Tag: اردو غزل

  • اردو غزل کا محبوب

    اردو غزل کا محبوب

    بیسویں صدی میں اردو غزل کا محبوب ایک بالکل نئے روپ میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ نیا روپ ایک ایسے نئے معاشرے، ایک ایسی نئی ‏تہذیب کا پرتو ہے جو بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی برق رفتاری سے پھیلنے لگی ہے۔

    اب نہ صرف جمہوریت اور حبُّ الوطنی کے ایک ‏مضبوط تصوّر نے بادشاہت کے تصوّر کی جگہ لے لی ہے بلکہ عورت بھی صدیوں کی گہری نیند سے گویا بیدار ہوگئی ہے اور اس کے انداز ‏و اطوار سے خود داری اور وقار مترشح ہو رہا ہے۔ چنانچہ نئی صدی میں طوائف سوسائٹی کا مرکز نہیں رہی اور اردو غزل کے محبوب میں ایک ‏عورت کا پرتو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔

    حسرتؔ کے کلام میں اس نئی عورت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور ان کے بعد دوسرے غزل ‏گو شعرا کے ہاں تو اس نئے رجحان نے ایک واضح اور قطعی صورت اختیار کرلی ہے۔ ‏

    یہ نئی عورت حرم کی چار دیواری کے اندر رہنے والی ایک روایتی ’گونگی‘، ’اندھی‘ اور’بہری‘ عورت نہیں۔ اس کے برعکس اس عورت کو نہ ‏صرف احساسِ حسن ہے بلکہ وہ زندگی کی دوڑ میں بھی خود کو مرد کا ہم پلّہ سمجھتی ہے اور زندگی کی مسرتوں میں خود کو برابر کا حصہ دار قرار ‏دیتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور طرّار بھی۔ اس میں محبت کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور اس نے نئی روشنی کے تحت نئے رجحانات کو ‏قبول بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اردوغزل نے اس نئی صورت حال اور اس نئی عورت سے واضح اثرات قبول کیے ہیں اور اس کے محبوب ‏میں نئی عورت کے بہت سے میلانات سمٹ آئے ہیں۔ ‏

    نئی عورت کی ذہنی بلندی، نزاکت اور شعریت کے پیشِ نظر غزل گو شاعر کو اظہارِ عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ‏ایک ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے۔ اس سے بیشتر اوقات شاعر کے جذبات محبت میں ‏عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے ہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ دوسرے ‏لفظوں میں غزل گو شاعر کے ہاں جذبے اور فکر کا ایک خوش گوار امتزاج رونما ہوا ہے، جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط، توازن اور ‏رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چند اشعار قابل غور ہیں۔ ‏

    اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی
    اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے ‏
    فراقؔ

    کبھی تم یاد آتے ہو کبھی دل یاد آتا ہے ‏
    ہر اک بھولا ہوا منزل بہ منزل یاد آتا ہے ‏
    حفیظؔ ہوشیار پوری

    حسن پابندِ رضا ہو مجھے منظور نہیں ‏
    میں کہوں تم مجھے چاہو مجھے منظور نہیں ‏
    حفیظ جالندھری

    خیر ہو تیری کم نگاہی کی
    ہم کبھی بے نیازِ غم نہ ہوئے ‏
    باقیؔ صدیقی

    اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ‏
    ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں ‏
    فیضؔ

    جذباتِ محبّت کے اظہار میں یہ سمٹا سمٹا سا انداز اس بات پر دال ہے کہ شاعر بتدریج محبت کے ایک محدود ماحول سے اوپر اٹھ کر عشق کی ‏ارفع اور وسیع تر فضا میں سانس لینے لگا ہے اوراس کے ہاں ایک گہری لگن اور کسک سطح کے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے دو ضمنی نتائج بھی ‏برآمد ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض غزل گو شعرا کے ہاں محبوب ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی منزل نہیں رہا، کیوں کہ محبوب سے قرب ‏کے باوصف شاعر کی ذہنی تشنگی بدستور قائم ہے۔ اس سے غزل میں محبوب کی مرکزی حیثیت کو ایک صدمہ پہنچا ہے۔ دوسروں کے ہاں ‏محبوب نے واضح طور پر ایک نصب العین یا آئیڈیل کا روپ دھار لیا ہے اور انہوں نے اپنے مسلک کے اظہار میں محبوب کو محض روایتاً ‏مخاطب کیا ہے۔ یہ چند اشعار ان نئے رجحانات کی غمازی کرتے ہیں۔

    تیرا کرم کرم ہے مگراس کا کیا علاج
    ہم نامراد خاک بسر مطمئن نہیں ‏
    احسان دانشؔ

    مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
    معاملاتِ من و تو نکل ہی آتے ہیں ‏
    تاثیرؔ

    دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
    تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے ‏
    فیضؔ

    خبر نہ تھی کہ غمِ یار جس کو سمجھے تھے ‏
    اسی کا روپ غمِ روزگار ٹھہرے گا
    عابدؔ

    آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں عشق کبھی کہتے تھے لوگ
    ہم سے دل کی بات جو اب پوچھو تو ایک کسک تک ہے ‏
    قیوم نظرؔ

    ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ‏
    ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے ‏
    ظہیرؔ کاشمیری

    بحیثیت مجموعی غزل کے جدید ترین دور میں محبوب نے یقیناً ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے، تاہم قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جدید دور میں بھی ‏غزل کی ایک مضبوط اور پائیدار روایت کے زیرِ اثر محبوب کے سراپا میں کوئی ایسی جیتی جاگتی عورت نظر نہیں آتی جس کی اپنی ایک انفرادیت ‏ہو اور جو اس انفرادیت کے باعث انبوہ سے قطعاً علیحدہ نظر آ رہی ہو۔ چنانچہ جدید دور میں بھی غزل کا محبوب ایک مثالی ہستی ہے اور اس ‏میں نہ صرف اس دور کی ایک ’مثالی عورت‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ اس میں چند ایسی صفات بھی ہیں جو شعرا کے اجتماعی ردعمل سے پیدا ‏ہوئی ہیں۔ یہ صورتِ حال غزل کا تاریک ورق نہیں ہے بلکہ اس سے غزل کے اس بنیادی رجحان کا پتہ چلتا ہے جس کے زیرِ اثر غزل گو شاعر ‏نے حقیقت کے تجزیاتی مطالعہ کے بجائے اس پر ہمیشہ ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور زندگی کو کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ‏ثابت حقیقتوں کے پیکر میں پیش کیا ہے۔

    (ماخذ: تنقید اور احتساب از ڈاکٹر وزیر آغا)

  • میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    میرؔ کا تذکرہ جن کے آئینۂ فکر میں پُرخلوص تجربات کا جوہر شامل ہے

    کہا جاتا ہے کہ مولانا حسرت موہانی نے سرتاج الشّعرا میر تقی میر کے اُن بہتّر اشعار کا انتخاب کیا تھا جو ان کی نظر میں میر کے بہترین اشعار تھے یہ میر کے بہتّر نشتر کے نام سے مشہور ہیں۔

    حسرت نے یہ انتخاب اپنے رسالے اردوئے معلٰی میں شایع کیا تھا، لیکن آج وہ انتخاب کسی کے علم میں‌ نہیں‌ ہے۔ میر تقی میر کو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا بہت احساس تھا، سو یہ تعلّی انھیں زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    خدائے سخن کہلانے والے میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی تھی۔ آج بھی میر اور ان کے بہتّر نشتر اشعار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ میر کے یومِ وفات کی طرح ان کے جائے مدفن پر بھی اختلاف ہے۔ ان کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں‌ اور لکھنؤ میں ایک جگہ کو ان کی قبر بتایا جاتا ہے۔

    میر تقی میر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    ہوتے ہوئے بھی ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔ میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ والد کی وفات کے بعد مزید مصائب اٹھائے۔ ان کا زمانہ بڑا پُر آشوب تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی اور شاہانِ وقت، نواب و امراء سبھی بربادی دیکھ رہے تھے۔ میر نے دلّی چھوڑی اور لکھنؤ پہنچ گئے اور وہیں‌ زندگی بھی تمام کی۔

    محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’آب حیات‘ میں لکھنؤ کے مشاعرے میں شرکت کے موقع پر اُن کا حلیہ کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: ’ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار۔

    دلّی میں‌ تو میر اپنے اور چند ہم عصروں کا تذکرہ یوں کرتے تھے، ’دلّی میں صرف ڈھائی شاعر ہیں۔ ایک میں، ایک سودا اور آدھا میر درد۔‘ میر نے درد کو آدھا شاعر اس لیے کہا تھا کیوں کہ وہ صرف غزل کے شاعر تھے جب کہ اس دور میں‌ شاعر مثنوی، قصیدہ، رباعیات میں‌ بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

    آل احمد سرور لکھتے ہیں، میرؔ کو بچپن ہی میں مہربان ’’چچا‘‘ اور شفیق باپ کی موت کی وجہ سے ایک محرومی کا احساس ہوا۔ بھائی نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ محرومی کے احساس میں ظلم کا احساس بھی شامل ہو گیا۔ دہلی میں انہیں خان آرزو جیسے سنجیدہ اور ثقہ آدمی کی صحبت ملی مگر خان آرزوؔ کی شفقت انھیں نصیب نہ ہوئی۔ قصور خاں آرزوؔ کا زیادہ ہے یا میرؔ کا۔ اس کے متعلق کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاں آرزوؔ میرؔ کے اطوار سے خوش نہ تھے۔ یہ اطوار اخلاقی اعتبار سے کتنے ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہوں ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ مجھے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک عالم اور ایک ’‘رند‘‘ کے مزاج میں جو فرق ہو سکتا ہے وہ یہاں بھی موجود تھا۔ اس فرق نے اپنا رنگ دکھایا۔ میرؔ، خان آرزو سے رخصت ہوئے، ایک گھنے سایہ دار درخت کا سایہ ان کے لیے عذاب ہوگیا۔ انھوں نے کڑی دھوپ کی آزادی پسند کی اور اس سائے میں جو چوٹیں ان کے دماغ پر لگی تھیں انھیں ساتھ لیے ہوئے اپنی انانیت کے سہارے زندگی کے خارزار میں مردانہ وار نکل کھڑے ہوئے۔

    مؤرخ رعنا صفوی میر کی قبر کے بارے میں‌ کہتی ہیں‌ کہ لکھنؤ میں میر کی قبر اور قبرستان اب صرف تاریخ کا حصہ رہ گئے ہیں۔ مؤرخین اور مداحوں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں کے زمانے میں اس پر ریل کی پٹری بچھا دی گئی تھی۔ صفوی، جن کی پرورش 1960 کی دہائی میں لکھنؤ میں ہوئی، بتاتی ہیں کہ ان کا گھر ان ہی ریل کی پٹریوں کے سامنے تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پٹری کے کنارے وہاں ایک دروازہ ہوا کرتا تھا، جسے بڑے بزرگ کہتے تھے کہ وہاں میر کی قبر ہوا کرتی تھی۔‘

    آج وہاں سے کچھ قدم دور میر کے نام سے ’نشانِ میر‘ نامی ایک علامتی ڈھانچہ ہے اور اس کا بھی حال بُرا ہے۔ دستیاب تاریخی ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ اکھاڑہ بھیم نامی مقام پر میر کا قبرستان تھا لیکن اب وہ علاقہ اکھاڑہ بھیم کے نام سے جانا بھی نہیں جاتا۔

    آل احمد سرور نے میر پر اپنے مضمون میں لکھا ہے، میرؔ بہرحال اپنے دور کی پیداوار ہیں لیکن ان کی شاعری کی اپیل آفاقی ہے، وہ اپنے اظہار میں اپنے دور سے بلند بھی ہو جاتے ہیں اور ذہن انسانی کے ایسے سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں جو ہر دور کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ کارگہ شیشہ گری کا کام صرف میرؔ کے زمانے میں ہی نازک نہیں تھا، آج بھی نازک ہےاور اگرچہ آج سانس آہستہ لینے کا زمانہ نہیں ہے پھر بھی اس شعر کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے ہم سانس روک لیتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ دور کے سارے کمالات کے باوجود جسم و جان کا رشتہ ایک ڈورے سے بھی زیادہ نازک ہے اور زندگی ایک پل صراط کی طرح ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔

  • "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    ایمان قیصرانی کی شاعری انسانی جذبوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کے کلام میں نسائی شعور اور عورت کے جذبات کا توانا اظہار دیکھا جاسکتا ہے۔

    درد مندی، سوز و گداز اور احساس بھی ایمان کے اشعار کا نمایاں وصف ہے، جسے وہ سادہ مگر نہایت دل نشیں‌ انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے مشہور قبیلے تمن قیصرانی بلوچ سے ہے، ایمان قیصرانی کے والد بشیر احمد عاجز قیصرانی نعت گو شاعر تھے۔ یوں شروع ہی سے انھیں بھی علم و ادب سے لگاؤ رہا اور وہ شاعری کی جانب راغب ہوئیں۔ ایمان نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ انھوں‌ نے جامعہ کی سطح پر اردو کی تدریس کے ساتھ ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھیں۔ ان کے دو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ یہاں‌ ہم ایمان قیصرانی کی ایک خوب صورت غزل آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجرجائے گا
    رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا

    اور کیا ہوگا بھلا روٹھ کے جانے والے
    بس یہ کاجل مرے تکیے پہ بکھر جائے گا

    رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
    تو اگر عہدِ وفا کر کے مُکر جائے گا

    کل اسے دیکھ لیا شہر میں ہنستا بستا
    وہ تو کہتا تھا کہ بچھڑے گا تو مر جائے گا

    جس نے تاوان میں آنکھوں کے خسارے جھیلے
    وہ کوئی خواب بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

    آنکھ سلگی ہے تو پھوٹے ہیں ہزاروں جھرنے
    دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟

    صبح کا بھولا ہے ایمان یقیناً اک دن
    وہ کبھی شام ڈھلے لوٹ کے گھر جائے گا

  • شاہ عالم ثانی: بدنصیب مغل بادشاہ، مشّاق شاعر

    شاہ عالم ثانی: بدنصیب مغل بادشاہ، مشّاق شاعر

    مغل فرماں روا شاہ عالم ثانی نے اپنی سلطنت کو زوال کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور شاعری اور موسیقی سے دل بہلاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ فارسی اور اردو میں آفتاب اور بھاشا میں شاہ عالم تخلص کرتے تھے۔ شاہ عالم ثانی کو ایسا مغل بادشاہ کہا جاتا ہے جس نے لال قلعہ اور دربار میں شاعری کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کو فروغ دی۔

    وہ مشّاق شاعر تھے۔ ان کے اشعار میں پیچ داری، مشکل فقرے یا الفاظ اور دور از کار تشبیہیں نہیں ملتیں بلکہ رواں اور سیدھے سادے الفاظ میں‌ حالِ دل بیان کر دیتے تھے۔ یہاں ہم شاہ عالم ثانی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    عاجز ہوں ترے ہاتھ سے کیا کام کروں میں
    کر چاک گریباں تجھے بدنام کروں میں

    ہے دورِ جہاں میں مجھے سب شکوہ تجھی سے
    کیوں کچھ گلۂ گردشِ ایّام کروں میں

    آوے جو تصرّف میں مرے مے کدہ ساقی
    اک دَم میں خموں کے خمیں انعام کروں میں

    حیراں ہوں ترے ہجر میں کس طرح سے پیارے
    شب روز کو اور صبح کے تئیں شام کروں میں

    مجھ کو شہِ عالم کیا اس ربّ نے، نہ کیونکر
    اللہ کا شکرانہ انعام کروں میں

  • ”ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے!”

    ”ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے!”

    اردو شاعری بالخصوص غزل گوئی میں‌ انور مرزا پوری کا نام کلاسیکی اور روایتی موضوعات کے سبب معروف ہوا۔ وہ 1960 کی دہائی کے دوران مشاعروں کے مقبول شاعر رہے ہیں۔ انور مرزا پوری کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے جسے معروف گلوکاروں‌ نے گایا ہے۔

    غزل
    میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
    نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے

    مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
    مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

    ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
    ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

    مری زندگی کے مالک مرے دل پہ ہاتھ رکھنا
    ترے آنے کی خوشی میں مرا دَم نکل نہ جائے

    مجھے پھونکنے سے پہلے مرا دل نکال لینا
    یہ کسی کی ہے امانت مرے ساتھ جل نہ جائے

  • دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے!

    دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے!

    عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے اس نوجوان نے شاعری کا آغاز کیا تو غزل کو اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوتا رہتا ہے۔ یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    دستبردار نہیں ہوں میں رہا ہونے سے
    قید گھٹتی نہیں زندان بڑا ہونے سے

    اتنی مہلت نہ ملی خود کو سمیٹوں سارا
    رہ گیا اس میں، میں عجلت میں جدا ہونے سے

    ہیں بیک وقت کئی عشق سو معلوم نہیں
    دل پریشاں ہے بھلا کس کے خفا ہونے سے

    اتنا کافی ہے مری رہ گئی ہے بات یہاں
    سر تو جاتا ہے نا مٹی میں انا ہونے سے

    دل بھی مل جائیں تو ہمسائیگی رشتہ ہے میاں
    ورنہ کیا فرق پڑے گھر کے ملا ہونے سے

    مجھ سے پہلے تھے ابھی کتنے مناظر اوجھل
    کتنے الفاظ تھے محروم صدا ہونے سے

  • تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے (شاعری)

    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے (شاعری)

    پروفیسر ڈاکٹر شریف کنجاہی دنیائے ادب کا ممتاز اور نہایت معتبر نام ہے جنھیں اردو اور پنجابی زبان میں ان کی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ادیب، شاعر، ماہرِ لسانیات، محقق، مترجم اور معلم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

    ان کی ایک غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے۔

    غزل
    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے
    یہ اور بات سہی ہم نہ دیکھ پائیں گے

    یقیں تو ہے کہ کُھلے گا، نہ کُھل سکا بھی اگر
    درِ بہار پہ دستک دیے ہی جائیں گے

    غنودہ راہوں کو تَک تَک کے سوگوار نہ ہو
    ترے قدم ہی مسافر اِنہیں جگائیں گے

    لبوں کی موت سے بدتر ہے فکر و جذب کی موت
    کدھر ہیں وہ جو اِنہیں موت سے بچائیں گے

    طویل رات بھی آخر کو ختم ہوتی ہے
    شریفؔ ہم نہ اندھیروں سے مات کھائیں گے

  • ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    گلگت بلتستان کے باسی شہزاد مہدی اردو زبان اور ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ اپنے ادبی رجحان کے سبب تخیل سے تخلیق کا مرحلہ طے کرنے والے اس نوجوان نے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے شاعری کو پسند کیا۔

    شہزاد مہدی نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ باذوق قارئین کے لیے ان کی ایک غزل پیش ہے۔

    غزل
    دل میں قیدی بنی کسی کی یاد
    اشک آنکھوں سے ہو گئے آزاد

    دل کے گوشے نہیں سنبھلتے ہیں
    خاک بستی کوئی کریں آباد

    تیری پستی کا ذکر چھیڑا تو
    خُلد میں رو پڑے ترے اجداد

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ
    خوب دیتے رہے ہمیں امداد

    موت پر کیسی تعزیت بھائی
    عید پر کون سی مبارک باد!

    تری آنکھوں کو دیکھ لینے سے
    ہلنے لگتی ہے روح کی بنیاد

    تھوڑا مغرور ہے مگر اک دن
    دوست بن جائے گا مرا، شدّاد

    جاؤ اب کوئی بھی نہیں ہے یہاں
    جاؤ اب مر گیا ترا شہزاد

    شاعر: شہزاد مہدی