Tag: اردو شاعری

  • یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر(شاعری)

    یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر(شاعری)

    نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی پنجاب کے شہر گجرات کے گاؤں ڈوڈے کے باسی ہیں۔درس و تدریس سے منسلک عزم الحسنین عزمی کتب بینی اور مطالعے کا شوق رکھتے ہیں۔ گھر میں مختلف موضوعات پر کتابیں اور اخبار و رسائل پڑھنے کا موقع ملتا رہا اور اسی ماحول کے پروردہ عزمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی۔ ان کے پسندیدہ شاعر محسن نقوی ہیں۔

    یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    غزل
    دل و دماغ کھڑے گِرد، درمیان میں، مَیں
    گھِرا ہوا ہوں ازل سے ہی مُفتیان میں، مَیں
    کسے ہے اصل کی پہچان میرے شہر میں، سو
    پڑا رہوں گا بڑی دیر تک دکان میں، مَیں
    یہ آسمان کی چھت یہ زمین کا بستر
    کہ بے امان بھی بیٹھا ہوا امان میں مَیں
    اب آ گیا ہوں ترے شہر میں تو ڈھونڈ ہی لوں
    یہیں کہیں پہ پڑا ہوں کسی مکان میں، مَیں
    بس ایک چیخ کی صورت ہی جی رہی تھی صدا
    جب اس کو گفتگو دینے گیا تھا دان میں میں
    سنانے والا کوئی تھا مرا عدو ورنہ
    کہیں کہیں پہ ابھی بھی تھا داستان میں مَیں

  • "شطرنج” اور اردو شاعری

    "شطرنج” اور اردو شاعری

    شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جس نے بادشاہوں، راجاؤں، امرائے سلطنت، نوابوں اور امیروں کی توجہ اور دل چسپی حاصل کی اور ان کے شوق و انہماک کا سبب بنا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صدیوں سے کھیلا جارہا ہے اور ہر خاص و عام میں مقبول رہا ہے۔

    اپنے وقت کے مشہور و معروف سیّاح، تذکرہ نویسوں اور مؤرخین‌ نے اپنی تصانیف میں‌ اس کھیل کا ذکر کیا ہے اور ایسے واقعات بیان کیے ہیں‌ جن کا تعلق شطرنج سے ہے۔ یہ کھیل ہندوستان میں زمانۂ قدیم سے رائج ہے۔ کئی نام ور بادشاہ اور مشہور شخصیات اس کھیل کی شائق و شیدا بتائی جاتی ہیں اور برصغیر کی بات کی جائے تو تیمورلنگ، جلال الدین محمد اکبر اور سلطان عبدالحمید وغیرہ شطرنج کے ماہر کھلاڑی مشہور تھے۔ تاریخ نویسوں‌ نے مسلمان خلفا اور ان کے وزرا کو بھی شطرنج کا ماہر لکھا ہے۔

    دنیائے ادب کی بات ہو تو اردو کے مشہور شاعر حکیم مومن خاں مومن اپنے دور کے ماہر کھلاڑی تھے جب کہ اردو زبان میں اس کھیل سے متعلق متعدد الفاظ، تراکیب اور محاورے بھی ہم سنتے رہتے ہیں۔

    یہاں‌ ہم چند اشعار پیش کررہے ہیں‌ جن میں‌ شطرنج کا ذکر اور اس کھیل کی مناسبت سے الفاظ یا محاورے استعمال ہوئے ہیں۔

    میں بساطِ شوق بچھاؤں کیا، غمِ دل کی شرط لگاؤں کیا
    جو پیادہ چلنے میں طاق تھے وہ تمام مہرے بکھر گئے

    ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
    یوں تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر

    زندگی اس تری شطرنج کی بازی سے بہت
    تھک گیا ہوں میں، شہ و مات سے آزادی دے

    اک پَل میں ہم جو چاہیں رکھ دیں بساط الٹ کر
    شہ زد پہ آچکا ہے، اپنا پیادہ رکھیے

    ابھی شطرنج ہے جاری، ذرا الٹے تو بساط
    دیکھنا کون ہے شہ، کون پیادہ ہے میاں

    شہ سے پہلے نہ مات ہوجائے
    دیکھ چال اس کی شاطرانہ ہے

    ہوشیاری سے سمجھ کر چال چلنا چاہیے
    کارِ دنیا بھی ظفر شطرنج کا سا کھیل ہے

    وزیر چپ کھڑا تھا اور شہ کو مات ہو گئی
    بساطِ زیست پر پیادہ چال ایسی چل گیا

    زندگی مہرہ ہے اک شطرنج کا
    موت کیا ہے زندگی کی مات ہے

    ظرف ہمارا شیوہ ہے اور دلداری ہے فطرت اپنی
    ہم نے تو شطرنج کی بازی جان کے اکثر ہاری ہے

  • جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    جَل پریوں کے ساتھ رہنے والا ثروت حسین

    موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
    لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں

    9 ستمبر 1996 کو کراچی میں اردو کے معروف شاعر ثروت حسین ٹرین کے ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں‌ نے خود کُشی کی تھی۔ ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بدایوں‌ سے ہجرت کرکے کراچی میں‌ آبسے جہاں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثروت حسین نے شعبہ تدریس سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ زندگی کے آخری دنوں‌ میں‌ وہ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج ملیر میں اپنے فرائض‌ انجام دے رہے تھے۔

    ثروت حسین کو اردو زبان میں‌ ان کے جداگانہ اسلوب اور غزل جیسی صنفِ سخن کو ایک نئے مزاج، خوب صورت طرز اور لفظیات سے روشناس کرانے والا شاعر مانا جاتا ہے۔ انھوں‌ نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔

    ثروت حسین کا پہلا مجموعہ آدھے سیارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ دوسرا مجموعہ کلام خاک دان ان کی موت کے بعد 1998 میں شایع ہوا۔

    ثروت حسین کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل
    لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
    بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا
    کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
    پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا
    مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
    اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا
    وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
    اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
    سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
    دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا

  • مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    مشرقی تہذیب کا دلدادہ شاعر جسے اردو رسمُ الخط سے چڑ تھی

    فانیؔ بدایونی یوں تو مشرقی تہذیب کے بڑے دلدادہ تھے، لیکن انھیں اردو رسمُ الخط سے سخت چڑ تھی۔

    اس کے برعکس وہ رومن رسمُ الخط کے بڑے حامی تھے چنانچہ اپنی غزلیں انگریزی ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتے تھے۔ اس موضوع پر ان میں اور مولوی صاحب (مولانا ابوالخیر مودودی) میں خوب خوب بحثیں ہوتی تھیں۔ مولوی صاحب سے فانی کی دلیلوں کو جواب نہ بن پڑتا تو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتے اور فانی کو جی بھر کر برا بھلا کہتے مگر فانی ہنستے رہتے تھے۔

    فانی کو مولوی صاحب کو چھیڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ چناں چہ مولوی صاحب سے ملنے جاتے تو تین چار غزلیں رومن رسم الخط میں ٹائپ کر کے ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔

    مولوی صاحب فانی سے بڑی محبت سے ملتے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد تان لامحالہ فانی کی شاعری پر ٹوٹتی۔ مولوی صاحب کہتے کوئی نئی چیز لکھی ہو تو سناؤ۔ فانی مسکرا کر ٹائپ شدہ غزلیں جیب سے نکالتے اور مولوی صاحب کی طرف بڑھا دیتے اور مولی صاحب ان کاغذوں کو یوں اٹھا کر پھینک دیتے گویا اچانک بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

    فانی ہنستے ہوئے تمام کاغذ فرش سے اٹھا لیتے اور غزلیں سنانے لگتے۔ غزلیں سن کر مولوی صاحب کا غصہ فرو ہو جاتا تھا۔

    (اقتباس از شہرِ نگاراں مصنف سبطِ حسن)

  • وہ زندگی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے(غزل)

    وہ زندگی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے(غزل)

    شہزاد مہدی کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ اردو زبان اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے اس نوجوان نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی۔

    شہزاد مہدی کی ایک غزل قارئین کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    تری گلی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے
    وہ زندگی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے
    دل و دماغ کا آپس میں وہ تصادم ہے
    جو خود کشی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے
    میں چاہتا ہوں خدا کی طرف ہی جاؤں مگر
    خدا کسی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے
    میں اپنے حال سے پہلے ہی تنگ ہوں، اُس پر
    تُو شاعری کی طرف لے کے جارہا ہے مجھے
    وہ رائیگاں ہوں کہ خود پوچھتا ہوں رستے سے
    بتا، کسی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے؟
    اسے بتانا کہ میں غم کے ساتھ ہی خوش ہوں
    اگر خوشی کی طرف لے کے جا رہا ہے مجھے
    عجب طلسم ہے شہزاد وہ پری چہرہ
    سخن وری کی طرف لے کے جارہا ہے مجھے

  • "شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں”

