Tag: اردو شاعری

  • وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    وہ اشعار جن میں مختلف بیماریوں کا علاج موجود ہے!

    ایک زمانہ تھا جب سبزیوں، پھلوں اور دیگر غذائی اجناس سے مختلف بیماریوں اور امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ خالص غذائی اجناس اور تازہ سبزیوں اور پھلوں کی افادیت اور ان کی خاصیت و تاثیر سے حکیم اور معالجین خوب واقف ہوتے تھے۔

    آج جہاں نت نئے امراض اور بیماریاں سامنے آرہی ہیں، وہیں ان کے علاج کا بھی جدید اور سائنسی طریقہ اپنا لیا گیا ہے جو کہ ضروری بھی ہے۔ تاہم مہلک اور خطرناک امراض ایک طرف عام شکایات کی صورت میں بھی ہم قدرتی طریقہ علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

    یہ نظم جہاں آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی، وہیں عام جسمانی تکالیف کے حوالے سے ایک حکیم جو کہ شاعر بھی تھے، ان کے تجربات اور معلومات کا نچوڑ بھی ہے۔

    دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں۔

    جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے​
    وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

    ​اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ​
    تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

    جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا​
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس​
    مربّہ آملہ کھا یا انناس

    ​اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی​
    تو پی لے سونف یا ادرک کا پانی

    تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے​
    تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

    جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے​
    تو کر نمکین پانی کے غرارے

    ​اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل​
    تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

    شفا چاہے اگر کھانسی سے جلدی​
    تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
    ​​
    دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی​
    کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
    ​​
    جو بد ہضمی میں تُو چاہے افاقہ​
    تو دو اِک وقت کا کر لے تُو فاقہ

  • دِلَدّر   دُور  ہو گئے!

    دِلَدّر دُور ہو گئے!

    مولانا سید مودودی کی شخصیت اور ان کے کارنامے کسی سند یا تعارف کے محتاج نہیں۔

    ان کے مختلف مضامین، خطوط، عربی سے اردو تراجم ان کی زبان و بیان پر گرفت اور وسیع مطالعہ کا ثبوت ہیں۔

    ادبی تذکروں میں مولانا مودودی اور مشہور شاعر ماہر القادری سے متعلق ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اس واقعے کا لطف اٹھانے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ لفظ دِلدّر کیا ہے؟

    اس کا مطلب افلاس، تنگ دستی ہے اور اکثر یہ لفط نحوست کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

    یہ لفط سنسکرت زبان سے ماخوذ اور اسم ہے۔ اسے اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال کیا گیا ہے۔

    ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ محاورے کے طور پر ہمارے ہاں بولا جاتا ہے، لیکن سید مودودی نے اسے ’’دِلَدّر پار ہو گئے‘‘ لکھا ہے۔

    ایک بار ماہر القادری نے مولانا مودودی کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضرت لغت میں تو اسے ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ لکھا گیا ہے، مگر آپ نے اس طرح برتا ہے۔ اس پر مولانا نے اطمینان سے جواب دیا،

    ’’لغت میں تصحیح کر لیں۔‘‘

  • خوش گمانی…..

    خوش گمانی…..

    ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔

    کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے، ہجر سے پہلے۔‘‘ انھوں نے ایک شعر جس میں ’سفر‘ کا قافیہ باندھا تھا، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ ’’کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون تھوکنے لگے۔‘‘

    استاد داغ دہلوی یہ سن کر مسکرائے اور بولے:

    ’’ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں۔‘‘ اس جملے پر حاضرین میں ہنسی دوڑ گئی اور کنتوری صاحب کو خفت محسوس ہوئی۔

  • فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

    (احمد ندیم قاسمی کی کتاب ”میرے ہم سفر“ سے خوشہ چینی)

  • شاعرِ انقلاب حبیب جالب کی للکار آج بھی زندہ ہے

    شاعرِ انقلاب حبیب جالب کی للکار آج بھی زندہ ہے

    سیاسی جبر، بدنیتی پر مبنی سماجی بندشوں اور انسانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف انقلابی شاعری کے لیے مشہور حبیب جالب کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ 12 مارچ 1993 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا کو چھوڑ گئے تھے۔

    حبیب جالب نے جو لکھا زبان زدِ عام ہو گیا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف ان کی شاعری نے جہاں عوام میں بیداری اور جوش و ولولہ پیدا کیا، وہیں حکم رانوں کی من مانی، جبر اور عوام دشمن فیصلوں کو بھی للکارا۔

    غربت، تنگ دستی اور نامساعد حالات میں بھی وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں آواز بلند کرتے رہے اور اس کے لیے سڑکوں پر احتجاج کیا، تحریر و تقریر پر ریاستی جبر اور زنداں کی صعوبت سے نہ گھبرائے۔

    بے خوف اور نڈر حبیب جالب کی توانا فکر نے جہاں اردو شاعری کو انقلاب آفریں نغمات سے سجایا، وہیں ان کے رومانوی گیت بھی قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن وہ اپنی عوامی شاعری کی وجہ سے زیادہ مقبول ہیں۔

    سیاسی جبر اور جنونی حکم رانوں کے بدنیتی پر مبنی، مکروہ اور تاریک فیصلوں کے خلاف حبیب جالب کی مشہور نظم دستور کی گونج بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران بھی سنائی دی اور جب بھی ظلم، زیادتی اور ناانصافی ہو گی حبیب جالب کے اشعار اور ان کے انقلابی ترانے مجبور اور بے کس انسانوں کا لہو گرمائیں گے اور انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے پر آمادہ کریں گے۔

  • "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔

    کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
    اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا

    کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
    کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا

    بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
    کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا

    ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
    لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا

    کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
    یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا

    پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
    وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا

    نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
    اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا

  • میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

    میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

    اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
    کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
    گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
    یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

    حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

    فرعون و ہامان و قارون سارے
    سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

    وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

    بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

    اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

    کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
    مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
    غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
    اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

    اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

    ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
    جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے

  • دیواروں‌ سے باتیں‌ کرنا اچھا لگتا ہے!

    دیواروں‌ سے باتیں‌ کرنا اچھا لگتا ہے!

    قیصر الجعفری کی وجہِ شہرت شاعری ہے، ان کا تعلق بھارت سے تھا، جہاں‌ وہ ممبئی میں‌ رہے، بسے اور زندگی تمام کی۔

    بھارت کے معروف گائیکوں‌ نے قیصر الجعفری کا کلام گایا اور وہ بہت مقبول ہوا۔ مشاعروں‌ میں‌ بھی باذوق اور سنجیدہ قارئین نے انھیں‌ ہمیشہ سراہا اور بے حد عزت دی۔

    اس شاعر کی پیشِ نظر غزل بھی اپنے وقت میں‌ بہت مقبول ہوئی، اسے مشہور گائیک پنکج ادھاس نے گایا تھا۔

    یہ وہ کلام ہے جو خاص طور پر 80 کی دہائی کے باذوق سامعین کی یادوں‌ میں‌ آج بھی زندہ ہے اور وہ اسے سننا اور گنگنانا پسند کرتے ہیں۔

    غزل کے مطلع کا پہلا مصرع یوں‌ بھی پڑھا جاتا ہے: "دیواروں‌ سے باتیں‌ کرنا اچھا لگتا ہے”

    قیصرُ الجعفری کی یہ غزل پڑھیے۔

    دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
    ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

    کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
    شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

    آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
    آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

    اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
    جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

    دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
    شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

    کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے
    شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے

  • ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید بدرِ عالم بھی بابائے اردو کے ایک رتن تھے، ان کے خادمِ خاص۔ بابائے اردو کی طرح انھوں نے بھی گھر بار کا جنجال نہیں پالا تھا۔

    خواجہ صاحب کے بہ قول ان کے دو شوق تھے۔ اخباروں سے فلم ایکٹریسوں کی تصویریں کاٹ کر ایک رجسٹر میں چپکانا اور اگر کوئی شخص گفتگو میں کوئی نیا لفظ استعمال کرے تو اسے یاد کر لینا اور اپنی گفتگو میں استعمال کرنا۔

    ایک دن ان کی موجودگی میں کسی صاحب نے ہیچ و پوچ، کے الفاظ استعمال کیے۔

    سید صاحب کو یہ الفاظ بڑے بھلے معلوم ہوئے اور انھوں نے یاد کرلیے، استعمال کے منتظر رہے۔

    اتفاق یہ کہ دو تین دن کے بعد جگر صاحب انجمن آئے۔ کراچی آئے ہوئے تھے تو مولوی صاحب سے ملنے آگئے۔

    مولوی صاحب نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جگر صاحب اطمینان سے بیٹھے تو شعر خوانی کا آغاز ہوا۔ جگر صاحب کا لحن اور کلام کی رعنائی، سید صاحب مسحور ہوگئے۔ بے اختیار ہو کر بولے:

    ”ایسا ہیچ و پوچ کلام تو آج تک نہیں سنا۔“

    جگر صاحب سناٹے میں آگئے۔ مولوی صاحب نے ڈانٹا، ”کیا بکتا ہے۔“

    مگر سید صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی تھے، کہنے لگے، ”چاہے مار ڈالو، مگر کلام بڑا ہیچ و پوچ ہے۔“

    مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی، مگر کچھ سوچ کر ٹھیرے۔ پوچھا، ”کچھ سمجھتا بھی ہے، کیا بک رہا ہے؟“

    سید صاحب نے کہا۔ ”سمجھتا کیوں نہیں۔ بڑا اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔“

    مولوی صاحب ہنس پڑے، پوچھا، ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید صاحب نے بتایا فلاں صاحب اس دن آئے تھے، انھوں نے یہ الفاظ کہے تھے، مجھے اچھے لگے، میں نے یاد کرلیے۔

    جگر صاحب یہ سُن کر مسکرائے اور سید صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کی تحریر سے اقتباس)

  • داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    حقیقت تو یہ ہے کہ داغ فطرتاً حسن پرست اور عاشق مزاج تھے۔

    طبیعت میں بلا کی شوخی تھی۔ تادم مَرگ یہ ان کے ساتھ رہی اور یہی ان کی شاعری کی کام یابی کا راز تھا۔

    داغ نے آخر وقت تک مہ و شو سے سابقہ رکھا اور ہمیشہ شگفتہ اور جان دار شعر کہتے رہے۔ چناں چہ دکن میں جو اچھی غزلیں داغ نے کہی ہیں، ان کے اکثر شعر ایسی ہی محفلوں میں لکھے گئے تھے۔

    بعض دفعہ تو یہ ہوتا کہ گانا ہورہا ہے، داغ شعر لکھوا رہے ہیں۔ آمد کا وہ عالم ہے کہ دو شاگرد علیحدہ علیحدہ لکھتے جاتے ہیں پھر بھی جس تیزی سے داغ شعر کہتے، اس رفتار سے لکھنا مشکل ہوجاتا اور نتیجتاً ایک آدھ شعر یا دو چار مصرعے چھوٹ جاتے۔

    مثنوی ”فریاد داغ“ میں داغ نے اپنی منظورِ نظر منی جان حجاب کی جوانی کی تصویر یوں کھینچی ہے۔

    سج دھج آفت غضب تراش خراش
    کسی اچھے کی دل ہی دل میں تلاش

    حجاب کے ہونٹ پر تِل تھا، داغ نے اس پر ایک رُباعی لکھی۔

    تم تو فلک حُسن پہ ہو ماہِ منیر
    سائے کی طرح ساتھ داغ دل گیر
    خالِ لب گل فام ہے شاہد اس کا
    بے داغ نہ کھنچ سکی تمہاری تصویر

    استاد شاعر داغ دہلوی کا تذکرہ، یاسین خاں علی خان کے قلم سے