Tag: اردو طنز و مزاح

  • کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر و تشریح میں اکثر ہم لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر بات علمی مباحث تک ہو تو بھی ٹھیک ہے، مگر جب ان غلط تشریحات کا اطلاق عملی زندگی میں ہونے لگے تو ہمارے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

    کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شعر کا مطلب تو صحیح نکالتے ہیں لیکن اس کے انطباق میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اس شعر ہی کو لیجیے؎

    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    اب جسے دیکھو علامہ اقبال کے اس شعر کو راہ نما بنا کر منہ اٹھائے پہاڑوں کی طرف چل دیتا ہے۔ حالاں کہ پہاڑوں کی طرف رختِ سفر باندھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ شاعرِ مشرق نے کن پہاڑوں میں سکونت اختیار کرنے کی ”ہدایت“ کی ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ کا اشارہ تورا بورا کے کوہ ساروں کی طرف تھا اور ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ”عقابی حرکتیں“ کرنے والوں کے لیے یہ پہاڑ ہی محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔ رہے بلوچستان وغیرہ کے پہاڑ تو بھیا! ان ”پہاڑوں“ کا کوئی بھروسا نہیں۔ آپ ان میں جاکے بیٹھیں تو یہ آپ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ نے اپنے شعر میں واضح طور پر تورا بورا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ہمارے خیال میں انھوں نے افغانستان کی مناسبت سے ”پٹھانوں کی چٹانوں میں“ لکھا ہوگا، جو ”پٹھانوں“ سے بگڑ کر ”پہاڑوں“ ہوگیا۔ اور پھر اسے ”پہاڑوں“ ہی تسلیم کرلیا گیا کیوں کہ پٹھان بگڑ جائے تو ”بڑے بڑوں“ کو اسے ”پہاڑ“ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

    ہم یہاں کلام اقبال کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیوں کی نشان دہی بھی کیے دیتے ہیں۔

    کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
    مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

    شمشیر بہ دست کافر سے بے تیغ مومن کا رانوں پر ہاتھ مار کر ”کبڈی کبڈی“ کہتے ہوئے بِِھڑ جانا، نری خود کشی ہوگی اور بھلا اقبال مسلمانوں کو خودکشی کا مشورہ کیوں دینے لگے؟ ان کے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ غنیم کو شکست دینے کے لیے تلوار پر بھروسا کرنا تو کافروں کا وتیرہ ہے۔ ”مومن سپاہی“ تو بس قلم اٹھاتا ہے اور کاغذ پر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور جب کم از کم ڈیڑھ دو سیر کاغذ دشمن کے خون میں نہا کر سفید سے سرخ اور سرخ سے سیاہ ہوجاتا ہے تو مومن سپاہی اسے ”خود نوشت“ کی صورت میں شایع کر دیتا ہے۔

    اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

    اس شعر کے مصرعِ ثانی کو صدر ایوب خان نے اپنی ”مبینہ خود نوشت“ کے اردو ترجمے کا عنوان بنایا تھا۔ اس عنوان نے کتاب کی فروخت پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ اکثر لوگوں نے اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی سمجھا کہ یہ وہ ”رزق“ ہے جو پرواز میں کوتاہی لاتا ہے اور پھر ”اس رزق سے موت اچھی“ کہہ کر کتاب خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔ نتیجتاً بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور کنوینشنل لیگ کی طرح ایوب خان کی کتاب بھی رزق خاک ہوئی۔
    ہمارے خیال میں امریکی امداد، بھارتی اجناس اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے معاملے میں اس شعر کو حوالہ بنانا مصلحت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسے علامہ کا پرندوں کو مشورہ سمجھ لینے ہی میں عافیت ہے۔

    مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
    خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

    غریبوں نے اپنے ممدوح کا یہ شعر پڑھ کر نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ اب نام ور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ؎ پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ اور بے چارے غریب تو اپنے کپڑے بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ چناں چہ انھوں نے نام وری کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر کی پیداوار دھڑادھڑ شروع کر دی اور ہر بچے کے نام سے اپنا نام جوڑ کر سمجھے کہ نام پیدا کرلیا۔ ہمارے محلّے دار ’ببّن میاں‘ نے کثرت اولاد کی خواہش کو ”یقین محکم“ بنا اور ”محبت فاتحِ بیگم“ کا نعرہ لگا کر جو ”عمل پیہم“ شروع کیا تو ان کے گھر میں بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔ موصوف، شبو ببن، نبو ببن، کلو ببن سمیت ایک درجن پسران و دختران کی ولدیت کا اعزاز رکھنے کی وجہ سے اس خیال میں غلطاں ہیں کہ انھوں نے دنیا میں ”ببّنوں“ کی تعداد بڑھا کر اپنا نام زندہ جاوید کر لیا ہے۔

    ببن میاں جیسے حالات اور خیالات کے حامل خواتین و حضرات کو ہمارا مشورہ ہے کہ نام پیدا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں اور خودی بیچ کر گھر چلائیں، کیوں کہ ہم جس سرمایہ داری نظام میں زندہ ہیں اس میں افراد واقوام خودی کا سودا کیے بغیر نام نہیں صرف مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    گیا دورِ سرمایہ داری گیا
    تماشا دکھا کر مداری گیا

    علامہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ ”مداری“ بس کچھ دور گیا تھا اور اشتراکیت سے کہہ گیا تھا ”بی بی! تم اپنا پتلی تماشا دکھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔“ اشتراکی پتلی باز کا تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ مداری اپنے سرکس کے ساتھ واپس آگیا۔ اب کے اس کا تماشا ایسا دل چسپ تھا کہ تماش بیں مبہوت ہوکر دیکھا کیے۔ مداری نے بندر کے بہ جائے سفید ریچھ اور کاغذی شیروں کو نچایا۔ مجاہدین سے موت کے گولے اور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلوائی اور جوکروں سے خود ان کی بَھد اڑوائی۔ اتنے بڑے اور ایسے دل چسپ سرکس کے سامنے بے چارے پتلی باز کی کیا چلتی۔ چار و ناچار وہ خود بھی سرکس میں ملازم ہوگیا۔ ایسے میں کٹھ پتلیاں بے آسرا ہوگئیں، اب ان کی حالت یہ ہے کہ جو بھی ڈور پکڑ لے اس کی انگلیوں پر ناچنے لگتی ہیں۔

    خیر علامہ اقبال کو تو کچھ آثار دیکھ کر سرمایہ داری کے رخصت ہوجانے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ دور حاضر میں کوئی، علامہ اقبال کی غلط فہمی کو جواز بنا کر، ”گیا دور سرمایہ داری گیا“ کا راگ نہ الاپے اور اگر الاپے تو ہم سے یہ شکایت نہ کرے کہ………..مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ترے شہر کے لوگ۔

    ترے سوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

    عہدِ حاضر کے جوانوں کو اس شعر سے نصیحت پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ، ایک تو اس شعر میں سوفوں اور قالینوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقامی طور پر تیار کردہ یہ اشیاء افرنگی و ایرانی سوفوں اور قالینوں کی ٹکر کی ہیں۔ اس شعر میں ”میڈ ان چائنا“ اشیاء، امریکی مصنوعات، جاپانی و جرمن گاڑیوں، سوئس گھڑیوں، فرانسیسی خوشبوعات اور بھارتی پیاز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا یہ اشیا بلاتکلف اور علامہ اقبال کے لہو رونے کے خدشے سے بے نیاز ہوکر خریدی جاسکتی ہیں۔

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

    یہ شعر آپ کو حکم رانوں کی تقاریر، علما کے وعظ و خطبوں اور سرکاری و نجی عمارات کی دیواروں پر آویزاں کلامِ اقبال میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پس، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ”حکم“ منسوخ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اس شعر کی پیروی کرنے والا دہقان خود بھوکا مر جائے گا۔ کیوں کہ اسے روزی سے محروم رکھنے والے ”چوہدری صاحب“ کے گودام میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خوشہ ہائے گندم جل گئے تو وہ اس نقصان کے نام پر حکومت سے سہولتیں اور بینک سے قرضہ لے کر اپنے دھن میں اضافہ کریں گے اور کھیت بیچ کر کارخانہ لگا لیں گے۔ رہی جلی ہوئی گندم تو وہ حکومت کے توسط سے کسی بھی ملک برآمد کردی جائے گی۔ گندم کے جلنے سے اس کی پیداوار کو جو نقصان ہوگا وہ امریکا سے ایف 16 طیاروں کے منسوخ شدہ سودے کے عوض گندم لے کر پورا کر لیا جائے گا۔ سو میاں دہقان! جس کھیت سے تم کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کو اپنا لہو پلاتے رہو۔

    کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
    یہ شعر نائٹ شفٹ کے اخبار نویسوں، رات گئے تک کام کرنے والوں اور دن چڑھے سو کر اٹھنے والے ہم جیسے ”کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے“ کے مصداق خواتین و حضرات کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں فلیٹوں کے مکین، باوجود کوشش اس شعر کی پیروی سے قاصر رہیں گے۔ زمین، فلک اور فضا کے نام پر وہ فرش، چھت اور کھڑکی کے باہر پھیلا دھواں دیکھ کر صرف ”حجتِ شرعی“ پوری کر پائیں گے۔ رہا ابھرتے سورج کا نظارہ تو اس مقصد کے لیے فرائی انڈے کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شعر کے ذریعے حضرت علامہ نے مسلمانوں کو تڑکے تڑکے، پو پھٹنے سے پہلے اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ اور کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس شعر میں جہاں بینی و سیر بینی کی تاکید کی جارہی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کہہ رہے ہیں،

    ”ارے بے وقوف! اتنے سویرے کیوں اٹھ گیا۔ خوابیدہ نظروں سے گھڑی کیا تک رہا ہے۔ اب اگر اٹھ ہی گیا ہے تو؎ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ…. کہیں کوئی کام کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو سورج ابھر ہی رہا ہے اور تجھے اٹھنے کی پڑگئی۔ چَل! منہ ڈھک کے سوجا۔“

    (ادیب، شاعر اور معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے ایک شگفتہ پارہ)

  • انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    کچھ لوگوں کو اب خبر ملی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ”ترازو“ کے دونوں پلڑے غائب ہوگئے ہیں، حالاں کہ ہائی کورٹ جانے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لئے یہ خبر نہ پرانی ہے اور نہ ہی چونکا دینے والی۔

    جن لوگوں کا واسطہ عدالتوں سے پڑتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ صدر دروازے سے انصاف کی ترازو کے پلڑے ہی نہیں، عمارت کے اندر سے انصاف بھی غائب ہوچکا ہے۔ بھلا جس ملک میں عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں وہاں کوئی منصف انصاف کی ترازو کیسے تھام سکتا ہے؟ اور اگر کسی منصف نے اس کی ہمت بھی کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی اس کے تبادلے، رخصت یا ریٹائرمنٹ کا حکم صادر کر کے گویا خود اس کے ہاتھ قلم کر دیے گئے اور انصاف کی ترازو کے خالی پلڑے ہوا میں جھولتے رہ گئے۔

    اگرچہ انصاف کی ترازو کے یہ پلڑے اسی غیر محسوس طریقے سے غائب ہوئے ہیں جس طرح معاشرے سے انصاف، لیکن، مقامِ حیرت ہے کہ انصاف غائب ہونے کی کسی کو خبر نہ ہوئی اور اگر کسی کو ہوئی بھی تو اس نے کوئی واویلا نہیں کیا یا شاید خود میں اتنی ہمت نہ پائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انجام کو سامنے رکھتے ہوئے چپ سادھ لی ہو۔ اس کے برعکس ترازو کے پلڑے غائب ہونے کی لوگوں کو نہ صرف خبر ہوگئی بلکہ بہت سے لوگ اس فکر میں غلطاں و پیچاں بھی پائے گئے کہ آخر یہ پلڑے کیوں اور کس طرح غائب ہوئے؟ حالاں کہ ذرا سا غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یعنی جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں رہا تو پھر ترازو اور اس کے پلڑوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کوئی عقل مند انہیں اتار کر لے گیا ہوگیا کہ انصاف نہ سہی ان پلڑوں کی عزت ہی محفوظ رہ جائے۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پلڑے، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں کا بوجھ سہار نہ سکنے کے باعث خود ہی کہیں منہ چھپا گئے ہوں یا پھر کوئی ضرورت مند انہیں ”پلیٹیں“ جان کر اتار لے گیا ہو، اس طرح اور کچھ نہیں تو ان میں کھانا تو کھایا ہی جاسکتا ہے۔ گویا یہ پلڑے کسی کو انصاف فراہم نہیں کرسکے تو کیا ہوا کسی کا پیٹ بھرنے کے کام تو آگئے۔ ہر چند موجودہ بے روزگاری، مہنگائی اور کراچی میں آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث یہ امر بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال ہے کہ جب بہت سے گھروں میں چولہے ہی نہیں جل پاتے تو ان پلیٹوں میں ڈالنے کے لئے کھانا کہاں سے آتا ہوگا؟ اس صورتِ حال میں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ کوئی سادہ لوح انہیں روٹیاں ہی سمجھ کر لے گیا ہو کہ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ لگتے ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ضرورت مند نے ان پلڑوں کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا ہواگر ایسا ہے تو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہوا کہ انصاف کی ترازو کے ان پلڑوں نے کسی کو انصاف بے شک نہ دیا ہو، دو وقت کی روٹی تو مہیا کردی۔ اس دور میں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ یوں بھی جس شہر میں لوگ گٹر کے ڈھکن تک چوری کرنے سے دریغ نہ کرتے ہوں وہاں ان پلڑوں کی چوری پر حیرت کرنا کیا معنی؟ عین ممکن ہے کہ ان پلڑوں کو تھالیاں جان کر ایوان میں پہنچا دیا گیا ہو۔ بے شک ان دنوں وہاں لوٹوں کا رواج ہے اور گھوڑوں کی سوداگری ہورہی ہے۔ لیکن، تھالی کے بینگن کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ کون سا عہد یا دورِ حکومت ہوگا جب تھالی کے بینگن سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو؟ اِدھر کچھ عرصہ سے تھالی کے بینگن کی جگہ لوٹوں نے لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ یہ بینگن اپنی تھالیوں سے محروم ہوگئے تھے اور بغیر تھالی کے بینگن آپ جانیں انہیں ”بے گُن“ بھی کہا جاتا ہے اور وہ محض ”بھرتا“ بنانے کے کام ہی آسکتے ہیں یا زیادہ عزت افزائی مقصود ہو تو زیادہ مرچ مسالہ لگا کے ”بگھارے بینگن“ کے نام سے حیدرآباد کی شاہی ڈش قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ تھالیوں کے دستیاب ہوتے ہی یہ بینگن اپنی سابقہ حیثیتوں پر بحال ہوجائیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان پلڑوں کو کچھ شریر بچے لے گئے ہوں اور تھالیاں پھینکنے اور پکڑنے والا کھیل کھیل رہے ہوں جسے ایک زمانے میں ٹیلی ویژن نے ”فرزبی“ کے نام سے متعارف کرایا تھا اور جب مائیں اپنے باورچی خانوں میں محض اس لئے تالا لگا کے رکھتی تھیں کہ کہیں ان کے لاڈلے سپوت کھانا کھانے کی رکابیوں سے گلی میں فرزبی کا میچ نہ کھیلنے لگیں۔ اگر یہ خیال درست ہو، اور ان پلڑوں کے غائب کرنے میں بچوں کا ہی ہاتھ ہو تو بھی اس میں بُرا منانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ جب ہمارے بڑے، ملک میں انصاف کو پنگ پانگ کی گیند یا کوئی اور کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو کیا بچوں کا ان پلڑوں پر بھی حق نہیں بنتا جو محض علامتی ترازو کی زینت تھے اور عملی طور پر کسی کام کے نہیں تھے۔ اب کوئی پرچون یا سبزی فروش تو وہاں اپنی دکان جما کر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ ترازو سے کوئی مثبت کام ہی لیا جاسکتا کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے ”توہینِ عدالت“ کا نوٹس مل جاتا اور اس کی بقیہ زندگی اس عمارت کے اندر وہ ”چیز“ تلاش کرتے گزر جاتی جس کا اس میں وجود بھی باقی نہیں رہا۔

    قصّہ مختصر یہ کہ ان پلڑوں سے اب جو بھی کام لیا جا رہا ہو وہ ان کے بیکار اور بے مقصد لٹکے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں تو بس یہ حسرت ہے کہ اے کاش! ہم میں ان پلڑوں کو غائب کرنے کی ہمت ہوتی تو آج وہ ہمارے ڈرائنگ روم کی کسی دیوار کی زینت ہوتے۔ ایسے ہی، جس طرح ہماری آپا (بیگم شوکت صدیقی) نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنا ”جہیزی ٹفن کیریئر اور دیگر اینٹیک (Antiques) برتن بھانڈے بطور آرائش ڈال رکھے ہیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو وہ ”اینٹیک“ یہ کہہ کر بڑے فخر سے دکھاتے کہ یہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب عدالتوں اور معاشرے میں انصاف کا رواج ہوا کرتا تھا۔

    (طنز و مزاح نگار، فیچر رائٹر اور سینئر صحافی حمیرا اطہر کا یہ کالم 1995ء میں کراچی کے ایک روزنامے میں شایع ہوا تھا اور یہ ان کی فکاہیہ تحریروں کے مجموعے ‘بات سے بات’ میں شامل ہے)

  • ”میں تو تابع دار ہوں…“

    ”میں تو تابع دار ہوں…“

    بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…

    اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔

    کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

    کافی رد و کدّ کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑیئے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

    ہم نے گھبرا کر پوچھا، ”پھر کیا کرو گے؟“

    ”یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔“

  • غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں

    دورِ جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیلُ القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیرا جیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما جیت ورما، عبدالحی نگاہؔ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب داخل ہوتے ہیں۔

    ان کی شکل و صورت بعینہ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ’’دیوانِ غالب‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔

    غالبؔ: ’’حضرات! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اور اس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورِ جدید کے شعرا سے شرفِ نیاز حاصل کروں۔

    ایک شاعر: یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
    کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘

    غالب: رہنے بھی دیجیے اس بے جا تعریف کو، ’’من آنم کہ من دانم‘‘

    دوسرا شاعر: تشریف رکھیے گا۔ کہیے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن…‘‘

    غالب: (مسکرا کر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں، ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔

    دوسرا شاعر: تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد، اور اس پر یہ فکر کوسوں دور کہ

    آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
    آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

    باوجود اس کے آپ کچھ لکھ… تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر) ’’سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے؟‘‘

    غالب: وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث۔

    مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

    پہلا شاعر: میرے خیال میں وقت کافی ہو گیا ہے۔ اب مجلس کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

    دوسرا شاعر: میں کرسیٔ صدارت کے لیے جناب م۔ ن۔ ارشد کا نام تجویز کرتا ہوں۔

    (ارشد صاحب کرسئ صدارت پر بیٹھنے سے پہلے حاضرینِ مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: میرے خیال میں ابتدا مرزا غالب کے کلام سے ہونی چاہیے۔ میں نہایت ادب سے مرزا موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    غالب: بھئی جب ہمارے سامنے شمع لائی جائے گی تو ہم بھی کچھ پڑھ کر سنا دیں گے۔

    م۔ ن۔ ارشد: معاف کیجیے گا مرزا، اس مجلس میں شمع وغیرہ کسی کے سامنے نہیں جائے گی۔ شمع کی بجائے یہاں پچاس کینڈل پاور کا لیمپ ہے، اس کی روشنی میں ہر ایک شاعر اپنا کلام پڑھے گا۔

    غالب: بہت اچھا صاحب تو غزل سنیے گا۔

    باقی شعرا: ارشاد۔

    غالب: عرض کیا ہے
    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    (باقی شعرا ہنستے ہیں۔ مرزا حیران ہو کر ان کی جانب دیکھتے ہیں۔)

    غالب: جی صاحب یہ کیا حرکت ہے۔ نہ داد نہ تحسین، اس بے موقع خندہ زنی کا مطلب؟

    ایک شاعر: معاف کیجیے مرزا، ہمیں یہ شعر کچھ بے معنی سا معلوم ہوتا ہے۔

    غالب: بے معنی؟

    ہیرا جی: دیکھیے نا مرزا، آپ فرماتے ہیں ’’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘‘ اگر مطلب کچھ نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام کے ہی عاشق ہیں تو تین پیسے کا خط برباد کرنا ہی کیا ضرور، سادہ کا غذ پر اس کا نام لکھ لیجیے۔

    ڈاکٹر قربان حسین خالص، میرے خیال میں اگر یہ شعر اس طرح لکھا جائے تو زیادہ موزوں ہے،

    خط لکھیں گے کیوں کہ چھٹی ہے ہمیں دفتر سے آج
    اور چاہے بھیجنا ہم کو پڑے بیرنگ ہی
    پھر بھی تم کو خط لکھیں گے ہم ضرور
    چاہے مطلب کچھ نہ ہو

    جس طرح سے میری اک اک نظم کا کچھ بھی تو مطلب نہیں

    خط لکھیں گے کیوں کہ الفت ہے ہمیں
    میرا مطلب ہے محبت ہے ہمیں
    یعنی عاشق ہیں تمہارے نام کے

    غالب: یہ تو اس طرح معلوم ہوتا ہے، جیسے آپ میرے اس شعر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

    ہیرا جی: جنوں، جنوں کے متعلق مرزا میں نے کچھ عرض کیا ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔

    غالب: ہاں، ہاں بڑے شوق سے۔

    ہیرا جی: جنوں ہوا جنوں ہوا
    مگر کہاں جنوں ہوا
    کہاں ہوا وہ کب ہوا
    ابھی ہوا یا اب ہوا
    نہیں ہوں میں یہ جانتا
    مگر جدید شاعری
    میں کہنے کا جو شوق ہے
    تو بس یہی ہے وجہ کہ
    دماغ میرا چل گیا
    یہی سبب ہے جو مجھے
    جنوں ہوا جنوں ہوا

    غالب: (ہنسی کو روکتے ہوئے) سبحان اللہ کیا برجستہ اشعار ہیں۔

    م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔

    غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا، کہا ہے۔

    عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
    ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

    عبدالحی نگاہ: گستاخی معاف مرزا، اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہو جاتی۔

    غالب: کس طرح؟

    عبدالحی نگاہ:
    عشق نے، ہاں ہاں تمہارے عشق نے
    عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا
    اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں
    اور چل تو سکتا ہی نہیں
    جانے کیا بکتا ہوں میں
    یعنی نکما کر دیا
    اتنا تمہارے عشق نے
    گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
    اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں
    یعنی تمہارے عشق نے
    اتنا نکما کردیا

    غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔

    غیظ احمد غیظؔ: اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جاسکتا تھا۔

    جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
    تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
    سب کام کر سکتا تھا میں
    اور دل میں میرے جوش تھا
    اس وقت تھا میں آدمی
    اور آدمی تھا کام کا
    لیکن تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا

    غالب: واللہ۔ کمال ہی تو کردیا، بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔

    م۔ ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، جو جدید شاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔

    ڈاکٹر خالصؔ: اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں، اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل اس لیے آپ اپنا کلام پہلے پڑھیے۔

    م۔ ن۔ ارشد: توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ‘‘ عرض کیا ہے۔

    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
    جس طرح دور کسی دشت کی پہنائی میں
    رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
    کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
    ایسی تشبیہہ کی لذت سے مگر دور ہے تو
    تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
    رقص کرنے کے سوا اور نہیں کچھ آتا
    اپنے بے کار خدا کے مانند
    دوپہر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
    خودکشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
    میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی ہے کیا جینا
    اور چپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    تاکہ میں چوم ہی لوں عارض گلفام ترا
    اور ارباب وطن کو یہ اشارہ کردوں
    اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
    اور شب عیش گزر جانے پر
    بہر جمع درم و دام نکل جاتا ہے
    ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
    چھوڑ کر بستر سنجاف و سمور

    (نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیرا جی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔)

    (حاضرین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔)

    غالب: ارشد صاحب معاف کیجیے۔ آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔

    غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے، مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔

    م۔ ن۔ ارشد: مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجیے۔

    پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
    پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

    اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟

    غالب: (شعر کو دہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں، مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔

    م۔ن۔ ارشد: اجی چھوڑیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    ڈاکٹر خالصؔ: میری نظم کا عنوان ہے ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے۔

    عشق کیا ہے؟
    میں نے اک عاشق سے پوچھا
    اس نے یوں رو کر کہا
    عشق اک طوفان ہے
    عشق اک سیلاب ہے
    عشق ہے اک زلزلہ
    شعلہ جوالہ عشق
    عشق ہے پیغام موت

    غالب: بھئی یہ کیا مذاق ہے، نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟

    ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم، اور فرمایا تھا آپ نے،

    ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘

    غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے نہ ترنم، نہ قافیہ، نہ ردیف۔

    ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کیے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگیٔ افکار اور ندرتِ فکر سے ہے۔

    غالب: رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے، میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا…

    ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

    غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

    رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جدوجہد ہے۔

    ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لیے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی، جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

    ن۔ م۔ ارشد: اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔

    پروفیسر غیظ: میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔

    ہیرا جی: تو پھر وہی نظم سنا دیجیے جو پچھلے دنوں ریڈیو والوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔

    پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی، تو وہی سن لیجیے۔ عنوان ہے ’’لگائی۔‘‘

    فون پھر آیا دل زار! نہیں فون نہیں
    سائیکل ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
    ڈھل چکی رات اترنے لگا کھمبوں کا بخار
    کمپنی باغ میں لنگڑانے لگے سرد چراغ
    تھک گیا رات کو چلا کے ہر اک چوکیدار
    گل کرو دامن افسردہ کے بوسیدہ داغ
    یاد آتا ہے مجھے سرمۂ دنبالہ دار
    اپنے بے خواب گھروندے ہی کو واپس لوٹو
    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

    (نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب مبہوت ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: اب جناب بکرما جیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔

    بکرما جیت ورما: میں نے حسبِ معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔

    غالب: (حیران ہو کر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جارہی ہے۔

    بکرما جیت ورما: مرزا، آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیے گئے تھے، دورِ جدید کے شعرا نے انھیں ایک قابل عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔

    غالب: جی ہاں، ہمارے زمانے میں عورتیں، بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے لوگ گیت لکھا کرتے تھے۔

    بکرما جیت: پہلا گیت ہے’’برہن کا سندیس‘‘، عرض کیا ہے،
    اڑجا دیس بدیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس
    سن کر تیری کائیں کائیں

    غالب: خوب، سن کر تیری کائیں کائیں

    بکرما جیت ورما: عرض کیا ہے،
    سن کر تیری کائیں کائیں
    آنکھوں میں آنسو بھر آئیں
    بول یہ تیرے من کو بھائیں
    مت جانا پردیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس

    م۔ ن ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر پر بھی لکھا تھا، وہ بھی مرزا کو سنا دیجیے۔

    بکرما جیت، سنیے پہلا بند ہے۔

    بول کبوتر بول
    دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے
    من میں میرے ہوک اٹھی ہے
    کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے
    بول غٹرغوں بول کبوتر
    بول کبوتر بول

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبرا ہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔)

    بکرما جیت ورما: اب دوسرا بند سنیے،

    بول کبوتر بول
    کیا میرا ساجن کہتا ہے
    کیوں مجھ سے روٹھا رہتا ہے
    کیوں میرے طعنے سہتا ہے
    بھید یہ سارے کھول کبوتر
    بول کبوتر بول!

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس شور و غل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔)

    (طنز و مزاح از قلم کنہیا لال کپور )

  • نظر نہیں آتا؟

    نظر نہیں آتا؟

    خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتّے اس کے کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔

    آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔

    کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

    رات کے وقت یہی کتّا اپنی خشک، پتلی سی دُم کو تابہ حدِ امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔” بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتّے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

    اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتّے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔

    (نام ور مزاح نگار پطرس بخاری کے قلم سے)

  • وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    وہ اِک مردِ مسلماں تھا!

    26 جون 1950ء کو روزے کی حالت میں ابّا جان پر ٹنڈو آدم میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔

    کسی عطائی نے نہ جانے کیا سمجھ کر کونین کا انجکشن لگا دیا اور وہ آن کی آن میں سارے بکھیڑوں، بندھنوں سے آزاد ہوگئے۔ جے پور ریاست کے ’’مقامی‘‘ مسلمانوں میں وہ پہلے گریجویٹ تھے۔ جے پور میونسپلٹی کے چیئرمین، اسٹیٹ مسلم لیگ اور دیگر مسلم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے صدر اور اسمبلی کی حزبِ اختلاف کے لیڈر رہ چکے تھے۔ اسمبلی ہی میں سقوطِ حیدرآباد پر پاکستان کی حمایت میں تقریر کرنے پر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ سادہ دل، بے ریا، پابندِ شرع، فقیر منش اور زبان کے کھرے تھے۔ دل کی بات زبان پر لانے میں انہیں ذرا بھی نہیں سوچنا پڑتا تھا۔

    موروثی جائیداد سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ راجستھان میں مسلمانوں کے دیرینہ و بے لوث خدمت گزار اور تحریکِ پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے سبھی انہیں جانتے پہچانتے تھے۔ انتقال کے بعد کسی اللہ کے بندے نے ان کی میّت ٹرک میں رکھ کر حیدرآباد پہنچا دی۔ غریبِ شہر کی لاش تین چار گھنٹے تک سڑک کے کنارے جون کی لُو میں اس انتظار میں بے گور و کفن پڑی رہی کہ اگر کوئی وارث ہے تو آئے اور مٹّی کے اس ڈھیر کو پہچان کر لے جائے۔ ان کے خدا نے ان کی بے کسی کی شرم رکھ لی۔

    دوسرے دن غروبِ آفتاب سے ذرا دیر پہلے سیدھے حیدرآباد کے پھلیلی قبرستان پہنچے تو کافی انتظار کے بعد قبر آدھی بند کی جا چکی تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا۔ زردی نے ماتھے پر سجدے کے نشان کو زیادہ واضح کردیا تھا۔ ایک جھلک دیکھی۔ پھر اس کے بعد کچھ نظرنہ آیا۔

    انتقال کے کچھ دن پہلے وہ چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے تو ٹاٹ کے ایک تیلے میں اپنا کھانا ساتھ لائے تھے کہ تنک حوصلہ بیٹے نے جو رزق تلاش کیا اس میں سود کی آمیزش تھی۔ زندگی میں جس نے ان کی کوئی خدمت نہ کی، اسے انہوں نے کندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رکھا۔ قبر پر نہ گلابوں کی چادر نہ چنبیلی کا ڈھیر۔ نہ گھر پر آہ و بکا کا شور۔ وہ تھے تو گھر اتنا بے سر و سامان نظر نہیں آتا تھا۔ ماں نے سَر پہ ہاتھ رکھا اور کلائی کو میلی چادر سے چھپا لیا۔

    اب اپنے خاندان، بے روزگار بھائی اور اس کے بیوی بچے، بہن اور اس کے کنبے، اور ان کے گرد گھومنے والے طفیلی سیارے۔ ان سب کی خورد و نوش کا انتظام، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ فاقہ کروانے کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی تھی۔ ایک دن یونہی خیال آیا تو مشقی سوال کے طور پر ہم نے اپنی تنخواہ کو کنبے کے لواحقین اور لواحقین کے متوسلین پر تقسیم کیا تو مقسوم 23 روپے پونے چار آنے نکلا۔ کسی طرح یقین نہ آیا کہ ایک آدمی 23 روپے میں بسر اوقات کر سکتا ہے۔ حساب میں یقیناً کوئی غلطی ہوگی۔ گھڑی کی زنجیر کے کمپیوٹر پر چیک کرکے دیکھا تو وہی جواب آیا۔

    زندگی ہندسوں سے کہیں زیادہ لچک دار نکلی۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔ ان اوصافِ حمیدہ اور خصائل ستودہ کی زیادہ تشریح و تشہیر یہاں اس لیے بھی غیر ضروری ہے کہ سارا اردو لٹریچر از دلّی دکنی تا ایں دم قناعت اور مفلسی کے فائدوں اور فضیلتوں سے بھرا پڑا ہے۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون ” موصوف” سے انتخاب)

  • رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    جہلم کے قریب ایک قلعہ دار نے ہم پر دھاوا بول دیا، لیکن فوراً ہی پھرتی سے قلعے میں محصور ہو گیا۔

    ارادہ ہوا کہ اس کو اسی طرح محصور چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، لیکن اُلّو شناس، ملتمس ہوا کہ نیا ملک ہے، یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ ہم نے فرمایا، کہ اس طرح قدم رکھے تو دلّی پہنچنے میں دیر لگے گی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ عقب سے آکر تنگ نہ کریں۔ اس روز ہمیں نزلہ سا تھا اور قصد لڑائی بھڑائی کا ہرگز نہ تھا۔ اُلّو شناس کے اصرار پر دو دن تک قیام کیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ تنگ آکر ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی تجویز نہیں ہوسکتی کہ یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو جائے۔ اُلّو شناس گیا اور جب شام کو لوٹا تو اس کے ساتھ ایک ہندی سپاہی تھا۔ اُلّو شناس کے کہنے پر ہم نے سپاہی کو پانچ سو طلائی مہریں دیں۔ ابھی گھنٹہ نہ گزرا ہوگا کہ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔

    ہند میں یہ ایک نہایت مفید رسم ہے۔ جب کٹھن وقت آن پڑے، یا مشکل آسان نہ ہو تو متعلقہ لوگوں کو ایک رقم یا نعم البدل پیش کیا جاتا ہے۔ تحفے کی مقدار اور پیش کرنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہے۔ اسے یہاں "رشوت” کہتے ہیں۔ کس قدر زود اثر اور کار آمد نسخہ ہے۔ اگر لاکھوں کے اٹکے ہوئے کام، ہزار پانچ سو سے سنور جائیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ رشوت دینے دلانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے کرنسی حرکت میں رہتی ہے۔ ہم واپس ایران پہنچ کر اس رسم کو ضرور رائج کریں گے۔

    ہمیں بتایا گیا کہ کچھ مہریں سپاہی نے اپنے استعمال کے لیے خود رکھ لی تھیں ۔ باقی کوتوال کو دیں، جس نے اپنا حصہ لے کر بقیہ قلعہ دار کے حوالے کی۔ قلعہ دار نے سنتریوں کو خوش کر کے دروازے کھلوا دیے۔ واقعی عجوبۂ روزگار ہے۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے)

  • حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    بدقسمتی سے اگر کوئی افسر لطیفہ گوئی کا بیمار ہوا تو سمجھ لیجیے کہ بے چارے ماتحتوں کی مصیبت آگئی، کیوں کہ صاحب کے روکھے پھیکے، گھسے پٹے لطیفوں (جس پر ہنسنا تو ہنسنا، رونا بھی نہ آسکے) کو سن کر ان بے چاروں کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے دیوارِ قہقہہ بننا پڑتا ہے۔

    ایک دفتر کے حاکمِ اعلیٰ بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ اکثر اپنے ماتحتوں کو بور کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی طرح لطیفہ گوئی ہو رہی تھی اور افسر صاحب کے بلند و بانگ قہقہوں کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ صاحبان بھی قہقہے میں قہقہہ ملا رہے تھے، لیکن ایک صاحب غیر معمولی طور پر بالکل خاموش اور بے توجہ بیٹھے رہے۔

    کسی نے پوچھا، ’’آپ کیوں خاموش ہیں؟‘‘

    وہ صاحب برجستہ بول پڑے، ’’میں کیوں ہنسوں، میں تو کل سے ریٹائر ہو رہا ہوں۔‘‘

    (سرور جمال کی تحریر سے اقتباس)

  • اردو ادب میں طنز و مزاح اور اس کی مختلف قسمیں

    اردو ادب میں طنز و مزاح اور اس کی مختلف قسمیں

    عام طور پر طنز و مزاح کو ادب کی ایک صنف قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ صنف نہیں بلکہ اسلوب یا تکنیک ہے جس کی اپنی کوئی ہیئت نہیں، یہ نظم و نثر کی تمام اصناف میں استعمال کی جاتی ہے۔

    یہ دونوں الفاظ عموماً ایک ساتھ برتے جاتے ہیں لیکن ان کے معنیٰ و مقصد اور طرزِ بیان میں لطیف سا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح طنز فرد اور سماج کی کم زوریوں، تضاد، توہّم، جبر، فرسودہ خیالی اور بدصورتیوں کی گرفت کرتا ہے اور فرد و سماج کی اخلاقی و سماجی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے، اسی طرح مزاح بھی صرف ہنسانے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا۔ مزاح فرد کی ناہمواریوں کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ قارئین کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔

    لیکن ہنسنے والے صرف ایک لمحے کے لیے ہنس دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ درپردہ ان خامیوں کی اصلاح کی طرف بھی رجوع ہوتے چلے جاتے ہیں، جن کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    طنز و مزاح کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ یہ ادب میں سماج کا ترجمان ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔

    طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ہزل، تمسخر، استہزا، تضحیک، نوک جھونک، ہجو، پھبتی پھکڑ، لعن طعن، سب و شتم، ملیح مذمت، مضحکات، تعریض، تنقیص، جگت، فقرہ بازی، لطائف، پیروڈی اور آئرنی وغیرہ۔ واضح رہے کہ جب ہم اردو ادب میں طنز و مزاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد ادبی طنزومزاح ہوتا ہے۔ پھکڑ پن، چٹکلے بازی، یاوہ گوئی، لطیفہ سازی جس میں ابتذال اور رکاکت ہو، ادبی طنز و مزاح کے زمرے میں نہیں آتے۔

    اردو نثر میں طنز و مزاح کی باضابطہ روایت کا آغاز اگرچہ ’’اودھ پنچ‘‘ (1877ء) سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ابتدائی نقوش بہت پہلے سے ہی نظر آتے ہیں۔

    اردو نثر میں طنز و مزاح کے اوّلین نقوش قدیم داستانوں میں ملتے ہیں۔ لیکن ان داستانوں میں ظرافت کی سطح بہت پست ہے۔

    اس کے برعکس مرزا غالب کے خطوط میں معیاری طنز و ظرافت کی مثالیں ملتی ہیں۔ ظرافت غالب کی فطری خوش مزاجی کا جزو تھی جو ان کے کلام، لطائف، گفتگو اور بالخصوص ان کے خطوط میں زیادہ نکھر کر آتی ہے۔ اس لیے غالبؔ کو الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیوانِ ظریف‘‘ کہا ہے۔

    (ڈاکٹر رئیس فاطمہ کے مضمون سے منتخب پارے)

  • ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ کیا ہے؟ جانیے

    پاکستان میں طنز و مزاح کے حوالے سے مجید لاہوری کا نام ان تخلیق کاروں میں شامل ہے جنھوں نے مزاحیہ شاعری اور فکاہیہ کالموں کے ذریعے جہاں معاشرے میں خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی، وہیں ملک کی سیاست میں مفاد پرستی، سیاست دانوں اور امرا کی عیاشیوں اور طبقاتی نظام کو بھی بے نقاب کیا۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘ ان کی وہ پیروڈی ہے جو انھوں نے اپنے وقت کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ اس نظم میں مجید لاہوری نے معاشرتی عدم مساوات پر بھرپور طنز کیا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ’’جدید آدمی نامہ‘‘
    مُونچھیں بڑھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    ڈاڑھی منڈا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    مُرغے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دَلیا پکا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    ٹکڑے چبا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور لنچ اُڑا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    وہ بھی ہے آدمی جسے کوٹھی ہوئی الاٹ
    وہ بھی ہے آدمی ملا جِس کو نہ گھر نہ گھاٹ
    وہ بھی ہے آدمی کہ جو بیٹھا ہے بن کے لاٹ
    وہ بھی ہے آدمی جو اُٹھائے ہے سَر پہ کھاٹ

    موٹر میں جا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    رِکشا چلا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    رِشوت کے نوٹ جس نے لیے، وہ بھی آدمی
    دو روز جس نے فاقے کیے، وہ بھی آدمی
    جو آدمی کا خون پیے، وہ بھی آدمی
    جو پی کے غم کا زہر جِیے، وہ بھی آدمی
    آنسو بہا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مسکرا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

    یہ جھونپڑے میں قید، وہ بنگلے میں شاد ہے
    یہ نامرادِ زیست ہے، وہ بامراد ہے
    ہر ’’کالا چور‘‘ قابلِ صد اعتماد ہے
    یہ ’’زندہ باد‘‘ اِدھر، وہ اُدھر ’’مُردہ باد‘‘ ہے
    نعرے لگا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    چندے جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    لٹّھے کے تھان جِس نے چھپائے، سو آدمی
    پھِرتا ہے چیتھڑے سے لگائے، سو آدمی
    بیٹھا ہوا ہے غلّہ دبائے، سو آدمی
    راشن نہ کارڈ پر بھی جو پائے، سو آدمی
    صَدمے اُٹھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
    دھومیں مچا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی