Tag: اردو غزلیں

  • میر غم کے شاعر نہ ہوتے تو ہمارے لیے بڑے شاعر بھی نہ ہوتے

    میر غم کے شاعر نہ ہوتے تو ہمارے لیے بڑے شاعر بھی نہ ہوتے

    میر کو غم کا شاعر بتایا جاتا ہے۔

    اگر اس سرسری اور مبہم رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو داغ اور میر اور ان کے قبیل کے چند دوسرے شاعرو ں کو چھوڑ کر اردو غزل کا کون شاعر ہے جوغم پرست نہیں اور جس کی آوازغم کی آواز نہیں۔ خاص کر میر کے دور میں جو اردو غزل کا سب سے بڑا دور مانا جاتا ہے، غم دوستی اور یاس پرستی ہر چھوٹے بڑے شاعر کے خمیر میں داخل تھی اور اس کے کلام کی اصل روح تھی۔ یہاں تک کہ سودا کی غزلوں کا بھی بیشتر حصہ غم ناکی ہی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

    سودا جیسا چنچل مزاج رکھنے والا جو قصیدہ اور ہجو کا بھی ایسا ہی ماہر ہو، جب اپنے زمانے کی دھندلی فضا کے دل بجھا دینے والے اثرات سے بچ نہ سکا تو ہم کسی اور کو کیا کہیں۔

    ایک بات اور بھی قابلِ لحاظ ہے۔ سودا کی ہجوؤں کو اچھی طرح غور سے پڑھیے تو پتہ چل جائے گا کہ وہ بھی اپنے زمانے سے شدید ناآسودگی ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں غم نفرت اور حقارت کے جذبہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جو بالآخر اشعار میں طنز، تمسخر اور استہزا کی صورت میں نمودار ہو رہے۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھیے کہ طنز نگار اور مسخرا درپردہ سنجیدہ لوگوں سے زیادہ یاس پرست ہوتا ہے۔ اس کو زندگی میں کوئی حسین اور روشن پہلو نظر نہیں آتا، ورنہ وہ اپنے طنز اور ظرافت کے لیے مواد ہی نہ پائے۔

    اس کے علاوہ سودا کے اکثر قصیدے جو نعت اور منقبت میں لکھے گئے ہیں ان کا لہجہ عام طور سے وہی ہے جو ان کی غزلو ں کا ہے۔ خاص کر تشبیہیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ غزل سے زیادہ عبرت و بصیرت کا احساس پیدا کرکے ہم کو زندگی کی تمام دنیوی قدروں سے دل برداشتہ کر دیتی ہیں۔ یہ سودا کا مزاج نہیں تھا، بلکہ ان کے زمانے کا مزاج تھا۔

    ہاں تو ہم کو یہ تسلیم کرنے میں تأمل نہیں کہ میر غم کے شاعر ہیں۔ میر کا زمانہ غم کا زمانہ تھا اور اگر وہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنے زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لیے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔ بعد کے ادوار کے لیے وہی بڑا شاعر ہوا ہے جو اپنے زمانہ کی سچی مخلوق ہو اور اس کی پوری نمائندگی کرے۔ لیکن میر اور ان کے دور کے دوسرے شاعروں کے درمیان آخر فرق کیا ہے؟ اور وہ ہمارے لیے ایسے ناقابلِ تردید بڑے شاعر کیوں ہیں؟

    بات یہ ہے کہ دوسرے یا توغم غلط کرنے کی کوشش میں لگ گئے یا غم کے شکار اور زندگی کے لیے بیکار ہو کر رہ گئے۔ میر نے غم کو نہ صرف ایک مقدر کی طرح تسلیم کر لیا، بلکہ غم کو زندگی کی ایک نئی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے مشہور چار مصرعے پڑھیے،

    ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے
    خوننابہ کشی مدام کی ہے ہم نے
    یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
    مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے

    یہ شکست خوردگی یا مغلوبیت یا وہ سپردگی نہیں جو انفعالیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ وہ جذبۂ بغاوت ہے جو نفس کی تربیت اور زندگی کی معرفت کی تمام منزلوں سے گزر کر ایک جوہری قوت یا عنصری تاثیر بن گیا ہے۔ میر ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ذاتی محرومیوں اور نا مرادیوں میں اس طرح کھو جاتے کہ یہ ہوش باقی نہ رہتا کہ گرد و پیش میں دوسروں پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ اپنے اور دوسرے کے غم کو ’’غمِ عشق‘‘ کی زبان یعنی غزل کے روایتی اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ لیکن ان کا پیغام تڑپنا، تلملانا اور چھاتی پیٹنا نہیں ہے۔ وہ ان تمام آلام و مصائب میں بھی جو انتہائی شکست کا نتیجہ ہوتی ہے، سینہ تانے رہنے اور سر اونچا رکھنے کا حوصلہ ہمارے اندر پیدا کرتے ہیں۔

    (مجنوں گورکھپوری کے مضمون سے اقتباس)

  • قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    احمد حسین مائل حیدرآباد دکن کے ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جو سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کے لیے مشہور ہیں‌۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ طبِ یونانی جانتے تھے اور برطانوی دور میں طبابت کا امتحان پاس کیا تھا۔

    ان کے بارے میں مشہور محقق، نقّاد اور تذکرہ نویس ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے لکھا ہے، ’’کلامِ مائل کی دوسری خصوصیت نہایت ہی سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں طبع آزمائی ہے۔ شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے بعد اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا ہو جو اس خصوصیت میں مائل کی ہم سَری کرسکے۔‘‘ یہاں ہم مائل کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں، وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
    زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں، فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں

    نہ میں ہَوا میں، نہ خاک میں ہوں، نہ آگ میں ہوں، نہ آب میں ہوں
    شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

    سُلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
    بپا ہے عالم میں شورِ محشر، مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں

    ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت، نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
    ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں، اُدھر جو میں اضطراب میں ہوں

    الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
    پکارتا ہے یہ خطِ قسمت کہ میں بھی فردِ حساب میں ہوں

    مٹا اگرچہ مزار میرا، چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
    پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں

    کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو، نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
    ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے