Tag: اردو صحافت

  • ترقی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی کا تذکرہ

    ترقی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی کا تذکرہ

    ترقّی پسند شاعر، ادیب اور معروف صحافی حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنّف حسن عابدی نے ادب اور صحافت میں مقام بنایا تھا اور بحیثیت کالم نگار قارئین میں پہچانے جاتے تھے۔

    حسن عابدی کا اصل نام سیّد حسن عسکری تھا۔ 7 جولائی 1929 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اعظم گڑھ اور الہ آباد کے تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کیں اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ بعد میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے اور یہیں وفات پائی۔

    لاہور میں حسن عابدی نے 1955ء میں روزنامہ آفاق سے وابستگی اختیار کی اور اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کے زیرِ ادارت جریدہ لیل و نہار شایع ہوتا تھا۔ حسن عابدی اس سے منسلک ہوگئے اور وہاں‌ انھیں اپنے وقت کے کئی نام ور ادیبوں، شعراء اور اہلِ قلم سے ملاقات کا موقع ملا اور ان کی صحبت میسر آئی۔ لاہور کی ادبی مجالس اور اہلِ علم و دانش کی محافل میں شرکت کے ساتھ حسن عابدی نے اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ کراچی آئے تو یہاں بھی صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ انھوں نے کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کی ایک بڑی تعداد ان کی فکر اور زورِ‌ قلم کی گرویدہ ہوئی۔

    حسن عابدی نے اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں کے ساتھ کئی کتب کے تراجم بھی دیے۔ ان کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشتِ نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ اردو ادب میں آپ بیتی اور تذکرے و یادداشتیں بھی مقبول رہی ہیں اور خاص طور پر وہ شخصیات جنھوں نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہو، ان کے پاس کئی اہم اور دل چسپ واقعات، مختلف شخصیات کے تذکرے اور بہت سے قصائص ضرور ہوتے ہیں، اور حسن عابدی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے طویل عرصہ اس دشت کی سیاحی میں‌ گزارا تھا اور مشاہیر سے ان کی رفاقت رہی تھی۔ سو، ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب بعنوان جنوں میں جتنی بھی گزری، ادبی حلقوں اور باذوق قارئین تک پہنچی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ حسن عابدی نے ایک کتاب بھارت کا بحران کے عنوان سے بھی ترجمہ کی تھی۔

    حسن عابدی نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ کئی کہانیاں اور بچوں کے لیے نظمیں ان کے قلم سے نکلیں اور بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب شریر کہیں‌ کے شایع ہوئی۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں بھی کتابی شکل میں شایع کی گئیں۔ صحافت کے موضوع پر حسن عابدی کی ایک نہایت عمدہ کتاب اردو جرنلزم کے عنوان سے شایع ہوئی جو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں اور تمام صحافیوں کی راہ نمائی کرتی ہے۔ فاضل مصنّف نے بالخصوص طلباء کے فہم کے پیشِ نظر اس کتاب کو سادہ اور آسان زبان میں تحریر کیا ہے۔ یہ صحافت کے مختلف شعبہ جات کی باریکیوں اور مسائل پر جامع کتاب ہے۔

    اس زمانے میں جب پاکستان میں ترقی پسند ادب سے وابستہ قلم کاروں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں۔ حسن عابدی کو بھی اپنے نظریات کی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ جیل گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں حسن عابدی روزنامہ ڈان سے منسلک تھے۔

    یہاں ہم حسن عابدی کی غزل سے دو اشعار نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • کفن کا کپڑا اور پرمٹ!

    صاحب زادہ خورشید احمد ‘اے جی’ بلوچستان تھے۔ ان دنوں لٹھے اور کفن کے کپڑے پر کنٹرول تھا اور یہ باقاعدہ پرمٹ سے ملا کرتا تھا۔

    بلوچستان کے بی ایریا میں کفن کا کپڑا شاہی جرگے کے اراکین اور سرداروں کے ذریعے لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ مسلم لیگ سردار اور نوابی سسٹم کے خلاف تھی۔ اس لیے ہفتہ وار ”خورشید“ اور ہفتہ وار ”الاسلام“ کے صفحات اس سسٹم کے خلاف بھرے رہتے تھے۔ ان دنوں فضل احمد غازی ان دونوں اخباروں کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے ایک خبر شایع کی کہ مری کے علاقے میں ستر، اسّی روپے کے عوض ایک کفن کا کپڑا ملتا ہے (حالاں کہ کفن کے لیے کنٹرول ریٹ بہت ہی کم تھا۔) اور وہاں کے لوگ اتنے غریب تھے کہ کفن نہ ملنے کی وجہ سے اپنے مردوں کو چٹائیوں میں لپیٹ کر دفن کر دیتے تھے۔

    اس اخبار کی اشاعت پر سردار دودا خان بہت مشتعل ہوئے اور گھبرا کر کچھ سرداروں سمیت ’اے جی جی‘ کے پاس شکایت لے کر پہنچے۔ اے جی جی نے فضل احمد غازی کو بلایا اور اس خبر کا ذریعۂ اطلاع اور ثبوت مانگا۔ ظاہر ہے کہ فضل احمد غازی اپنے اخبار کے نامہ نگار کا نام کس طرح بتاتے، جب کہ وہ نامہ نگار اسی سردار کے علاقے کا آدمی تھا۔ اس کی موت یقینی تھی، اگر نام بتا دیا جاتا، کیوں کہ سرداروں کو ان دنوں بہت اختیارات حاصل تھے۔

    فضل احمد غازی نے نامہ نگار کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ’اے جی جی‘ سے کہا کہ میرے پاس صرف ایک ثبوت ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو قبر بتاتا ہوں۔ آپ اسے کھدوائیں، اگر اس میں مردہ چٹائی میں لپٹا ہوا نکل آئے، تو آپ سزا کے طور پر سردار صاحب کو دفن کردیں اور اگر مردہ کفن میں ملبوس نکلے، تو سزا کے طور پر مجھے دفن کر دیں۔ جواب معقول تھا۔ ’اے جی جی‘ جو بہت مشتعل تھے، ٹھنڈے پڑ گئے اور بولے ”کیا تم مجھے مروانا چاہتے ہو، جو قبر کھودنے کے لیے کہہ رہے ہو؟“

    اور اس کے فوراً بعد سردار کی طرف رخ کر کے کہا ”کیا یہ چیلنج قبول ہے؟“ سردار کو تو یقین تھا کہ جس قبر کو کھودا گیا، اس میں سے مردہ چٹائی میں نکلے گا، اس لیے اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ قبر کھدوانے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر ’اے جی جی‘ نے کہا کہ ”تم قبر نہیں کھدوا سکتے، تو میں اسے کس بات پر سزا دوں۔ کیوں کہ اس کا ثبوت تو قبر میں ہے۔“

    (کمال الدین احمد، تصنیف ”صحافت وادیٔ بولان میں، سے اقتباس)

  • ’’مفرحُ القلوب‘‘ جس کے خریداروں میں کئی والیانِ ریاست اور امراء شامل تھے

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ جس کے خریداروں میں کئی والیانِ ریاست اور امراء شامل تھے

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ فارسی، اردو زبانوں کے علاوہ کئی بڑے شہروں سے بڑی مقامی زبانوں میں بھی اخبار جاری ہوتے تھے جن کا قاری اہم اور مختلف نوعیت کی خبروں کے ساتھ اپنی دل چسپی کے موضوعات پر تحریریں پڑھ سکتا تھا۔

    برطانوی راج میں بالخصوص اخبار کا مطالعہ ایک اہم سرگرمی اور دل چسپ مشغلہ رہا ہے۔ ماقبل اور تقسیمِ ہند کے بعد بھی جب آج کی طرح برقی میڈیا اور ڈیجیٹل ذرایع ابلاغ موجود نہ تھے، تو حال یہ تھا کہ گھروں اور دکانوں‌ پر بزرگ اور ناخواندہ افراد پڑھے لکھے لوگوں سے باقاعدگی سے اخبار سنتے تھے۔

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ فارسی زبان کا ایک ہفت روزہ تھا جو 1855ء میں جاری کیا گیا۔ مغلیہ عہد میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی اور اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بھی اسے پڑھا اور سمجھا جاتا تھا۔

    ’’مفرحُ القلوب‘‘ سَر بارٹل فریئر کی خواہش پر شروع کیا گیا تھا۔ ویلز کا باسی بارٹل فریئر سول سروسز کے تحت برطانوی راج میں انڈیا آیا تھا۔ وہ اداروں میں ملازمت اور عہدوں‌ پر ترقّی کرتا ہوا سندھ کا چیف کمشنر مقرر ہوا۔ اس نے سندھ کے دوسرے گورنر کی حیثیت سے 1851ء سے 1859ء تک کام کیا اور کمشنر سندھ کے طور پر اپنی محنت، لگن اور جدوجہد سے یہاں کے لوگوں میں نام و مقام بنایا۔ بارٹل فریئر کے عہد میں کراچی نے بہت ترقیّ کی اور اسی کے طفیل کراچی سے پہلا باقاعدہ سرکاری اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔

    مفرحُ القلوب (ہفت روزہ اخبار) برطانوی راج میں سَر بارٹل فریئر کی تجویز پر کراچی میں مقیم ایرانی قونصل شمسُ العلماء مرزا سیّد مخلص علی مشہدی علوی نے جاری کیا تھا۔ مرزا مخلص علی کے بعد اس کی ادارت ان کے فرزند مرزا محمد شفیع نے سنبھالی اور بعد میں‌ مرزا محمد جعفر اور مرزا محمد صادق اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ گو کہ اس ہفت روزہ کی عمر کم تھی اور دس برس بعد 1906ء میں اسے بند کر دیا گیا، لیکن اس کا نام صحافتی تاریخ میں درج ہے۔

    مفرحُ القلوب عرض میں‌ 20 انچ، اور 30 انچ طول کی تقطیع کے ساتھ 16 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس ہفت روزہ کے ہر صفحے پر دو کالم ہوتے تھے۔ فارسی کے اس اخبار کے ہر شمارہ میں خبروں اور مضامین کے علاوہ باذوق قارئین کو غزلیات بھی پڑھنے کو ملتی تھیں۔ فارسی زبان کے اس ہفت روزہ میں کبھی کبھی اردو زبان میں‌ مضامین اور شاعری بھی شایع کی جاتی تھی۔

    اس ہفت روزہ کو امداد دینے والوں کی مدح میں شذرات بھی اس میں شامل کیے جاتے تھے۔ عام اور تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ اس کے خریداروں میں مشہور اور قابلِ ذکر شخصیات میں والیٔ اودھ نواب واجد علی شاہ، شاہِ مسقط، ولی عہدِ ایران، والیٔ اصفہان، خیر پور کی ریاست کے والی میر علی مراد خان تالپر اور ریاست بڑودہ کی جمنا بائی بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کئی امراء فارسی کا یہ ہفت روزہ خریدتے تھے۔

    برصغیر میں صحافت سے متعلق کتب میں لکھا ہے کہ مفرحُ القلوب نے خبروں اور اسلوبِ بیان میں اعتدال اور توازن برقرار رکھا اور ایک طرف تو ہفت روزہ کی برطانوی حکومت سے موافقت اور اطاعت شعاری واضح تھی اور دوسری طرف مقامی امراء اور والیانِ ریاست سے بھی اس کی وفاداری کا اظہار ہوتا تھا۔ اس اخبار کا صدر دفتر کراچی شہر میں‌ تھا۔

