Tag: اردو مزاح

  • سیاست کا لفظی تجزیہ

    سیاست کا لفظی تجزیہ

    جانے وہ کون سے ممالک ہیں جہاں سیاست کو عبادت اور عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں‌ کے قابل و باصلاحیت شہری کوچۂ سیاست میں اس لیے قدم رکھتے ہیں کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کرسکیں اور قوم کا وقار بلند کریں۔ ان کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے ان کو بہت سی سہولیات فراہم کرسکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں سیاست کا تصور اس کے عین برعکس ہے۔

    اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی نثر یا شاعری میں بھی ہمیں پاکستان کی بے ڈھنگی سیاست اور بگڑے ہوئے سیاست دانوں کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ لطائف یا مزاحیہ ادب ہمیں غور و فکر کا موقع دیتے ہوئے مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں‌ ہم ایک ایسا ہی شگفتہ پارہ نقل کررہے ہیں جو معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے قلم سے نکلا ہے اور ان کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ میں‌ شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    انگریزی کا لفظ Politics (سیاست) دو الفاظ کا مرکب ہے، یعنی Poly بمعنی ”بہت سے“ اور tics بمعنی ”خون چوسنے والے ننھے ننھے کیڑے!“ سیاست کے اس لفظی تجزیے سے سیاست داں کی جبلّت پر بخوبی قیاس کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطّے سے ہو۔ اس جبلّت کا ایک رخ یہ ہے کہ بھوٹان سے لے کر یونان تک سیاست داں کو اپنے ارد گرد منڈلانے والے اہل غرض یا گھیر گھار کر لائے گئے مٹھی بھر من موجی زیادہ اور اپنے دھرنوں، جلسوں میں خوار ہونے والے کچھ زیادہ لوگ بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ایک کرسی پر 20 سے 25 آدمیوں کو بیٹھے دیکھتا ہے اور ہزار 1500 آدمیوں کے ”ٹھاٹھیں مارتے سمندر“ سے جھوم جھوم کر خطاب کرتا ہے۔ یہی 1500 لوگ جب اس کے پیچھے ”مارچ“ کی صورت میں جمع ہوتے ہیں، تو وہ ملین سے ہرگز کم نہیں ہوتے۔ یہ اس کی نظر کا قصور نہیں، بلکہ ذہن کا فتور ہے جو اسے صحیح بات کے شعور سے محروم کر دیتا ہے۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ جب جلسے، دھرنے اور مارچ مخالف پارٹی کے ہوں تو سیاست داں کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے۔ اب اسے 20 کی جگہ ایک آدمی نظر آتا ہے، کرسیاں خالی خالی دکھائی دیتی ہیں اور ریلیاں جعلی۔ اخبارات دونوں پارٹیوں کے مؤقف شائع کر کے عوام کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ

    کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
    لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

  • انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    کچھ لوگوں کو اب خبر ملی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ”ترازو“ کے دونوں پلڑے غائب ہوگئے ہیں، حالاں کہ ہائی کورٹ جانے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لئے یہ خبر نہ پرانی ہے اور نہ ہی چونکا دینے والی۔

    جن لوگوں کا واسطہ عدالتوں سے پڑتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ صدر دروازے سے انصاف کی ترازو کے پلڑے ہی نہیں، عمارت کے اندر سے انصاف بھی غائب ہوچکا ہے۔ بھلا جس ملک میں عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں وہاں کوئی منصف انصاف کی ترازو کیسے تھام سکتا ہے؟ اور اگر کسی منصف نے اس کی ہمت بھی کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی اس کے تبادلے، رخصت یا ریٹائرمنٹ کا حکم صادر کر کے گویا خود اس کے ہاتھ قلم کر دیے گئے اور انصاف کی ترازو کے خالی پلڑے ہوا میں جھولتے رہ گئے۔

    اگرچہ انصاف کی ترازو کے یہ پلڑے اسی غیر محسوس طریقے سے غائب ہوئے ہیں جس طرح معاشرے سے انصاف، لیکن، مقامِ حیرت ہے کہ انصاف غائب ہونے کی کسی کو خبر نہ ہوئی اور اگر کسی کو ہوئی بھی تو اس نے کوئی واویلا نہیں کیا یا شاید خود میں اتنی ہمت نہ پائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انجام کو سامنے رکھتے ہوئے چپ سادھ لی ہو۔ اس کے برعکس ترازو کے پلڑے غائب ہونے کی لوگوں کو نہ صرف خبر ہوگئی بلکہ بہت سے لوگ اس فکر میں غلطاں و پیچاں بھی پائے گئے کہ آخر یہ پلڑے کیوں اور کس طرح غائب ہوئے؟ حالاں کہ ذرا سا غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یعنی جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں رہا تو پھر ترازو اور اس کے پلڑوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کوئی عقل مند انہیں اتار کر لے گیا ہوگیا کہ انصاف نہ سہی ان پلڑوں کی عزت ہی محفوظ رہ جائے۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پلڑے، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں کا بوجھ سہار نہ سکنے کے باعث خود ہی کہیں منہ چھپا گئے ہوں یا پھر کوئی ضرورت مند انہیں ”پلیٹیں“ جان کر اتار لے گیا ہو، اس طرح اور کچھ نہیں تو ان میں کھانا تو کھایا ہی جاسکتا ہے۔ گویا یہ پلڑے کسی کو انصاف فراہم نہیں کرسکے تو کیا ہوا کسی کا پیٹ بھرنے کے کام تو آگئے۔ ہر چند موجودہ بے روزگاری، مہنگائی اور کراچی میں آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث یہ امر بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال ہے کہ جب بہت سے گھروں میں چولہے ہی نہیں جل پاتے تو ان پلیٹوں میں ڈالنے کے لئے کھانا کہاں سے آتا ہوگا؟ اس صورتِ حال میں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ کوئی سادہ لوح انہیں روٹیاں ہی سمجھ کر لے گیا ہو کہ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ لگتے ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ضرورت مند نے ان پلڑوں کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا ہواگر ایسا ہے تو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہوا کہ انصاف کی ترازو کے ان پلڑوں نے کسی کو انصاف بے شک نہ دیا ہو، دو وقت کی روٹی تو مہیا کردی۔ اس دور میں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ یوں بھی جس شہر میں لوگ گٹر کے ڈھکن تک چوری کرنے سے دریغ نہ کرتے ہوں وہاں ان پلڑوں کی چوری پر حیرت کرنا کیا معنی؟ عین ممکن ہے کہ ان پلڑوں کو تھالیاں جان کر ایوان میں پہنچا دیا گیا ہو۔ بے شک ان دنوں وہاں لوٹوں کا رواج ہے اور گھوڑوں کی سوداگری ہورہی ہے۔ لیکن، تھالی کے بینگن کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ کون سا عہد یا دورِ حکومت ہوگا جب تھالی کے بینگن سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو؟ اِدھر کچھ عرصہ سے تھالی کے بینگن کی جگہ لوٹوں نے لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ یہ بینگن اپنی تھالیوں سے محروم ہوگئے تھے اور بغیر تھالی کے بینگن آپ جانیں انہیں ”بے گُن“ بھی کہا جاتا ہے اور وہ محض ”بھرتا“ بنانے کے کام ہی آسکتے ہیں یا زیادہ عزت افزائی مقصود ہو تو زیادہ مرچ مسالہ لگا کے ”بگھارے بینگن“ کے نام سے حیدرآباد کی شاہی ڈش قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ تھالیوں کے دستیاب ہوتے ہی یہ بینگن اپنی سابقہ حیثیتوں پر بحال ہوجائیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان پلڑوں کو کچھ شریر بچے لے گئے ہوں اور تھالیاں پھینکنے اور پکڑنے والا کھیل کھیل رہے ہوں جسے ایک زمانے میں ٹیلی ویژن نے ”فرزبی“ کے نام سے متعارف کرایا تھا اور جب مائیں اپنے باورچی خانوں میں محض اس لئے تالا لگا کے رکھتی تھیں کہ کہیں ان کے لاڈلے سپوت کھانا کھانے کی رکابیوں سے گلی میں فرزبی کا میچ نہ کھیلنے لگیں۔ اگر یہ خیال درست ہو، اور ان پلڑوں کے غائب کرنے میں بچوں کا ہی ہاتھ ہو تو بھی اس میں بُرا منانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ جب ہمارے بڑے، ملک میں انصاف کو پنگ پانگ کی گیند یا کوئی اور کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو کیا بچوں کا ان پلڑوں پر بھی حق نہیں بنتا جو محض علامتی ترازو کی زینت تھے اور عملی طور پر کسی کام کے نہیں تھے۔ اب کوئی پرچون یا سبزی فروش تو وہاں اپنی دکان جما کر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ ترازو سے کوئی مثبت کام ہی لیا جاسکتا کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے ”توہینِ عدالت“ کا نوٹس مل جاتا اور اس کی بقیہ زندگی اس عمارت کے اندر وہ ”چیز“ تلاش کرتے گزر جاتی جس کا اس میں وجود بھی باقی نہیں رہا۔

    قصّہ مختصر یہ کہ ان پلڑوں سے اب جو بھی کام لیا جا رہا ہو وہ ان کے بیکار اور بے مقصد لٹکے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں تو بس یہ حسرت ہے کہ اے کاش! ہم میں ان پلڑوں کو غائب کرنے کی ہمت ہوتی تو آج وہ ہمارے ڈرائنگ روم کی کسی دیوار کی زینت ہوتے۔ ایسے ہی، جس طرح ہماری آپا (بیگم شوکت صدیقی) نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنا ”جہیزی ٹفن کیریئر اور دیگر اینٹیک (Antiques) برتن بھانڈے بطور آرائش ڈال رکھے ہیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو وہ ”اینٹیک“ یہ کہہ کر بڑے فخر سے دکھاتے کہ یہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب عدالتوں اور معاشرے میں انصاف کا رواج ہوا کرتا تھا۔

    (طنز و مزاح نگار، فیچر رائٹر اور سینئر صحافی حمیرا اطہر کا یہ کالم 1995ء میں کراچی کے ایک روزنامے میں شایع ہوا تھا اور یہ ان کی فکاہیہ تحریروں کے مجموعے ‘بات سے بات’ میں شامل ہے)

  • ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔

    کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔

    لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،

    ’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟

    دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!

    آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!

    اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘

    اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔

    بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!

    ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔

    (ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    انسان کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

    اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلّاقِ عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزشِ غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حسّ مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں با آسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سَر خوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحبِ طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرف دار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا…. کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیٔ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًا اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے قلم سے)

  • ایک شعر یاد آیا!

    ایک شعر یاد آیا!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔

    پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘، فرماتے ہیں،

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا ،کیا جاتا رہا،جاتا رہا

    ’’کہئے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘، ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے،

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجئے‘‘،

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تونے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجئے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات! ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘،

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔ آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔ آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھئے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھئے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘، اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔ ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں‘‘۔ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے،

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے،

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے ،لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فر مایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
    پر کترنے کولگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے،

    کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے،

    ہمیں بھی نامہ بر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے

    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔۔۔ وہ شعر ہے، شعر ہے کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔ ہاں، یاد آ گیا، لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    ایک دن ہماری آنکھیں آگئیں۔ کالج سے دو دن کی چھٹی لی۔ آغا صاحب کو پتہ چلا، حال پوچھنے آئے۔ فرمانے لگے، ’’بادام کا استعمال کیا کیجئے۔ نہ صرف آپ آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آنکھوں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ دوایک منٹ چپ رہنے کے بعد ہم سے پوچھا، ’’آپ نے آنکھوں سے متعلق وہ شعر سنا جسے سن کر سامعین وجد میں آگئے تھے۔ میرا خیال ہے نہیں سنا۔‘‘ وہ شعر تھا،

    جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
    چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

    نہایت عمدہ شعر ہے لیکن پھر بھی سودا کے شعر سے ٹکر نہیں لے سکتا۔

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    اسی موضوع پر عدم کا شعر بھی خاصا اچھا ہے۔

    اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
    قافلے راہ بھول جاتے ہیں

    عدم کے بعد انہوں نے جگرؔ، فراقؔ، جوشؔ، اقبالؔ، حسرتؔ،فانیؔ کے درجنوں اشعار سنائے۔ انہیں سن کر کئی بار اپنی آنکھوں کو کوسنے کو جی چاہا کہ نہ کم بخت آتیں اور نہ یہ مصیبت نازل ہوتی۔ رات کے بارہ بج گئے لیکن آغا صاحب کا ذخیرہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’آغا صاحب! آپ نے اتنے اشعار سنائے۔ دو شعر ہم سے بھی سن لیجئے‘‘،

    ’’ارشاد،‘‘ آغا صاحب نے بے دلی سے کہا۔

    ’’ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے سب کو
    جن سے بھاگے نہ بنے جن کو بھگائے نہ بنے
    جس سے اک بار چمٹ جائیں تو مر کے چھوٹیں
    وہ پلستر ہیں کہ دامن سے چھڑائے نہ بنے‘‘

    آغا صاحب نے مسکرا کر فرمایا، ’’حالانکہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف نہیں ہے، پھر بھی آداب عرض۔‘‘

    (معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کی شگفتہ تحریر)

  • اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    بے اطمینانی انسان کی طبیعت میں ہے۔ نہ وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہ حال سے خوش۔ جب وہ اپنی ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے تو صرف ٹھنڈی سانس بھر کر چپکا نہیں ہو جاتا بلکہ جو واقعات گزر چکے ہیں کبھی کبھی اپنے ذہن میں ان کی ترکیب بدل دیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے تبدیلیاں کر لیتا ہے۔

    جس طرح ایک شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کرتے وقت تنقید کے خوف سے الفاظ کی ترتیب بدل ڈالے یا بعض الفاظ کو حشو سمجھ کر نکال دے اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے آئے۔ آپ نے اگر اس انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پر غور کیا ہے تو آپ کو اس طومار میں ایطائے خفی یا ایطائے جلی کی مثالیں نظر آئی ہوں گی۔ کبھی آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ اس شعر میں شتر گربہ ہے۔ یہاں بندش سست ہے۔ یہاں حرف صحیح ساقط ہو گیا ہے۔ یہاں مضمون پامال ہے۔ یہاں اختلافِ بحر ہے اور استغفراللہ یہ غزل کہتے وقت میری کیا مت ماری گئی تھی کہ پورا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن صاحب دل ہی دل میں اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کو الٹ پلٹ کے اور ان کی ترتیب بدل کے خوش ہو لینا اور بات ہے۔ زندگی سچ مچ شعر تو نہیں کہ جب چاہیں اس کی اصلاح کر لیں یا اگر کلام چھپ گیا تو اس کے ساتھ ایک غلط نامہ شائع کروا لیں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سوچ کے چپکے ہو رہیں کہ چلو اگلے ایڈیشن میں صحیح ہو جائے گی۔

    گزرے ہوئے دن پلٹ کر نہیں آتے اور جو کچھ ہو چکا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اگر مگر چناں و چنیں اور کاشکے کی بھول بھلیاں میں کھو جائیں اور ‘یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا’ گنگنانا شروع کر دیں یا مرزا غالب کی طرح یہ کہہ کے چپکے ہو رہیں کہ:

    آئینہ و گزشتہ تمنا و حسرت است
    یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم

    لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم اور زندگی میں جو غلطیاں کر چکے ہیں اگر وہ ہم سے سرزد نہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔ یا مرز غالب کو اپنے چچا کی پوری جاگیر مل جاتی تو آیا وہ کلکتہ اٹھ جاتے یا دہلی میں رہتے اور کلکتے چلے جاتے تو وہاں کی آب و ہوا کا ان کی غزل گوئی پر کیا اثر پرتا؟ مجھ سے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر چنگیز خان زندہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اوّل تو مجھے اس سوال پر ہی اعتراض ہے۔ چنگیز خان جن اثرات کی پیداوار تھا۔ ان پر غور کیا جائے تو علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جس کی کڑیاں گننا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے پیڑ میں ایسا کڑوا پھل ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لیے خاص موسم شرط ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ چنگیز خاں جیسے شخص کے لیے بارھویں تیرھویں صدی کا موسم اور مغولستان یعنی منگولیا کا ماحول ہی موزوں تھا۔ چنگیز خاں کو جس زمان اور جس ماحول میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اسی زمانے میں اور ماحول میں پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اور ہم اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کی ترتیب الٹنے پلٹنے اور نئے ڈھنگ سے ان کی چولیں بٹھانے کے عادی ہیں۔ چنگیز خاں سے بھی اسی قسم کی زبردستی کر گزریں یعنی اسے تیرھویں صدی سے کھینچ کر بیسویں صدی میں لا کھڑا کریں۔ خیر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ آئیے اب ہم اور آپ مل کر اس سوال پر غور کریں کہ اگر یہ مغل سردار جس نے پرانی دنیا کے نصف حصے کو زیر و زبر کر ڈالا تھا۔ آج ہوتا تو کیا ہوتا؟

    یہ سوال سن کر آپ کا ذہن یقیناً ہٹلر کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کے چہرے میں چنگیز خان کے خدوخال کا عکس تیار کر لینا بڑی آسان اور پیش پا افتادہ سی با ت ہے اور ممکن ہے کہ آپ کو اقبال کا یہ شعر بھی یاد آ گیا ہو کہ:

    از خاک سمر قندے ترسم کرد گر خیزد
    آشوبِ ہلاکوئے ہنگامۂ چنگیزے

    ہٹلر اور چنگیز خان میں بظاہر کئی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ اور دونوں کے کارناموں میں بھی بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً چنگیز خان تو چنگیز خانی کو جو اس کے بعض قوانین کا مجموعہ تھا ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا تھا۔ ہٹلر بھی نیا نظام قائم کرنے کا مدعی تھا اور نازیوں میں مائن کیمپ کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو مغلوں میں تورہ چنگیز خانی کو حاصل تھی۔ پھر دونوں میں تنظیم کی خاص صلاحیت ہے اور دونوں خون ریزی کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے بڑی مشابہت یہ ہے کہ کیف کا شہر دو دفعہ لٹا ہے۔ ایک دفعہ چنگیز مغلوں نے اسے تاراج کیا تھا اور دوسری دفعہ ہٹلر نازیوں کے ہاتھوں اس کی تباہی آئی۔ اس لیے مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر چنگیز خان آج زندہ ہوتا اور یورپ میں ہوتا تو نسل انسانی کے لیے ہٹلر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔ لیکن یہ امر مشتبہ ہے کہ اگر چنگیز خان آج مغولستان ہی میں پیدا ہوتا تو کیا دنیا اسے فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے جانتی۔ اور کیا اس کی سرداری میں مغل فوجیں آج بھی نصف کرۂ ارض کو پامال کر ڈالتیں۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی میں ایسے کارنامے انجام دینے کے لیے جو چیزیں ضروری تھیں وہ آج بے کار ہو کے رہ گئی ہیں، مثلاً اس عہد میں ہر نامور سردار کے لیے ضروری تھا کہ وہ جسمانی قوت میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ فنون سپہ گری یعنی تیغ گری، تیغ زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی، اور شہسوری میں ماہر ہو۔ لیکن آج کل جسمانی قوت یا فنونِ سپہ گری کی مہارت بے معنی ہے۔ ہٹلر میں تنظیم کی صلاحیت ضرور تھی۔ لیکن وہ پہلوان تو ہرگز نہ تھا۔ فنون سپہ گری سے بھی نابلد تھا۔ پھر اس نے وہ کیا جو چنگیز خاں نے اپنے عہد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ چنگیز خان نے بڑی بڑی فتوحات اس لیے حاصل کیں کہ منگولیا میں اعلیٰ نسل کے مضبوط اور جفا کش گھوڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ مغل گھوڑے چڑھے جب مغولستان کے کوہستانوں سے گھوڑے دوڑاتے نکلتے ہیں تو انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔

    آج کی لڑائیوں میں گھوڑوں کو اتنی اہمیت نہیں رہی، اب تو ٹینکوں کا زمانہ ہے اور ہٹلر نے ٹینکوں کی مدد سے ہی میدان سر کیے ہیں۔ شاید آپ کہیں گے کہ اگر چنگیز خان اس زمانے میں ہوتا تو اس کے پاس بھی ٹینک ہوتے لیکن صاحب مغولستان میں ٹینک کہاں سے آتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن منگولیا کے باشندوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی اب بھی قریب قریب ایسی ہی ہے کہ جیسی آج سے سات ساڑھے سات سو برس پہلے تھی۔ اب بھی دشت گوبی کے آس پاس کے علاقے میں مغل خانہ بدوشوں کے قافلے بھیڑ بکریوں کے گلے کے لیے چارے کی تلاش میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب بھی گھوڑے ان کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس لیے چنگیز خان آج ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار یا منگولیا کے کسی علاقے کا حاکم ہوتا۔ اور اگر اسے فتح مندی اور کشور کشائی کا شوق چراتا تو آس پاس کے علاقے پر چھاپا مارنا شروع کر دیتا اور ممکن ہے کہ اخباروں کے کالموں میں اس کا نام بھی آ جاتا۔ ریڈیو پر بھی ہم اس کا ذکر سن لیتے اور ہمارے ملک کے اکثر لوگ یہ جان لیتے کہ منگولیا کے سرداروں میں ایک صاحب چنگیز بھی ہیں۔ اور ممکن ہے ک کبھی ہم یہ بھی سن لیتے جاپانیوں یا روسیوں سے چنگیز کی ان بن ہو گئی۔ پہلے تو بڑے زور میں تھا لیکن ایک ہی ہوائی حملے نے ساری شیخی کرکری کر دی اور چنگیز خانی دھری کی دھری رہ گئی۔ اور ممکن ہے کہ چنگیز خان کو کسی قبیلے کی سرداری بھی ہاتھ نہ آتی اور ساری عمر جھیل بے کال کے آس پاس گھاس کھودتے گزر جاتی اور اس طرح اس مذاقِ خوں ریزی کی تسکین کا سامان فراہم ہو جاتا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ قیصر ولیم ثانی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد درخت کاٹا کرتے تھے۔ غالباً انہوں نے یہ مشغلہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ انہیں بھی تخریب سے ازلی مناسبت تھی۔

    منگولیا میں درخت کم ہیں، اس لیے چنگیز خان درختوں کے بجائے گھاس پر غصہ نکالتا اور اسی کو کشور کشائی اور جہانگیری کا بدل سمجھتا اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان منگولیا میں ہوتا۔ ورنہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہوتا نہ کسی علاقے کا حاکم۔ بلکہ یا تو لیڈر ہوتا یا پھر شاعر ہوتا۔ لیڈر ہوتا تو سیاست کے گلے پر کند چھری پھیرتا۔ اخبار نویس کی ٹانگ اس طرح توڑتا کہ بچاری ہمیشہ کے لیے لنگڑی ہو کر رہ جاتی۔ اور شاعر یا ادیب ہوتا تو ادب کا خون بہاتا۔ بھاری بھرکم لغات اس طرح لڑھکاتا کہ شاعری اس کے نیچے دب کے رہ جاتی۔ پرانے شاعروں کے دیوانوں پر ڈاکہ ڈالتا اور بڑے بڑے سلاطینِ سخن کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا۔ متداول بحروں میں ایسے تصرفات کرتا کہ ان کی شکل نہ پہچانی جاتی۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان پاکستان میں منگولیا ایسے گیاہستان نہیں جہاں چنگیز خان اطمینان سے گھاس کھود سکتا اور درخت کاٹنا جرم ہے اور یہ پھر بھی ہے جس طرح منگولیا گھوڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    ہمارا ملک شاعری اور شاعروں کے لیے مشہور ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ چنگیز خان کو شاعری کا پیشہ اختیار کر کے کاغذی گھوڑے دوڑانے اور قلم کی تلوار چمکانے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا اور اس معاملے میں مرزا غالب کا فتویٰ بھی تو یہی ہے کہ

    بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    (دنیائے ادب اور صحافت میں ممتاز چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • شور نہ کیجیے!

    شور نہ کیجیے!

    شہروں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں سکون اور اطمینانِ قلب کی کوئی جگہ ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ادبی رسالے کے خاص نمبر میں کسی خاص بات کی تلاش۔ شہروں میں بہرحال ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سناٹا ہوا کرتا ہے۔ یہ جگہ لائبریری کہلاتی ہے۔

    اکثر لائبریریوں میں تو ہُو کا عالم رہتا ہے۔ لائبریری وہ مقام ہے جہاں لائبریرین کے سوا کوئی نہیں جاتا۔ لائبریرین بے چارہ بھی وہاں جانے پر اس لئے مجبور ہے کہ اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہے (مشہور تو یہی ہے کہ اسے تنخواہ بھی دی جاتی ہے)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شخص بھی بس کبھی کبھی ہی وہاں جاتا ہے (اتنی عقل تو اس میں ہونی ہی چاہیے) لائبریری میں آپ بیٹھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایلورا کے کسی غار میں بیٹھے ہوئے ہیں (یہ مثال ان دنوں کے لئے ہے جب سیاحوں کا موسم نہ ہو) ذات کی تنہائی کے لئے کسی تنہا یا ویران مقام کی ضرورت تو نہیں ہوا کرتی لیکن ضرورت پڑنے پر لائبریری ہی کا رخ کرنا چاہئے۔

    کہتے ہیں ایک کیبرے ڈانسر سے کسی دانشور نے پوچھا کہ تم اتنی پڑھی لکھی ہو اور ایسے گھٹیا ہوٹل میں ڈانس کرنے آتی ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟
    ڈانسر نے جواب دیا کہ اسے پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا بڑا شوق تھا اور اس نے اسی شوق کی خاطر ایک لائبریری میں ملازمت بھی کی تھی لیکن وہاں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور جب سے اس نے اس گھٹیا ہوٹل میں آنا شروع کیا ہے، وہ شہر کے ہر دانشور سے مل چکی ہے۔

    کیا تعجب، یہ بات صحیح ہو کیونکہ کیبرے ڈانسر کو کوئی چیز پوشیدہ رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ کسی مصنف کی کتاب کا فٹ پاتھ پر پہنچ جانا پہلے بہت برا سمجھا جاتا تھا (فٹ پاتھ کو لوگ نہایت ناقص قسم کی چیز سمجھتے ہیں اور اس پر چلنا بھی گوارا نہیں کرتے، وہ ہمیشہ سڑک کے بیچ میں چلا کرتے ہیں) لیکن اب اگر کسی مصنف کی کتاب، کسی لائبریری مین پہنچ جائے تو اسے اس کی سب سے بڑی بد قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر کتاب رکھی رہے تو کیا تعجب بھولے بھٹکے کسی کی نظر اس پر پڑ جائے بلکہ یہ فٹ پاتھ پر پہنچتی ہی اس وقت ہے جب یہ پڑھی جا چکتی ہے (کتاب کا سکنڈ ہینڈ ہونا بڑی عزت کی بات ہے)۔ لائبریری کی الماری میں بڑے اہتمام اور قرینے سے سجی ہوئی کتاب تو آج 25 ، 30 سال پہلے کی اس پردہ نشین خاتون کی طرح ہوتی ہے جس کے آنچل کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی تو طوفان کھڑا ہو جاتا تھا ( اس زمانے میں چونکہ الیکشن کے امیدوار وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے اس لئے ایسی ہی چیزیں کھڑی ہوا کرتی تھیں) ان کتابوں کا آنچل بھی کبھی نہیں میلا ہوا کرتا۔ حالانکہ کتابوں کے گرد پوش آج کل اتنے نفیس اور خوبصورت ہوتے ہیں کہ کم سے کم انہیں تو دیکھا ہی جاسکتا ہے لیکن صرف گرد پوش دیکھنے کے لئے لائبریری کون جائے۔ آرٹ گیلری اس کام کے لئے بہتر جگہ ہے۔

    اگر مصنف خود ہی لائبریری جاکر اپنے ہی نام اپنی کتاب نہ نکلوائے تو کتاب میں رکھا ہوا کارڈ، اس کی قسمت ہی کی طرح معرّی رہے۔ ( اس میں ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اگر ناحسنِ اتفاق سے یہ کتاب کسی اور پڑھ لی ہے تو مصنف کو اپنے بارے میں اس معزز شخص کی رائے بھی معلوم ہوجائے گی۔ یہ رائے کتاب میں جگہ جگہ درج ہوگی کیونکہ لائبریری کی ہر کتاب، کتاب الرّائے ہوا کرتی ہے۔

    پڑھے لکھے لوگوں نے ان دنوں اپنی اپنی ذاتی لائبریریاں بنالی ہیں۔ ان لائبریریوں میں گم شدہ اور مسروقہ کتابوں کا نایاب ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن الماریاں بہر حال ان کی اپنی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کی مجبوری کو دخل ہے کیونکہ کتابیں تو مستعار مل جاتی لیکن الماریوں کے معاملے میں یہ طریقہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ (ہمارے پسماندہ ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے ) گھریلو لائبریری قائم کرنے والوں کو اتنی قربانی تو دینی ہی چاہئے۔ ذاتی لائبریری میں مختلف ترکیبوں سے جمع کی ہوئی کتابوں کا پڑھا جانا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی انہیں جھٹک کر ٹھیک سے رکھ دینا کافی ہے (بعض لوگ ان کی طرف سال میں ایک آدھ مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھ لینا بھی کافی سمجھتے ہیں) ان لوگوں کی بات البتہ الگ ہے جو خود کے لئے نہیں دوسروں کے لئے مطالعہ فرمایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک کتاب پڑھ کر جب تک دوسروں سے اپنے مطالعے کا انتقام نہیں لے لیتے، انہیں بلڈ پریشر رہتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کی ازدواجی زندگی میں فتور آجائے گا۔ پڑھتے تو خیر یہ دوسروں کے لئے ہیں لیکن لکھتے خود کے لئے ہیں۔ احتیاط یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا سمجھ نہ لے۔ ان کی تصنیف میں ان کا اپنا حصہ ہی ہوتا ہے جتنا سمندر میں خشکی کا (اتنا کثیر حصہ معمولی بات نہیں) یہ لوگ بہر حال ان مصنفوں سے بہتر ہوتے ہیں جو صرف لکھنا جانتے ہیں پڑھنا نہیں۔

    لائبریریوں میں پہلے جگہ جگہ یہ ہدایت لکھی ہوتی تھی کہ شور نہ کیجئے۔ شور نہ کیجئے۔ اب ان ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ضرورت تو ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابابیلیں نوٹسیں نہیں پڑھا کرتیں۔

    (یوسف ناظم کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب ‘البتہ’ سے انتخاب)

  • موسموں کا شہر

    موسموں کا شہر

    انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔

    اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔

    اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘

    ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
    لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔

    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔

    ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!

    کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • نظر نہیں آتا؟

    نظر نہیں آتا؟

    خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتّے اس کے کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔

    آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔

    کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

    رات کے وقت یہی کتّا اپنی خشک، پتلی سی دُم کو تابہ حدِ امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔” بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتّے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

    اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتّے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔

    (نام ور مزاح نگار پطرس بخاری کے قلم سے)