    "شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں”

    اردو شاعری میں‌ برسات سے متعلق جہاں خوشی، ترنگ، سرمستی، عیش اور انبساط کا اظہار ملتا ہے، اور شعرا نے آسمان سے برستے ہوئے پانی کو اپنے اشعار میں طرح طرح سے باندھا ہے، وہیں کئی اشعار کسی کے اندر کا کرب، دکھ، ناکام حسرتوں، ادھوری خواہشوں اور جذباتی کشمکش کو بھی عیاں کرتے ہیں۔

    خالد معین کی ایک خوب صورت غزل پیش ہے۔

    غزل
    رقص کیا کبھی شور مچایا، پہلی پہلی بارش میں
    میں تھا، میرا پاگل پن تھا، پہلی پہلی بارش میں

    پیہم دستک پر بوندوں کی آخر اس نے دھیان دیا
    کھل گیا دھیرے دھیرے دریچہ پہلی پہلی بارش میں

    ایک اکیلا میں ہی گھر میں خوف زدہ سا بیٹھا تھا
    ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں

    آنے والے سبز دنوں کی سب شادابی، اس سے ہے
    آنکھوں نے جو منظر دیکھا پہلی پہلی بارش میں

    شام پڑے سو جانے والا! دیپ بجھا کر یادوں کے
    رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں

    جانے کیا کیا خواب بُنے تھے، پہلے ساون میں، میں نے
    جانے اس پر کیا کیا لکھا پہلی پہلی بارش میں

  • "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    "شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے!”

    عشق میں کیا کیا میرے جنوں کی، کی نہ برائی لوگوں نے
    کچھ تم نے بدنام کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے
    میرے لہو کے رنگ سے چمکی کتنی مہندی ہاتھوں پر
    شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے

    1970 کی دہائی میں یہ کلام بہت مشہور ہوا، آواز تھی محمد رفیع کی جن کے گائے ہوئے فلمی گیت آج بھی نہایت ذوق و شوق سنے جاتے ہیں اور بہت مقبول ہیں۔

    محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی اس غزل کی دھن اس وقت کے معروف موسیقار جے دیو نے تیار کی تھی۔ فلم کے لیے لکھا گیا یہ کلام اور ترتیب دی گئی موسیقی کا تو بہت شہرہ ہوا، لیکن چند وجوہ کی بنا پر فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    اس غزل کے شاعر تھے ظفر گورکھپوری جو دنیائے سخن میں فلمی گیت نگار اور ادبِ اطفال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بچوں‌ کے لیے نظمیں ہی نہیں کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    ظفر گورکھپوری نے جہاں غزل کے میدان میں فکری اور فنی سطح پر اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا ہے، وہیں بچوں‌ کے لیے ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع اور شعری جوہر قابلِ داد ہے۔ فلمی گیتوں اور دوہوں میں بھی انھوں نے خوبی سے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔

    ظفر گورکھپوری کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ انھیں فلمی دنیا کی چکاچوند اور مال و زر سے کوئی رغبت نہ تھی بلکہ ان کی زندگی کا اصل مقصد ادب اور درس و تدریس کے ذریعے نئی نسل کی تربیت کرنا اور کردار سازی تھا۔

    ظفر گورکھپوری کا نام ظفرالدین اور تخلص ظفرتھا۔ وہ 5 مئی 1935 کو ضلع گورکھپور، یو پی میں پیدا ہوئے، وہ نوعمری میں‌ ممبئی آگئے تھے جہاں‌ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فلم کے لیے نغمہ نگاری کا سلسلہ جاری رہا، 2017 میں‌ ان کا انتقال ہو گیا۔

    1996 میں ہندی فلم ’کھلونا‘ ریلیز ہوئی جس کا ایک گانا بہت مقبول ہوا۔

    ہم جانتے ہیں تم ہمیں ناشاد کرو گے
    توڑو گے میرا دل مجھے برباد کرو گے
    دل پھر بھی تمھیں دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

    ظفر گورکھپوری کے گیتوں کو اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں نے گایا جن میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت عزیز، کشور کمار، کمار سانو وغیرہ شامل ہیں۔

  • چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    خوابوں پر نشان لگا کے رکھ دینے والے نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    شاعر‌ کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔

    عزمی بتاتے ہیں، "میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوں۔ کتب بینی کا شوق ہے، مطالعے کو میرا مشغلہ کہہ سکتے ہیں۔ بچپن ہی سے شاعری پسند تھی، اور گھر میں کتابیں، اخبار پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

    اسی پڑھنے پڑھانے نے مجھے شعر گوئی کی طرف مائل کیا اور یوں‌ میں‌ نے شاعری کا سفر شروع کیا۔ ”

    محسن نقوی کو اپنا پسندیدہ شاعر بتانے والے عزم الحسنین عزمی کا کلام پیش ہے۔

    غزل

    کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا
    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا

    رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان
    کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا

    آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر
    آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا

    رات کو پھر دیر تک سب بول رکھ کے سامنے
    کب کہاں کس سے بھلا، کیا کیا کہا، دیکھا گیا

    روشنی دن کو سنبھالی تھی ذرا سی جو حضور
    ڈال کر شب کو دیے میں راستہ دیکھا گیا

    یہ نہیں کہ رک گئے پہلے یا تیرے بعد عشق
    ہاں مگر کچھ روز تجھ پر اکتفا دیکھا گیا

    اس قدر عادت ہوئی اس کی، کہ پہلے درد سے
    ہاتھ چھڑوانے سے پہلے دوسرا دیکھا گیا

    شاعر: عزم الحسنین عزمی

  • "موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے!”

    "موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے!”

    موسمِ گرما کی شدت اور کرونا کی قید کاٹتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں بوندا باندی اور بارش کی اطلاع ہم تک پہنچی، اور آج کراچی میں بھی بادل برس ہی گئے۔

    کرونا کے خوف کے ساتھ سانس لیتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو شدید گرمی اور اس پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جیسے ادھ موا کر دیا تھا اور ان حالات میں‌ جب بوندیں برسیں تو سب نے شکر ادا کیا۔ ایک شعر دیکھیے۔

    موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے
    موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

    موسم اور بارش سے متعلق چند مزید اشعار پیش ہیں جو باذوق قارئین کو ضرور پسند آئیں گے۔

    دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
    اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

    شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
    رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
    بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

    کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
    تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

    برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
    کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

    گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
    کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

    اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
    اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا

    دوسروں کو بھی مزا سننے میں آئے باصر
    اپنے آنسو کی نہیں، کیجیے برسات پہ بات

  • گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    غزل اور نظم دوںوں اصنافِ سخن میں سارہ خان کی تخلیقات ہمارے سامنے ہیں۔

    خوب صورت لب و لہجے کی اس شاعرہ کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ تاہم گزشتہ پندرہ برس سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ یوں تو زمانہ طالبِ علمی سے شعر کہہ رہی ہیں، لیکن شاعری کا باقاعدہ آغاز چند سال پہلے ہوا اور ان کی تخلیقات مختلف ادبی پرچوں اور ویب سائٹس کی زینت بنیں۔

    سارہ خان کی پسندیدہ صنفِ سخن، نظم ہے۔

    فیض، ن، م راشد اور محسن نقوی سارہ خان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کی ایک نظم آپ کے شعری ذوق کی نذر ہے

    "کمی”
    گلاب لہجوں میں دل گزیں سے سراب کیوں کر
    گلاب لہجوں میں حسرتیں ہیں
    گلاب لہجوں میں خواب کیوں کر
    گلاب لہجے جو خوشبؤں کی ضمانتوں کے امین ٹھہرے
    یہ کیسی ان میں جھلک دِکھی ہے
    گلاب لہجوں میں خار کیوں کر۔۔۔۔
    یہ کون ہے جو گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے بھر رہا ہے
    یہ کون ہے جو گلاب لہجوں میں راکھ بن کے بکھر رہا ہے
    گلاب لہجوں پہ نقش کتنی کہانیاں ہیں
    خزاں رُتوں میں چمن میں اک آتشیں سماں ہے،
    گلاب لہجوں پہ ڈھیر ساری اداسیاں ہیں
    گلاب لہجے جو اک زمانے میں سانس لیتے تو گُل کھلاتے
    گلاب لہجوں پہ کس کا سایہ پڑا ہے
    کیسی ویرانیاں ہیں
    گلاب لہجوں میں اِک شکن ہے
    گلاب لہجوں میں کیوں تھکن ہے
    گلاب لہجوں پہ شامِ ہجراں کا عکس کیوں کر
    گلاب لہجوں میں ساعتوں کی نمی چھپی ہے
    گلاب لہجوں میں رقص کرتے ہزاروں منظر
    مگر جو دیکھو گلاب کی ہی…
    گلاب لہجوں میں کچھ کمی ہے!
    شاعرہ: سارہ خان