  • صحافت کے گلشن میں فیض کا سوز اور لحن

    صحافت کے گلشن میں فیض کا سوز اور لحن

    کسی بھی جمہوریت اور آزاد معاشرے میں ذرایع ابلاغ بالخصوص اخبارات اور رسائل میں خبر کا معروضی انداز، کسی بھی واقعے اور مسئلے پر رپورٹ میں غیر جانب داری بنیادی صحافتی اصول ہیں اور اسی طرح اداریہ نویسی بھی حق بات کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے۔

    کوئی بھی مدیر جس فیصلے، پالیسی یا کام کو غلط سمجھتا ہے اس پر اپنے روزنامہ کے اداریے میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اور اس طرح معاشرے کی بہتری کے لیے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اداریہ نویسی اردو اور انگریزی اخبار کی ایک نہایت سنجیدہ، مضبوط اور مستحکم روایت ہے۔ اداریہ ایسی تحریر ہوتی ہے جو عموماً مستند صحافی اور تجربہ کار مدیر یا ناشر کے قلم سے نکلتی ہے۔ اداریہ نویس اگر تخلیقی ذہانت رکھتا ہے اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ وسیع مطالعہ کا حامل ہو تو اہم، نہایت سنجیدہ اور حساس معاملات پر اپنا اداریہ نہایت خوب صورت اور دل نشیں پیرائے میں رقم کرتا ہے تاکہ وہ لائقِ توجہ بنے اور ہر قاری کو یکساں طور پر متاثر کرے۔

    فیض احمد فیضؔ ہماری فکری، ادبی اور صحافتی روایت کا روشن استعارہ ہیں۔ وہ دانش وَر تھے، استاد تھے، انقلابی فکر کے پرچارک، مزدور راہ نما اور عہد ساز شاعر بھی، لیکن وہ ایک مدیر اور صحافی کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی صحافت کے گلشن میں اپنی فکر کے پھول کھلائے اور اس کا رنگِ بیاں خوب نکھارا۔ وہ ادب اور صحافت دونوں ہی میں ترجمانِ حیات رہے اور سب کی نظروں میں احترام اور اعتبار پاپا۔

    سید سبط حسن جو دنیائے صحافت میں ان کے رفیقِ خاص رہے وہ ’سخن در سخن‘ میں فیض صاحب کی صحافتی خدمات پر یوں رقم طراز ہیں:

    ”فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہ لکھا۔ بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی۔ اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دل چسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے کر پڑھتے تھے۔“

    فیض نے اداریہ نویسی میں نئی طرز ایجاد کی جس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’بیادِ صحبتِ نازک خیالاں‘ میں لکھا:

    ’فیض صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کی ابتدا میں واقعی بڑی محنت کی تھی۔ انہوں نے پاکستان ٹائمز میں اداریہ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ نکالا اور اس کو ایک ادبی ذائقہ بھی دیا۔ ان کے اس زمانے کے اداریوں میں دو تین آج بھی میری یاد میں محفوظ ہیں۔ ایک تو شاید 1951 کے اوائل میں جب لیاقت علی خان نے کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے اس بنا پر پس و پیش کی کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ بھی زیرِ بحث لایا جائے اور پھر کسی واضح یقین دہانی کے بغیر ہی شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو فیض نے Westward Ho کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جو والٹر اسکاٹ کے ایک ناول کا نام ہے۔ یہ Charles Kingsley کا ناول ہے۔ وہاں کشمیر پہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی اور لیاقت علی خان خالی ہاتھ واپس آئے تو فیض کے اداریے کا عنوان تھا The Return of the Native جو ٹامس ہارڈی کے ایک ناول کا نام ہے۔‘

    ڈاکٹر آفتاب احمد نے مخزن کے مدیر، شیخ عبدالقادر کے انتقال پر اداریے کا بھی ذکر کیا ہے جو فیض نے ان کے بقول ’دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا تھا۔‘
    فیض نے ایک اداریے میں معاصر عالمی صورتِ حال پر لکھاری کے کردار پر بات کی تو ٹینی سن کی نظم Ring Out Wild Bells سے اس کا عنوان مستعار لیا:
    Ring out the old

    اسی نظم کی ان لائنوں پر اداریہ ختم ہوتا ہے:

    Ring out the thousand wars of old
    Ring in the thousand years of peace

  • "مشرق” کا فیچر نگار ریاض بٹالوی

    "مشرق” کا فیچر نگار ریاض بٹالوی

    یہ تذکرہ ہے ریاض‌ بٹالوی کا جنھوں‌ نے کوچۂ صحافت میں بڑا نام و مقام بنایا۔ پاکستان کے اس قابل اور باصلاحیت صحافی نے جس صنفِ تحریر میں‌ اپنا زورِ قلم آزمایا وہ فیچر نگاری ہے۔

    فیچر رائٹنگ کو صحافت کی ایک اہم، نہایت مضبوط اور توانا قسم شمار کیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب تخلیقی صحافت اور فیچر نگاروں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ریاض بٹالوی بھی اسی میدان میں‌ معروف ہوئے۔

    فیچر یا خصوصی رپورٹ کسی بھی صحافی کے علم اور مطالعے کے ساتھ اس کے مشاہدے، تحقیق اور حاصل کردہ معلومات کا وہ خزانہ ہوتی ہے، جسے ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے فیچر رائٹر فنی مہارت اور معیار کو ملحوظ رکھتا ہے۔ وہ اپنی تحریر کو ادبی پیرائے میں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے جو اس کی معلومات میں اضافہ کرتی ہے۔

    اردو صحافت میں علم اور تحقیق پر مبنی خصوصی مضامین اور فیچر نگاری میں کئی دہائیوں تک مصروف رہنے والے ریاض بٹالوی کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گورداسپور سے تھا۔ وہ قصبہ بٹالہ میں 5 فروری 1937ء کو پیدا ہوئے، ان کا نام ریاضُ الحسن رکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ان کا خاندان ہجرت کر کے گجرات آ بسا تھا۔

    وہ مشکلات کا زمانہ تھا جس میں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تاہم جلد روزگار کے لیے تگ و دو شروع کرنا پڑی اور صحافت میں‌ قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا مگر مقامی سطح پر کام یاب نہ ہوسکے۔ گجرات سے نکلنے والے مختلف مقامی اخبارات میں لکھنے اور چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور ساتھ ہی وہ افسانے بھی لکھنے لگے۔ بعد میں انھوں نے صحافت کو مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی گئے جہاں نسیم حجازی کے ”کوہستان“ سے وابستہ ہو گئے۔ 1963ء میں لاہور سے ”روزنامہ مشرق“ کا آغاز ہوا تو وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔

    ایّوب خان کا دور آیا تو انھوں نے فیچر نگاری کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے افسانوی اسلوب و مہارت کو آزمایا جسے بہت پذیرائی ملی۔ ان کی تحریریں نمایاں جگہ پاتیں اور جلد ہی اردو صحافت میں فیچر کو ان کی بدولت نئی اڑان مل گئی۔ ریاض بٹالوی اپنے ساتھیوں کی مدد سے موضوع تلاش کرتے اور منظوری کے بعد مواد اکٹھا کرتے، وہ لوگوں سے ملتے، انھیں کریدتے اور شام کو آ کر افسانوی انداز میں‌ اپنی معلومات کو سپردِ قلم کر دیتے۔ ریاض بٹالوی کا فیچر اخبارات کے سنڈے ایڈیشن میں نمایاں‌ طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ وہ سلگتے موضوعات پر چشم کشا حقائق بڑی محنت اور مہارت سے اکٹھا کرتے اور رفتہ رفتہ ان کے مخصوص طرزِ تحریر نے انھیں‌ مقبول فیچر نگار بنا دیا۔

    ریاض بٹالوی کے فیچر افسانوی زبان و حقائق کے بھرپور عکاس ہوتے تھے۔ ان کے باتصویر فیچر ہر خاص و عام میں پسند کیے جاتے تھے۔ انھوں نے متعدد موضوعات پر لکھا اور کئی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے حقائق کو اجاگر کیا۔ ریاض بٹالوی کے فیچروں کا ایک سلسلہ ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ کے عنوان سے شروع ہوا جو بہت مقبول ہوا۔

    پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ریاض بٹالوی ٹیلی ویژن ناظرین میں بھی بڑا مقام رکھتے تھے۔ اس دور میں پی ٹی وی کا راج تھا جس پر ان کے فیچروں کی بنیاد پر مقبول ترین سیریل ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ شروع کی گئی۔

    ریاض بٹالوی کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے 1986ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ انھوں نے مشرق کے علاوہ کئی اخبارات کے لیے کالم اور فیچر لکھے اور وابستگی اختیار کی تاہم مشرق کے ساتھ ان کا تعلق تیس سے زائد سال پر محیط تھا۔

    وہ 15 جنوری 2003ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں میکلوڈ روڈ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    آج معروف ادیب، شاعر اور اردو ممتاز صحافی طفیل احمد جمالی کی برسی ہے۔ وہ 12 اگست 1974ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ایک مزاح نگار کی حیثیت سے خاصے مقبول تھے۔ ان کے فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔

    طفیل احمد جمالی 1919ء میں بنارس میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن کے بعد منشور دہلی سے منسلک ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے جہاں مختلف مؤقر روزناموں سے منسلک رہے۔ طفیل جمالی نے انجام، نگار، لیل و نہار اور نمکدان کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

    انھوں نے ملکی حالات اور سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں پر فکاہیہ کالم لکھ کر شہرت حاصل کی۔ طفیل احمد جمالی نے چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔

    وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    سید حسن عسکری نے اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے شہرت اور مقام حاصل کیا۔ آج اردو کے اس ترقی پسند ادیب، معروف شاعر اور صحافی کی برسی ہے۔ حسن عابدی 6 ستمبر 2005 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کی ایک ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • روزنامہ مسلمان: لگ بھگ صدی پرانا اردو اخبار جسے آج بھی کاتب تحریر کرتے ہیں

    روزنامہ مسلمان: لگ بھگ صدی پرانا اردو اخبار جسے آج بھی کاتب تحریر کرتے ہیں

    "مسلمان” کی خاص بات تو 1927 سے اس کی بلاناغہ اشاعت ہے اور انفرادیت یہ کہ آج بھی یہ اخبار کتابت کے عمل سے گزر کر قارئین تک پہنچتا ہے۔

    موجودہ دور میں جب تحریر اور اخبار کی تزئین کے لیے اردو سافٹ ویئرز آسانی سے دست یاب ہیں تب بھی بھارتی شہر چنائے کا یہ روزنامہ دہائیوں قبل پرانے تحریر و اشاعت کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہے۔

    تقسیمِ ہند کے موقع اور اس کے نتیجے میں جوانب سے عظیم ہجرت بھی اس اخبار کی اشاعت پر اثر انداز نہ ہوسکی اور آج بھی روزنامہ مسلمان چنائے میں اردو بولنے اور سمجھنے والے مسلمانوں کے گھروں میں پڑھا جاتا ہے۔

    چنائے جو بھارتی ریاست تامل ناڈو کا شہر ہے کبھی مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں کی زبان تامل ہے جو یوں تو وہاں کے سبھی باسی بولتے اور سمجھتے ہیں، مگر مسلمانوں کا ایک گروہ اردو کا شیدائی اور اسے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت تصور کرتا ہے۔ اردو رسمُ الخط سے واقف عمر رسیدہ ہندو بھی اگر ہاتھ لگے تو یہ اخبار پڑھ ہی لیتے ہیں۔

    سید عظمتُ اللہ نے 1927 میں اس روزنامے کا اجرا کیا تھا جن کی وفات کے بعد ان کے بیٹے فیضُ اللہ نے اس کی ادارت سنبھالی اور ان کے انتقال کے بعد سید عارفُ اللہ چیف ایڈیٹر ہیں۔ اخبار کے ناشر سید فضل اللہ ہیں۔

    یہ اخبار چنائے اور قرب و جوار کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ چار صفحات پر مشتمل اس اخبار کو کاتب تحریر کرتے ہیں، اخبار کی ضرورت کے لیے کمپیوٹر کا استعمال بہت محدود ہے۔ تاہم کمپیوٹر دفتری امور اور دیگر کاموں کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ روشنائی اور مختلف قلم اس اخباری دفتر کی میز پر نظر آتے ہیں جو دیگر اخبارات میں‌ نہیں‌ دیکھے جاتے۔

    یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ اخبار ایک صدی پوری کرنے جارہا ہے۔ چند سال بعد یہ اپنی اشاعت کے سو برس پورے کر لے گا۔

    چنائے کے مسلمانوں کی بڑی آبادی گھروں میں اردو بولتی ہے اور اسے اپنی مادری زبان کا درجہ دیتی ہے۔

  • ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    مولانا ظفر علی خاں ساری زندگی سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کے زیر اثر ان کے مضامین اور نظم و نثر کے موضوعات کی نوعیت سیاسی ہوتی تھی، مگر بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اور ادیب تھے۔

    ان کا نظریہ، فکر اور صحافت کا ڈھب ہی نرالا تھا۔ نظم و نثر میں سبھی ان کے کمال کے معترف ہیں۔ حاضر دماغ، طباع اور خوش مذاق تھے۔ کہتے ہیں چائے اور حقہ دونوں ان کے پسندیدہ تھے۔ گویا دھواں اور بھاپ ان کے ذہن کی مشین کو متحرک رکھتا تھا اور ان کا قلم اداریے، نظمیں لکھتا اور مختلف موضوعات پر تحاریر کو ان کی نظر سے گزار کر اشاعت کے قابل بناتا تھا۔

    تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔

    حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔

    چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
    جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

    شیخ کرامت ﷲ گجراتی سے مروی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ایک دفعہ اتحاد ملت کے جلسے منعقدہ گجرات میں جب رات کے ایک بجے صدارتی تقریر سے فارغ ہوئے تو چائے کی فرمائش کردی۔ اس وقت دیگچی کا ابلا ہوا دودھ ملنا مشکل تھا، جسے وہ چائے کے لیے بہ طور خاص پسند کرتے تھے۔

    شیخ کرامت ﷲ کہیں سے دودھ منگوانے میں کام یاب ہو گئے اور مولانا کی دل پسند چائے تیار کروا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ مولانا نے جونہی چائے کی چسکی لی، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔

  • بابائے اردو صحافت مولانا ظفرعلی خان کو گزرے 62 برس بیت گئے

    بابائے اردو صحافت مولانا ظفرعلی خان کو گزرے 62 برس بیت گئے

    تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کو گزرے آج 62 برس بیت گئے ہیں۔ آپ کے خاندان کا تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ہے، آپ کو بابائے اردو صحافت بھی کہا جاتا ہے۔

    مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی۔

    کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ نے اپنی ادارت میں اخبار ’دکن ریویو‘ جاری كيا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے خود کو بطور ادیب و صحافی منوایا۔

    آپ سنہ 1908ء میں لاہور آئے اور روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے 1903ء میں شروع کیا تھا۔ مولانا کو ’اردو صحافت کا امام‘ کہا جاتا ہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص مسلمانوں کے لیے نکالا گیا تھا۔

    اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا۔

    مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز تھے۔ صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ وہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں جبکہ ان کی مشہور کتابیں معرکہ مذہب و سائنس، غلبہ روم، سیر ظلمت اور جنگ روس و جاپان ہیں۔

    مولانا ظفر علی خان نے 27 نومبر، 1956ء کو وزیرآباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ محمد عبد الغفور ہزاروی نے ادا کی اور وہیں ان کی تدفین بھی ہوئی۔