Tag: اردو طنز و مزاح

  • اگر میں شوہر ہوتی….(طنز و مزاح)

    اگر میں شوہر ہوتی….(طنز و مزاح)

    آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟

    آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔

    اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا، جب پہلی بار میرے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی گئی، ’جب‘ اور ’اب‘ میں اتنا ہی فرق ہے کہ جب میں یہ سوچا کرتی تھی کاش میں لڑکا (بھائی) ہو جاتی، اور ان سارے سرکش اور فضول سے بھائیوں سے گن گن کر بدلہ لیا کرتی اور ان کی وہ پٹائی کرتی، کہ وہ بھی یاد کرتے۔ اور اب یہ سوچا کرتی ہوں کاش میں مرد (شوہر) بن جاتی اور میرے ’مظلوم اور بے زبان‘ شوہر میری بیوی۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب ’وہ‘ بڑے طمطراق سے بولے، ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں بیوی ہوتا اور تم شوہر‘‘ تو میں نے جھٹ یہ جواب دیا، ’’تو بن جائیے نا، اس میں سوچنے کی کیا بات ہے؟‘‘

    ’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم شوہر، ہوتیں تو کیا ہوتا؟‘‘

    ’’وہ نہ ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’مان لو کہ تم شوہر ہو گئیں۔ اب بتاؤ، تم کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو پھرمیں گن گن کر بدلہ لوں گی اور کیا کروں گی، لیکن ذرا مجھے اس بات پر خوش تو ہولینے دیجیے۔‘‘

    اور سچ مچ میرے اوپر تھوڑی دیر تک ایک عجیب سی کیفیت طاری رہی۔ اس روح پرور خیال نے میرے پورے جسم و جان میں ایک وجدانی کیفیت پیدا کردی اور میں سوچنے لگی، کہ واقعی اگر میں شوہر بن جاتی تو کیا ہوتا، لیکن اتنا ہی تو کافی نہیں ہوتا کہ میں شوہربن جاتی، اس کے ساتھ میرے شوہر بھی تو میری بیوی بنتے۔ مزہ تو جب ہی تھا۔

    ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیے۔ اب میں شوہر بن گئی ہوں۔ مجھے کہیں دعوت میں جانا ہے، میں اپنی تیاری شروع کرتا ہوں۔ شیو بناتا ہوں، نہاتا ہوں، گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر کریم پوڈر مل مل کر بڑی مشکل سے اپنے کالے چہرے کو سانولے کی حد تک لے آتا ہوں، پھر ٹائی باندھتا ہوں، ناٹ درست کرنے میں بھی کم وبیش آدھا گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے، پریس کی ہوئی پینٹ کی کریز درست کرتا ہوں، ٹائی کے ہم رنگ نمائشی رومال کو کوٹ کی اوپری جیب میں باقاعدہ جماتا ہوں، وہ گندا رومال جو منہ، ہاتھ، چشمہ اور جوتے پونچھنے کے کام آتا ہے، اسے پینٹ کی جیب میں رکھتا ہوں۔

    اپنے فارغ البال ہوتے ہوئے سر پر بچے کھچے بالوں کی تہ اچھی طرح جماتا ہوں، تاکہ کہیں سے سپاٹ چاند نہ نمودارہوجائے۔ گھر میں بدقسمتی سے ایک ہی آئینہ ہے اور اس پر کم و بیش ڈھائی تین گھنٹے میرا قبضہ رہتا ہے۔ گھر کے جملہ امور نوکر کو سمجھانے اور دروازے وغیرہ اچھی طرح بند کرنے کی ہدایت دے چکنے کے بعد جب میری بیوی (یعنی میرے موجودہ شوہر) آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر میک اپ شروع کرتی، تو میں ٹھیک اپنے موجودہ شوہر کی طرح کہتا ہوں، ’’بس اب تیار ہو بھی ہو چکو، تمہاری وجہ سے پارٹی میں دیر ہوگئی۔ خدا بچائے عورتوں کے سنگھار اور آرائش سے۔‘‘

    میرے بار بار کہنے پر کہ دیر ہو رہی ہے، جلدی کرو، وہ غریب پندرہ منٹ میں الٹی سیدھی تیار ہوجاتی ہے اور جلدی میں ایک نئی اور ایک پرانی چپل پہن کر، یا ساڑی سے میچ کرتا ہوا پرس میز ہی پر چھوڑ کر پرانا پھٹا ہوا پرس ہاتھ میں لٹکائے چل پڑتی ہے، اور میں اس کی سابق شوہرانہ زیادیتوں کو یاد کر کے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا اس کے ساتھ ہو لیتا ہوں۔ جب ہم دعوت میں پہنچتے ہیں تو تقریباً لوگ واپس جارہے ہوتے ہیں لیکن میں بڑی آسانی سے یہ کہہ کر صاف بچ جاتا ہوں۔

    ’’معاف کیجیے گا، ان کی تیاریوں میں دیر ہوگئی۔ عورتوں کا میک آپ تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘

    پھر بھلا کس میں ہمّت ہے کہ اس عالم گیر جھوٹ (جسے حقیقت کہا جاتا ہے) سے انکار کردے۔

    شوہر بننے کے ایک اور افادی پہلو پر بھی ذرا غور کر لیں۔ مجھے کہیں صبح سویرے ہی جانا ہے، دسمبر کی کڑکڑاتی سردی ہے۔ میں گھڑی میں چار بجے کا الارم لگا کر سوجاتا ہوں، میری بیوی الارم کی کرخت اور مسلسل آواز سے گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور باورچی خانہ میں جاکر ناشتے کی تیاری میں جٹ جاتی ہے۔ اتنے سویرے نوکر کو اٹھانے کی کس میں ہمّت ہے، آپ ہی بتائیے، جب شوہر نہیں اٹھتا، تو نوکر کیا اٹھے گا۔

    باورچی خانے میں کھٹ پٹ کی آواز ہوتی رہتی ہے، اور میں لحاف میں دبکا پڑا رہتا ہوں۔ گرما گرم پراٹھوں، انڈوں حلوے وغیرہ کی اشتہا انگیز خوشبو بھی مجھے بستر سے اٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر میری بیوی آتی ہے، ہولے ہولے مجھے اٹھاتی ہے، اور پھر جب میں گرم پانی سے شیو کرنے اور نہانے کے بعد تیار ہو کر میز پر پہنچتا ہوں تو ناشتہ کی بیش تر چیزیں اور چائے ٹھنڈی ہوچکی ہوتی ہے، اور ان چیزوں کے دوبارہ گرم ہونے میں جو وقت لگتا اسے اپنے لیٹ ہونے کا ذمہ دار قرار دے کر بکتا جھکتا میں گھر سے روانہ ہوجاتا ہوں۔

    اگر میں شوہر ہوتی۔ تو اس وقت کتنا مزا آتا جب دفتر سے ٹھیک ٹائم سے واپسی پر دفتر کے کینٹین یا کسی دوسرے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیاں کرنے کے بعد منہ سکھائے ہوئے دفتر کے کام سے تھک جانے اور اپنے باس کی زیادتیوں کی شکایت لیے ہوئے گھر میں داخل ہوتا اور بے دم ہو کر مسہری پر گر پڑتا۔

    بیوی بے چاری لپک کر جوتے اتارتی، پنکھا آن کرتی اور تکیے وغیرہ ٹھیک سے رکھ دیتی اور تھوڑی دیر کے لیے میرے آرام و سکون کی خاطر گھر کے تمام ہنگاموں کو روک دیا جاتا اور میں بیوی کی طرف سے کروٹ لیے دل ہی دل میں ہنسا کرتا۔

    اور اس سے بڑھ کر مزا تو اس وقت آتا، جب دفتر سے نکلتے ہی یار لوگ کسی ادبی یا غیر ادبی پروگرام کے لیے باہر ہی باہر مجھے گھسیٹ لیتے اور ساڑھے پانچ بجے کی بجائے دس بارہ بجے رات کو تھکا ماندہ گھر پہنچتا اور بیوی کی عقل مندی اور تیزی و طراری کے باوجود اسے یہ باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے آج میری ڈبل ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔

    میری بیوی دفتر کے بدانتظامیوں کو برا بھلا کہتی ہوئی کھانا گرم کرنے چل پڑتی۔ باورچی خانے سے اس کی بڑبڑانے کی آواز آتی رہتی اور میں دل کھول کر خوش ہوتا اور مزے لیتا۔

    ایک اور پُرلطف بات یہ ہوتی کہ میرے لیے پڑھنے لکھنے کا سامان اور سکون ہر وقت موجود ہوتا اور فرصت کے اوقات میں، میں بڑی آسانی سے لکھ پڑھ لیتا، میری زیادہ مصروفیت دیکھ کر میری بیوی گرم گرم چائے کی پیالی میز پر رکھ جاتی۔ یہی نہیں، بلکہ ایسے وقت میں ہر آنے والے کو ’’صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘ کا پیغام پہنچا دیا جاتا۔

    اس وقت تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب میں دیکھتا کہ میری بیوی اب کچھ لکھنے کو بیٹھی ہے۔ ابھی اسے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہوئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی ہوتی کہ ملازم آدھمکتا۔

    ’’بی بی جی، سودا لایا ہوں، حساب ملا لیجیے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ہانک لگاتا، ’’بی بی جی گوشت کیسا پکے گا، شوربے دار یا بھنا ہوا۔‘‘ پھر ایک آواز آتی، ’’بی بی جی! کپڑے لائی ہوں، ملالیجیے۔‘‘ اور میری بیوی بھنّاتے ہوئے کاغذ قلم پٹخ کر دھوبن کا حساب کتاب کرنے اور پھر میلے کپڑے لکھنے کو چل پڑتی، اور جب اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کے لکھنے پڑھنے کو کیا ہوا تو جل کر جواب دیتی، ’’چولھے بھاڑ میں گیا۔‘‘

    پہلی تاریخ کو ایک فرماں بردار شوہر کی مثال قائم کرتے ہوئے تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تمام آسانی اور زمینی آفتوں سے بری الذّمہ ہوجاتا۔ بے فکری کے دن اور رات کٹتے، کبھی سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ گھر کیسے چل رہا ہے۔ مقررہ جیب خرچ کے علاوہ بیوی کی صندوقچی پر بھی چھوٹے موٹے ڈاکے ڈالا کرتا اور اس کے پوچھنے پر اچھی خاصی جنگ کا ماحول پیدا کر دیتا۔ مجھے کبھی یہ پتہ نہ چلتا، کہ کب عید آئی اور کیسے بقرعید منائی گئی۔ ایک قربانی کے لیے بیوی نے کتنی قربانیاں دیں۔

    دوسروں کے یہاں کی تقریبات نے اپنے گھر گرہستی کی دنیا میں کتنا بڑا زلزلہ پیدا کیا اور تنخواہ کی بنیادیں تک ہلیں۔ میں تو بس ٹھاٹ سے ان تقریبات میں حصہ لیا کرتا، دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں ہوتیں، مزے دار کھانے ملتے اور خوب تفریح رہتی۔ اگر میری بیوی کبھی میری فضول خرچی سے تنگ آکر بجٹ فیل ہونے کی بات کہتی، تو میں بڑے پیار سے کہتا، ’’جان من! بجٹ فیل تو ہر بڑی حکومت کا رہتا ہے، بجٹ کا فیل ہونا باعثِ فکر نہیں، بلکہ باعث عزت و شوکت ہے۔‘‘

    تو جناب یہ ہے کہ میرا پروگرام۔ بس خدا ایک بار مجھے شوہر بنا دے تاکہ میں بھی فخر سے کہہ سکوں….

    زندگی نام ہے ہنس ہنس کے جیے جانے کا

    (طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر سرور جمال کی ہے جن کا تعلق بہار، بھارت سے ہے)

  • ہل اسٹیشن…

    ہل اسٹیشن…

    ان دنوں مرزا کے اعصاب پر ہل اسٹیشن بری طرح سوار تھا، لیکن ہمارا حال ان سے بھی زیادہ خستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم پر مرزا اپنے متاثرہ اعصاب اور ہل اسٹیشن سمیت سوار تھے۔ جان ضیق میں تھی۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ذکر، اسی کا ورد۔

    ہُوا یہ کہ وہ سرکاری خرچ پر دو دن کے لیے کوئٹہ ہو آئے تھے اور اب اس پر مچلے تھے کہ ہم بلا تنخواہ رخصت پر ان کے ساتھ دو مہینے وہاں گزار آئیں جیسا کہ گرمیوں میں شرفا و عمائدینِ کراچی کا دستور ہے۔ ہم نے کہا سچ پوچھو تو ہم اسی لیے وہاں نہیں جانا چاہتے کہ جن لوگوں کے سائے سے ہم کراچی میں سال بھر بچتے پھرتے ہیں وہ سب مئی جون میں وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔

    بولے ٹھیک کہتے ہو، مگر بندہ خدا اپنی صحت تو دیکھو۔ تمہیں اپنے بال بچوں پر ترس نہیں آتا؟ کب تک حکیم ڈاکٹروں کا پیٹ پالتے رہو گے؟ وہاں پہنچتے ہی بغیر دوا کے چاق و چوبند ہو جاؤ گے۔ پانی میں دوا کی تاثیر ہے اور (مسکراتے ہوئے) کسی کسی دن مزہ بھی ویسا ہی۔ یوں بھی جو وقت پہاڑ پر گزرے، عمر سے منہا نہیں کیا جاتا۔ مکھی مچھر کا نام نہیں۔ کیچڑ ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اس لیے کہ پانی کی سخت قلت ہے۔ لوگوں کی تن درستی کا حال تمہیں کیا بتاؤں، جسے دیکھو گالوں سے گلابی رنگ ٹپکا پڑ رہا ہے۔

    ابھی پچھلے سال وہاں ایک وزیر نے اسپتال کا افتتاح کیا تو تین دن پہلے ایک مریض کو کراچی سے بلوانا پڑا اور اس کی نگرانی پر چار بڑے ڈاکٹر تعینات کیے گئے کہ کہیں وہ رسمِ افتتاح سے پہلے ہی صحت یاب نہ ہو جائے۔

    ہم نے کہا آب و ہوا اپنی جگہ مرہم دوا کے بغیر اپنے تئیں نارمل محسوس نہیں کرتے۔ بولے، اس کی فکر نہ کرو۔ کوئٹہ میں آنکھ بند کر کے کسی بھی بازار میں نکل جاؤ، ہر تیسری دکان دواؤں کی ملے گی اور ہر دوسری دکان تنوری روٹیوں کی۔

    پوچھا اور پہلی دکان….؟ بولے، اس میں ان دکانوں کے لیے سائن بورڈ تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا، لیکن کراچی کی طرح وہاں قدم قدم پر ڈاکٹر کہاں؟ آج کل تو بغیر ڈاکٹر کی مدد کے آدمی مر بھی نہیں سکتا۔ کہنے لگے چھوڑو بھی! فرضی بیماریوں کے لیے تو یونانی دوائیں تیر بہ ہدف ہوتی ہیں۔

    ہمارے بے جا شکوک اور غلط فہمیوں کا اس مدلل طریقے سے ازالہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنا وکیلوں کا سا لب و لہجہ چھوڑا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر، ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں‘‘ والے انداز میں کہا، ’’بھئی! اب تمہارا شمار بھی حیثیت داروں میں ہونے لگا، جبھی تو بنک کو پانچ ہزار قرض دینے میں ذرا پس و پیش نہ ہوا۔ واللہ! میں حسد نہیں کرتا۔ خدا جلد تمہاری حیثیت میں اتنی ترقی دے کہ پچاس ہزار تک مقروض ہو سکو۔ میں اپنی جگہ صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اب تمہیں اپنے مساوی آمدنی والوں کی طرح گرمیاں گزارنے ہل اسٹیشن جانا چاہیے۔ یہ نہیں تو کم از کم چُھٹی لے کر گھر ہی بیٹھ جایا کرو۔ تمہارا یوں کھلے عام سڑکوں پر پھرنا کسی طرح مناسب نہیں۔

    میری سنو 1956 کی بات ہے، گرمیوں میں کچھ یہی دن تھے۔ میری بڑی بچّی اسکول سے لوٹی تو بہت روہانسی تھی۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ اس کی ایک سہیلی جو وادیِ سوات جار ہی تھی، طعنہ دیا کہ کیا تم لوگ نادار ہو، جو سال بھر اپنے ہی گھر میں رہتے ہو۔ صاحب! وہ دن ہے اور آج کا دن، میں تو ہر سال مئی جون میں چھٹی لے کر مع اہل و عیال ’’انڈر گراؤنڈ ‘‘ ہو جاتا ہوں۔

    پھر انہوں نے کراچی کے اور بھی بہت سے ‘زمین دوز’ شرفا کے نام بتائے جو انہی کی طرح سال کے سال اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اپنا یہ وار کارگر ہوتا دیکھا تو ’’ناک آؤٹ‘‘ ضرب لگائی۔ فرمایا، ’’تم جو ادھر دس سال سے رخصت پر نہیں گئے تو لوگوں کو خیال ہو چلا ہے کہ تم اس ڈر کے مارے نہیں کھسکتے کہ دفتر والوں کو کہیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ تمہارے بغیر بھی بخوبی کام چل سکتا ہے۔‘‘

    (نام وَر ادیب اور طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباس)

  • لاکھوں کے آدمی کا رقعہ

    لاکھوں کے آدمی کا رقعہ

    خواجہ علی احمد شہر کے بڑے سوداگر تھے۔ لاکھوں کا کاروبار چلتا تھا۔ لوگوں میں عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بچّہ بچّہ ان کی دیانت داری سے واقف تھا اور ہر شخص جانتا تھا کہ خواجہ علی احمد قول کے سچّے اور بات کے پکّے ہیں۔

    ایک دن انہوں نے اپنے ایک آدمی کو جوتے والے کی دکان سے جوتا خریدنے بھیجا۔ جوتے کی قیمت بیس روپے تھی، لیکن بجائے اس کے کہ خواجہ علی احمد اپنے نوکر کو بیس روپے دے کر بھیجتے، انہوں نے نوکر کے ہاتھ کریم خاں جوتے والے کے نام ایک رقعہ لکھا:

    ’’میاں کریم خاں! مہربانی کر کے ہمارے آدمی کو بیس روپے کا ایک جوتا دے دو، ہمارا یہ رقعہ اپنے پاس سنبھال کے رکھ چھوڑو۔ جب تمہارا دل چاہے۔ یہ رقعہ آ کے ہم کو یا ہمارے منشی کو دکھا دینا اور بیس روپے لے جانا۔ یہ رقعہ اگر تم کسی اور شخص کو دینا چاہو تو بےشک دے دو، جو ہمارے پاس لائے گا ہم اس کو بیس روپے دے دیں گے۔ راقم خواجہ علی احمد۔‘‘

    دکان دار نے جب رقعے کے نیچے خواجہ علی احمد کا دستخط دیکھا تو اسے اطمینان ہوا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مکرنے والے آدمی نہیں اور پھر لاکھوں کے آدمی ہیں۔ روپے نہیں بھیجے تو نہ سہی۔ یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ جب چاہوں گا، رقعہ جا کر دے دوں گا اور روپیہ لے لوں گا، چنانچہ اس نے بغیر تامل کے جوتا بھیج دیا۔

    تھوڑی دیر بعد کریم خاں دکان دار کے پاس عبد اللہ حلوائی آیا اور کہنے لگا۔ ’’میاں کریم خاں! میرے تمہارے طرف پچیس روپے نکلتے ہیں۔ ادا کر دو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔ کریم خاں نے کہا۔ ’’ابھی لو۔ یہ پانچ تو نقد لے لو۔ باقی بیس روپے مجھے خواجہ علی احمد سے لینے ہیں یہ دیکھو، ان کا رقعہ ذرا ٹھہر جاؤ، تو میں جا کے ان سے بیس روپے لے آؤں۔

    عبد اللہ بھی خواجہ علی احمد کو اچھی طرح جانتا تھا کیوں کہ شہر بھر میں خواجہ صاحب کی ساکھ قائم تھی کہنے لگے۔ تم یہ رقعہ مجھے ہی کیوں نہ دے دو میں ان سے بیس روپے لے آؤں گا کیوں کہ اس میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ رقعہ لائے گا اس کو بیس روپے دے دیے جائیں گے۔‘‘

    کریم خان نے کہا۔ ’’یونہی سہی۔‘‘ چناں چہ عبد اللہ حلوائی نے بیس روپے کے بدلے وہ رقعہ قبول کر لیا۔

    کئی دنوں تک یہ رقعہ یونہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں پہنچ کر شہر بھر میں گھومتا رہا۔ خواجہ علی احمد پر لوگوں کو اس قدر اعتبار تھا کہ ہر ایک اسی رقعے کو بیس روپے کے بجائے لینا قبول کر لیتا کیوں کہ ہر شخص جانتا تھا کہ جب چاہوں گا اسے خواجہ صاحب کے منشی کے پاس لے جاؤں گا اور وہاں سے بیس روپے وصول کر لوں گا۔

    ہوتے ہوتے یہ رقعہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچ گیا جس کا بھائی کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کو منی آرڈر کے ذریعے بیس روپے بھیجنا چاہتا تھا۔ ڈاک خانے والوں نے اس رقعہ کو بیس روپے کے عوض میں لینا قبول نہ کیا۔ چناں چہ وہ شخص سیدھا خواجہ احمد علی کی کوٹھی پر پہنچا۔ رقعہ منشی کو دیا۔ منشی نے بیس روپے کھن کھن گن دیے۔ اس نے روپے جا کر ڈاک خانے والوں کو دیے اور انہوں نے آگے اس کے بھائی کو بھیج دیے۔

    اس مثال سے یہ ظاہر ہوا کہ محض ایک کاغذ کا پرزہ کتنی مدت تک روپے کا کام دیتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کاغذ کے نیچے ایک ایسے شخص کے دستخط تھے جس کی دیانت داری پر سب کو بھروسا تھا۔ اور جس کی دولت کا سب کو علم تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ شخص جب چاہے بیس روپے ادا کر سکتا ہے۔ اور قول کا اتنا پکّا کہ کبھی ادا کرنے سے انکار نہ کرے گا۔

    اگر ایسے ہی ایک رقعے کے نیچے ہم یا تم دستخط کر دیتے تو کوئی بھی اسے روپے کے بدلے میں قبول نہ کرتا۔ اوّل تو ہمیں جانتا ہی کون ہے اور جو جانتا بھی ہے وہ کہے گا کہ ان کا کیا پتہ۔ آدمی نیک اور شریف اور دیانت دار سہی، لیکن خدا جانے ان کے پاس بیس روپے ہیں بھی یا نہیں؟ کیا معلوم یہ مانگنے جائیں اور وہاں کوڑی بھی نہ ہو۔

    (کاغذی روپیہ سے اقتباس، از پطرس بخاری)

  • چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے۔ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951ء کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔

    شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچّے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکّے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

    لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بُو مجھے اچھی نہیں لگتی۔

    فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الہڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں!

    ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔

    (نام ور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر "ضمیر واحد متبسم” سے اقتباس)

  • دیسی لوگوں کے کتّے

    دیسی لوگوں کے کتّے

    علمُ الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سَر کھپاتے رہے، لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتّوں کا فائدہ کیا ہے؟

    گائے کو لیجیے، دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجیے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتّے کیا کرتے ہیں؟

    کہنے لگے کہ کتّا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دَم ليے صبح کے چھے بجے تک بھونکتے چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

    کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتّے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انھوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتّے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولھے میں سے باہر لپکے اور بھنّا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتّے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔

    کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ "آرڈر آرڈر” پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھیے کہ میاں تمھیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے۔ یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔

    اور پھر ہم دیسی لوگوں کے کتّے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابلِ تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجیے۔

    اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بارہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم ان کے کتّوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتّے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی "بخ” کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر "بخ” کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔

    ہمارے کتّے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بے تالے کہیں کے، نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔

  • فیل ہونے کے فوائد!

    فیل ہونے کے فوائد!

    "بشارت کہتے ہیں کہ بی اے کا امتحان دینے کے بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر فیل ہو گئے تو کیا ہو گا۔ وظیفہ پڑھا تو بحمدِللہ یہ فکر تو بالکل رفع ہو گئی، لیکن اس سے بھی بڑی ایک اور تشویش لاحق ہو گئی۔ یعنیٰ اگر خدانخواستہ پاس ہو گئے تو؟”

    "نوکری ملنی محال۔ یار دوست سب تتر بتر ہو جائیں گے۔ والد ہاتھ کھینچ لیں گے۔ بے کاری، بے روز گاری، بے زری، بے شغلی۔ زندگی عذاب بن جائے گی۔

    انگریزی اخبار فقط wanted کے اشتہارات کی خاطر خریدنا پڑے گا۔ پھر ہر کڈھب اسامی کے سانچے میں اپنی کوالیفیکیشنز کو اس طرح ڈھال کر درخواست دینی ہو گی گویا ہم اس عالمِ رنگ وبُو میں صرف اس ملازمت کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔

    اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا ہو گا۔ روزانہ دفتر بہ دفتر ذلّت اٹھانا پڑے گی۔ تا وقتے کہ ایک ہی دفتر میں اس کا مستقل بندوبست نہ ہو جائے۔ ہر چند کہ فیل ہونے کا قوی امکان تھا، لیکن پاس ہونے کا خدشہ بھی لگا ہوا تھا۔”

    "کبھی کبھی وہ ڈر ڈر کے مگر سچ مچ تمنّا کرتے کہ فیل ہی ہو جائیں تو بہتر ہے۔ کم از کم ایک سال اور بے فکری سے کٹ جائے گا۔ فیل ہونے ہر تو بقول مرزا، صرف ایک دن آدمی کی بے عزتی خراب ہوتی ہے۔ اس کے بعد چین ہی چین۔

    بس یہی ہو گا نا کہ جیسے عید پر لوگ ملنے آتے ہیں، اسی طرح اس دن خاندان کا ہر بزرگ باری باری برسوں کا جمع شدہ غبار نکالنے آئے گا اور فیل ہونے اور خاندان کی ناک کٹوانے کی ایک مختلف وجہ بتائے گا۔ اس زمانے میں نوجوانوں کا کوئی کام، کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا تھا جس کی جھپیٹ میں آ کر خاندان کی ناک نہ کٹ جائے۔”

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شوخئِ قلم)

  • "کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟”

    "کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟”

    مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میرے بالوں کے جھڑنے کا عمل پہلے شروع ہوا تھا یا ان میں سفیدی جھلکنے کی ابتدا پہلے ہوئی تھی، لیکن جب آئینے سے وحشت شروع ہوئی تو آدھے سے زیادہ بال داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ پسماندگان میں بچے کھچے بال بیوگی کا سفید لبادہ اوڑھے کنپٹیوں اور سَر کے پیچھے ڈٹے، ستی کی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آئے۔

    بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ گنجا پن دولت آنے کی نشانی ہے۔ مجھے اس مفروضے پر ہمیشہ سے شک رہا ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ والے اپنے ڈیٹا بیس میں شہر کے تمام گنجے لوگوں کی فہرست تیار رکھتے بلکہ ان کے افسران بھیس بدل کر راہ چلتے لوگوں کے بال نوچتے پھرتے کہ کہیں کوئی اپنی جیولری اور پراپرٹی وِگ میں تو چھپائے نہیں پھر رہا ہے۔ البتّہ وِپرو کے مالک عظیم پریم جی کے ساتھ یہ طریقۂ تفتیش اپنانے پر متعلقہ افسران کو معطلی یا تبادلے کا سامنا کرنا پڑتا۔

    عورتیں عموماً اس وبالِ جان سے پیدائشی طور پر مستثنیٰ ہیں (یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں کروڑ پتی ہیں لیکن ”کروڑ پتنی“ گنتی کے چند)۔ اگر ان کی یہ استثنائی حیثیت ختم ہو جائے تو دنیا کے تمام بیوٹی پارلرز بند ہو جائیں گے۔ شیمپو، تیل اور کنگھی بنانے والی فیکٹریوں میں تالے لگ جائیں گے۔ البتّہ اسکارف اور حجاب بنانے اور فروخت کرنے والوں کی چاندی ہو جائے گی۔

    شادی شدہ جوڑے دوسروں کی شادی کی تقاریب میں وقت پر بلکہ بعض اوقات وقت سے پہلے پہنچ پائیں گے۔ عورتوں کی آپسی ہاتھا پائی کی نوعیت میں بھی قدرے تبدیلی آئے گی کہ روایتی گتھم گتھا کے انداز میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گنجا پن عقل اور علم و دانش کے اعلیٰ درجے پر ہونے کا غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر پروفیسر، ڈاکٹر، دانش وَر اور سائنس داں وغیرہ گنجے ہوتے ہیں (البرٹ آئن اسٹائن نے تحقیق میں بھی چیٹنگ کی ہوگی! یقین نہیں آتا)۔ لہٰذا عورتوں کی مذکورہ استثنائی حیثیت کے در پردہ حقیقت۔۔۔ خیر، چھوڑیے اس بات کو۔ ہم کون ہوتے ہیں مشیتِ ایزدی میں دخل دینے والے۔

    کالج کے دنوں میں اکثر فکر دامن گیر ہوتی کہ کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟ مگر پھر خیال آیا جب اوپر والے نے راکیش روشن اور اکشے کھنّہ کو نہیں بخشا تو میری کیا وقعت؟ لہٰذا کثرتِ استغفار کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی یا مولا، بھلے ہی وقت سے قبل میرے بالوں کو سفید کر دے کہ اسے خضاب کا حجاب حاصل ہوگا مگر جھڑنے کے عذاب سے محفوظ رکھ، لیکن افسوس، دعا کے صرف پہلے حصے کو شرفِ قبولیت حاصل ہوا، اور یوں دہرے عذاب میں مبتلا ہوا۔

    (جاوید نہال حَشمی کے فکاہیہ سے مقتبس)

  • "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    خدا اس "اُونھ” سے بچائے جس کی زبان پر آیا اُس کو تباہ کیا، جس گھر میں گھسا اس کا ستیا ناس کیا اور جس ملک میں پھیلا اس میں گدھے کے ہل چلوا دیے۔ ثبوت درکار ہو تو دنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لو کہ اس اونھ نے زمانے کے کیا کیا رنگ بدلے ہیں۔

    طالبِ علموں میں دیکھو، اونھ کا زور سب سے زیادہ انہی میں پائو گے۔ سال بھر گزار دیا۔ امتحان کا خیال آیا تو اونھ کر دی یعنی کل سے پڑھیں گے… آخر یہ اونھ یہاں تک کھینچی کہ امتحان آگیا۔ فیل ہوئے۔ اس فیل ہونے پر بھی اونھ کر دی۔

    بہت ہی بامعنٰی ہوتی ہے۔ اس کے ایک معنٰی تو یہ ہیں کہ باپ زندہ ہیں، کھانے پینے اور اڑانے کو مفت ملتا ہے۔ اگر وہ بھی مر گئے تو جائیداد موجود ہے۔ قرضہ دینے کو ساہوکار تیار ہیں۔

    پھر پڑھ لکھ کر کیوں اپنا وقت ضایع کریں۔ دوسرے معنٰی یہ ہیں کہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ صرف اٹھارہ برس ہی کی تو ہے۔ اگر مڈل کے امتحان میں دو چار بار فیل ہوچکے ہیں تو کیا حرج ہے۔ تیس سال کی عمر تک بھی انٹرنس پاس کر لیا تو سفارش کے بل پر کہیں نہ کہیں چپک ہی جائیں گے۔ یا کم از کم ولایت جانے کا قرضہ تو ضرور مل جائے گا اور ذرا کوشش کی تو بعد میں معاف ہوسکے گا۔

    اس فیل ہونے پر ادھر انھوں نے اونھ کی اُدھر ماں باپ نے اونھ کی۔ اس صورت میں ابّا اور امّاں کی اونھ کا دوسرا مطلب ہے یعنی یہ کہ بچہ ابھی فیل ہوا ہے، دل ٹوٹا ہوا ہے۔ ذرا کچھ کہا تو ایسا نہ ہو کہ رو رو کر اپنی جان ہلکان کرے یا کہیں جا کر ڈوب مرے۔ غرض اس اونھ نے صاحبزادہ صاحب کی تعلیم کا خاتمہ بالخیر کیا۔

    (فرحت اللہ بیگ کے شگفتہ قلم سے)

  • "پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے”

    "پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے”

    ویسے تو میں تقریباً ہر درد سے آشنا ہوں۔ معلوم نہ تھا کہ دانت کے درد میں وہ تڑپ پوشیدہ ہے کہ دردِ دل، دردِ گردہ، دردِ جگر تو اس کے مقابلہ میں ’’عین راحت‘‘ ہیں۔ چناں چہ جب متواتر تین رات کراہنے اور ہر ہمسائے کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے بعد بھی درد میں کچھ افاقہ نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر اندر کمار کی دکان کا رخ کیا۔

    آپ دانتوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں اور دانت بجلی سے نکالتے ہیں۔ شاید مؤخر الذکر چیز نے مجھے ان کی جانب رجوع کرنے کو اکسایا۔ کیوں کہ بجلی کے سوا شاید ہی کوئی دوسری چیز مجھے بچا سکتی۔ چناں چہ میں نے ان کی دکان میں لپکتے ہوئے کہا:
    ’’میری بائیں داڑھ فوراً بجلی سے نکال دیجیے۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے میری طرف تکتے ہوئے کہا۔ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟

    ’’آپ مجھ سے راہ و رسم بعد میں بڑھا سکتے ہیں۔ پہلے میری بائیں داڑھ نکالیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا تشریف رکھیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی نکالے دیتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے مجھ پر سوالات کی بمباری شروع کر دی۔

    مثلاً کب سے درد ہے، کیوں درد ہے، اوپر والی داڑھ میں ہے یا نیچے والی داڑھ میں؟ اس سے پہلے بھی کبھی دانت نکلوایا ہے، کیا صرف ایک ہی دانت نکلوانا چاہتے ہیں؟‘‘

    اب میں تھا کہ درد سے بے تاب ہو رہا تھا اور ہر سوال کا جواب دینے کی مجھ میں ہمّت نہ تھی مگر ڈاکٹر صاحب تھے کہ برابر مسکرائے جا رہے تھے۔ اور جب میں درد سے کراہتا تو ان کی مسکراہٹ زیادہ دل آویز اور دل کش ہو جاتی۔

    آخر جب انھوں نے دو تین دفعہ میرے منع کرنے کے باوجود اچھی طرح داڑھ کو ہلایا اور دیکھا کہ شدتِ درد سے مجھ پر بے ہوشی طاری ہوا چاہتی ہے تو انھیں یقین ہو گیا کہ واقعی دانت کا درد ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دو تین اوزار گرم پانی میں ابالنے لگے۔ میں نے کہا:’’اجی حضرت جلدی کیجیے۔ بجلی سے میری داڑھ نکالیے۔‘‘

    ’’ کہنے لگے:‘‘ آج بجلی خراب ہو گئی ہے، اس لیے داڑھ ہاتھ سے ہی نکالنا پڑے گی۔‘‘ جتنا عرصہ اوزار گرم ہوتے رہے وہ مجھے دانت کی خرابیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کے خیال کے مطابق دنیا کی تمام بیماریاں دانتوں ہی کے خراب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ بد ہضمی سے تپ دق تک جتنے امراض ہیں، ان کا علاج داڑھ نکلوانا ہے۔

    اس لیکچر میں آپ نے اس ملک کے لوگوں کی عادات پر بھی کچھ تبصرہ کیا۔ مثلاً ‘‘ یہاں کے لوگ بے حد بے پروا واقع ہوئے ہیں۔ امریکا اور انگلینڈ میں ہر ایک آدمی سال میں چار دفعہ دانت صاف کرواتا ہے، مگر یہاں لوگ اس وقت تک دندان ساز کی دکان کا رخ نہیں کرتے جب تک دانت کو کیڑا لگ کر سارا مسوڑھا تباہ نہ ہو جائے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پروا نہیں کرتے، اگر لوگ ذرا محتاط ہوں تو آج ان کی مشکلیں حل ہو جائیں۔

    اس قسم کے متعدد جملے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گئے۔ حتیٰ کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے ملک کے سچّے خیر خواہ صرف آپ ہیں۔ اور اگر آپ نہ ہوتے تو خدا جانے ہمارے ملک کی کیا حالت ہوتی۔

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں درجہ اوّل میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑتی تھی۔

    وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا۔ اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔

    بی۔اے میں چودھری صاحب عازمِ بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہوجائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔

    ‘‘ذرا غور تو کیجیے’’ چودھری صاحب بولے۔ ‘‘یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبٔہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصۂ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیلِ دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تواس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔’’

    ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمۂ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

    حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد‘‘الحاج الشذری الہندی۔’’

    بہت غور وخوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ‘‘چودھری’’معرب ہو کر‘‘الشذری ’’ہو گیا تھا۔ اور یہ ارتقائی نشو و نما چودھری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے، مگر ‘‘الشذری’’ اس سے مجبور تھے۔ اور عربی جبہ وقبہ پسند کرنے لگے تھے، لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔

    میں نے اور انھوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنیٰ کا تو یہ کبھی طے نہ ہوسکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہوگئی تھی اوراس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کی شگفتہ تحریر سے اقتباس)