Tag: اردو مزاح نگاری

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • ذکر اُس پری وَش کا

    ذکر اُس پری وَش کا

    پیدائش پٹیالہ کے ایک دیوان خاندان میں ہوئی۔ تاریخِ پیدائش مت پوچھیے کہ صنفِ نازک کی حد تک اس سوال کا پوچھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس موضوع پر کوئی احمق سوال کر ہی بیٹھے تو بزرگوں کے قول کے مطابق یہ صنف تاریخ تو یاد رکھتی ہے مگر سنہ بھول جاتی ہے۔
    کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر انسان کا حافظہ خراب ہو تو وہ زیادہ دیر تک جوان رہ سکتا ہے۔
    اس بات کا ثبوت کہ پری وَش کی ولادت واقعی دیوانوں (یعنی وزیروں) کے خاندان میں ہوئی۔ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ بات کرتے ہوئے موصوفہ خود کو صیغہ واحد کے بجائے صیغہ جمع سے تعبیر کرتی ہیں، مثلاً ہم نے ایسا کیا، ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارا فیصلہ ہے کہ یہی ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی اور کو کسی معاملے میں برتری حاصل نہ ہونے دینے کی خُو، گو ایسا کرنے سے کوئی خوبی ثابت نہ ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ان کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ اس کے لڑکے ایسے سرپھرے ہیں کہ دن میں دس روپے کی پتنگیں اڑادیتے ہیں، تو پری وَش فوراً بے پر کی اڑانے لگتی ہیں کہ ان کی لڑکیاں اپنے اس شوق کو پورا کرنے میں ایک دن میں بیس بیس روپے صرف کر دیتی ہیں۔
    تاجپوشی اور تخت نشینی ان کی 44ء میں ہوئی۔ جب راوی زرّین شیروانی اور آہنی تلوار کرایہ کی لے کر اس تقریب میں شریک ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے سسر صاحب مرحوم ہوکر ہم کو محروم کرگئے تھے، ان حقوق سے جو فرزندی میں لینے کے بعد خاکسار کو حاصل ہوسکتے تھے۔ بہرحال پَری وَش کی تخت نشینی کے بعد ان کا راج شروع ہوا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے جس میں ایک صاحب، ایک بی بی اور ایک غلام ہونے کے باوجود غلاموں کی تعداد دو ہے۔
    ممکن ہے اب آپ یہ سمجھنے لگیں کہ رانی جی کے تعلق سے خاکسار غیرجانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ موصوفہ کا شمار حسینانِ جہاں میں ہونا چاہیے۔ سرو قد، متناسب جسم، سرخ و سپید رنگت، تابناک چہرہ، آہو چشم، ایک ماہِ کامل۔ زندگی میں جب پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو ایک لڑکی تھی۔ قیس کی لیلیٰ سے زیادہ خوبصورت اور فرہاد کی شیریں سے بڑھ کر شیریں۔ لڑکی جو عورت پھر ماں بنی، گھر کی مالک، گھرانے کی رانی، جس کی حکمرانی میں سرکشی اور بغاوت شرم سے پانی پانی۔ جس کا حکم نادرشاہی، جس کے فرامین اَٹل، جس کا غصہ گھر بھر کو لرزہ براندام کردے، جس کے رعب سے سر اور کمر جھکے رہیں۔ جس کی حشم ناکیوں سے گھر کا کتا بھونکنا بند کرکے اور دم دبا کر پلنگ کے نیچے پناہ ڈھونڈے اور خاندان کے افراد تتر بتر ہو کر سراسیمگی کی حالت میں گھر کے کونوں اور گوشوں میں سہم کر سمٹ جائیں۔ غرض شان اس پَری وَش کی شاہانہ، انداز تحکمانہ، لہجہ بیباکانہ، جب لب ہائے شیریں متحرک ہوں، یعنی یہ کھولیں اپنا دہانہ، تو اپنے الفاظ کی روانی کے سامنے تھم جائے۔ ٹینی سن کی پہاڑی ندی کا پانی اور چون و چرا کرنے کاجذبہ بھسم ہوجائے مانند پروانہ!
    جب اس رنگین قیامت کا عتاب شباب پر ہو تو آواز ایسی بلند کہ ٹیلیفون کا توسط غیر ضروری محسوس ہو۔ کانوں کے پردے ہل جائیں اور اڑوس پڑوس کی پردہ والیاں بھی پردے پرے کرکے اپنے اپنے آشیانوں سے باہر نکل پڑیں۔
