Tag: اردو شاعری

  • انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    اپنے خیالات و جذبات، اپنے دکھ سکھ، اپنے غم و مسرت کو اتنی اہمیت دینا کہ آدمی انہی کا ہو کر رہ جائے، ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

    غموں کو اتنی زیادہ اہمیت دینے سے آدمی میں دنیا بے زاری، کلبیّت، جھلاہٹ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور خوشیوں کو اتنا اہم سمجھنے سے خود غرضی، خود پرستی اور خود بینی جنم لیتی ہے۔ بس اتنا ہی تو ہے کہ ہمارے غم ہمیں تباہ کر دیتے ہیں، ہماری شخصیت کو مٹا دیتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہمیں جِلا دیتی ہیں، بنا سنوار دیتی ہیں، لیکن ہمارا بننا سنورنا، ہمارا مٹنا مٹانا دوسروں کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

    ہم رو رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں روئیں؟ ہم ہنس رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں ہنسیں؟ ہمارے پاؤں میں کانٹا گڑا ہے تو دوسروں کو تکلیف کیوں پہنچے؟ ہمیں پھولوں کی سیج میسر ہے تو دوسروں کو راحت کیوں ہو؟

    انسان، انسان کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار کھنچی ہوئی ہے۔ ادب اس دیوار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام نہیں کرتا، ادب شخصی اور ذاتی غموں اور مسرتوں کی ڈائری نہیں ہوتا۔ اس کا کام تو انسان کو انسان کے قریب لانا ہے۔

    انسان انسان کے درمیان کھنچی ہوئی شخصیت کی دیوار کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ساتھی بنانا ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کے دلوں میں جھانک کر ان کے دکھ سکھ کو سمجھنے کی ایک مقدس اور مبارک کوشش ہے۔

    ادب کی سب سے بڑی قدر اس کی انسانیت، اس کی مخلوق دوستی، اس کی انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی خواہش ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنی آواز کو، اپنے دل کی دھڑکنوں کو، عام انسانوں کی آواز، عام انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ملانے، عام انسانوں کے دکھ سکھ، امیدوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرنے، عالمِ خارجی کے گوناگوں پہلوؤں اور حیات و کائنات کے رنگا رنگ مظہروں سے دل چسپی رکھنے اور اپنی شخصیت اور عالمِ خارجی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی وجہ سے بڑا ہے۔

    زندگی کے انفرادی شعور سے ایک فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں، آرزوؤں اور حسرتوں، امیدوں اور مایوسیوں، ناکامیوں اور کامرانیوں غرض ایک فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثوں کی ڈائری تو لکھی جا سکتی ہے، لیکن زندگی کی تنقید، زندگی کے مستقبل کے امکانات کا اندازہ، زندگی کے ماضی و حال کے صالح عناصر کی پرکھ، ایک بہتر انسان اور بہتر معاشرے کا تصور انفرادی شعور کے بس کی بات نہیں۔

    یہ بصیرت تو صرف انسانی ذہن کے اجتماعی طرزِ فکر اور انسانی زندگی کے اجتماعی ذہنی و عملی رجحانات کے علم ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں۔

    (اردو زبان میں تنقید، نظم اور نثر میں اپنی تخلیقات اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر فکر کا اظہار کرنے والے سلیم احمد کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں! (شاعری)

    بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں! (شاعری)

    غزل

    بھنور میں تُو ہی فقط میرا آسرا تو نہیں
    تُو ناخدا ہی سہی  پر  مرا  خدا تو  نہیں

    اک اور مجھ کو  مری طرز کا ملا ہے یہاں
    سو اب یہ سوچتا ہوں میں وہ دوسرا تو نہیں

    ابھی بھی چلتا ہے سایہ جو ساتھ ساتھ مرے
    بتا اے وقت کبھی  میں شجر  رہا  تو  نہیں

    ہیں گہری جڑ سے شجر کی بلندیاں مشروط
    سو  پستیاں یہ کہیں میرا  ارتقا تو  نہیں

    جو پاس یہ مرے بے خوف چلے آتے ہیں
    مرے بدن پہ پرندوں کا گھونسلا تو نہیں

    اے آئنے تُو ذرا دیکھ غور سے مری آنکھ
    گرے ہیں اشک کوئی خواب بھی گرا تو نہیں

     

     

     

    اس غزل کے خالق عزم الحسنین عزمی ہیں جن کا تعلق گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے، ان کا کلام مختلف اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر شایع ہوچکا ہے

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے…

    ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے…

    کرونا کی وبا سے جہاں دنیا کے کونے کونے میں، پُررونق شہروں، گنجان آباد علاقوں، تجارتی مراکز، منڈیوں اور دور دراز کے مقامات تک ہر قسم کا کاروبارِ حیات شدید متاثر ہے، وہیں اس زمین کے باسیوں کے طرزِ زندگی پر بھی اس وائرس کے گہرے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔

    ایمان قیصرانی کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے جسے کرونا کا نوحہ کہا جائے تو کیا غلط ہوگا۔

     

    ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے
    ایسی اُفتاد پڑی سارے زمانے سے گئے

    وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
    اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے

    دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
    کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

    اس قدر قحط ِ وفا ہے مرے اطراف کہ اب
    یار یاروں کو بھی احوال سُنانے سے گئے

    زخم اتنے تھے کہ ممکن ہی نہ تھا ان کا شمار
    پھر بھی اے دوست ترے ہاتھ لگا نے سے گئے

    اپنی قامت میں فلک بوس تھے ہم لوگ مگر
    اک زمیں زاد کے آواز لگانے سے گئے

    اپنا یہ حال کہ ہیں جان بچانے میں مگن
    اور اجداد جو تھے، جان لڑانے سے گئے

    تجھ کو کیا علم کہ ہم تیری محبت کے طُفیل
    ساری دنیا سے کٹے، سارے زمانے سے گئے

    اصل مقصود تو بس تجھ سے ملاقات ہی تھا
    ہم ترے شہر مگر اور بہانے سے گئے

     

     

    ڈیر غازی خان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ  ایمان قیصرانی

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔

  • لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں اور عبرت سرائے دہر میں منیر نیازی کا تذکرہ

    اردو اور پنجابی کے صفِ اوّل کے شعرا کی بات ہو تو منیر نیازی کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آج منیر نیازی کا یومِ پیدائش ہے۔

    منیر نیازی نے 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر میں‌ اردو اور پنجابی شاعری کے علاوہ فلمی نغمات بھی تحریر کیے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔

    اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے ان کی تخلیقی یادگار ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ وہ اپنے دور کے مقبول شعرا میں سے ایک ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

    اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
    اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
    برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں
    آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
    راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    کہتے ہیں تنہائی خوف کو جنم دیتی ہے اور خوف پر قابو پانے میں مدد بھی۔ اسی طرح کبھی ایسا موقع بھی آتا ہے جب اپنوں سے دوری اختیار کرنا اور مصلحت کے تحت میل جول نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

    کرونا نے ہمیں ایک دوسرے سے دُور، اور ہم سے بعض افراد کو تنہا رہنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ دوری، فاصلے اور تنہائی ہماری زندگی اور صحت کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ یہ سماجی فاصلہ وقتی ہے اور اسی میں ہماری بہتری ہے۔

    آئیے، فاصلے، دوری اور تنہائی پر جذبات اور احساسات سے گندھے اشعار پڑھتے ہیں۔

    قربتیں لاکھ خوب صورت ہوں
    دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
    ***
    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
    ***
    محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
    ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
    ***
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    ***
    مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں
    یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں
    ***
    خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
    ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
    ***
    بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
    نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
    ***
    جس کی ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
    اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے
    ***
    ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
    وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
    ***
    ہم نے تمام رات جلائی ہیں خواہشیں
    دل ڈر گیا تھا برف سی تنہائی دیکھ کر
    ***
    ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
    ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی
    ***
    تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
    ***
    کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
    تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

  • یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    یہ نئے مزاج کا شہر ہے

    مشہور شاعر بشیر بدر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

     

    غزل
    یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی  شام گھر بھی رہا کرو
    وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو

    کوئی  ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو  گلے ملو  گے تپاک  سے
    یہ  نئے  مزاج  کا  شہر  ہے، ذرا  فاصلے سے  ملا کرو

    ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا، کوئی جائے گا
    تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا، اُسے بھولنے کی دعا کرو

    مجھے  اشتہار  سی  لگتی  ہیں  یہ   محبتوں  کی   کہانیاں
    جو  کہا  نہیں وہ  سنا  کرو،  جو  سنا  نہیں  وہ  کہا  کرو

    نہیں بے  حجاب وہ  چاند سا کہ نظر کا  کوئی  اثر نہ ہو
    اسے  اتنی  گرمئی شوق سے  بڑی دیر  تک نہ تکا کرو

    یہ خزاں کی  زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
    یہ تمہارے  گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

  • ڈاکٹروں، نرسوں کا حوصلہ بڑھاتی ایک نظم

    ڈاکٹروں، نرسوں کا حوصلہ بڑھاتی ایک نظم

    "تمھارا شکریہ”

    (محمد عثمان جامعی )

    اے زندگی کے ساتھیو
    حیات کے سپاہیو!
    وبا سے لڑتے دوستو
    نجات کے سپاہیو!

    ہوا کی زد میں آئے، وہ
    دیے بچارہے ہو تم
    اندھیرا پھیلتا ہے اور
    چراغ لارہے ہو تم
    ہے بڑھتی آگ ہر طرف
    جسے بجھا رہے ہو تم

    ہتھیلی پر دھری ہے جاں
    ڈرے بنا، رواں دواں
    یہ جذبہ کتنا پاک ہے
    ہو جیسے صبح کی اذاں
    یہ ولولے، یہ حوصلے
    کبھی نہ ہوں گے رائیگاں

    صدا ہر ایک دل سے ہے اُٹھی
    تمھارا شکریہ
    سبھی لبوں پہ ورد ہے یہی
    تمھارا شکریہ
    پکارتی ہے یہ گلی گلی
    تمھارا شکریہ

    تمھیں سے تو ہے فخرِآدمی
    تمھارا شکریہ
    یہ کہہ رہی ہے آنکھ کی نمی
    تمھارا شکریہ

    (محمد عثمان جامعی نے اپنی نظم میں ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے، رضا کاروں اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کیا ہے جو کرونا کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ آج پولیس کے جوانوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ ڈیوٹی کے دوران اگر ڈاکٹرز یا پیرا میڈیکل اسٹاف کو دیکھیں تو انھیں سلیوٹ کریں)