Tag: اردو مزاحیہ ادب

  • ہم اور ہمارا امتحان

    ہم اور ہمارا امتحان

    نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
    امتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

    لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوّا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں ’فیل یا پاس‘ اس سال کام یاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔

    میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پر، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا رتّی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔

    میری سنیے کہ دو سال میں لاء کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لاء کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لاء کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لیے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھیے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کیے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لاء کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔

    اب کیا تھا والدین امتحانِ وکالت کی تیاری کے لیے سَر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڈھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچّوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے!

    بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لیمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشہ کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لیے جیسا چاہیے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لاء کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لیے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاؤں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کام یابی و ناکام یابی خدا کے ہاتھ ہے۔

    مرد باید کہ ہراساں نشود

    میں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔

    قصہ مختصر درخواستِ شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لیے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کام یابی کی امید تھی۔ اوّل تو امدادِ غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لیے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

    ’’امدادِ غیبی‘‘ سے مراد امیدوارانِ امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عندالموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امیدِ انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کارروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لیے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

    خیر آمدم برسرِ مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لیے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔

    ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سرسری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحۂ اوّل کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصولِ قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔

    اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔‘‘

    جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجیے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لیے چپکا ہو رہا۔

    غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کام یاب ضرور ہوگا۔

    امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبردست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا۔

    وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندۂ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔

    کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجۂ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر)

  • پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    سامنے کتابوں کی ایک دکان نظر آئی، لکھا تھا “ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ کمپنی.‘‘ (ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ سنز) یہ نام میں نے پہلے کئی بار سنا تھا۔

    میں دکان کے اندر چلا گیا اور کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے بڑے سکون سے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر کوئی دو گھنٹے وہا‌ں گزارے۔ تازہ کتابوں کی مفت خوشبو سونگھی، بلاقیمت کئی کتابوں کے گرد پوش اور دیباچے پڑھے اور اس قلیل عرصے میں‌ مجھے اتنی کتابوں اور اتنے مصنفوں کے نام یاد ہوگئے کہ میں آئندہ دس سال تک کوئی کتاب پڑھے بغیر کافی ہوٹل میں دانشورانہ بحث (Intellectual Discussion) میں‌ حصہ لے سکتا ہوں۔

    جب مفت کی کتب بینی سے سیر ہو گیا تو خیال آیا، بے چاروں کا بہت استحصال کر چکا ہوں اب ایک آدھ کتاب خرید بھی لینی چاہیے۔ میری پہلی نظر (فرانسیسی فلسفی) سارتر (Jean-Paul Sartre) کی کتابیں تھیں۔ میں نے دو تین طرف نظر دوڑائی لیکن اس کی کوئی کتاب نظر نہ آئی۔ میرا تجسس اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سیلز گرل میرے پاس آئی اور کہنے لگی:
    ”کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
    ”جی ہاں۔‘‘
    ”خدمت بتائیے۔‘‘
    میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، وہاں بہت سے آدمی تھے، اس کے علاوہ ایک بُڈھا کاؤنٹر پر بیٹھا ہمیں تاڑ رہا تھا۔ میں نے اسے کوئی نازیبا خدمت بتانے کے بجائے صرف یہ کہا:
    ”مجھے سارتر کی کتابیں چاہییں۔‘‘
    وہ کچھ نہ سمجھی، میں نے اپنا جملہ دہرایا لیکن پھر بھہ وہ خالی الذّہن ہی رہی۔ میں نے سوچا یہاں آنے سے پہلے ”اپنی مدد آپ‘‘ کے ذریعے جو فرنچ سیکھی تھی اور ”Teach Yourself Books‘‘ کی 28 مشقیں بھی حل کر لی تھیں، انہیں کیوں نہ آزمایا جائے۔ میں نے صبح‌ ڈرائیور کی مدد کرنے کے لیے بھی ان اسباق کا سہارا لیا تھا لیکن وہ شاید کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے استفادہ نہ کر سکا تھا، یہ لڑکی تو خاصا ہونہار لگ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی فرنچ سے مستفید کیا، لیکن وہ بھی کوری نکلی، وہ بھی میری فرنچ سمجھنے سے قاصر رہی۔ اتنے میں ایک انگریزی دان سیلز گرلز آئی تو میں نے اپنے فرانسیسی جملوں کا مفہوم اُسے انگریزی میں سمجھایا لیکن اس کے بھی کچھ پلّے نہ پڑا۔ میں نے سوچا اگر فرانس کے صدر مقام پر تعلیم کا یہ حال ہے تو یہ یورپی منڈی میں‌ کیا خاک کردار ادا کرے گا….

    وہاں دوسری بات جو میرے مشاہدے میں آئی یہ تھی کہ جونہی سرخ بتی کی وجہ سے گاڑیوں کا ریلہ رُکتا ہے تو اسٹیرنگ (Steering) پر بیٹھے صاحب کتاب نکال کر فوراً مطالعہ شروع کر دیتے ہیں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں اور کھلی کتاب الٹا کر پاس رکھ لیتے ہیں تا کہ اگلے اسٹاپ پر مطلوبہ صفحہ تلاش نہ کرنا پڑے۔ میں نے ایک گھنٹے میں کم از کم گیارہ آدمیوں کو یوں مطالعے میں مصروف دیکھا۔

    (اس پارے کے مصنّف صدیق سالک ہیں‌ جو مزاح نگاری میں نام و مقام رکھتے ہیں، یہ ان کے پیرس میں قیام کے دنوں کی شگفتہ روداد سے نقل کیا گیا ہے)

  • "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں درجہ اوّل میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑتی تھی۔

    وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا۔ اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔

    بی۔اے میں چودھری صاحب عازمِ بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہوجائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔

    ‘‘ذرا غور تو کیجیے’’ چودھری صاحب بولے۔ ‘‘یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبٔہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصۂ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیلِ دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تواس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔’’

    ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمۂ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

    حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد‘‘الحاج الشذری الہندی۔’’

    بہت غور وخوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ‘‘چودھری’’معرب ہو کر‘‘الشذری ’’ہو گیا تھا۔ اور یہ ارتقائی نشو و نما چودھری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے، مگر ‘‘الشذری’’ اس سے مجبور تھے۔ اور عربی جبہ وقبہ پسند کرنے لگے تھے، لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔

    میں نے اور انھوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنیٰ کا تو یہ کبھی طے نہ ہوسکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہوگئی تھی اوراس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کی شگفتہ تحریر سے اقتباس)

  • آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ!

    آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ!

    سر تاج من سلامت!

    کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔

    آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔

    سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔

    شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کم زور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کے لیے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لیے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔

    خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔

    راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔

    رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لیے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔

    میں نے زینب بوا کو کو گھر آنے کے لیے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیے۔

    ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصت ہو گی، ضرور آنا۔ میں نے ہامی بھر لی۔

    (شوہر کو بھیجے گئے نامے سے چند پیرا، شفیق الرحمٰن کی کتاب مسکراہٹیں سے انتخاب)

  • السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Under-statement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔

    ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔

    جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا، "میں یوسفی بول رہا ہوں” تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کر سکوں۔

    فون پر بس ایک لفظی نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا: ’’جناب۔‘‘

    نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔

    ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحب زادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سنا سکیں۔

    وہ ’’جناب‘‘ کے ’’نا‘‘کو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔

    کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمو دیتے تھے۔

    (مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری سے متعلق مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے انتخاب)

  • "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔

    آپ کی تحریر پر پِروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔ زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔

    لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔

    عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سر دردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔

    کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرہ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چناں چہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرہ غلام حسن تحریر فرمایا۔

    ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینیئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پُھلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔

    پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا ستلی کئی عدد۔ اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔


    (شفیق الرحمٰن کی کتاب میں یہ شگفتہ پارہ "صحیح رقم خوش نویس” کے عنوان سے محفوظ ہے)