Tag: اردو طنزو مزاح

  • دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک پودوں اور لکڑی میں پایا جانے والا ایک کیڑا ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ یہ جس لکڑی کو لگ جائے اسے ختم کر کے چھوڑتی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے مشہور مزاح نگار مجتبی حسین کے مضمون سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ یہ ان کے مضمون دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات سے ماخوذ ہے۔ مصنّف ایک لائبریری میں جاتے ہیں جہاں اردو کے شاعر کے دیوان میں انھیں دیمک نظر آتی ہے۔ اس سے ہونے والی بات چیت کچھ یوں‌ ہے۔

    "میں(مصنّف) نے کہا، ’’اب جب کہ تم نے خاصے اردو ادب کو چاٹ لیا ہے تو یہ بتاؤ یہ تمہیں کیسے لگتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’شروع شروع میں یہ میرے پلے نہیں پڑا تھا۔ بڑا ریاض کیا۔ متقدمین کے دیوان چاٹے۔ مشکل یہ ہوئی کہ میں نے سب سے پہلے ’دیوانِ غالب‘ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ لہٰذا مولوی اسماعیل میرٹھی کی آسان اور زود ہضم نظمیں پہلے نوشِ جان لیں۔ پھر وہ کیا کہتے ہیں آپ کے مفلر والے شاعر، وہی جو پانی پت میں رہتے تھے مگر وہاں کی جنگوں میں شریک نہیں تھے۔ ارے اپنے وہی مولانا حالی۔ ان کی نصیحت آمیز شاعری پڑھی۔ شاعری کم کرتے تھے نصیحت زیادہ کرتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے ان کی نصیحتوں پرعمل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج تمہارے گلے میں بھی روایات کا ایک بوسیدہ سا مفلر ہوتا۔ اب تو خیر سے سارا ہی اردو ادب میری مٹھی میں ہے۔ سب کو چاٹ چکی ہوں۔

    ایک بارغلطی سے جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی چاٹ لی طبیعت میں ایسا بھونچال آیا کہ سارا وجود آپے سے باہر ہونے لگا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے چار و ناچار، جاں نثار اختر کی گھر آنگن والی شاعری چاٹنی پڑی۔

    ویسے تو میں نے دنیا کی کم و بیش ساری زبانوں کی کتابیں چاٹ لی ہیں لیکن اردو شاعروں میں ہی یہ وصف دیکھا ہے کہ اپنے معشوق کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کوئی معشوق کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے تو کوئی انہیں بکھیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی وصل کا طالب ہے تو کوئی ہجر کی لذتوں میں سرشار رہنا چاہتا ہے۔ کوئی معشوق کو کوٹھے پر بلانے کا قائل ہے تو کوئی اس کا دیدار بھی یوں کرنا چاہتا ہے جیسے چوری کر رہا ہو۔ تم لوگ آخر معشوق سے چاہتے کیا ہو۔ اسے ہزار طرح پریشان کیوں کرتے ہو۔ اردو شاعری میں معشوق خود شاعر سے کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ یہ بات کسی اور زبان کے معشوق میں نظر نہیں آئی۔ اردو شاعروں کا عشق بھی عجیب و غریب ہے۔ عشق کرنا ہو تو سیدھے سیدھے عشق کرو بھائی۔

    کس نے کہا ہے تم سے کہ معشوق کی یاد آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر تارے گنتے رہو۔ اس کی یاد نے زور مارا تو اپنا گریبان پھاڑنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہے کپڑا کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ سیدھے سیدھے معشوق کے پاس جاتے کیوں نہیں۔ اپنے دل کا مدعا بیان کیوں نہیں کرتے۔ عاشق، بزدل اور ڈرپوک تو ایسے ہی چونچلے کر کے اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔‘‘

  • "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیوں کہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقّی کرنے کے اتنے مواقع کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہر ہنر خود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اور بلاوجہ دوسروں کو شاہراہِ کام یابی پر گام زن دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس موضوع پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اگرآپ کی مالی حالت مخدوش ہے تو فوراً ’لاکھوں کماؤ‘ خرید لیجیے۔ اگر مقدمہ بازی میں مشغول ہیں تو ’راہ نمائے قانون‘ لے آئیے۔اگر بیمارہیں تو ’گھر کا طبیب‘ پڑھنے سے شفا یقینی ہے۔ اس طرح ’’کام یاب زندگی‘‘، ’’کام یاب مرغی خانہ‘‘، ’’ریڈیو کی کتاب‘‘، ’’کلیدِ کام یابی‘‘، ’’کلیدِ مویشیاں‘‘ اور دوسری لاتعداد کتابیں بنی نوع انسان کی جو خدمت کر رہی ہیں، اس سے ہم واقف ہیں۔

    مصنّف ان کتابوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ازراہِ تشکر کلیدِ کام یابی، حصّہ دوم، لکھنے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ چند نکتے جو اس افادی ادب میں پہلے شامل نہ ہو سکے، اب شریک کر لیے جائیں۔

    حافظہ تیز کرنا
    اگر آپ کو باتیں بھول جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا حافظہ کم زور ہے۔ فقط آپ کو باتیں یاد نہیں رہتیں۔ علاج بہت آسان ہے۔

    آئندہ ساری باتیں یاد رکھنے کی کوشش ہی مت کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ باتیں آپ کو ضرور یاد رہ جائیں گے۔

    بہت سے لوگ بار بار کہا کرتے ہیں۔ ہائے یہ میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا؟ اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ ہمیشہ پہلے سے سوچ کر رکھیے اور یا پھر ایسے لوگوں سے دور رہیے، جو ایسے فقرے کہا کرتے ہیں۔

    دانش مندوں نے مشاہدہ تیز کرنے کے طریقے بتائے ہیں کہ پہلے پھرتی سے کچھ دیکھیے، پھر فہرست بنائیے کہ ابھی آپ نے کیا کیا دیکھا تھا۔ اس طرح حافظے کی ٹریننگ ہوجائے گی اور آپ حافظ بنتے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اور کوئی کام نہ ہو تو آپ جیب میں کاغذ اورپنسل رکھیے۔ چیزوں کی فہرست بنائیے اور فہرست کو چیزوں سے ملایا کیجیے۔ بڑی فرحت حاصل ہوگی۔

    مشہور فلسفی شوپنہار سیر پر جاتے وقت اپنی چھڑی سے درختوں کو چھوا کرتا تھا۔ ایک روز اسے یاد آیا کہ پل کے پاس جو لمبا درخت ہے، اسے نہیں چھوا۔ وہ مردِعاقل ایک میل واپس گیا اور جب تک درخت نہ چھو لیا، اسے سکونِ قلب حاصل نہ ہوا۔ شوپنہار کے نقشِ قدم پر چلیے۔ اس سے آپ کا مشاہدہ اس قدر تیز ہوگا کہ آپ اور سب حیران رہ جائیں گے۔

    خوف سے مقابلہ
    دل ہی دل میں خوف سے جنگ کرنا بے سود ہے۔ کیوں کہ ڈرنے کی ٹریننگ ہمیں بچپن سے ملتی ہے اور شروع ہی سے ہمیں بھوت، چڑیل، باؤ اور دیگر چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو تاریکی سے ڈر لگتا ہے تو تاریکی میں جائیے ہی مت۔

    اگر اندھیرا ہوجائے تو جلدی سے ڈر کر روشنی کی طرف چلے آئیے۔ آہستہ آہستہ آپ کو عادت پڑ جائے گی اور خوف کھانا پرانی عادت ہوجائے گی۔

    تنہائی سے خوف آتا ہو تو لوگوں سے ملتے رہا کیجیے۔ لیکن ایک وقت میں صرف ایک چیز سے ڈریے، ورنہ یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ اس وقت آپ دراصل کس چیز سے خوف زدہ ہیں۔

    وقت کی پابندی
    تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اگرآپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہمیشہ دوسروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے اکثر دیر سے آتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی ذرا دیر سے جائیے۔ اگر آپ وقت پر پہنچے۔ تو دوسرے یہی سمجھیں گے کہ آپ کی گھڑی آگے ہے۔

    وہم کاعلاج
    اگر آپ کو یونہی وہم سا ہوگیا ہے کہ آپ تندرست ہیں تو کسی طبیب سے ملیے۔ یہ وہم فوراً دور ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی وہمی بیماری میں مبتلا ہیں تو ہر روز اپنے آپ سے کہیے۔ میری صحّت اچھی ہو رہی ہے… میں تندرست ہو رہا ہوں….

    احساسِ کمتری ہو تو بار بار مندرجہ ذیل فقرے کہے جائیں۔ میں قابل ہوں…. مجھ میں کوئی خامی نہیں… جو کچھ میں نے اپنے متعلق سنا، سب جھوٹ ہے…. میں بہت بڑا آدمی ہوں۔ (یہ فقرے زور زور سے کہے جائیں تاکہ پڑوسی بھی سن لیں)

    بے خوابی سے نجات
    اگر نیند نہ آتی ہو تو سونے کی کوشش مت کیجیے۔ بلکہ بڑے انہماک سے فلاسفی کی کسی موٹی سی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیجیے۔ فوراً نیند آجائے گی۔ مجرّب نسخہ ہے۔ ریاضی کی کتاب کا مطالعہ بھی مفید ہے۔

    ہمیشہ جوان رہنے کا راز
    اوّل تو یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ جوان رہنا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملاحظہ ہو وہ شعر،

    خیر سے موسمِ شباب کٹا
    چلو اچھا ہوا عذاب کٹا

    تاہم اگر آپ نے ہمیشہ جوان رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو بس خواہ مخواہ یقین کر لیجیے کہ آپ سدا جوان رہیں گے۔ آپ کے ہم عمر بیشک بوڑھے ہوجائیں، لیکن آپ پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ جوانوں کی سی حرکتیں کیجیے۔ اصلی نوجوانوں میں اٹھیے بیٹھیے۔ اپنے ہم عمر بوڑھوں پر پھبتیاں کسیے۔ خضاب کا استعمال جاری رکھیے اور حکیموں کے اشتہاروں کا بغور مطالعہ کیجیے۔

    دلیر بننے کا طریقہ
    دوسرے تیسرے روز چڑیا گھر جا کر شیر اور دیگر جانوروں سےآنکھیں ملائیے (لیکن پنجرے کے زیادہ قریب مت جائیے) بندوق خرید کر انگیٹھی پر رکھ لیجیے اور لوگوں کو سنائیے کہ کس طرح آپ نے پچھلے مہینے ایک چیتا یا ریچھ (یا دونوں) مارے تھے۔ بار بار سنا کر آپ خود یقین کرنے لگیں گے کہ واقعی آپ نے کچھ مارا تھا۔

    (اردو ادب میں شفیق الرّحمان طنز و مزاح نگار کے طور پر پہچان رکھتے ہیں، یہ سرخیاں ان کی شگفتہ تحریر "کلیدِ کام یابی” سے لی گئی ہیں)

  • مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

    دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

    مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

    صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

    مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

    ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

    ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

    (یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)