Tag: اردو شاعری

  • جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔

    حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسّے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔

    داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔

    دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انہوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے ورودِ حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟

    یہ بھی پڑھیے:

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔
    (داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 56)

    حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہو گی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا: "حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔”
    (خطوطِ داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)

    حجاب حیدر آباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلٰوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد و وظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھا تھا، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے: "کوئی 40، 45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا، پتلے پتلے لب، میانہ قد، اونچی پیشانی، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی۔ پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔”
    (بحوالہ: نگار، جنوری 1953ء)

    حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ "جب تک نکاح نہیں کر لوں گی، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لیے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔”

    داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرمارہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔” (مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)

    لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جا نماز اور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ”جب تک تمہارے اورادو وظائف نہیں چھوٹیں گے، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہوسکتیں۔”

    حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں۔ ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہو کر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔

    تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ” میں لکھتے ہیں:
    "یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبۂ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کارفرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزّت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔”

    لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔

    حجاب اگست 1904ء میں داغ سے خفا ہو کر کلکتے واپس چلی گئی تھی۔ اس کے جانے کے لگ بھگ سات مہینے بعد 16 فروری 1905ء کو داغ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

    (بلبلِ ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ نے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعۂ معلّیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی، وہ حسن پرست اور رنگین مزاج تھے، یہ اقتباسات اس استاد شاعر سے متعلق مخمور سعیدی کی کتاب کے ایک مضمون سے لیے گئے ہیں)

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    یہ شعر کتنے ہی مواقع پر کتنی ہی بار پڑھا گیا۔ تحریر سے تقریر تک مشاہیر نے اسے برتا، ہر خاص و عام نے پڑھا اور اپنی ہستی اور دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو کو سمیٹنا چاہا تو اسی شعر کا سہارا لیا، لیکن اس زباں زدِ عام اور یادگار شعر کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ حیرت الٰہ آبادی کا شعر ہے جو 1892ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ تاہم ان کا درست سنِ وفات کسی کو معلوم نہیں اور جس طرح ان کے حالاتِ زندگی اور فن پر مفصل تحریر نہیں ملتی، اسی طرح اس معاملے میں بھی قیاس سے کام لیا گیا ہے۔

    حیرت الہ آبادی کی وفات کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، لیکن یہ شعر ان کے نام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ستم ظریفی کہیے کہ اس شعر کی شہرت اور مقبولیت کا یہ تمام عرصہ ہی شاعر کے احوال و ادبی آثار پر تحقیق اور کسی تفصیلی اور جامع مضمون سے محروم رہا ہے۔

    انیسویں صدی عیسوی کے مشہور ادبی مؤرخین، معروف تذکرہ نگاروں اور محققین نے بھی ان کے حالاتِ‌ زندگی اور فنِ شاعری پر کچھ نہ لکھا اور ناقدوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ جہاں بھی ان کا ذکر کیا گیا، وہ اسی شعر کے ذیل میں آیا ہے اور یہ فقط ان کے نام اور وطن، جائے پیدائش اور وفات تک محدود ہے۔

    دیوانِ حیرت اور کلیاتِ‌ حیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ان کا محمد جان خاں تھا اور حیرت تخلص۔ ان کا وطن الہ آباد تھا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مرزا اعظم علی اعظم سے تلمذ رہا جو اپنے وقت کے مشہور اور استاد شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ حیرت کے دادا جہانگیر خاں فوج میں رسال دار رہے تھے جب کہ ان کے والد کا نام بازید خاں تھا جن کی عرفیت باز خاں تھی۔ حیرت جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اس میں‌ کوئی شاعر نہیں تھا۔ حیرت الہ آبادی ایک صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    حیرت کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جس میں ان کا مشہور شعر شامل ہے۔

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں
    کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں

    اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز
    اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں

    کیا کہیے اس طرح کے تلون مزاج کو
    وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں

    رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک
    حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

