Tag: اردو مزاح نگاری

  • دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

    ان کے مطالعے سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ شہری آنے والے خطرات سے ہوشیار بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک تنظیم کے دیواروں پر تحریر کردہ نعرے سے پتا چلتا ہے کہ اس تنظیم نے راہ نما کی صورت میں شیر پال لیا ہے، لہٰذا جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے ”مت۔“

    ایک زمانے میں دیواروں پر تحریر ایک نعرے نے ظالموں میں خواہ مخواہ ہلچل مچادی تھی، حالاں کہ نعرے میں ظالموں سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ فلاں صاحب آرہے ہیں۔ وہ آکر کیا کریں گے؟ اس بابت کوئی اشارہ تک نہیں تھا۔

    کراچی میں کچھ عرصہ قبل دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے بہت کام آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر ”حقیقی“ سمجھی جانے والی مفروضہ تقسیم کا شکار ہوچکا تھا، اور شہریوں کو سیاست دوراں پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ وہ شہر کے کس علاقے میں ہیں، ایسے میں دیواروں پر لکھے نعرے مشکل آسان کر دیتے تھے۔

    ہمارے ہاں دیواریں بیک وقت اخبار، ڈائری محبت نامے، اعمال نامے اور اشتہاری بورڈ کا کام دیتی ہیں۔ دیواریں پڑھ کر آپ اہم سیاسی خبروں سے واقف ہوسکتے ہیں، مثلاً کون صاحب شہر میں نزول فرمانے والے ہیں، جن کا والہانہ استقبال کرنا ہر شہری کا فرض ہے، یا نشتر پارک میں کون سیاست داں عوام سے ”تاریخی“ خطاب کرے گا۔

    دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دیواروں سے اچھی کوئی جگہ نہیں، یہاں آپ علاقہ کونسلر سے لے کر صدر بُش تک جس کی شان میں جو چاہے بلاخوف و خطر لکھیں۔ دیواروں پر امریکا کو مٹا دینے، اسرائیل کو ملیا میٹ اور بھارت کو تہس نہس کر دینے کے نعرے پڑھ کر ایک عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ دشمنان اسلام کے خاتمے پر مُصر لشکر جرار دیواروں پر اپنے عزائم نقش کرنے کے فوری بعد ”محاذ“ پر روانہ ہوچکا ہے اور امریکا، اسرائیل اور بھارت کو نیست و نابود کرکے مال غنیمت سمیت واپس لوٹے گا۔

    اس انتظار میں برسوں بیت گئے، ”لشکر جرار“ کا راستہ دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ مگر ادھر یہ حال کہ ”نہ آپ آویں نہ بھیجیں چٹھیاں“ تھک ہار کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیواروں پر انتہا پسندانہ نعرے لکھنے والے عملی اقدام اٹھانے کے بجائے ساکت و جامد ہو کر دیوار کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    (محمد عثمان جامعی کی کتاب کہے بغیر سے انتخاب)

  • تربیتِ اطفال کے کچھ وکھرے مشورے!

    تربیتِ اطفال کے کچھ وکھرے مشورے!

    بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔ سوال پوچھیں تو جواب دیجیے، مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کر سکیں۔

    اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجیے جب بڑے ہو گے سب پتا چل جائے گا۔

    بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے۔ شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دل چسپ کتابیں مت پڑھنے دیجیے، کیوں کہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔

    اگر بچے بے وقوف ہیں تو پروا نہ کیجیے۔ بڑے ہو کر یا تو جینیئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینیئس سمجھنے لگیں گے۔

    بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹیے۔ اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ ایک طرف لے جا کر تنہائی میں اس کی خوب "تواضع” کیجیے۔

    بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجیے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پَل جائیں، ورنہ وہ بہت موٹے ہو جائیں گے اور والدین اور پبلک کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔

    اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کر دیجیے۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔

    ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لیے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرانا ضروری ہے، لیکن اس سے پہلے والدین اور ماہرین کا تجزیۂ نفسی زیادہ مناسب ہو گا۔

    دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنا دیے جاتے ہیں۔ لہذا بچے دس بارہ ہونے چاہییں، تاکہ ایک بھی لاڈلا نہ بن سکے۔

    اسی طرح آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چناں چہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہیے۔

    (معروف مزاح‌ نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب سے چند شگفتہ سطور)