    جب سے رانی جی نے چابیوں کا گچھا کمر میں لٹکانا شروع کیا ہے گھر میں سخت قسم کا کنٹرول عائد ہوگیا ہے۔ جہاں ہر چیز کسی مقفل الماری، صندوق، کمرہ یا میز کی دراز میں ہو تو ان کی اجازت یا ایما کے بغیر تنکا بھی اِدھر سے ادھر نہیں ہوسکتا اور خادم کو سگریٹ ماچس وغیرہ کے لیے گھر کے کتے کی طرح دم ہلانی پڑتی ہے۔
    ان کے دورِ حکومت میں خاندان کے اراکین میں دو کا اضافہ ہوا اور مالک یعنی اس اوپر والے کی مرضی سے دونوں چاند کی ٹکڑیاں ثابت ہوئیں۔ اس طرح ملکہ صاحبہ اولادِ نرینہ سے محروم ہیں اور ہمیشہ خاکسار کو اس کمی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جب صاحبزادیاں امتحانوں میں اونچے درجے حاصل کرکے پاس ہوتی ہیں یا کوئی اور قابل ستائش کام انجام دیتی ہیں تو بتلایا جاتا ہے کہ آخر ان کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے اور اگر شاذ و نادر وہ کبھی ضد کرتی ہیں یا کسی بات پر اڑ جاتی ہیں تو ان بچیوں کی رگوں میں خالص میرا خون دورہ کرنے لگتا ہے۔
    رانی صاحبہ کو اپنی رعایا سے جو کم و بیش خاکسار پر مشتمل ہے، یہ شکایت ہے کہ ان کو انتظامِ خانہ داری کی ہر ذمہ داری سے نپٹنا پڑتا ہے جب کہ راوی دفتر میں ٹانگیں پھیلائے گلچھڑے اڑاتا رہتا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق دفتر کا کام محض غپ شپ لڑانے، چائے پینے، اناپ شناپ بکنے، نیچے والوں کو دھمکانے اور اوپر والوں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے، اور فائلوں پر کچھ الٹے سیدھے دستخط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی مجھے دفتر سے آنے میں دیر ہوجاتی ہے تو ملکہ صاحبہ میرے انتظار میں بیزار، برسرپیکار، مرنے مارنے پر تیار۔ جب مجھ پر بڑھاپے میں آوارہ گردی کا الزام دھرتے ہوئے، دفتر کے کام کے متعلق اپنے نظریے کو باآوازِ بلند بیان فرمانے لگتی ہیں تو میں نہایت ادب سے ان کے حضور میں یہ عرض کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہوں کہ اگر بیگم صاحبہ کے ان خیالات کی بھنک محکمہ فنانس کے کسی عہدہ دار کے کانوں میں پڑگئی تو خادم کی جگہ تخفیف میں آجائے گی اور وہ بے روزگار ہو جائے گا اور سرکار کے دربار میں جو خراج مہینے کی پہلی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے اس سے حضور کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس پر ملکہ صاحبہ کچھ دیر کے لیے رک تو ضرور جاتی ہیں مگر روایتی رخصتی ٹھوکر کے طور پر یہ فرماتی ہیں کہ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خاکسار نے اچھی منطق تراشی ہے۔
    ان کو خادم سے یہ بھی شکایت ہے کہ جب وہ ان الٹی سمجھ والے نوکروں کو سیدھی طرح کام کرنے کے لیے تنبیہ کر رہی ہوتی ہیں تو اس نازک موقع پر خاکسار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شکایت درست اور بجا ہے مگر خاکسار کو اس فروگزاشت کی صفائی میں یہ عرض کرنا ہے کہ جب ملکہ صاحبہ نوکروں سے عالمِ غیض و غضب میں مخاطب ہوتی ہیں تو ایسے موقع پر میرا کچھ کہنا سننا نقار خانے میں طوطی کی آواز سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں جس نوکر کو بڑی سفارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور بڑی ناز برداری سے رکھا جاتا ہے اس کو ملازمت چھوڑ دینے کے لیے اکسانے میں بھلا میں کیونکر شریک ہوسکتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ رانی جی کے راج میں بہت سے نوکر ہماری ملازمت چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں سے ایک پچھلی جنگ کے موقع پر فوج میں بھرتی ہوگیا، تنگ آمد بجنگ رفت!

    ملکہ صاحبہ کے نوکروں کا کچھ حال آپ نے سنا۔ ان میں اور مجھ میں صرف یہ فرق ہے کہ خاکسار راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ زندگی میں بعض ایسے موقعے بھی آئے۔ جب خاکسار نے جھگڑنے کی کوشش کی مگر رانی جی نے فوراً یہ کہہ کر منہ بند کردیا کہ اگر وہ مجھ سے شکایت نہ کریں تو اور کس سے کریں۔ کوئی اور ان کی کیوں سنے گا۔ اور یہ کہ گائے اسی کھونٹے کے زور پر جس سے وہ بندھی ہوتی ہے، بدکتی ہے۔

    پچھلے 23 سال گزارنے کے بعد یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ زندگی کی الجھنیں کم مگر زندہ رہنے کی بہت بڑھ گئی ہیں۔ خاکسار کو اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ یہ دنیا عورتوں کی ہی ہے۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو پہلا سوال جو پوچھا جاتا ہے یہ ہوتا ہے کہ بچہ کی ماں کی طبیعت کیسی ہے؟ جب وہ شادی کرتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا خوبصورت دلہن ہے۔ اور جب وہ مرجاتا ہے تو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مرنے والے نے بیوہ کے لیے کیا چھوڑا؟
    اس دنیا کی بس یہی ریت ہے۔ خادم اس دنیا میں اب تک جو حاصل کرچکا ہے وہ محض تجربہ ہے جس کے حصول میں اس دھات کی عمر میں پہنچ گیا ہے جس میں پیروں میں سکہ، منہ میں سونا اور بالوں میں چاندی بھر جاتی ہے۔ خود پری وَش میں اب پختگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مگر ان کا رخِ روشن اب بھی تابناک ہے۔ جلالِ شاہانہ برقرار ہے۔ مگر ان کے خیالات، ان کی حرکات اور ان کی پالیسی جس جذبہ کے تحت تشکیل پاتی ہے وہ ماں کی محبت کا جذبہ ہے۔ ان کے دل میں اس بے لوث محبت کے انمول خزانے پنہاں ہیں اور آنکھوں میں اس محبت کے دریا لہریں مارتے ہیں۔ گرانی اور ملاوٹ کے جس دور سے ہماری زندگی گزر رہی ہے اس میں بھی ان کی بے پناہ نگرانی کے باعث صاف ستھرا رزق ہم کو میسر آرہا ہے۔ رانی جی کو جب میں ماں کی محبت کے روپ میں دیکھتا ہوں تو اس چھتری والے کے حضور میں یہ دعا مانگتا ہوں کہ ان کی حکومت ہم پر قائم و دائم رہے۔
    آپ شاید مسکرا رہے ہیں کہ آمرانہ حکمرانی کی اس لمبی چوڑی داستان کے بعد یہ کیا؟ اس کے جواب میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ،
    اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
    تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
    (معروف مزاح نگار بھارت چند کھنہ کی شگفتہ تحریر) 
  • راہ و رسمِ شہبازی!

    راہ و رسمِ شہبازی!

    گو پرواز کے لیے کسی اور پر انحصار راہ و رسمِ شہبازی کے خلاف ہے، مگر شہباز…. شریف ہو تو طیارے پر سفر کرتا ہے۔

    اب ظاہر ہے شہباز کی طرح طیارہ شکاری کی دسترس سے بچنے کے لیے پہاڑوں پر تو نہیں اُتر سکتا، وہ تو ہوائی اڈے ہی پر اُترے گا۔ ویسے ہمارے خیال میں طیاروں میں بھی تھوڑا بہت شعور ضرور ہوتا ہے۔ جب موسم خراب ہو اور بادِ تند مخالف چل رہی ہو تو انھیں لاکھ پانی پر چڑھایا جائے کہ میاں، ”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے“ لیکن وہ ہل کے نہیں دیتے، بلکہ سُنا ہے بعض تو صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ”کیا ہمیں شاہین سمجھا ہے؟“

    طیاروں کے مزاج آشنا حضرات کے مطابق ان میں شعور ہی نہیں بڑا گہرا سیاسی شعور بھی ہوتا ہے، جب ہی عوام اور سیاسی جماعتیں تو آمروں کو گوارا کر لیتی ہیں، مگر ان سے برداشت نہیں ہوتا اور یہ پھٹ پڑتے ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب قطعی نہیں کہ شہباز میں شعور کی کمی ہے۔ ہرگز نہیں، بل کہ ہمارے نزدیک شہباز…. شریف ہو تو زیادہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور جھپٹنے کی بجائے اُلٹ پلٹ کر ہی لہو گرم کر لیتا ہے۔ یہ اس کی دانائی ہی تو ہے کہ قفس سے نکلنے کے راستے بنا لیتا ہے، یعنی؎ جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا۔

    اب یہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ جانے کا تو ہو سکتا ہے، آنے کا نہیں۔ علامہ اقبال کے دور تک شہباز کا نشیمن صرف زاغوں کے تصرف ہی میں ہوا کرتا تھا، لیکن علامہ کی شاعری کے مطالعے نے دیگر چرند پرند میں بھی شوقِ تصرف جگا دیا۔ لہٰذا اب پرندے تو پرندے، مقدس گائے اور اللہ میاں کی گائے کے بھی چیونٹی کی طرح پر نکل آئے۔ وہ اڑیں اور دھپ کر کے نشیمن میں جا بیٹھیں۔ مقدس گائے کیوں کہ مرکَھنے بیل کی صفات رکھتی ہے، اسی لیے شہباز کو نشیمن اور شیر کو کچھار چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

    دوسری طرف اللہ میاں کی گائے چاہے جسامت کے اعتبار سے بیل نما ہو ”ذات بکری کی“ ہی ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ دیگر حیوانات کو مقدس گائے کی ناگزیریت کا احساس دِلانے کے لیے کہتی رہے ؎

    رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے تیری گائے بنائی

    خیر ہم مقدس گائے نہیں شہباز کا تذکرہ کر رہے تھے۔ شہباز اپنی صفات کی وجہ سے جہاں علامہ اقبال کو پسند تھا، وہیں علامہ کی نسبت سے ہمیں اور ہماری طرح دیگر کروڑوں پاکستانیوں کو بھی بھاتا ہے، بس بعض حضرات کو اس کا اونچا اڑنا پسند نہیں۔ جہاں اس نے اونچا اڑنے کی کوشش کی، وہیں اسے، ”نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر“ کہہ کر پہاڑوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اصولاً تو قرب مکانی کی بناء پر اسے قبائلی علاقوں کے کوہساروں یا کارگل کی چوٹی پر بھیجاجانا چاہیے، مگر ان مقامات پر ہوا کے دباؤ یا مخالف ہواؤں کی وجہ سے جانے والے کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے اور وہ جلد ہی واپس آجاتا ہے۔ لہٰذا شہباز کو دور دراز کے پہاڑوں پر بھیجا جاتا ہے۔ چوں کہ شاعر مشرق کے کلام سے اس پرندے کے مسلمان ہونے کا سراغ ملتا ہے، اس لیے سرزمین حجاز اس کی منزل قرار پاتی ہے۔ یوں مصوّرِ پاکستان کے ”مشورے“ کو حکم بنا کر اس کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔

    ویسے تو کبوتر باز سے پتنگ باز تک کوئی باز ہمیں برا نہیں لگتا، مگر شہباز سے ہمیں خاص انسیت ہے، لہٰذا نشیمن چھوٹنے کی وجوہات نظم کر رہے ہیں، تاکہ اگر شہباز کا کوئی مستقبل ہو تو اس میں کام آئیں ؎

    گر نہ جرنیل پہ جرنیل ہٹاتے جاتے
    ان سے اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
    وہ جو سیلون سے آئے تھے تو ویلکم کرتے
    بھائی نادان تھا، تم ناچتے گاتے جاتے
    ان کی ”بھیا“ سے تھی پرخاش تو بھیا جانے
    تم ”میاں“ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
    جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
    سو چلے جاتے مگر کچھ تو بتاتے جاتے
    گر پَسر جاتے ایئرپورٹ پہ دل خوش ہوتا
    اس شرافت سے گئے! کچھ تو ستاتے جاتے

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور ادیب محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘ کہے بغیر’ سے انتخاب، اس شگفتہ پارے کا پس منظر مشرف دور اور ن لیگ کی قیادت کا بیرونِ ملک قیام ہے)

  • رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    جہلم کے قریب ایک قلعہ دار نے ہم پر دھاوا بول دیا، لیکن فوراً ہی پھرتی سے قلعے میں محصور ہو گیا۔

    ارادہ ہوا کہ اس کو اسی طرح محصور چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، لیکن اُلّو شناس، ملتمس ہوا کہ نیا ملک ہے، یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ ہم نے فرمایا، کہ اس طرح قدم رکھے تو دلّی پہنچنے میں دیر لگے گی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ عقب سے آکر تنگ نہ کریں۔ اس روز ہمیں نزلہ سا تھا اور قصد لڑائی بھڑائی کا ہرگز نہ تھا۔ اُلّو شناس کے اصرار پر دو دن تک قیام کیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ تنگ آکر ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی تجویز نہیں ہوسکتی کہ یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو جائے۔ اُلّو شناس گیا اور جب شام کو لوٹا تو اس کے ساتھ ایک ہندی سپاہی تھا۔ اُلّو شناس کے کہنے پر ہم نے سپاہی کو پانچ سو طلائی مہریں دیں۔ ابھی گھنٹہ نہ گزرا ہوگا کہ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔

    ہند میں یہ ایک نہایت مفید رسم ہے۔ جب کٹھن وقت آن پڑے، یا مشکل آسان نہ ہو تو متعلقہ لوگوں کو ایک رقم یا نعم البدل پیش کیا جاتا ہے۔ تحفے کی مقدار اور پیش کرنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہے۔ اسے یہاں "رشوت” کہتے ہیں۔ کس قدر زود اثر اور کار آمد نسخہ ہے۔ اگر لاکھوں کے اٹکے ہوئے کام، ہزار پانچ سو سے سنور جائیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ رشوت دینے دلانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے کرنسی حرکت میں رہتی ہے۔ ہم واپس ایران پہنچ کر اس رسم کو ضرور رائج کریں گے۔

    ہمیں بتایا گیا کہ کچھ مہریں سپاہی نے اپنے استعمال کے لیے خود رکھ لی تھیں ۔ باقی کوتوال کو دیں، جس نے اپنا حصہ لے کر بقیہ قلعہ دار کے حوالے کی۔ قلعہ دار نے سنتریوں کو خوش کر کے دروازے کھلوا دیے۔ واقعی عجوبۂ روزگار ہے۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے)

  • غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    واشنگٹن ڈی سی امریکا کا دارالخلافہ ہے، جسے انکل سرگم غریب ملکوں کا "دارُاللفافہ” بھی کہتا ہے۔ سرگم کا کہنا ہے کہ امریکا کا دارالخلافہ غریب ملکوں کا "داراللفافہ” یوں بن جاتا ہے کہ یہاں سے غریب ملکوں کو وہ لفافے روانہ کیے جاتے ہیں جن میں "شاہ جہان” (امریکی صدر) کے احکامات یا انعامات ہوتے ہیں۔

    واشنگٹن ڈی سی کی مشہور عمارت ” کیپٹل بلڈنگ ” کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے علاقے کے مغل بادشاہ شاہ جہان کا تاج محل یاد آ گیا جس کے بارے میں شکیل بدایونی نے کہا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
    ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے​

    اور اس شعر کی مخالفت میں ساحر لدھیانوی نے یوں کہا تھا کہ :

    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق​

    انکل سرگم نے بھی کیپٹل بلڈنگ کو دیکھتے ہی اسے تاج محل کی مناسبت سے "راج محل” کا نام دیتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں راج محل
    ساری دنیا پہ حکومت کی نشانی دی ہے​

    "امریکی شاہ جہان” کے اس "راج محل” کا سنگ بنیاد 1793 عیسوی میں جارج واشنگٹن نے رکھا اور اس کے بعد اس کی تعمیر و زیبائش میں ترامیم ہوتی رہیں۔ کیپٹل بلڈنگ کے گنبد پر ایک خاتون کا مجسمہ نصب ہے جو امریکا میں خواتین کی آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں خواتین کو اتنا زیادہ لباس حاصل نہیں جتنی آزادی حاصل ہے۔ ماسی مصیبتے کا مشاہدہ ہے کہ امریکا عورتوں، بچوں اور پالتو جانوروں کے لیے جنت ہے۔ یہاں عورت کو سوائے صدر بننے کے باقی ہر چیز میں مردوں جتنے حقوق حاصل ہیں۔ بچے گھروں میں 18 سال ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور 18 سال کے بعد ماں باپ سے یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ ہمارے ہاں کے سیاستدان لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    امریکیوں کی اپنے جانوروں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے والدین کی وفات پر رنجیدہ نہیں ہوتے، ہاں، اپنے کتّے بلّی کے بیمار ہونے پر دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ پالتو جانوروں کی خوراک لیبارٹری ٹیسٹ ہونے کے بعد جانوروں کے لیے مخصوص سپر اسٹوروں میں رکھی جاتی ہے۔ خوراک کی پیکنگ اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے کہ اگر تھرڈ ورلڈ کا کوئی غریب انسان دیکھے تو کتوں کی غذائیت سے بھرپور عمدہ خوراک دیکھ کر اس کا جی بھونکنے کو کر اٹھے۔ جانوروں کے علاج معالجے کے لیے ہم نے یہاں جو کلینک اور اسپتال دیکھے تو ہمارا دل اپنے ملک کے اسپتال یاد کر کے وہاں کے مریضوں کی طرح تڑپ اٹھا۔

    جانوروں کے بعد یہاں بچوں کو جو سہولتیں میسر ہیں وہ ہمارے کسی بڑے سرکاری افسر کو ہی میسر ہو سکتی ہیں۔ امریکن والدین بچوں پر انگلی اٹھانا تو کجا، انہیں گھور کر بھی دیکھیں تو بچے نائن ون ون پر کال کر کے پولیس بلوا لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ماں باپ کا دل اگر کبھی بچّے کو گھورنے کو کرے بھی تو وہ سیاہ چشمہ پہن کر گھور لیتے ہیں، تاکہ ان کی تیکھی نظروں کو بچہ دیکھ نہ پائے۔ اسی طرح اگر والدین کا اپنے بچوں کو ڈانٹنے کو جی کرے تو انہیں اپنے دل میں ہی برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔

    ہم اگر دنیا کے نقشے پر امریکا کو دیکھیں تو امریکا ہمیں باقی دنیا سے الگ اور الٹی جانب دکھائی دے گا۔ شاید اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا نے اپنا ہر کام وکھری ٹائپ کا ہی اپنایا ہوا ہے۔ یہاں ٹریفک کے سوا ہر حرکت الٹ کی جاتی ہے۔ بجلی کے سوئچ الٹی جانب یعنی اوپر کی طرف آن ہوتے ہیں، ٹوپیاں الٹی پہنی جاتی ہیں، انگلش وکھری ٹائپ کی بولی جاتی ہے، عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ڈھانپا جاتا ہے۔ امریکا میں آپ کو سڑک پر چلتا ہوا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آئے گا۔ سڑک پر پتھر مارنے تک کو نہیں ملے گا۔ رہائشی علاقے میں اتنی خاموشی ملے گی کہ قبرستان کا گمان ہو گا۔ عرب ملکوں کی طرح امریکا میں سڑکوں پر کوئی گورا آنکھ میں ڈالنے تک کو نہیں ملے گا۔ اس الٹی دنیا میں بسنے کے لیے تیسری دنیا کے سیدھے سادے لوگ اپنے تن، من، دھن اور بال بچوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گرین کارڈ پانے کے لیے اپنی جوانی دن رات گیس اسٹیشن، اسٹور اور ٹیکسی چلانے میں کھو دیتے ہیں۔ اسی الٹی دنیا میں بسنے والی ایک پاکستانی شاعرہ نے کیا خوب کہا ہے کہ:

    قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو
    الٹی جانب دنیا کے ہم آن بسے​

    (فاروق قیصر کے قلم سے)

  • "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

    ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔

    چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ابھی آیا… کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے انہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز میں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چُھپا رہا ہو، تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کی کتاب "مزید حماقتیں” سے اقتباس)

  • "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرزِ تکلّم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرضِ محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناتے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جاسکتی تو بادلِ نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔

    آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو غیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

    یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلافِ رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوش گوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لیے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوش گوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔

    صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟” اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔

    بیوی کا چہرہ اتر گیا۔ اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر افسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے، مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔

    ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یک دم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خفگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

    غیبت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابلِ اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیرِ بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

    (یہ دل چسپ اور مزاحیہ تحریر، نسیمہ ترابُ الحسن (بھارت) کی ہے جو نثر اور مزاح نگاری کے میدان میں "باتیں کہنے سننے کی” اور خاکوں کے مجموعے "نقوشِ دل” کے لیے پہچانی جاتی ہیں)

  • مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    میزبان اُس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کو مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

    اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکّی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

    علمُ الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے، ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

    میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے، ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے

    مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔

    میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پاؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پاؤ پستہ اور بادام پیس کر ملا دیا جائے اور محض دو انڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں، اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہو اور مرغ سے بڑا نہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔

    میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بُو آتی ہے۔‘‘

    مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو کر جاتا ہوں۔ میزبان نے جو وقت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی، نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔

    پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیا جس کا مفید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

    (ہندوستان کے معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • ملکہ برطانیہ کا وائلن اور ممبئی کا چور بازار

    ملکہ برطانیہ کا وائلن اور ممبئی کا چور بازار

    آزادیِ ہند سے قبل ملکہ برطانیہ کی آمد پر اس کے استقبال کے لیے گیٹ وے آف انڈیا بمبئی کے ساحل پر تعمیر کیا گیا جہاں اس کا جہاز لنگرانداز ہوا۔ ملکہ کو جہاز سے فوری طور پر محل لے جایا گیا۔ محل غالباً آج کا ہوٹل تاج تھا جو گیٹ وے آف انڈیا کے روبرو قائم ہے۔

    ملکہ کے ساتھ آئے سازو سامان میں ایک وائلن بھی تھا۔ جب ملکہ نے سمندر کی پُر شور لہروں پر ایک نغمہ چھیڑنے کی غرض سے وائلن طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ غائب ہے۔ گیٹ وے آف انڈیا سے محل کے درمیان میں وائلن غائب کر دیا گیا تھا۔

    ایک غلام ملک کے غلام شہری نے آزادیِ کردار کا وہ مظاہرہ کیا کہ ایک فاتح ملکہ کو اس کی تفریح سے محروم کر دیا۔ ملکہ جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا!

    ملکہ برطانیہ کا وائلن چوری ہوجانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ سارا علاقہ چھان مارنے کے بعد وہ وائلن موجودہ مولانا شوکت علی روڈ پر فروخت ہوتا ہوا پایا گیا۔ ملکہ کو وائلن کی بازیابی کی اطلاع ملی تو اس نے اس بازار کو تھیف مارکیٹ یعنی "چور بازار” کہہ کر پکارا۔

    ایک اور روایت کا مطابق مولانا شوکت علی روڈ پر پرانے سامان فروخت ہوتے تھے اور علاقے میں بہت شور ہوتا تھا اس لیے اس کا نام "شور بازار” پڑ گیا۔ بازار میں آنے والوں کی اکثریت جہلا کی ہوتی تھی۔ اس لیے شور بازار کثرتِ استعمال سے بگڑ کر "چور بازار” میں تبدیل ہوگیا۔

    دوسری روایت کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ انگریزوں کو دوسروں کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا اس لیے انہوں نے شریفانِ اودھ کو پان کھاتے دیکھ کر کہا کہ یہاں تو ہر تیسرا آدمی تپِ دق کا مریض ہے اور خون تھوکتا پھرتا ہے۔

    جاہل اور تہذیبی قدروں سے نا آشنا لوگ۔۔۔۔۔!

    صدیوں کی تاریخ اور تمدّن کا یک روزہ مشاہدہ کرنے کے لیے چور بازار سے بہتر جگہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔ برطانوی دور کی گھڑیاں ہوں رولز رائس کاریں، راجپوتوں کے زیوات ہوں یا ان کے لہو سے غسل کی ہوئی شمشیریں، ایران کے جھومر ہوں یا ان کے ہاتھ کی بنی قالینیں، ملکہ برطانیہ کی سہیلیوں کے وائلن ہوں یا مغلوں پر گولہ باری کرچکی توپوں کے زیراکس، یہاں سب کچھ مل سکتا ہے۔ ستم یہ کہ دکان دار اس چیز کی قدر سے نابلد ہوتا ہے۔

    اس دکان دار کے لیے تہذیب و تمدّن بس صرف یہی ہے کہ فی الوقت آپ کی جیبوں میں سبز نوٹ ہیں یا سرخ۔ وہ سرخ انقلاب اور سبز انقلاب سے نا آشنا ہوتا ہے۔

    خود راقم نے ایک کتاب "پہاڑوں کا بیٹا” کی تلاش میں بک فیئرز کی شکل میں کتابوں کے کئی پہاڑ سر کیے، لیکن ناکام ہی رہا۔ بالآخر اسی چور بازار سے اس حالت میں ملی کہ کتاب کا نصف حصّہ ایک بوسیدہ سے بار دان پر اور نصف راستے پر تھا جس سے خلقت ہجوم در ہجوم گزر رہی تھی۔

    کتاب اٹھا کر بیس روپے کا نوٹ دکان دار کو دیا اور واپس پیسے نہیں مانگے۔ ریزگاری واپس نہ مانگنے والے خریدار سے دکان دار بہت خوش ہوتا ہے اور ادھر خریدار کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ نایاب شے دینے والے دکان دار کا منہ چوم لینا چاہتا ہے، لیکن اس کے (دکان دار کے) منہ میں بھری نسوار آڑے آجاتی ہے۔

    (فکاہیہ از حفظ الرحمن، ممبئی)

  • السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Under-statement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔

    ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔

    جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا، "میں یوسفی بول رہا ہوں” تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کر سکوں۔

    فون پر بس ایک لفظی نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا: ’’جناب۔‘‘

    نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔

    ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحب زادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سنا سکیں۔

    وہ ’’جناب‘‘ کے ’’نا‘‘کو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔

    کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمو دیتے تھے۔

    (مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری سے متعلق مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے انتخاب)