Tag: اردو مزاح نگار

  • جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نجانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان کہتے ہیں۔

    یہ فقط ذہنی تصویر تھی جس سے شبہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ چھوٹے چھوٹے نوک دار کان، ذرا ذرا سے سینگ، دبلا پتلا بانس جیسا لمبا قد۔ ایک لمبی دم جس کی نوک تیر کی طرح تیز تھی۔ دُم کا سرا شیطان کے ہاتھ میں تھا۔ میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں یہ چبھو نہ دے۔ نرالی بات یہ تھی کہ شیطان نے عینک لگا رکھی تھی۔ رات بھر ہم دونوں نہ جانے کس کس موضوع پر بحث کرتے رہے۔

    اس صبح چائے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ روفی کی شکل بالکل شیطان سے ملتی تھی۔ شکل کیا حرکتیں بھی وہیں تھیں۔ ویسا ہی قد، وہی چھوٹا سا چہرہ، لمبی گردن، ویسی ہی عینک، وہی مکار سی مسکراہٹ۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ چپکے سے رضیہ کے کان میں کہہ دیا کہ روفی شیطان سے ملتے ہیں۔ وہ بولی۔ آپ کو کیا پتہ؟ کہا کہ ابھی ابھی تو میں نے اصلی شیطان کو خواب میں دیکھا ہے۔ حکومت آپا رضیہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو ہمیں سرگوشی کرتے دیکھا تو بس بے قابو ہوگئیں۔ فوراً پوچھا۔۔۔ کیا ہے۔۔۔؟ رضیہ نے بتا دیا۔

    حکومت آپا کو تو ایسا موقع خدا دے۔ بس میز کے گرد جو بیٹھا تھا اسے معلوم ہوگیا کہ روفی کا نیا نام رکھا جا رہا ہے۔ لیکن محض خواب دیکھنے پر تو نام نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ویسے روفی نے ہمیں تنگ بہت کر رکھا تھا۔ بچوں تک کی خواہش تھی کہ ان کا نام رکھا جائے۔

    ہم چائے ختم کرنے والے تھے۔ مجھے دوسرے آملیٹ کا انتظار تھا اور رضیہ کو پتہ نہیں کس چیز کا۔۔۔ کالج میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، اس لیے مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ننھا حامد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے اسکول کا وقت ہوگیا تھا اس لیے جلدی میں تھا۔ وہ روفی کے برابر بیٹھ گیا۔ حامد کو بخار ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی حجامت ذرا باریک کروائی گئی تھی۔ روفی نے بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے حامد کے سر کو دیکھا۔ جونہی حامد نے ٹوسٹ کھانا شروع کیا روفی نے ایک ہلکا سا تھپڑ حامد کے سر پر جما دیا، اور میں نے فوراً رضیہ سے کہہ دیا کہ سچ مچ روفی شیطان ہی ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی ننگے سر کھائے تو شیطان دھول مارتا ہے۔ حکومت آپا چونک کر ہماری جانب متوجہ ہوئیں۔ ان کو پتہ چلنا تھا کہ سارے کنبے کو معلوم ہوگیا کہ آج سے روفی شیطان کہلائے جائیں گے۔

    یہ تھا وہ واقعہ جس کے بعد روفی شیطان مشہور ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں ہر ایک کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ خود روفی نے اس نام کو بہت پسند کیا۔ روفی اور میں بچپن کے دوست تھے اور مجھے ان کی سب کہانیاں یاد تھیں۔ جب ہم بالکل چھوٹے چھوٹے تھے تو ایک دن روفی کو ان کی نانی جان تاریخ پڑھا رہی تھیں۔ جب پتھر اور دھات کے زمانے کا ذکر آیا تو روفی پوچھنے لگے، ’’نانی جان آپ پتھر کے زمانے میں کتنی بڑی تھیں؟‘‘ پھر کہیں سقراط اور بقراط کا ذکر ہوا۔ یہ بولے، ’’نانی جان سقراط اور بقراط کیسے تھے؟‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’آپ نے تو دیکھے ہوں گے۔‘‘ جواب ملا۔ ہر وقت روفی کو کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔

    لیکن جب ہماری جماعت میں انسپکٹر صاحب معائنہ کرنے آئے تو وہ روفی سے بہت خوش ہوئے اور انعام دے کر گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’’اگر پانی کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیا بن جائے گا؟‘‘ ہم نے سوچا کہ روفی کہہ دیں گے کہ برف بن جائے گا۔

    روفی نے پوچھا، ’’کتنا ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    وہ بولے، ’’بہت ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘

    روفی سوچ کر بولے، ’’تو وہ بہت ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ (بہت پر زور دے کر)

    ’’اگر اور بھی ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو پھر وہ اور بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ روفی بولے۔

    ’’اور اگر اسے بے حد ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو وہ بے حد ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ انسپکٹر صاحب مسکرانے لگے اور پوچھا، ’’اچھا اگر پانی کو گرم کیا جائے تب؟‘‘

    ’’تب وہ گرم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’نہیں، اگر ہم اسے بہت گرم کریں اور دیر تک گرم کرتے رہیں پھر؟‘‘

    روفی کچھ دیر سوچتے رہے، یکایک اچھل کر بولے، ’’پھر۔۔۔ چائے بن جائے گی۔‘‘ اور انسپکٹر صاحب نے ایک عظیم الشان قہقہہ لگایا۔ ماسٹر صاحبان نے کوشش کی کہ انہیں کہیں ادھر ادھر لے جائیں، لیکن وہ وہیں کھڑے رہے اور روفی سے بولے، ’’بلّی کی کتنی ٹانگیں ہوتیں ہیں؟‘‘

    ’’تقریباً چار!‘‘

    ’’اور آنکھیں؟‘‘

    ’’کم از کم دو۔۔۔!‘‘

    ’’اور دُمیں؟‘‘

    ’’زیادہ سے زیادہ ایک!‘‘

    ’’اور کان؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’تو کیا سچ مچ آپ نے اب تک بلّی نہیں دیکھی؟‘‘ روفی منہ بنا کر بولے اور انسپکٹر صاحب ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ ان دنوں سے میں اور روفی دوست تھے۔

    (پاکستان کے معروف طنز و مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں۔

    وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں، مثلاً میں پوچھتا کہ ”خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے میں کیا پکا رہی ہیں؟“ تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ ”میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے، اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، تو فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے۔“

    خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے تھے۔

    ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ ”خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟“ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ہیں“۔

    ویسے خالہ جان اِن سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگرچہ قدرے "تفصیل” سے کرتی تھیں۔ ”

    (اقتباس ”مختصر بات اور باتوں کے خربوزے“ از مستنصر حسین تارڑ)

  • افزائشِ حسن کا طریقہ!

    افزائشِ حسن کا طریقہ!

    جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔

    ’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کے لیے بے شمار باتصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کو ہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھر اس کے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ

    سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

    چنانچہ ہرعضوِ بدن کے لیے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش، 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔

    توند کے لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں

    وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
    کھینچنے سے کھنچتی ہے، چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

    حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسبِ منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔

    یہی حال عورتوں کے رسالوں کا ہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔ اوّل: آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوّم: کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوّم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں!

    اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائشِ حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خونِ صالح نہ پیدا ہو اور جو جزوِ بدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لیے اس سے سخت اور کون سی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایا جائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زود اثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

    رسالوں کے اس حصّے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لیے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔

    زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کا خون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اس لیے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکۂ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغنِ قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوب صورتی کا راز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹریس آڈرے ہیپ برن اس لیے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔

    چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم

    دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا باز ہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کر دکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کا چونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملن سار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خود لڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی صاحب اس کا یہ جواز پیش کریں کہ چوں کہ ایسی گج گامنی کی نقل و حرکت بغیر جرِ ثقیل کے ممکن نہیں لہٰذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

    خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔

    ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وا دے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بارِ خلافت اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر خود ہی بولیں، ’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبردستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون صنفِ لاغر سے اقتباسات)

  • ’گاندھی جی‘ کا مجسمہ اور ”ایلفی“

    دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی ’دارالخون خرابا‘ تھا۔

    کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو ’کرانچی‘ ہی کہتے تھے۔

    چیف کورٹ کے سامنے ’گاندھی جی‘ کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ”ایلفی“ نہیں کہلاتی تھی۔

    سارے شہر میں ایک بھی نیو سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہلِ کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔

    اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ”ویک اینڈ“ پر اپنی آرمینین داشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔

    کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی ’بد دعا‘ دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

    میں اپنے شہر (کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    (از قلم: مشتاق احمد یوسفی)

  • فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    رام لال نارائن نے فکر تونسوی کے قلمی نام سے جہانِ اردو میں خوب شہرت پائی اور اپنے وقت کے معروف و مقبول طنز و مزاح نگاروں میں ان کا شمار ہوا۔ 1987ء میں آج ہی کے دن فکر تونسوی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔

    گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے طنز و مزاح اور نثر لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں، ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    26 جون 1955 کو مولانا چراغ حسن حسرت لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ آج اس ممتاز ادیب و شاعر اور جیّد صحافی کی برسی منائی جارہی ہے۔ مزاحیہ مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی خاص وجہِ شہرت ہیں۔

    چراغ حسن حسرت 1904 میں کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی طرف راغب ہوئے، فارسی پر عبور اور عربی جاننے کے ساتھ اردو زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں اردو اور فارسی کی تدریس سے منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں عملی صحافت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد اخبارات میں کام کرنے کے ساتھ ادبی جرائد کے لیے لکھنے لگے اور ادارت بھی کی جن میں ’’انسان، زمیندار، شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ انھیں شملہ اور کلکتہ میں بھی تدریس اور صحافت کے شعبے میں اپنے تجربے اور علم و قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    حسرت نے مختلف قلمی ناموں سے لکھا جن میں ’’کولمبس، کوچہ گرد، اور سند باد جہازی‘‘ مشہور ہیں۔ ان ناموں سے حسرت کی تحریریں ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئیں اور ان کا طرزِ نگارش اور دل چسپ و شگفتہ انداز ان کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔

    مولانا چراغ حسن حسرت کی تصانیف اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی کتابوں میں کیلے کا چھلکا، پربت کی بیٹی، مردم دیدہ، دو ڈاکٹر اور پنجاب کا جغرافیہ و دیگر شامل ہیں۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النّوع موضوعات پر مشتمل ہے۔ وہ سنجیدہ، خالص ادبی اور رومانوی مضامین کے ساتھ طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تبصرے اور تحقیقی مضامین بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ حسرت کو ان کے فکاہیہ مضامین اور ظرافت آمیز کالموں سے خوب شہرت ملی۔ چراغ حسن حسرتؔ نے لاہور کے روزناموں سے مزاحیہ کالموں کا سلسلہ کم و بیش چودہ پندرہ برس جاری رکھا۔

    انھوں نے زیادہ تر اپنے ماحول اور اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور ضربُ الامثال سے خوب کام لیتے تھے۔

    ایک ادیب، ایک صحافی، انشا پرداز اور ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جہاں انھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، وہیں‌ وہ علم و ادب کی دنیا اور اپنے قریبی احباب میں اپنی بادہ نوشی اور بعض عادات کی وجہ سے مطعون بھی کیے جاتے تھے۔

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی چراغ حسن حسرت کے بے تکلّف دوستوں‌ میں‌ شامل تھے، اور ان کا ایک خاکہ لکھا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    "مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

    آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی۔ جسے اگر فرانس کا ’’لیٹن کوارٹر‘‘ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور خود کو بزعمِ خویش بہت بڑا ادیب سمجھنے لگا تھا۔ عرب ہوٹل میں تعارف مظفر حسین شمیم نے اُن سے کرایا۔ یہ بھی حسرت صاحب کے مقابلے میں کم عجیب و غریب شخصیت نہیں رکھتے۔ میں بیمار تھا۔ شمیم صاحب کی وساطت سے مجھے ہفتہ وار’’پارس‘‘ میں جس کے مالک کرم چند تھے، ملازمت مل گئی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہوار مقرر ہوئی مگر ایک مہینے میں بمشکل دس پندرہ روپے ملتے تھے۔ شمیم صاحب اور میں ان دنوں دوپہر کا کھانا عرب ہوٹل میں کھاتے تھے۔

    ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کو سونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

    شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتّے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتّا دُم ہِلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

    اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتّے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈ ہیں یا میں کتّا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔

    حسرت صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ میں ان سے عمر میں کافی چھوٹا ہوں لیکن میں انہیں بڑی بڑی مونچھوں والا بچّہ سمجھتا ہوں۔ یہ مونچھیں صلاح الدین احمد صاحب کی مونچھوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔

    حسرت صاحب کہنے کو تو کشمیری ہیں مگر اپنے رنگ اور خدوخال کے اعتبار سے معلوم نہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فربہ اندام اور خاصے کالے ہیں۔ معلوم نہیں کس اعتبار سے کشمیری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

    ویسے مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ آغا حشر کاشمیری کے ہم جلیس تھے۔ علامہ اقبال سے بھی شرفِ ملاقات حاصل تھا جو کشمیری تھے۔ خاکسار بھی ہیں جس سے ان کی’’سانڈ اور کتے‘‘ کی دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ خالص کشمیری ہیں تو کوئی کشمیری نہیں مانے گا۔ حالانکہ انہوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

    یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پر بڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے حسرت صاحب بڑی دلفریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقۂ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شاید ان کے علم میں نہ ہوں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر بچّے، نوجوان اور بوڑھے پر رعب جمائیں اور اس کا کاندھا تھپکا کر اسے یہ محسوس کرنے پر مجبور کریں کہ وہ ان کا برخوردار ہے۔ مجھے ان کی طبیعت کا یہ رخ سخت ناپسند ہے، اسی وجہ سے میری اور ان کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔

    اردو کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • فلم ایکٹریس کی ڈاک

    فلم ایکٹریس کی ڈاک

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

    فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

    محترمہ، تسلیم!
    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

    آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

    اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
    نیاز مند ایڈیٹر

    ایک بیرسٹر کا خط

    مس صاحبہ!
    آداب عرض
    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

    باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
    بندہ
    بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

    شاعر کا خط

    جانِ جہاں!
    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
    والسلام
    خادم

    (اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔

  • مکمل باورچی خانہ (جدید)

    مکمل باورچی خانہ (جدید)

    جناب مطبخ مرادآبادی کی یہ کتاب مستطاب ہمارے پاس بغرضِ ریویو آئی ہے۔ جو صاحب یہ کتاب لائے وہ نمونۂ طعام کے طور پر بگھارے بینگنوں کی ایک پتیلی بھی چھوڑ گئے تھے۔ کتاب بھی اچھی نکلی۔ بینگن بھی۔

    قلتِ گنجائش کی وجہ سے آج ہم فقط کتاب پر ریویو دے رہے ہیں۔ بینگنوں پر پھر کبھی سہی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے کرم فرماؤں کو ریویو کی یہ شرط یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کتاب کی دو جلدیں آنی ضروری ہیں۔ اور سالن کی دو پتیلیاں۔

    اس کتاب میں بہت سی باتیں اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ ہر گھر میں معلوم رہنی چاہییں، مثلاً یہ کہ سالن میں نمک زیادہ ہو جائے تو کیا کیا جائے۔ ایک ترکیب تو اس کتاب کے بموجب یہ ہے کہ اس سالن کو پھینک کر دوبارہ نئے سرے سے سالن پکایا جائے۔ دوسری یہ کہ کوئلے ڈال دیجیے۔ چولھے میں نہیں سالن میں۔ بعد ازاں نکال کر کھائیے۔ یہاں تھوڑا سا ابہام ہے۔ یہ وضاحت سے لکھنا چاہیے تھا کہ کوئلے نکال کر سالن کھایا جائے یا سالن نکال کر کوئلے نوش کیے جائیں۔ ہمارے خیال میں دونوں صورتیں آزمائی جا سکتی ہیں۔ اور پھر جو صورت پسند ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔

    کھیر پکانے کی ترکیب بھی شاملِ کتابِ ہذا ہے۔ اس کے لیے ایک چرخے، ایک کتے، ایک ڈھول اور ایک ماچس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نسخہ امیر خسرو کے زمانے سے آزمودہ چلا آرہا ہے۔ لیکن اس میں ماچس کا ذکر نہ ہوتا تھا۔ خدا جانے چرخے کو کیسے جلاتے ہوں گے۔ ٹیڑھی کھیر عام کھیر ہی کی طرح ہوتی ہے۔ فقط اس میں بگلا ڈالنا ہوتا ہے تاکہ حلق میں پھنس سکے۔

    اس کتاب میں بعض ترکیبیں ہمیں آسانی کی وجہ سے پسند آئیں۔ مثلاً باداموں کا حلوا یوں بنایا جا سکتا ہے کہ حلوا لیجیے اور اس میں بادام چھیل کر ملا دیجیے۔ بادام کا حلوا تیار ہے۔ بیگن کا اچار ڈالنے کی ترکیب یہ لکھی ہے کہ بینگن لیجیے اور بطریقِ معروف اچار ڈال لیجیے۔ چند اور اقتباسات ملاحظہ ہوں،

    آلو چھیلنے کی ترکیب

    سامان، آلو۔ چھری۔ پلیٹ، ناول، ڈیٹول، پٹی۔

    آلو لیجیے۔ اسے چھری سے چھیلیے۔ جن صاحبوں کو گھاس چھیلنے کا تجربہ ہے، ان کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ چھلے ہوئے آلو ایک الگ پلیٹ میں رکھتے جائیے۔ بعض صورتوں میں جہاں چھیلنے والا ناخواندہ ہو، یہ عمل بالعموم یہیں ختم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری اکثر قارئین پڑھی لکھی ہیں لہٰذا آلو چھیلنے میں جاسوسی ناول یا فلمی پرچے ضرور پڑھتی ہوں گی۔ ڈیٹول انہی کے لیے ہے۔ جہاں چرکا لگا ڈیٹول میں انگلی ڈبوئی اور پٹّی باندھ لی۔

    ہمارے تجربے کے مطابق ڈیٹول کی ایک شیشی میں آدھ سیر آلو چھیلے جا سکتے ہیں۔ بعض جز رس اور سلیقہ مند خواتین سیر بھر بھی چھیل لیتی ہیں۔ جن بہنوں کو ڈیٹول پسند نہ ہو وہ ٹنکچر یا ایسی ہی کوئی اور دوائی استعمال کرسکتی ہیں۔ نتیجہ یکساں رہے گا۔

    حلوہ بے دودھ
    اس حلوے کی ترکیب نہایت آسان ہے۔ حلوہ پکائیے اور اس میں دودھ نہ ڈالیے۔ نہایت مزیدار حلوہ بے دودھ تیار ہے۔ ورق لگائیے اور چمچے سے کھائیے۔

    نہاری
    کون ہے جس کے منہ میں نہاری کا لفظ سن کر پانی نہ بھر آئے۔ اس کا رواج دہلی اور لاہور میں زیادہ ہے۔ لیکن دونوں جگہ نسخے میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ دلّی والے نلیاں، پائے، مغز اور بارہ مسالے ڈالتے ہیں۔ جس سے زبان فصیح اور بامحاورہ ہوجاتی ہے۔ پنجاب والے بھوسی، بنولے اور چنے ڈالتے ہیں کہ طب میں مقوی چیزیں مانی گئی ہیں۔ گھوڑے اوّل الذکر نسخے کو چنداں پسند نہیں کرتے۔ جس میں کچھ دخل صوبائی تعصب کا بھی ہوسکتا ہے لیکن اس تعصب سے دلّی والے بھی یکسر خالی نہیں۔ ان کے سامنے دوسرے نسخے کی نہاری رکھی جائے تو رغبت کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ بعض تو برا بھی مان جاتے ہیں۔

    اس بات میں فقط ایک احتیاط لازم ہے۔ کھانے والے سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے یا گھوڑا۔ لائق مصنف نے سنبوسہ بیسن، کریلوں کی کھیر اور تھالی کے بینگن وغیرہ تیار کرنے اور انڈا ابالنے وغیرہ کی ترکیبیں بھی دی ہیں لیکن ہم نے خود مکمل باورچی خانہ کی صرف ایک ترکیب آزمائی ہے۔ وہ ہے روٹی پکانے کی۔قارئین بھی اسے آزمائیں اور لطف اٹھائیں۔

    سب سے پہلے آٹا لیجیے۔ آٹا آگیا؟ اب اس میں پانی ڈالیے۔ اب اسے گوندھیے۔ گندھ گیا؟ شاباش۔ اب چولھے کے پاس اکڑوں بیٹھیے۔ بیٹھ گئے! خوب۔

    اب پیڑا بنائیے۔ جس کی جسامت اس پر موقوف ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں یا بنوں کے۔ اب کسی ترکیب سے اسے چپٹا اور گول کر کے توے پر ڈال دیجیے، اسی کا نام روٹی ہے۔

    اگر یہ کچی رہ جائے تو ٹھیک ورنہ کوئلوں پر ڈال دیجیے تا آنکہ جل جائے۔ اب اسے اٹھاکر رومال سے ڈھک کر ایک طرف رکھ دیجیے اور نوکر کے ذریعے تنور سے پکی پکائی دو روٹیاں منگا کر سالن کے ساتھ کھائیے۔ بڑی مزے دار ہوں گی۔

    مصنّف نے دیباچے میں اپنے خاندانی حالات بھی دیے ہیں اور شجرہ بھی منسلک کیا ہے۔ ان کا تعلق دو پیازہ کے گھرانے سے ہے۔ شاعر بھی ہیں۔ بیاہ شادیوں پر ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دیگیں پکانے کے لیے بھی۔ سہرا کہنے کے لیے بھی۔

    ہر ترکیب کے بعد مصنّف نے اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں جس سے دونوں خصوصیتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ باورچی خانہ کا باورچی خانہ، دیوان کا دیوان۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار ابنِ انشا کے شگفتہ مضمون "مکمل باورچی خانہ (جدید)، ایک ریویو” سے)

  • پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    سامنے کتابوں کی ایک دکان نظر آئی، لکھا تھا “ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ کمپنی.‘‘ (ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ سنز) یہ نام میں نے پہلے کئی بار سنا تھا۔

    میں دکان کے اندر چلا گیا اور کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے بڑے سکون سے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر کوئی دو گھنٹے وہا‌ں گزارے۔ تازہ کتابوں کی مفت خوشبو سونگھی، بلاقیمت کئی کتابوں کے گرد پوش اور دیباچے پڑھے اور اس قلیل عرصے میں‌ مجھے اتنی کتابوں اور اتنے مصنفوں کے نام یاد ہوگئے کہ میں آئندہ دس سال تک کوئی کتاب پڑھے بغیر کافی ہوٹل میں دانشورانہ بحث (Intellectual Discussion) میں‌ حصہ لے سکتا ہوں۔

    جب مفت کی کتب بینی سے سیر ہو گیا تو خیال آیا، بے چاروں کا بہت استحصال کر چکا ہوں اب ایک آدھ کتاب خرید بھی لینی چاہیے۔ میری پہلی نظر (فرانسیسی فلسفی) سارتر (Jean-Paul Sartre) کی کتابیں تھیں۔ میں نے دو تین طرف نظر دوڑائی لیکن اس کی کوئی کتاب نظر نہ آئی۔ میرا تجسس اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سیلز گرل میرے پاس آئی اور کہنے لگی:
    ”کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
    ”جی ہاں۔‘‘
    ”خدمت بتائیے۔‘‘
    میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، وہاں بہت سے آدمی تھے، اس کے علاوہ ایک بُڈھا کاؤنٹر پر بیٹھا ہمیں تاڑ رہا تھا۔ میں نے اسے کوئی نازیبا خدمت بتانے کے بجائے صرف یہ کہا:
    ”مجھے سارتر کی کتابیں چاہییں۔‘‘
    وہ کچھ نہ سمجھی، میں نے اپنا جملہ دہرایا لیکن پھر بھہ وہ خالی الذّہن ہی رہی۔ میں نے سوچا یہاں آنے سے پہلے ”اپنی مدد آپ‘‘ کے ذریعے جو فرنچ سیکھی تھی اور ”Teach Yourself Books‘‘ کی 28 مشقیں بھی حل کر لی تھیں، انہیں کیوں نہ آزمایا جائے۔ میں نے صبح‌ ڈرائیور کی مدد کرنے کے لیے بھی ان اسباق کا سہارا لیا تھا لیکن وہ شاید کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے استفادہ نہ کر سکا تھا، یہ لڑکی تو خاصا ہونہار لگ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی فرنچ سے مستفید کیا، لیکن وہ بھی کوری نکلی، وہ بھی میری فرنچ سمجھنے سے قاصر رہی۔ اتنے میں ایک انگریزی دان سیلز گرلز آئی تو میں نے اپنے فرانسیسی جملوں کا مفہوم اُسے انگریزی میں سمجھایا لیکن اس کے بھی کچھ پلّے نہ پڑا۔ میں نے سوچا اگر فرانس کے صدر مقام پر تعلیم کا یہ حال ہے تو یہ یورپی منڈی میں‌ کیا خاک کردار ادا کرے گا….

    وہاں دوسری بات جو میرے مشاہدے میں آئی یہ تھی کہ جونہی سرخ بتی کی وجہ سے گاڑیوں کا ریلہ رُکتا ہے تو اسٹیرنگ (Steering) پر بیٹھے صاحب کتاب نکال کر فوراً مطالعہ شروع کر دیتے ہیں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں اور کھلی کتاب الٹا کر پاس رکھ لیتے ہیں تا کہ اگلے اسٹاپ پر مطلوبہ صفحہ تلاش نہ کرنا پڑے۔ میں نے ایک گھنٹے میں کم از کم گیارہ آدمیوں کو یوں مطالعے میں مصروف دیکھا۔

    (اس پارے کے مصنّف صدیق سالک ہیں‌ جو مزاح نگاری میں نام و مقام رکھتے ہیں، یہ ان کے پیرس میں قیام کے دنوں کی شگفتہ روداد سے نقل کیا گیا ہے)