Tag: اردو طنزومزاح

  • مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    میزبان اُس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کو مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

    اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکّی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

    علمُ الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے، ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

    میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے، ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے

    مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔

    میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پاؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پاؤ پستہ اور بادام پیس کر ملا دیا جائے اور محض دو انڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں، اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہو اور مرغ سے بڑا نہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔

    میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بُو آتی ہے۔‘‘

    مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو کر جاتا ہوں۔ میزبان نے جو وقت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی، نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔

    پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیا جس کا مفید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

    (ہندوستان کے معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    شعر و ادب اور تہذیب و تمدن کے مرکز شہر گلبرگہ کے سلیمان خطیب کو منفرد لب و لہجے میں ان کی مزاحیہ شاعری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دکن کے میدانِ مزاح نگاری میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی اور پاک و ہند میں مشہور ہوئے۔

    سلیمان خطیب نے متوسط طبقہ کے معاشرتی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 26 دسمبر 1922ء کو چٹگوپہ، کرناٹک کے ایک مہذب خطیب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بعد میں شہر گلبرگہ کو اپنا وطنِ ثانی بنایا۔ 1941ء سے 1977ء تک سرکاری ملازمت کی اور اس کے ساتھ قدیم دکنی لہجے میں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ 22 اکتوبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ‫1974ء میں حکومتِ کرناٹک نے انھیں اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا تھا اور اس کے علاوہ متعدد ادبی انعامات سلیمان خطیب نے اپنے نام کیے۔

    پہلی تاریخ، چھورا چھوری، ساس بہو، سانپ، ہراج کا پلنگ جیسی نظمیں سلیمان خطیب کی لازوال پہچان بنیں جن سے طنز و مزاح کے ساتھ حقیقت پسندی جھلکتی ہے اور مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’اٹھائیس تاریخ‘ ایک مفلوک الحال بیوہ کی درد بھری کہانی ہے جو اچھوتے انداز میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہرے طنز کا مظہر ہے۔

    کیوڑے کا بن، سلیمان خطیب کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ سلیمان خطیب عوامی شاعرتھے، ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذبات نظر آتے ہیں اور کیوڑے کا بن میں شامل کلام اس کی عمدہ مثال ہے۔

  • ہمیں جیل ہوجائے!

    ہمیں جیل ہوجائے!

    کہتے ہیں ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ ضرور مل جاتا ہے، لیکن لاکھ لاکھ تلاش کے باوجود مکان نہیں ملتا۔

    اسی چکّر میں یہ طے کر کے نکلے کہ یا مکان تلاش کر لیں گے ورنہ خود ہی لاپتا ہوجائیں گے! لیکن ہوا یہ کہ نہ مکان مل سکا اور نہ خود جیتے جی لامکاں ہوسکے! لیکن ہر مکان کو خالی سمجھ کر اس پر لپکنے کے چکّر میں کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے ضرور بچے!

    جب سارے شہر میں ایک بھی’’ٹولٹ‘‘ کا بورڈ نہ ملا اور نہ کسی نے بتایا کہ کسی کا کوئی مکان کہیں خالی ہے تو ہم نے اخباروں اور رسالوں میں ’’مکان چاہیے، مکان!‘‘ کے اشتہار نکلوائے۔ احباب کو دھمکی دی کہ اگر مکان نہ ملا تو مع سامان کے تمہارے یہاں دھرنا دیں گے، لیکن اس طرح مکان یا اس کا اتا پتا تو نہ ملا البتہ دوستوں کی بھیڑ ضرور چھٹ گئی۔

    جب ہم کسی خالی مکان میں تالا لگا دیکھتے تو اس خیال کے تحت اس کے چکّر لگانے لگتے کہ یہ ضرور خالی ہوگا۔ جس سے پاس پڑوس والوں کو شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کا ارادہ قفل شکنی کا تو نہیں؟ لیکن یہاں قفل شکنی تو کُجا کسی کی دل شکنی بھی نہیں کرسکتے اور اسی مروّت کے مارے آج مکان کی تلاش میں زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔

    ہوا یہ کہ جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے مالک نے ہمیں بڑے سبز باغ دکھائے کہ ’’اگر ہم کچھ دن کے لیے کہیں اور چلے جائیں تو وہ اس ٹوٹے ہوئے مکان کو توڑ کر نئی بلڈنگ کھڑی کردیں گے، جس میں ہمیں بجلی اور پانی کے پائپ وغیرہ کی خاص سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوں گی۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں میں آکر اپنے دوست خاں صاحب کے یہاں ڈیرا جمایا۔

    مالک مکان نے مکان بنوانے کی بجائے اسی کھنڈر کا پیشگی کرایہ اور پگڑی لے کر ایک نیا کرایہ دار بسالیا جبھی سے ہم مکان ڈھونڈتے اور خاں صاحب سے آنکھیں چراتے پھرتے ہیں۔

    ہمارے ایک دوست جو مکان تلاش کرنے میں ہماری کافی مدد کررہے تھے، سخت بیمار پڑگئے۔ ہم نے بہت جی لگا کر ان کی تیمار داری کی تاکہ وہ جلد از جلد اچّھے ہوکر ہمارے لیے مکان ڈھونڈ سکیں، لیکن جوں جوں ان کا علاج کیا، حالت بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست کا کفن دفن اور تیجا، چالیسواں اس خیال سے کر دیا کہ پگڑی اور پیشگی کرایہ نہیں دیا، مرحوم کی آخری رسوم ادا کر دیں اور ہم مرحوم کے مکان منتقل ہوگئے، لیکن ابھی ہم نے اچھی طرح سامان بھی نہ جمایا تھا کہ پولیس نے ہمیں نکال باہر کیا، کیوں کہ مرحوم کے پس ماندگان نے مکان اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا۔

    اس بار خاں صاحب نے بھی ہمیں پناہ نہ دی۔ مجبوراً ہم نے سامان اسٹیشن کے لگج روم میں جمع کروایا اور پلیٹ فارم پر رات کو سونے کے ساتھ ساتھ دن کو مکان کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تلاش کے باوجود کچھ دنوں میں گھر تو نہ ملا، لیکن ایک عدد گھر والی ضرور مل گئی۔ جس کی وجہ سے رات بسر کرنے کے لیے کرایہ پر رات میں ’’رین بسیرے‘‘ میں جگہ مل جاتی، لیکن مکان کے بارے میں ہماری مایوسی یہاں تک بڑھ گئی کہ ہم سوچنے لگے، کیوں نہ ہم دونوں کوئی ایسا جرم کر ڈالیں کہ ہمیں جیل ہوجائے اور اس طرح رہنے کا سہارا ہوجائے۔

    (معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی تحریر سے چند شگفتہ پارے)

  • ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے، تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔

    بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔

    محبّت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔ اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔

    اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑاے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکّار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔

    عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّٰی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنٰی اور بے سود تھا۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں، کیوں کہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔

    سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے، نہ تو اس کے قد و قامت، جسامت اور ضخامت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کی مشرق کی طرف سے طلوع ہونے کی عادت بدلی ہے۔ مغرب نے سائنس وغیرہ کے معاملے میں اتنی ترقّی کرلی لیکن سورج نے اس ترقّی اور مغربی ممالک کے بڑھتے اقتدار کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہی حال چاند ستاروں کا ہے۔ ہوا بھی ویسی کی ویسی ہی ہے، جیسی کہ پہلے تھی۔

    اس میں آلودگی ذرا زیادہ ہوئی ہے، لیکن یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے، لیکن دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ خود آدمی بھی اب اتنا بدل گیا ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ یہ آدمی ہے بھی یا نہیں۔

    جہاں تک رفتار کا تعلق ہے، دنیا کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس لمحہ بدل جائیں گی۔ لمحہ لمحہ بدلنے والی ان تین چیزوں میں پہلی چیز ہے قیمتیں۔ قیمتیں چاہے آلو کی ہوں یا رتالو کی۔ چولھے کی ہوں یا دولھے کی، زر کی ہوں یا زمین کی، اس قدر تیزی سے بدلنے لگی ہیں کہ زمین کے سودے کی بات چیت ختم ہونے سے پہلے زمین کی قیمت میں دس بیس فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    دوسری چیز ہے عورتوں کا مزاج، یہ بھی کچھ کم تیزی سے نہیں بدلتا۔ ہمارے یہاں تو خیر ابھی بیسویں صدی کے آخری دہوں میں بھی غنیمت ہے کہ خواتین کسی اور بات کا نہ سہی، کم سے کم ازدواجی رشتوں کا تھوڑا بہت لحاظ کرتی ہیں، ورنہ دنیا میں ایسے کئی ملک موجود ہیں جہاں کی رہنے بسنے والی خواتین اس تیزی سے ان رشتوں کو بدلتی ہیں کہ مردوں کے فرشتوں کو بھی ان کے منصوبوں کی اطلاع نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالت میں جب جج محترم قانون کے حق میں فیصلہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ محترمہ اپنا فیصلہ بدل دیتی ہیں اور عدالت سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ ملزم کو یعنی اُن کے شوہر کو راہِ راست پر آنے کے لیے چند دنوں کی مہلت عطا کرے۔

    ہمارے یہاں عورتوں کے مزاج اس تیزی سے نہیں بدلتے۔ ان کے مزاج میں پہلے صرف رچاؤ تھا، اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورتوں کو اب مردوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ برابری کا درجہ تو حاصل تھا ہی، عورتیں اب سماج سدھار اور سیاست میں حصّہ لینے لگی ہیں حالاں کہ سماج سدھار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔

    عورتوں کو اس سے تعلق ہے بھی نہیں کہ کون سی چیز مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔ بیلن اور تھالی لے کر جب وہ شارعِ عام پر نکل آتی ہیں تو سرکار لرزہ براندام ہوجاتی ہے، کیوں کہ عورتوں کو سرکار سے جب بھی کوئی مطالبہ کرنا ہوتا ہے وہ اتنے سخت لہجے میں مطالبہ کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکارسے نہیں اپنے گھر میں اپنے شوہر سے مخاطب ہیں۔ عورتوں کے اسی لب و لہجہ کو شاعروں نے سراہا ہے۔

    کہا جاتا ہے عورتوں کا مزاج، باورچی خانے میں بھی قابو میں نہیں رہتا۔ ویسے تو عام طور پر عورتوں نے کھانا پکانا ہی ترک کردیا ہے، لیکن جنھوں نے ترقّی کی اس منزل پر قدم نہیں رکھا ہے جب بھی کھانا پکاتی ہیں اپنا منصوبہ ہر دوسرے لمحے بدل دیتی ہیں۔

    کسی ایک پراجیکٹ پر کام کرنا ان سے ہو نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تیّار کی ہوئی ڈش کھانے کی میز پر پہنچتی ہے تو پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ غذا ہے یا راتب۔ شوہر اس غذا کو اس لیے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کڑی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

    (طنز و مزاح نگاری میں ممتاز یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون فیشن سے اقتباس)

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • "عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کی ترکیبیں”

    "عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کی ترکیبیں”

    میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط و کتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیر معمولی تفصیل اور رقّت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔

    گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لیے اپنی شناساؤں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں۔ ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں، ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کر دیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو، گلی میں روزمرّہ آنے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو، کوئی اُڑتی اُڑتی خبر ہو، کوئی افواہ ہو۔ غرض یہ کہ اس ہم دردی کا حلقہ بہت وسیع ہے: ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“

    نہ صرف یہ بلکہ رقّت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سب ہی اقوام کا ایک ہی سا حال ہے۔ غیر ممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔

    وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم و الم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لیے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔

    کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بسترِ مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک پر بھوکا اور ننگا کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھی رقّت دلانی ہو تو اسے سید بنا دیتے ہیں۔ یہ کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مر رہی ہے۔ دوا کے لیے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دیتے جاؤ۔

    کبھی کسی سگھڑ خوب صورت نیک طینت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا۔ یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا۔ اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زار و قطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔

    (اردو ادب میں طنز و مزاح نگاری کے لیے نام وَر پطرس بخاری کے ایک چٹکیاں‌ لیتے مضمون سے انتخاب)

  • زعفران اور ریزگاری….

    زعفران اور ریزگاری….

    بچپن کی بات ہے شاید اسی لیے اچھی طرح یاد ہے۔ پورے قصبہ چاکسو (خورد) میں تجارت وجارت تو بڑی بات ہے، کسی مسلمان کی پنساری تک کی دکان نہ تھی۔ سن 1933 میں چند مسلمانوں نے قرضِ حسنہ اور چندہ جمع کرکے سرمایہ فراہم کیا اور صولت یار خاں، ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس کو مسلمانوں کے محلّے میں پرچون کی دکان کھلوا دی۔

    اس زمانے میں کوڑیاں بھی چلتی تھیں۔ دھیلے کا گھی اور چھدام کا بینگن خریدتے غریبوں کو ہم نے بھی دیکھا ہے۔ چھوٹے بینگن کا "جھونگا” اس کے علاوہ۔ صولت یار خاں کو منافع سے تو دل چسپی تھی، لیکن حساب کتاب کو مکروہ گردانتے تھے۔

    دکان میں ان کی مسند، تکیے، حقے اور ترازو کے سامنے آٹا، شکر، بیسن، نمک، مرچ، دالیں اور مسالے، الٹی ہوئی آستین کی طرح ادھ کھلی بوریوں میں بھرے رہتے تھے۔ جو چیز جتنی بکتی اس کی قیمت اسی بوری یا کنستر پر سارے دن پڑی رہتی تاکہ حساب میں آسانی ہو۔ شام کو ہر جنس کی بکری کو علیحدہ علیحدہ گنتے۔

    روکڑ کی میزان نہیں بیٹھتی تو اپنا دل نہیں جلاتے تھے۔ بہی کھاتوں میں ایک نئی مد "بھول چوک لینی دینی” کھول لی تھی۔ روزانہ کیش میں جو کمی واقع ہوتی وہ اسی کے متھے مارتے۔ ہوتے ہوتے اس مد میں کافی رقم چڑھ گئی جو تقریباً اصل سرمایہ کے برابر تھی۔

    شبِ برات کی صبح مرزا عبدالودود بیگ جن کی عمر اس وقت سات سال ہوگی، چھ پیسے کی زعفران لینے گئے۔

    زعفران کی پڑیا لے کر انہوں نے صولت یار خاں کو ایک کلدار روپیہ تھمایا۔ اتفاق سے زعفران کی ابھی بوہنی نہیں ہوئی تھی اور اس کے ڈبے پر کوئی ریزگاری نہیں تھی۔ صولت یار خاں نے بندھی بندھائی پڑیا مرزا کے ہاتھ سے چھین کر کہا۔ "ہشت! ہمارے پاس ریزگاری نہیں۔ گوبندا بنیے کی دکان سے سے خرید لے۔

    ” مرزا نے انگلی سے ریزگار کی ان ڈھیریوں کی طرف اشارہ کیا جو تقریباً ہر بوری اور کنستر پر پڑی تھیں۔ ارے صاحب وہ تو آپے سے باہر ہوگئے۔ دھمکی آمیز انداز سے "دو سیری” اٹھاتے ہوئے بولے۔

    "مرغی کے! دوسری ڈھیری میں سے ریزگاری نکال کے تجھے دے دوں تو شام کو حساب کون کرے گا! تیرا باپ۔!”

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب زرگزشت سے اقتباس)

  • "بجلی بچانے کے طریقے”

    "بجلی بچانے کے طریقے”

    وفاقی وزیرِ "قلتِ آب و بند بجلی” پرویز اشرف نے کچھ دنوں پہلے عوام کو، بہ الفاظِ دیگر، یہ کہتے ہوئے ڈانٹا تھا، ”اوئے! رولا نہ پاؤ، بجلی بچاؤ۔“ اب انھوں نے یہی بات بڑے پیار سے کہی ہے۔ ساتھ ہی عوام کو یہ کہتے ہوئے ڈرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ تین ہفتوں تک بجلی کی صورتِ حال بدترین رہے گی۔

    اس جملے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ وزیر موصوف موجودہ صورتِ حال کو محض بد یا بدتر سجھتے ہیں۔ ایسا نہیں، مسئلہ دراصل اردو کی تنگ دامنی کا ہے۔ اس بیچاری کے پاس وہ لفظ ہی نہیں جو ”بد ترین“ سے آگے کی صورتِ حال کا نقشہ دکھا سکے۔ بس یہی ہو سکتا ہے کہ ”بد“ کے آگے بہت سارے ”تر“ لگا کر آخر میں ”ترین“ لگا دیا جائے۔

    وزیرِ محترم کا حکم سر آنکھوں پر، مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ عوام کس وقت بجلی بچائیں؟ کہ بجلی نے تو خود ہی اپنے آپ کو عوام سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ آئی، جھلک دکھائی اور یہ جا وہ جا۔

    بہ ہر حال، جمہوری حکم رانوں کا حکم ہے، سو ماننا تو ہوگا، ورنہ نافرمانی جمہوریت کے خلاف سازش گردانی جائے گی، چناں چہ عوام کی آسانی کے لیے ہم بچی کُھچی بجلی بچانے کے کچھ نسخے پیش کردیتے ہیں:

    ٭ ٹی وی ہمیشہ بند کر کے دیکھیں۔ یوں بجلی کے ساتھ آئینے کا خرچ بھی بچے گا۔

    ٭ استری ہندی کی ہو یا اردو کی، بیکار چیز ہے۔ البتہ ہندی والی استری بجلی سے نہیں چلتی، ویسے ہی کرنٹ مارتی ہے، اس لیے اسے گھر میں پڑا رہنے دیں۔ لیکن اردو والی استری فی الفور کباڑیے کو بیچ دیں اور ان پیسوں سے موم بتیاں خرید لیں۔

    ٭ استری بِک گئی! اب کپڑے نہ استری ہوں گے نہ ہینگر میں ٹنگیں گے۔ تو اب فریج کو الماری بنالیں اور کپڑے اس میں تہ کر کے رکھ دیں۔

    ٭ فریج الماری بن گیا، اب خالی الماری کیا یوں ہی بھائیں بھائیں کرتی رہے گی؟ اسے استعمال میں لائیں۔ کمپیوٹر ڈبے میں بند کریں اور اسے الماری کو سونپ دیں۔

    ٭ کمپیوٹر ٹرالی خالی خالی کتنی بُری لگ رہی ہے۔ چلیے! ایئر کنڈینشر اُکھاڑیے اور لاکر اس پر رکھ دیجیے۔

    ٭ اب گھر میں نہ کوئی شور ہے نہ مشغولیت، لہٰذا آپ با آسانی دستک سُن سکتے ہیں۔ پھر ڈور بیل کیوں لگا رکھی ہے؟ نکال پھینکیے۔

    ٭ ان بَلبوں اور ٹیوب لائٹوں کا آخر فائدہ کیا ہے؟ آپ نہ اپنا گھر پہلی بار دیکھ رہے ہیں اور نہ گھر والوں کو۔ یہ روشنی خواہ مخواہ ہی ہوئی نا۔ تو یہ تمام روشنیاں گُل کردیجیے۔

    (معروف صحافی، مزاح نگار اور شاعر محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے انتخاب، مصنف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیرِ‌اعظم کے ایک بیان پر یہ شگفتہ تبصرہ سپردِ قلم کیا تھا)

  • "موئے کبوتر باز”

    "موئے کبوتر باز”

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار، اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چناں چہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعثِ ذلّت سمجھتی ہیں۔

    آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانخواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان میں مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوتر باز” کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

    کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہو جاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کم بخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوش نودی کیا چیز ہے؟

    چناں چہ ہم غصّے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے، تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لیے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے۔ مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیر باشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔

    "مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟” یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکا تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔

    خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مرزا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چناں چہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔

    ( ممتاز ادیب اور مزاح نگار پطرس بخاری کے مضمون "میں ایک میاں‌ ہوں” سے اقتباس)