Tag: اردو شاعری

  • ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    گلگت بلتستان کے باسی شہزاد مہدی اردو زبان اور ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ اپنے ادبی رجحان کے سبب تخیل سے تخلیق کا مرحلہ طے کرنے والے اس نوجوان نے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے شاعری کو پسند کیا۔

    شہزاد مہدی نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ باذوق قارئین کے لیے ان کی ایک غزل پیش ہے۔

    غزل
    دل میں قیدی بنی کسی کی یاد
    اشک آنکھوں سے ہو گئے آزاد

    دل کے گوشے نہیں سنبھلتے ہیں
    خاک بستی کوئی کریں آباد

    تیری پستی کا ذکر چھیڑا تو
    خُلد میں رو پڑے ترے اجداد

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ
    خوب دیتے رہے ہمیں امداد

    موت پر کیسی تعزیت بھائی
    عید پر کون سی مبارک باد!

    تری آنکھوں کو دیکھ لینے سے
    ہلنے لگتی ہے روح کی بنیاد

    تھوڑا مغرور ہے مگر اک دن
    دوست بن جائے گا مرا، شدّاد

    جاؤ اب کوئی بھی نہیں ہے یہاں
    جاؤ اب مر گیا ترا شہزاد

    شاعر: شہزاد مہدی

  • کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے(شاعری)

    کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے(شاعری)

    غزل

    کوئی جنت تو کوئی قربِ خدا مانگتا ہے
    تیرا درویش مگر، تیری رضا مانگتا ہے

    اس کی نظریں ہیں ترے پاس کی کرسی پہ جمی
    صاف ظاہر ہے کہ پہلو میں جگہ مانگتا ہے

    ایسی لذت ترے دھوکے نے عطا کی ہے اِسے
    اب اگر مانگتا کچھ ہے تو دغا مانگتا ہے

    گرچہ واقف ہے اسیری کی اذیت سے مگر
    پَر کٹا پھر تیرے پنجرے کی ہوا مانگتا ہے

    بس کرو بخیہ گرو میری تو عادت ہے کہ میں
    ایسا وحشی ہوں جو زخموں کی قبا مانگتا ہے

    ہڑبڑا کر اسے کہتا ہوں کہ ”اللہ حافظ“
    جب کوئی مجھ سے کبھی میرا پتہ مانگتا ہے

    تُو نے لوگوں کے کہے پر مجھے دھتکار دیا
    تو نے پوچھا ہی نہیں مجھ سے کہ کیا مانگتا ہے

    ایک وحشت جو عطا مجھ کو ہوئی ہے سو میاں
    کوئی تو ہے جو مرے حق میں دعا مانگتا ہے

    دل ملوث تھا اگر تیرگی لانے میں اویسؔ
    خوف اب کیا ہے اِسے، کیوں یہ ضیا مانگتا ہے

     

     

    شاعر: اویس احمد ویسی، زیارت معصوم، ایبٹ آباد 

     

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)

  • "جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں”(شاعری)

    "جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں”(شاعری)

    غزل
    ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں
    جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں

    وقت کے ساتھ اترتی ہیں نقابیں ساری
    ہوتے ہوتے ہی کئی راز عیاں ہوتے ہیں

    تم نے سوچا ہے کبھی تم سے بچھڑ نے والے
    کیسے جلتے ہیں، شب و روز دھواں ہوتے ہیں

    دور ساحل سے سمندر نہیں ناپا جاتا
    درد لفظوں میں بھلا کیسے بیاں ہوتے ہیں؟

    کون آنکھوں میں چھپے کرب کو پڑھتا ہوگا
    لوگ اتنے بھی سمجھ دار کہاں ہوتے ہیں

    پھول کھلتے ہیں نہ موسم کا اثر ہوتا ہے
    ہم بہاروں میں بھی تصویرِ خزاں ہوتے ہیں

    میں نے ٹکڑوں میں بٹی آج بھی دیکھی عورت
    روح ہوتی ہی نہیں جسم جہاں ہوتے ہیں

    شاعرہ: فوزیہ شیخ

     

     


    (شہرِ سخن کی خوش فکر شاعرہ فوزیہ شیخ خوشاب میں پیدا ہوئیں، ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے، زبان و ادب سے لگاؤ انھیں شاعری کی طرف لے آیا، ان دنوں پنجاب کے شہر فیصل آباد میں مقیم ہیں)

  • شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    شہرِ سخن کے باکمال اختر حسین جعفری کی برسی

    اردو ادب میں جدید نظم کے شعرا میں اختر حسین جعفری ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ بعض نقادوں نے بیدل کے بعد انھیں بلند پایہ تخلیق کار شمار کیا ہے۔

    اختر حسین جعفری کی زندگی کا سفر تین جون 1992 کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، اختر حسین جعفری نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔ ان کا کلام جدید اردو شاعری کا سرمایہ افتخار ٹھہرا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2002 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا جب کہ ان کی تصنیف آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا تھا۔

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

  • کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟ (نظم)

    کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟ (نظم)

    موجِ خوشبو!

    موجِ خوشبو! یہ ترا حسنِ تغافل، توبہ
    کس قدر کیف ملا تجھ کو بکھر جانے میں
    کیا ملا تجھ کو بیاباں میں پریشاں ہو کر
    تیری پہچان گئی رازِ فنا پانے میں
    میں بھی اک گوشہء ہستی میں کہیں بیٹھا ہوں
    اپنی تجسیم کے انداز سے نالاں نالاں
    آرزو مجھ کو بھی ہے رازِ فنا پانے کی
    بیکراں دہر کی وسعت میں بکھر جانے کی

    موجِ خوشبو، یہ ذرا رازِ دروں تو کہنا
    پھول کے ساتھ ترا ربط تھا محکم کتنا؟

    دامنِ گل سے ہمیشہ کو گریزاں ہو کر
    کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟

    شاعر: اکرم جاذب

     

     


    (اکرم جاذب کا تعلق منڈی بہاءُ الدین سے ہے، غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں اوراپنے کلام کو کتابی شکل میں پیش کرچکے ہیں، مختلف روزناموں اور ادبی رسائل میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے)

  • تم نے مٹی کے عوض بھی مجھے مہنگا بیچا (شاعری)

    تم نے مٹی کے عوض بھی مجھے مہنگا بیچا (شاعری)

    غزل
    پانی پانی کا مرا شور ذرا سا کم ہے
    اور یہ لوگ سمجھتے ہیں یہ پیاسا کم ہے

    تم نے مٹی کے عوض بھی مجھے مہنگا بیچا
    کہ مرا مول تو اس شے سے بھی خاصا کم ہے

    میں تو بادل کو ہی پانی کا غنی سمجھا تھا
    آنکھ برسی تو کھلا اُس کا اثاثہ کم ہے

    میں نے رکھا ہے ابھی دل کے ترازو پہ اسے
    آپ کے درد کی نسبت یہ دلاسہ کم ہے

    کچھ نہ کچھ درد کی رہتی ہے ملاوٹ مجھ میں
    کہ کبھی بڑھ گیا ماسہ، کبھی ماسہ کم ہے

    وقت نے جو ترے ہاتھوں میں دیا ہے عزمی
    تیری اوقات زیادہ ہے، یہ کاسہ کم ہے

     

     

    اس کلام کے خالق عزم الحسنین عزمی ہیں جن کا تعلق گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے، ان کی غزلیں مختلف اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر شایع ہوتی رہتی ہیں

  • آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

    انسان شاید اس زمین پر اربوں سال سے آباد ہے، کتنے موسم بدلے، کتنی رُتیں آئیں اور رخصت ہوگئیں، زندگی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انسان نے کبھی سلطنت، قوموں کا عروج دیکھا، تو کبھی زوال۔ کبھی اسے اپنے ہی جیسے انسانوں کی سفاکی اور شقی القلبی کا ماتم کرنا پڑا تو کہیں‌ اس نے رحم دل اور نہایت مہربان حکم رانوں‌ کی وجہ سے لوگوں کو‌ خوش اور شاد باد پایا۔ غرض کہ انسان نے زندگی کے کتنے ہی روپ دیکھ لیے، لیکن آج بھی یہ اس کے لیے نئی اور پُرکشش ہے۔

    انسان زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ اشعار اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔

    کیف بھوپالی کا یہ شعر دیکھیے۔

    زندگی شاید اسی کا نام ہے
    دوریاں، مجبوریاں، تنہائیاں

    فراق گورکھپوری نے کہا تھا…

    موت کا بھی علاج ہو شاید
    زندگی کا کوئی علاج نہیں

    اصغر گونڈوی کا یہ شعر دیکھیے۔

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    معین احسن جذبی نے کہا…

    مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
    اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

    شاہد کبیر کا شعر ہے…

    زندگی اک آنسوؤں کا جام تھا
    پی گئے کچھ اور کچھ چھلکا گئے

  • آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    بدلتے ہوئے طرزِ زندگی نے رسم و رواج، فنون و ثقافت اور ہمارے ذوقِ طبع، شوق اور تفریح کے رنگ ڈھنگ اور رجحانات کو بھی بدل دیا۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیاں سمجھنا تو دور کی بات، اسے سننے اور محظوظ ہونے والے بھی کہاں رہے۔ اسی طرح ساز ہیں تو سازندے نہیں رہے اور کتنے ہی آلاتِ موسیقی تو معدوم ہوچکے ہیں۔

    آپ نے راگ درباری کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ ہندوستان بھر میں مشہور اور عوام و خواص میں مقبول راگ ہے۔ سیکڑوں شعرا کا کلام اس راگ سے آراستہ ہوا اور ہزاروں غزلیں اور گیت راگ درباری میں بنے۔ کہتے ہیں یہ راگ گانے میں آسان ہے اور اس کی پہچان بھی، مگر نزاکتیں سمجھنا اور اسے مخصوص رچاؤ سے اساتذہٴ فن ہی نبھا سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ یہ راگ مشہور موسیقار، سُر اور آواز کے ماہر تان سین کی اختراع تھا، جو دربارِ اکبری میں نمایاں مقام رکھتا تھا اور اسے دربار میں گانے کے لیے خاص طور پر اختراع کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس راگ میں خاص گمبھیرتا ہے جس نے اسے بارعب، با وقار ہی نہیں نہایت متین اور پُر اثر راگ بنا دیا۔ اس راگ کو صرف درباری بھی کہا جاتا ہے۔

    اس راگ میں بندشوں کے علاوہ غزلیں اور گیت بھی آپ نے سنے ہوں گے۔

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بُو کی طرح میری پزیرائی کی

    ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
    ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے۔۔۔

    اور گیت کا یہ بول دیکھیے

    آ میرے پیار کی خوش بُو، منزل پہ تجھے پہنچاؤں

  • سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو  جان لیں!

    سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو جان لیں!

    ادب میں‌ جہاں سیاست سے سماج تک ہر شعبے میں عام مسائل اور مختلف خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کے لیے نثر نگاروں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے، وہیں، شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

    انور مسعود پاکستان کے ممتاز مزاح گو شاعر ہیں۔ یہاں ہم ان کی ایک مزاحیہ نظم پیش کررہے ہیں جو ایک طرف تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردے گی، اور دوسری جانب یہ غیر ضروری اور معمولی شکایت کی صورت میں ادویہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔

    اگر صرف سَر درد کی بات کی جائے تو اکثر اسکرین کے سامنے مسلسل اور زیادہ وقت گزارنے، موسمی اثرات جیسے تیز دھوپ میں رہنے کی وجہ سے بھی سَر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوسکتا ہے، اور یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن بعض لوگ درد کُش ادویہ کے ذریعے مسئلے سے فوری نجات چاہتے ہیں جس سے بچنا چاہیے۔

    اگر چند گھنٹوں کے آرام سے مسئلہ حل نہ ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ اس سَر درد کی کوئی خاص وجہ ہے تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اب آپ اس مزاحیہ کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے "ازخود” علاج کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔

    سَر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
    پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
    دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
    بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
    ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
    خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
    معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
    دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
    گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا
    پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے