Tag: اردو طنز و مزاح

  • "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔

    مصور ترچھے خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میرؔ کو بھی اس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انہوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا، تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی، یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چُھونا تو کیا، انھیں دُور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئے ادب ہے۔

    ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوقؔ کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔

    یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چوں کہ افسانہ نگار ہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از امکان نہیں۔

    استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے، لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔

    ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘

    (مشفق خواجہ، خامہ بگوش کے قلم سے)

  • عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے!

    عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے!

    سنا ہے ریاض شاہد کی فلم غرناطہ کے بارے میں سنسر بورڈ کو تامل ہے کہ اس میں رقص کیوں ہیں، کہانی مجاہدانہ ہے، بلکہ بہت ہی مجاہدانہ جس کے لیے جناب نسیم حجازی کا نام ضمانت بلکہ ناقابلِ ضمانت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

    ہم کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ چھوٹی چوٹی اصلاحیں کرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ اصلاح پوری ہونی چاہیے۔ اسلامی مملکت میں فلم بنے تو اس میں شراب اور شرابیوں کے سین کا کیا کام، لوگ لسی پیں کہ ہمارا قومی مشروب ہے اور اس کے بعد مونچھیں صاف کرتے اور ڈکار لیتے ہوئے الحمدُ للہ بھی کہیں تو اور مناسب ہے۔ میں آوارہ ہوں آوارہ ہوں، قسم کے گانے اور غنڈہ گردی کے سین، ہیروئن پر حملے خواہ وہ غیر مجرمانہ ہی کیوں نہ ہوں، آخر کہاں ہماری تہذیب کا حصہ ہیں۔

    چھی چھی، بُری بات اور ہم تو کئی بار یہ بھی کہ چکے ہیں عشق و عاشقی کو فلموں میں سے نکال دیجیے۔ ساری قابلِ اعتراض باتیں نکل جائیں گی۔ ہیرو ہیروئن کو مہنگے داموں محض اس لیے فلم میں ڈالنا پڑتا ہے کہ عشق کریں اور ولن بھی تاکہ اس عشق میں کھنڈت ڈالیں۔

    اب جب کہ ہماری فلمی صنعت کے اکثر لوگ حاجی ہو چکے ہیں۔ ہماری اس گزارش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

    جو لوگ مُصر ہیں کہ رومانی مناظر کے بغیر فلم نہیں بن سکتی، ان کی تالیف قلب کے لیے ہمیں ایک دوست کا یہ مشورہ پسند آیا کہ سارے رومانی سین تو رکھے جائیں، فقط اس وقت کیمرہ بند رکھا جائے۔

    (ابنِ‌ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • ملکہ برطانیہ کا وائلن اور ممبئی کا چور بازار

    ملکہ برطانیہ کا وائلن اور ممبئی کا چور بازار

    آزادیِ ہند سے قبل ملکہ برطانیہ کی آمد پر اس کے استقبال کے لیے گیٹ وے آف انڈیا بمبئی کے ساحل پر تعمیر کیا گیا جہاں اس کا جہاز لنگرانداز ہوا۔ ملکہ کو جہاز سے فوری طور پر محل لے جایا گیا۔ محل غالباً آج کا ہوٹل تاج تھا جو گیٹ وے آف انڈیا کے روبرو قائم ہے۔

    ملکہ کے ساتھ آئے سازو سامان میں ایک وائلن بھی تھا۔ جب ملکہ نے سمندر کی پُر شور لہروں پر ایک نغمہ چھیڑنے کی غرض سے وائلن طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ غائب ہے۔ گیٹ وے آف انڈیا سے محل کے درمیان میں وائلن غائب کر دیا گیا تھا۔

    ایک غلام ملک کے غلام شہری نے آزادیِ کردار کا وہ مظاہرہ کیا کہ ایک فاتح ملکہ کو اس کی تفریح سے محروم کر دیا۔ ملکہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا!

    ملکہ برطانیہ کا وائلن چوری ہوجانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ سارا علاقہ چھان مارنے کے بعد وہ وائلن موجودہ مولانا شوکت علی روڈ پر فروخت ہوتا ہوا پایا گیا۔ ملکہ کو وائلن کی بازیابی کی اطلاع ملی تو اس نے اس بازار کو تھیف مارکیٹ یعنی "چور بازار” کہہ کر پکارا۔

    ایک اور روایت کا مطابق مولانا شوکت علی روڈ پر پرانے سامان فروخت ہوتے تھے اور علاقے میں بہت شور ہوتا تھا اس لیے اس کا نام "شور بازار” پڑ گیا۔ بازار میں آنے والوں کی اکثریت جہلا کی ہوتی تھی۔ اس لیے شور بازار کثرتِ استعمال سے بگڑ کر "چور بازار” میں تبدیل ہوگیا۔

    دوسری روایت کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ انگریزوں کو دوسروں کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا اس لیے انہوں نے شریفانِ اودھ کو پان کھاتے دیکھ کر کہا کہ یہاں تو ہر تیسرا آدمی تپِ دق کا مریض ہے اور خون تھوکتا پھرتا ہے۔

    جاہل اور تہذیبی قدروں سے نا آشنا لوگ۔۔۔۔۔!

    صدیوں کی تاریخ اور تمدّن کا یک روزہ مشاہدہ کرنے کے لیے چور بازار سے بہتر جگہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔ برطانوی دور کی گھڑیاں ہوں رولز رائس کاریں، راجپوتوں کے زیوات ہوں یا ان کے لہو سے غسل کی ہوئی شمشیریں، ایران کے جھومر ہوں یا ان کے ہاتھ کی بنی قالینیں، ملکہ برطانیہ کی سہیلیوں کے وائلن ہوں یا مغلوں پر گولہ باری کرچکی توپوں کے زیراکس، یہاں سب کچھ مل سکتا ہے۔ ستم یہ کہ دکان دار اس چیز کی قدر سے نابلد ہوتا ہے۔

    اس دکان دار کے لیے تہذیب و تمدّن بس صرف یہی ہے کہ فی الوقت آپ کی جیبوں میں سبز نوٹ ہیں یا سرخ۔ وہ سرخ انقلاب اور سبز انقلاب سے نا آشنا ہوتا ہے۔

    خود راقم نے ایک کتاب "پہاڑوں کا بیٹا” کی تلاش میں بک فیئرز کی شکل میں کتابوں کے کئی پہاڑ سر کیے، لیکن ناکام ہی رہا۔ بالآخر اسی چور بازار سے اس حالت میں ملی کہ کتاب کا نصف حصّہ ایک بوسیدہ سے بار دان پر اور نصف راستے پر تھا جس سے خلقت ہجوم در ہجوم گزر رہی تھی۔

    کتاب اٹھا کر بیس روپے کا نوٹ دکان دار کو دیا اور واپس پیسے نہیں مانگے۔ ریزگاری واپس نہ مانگنے والے خریدار سے دکان دار بہت خوش ہوتا ہے اور ادھر خریدار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ نایاب شے دینے والے دکان دار کا منہ چوم لینا چاہتا ہے، لیکن اس کے (دکان دار کے) منہ میں بھری نسوار آڑے آجاتی ہے۔

    (فکاہیہ از حفظ الرحمن، ممبئی)

  • بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    ہماری آنکھ آیائوں کی گود میں نہیں کھلی، ماں کی گود اور ماں کی کمک پر محبت میں امڈی ہوئی ماسیوں، چاچیوں، پھوپھیوں اور رشتے کی بڑی بہنوں کی گود میں کھلی۔

    یوں بھی بے جی (والدہ مکرمہ) کے پاس عورتوں کا گزری میلہ سا لگا رہتا تھا۔ کچھ تو برادری کی معاصر خواتین ہوتیں جو ایک دوسرے کے گھروں میں باقاعدہ آتی جاتی رہتی تھیں کہ اپنی گائے بھینس کے تذکرے میں اپنی بہو کی بات ملا کر چلم کا تمباکو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن بڑی تعداد آس پاس کے دیہات کی چرواہوں کی ہوتی جو اپنے ڈھورڈنگروں کو ہانکتی پھراتی ہمارے گائوں کے رقبوں میں لے آتیں اور پھر کچھ سستانے، لسی پانی پینے یا یونہی گپ شپ لڑانے کے لیے بستی میں اپنی اپنی ’’سیدھ‘‘ (جان پہچان) کے گھروں میں پھیل جاتیں۔

    ہمارا مکان ایک تو گائوں سے باہر اس طور واقع تھا کہ اگر بیرونی دیواریں مضبوط نہ ہوتیں تو کھیتوں کی فصلیں ہمارے صحن میں آ کر لہلہانے لگتیں۔ پھر اس کے ساتھ کنواں بھی، پھر ملحق ایک کھلا میدان جس کو ہم ’’کھلا کہتے ہیں (شاید کھلیان سے)۔ بہرحال ہمارے گھر میں ان سادہ روزگار اور سخت معاش چرواہوں کی ریل پیل کچھ زیادہ ہی لگی رہتی۔

    ہمارے کنبے کی آمدنی اگر آج بھی وہی ہوتی تو ہمیں دو وقت کی روٹی مشکل ہوجاتی، لیکن اس زمانے میں ہمارا گھر بستی کے خوش حال گھروں میں شمار ہوتا اور ہماری حویلی اپنے چبارے کی وجہ سے، جو مدت تک گائوں کا اکلوتا چبارہ رہا، کسی قدر منفرد حیثیت رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر کی جانب اطراف و اکناف کی عورتوں کا رخ ہماری ’’آسودہ حالی‘‘ سے زیادہ دراصل بے جی کی دریا دلی کی وجہ سے تھا۔

    پیسے تو ان کے پاس ہوتے نہ تھے، البتہ حویلی کی تاریک ترین کوٹھڑی میں رکھی ہوئی لکڑی کی بنی ہوئی ایک اونچی مخروطی ’’گہی‘‘ (اجناس کی ذخیرہ دانی) سے گیہوں، باجرے، جوار کے ’’ٹوپے‘‘ اور پڑوپیاں‘‘ (اجناس مانپنے کے پیمانے) بھر بھر کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی رہتیں۔ بے جی کا نام سردار بیگم تھا اور وہ اپنی سخاوت سے تھیں بھی ایک سردار خاتون۔

    بے جی اتنے تڑکے اٹھتیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے ساتھ اٹھ کر پھر سوجاتے، پھر اٹھتے پھر سو جاتے، لیکن جب بھی اٹھے، مطلع عالم پر تاریکی کا پہرہ مسلط ہوتا۔ گھر کے کام کاج ان کو دن بھر سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے۔ آئے گئے والا گھر تھا، ایک گیا دو آگئے۔

    تنور ہر وقت گرم رہتا۔ بارہ بارہ کوس میں وعظ کی مجلس خواہ کسی گائوں میں جمتی، واعظین کا پڑائو ہمارے گھر پر ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں مریدوں کے پیرصاحبان اس علاقے میں قدم رنجا فرماتے تو ارادت مندوں کے جلو میں ایک وقت کی ضیافت ہمارے گھر پر بھی تناول فرماتے۔

    خاندان کے متعدد بزرگوں کی سالانہ برسیاں جو اب مہینے میں دو دو مرتبہ ہو رہی تھیں، مزید براں تھیں، چنانچہ صحن میں چاول کے ’’دیگ برے‘‘ (بڑے دیگچے) اور آلو گوشت کے ’’کٹوے‘‘ (مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں) چولہوں پر چڑھے رہتے۔

    بے جی گھر بار کے کسی کام کو اپنے ہاتھوں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ سمے کی معاشرت ہی ایسی تھی۔ بھینسیں دوہنا تو عورتوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، ہم نے انہیں ایک دو مرتبہ راج مستریوں سے کرنڈی چھین کر چھت کی لپائی کرتے بھی دیکھا۔

    اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

    ہانڈی پکانے سے چھت کی لپائی تک کسی دوسرے کا کیا ہوا کام انہیں مشکل ہی سے کبھی پسند آتا۔ آج تک ہم دونوں بھائیوں کی جتنی چخ چخ اپنی بیویوں کے ساتھ بینگن کے بھرتے پر ہوئی ہے، اس نے زندگی کا بھرتی کر رکھا ہے۔

    (بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کے اپنی والدہ سے متعلق ایک مضمون سے اقتباس)

  • بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے!

    بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔ پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔

    انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘ فرماتے ہیں

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا، کیا جاتا رہا، جاتا رہا

    ’’کہیے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘ ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجیے۔‘‘

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تُو نے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجیے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات…. ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • "زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے”

    "زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے”

    اردو ادب کا پہلا طنز و مزاح نگار جعفر زٹلی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور زٹلی کا زمانہ مغل سلطنت کے مشہور فرماں روا اورنگ زیب کا دورِ آخر ہے۔

    اورنگ زیب کی وفات کی وفات کے چند دہائیوں کے اندر ہی سلطنتِ مغلیہ پر انتشار کے آثار نظر آنے لگے۔ تخت نشینی کے لیے سازشیں، جھڑپیں، اور جنگیں شروع ہو گئیں اور یوں‌ مغل پائے تخت کا وقار جاتا رہا جس نے سلطنت کو کم زور کیا۔ اس عرصے میں جو سیاسی صورتِ حال اور انتشار عیاں ہوا اس نے سماج کو بھی متاثر کیا اور جعفر زٹلی وہ شاعر ہیں جنھوں نے اس سیاسی اور سماجی ڈھانچے کے خلاف عوام کی نا آسودگی اور ناراضی کا اظہار احتجاج کی شکل میں کیا۔

    اقتدار کی ہوس میں شہزادگان کی لڑائیاں اور ظلم و ستم سے عوام کی پریشانیاں بڑھنے لگیں تو جعفر زٹلی جیسے حساس اور زود رنج شاعر نے طنز اور تنقید کے ذریعے محل سے سماج تک کی کہانی بیان کی ہے

    سماجی ناہمواری، فرسودہ رسم و رواج، اخلاقی گراوٹ، بے عملی، قدروں کی پامالی کے ساتھ ساتھ سلطنتِ مغلیہ کے زوال اور اس کے نتیجے میں معاشی ابتری پر جعفر نے قلم اٹھایا ہے۔ البتہ ان کا انداز جارحانہ اور اکثر پھکڑ پن اور ابتذال کا شکار ہے، جس کی ناقدین نے نشان دہی کی ہے۔ تاہم ان کا اپنے دور میں صدائے احتجاج اور آواز بلند کرنا ضرور اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے کلام سے چند اشعار دیکھیے۔

    ایک نظم کے اشعار:
    ہنر مندان ہرجائی، پھریں در بدر رسوائی
    رزل قوموں کی بن آئی، عجب یہ دور آیا ہے
    نہ بولے راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
    اتاری شرم کی لوئی، عجب یہ دور آیا ہے

    سماجی و معاشرتی حالات میں‌ ابتری اور گراوٹ کو اس طرح نمایاں کیا ہے

    گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
    ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
    نہ یاروں میں رہی یاری، نہ بھائی میں وفاداری
    محبت اٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
    خصم کو جورو اٹھ مارے، گریباں باپ کا پھاڑے
    زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    گاڑی لاہور کے اسٹیشن پر رکی اور میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ہمیں وہی کالج کے دنوں کے مانوس در و دیوار نظر آئے۔ وہی رس بھری پنجابی آوازیں کانوں میں پڑیں اور وہی بھاگ بھری قمیصیں اور شلواریں دکھائی دیں۔ ایک غیبی طاقت نے ہمیں لاہور اترنے پر مجبور کر دیا۔

    اسٹیشن سے نکل کر پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں پیدل چلنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے لاہور ٹھہرے، ٹھہرے کیا اپنے آپ کو لاہور کے سپرد کر دیا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہوائے لاہور ہماری سہ سالہ اجنبیت کو دھو کر ہماری باضابطہ تطہیر کررہی ہے۔

    دوسرے روز گھر پہنچے تو چھوٹوں کو بڑا پایا اور بڑوں کو اور بڑا، لیکن گاؤں کی بڑی خبر یہ نہ تھی کہ ہم نے انھیں کیسا پایا بلکہ یہ کہ ہم خود کیسے پائے گئے۔

    خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، "سرگٹ” بھی پیتا ہے،
    مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    "بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو ناں؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    "جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟

    (کرنل محمد خان کی کتاب بجنگ آمد سے اقتباس)

  • دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ

    دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ

    ہر پرانی چیز قیمتی ہوتی ہے۔ پرانا تو جھوٹ بھی نئے سچ سے زیادہ قابلِ اعتبار ہوتا ہے۔

    انسان کی جتنی عزت بڑھاپے میں ہوتی ہے، اتنی ساری زندگی نہیں ہوتی۔ بڑھاپے میں اس لیے عزت ہوتی ہے کہ اس وقت تک بندے کو جاننے والے ہم عمر بہت کم زندہ ہوتے ہیں، دنیا میں کوئی بوڑھا بے وقوف نہیں ہوتا، کیوں کہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔

    دنیا میں تین قسم کے بوڑھے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھیں دوسرے بوڑھا سمجھتے ہیں اور تیسرے وہ جو واقعی بوڑھے ہوتے ہیں۔

    دنیا میں جتنی عبادت ہوتی ہے اس میں نوے فی صد بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے قیامت میں بخشے نہ جانے والے لوگوں میں زیادہ تر وہی ہوں گے جنھیں بوڑھا ہونے کا موقع نہیں ملا ہوگا، اس دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کو بوڑھا کر دیا جائے۔

    (یونس بٹ کی کتاب شیطانیاں سے اقتباس)

  • غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔

    اب سگریٹ کو ہی لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں، وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔

    مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انھوں نے چھوڑ دی۔

    کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔


    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "چراغ تلے” سے انتخاب)