Tag: اردو شاعری

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • زہرِ عشق اور شوقؔ!

    زہرِ عشق اور شوقؔ!

    زہرِ عشق، نواب مرزا شوقؔ لکھنوی کی مشہور مثنوی ہے جو اختصار، وفورِ شوق و شدّتِ جذبات، زبان و بیان کی سادگی، محاورات کی برجستگی، مکالمہ نگاری کے ساتھ معاشرت و تہذیب کی بھرپور عکاس ہے۔

    یہ دراصل ایک مختصر عشقیہ داستان ہے جسے شوق نے اشعار میں باندھا ہے۔ اس میں نہ بہت سے مناظر ہیں اور نہ ہی کرداروں کی بھرمار، نہ مافوق الفطرت عناصر ہیں اور نہ ہی بادشاہ و ساحر، اس کے باوجود مرزا شوقؔ نے اس انداز سے قصّہ بیان کیا ہے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    انھوں نے لکھنؤ کی بیگماتی زبان، ضربُ الامثال اور محاورات کو فن کارانہ انداز سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی معاشرتی جھلکیوں کو جس لطیف پیرایہ میں سمویا ہے، قابلِ دید ہے۔ اس طویل مثنوی سے چند بند نمونہ کے طور پر نقل کیے جارہے ہیں۔

    ایک قصہ غریب لکھتا ہوں
    داستانِ عجیب لکھتا ہوں
    تازہ اس طرح کی حکایت ہے
    سننے والوں کو جس سے حیرت ہے
    جس محلے میں تھا ہمارا گھر
    وہیں رہتا تھا ایک سوداگر
    مردِ اشراف صاحب دولت
    تاجروں میں کمال ذی عزت
    غم نہ تھا کچھ فراغ بالی سے
    تھا بہت خاندان عالی سے
    ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیںؔ
    شادی اس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
    ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں
    غیرتِ حور تھی حقیقت میں
    سبز نخلِ گلِ جوانی تھا
    حسنِ یوسف فقط کہانی تھا

    تھا جو ماں باپ کو نظر کا ڈر
    آنکھ بھر کر نہ دیکھتے تھے ادھر
    تھی زمانے میں بے عدیل و نظیر
    خوش گلو، خوش جمال خوش تقریر
    تھا نہ اس شہر میں جواب اس کا
    حسن لاکھوں میں انتخاب اس کا

    روح گر ماں کی تھی تو باپ کی جاں
    نور آنکھوں کا دل کا چین تھی وہ
    راحت جانِ والدین تھی وہ

    نقّادوں نے اس کی ادبی حیثیت اور محاسن کا اعتراف کرتے ہوئے خیال کیا ہے کہ مثنوی میں‌ بیان کردہ واقعہ بھی سچّا ہے۔

    نواب مرزا شوقؔ کے مختصر حالاتِ زندگی کچھ یوں ہیں کہ اصل نام حکیم تصدق حسین تھا، نواب مرزا عرفیت اور شوقؔ تخلص، خاندانی پیشہ طبابت تھا۔

    وہ 1783ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ غزل گوئی سے شعری سفر شروع کیا اور واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ رہے ۔1871ء کو لکھنؤ ہی میں وفات پاگئے۔

  • حمزہ ہاشمی سوز کی شاعری جدّت و روایت کا خوب صورت امتزاج

    حمزہ ہاشمی سوز کی شاعری جدّت و روایت کا خوب صورت امتزاج

    ادب کسی بھی ملک یا خطّے کا ہو، قارئین کی توجہ اسی وقت حاصل کرتا ہے، جب وہ اپنے عہد سے ہم آہنگ ہو۔ اردو شاعری کی بات کی جائے تو یہ اپنے عہد کی تہذیب و ثقافت، سیاسی، سماجی زندگی کا آئینہ بھی ہوتی ہے اور انسانی جذبات اور کیفیات کی ترجمان بھی، لیکن غزل یا نظم اظہار کا سلیقہ اور قرینہ بھی چاہتی ہے۔

    موجودہ دور میں نوجوان شعرا کی کہکشاں میں حمزہ ہاشمی کی بات کی جائے تو ان کے اشعار میں جدّت و روایت کا وہ خوب صورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے جسے نظر انداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ حمزہ کی شاعری میں ایک نیا، تروتازہ اور دل کش لہجہ سامنے آتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ صلے و ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ہوکر مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    حمزہ ہاشمی کا تخلّص سوز ہے اور ان کی شاعری میں بھی یہی سوز و گداز، خیال کی نرمی، احساس کی کوملتا، درد مندی اور خاص رچاؤ اور اظہار و بیان کا سلیقہ نظر آتا ہے۔

    ان کا تعلق لاہور شہر سے ہے۔ ایم اے انگلش کے بعد حمزہ نے ایل ایل بی (آنرز) کیا جب کہ 14 سال کی عمر سے شعر کہنے لگے تھے۔ وہ ترقّی پسند شعرا بالخصوص فیض احمد فیض سے متاثر ہیں۔ انھیں شاعری کے علاوہ دیگر علوم اور موضوعات پر کتب کے مطالعے کا شوق ہے جس نے ان کے ذہن کو وسعت اور تخیل کو نکتہ رسی پر آمادہ کیا ہے۔ اس کی جھلک ان کے اشعار میں‌ بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن نظم کہنا پسند ہے۔

    قارئین، اس تعارف کے بعد اب حمزہ ہاشمی سوز کا کلام ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    شاخِ گل کھلتی چلی جائے گلستاں کی طرح
    مجھ میں مہکے تری خوشبو ترے پیماں کی طرح
    عمر بھر طعنہ زناں مجھ پہ رہے یار سبھی
    عمر بھر چال چلے ‘بزمِ حریفاں کی طرح
    دل کے خاموش بیاباں میں نہ آواز کرو
    جاگ اٹھے نہ قیامت کوئی طوفاں کی طرح
    چار و ناچار مری سمت پلٹ آتی ہے
    خواہشِ قرب بھی اس کی غمِ دوراں کی طرح
    نکہتیں بڑھتی رہیں تیرے شبستانوں کی
    تو بھی آباد رہے حلقہِ یاراں کی طرح
    معترض چند تھیں باتیں کہ طبیعت کا سکوت
    کس قدر روٹھ گیا ہے دلِ ناداں کی طرح
    ابھی شادابیاں لفظوں کی پس انداز رکھو
    آ پڑیں کام کسی دن سر و ساماں کی طرح

    ایک اور غزل کے چند اشعار دیکھیے۔
    مرے حالِ زار کی تلخیاں، جو چھپی ہیں ان سے چھپی رہیں
    مرے نیم شب کی دہائیاں، جو چھپی ہیں ان سے چھپی رہیں
    کوئی سانحہ نہ ہو رونما، کوئی حادثہ نہ ہو درمیاں
    مری قربتیں، مری دوریاں، جو چھپی ہیں ان سے چھپی رہیں
    سرِ کنجِ لب یہ بھی راز ہے کہ حقیقتیں نہ سبھی کھلیں
    جو کھلی ہیں کھل کے کریں بیاں، جو چھپی ہیں ان سے چھپی رہیں
    کبھی بارشیں، کبھی موج ہیں، کبھی آگ ہیں، کبھی موم ہیں
    مرے اشک اشک کی خوبیاں جو چھپی ہیں ان سے چھپی رہیں
    میں کہوں یہ کیسے کہ عمر بھر، رہیں خواہشیں بھی دھوئیں میں گم
    انھی خواہشوں کی یہ آندھیاں جو چھپی ہیں اُن سے چھپی رہیں

    یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
    یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
    وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
    جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
    اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
    ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
    قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
    ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
    کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
    کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
    کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
    کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا

    ایک نظم
    "ذرا سا بولو”
    ذرا سا بولو، زباں تو کھولو
    سخن کے در، دیکھو جل رہے ہیں
    خموش آہیں بلک رہی ہیں
    سسکتے شعلے ابل رہے ہیں

    شکستگی کا دھواں نہ دیکھو
    غبار آخر غبار ہوگا
    دھنک، رُخوں پر بکھر پڑے گی
    دلوں میں باہم قرار ہوگا
    فریب ہم کو خزاں نہ دے گی
    بہار ہونا، بہار ہوگا!!

    گھٹن کا بن تک اجاڑ دیں گی
    ہوائیں خوشبو کی باس لے کر
    کھلے گی منزل کی موشگافی
    دلوں میں دل کی شناس لے کر
    چمک اٹھیں گے بجُھے بیاباں
    افق کے جیسا لباس لے کر

    مگر زباں کے بھرم کی خاطر
    ہمیں کو آخر تو بولنا ہے!
    وہ بھید مسند نشینیوں کا
    جزا کا دفتر، سزا کا دفتر
    جو کھولنا ہے وہ کھولنا ہے
    جو تولنا ہے وہ تولنا ہے!

  • ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    پاکستان میں طنز و مزاح کے حوالے سے مجید لاہوری کا نام ان تخلیق کاروں میں شامل ہے جنھوں نے مزاحیہ شاعری اور فکاہیہ کالموں کے ذریعے جہاں معاشرے میں خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی، وہیں ملک کی سیاست میں مفاد پرستی، سیاست دانوں اور امرا کی عیاشیوں اور طبقاتی نظام کو بھی بے نقاب کیا۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ ان کی وہ پیروڈی ہے جو انھوں نے اپنے وقت کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ اس نظم میں مجید لاہوری نے معاشرتی عدم مساوات پر بھرپور طنز کیا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘
    مُونچھیں بڑھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    ڈاڑھی منڈا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    مُرغے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دَلیا پکا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    ٹکڑے چبا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور لنچ اُڑا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ
    وہ بھی ہے آدمی ملا جِس کو نہ گھر نہ گھاٹ
    وہ بھی ہے آدمی کہ جو بیٹھا ہے بن کے لاٹ
    وہ بھی ہے آدمی جو اُٹھائے ہے سَر پہ کھاٹ

    موٹر میں جا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    رِکشا چلا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    رِشوت کے نوٹ جس نے لیے، وہ بھی آدمی
    دو روز جس نے فاقے کیے، وہ بھی آدمی
    جو آدمی کا خون پیے، وہ بھی آدمی
    جو پی کے غم کا زہر جِیے، وہ بھی آدمی
    آنسو بہا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مسکرا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    یہ جھونپڑے میں قید، وہ بنگلے میں شاد ہے
    یہ نامرادِ زیست ہے، وہ بامراد ہے
    ہر ’’کالا چور‘‘ قابلِ صد اعتماد ہے
    یہ ’’زندہ باد‘‘ اِدھر، وہ اُدھر ’’مُردہ باد‘‘ ہے
    نعرے لگا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    چندے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    لٹّھے کے تھان جِس نے چھپائے، سو آدمی
    پھِرتا ہے چیتھڑے سے لگائے، سو آدمی
    بیٹھا ہوا ہے غلّہ دبائے، سو آدمی
    راشن نہ کارڈ پر بھی جو پائے، سو آدمی
    صَدمے اُٹھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دھومیں مچا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

  • "طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے!”

    "طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے!”

    کہتے ہیں شاعری سچ بولتی ہے، دلوں کے بھید کھولتی ہے۔

    خواجہ حیدر علی آتش نے بھی اپنے ایک شعر میں شاعری کو کسی مرصّع ساز کا کام قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ بندشِ الفاظ نگوں کے جڑنے سے کم نہیں ہے۔

    عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ وہ شاعر ہیں اور ان کا پیشہ درس و تدریس۔ شروع ہی سے کتاب دوست اور مطالعے کا شوق رہا۔ اردو ادب سے لگاؤ نے انھیں شاعری کی طرف راغب کیا اور غزل گوئی کا سفر شروع ہوا۔ شوق نے فکر اور فن کو پختگی عطا کی اور ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں شایع ہونے لگا۔ یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    فضول زادِ سفر کو بڑھا لیا میں نے
    طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے

    ہدف تو روح تھی اس تیر کا مری لیکن
    بدن پہ اپنی مہارت سے کھا لیا میں نے

    مری طلب کا مکمل نہ بن سکا چاہے
    کسی کو حسبِ ضرورت بنا لیا میں نے

    شکستہ جسم بھی چلنے لگا ہے اچھا بھلا
    بس ایک ضبط کا پرزہ نیا لیا میں نے

    قریب تھا مرا سارا بدن جلا دیتا
    پھر ایک آگ سے پانی بجھا لیا میں نے

    طویل بحث سے قائل نہ دل ہوا گاہے
    تو گاہے عقل کو پَل میں منا لیا میں نے

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کرّار نوری کا یومِ وفات ہے وہ 1990ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    کرّار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ جے پور، دہلی کرار نوری کا وطن تھا جہاں انھوں نے 30 جون 1916ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کرلی۔ بعد ازاں کراچی چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

    کرّار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری بھی کی اور ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے نعتیہ کلام ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

    کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی محاذ آرائی اور ایہام گوئی

    اٹھارہویں صدی اردو شاعری کا انتہائی زرخیز دور رہا ہے۔

    اس دور میں مختلف لسانی اور تہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہند میں اردو شاعری کا رواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردو شاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کا جنم اسی عہد میں ہوا جس نے اردو شاعری کو بے حد متاثر کیا۔ اور اردو زبان نے شاعری کی حد تک فارسی زبان کی جگہ لے لی اور ایک توانا زبان کی حیثیت سے معروف و مقبول ہوئی۔

    صدیوں سے ہندوستان کی علمی اور ادبی زبان فارسی تھی اور ہندوستان کے شعرا اور ادبا نے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہلِ زبان ایران یہاں کے شعرا کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کا تنازع اسی دور کی پیداوار ہے۔

    ایرانی اور ہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کو اور بھی ہوا دی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جو اہلِ ایران کو حاصل ہے۔ اس رویّے نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اور فکر و خیال کے جوہر دکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔

    چناں چہ سراج الدّین علی خاں آرزو نے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعر گوئی کی ترغیب دی اور ہر ماہ کی پندرہویں تاریخ کو ان کے گھر پر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرا نے فارسی میں شعر گوئی ترک کر دی اور ان کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی۔ یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گو شعرا بھی رواجِ زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

    اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کا یہ دیوان ریختہ میں تھا اور فارسی روایت کے عین مطابق حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کا عمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردو شاعری ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    شمالی ہند میں جب اردو شاعری کا پہلا دور شروع ہوا تو اس دور کے اردو شاعر فارسی کی تہذیبی اور شعری روایت کے زیرِ سایہ پرورش پارہے تھے، لہٰذا اردو شعرا نے فارسی شعرا کے مقبول رجحانات کو ہی اپنا مشعلِ راہ بنایا اور فارسی شاعری کی جس روایت کو پہلی بار اختیار کیا گیا وہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

    ’’دیوانِ ولی نے شمالی ہند کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا اور دکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کا حصّہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال و جنوب کے ادبی و تہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل و تدوین کی صدی ہے۔ اردو شاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوانِ ولی کے زیر اثر پروان چڑھی۔‘‘

    ایہام گوئی شمالی ہند میں اردو شاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمد شاہی عہد میں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعد اس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کی ترقّی کا آغاز اسی تحریک سے ہوتا ہے۔

    ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنٰی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یا وہم میں ڈالنا۔‘چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والا وہم میں پڑ جاتا ہے، اس لیے اس کا نام ایہام رکھا گیا۔

    ایہام کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعر کے بنیادی لفظ یا لفظوں سے قریب اور بعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعر کی مراد معنٰی بعید سے ہو۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایہام کے معنٰی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہو جس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنٰی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو قریب سے نہیں۔‘‘

    ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اور اس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقاد شمس الرّحمٰن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

    اردو شاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیر خسرو سے ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے ایہام کو بطور صنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھر فارسی اور اردو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں ایسے اشعار کہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

    ایہام گوئی کی اس روایت کو فروغ دینے میں ولیؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صنعت کا نمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتا ہے۔ اسی لیے ولیؔ کو ہی ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

    ایہام گوئی کی صنعت کو جس نے عروج عطاکیا وہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اور ان کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھا کہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے، البتہ ایہام گو شعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکر ناجیؔ، مصطفٰی خاں یک رنگ اور شاہ ظہور الدّین حاتم وغیرہ کا نام کافی اہمیت کاحامل ہے۔

    (ڈاکٹر محمد خلیق الزّماں کے علمی و ادبی مضمون سے اقتباسات)

  • ایک مشہور شعر جس کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں

    ایک مشہور شعر جس کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں

    بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

    یہ شعر آپ نے بھی ضرور سنا یا پڑھا ہو گا۔ مشاہیرِ عالم یا کسی معروف ہستی کے سانحۂ ارتحال کی خبر یا مضمون کا آغاز اکثر اس شعر سے کیا جاتا ہے جس کے بعد افسوس ناک واقعے سے متعلق ضروری تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

    اہلِ زبان خاص طور پر باذوق لوگ کسی خاص موقع پر جب اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں تو ان اشعار کا سہارا لیتے ہیں جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں یا زبان زدِ عام ہوں۔

    کیا آپ شعر کے خالق کا نام جانتے ہیں؟ یہ شعر خالد شریف کا ہے جو ایک ادیب، مدیر اور ناشر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے باذوق اور شعر و ادب کے رسیا قارئین کے لیے خالد شریف کا مختصر تعارف اور وہ غزل نقل کررہے ہیں جس کا یہ مشہور شعر ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    خالد شریف کا تعلق انبالہ (ہندوستان) سے ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے راولپنڈی آگیا جہاں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے خالد شریف اردو اور فارسی میں دل چسپی لینے لگے اور پھر شاعری کی طرف مائل ہوگئے اور آج شعروسخن کی دنیا میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔

    خالد شریف کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
    جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

    بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

    دل چسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست
    اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا

    کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
    ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

    خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
    وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا

  • سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    پاکستان کے معروف شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر یکم جون 2013ء کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو ادب اور فلمی دنیا کو خوب صورت شاعری سے مالا مال کیا۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر 1941ء میں بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں‌ زندگی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انھوں نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور زیادہ تر فلمی دنیا سے متعلق رہے۔ انھوں نے طویل عرصے تک کالم نگاری بھی کی۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر نے 2 ہزار سے زائد نغمات لکھے جو کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بنے۔ ان کے گیت اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔

    فلمی صنعت کے علاوہ ان کے تحریر کردہ مقبول ترین نغموں میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘ شامل ہیں جب کہ آشا بھوسلے اور عدنان سمیع کی آواز میں مشہور یہ گیت ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ بھی ریاضُ الرّحمان ساغر کا لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم کے لیے بھی نغمات تحریر کیے تھے جب کہ ایک مقبول فلمی گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ راحت فتح‌ علی کی آواز میں‌ آج بھی سنا جاتا ہے۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر پاکستان فلم سنسر بورڈ کے رکن بھی رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے مرتب کی جب کہ ان کے دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ فلم کے لیے شاعری پر انھیں‌ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ساغر کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر 72 برس تھی۔