Tag: اردو شاعر

  • یومِ پیدائش: فیض احمد فیض کے چند مشہور اشعار، یادگار تصویریں

    یومِ پیدائش: فیض احمد فیض کے چند مشہور اشعار، یادگار تصویریں

    فیض کی انسان دوستی، ان کے افکار و نظریات انھیں‌ ہمیشہ ہمارے دلوں‌ میں‌ زندہ رکھیں‌ گے۔

    مشہور انقلابی ترانوں اور نظموں‌ کے خالق فیض‌ احمد فیض‌ کا یومِ پیدائش ہے۔ اس موقع پر ان کے چند مشہور اشعار اور یادگار تصاویر پیش ہیں۔

     

     

    مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سُوئے دار چلے

     

     

    تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگے ہیں

     

     

    یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

     

     

    رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یا د آئی
    جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
    جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
    جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

     

     

    ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
    گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے

     

     

    وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
    وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

     

     

    وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
    اک نظر تم میرا محبوب ِ نظر تو دیکھو

     

  • ّابو العلا معریٰ کون تھے؟

    ّابو العلا معریٰ کون تھے؟

    علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے۔

    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

    یہ شعر، خاص طور پر مصرعِ ثانی ضرور آپ نے سماعت کیا ہو گا اور ممکن ہے یہ آپ کے حافظے میں بھی محفوظ ہو۔

    یہ اقبالؔ کی ایک نظم کا آخری شعر ہے جو "ابو العلا معریٰ” کے عنوان سے اُن کے دیوان میں‌ شامل ہے۔

    یہ نظم ایک فلسفی، مدبّر، دانا و حکیم اور مشہور شاعر کی یاد تازہ کرتی ہے اور اس کی بنیاد اس فسلفی کی ایک خاص عادت ہے۔ مشہور ہے کہ وہ ساری زندگی گوشت اور انڈے سے پرہیز کرتے رہے اور صرف دالیں اور سبزیاں ان کی خوراک میں شامل رہیں۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہو گا کہ ان کا نام احمد بن عبداللہ بن سلیمان معرۃ النعمان تھا۔ کہتے ہیں کہ ان کا وطن قدیم شام کا علاقہ معریٰ تھا جہاں انھوں نے 973 عیسوی میں آنکھ کھولی۔ آپ کو ابو العلا المعری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    آپ محض چار برس کے تھے جب چیچک کا شکار ہوئے اور بینائی جاتی رہی۔ حافظہ غضب کا تھا اور جو بات ایک بار سنتے، ذہن نشین ہوجاتی۔

    کہتے ہیں‌ ابتدائی تعلیم حلب، طرابلس اور انطاکیہ کے علمی مراکز سے حاصل کی اور جلد ہی شاعری کی طرف مائل ہوئے۔

    انھوں‌ نے کچھ وقت بغداد میں بھی گزارا، لیکن بیماری کے بعد معریٰ لوٹ گئے تھے اور وہاں‌ گوشہ نشیں ہو رہے۔1058 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔

    یہاں‌ ہم علامہ اقبال کی وہ نظم نقل کررہے ہیں‌ جس کا مشہور شعر آپ نے ابتدا میں‌ پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معریٰ
    پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات

    اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
    شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات

    یہ خوانِ تَر و تازہ معریٰ نے جو دیکھا
    کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات

    اے مرغک بیچارہ، ذرا یہ تو بتا تُو
    تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟

    افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
    دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات!

    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

  • وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وحید الدین وحید کا تعلق الہٰ آباد سے تھا۔ ان کا شمار اپنے دور کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ ہوتا ہے۔

    ان سے شاعری میں اصلاح لینے والوں میں اکبرؔ الہٰ آبادی نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستان کے متعدد شعرا ان سے اصلاح‌ لیتے تھے۔

    کہتے ہیں ایک روز ان کے گھر کو آگ لگی تو انھوں نے باہر نکلنے کے بجائے اپنے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اس دوران دَم گھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔

    وحید الہ آبادی اردو کے واحد شاعر ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ بچاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کے یہ دو اشعار دیکھیے۔

    میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
    دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

    سب کی ہے اس عہد میں مٹی خراب
    ذلتیں باقی ہیں توقیریں گئیں

    وحید الہ آبادی نے اپنے تخلیقی جوہر اور شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث اس دور میں سب کی توجہ حاصل کی اور شناخت بنائی جب ہندوستان میں استاد شعرا میں‌ شاہ نصیر، آتش، ذوق اور داغ جیسی شخصیات کا نام لیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خود وحید الہ آبادی نے مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورۂ سخن کیا۔

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں

  • سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کے یومِ پیدائش پر آج مداح ان کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری پڑھی جارہی ہے اور ان کے مقبول گیت سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    الفت کی نئی منزل کو چلا، حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں، بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں، ستارو تم تو سو جاؤ جیسے لازوال گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تعلق ہری پور سے تھا۔ وہ 24 دسمبر 1919 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہ 1938 کی بات ہے۔

    قتیل کی مقبولیت کی ایک وجہ سادہ انداز اور عام فہم شاعری ہے۔ پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں قتیل شفائی کی غزلیں اور رومانوی گیتوں کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    انھوں نے نغمہ نگاری کا آغاز فلم تیری یاد سے کیا تھا جب کہ غزل اور دیگر اصنافِ سخن میں بھی اپنے جذبات اور خیالات کو سادہ اور نہایت پُراثر انداز سے پیش کیا۔ دنیا بھر میں قتیل شفائی اردو شاعری کا ایک مستند اور نہایت معتبر حوالہ ہیں۔

    1994 میں قتیل شفائی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ آدم جی ایوارڈ، امیر خسرو ایوارڈ سمیت دیگر اہم ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے۔

  • معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    معروف شاعر ڈاکٹر راحت اندوری 69 برس کے ہوگئے

    اندور: عصر حاضر کے مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے زندگی کی 69 بہاریں دیکھ لیں۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جنوری 1950 کو بھارت میں پیدا ہونے والے راحت اندوری پیشے کے اعتبار سے اردو ادب کے پروفیسر رہ چکے بعد ازاں آپ نے کئی بھارتی ٹی وی شوز میں بھی حصہ لیا۔

    ڈاکٹر راحت اندوری نے نہ صرف بالی ووڈ فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی بلکہ گلوکاری کے کئی شوز میں بہ طور جج حصہ بھی لیا۔

    عام طور پر راحت اندوری کو نئی پوت بطور شاعر ہی پہچانتی ہے، انہوں نے نئی نسل کو کئی رہنمایانہ باتیں بتائیں جو اُن کے فنی سفر ، تلفظ اور گلوکاری میں معاون ثابت ہوئی۔

    آپ کے والد رفعت اللہ قریشی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے، راحت اندوری بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم نوتن (مقامی) اسکول سے حاصل کی بعد ازاں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن مکمل کیا۔

    سن 1975 میں آپ نے بھوپال میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا، تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے آپ نے 1985 میں بھوج اوپن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    آپ کی تصانیف میں دھوپ دھوپ، میرے بعد، پانچواں درویش، رت بدل گئی، ناراض، موجود و غیرہ شامل ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز بیان، مختصر اور آسان الفاظ میں شعر کہہ کر اردو ادب اور سامعین کے دل جیتے۔

    چند منتخب اشعار

    زندگی کو زخم کی لذت سے مت محروم کر

    راستے کے پتھروں سے خیریت معلوم کر

    بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

    جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

    میرے ہجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
    آسمان لائے ہو ، لے آؤ، زمین پر رکھ دو

    اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
    اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو