بر عکس اس میں لفظوں کو سُر کے تابع کر کے ادا کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی کی اس آرٹ فارم میں ہمیشہ سُر کو اوّلیت حاصل رہی ہے۔ راگ کا الاپ، گانے کو مکمل طور پر راگ کے رچاؤ کے ساتھ مخصوص کلاسیکل لے تال میں پیش کرنا کلاسیکی موسیقی کی خاصیت ہے۔

    کلاسیکی گائیکی میں فنِ موسیقی کی تمام حدود و قیود اور ضابطوں کا پابندی کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے۔ جب کہ فلمی موسیقی یا عوامی موسیقی میں یہ پابندیاں ضروری نہیں ہوتیں۔ کلاسیکی موسیقی میں جو گانے والا ہوتا ہے وہ ایک منجھا ہوا مغنّی ہوتا ہے جو فن کی باریکیوں پر مکمل دسترس رکھتا ہے اور گانے کے دوران اس کی پیش کش باقی تمام چیزوں پر حاوی رہتی ہے۔ مثلاً وہ سازوں میں خود کو پابند کر کے نہیں گائے گا اور نہ ہی اس کی گائیکی کا انداز پہلے سے متعین کردہ ہوگا۔ اس کا تان، پلٹا، مرکی، زمزمہ اور دوسرے النکار وغیرہ ہر چکر میں پہلے والے تان، پلٹے اور زمزمہ سے مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔

    موسیقی کی جمالیات بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ غنائی ترکیبوں کی تکرار پیدا نہ کی جائے کیوں کہ اعادے اور تکرار سے فن پارہ معیار سے گر جاتا ہے۔ گانے کے آغاز سے لے کر اختتام تک وہ ہر چیز سے آزاد رہے گا۔ لیکن اس کی گائیکی موسیقی کے اصول و ضوابط سے باہر نہیں جائے گی۔ پوری گائیکی کے دوران مغنی کا سارا زور راگ کو متشکل کرنے پر صرف ہو گا۔ کیوں کہ کلاسیکی موسیقی اور دیگر موسیقی کے اوضاع میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کلاسیکی موسیقی میں راگ اپنی تمام رعنائیوں اور جمالیات کےساتھ سامنے آتا ہے کلاسیکی گائیک اور فلمی موسیقی کے گائیک میں وہی فرق ہوتا ہے جو فلمی شاعر اور غیر فلمی شاعر میں ہوتا ہے۔

    فلمی شاعر اپنی شاعری اور موضوع کی تخلیق کے حوالے سے فلمی کہانی اور اس کے ڈرامائی عناصر کا پابند ہو گا جب کہ غیر فلمی شاعر ایسی تمام روشوں سے آزاد ہو گا جن کا تعین پہلے سے کیا گیا ہو گا۔ فلمی شاعر کے برعکس غیر فلمی شاعر تخیل، موضوع اور جذبات و احساسات میں پہلے سے متعین کی گئی کسی چیز کا پابند نہیں ہوگا۔ اس کی شاعری اس کے اپنے جذبات، تجربات اور مشاہدات کی غماز ہوگی، لیکن شاعری کے اصول و ضوابط کا وہ پوری طرح خیال رکھے گا۔

    جہاں تک کلاسیکی موسیقی میں لفظ اور اس کے معانی کا تعلق ہے تو کلاسیکی موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ اور معنی کا آپس میں رشتہ معطل ہو جاتا ہے، لفظ کو اس طرح سُر میں توڑ موڑ کر ادا کیا جاتا ہے کہ اس کی غنائی اہمیت تو بڑھ جاتی ہے لیکن معنوی سطح پر وہ گر جاتا ہے۔ اس ضمن میں رشید ملک رقم طراز ہیں: “جب موسیقی آرٹ فارم بنتی ہے تو الفاظ اور معانی کا رشتہ معطل ہو جاتا ہے۔ لفظ اپنی ادبی حیثیت کھو دیتا ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے دست کش ہو کر نئی نئی صورتیں اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔”
    (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ)

    دھرو پد، خیال، ترانہ، پربندھ، دھمار، تروٹ اور پَدجو موسیقی کی آرٹ فارم کی اہم اقسام ہیں، ان میں پوری توجہ سُر پر ہی رہتی ہے اور لفظ ٹکڑوں میں تقسیم اس طرح ہو جاتا ہے کہ اس کی پہچان کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل و صورت یعنی مارفولوجی بالکل بدل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موسیقی کی آرٹ فارم میں شعری ضابطے ثانوی سطح پر چلے جاتے ہیں اور موسیقی کی شعریات کی پابندی اور سُر کی ادائیگی ہر چیز سے مقدم ہو جاتی ہے۔ موسیقی کی اس فارم میں سُروں کے ذریعے جذبے یا احساس کی ترسیل کی جارہی ہوتی ہے جو کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ لفظ کی معنویت کو غنائی ترکیب سے برآمد کیا جا رہا ہوتا ہے۔

    نیم کلاسیکی موسیقی دیگر موسیقی کی فارمز کی نسبت موسیقی کی آرٹ فارم کے قدرے زیادہ قریب ہے۔ نیم کلاسیکی موسیقی میں ٹھمری، غزل اور کافی وغیرہ آجاتے ہیں لیکن ان میں بھی لفظ کا معنی کے ساتھ مکمل طور پر رشتہ قائم رہتا ہے اور گائیکی کے دوران شعری ضابطے زیادہ اہمیت اختیار کیے رکھتے ہیں۔ جب کہ موسیقی کی آرٹ فارم میں لفظ کے معانی غنا میں معدوم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو لفظ کی ادائیگی کو اس طرح غنائی ترکیب میں باندھا جاتا ہے اس کی شکل بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ دراصل موسیقی کی آرٹ فارم جو خالص کلاسیکی موسیقی پر مشتمل ہے اس میں مغنی فن موسیقی کے تمام اصولوں و ضوابط کو دیگر تمام چیزوں پر چاہے وہ شاعری ہے، لفظ یا اس کی معنوی وضاحت ہے، سب پر مقدم سمجھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیقی کی آرٹ فارم اپنی ذات میں مکمل ایک زبان ہے جس میں جذبات و احساسات اور مافی الضمیر کا ابلاغ سُروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور ایسے خفیف جذبات و احساسات جن کا ابلاغ لفظ اور اس کی معنوی کشمکش میں پھنس کر رہ جاتا ہے، ایسے جذبات و احساسات کا ابلاغ موسیقی کی آرٹ فارم کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ بشرطے کہ اس فارم میں “ابلاغ کے فن” پر مغنّی پوری طرح دسترس رکھتا ہو۔ اس کے فن میں کسی طرح کا جھول نہ ہو اور وہ لفظوں کے صوتی تاثر سے ہی معنی پیدا کرنا جانتا ہو۔ لفظ کی صوتی تاثیر کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں: “معانی سے الگ ہو کر بھی ہر لفظ کا اپنا ایک خاص تاثر ہوتا ہے جس کا تعلق ان حروف کی آوازوں اور ان کی ترتیب سے ہوتا ہے جن سے کوئی لفظ بنتا ہے۔ کوئی لفظ ناچتا، گنگناتا ہے، کوئی روتا بسورتا ہے۔ کوئی لبھاتا ہے، کوئی سننے والے کے ذہن پر خوف کا تأثر چھوڑتا ہے اور کوئی سرخوشی و سرمستی کا تأثر دیتا ہے۔ لفظ کے اس تأثر کو جس کا تعلق لفظ کی آوازوں سے ہوتا ہے صوتی تأثر کہتے ہیں۔”
    (کشاف تنقیدی اصطلاحات)

    لفظ کی موسیقیت دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے، اصوات کی موسیقیت اور معانی کی موسیقیت۔ اوّل الذّکر کا تعلق اس صوتی تأثر سے ہے جو ان حروف کی آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے جس سے وہ لفظ تشکیل پاتا ہے۔ صوتی تأثر سے تشکیل پانے والی موسیقی لفظ کی خارجی موسیقی کہلائے گی۔ مؤخر الذّکرکا تعلق لفظ کی معنوی تاثیر سے ہوتا ہے۔ لفظ کے معنوی احساس سے ایک لطیف موسیقیت وجود میں آتی ہے۔ معنوی تاثر سے پیدا ہونے والی موسیقی لفظ کی داخلی موسیقی کہلائے گی۔

    کلاسیکی موسیقی میں تیسرا اہم شعبہ تال کا ہوتا ہے۔ موسیقی کی آرٹ فارم میں تال کا چکر اپنے متعین کردہ ماتروں کے ساتھ ایک دائرہ میں حرکت کرتا ہے۔ تال دو حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    موسیقی کی کوئی فارم بھی تال کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی۔ بندش کے لفظ چاہے وہ حروف صحیح پر مشتمل ہوں یا حروف علّت پر سب تال میں بندھے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی موزوں شعر کے الفاظ اس کی بحر کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔

    (از قلم: یاسر اقبال، کتابیات: راگ درپن کا تنقیدی جائزہ، ایلیٹ کے مضامین، شعر، غیر شعر اور نثر، کشاف تنقیدی اصطلاحات، تنقید کی شعریات، مبادیاتِ موسیقی)

  • ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    سنہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ادیبوں اور شعرا میں ساحر لدھیانوی بھی شامل تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مقبول شاعر تھے، ان کی مقبولیت ایسی تھی جو اُن کے بعض ہم عصروں کے لیے باعثِ رشک تھی تو اکثر اہلِ قلم میں اُن کے لیے رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔

    ’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا جس کے چند شمارے ساحر لدھیانوی کے زیرِ ادارت شایع ہوئے۔ اس دور میں‌ ایسے انقلابیوں اور کمیونسٹوں پر حکومت کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ ساحر اپنی شاعری اور اس رسالہ میں اپنے مضامین کے ذریعے انقلابی فکر کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ یہاں لاہور کے قیام کے دوران ساحر لدھیانوی نے سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی تھی۔ سویرا کا چوتھا شمارہ ان کے زیرِ‌ ادارت آخری شمارہ تھا۔ اسی سویرا کے تیسرے پرچے میں ساحر نے مدیر کی حیثیت سے فیض احمد فیض کے بارے میں چند خوب صورت سطریں‌ سپردِ قلم کی تھیں۔ انھوں نے فیض کو اس وقت ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر لکھا۔ ساحر کی تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "فیض احمد فیض: ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر ہے۔ بہت کم لکھتا ہے، لیکن جب لکھتا ہے تو پڑھنے والوں کے ساتھ لکھنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اردو کے نوجوان شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو گا جس نے اس کے انداز بیان اور اسلوبِ فکر سے اثر نہ لیا ہو۔

    فیض وہ پہلا فن کار ہے جس نے جدید شاعری اور انفرادی دکھوں کو سماجی پس منظر میں جانچنا سکھایا اور رومان اور سیاست کا سنگم تلاش کیا۔ دو ایک برس سے تکلیف دہ حد تک خاموش رہنے لگا ہے، جیسے اب کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہو لیکن فرصت نہ ملتی ہو۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی حادثہ کسی نہ کسی گوشے سے ابھر کر اس کے جذبات کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور وہ کچھ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اپنی مخصوص مدھم اور ملائم لے میں ‘سحر’ ایک ایسے ہی حادثے کی پیدوار ہے۔

    بچپن سیالکوٹ میں گزرا۔ ایم اے کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر اور ہیلی کالج لاہور میں بطور پروفیسر کام کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں لیفٹننٹ، میجر اور کرنل کے عہدے بھی سنبھالے، آج کل پاکستان ٹائمز لاہور کا ایڈیٹر ہے، اور آنکھوں کی گہری افسردگی اور لبوں کی موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی کا ساتھ نبھا رہا ہے۔”