  • انوری و خاقانی اور میر

    انوری و خاقانی اور میر

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔

    حالانکہ آج عام مقبولیت کے اعتبار سے غالب اور اقبال، میر سے کہیں آگے ہیں اور ان کی کتابیں کلیات میر کے مقابلہ میں بہت زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کے اشعار زیادہ زبان زد ہیں۔ ان کے اثرات جدید شاعری پر زیادہ نمایاں ہیں۔ پھر بھی غالب اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کے منکر موجود ہیں۔ مگر میر کی استادی سے انکار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر عہد میں بڑے سے بڑے شاعر نے اپنا سر میر کی بارگاہ میں جھکا دیا ہے۔

    ’’لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں۔

    دروازے پر آکر آواز دی۔ لونڈی یا ماما نکلی۔ حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لاکر ڈیوڑھی میں بچھایا۔ انہیں بٹھایا۔ اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔

    میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائشِ اشعار کی۔ میر صاحب نے اوّل کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بہ نظرِ آداب و اخلاق انہوں نے نارسائیِ طبع کا اقرار کیا اور پھر درخواست کی۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا کہ حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں۔ آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے۔

    میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔ مگر ان کی شرحیں، مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لیے فقط محاورۂ اہلِ اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم۔ یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا:

    عشق برے ہی خیال پڑا ہے، چین گیا آرام گیا
    دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا شام گیا

    اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ’ی‘ کو ظاہر کرو اور پھر یہ کہیں گے کہ ’ی‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ مگریہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔‘‘

    (میر: صبا در بدر از علی سردار جعفری سے اقتباس)

  • ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی نے اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور اسلوب دیا جس نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کے اشعار کو نوجوانوں‌ نے اپنی بیاض‌ میں‌ شامل کیا، انھیں شوق سے پڑھا اور خوب سنا۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کے اشعار سادہ اور دل میں‌ اتر جاتے تھے۔ آج ندا فاضلی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس شاعر اور نغمہ نگار کو ایک ادیب اور صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی راہ بنائی۔ وہ 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا۔ والد بھی شاعری کرتے تھے، اس لیے گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا اور اسی ماحول میں‌ ندا فاضلی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔ جامعہ تک پہنچے تو اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں‌ قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ ان کی تخلیقات کتابی صورت میں‌ سامنے آئیں تو ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔

    فلم نگری سے ندا فاضلی نے کمال امروہی کی بدولت ناتا جوڑا۔ انھوں نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لیے ان سے دو گیت لکھوائے تھے۔ اس کے بعد وہ مکالمہ نویسی طرف متوجہ ہوئے اور معاش کی طرف سے بے فکری ہوئی۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے لفظوں کا پل کے بعد مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کے علاوہ مشہور شعرائے کرام کے خاکے بھی تحریر کیے۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ انھیں‌ ساہتیہ ایوارڈ کے علاوہ سرکاری اور فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    ندا فاضلی نے 8 فروری 2016ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
    کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

    ان کی غزلیں‌ جگجیت سنگھ کے علاوہ ہندوستان کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائی ہیں۔ ان کا یہ کلام بھی بہت مشہور ہے۔

    ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
    عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

    دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
    مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

  • "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    ایمان قیصرانی کی شاعری انسانی جذبوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کے کلام میں نسائی شعور اور عورت کے جذبات کا توانا اظہار دیکھا جاسکتا ہے۔

    درد مندی، سوز و گداز اور احساس بھی ایمان کے اشعار کا نمایاں وصف ہے، جسے وہ سادہ مگر نہایت دل نشیں‌ انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے مشہور قبیلے تمن قیصرانی بلوچ سے ہے، ایمان قیصرانی کے والد بشیر احمد عاجز قیصرانی نعت گو شاعر تھے۔ یوں شروع ہی سے انھیں بھی علم و ادب سے لگاؤ رہا اور وہ شاعری کی جانب راغب ہوئیں۔ ایمان نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ انھوں‌ نے جامعہ کی سطح پر اردو کی تدریس کے ساتھ ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھیں۔ ان کے دو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ یہاں‌ ہم ایمان قیصرانی کی ایک خوب صورت غزل آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجرجائے گا
    رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا

    اور کیا ہوگا بھلا روٹھ کے جانے والے
    بس یہ کاجل مرے تکیے پہ بکھر جائے گا

    رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
    تو اگر عہدِ وفا کر کے مُکر جائے گا

    کل اسے دیکھ لیا شہر میں ہنستا بستا
    وہ تو کہتا تھا کہ بچھڑے گا تو مر جائے گا

    جس نے تاوان میں آنکھوں کے خسارے جھیلے
    وہ کوئی خواب بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

    آنکھ سلگی ہے تو پھوٹے ہیں ہزاروں جھرنے
    دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟

    صبح کا بھولا ہے ایمان یقیناً اک دن
    وہ کبھی شام ڈھلے لوٹ کے گھر جائے گا

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    فکرِ‌ معاش اور زندگی کے اتار چڑھاؤ ایک طرف، لیکن جس حادثے نے سُرور کو توڑ کر رکھ دیا، وہ ان کی شریکِ حیات اوراکلوتے بیٹے کی موت تھا۔ اس درد ناک واقعے کے بعد انھوں‌ نے شراب نوشی شروع کر دی اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    سُرور جہاں آبادی کا نام درگا سہائے تھا۔ وہ 1873ء میں برطانوی ہند کے علاقے جہاں آباد، ضلع پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی زبان سیکھی۔ اسی زبان کی بدولت شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگریزی زبان بھی سیکھ لی اور دو سال بعد انگریزی، مڈل امتحان بھی پاس کر لیا۔

    سُرور نے ابتدائی فارسی اور سنسکرت کی تعلیم اپنے والد سے لی تھی، لیکن مڈل اسکول کے صدر مدرس مولوی سید کرامت حسین بہار بریلوی جو عربی، فارسی اور اردو کے جیّد عالم تھے، ان کی خصوصی توجہ کی بدولت سرور نے ان زبانوں پر مکمل عبور حاصل کرلیا۔ انگریزی سیکھی تو اس زبان میں‌ بھی ادب کا مطالعہ شروع کردیا اور انگریزی نثر و نظم کی اعلیٰ کتابیں ان کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ ان کی علم و ادب میں‌ دل چسپی عمر کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور انگریزی میں اس قدر استعداد حاصل کرلی کہ متعد نظموں کو اردو زبان میں ڈھالا اور ان کے اسلوب و کلام پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ انھوں نے طب کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی تھی۔

    یہ غالباً انگریزی شاعری کے مطالعے کا اثر تھا کہ سُرور نظم نگاری کی طرف مائل رہے۔انھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی نظمیں منفرد فضا کی حامل تھیں۔

    انھوں نے نئی نظم کو موضوعاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سُرور کی قافیہ بند نظموں میں‌ اردو، ہندی اور فارسی الفاظ کا نہایت خوب صورت استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اردو شاعری میں‌ نظیر کے بعد سرور جہان آبادی کے یہاں حبُ الوطنی کا جذبہ نسبتاً زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ہندوستانی روایت اور رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

    سرور کے عہد کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار تھا اور آزادی کا جوش و ولولہ تحریکوں کی صورت میں‌ بڑھ رہا تھا جس میں‌ حبُ الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کے لیے سُرور نے اپنی نظموں‌ سے خوب کام لیا۔ ان کا کلام ’ادیب‘ اور ’مخزن‘ جیسے رسالوں میں تسلسل کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔ 3 دسمبر 1910ء میں سُرور ہمیشہ کے لیے غمِ روزگار سے نجات پاگئے۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    بہ خدا عشق کا آزار بُرا ہوتا ہے
    روگ چاہت کا برا پیار برا ہوتا ہے

    جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے
    ہائے معشوق طرح دار برا ہوتا ہے

    یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چبھ کر دل سے
    خلشِ عشق کا آزار برا ہوتا ہے

    ٹوٹ پڑتا ہے فلک سَر پہ شبِ فرقت میں
    شکوۂ چرخِ ستم گار بُرا ہوتا ہے

    آ ہی جاتی ہے حسینوں پہ طبیعت ناصح
    سچ تو یہ ہے کہ دلِ زار بُرا ہوتا ہے

  • اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    60 کے عشرے میں فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا وہ سفر شروع کیا جو بعد میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت مقبول ہوئی۔ فریدہ خانم نے کلاسیکی موسیقی، بالخصوص غزل گائیکی میں الگ پہچان بنائی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں‌ ایک غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اس غزل کے شاعر اطہر نفیس ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شاعر اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    فریدہ خانم کی آواز میں‌ ان کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے کئی بار نشر ہوئی اور سننے والوں نے اسے سراہا۔ محافلِ موسیقی اور مختلف پروگراموں میں فریدہ خانم سے یہی کلام سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور یافت و روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔

    اطہر نفیس نے شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث پہچان بنائی اور خاص طور پر غزل میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔

    اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

  • استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
    اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

    یہ استاد ذوق کا ایک مشہور شعر ہے۔ بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد اور مؤرخ و تذکرہ نویس محمد حسین آزاد نے اپنی مشہور تصنیف آبِ حیات میں اُن کا وہ شعر درج کیا ہے جو ذوق نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں‌ آج ذوق جہاں سے گزر گیا
    کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

    آج شیخ محمد ابراہیم ذوق کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1854ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کیا اور دلّی ہی میں‌ پیوندِ خاک ہوئے۔ ابراہیم ذوق کی ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول کے مکتب میں ہوئی جو شاعر تھے، ان کا تخلّص شوق تھا۔ انہی کی صحبت نے ذوق کے شوقِ شاعری کو نکھارا اور وہ خوب شعر موزوں کرنے لگے۔

    ابراہیم ذوق 1789ء میں دلّی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شاہ نصیر کا چرچا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہوگئے، لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ نہ رہا اور ذوق خود مشقِ سخن میں مصروف رہے۔ کم عمری میں ذوق نے شاعری شروع کی تھی اور نوجوانی ہی میں ایسا نام و مقام پایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    ذوق کو علوم و فنون سے گہرا شغف تھا۔ شاعری اور موسیقی کے علاوہ علمِ نجوم بھی جانتے تھے۔ دربار سے نوجوانی ہی میں‌ کئی خطاب اور اعزازات پائے۔ ان میں ملکُ الشعرا کا اعزاز بھی شامل ہے۔ ذوق کے شاگردوں میں داغ دہلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

    ذوق کو عوام و خواص نے بڑی عزّت اور پذیرائی دی اور انھیں‌ عظمت و شہرت نصیب ہوئی جسے بعض حاسدین اور نکتہ چینوں نے دربار سے ان کی وابستگی کے سبب قرا دیا۔

    ذوق نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ دیوانِ ذوق میں غزل، قصیدہ، رباعی اور ایک نامکمل مثنوی بھی شامل ہے۔ تاہم وہ قصیدے کے امام ثانی اور خاقانیِ ہند کہلائے۔

    ذوق قادرُ الکلام شاعر تھے جن کے بارے میں سرسیّد نے ’تذکرہ اہلِ دہلی‘ میں لکھا ہے:

    ’’مشقِ سخن وری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحبِ سخن کی غالب ہے کہ پیرایۂ وزن سے معرا نہ ہوگی۔ پُر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی۔ مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔‘‘

    ذوق کی زبان و بیان پر قلعہ معلّٰی کے اثرات اور زبانِ دہلوی کے محاوروں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اشعار سن کر لوگ بے ساختہ مچل جاتے تھے۔ جب قلعے میں مشاعرہ ہوتا تو ذوق مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ چناں چہ ذوق کو اپنی زندگی میں جتنی شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔

    ذوق کو عربی اور فارسی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدّت و ندرت تھی۔ ان کی تمام عمر شعر گوئی میں بسر ہوئی۔