Tag: اردو مزاح

  • "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    خالہ گرم مسالہ کا اصل نام تو حسینہ خاتون ہے۔ وہ محلہ بھر میں گھوم پھر کر اِدھر کی خبریں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر اس برق رفتاری سے پہنچاتی ہیں کہ بسا اوقات لوگوں کو بھی اپنے گھر کی باتیں محلّے والوں کی زبانی معلوم ہوتیں۔ اور وہ حیران رہ جاتے کہ جن باتوں کا علم گھر کے تمام افراد کو نہیں خالہ گرم مسالہ تک اُن کی رسائی کیسے ہوئی اور اُس کی محلّے میں دھوم کیسے مچ گئی؟

    سادہ سی خبروں میں نمک مرچ لگا کر گرم مسالہ کا تڑکا لگانا بھی خوب جانتی ہیں۔حسینہ خاتون کے اسی ہنر کو دیکھتے ہوئے محلے کے ایک بچّے نے آپ کو ”خالہ گرم مسالہ“ کا نام دیا جس نے اصل نام سے زیادہ شہرت پائی۔

    یہی نہیں اور بھی کئی ہنر ایسے ہیں جن میں خالہ گرم مسالہ طاق ہیں۔ مثلاً خالہ گرم مسالہ کو سُنانے کا بہت ہوکا ہے۔ خواہ وہ گیت ہو یا ریت، حکایتیں ہوں یا شکایتیں، باتیں ہو یا داستانیں۔ کھری کھری ہوں یا بے بھاؤ کی جب بھی سناتی ہیں جی بھر کر سناتی ہیں۔ جبریہ سننے والوں کی تو کیا کہیے کبھی کبھی تو شوقیہ سننے والے بھی سُن کر جی بھر کر بدمزہ ہو جاتے ہیں۔

    اپنے ان تمام ”ہوکوں“ کے توسط سے خالہ گرم مسالہ اپنی ہر سنانے والی بات حسبِ ضرورت اپنے مخاطبین کو سناتی ہیں۔ بالخصوص شکوؤں شکایتوں کا ہوکا تو وہ کسی ہُڑکے کی طرح کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے سلیقے سے اپنی اہمیت بھی منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سب سے بڑا شکوہ ”مجھے بھول گئیں ناں“ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ایک دن بیٹھے بٹھائے خالہ گرم مسالہ کو خیال آیا کہ لوگ مجھے بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اُن کا وہم تھا۔

    لو بھلا بتاؤ؟ کیا وہ ایسی شے ہیں جنہیں بھلا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ جس کو دیکھو اُس کی زبان پر خالہ گرم مسالہ کا نام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خالہ گرم مسالہ کا ”مجھے بھول گئیں ناں“ کا ”ہوکا“ عروج پر ہے۔ جہاں خالہ گرم مسالہ اپنے طور اپنی موجودگی لازمی سمجھتی ہیں وہاں وہاں اپنی عدم موجودگی کا گلہ ضرور کرتی ہیں اور یہ گلہ محض ”مجھے بھول گئیں ناں“ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین کو اس حشر برپا موقع پر ماضی کے حوالے دے کر کچھ اس طور سناتی ہیں کہ سننے والے سننے کی ہر خواہش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کتنا ہی خالہ گرم مسالہ کو یقین دلائیں کہ آپ کو بھولا کوئی نہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کی شمولیت ضروری نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ مان کر ہی نہیں دیتیں۔ ہر دلیل رد کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ اُن کا حق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ جس ہنر میں اُنہیں معمولی سی بھی دسترس ہے، اس حساب سے نہ صرف اُنہیں یاد رکھا جائے بلکہ پیش پیش بھی رکھا جائے۔ اور جاننے والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کی شمولیت اور عدم شمولیت کہاں ضروری ہے سو وہ اسی حساب سے اُنہیں مدعو اور نظر انداز کرتے ہیں۔

    بعض تجسس کی ماری خواتین تو اوروں کے گھروں کی سُن گن لینے کے لیے خالہ گرم مسالہ کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور خالہ گرم مسالہ یہ ”فلاحی کام“ بلا معاوضہ بڑی لگن اور محنت سے کسی مشن کی طرح یوں کرتی ہیں گویا پیشہ ور سماجی کارکن ہیں۔

    ایک روز تو حد کر دی۔ ہُوا یوں کہ فیروزہ خالہ کی منجھلی بیٹی درخشاں کے رشتے کی بات اپنوں میں چل رہی ہے یا غیروں میں اور یہ بھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ جاننے کی خواہش میں بمشکل گھنٹہ بھر سوئیں اور شب بھر جاگ کر اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنے منصوبہ بند ذہن کو بھی متحرک رکھا کہ جانے کب کہاں سے کون سا سرا ہاتھ لگ جائے۔ لیکن عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا، پھر یہ بھی ہے کہ خالہ گرم مسالہ اس امر سے بھی تو بخوبی واقف تھیں کہ یہاں دال گلنی بہت مشکل ہے کہ خالہ فیروزہ کے گھر کے ہر فرد کا پیٹ کسی گہرے کنوئیں کی مانند ہے جہاں سے بات نکلوانا کارِ محال ہے۔لیکن خالہ گرم مسالہ بھی خالہ گرم مسالہ ہیں۔ شب بھر دماغ لڑاتی رہیں۔ بالآخر کامیاب ہو ہی گئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کنواں جتنا گہرا ہے ڈول بھی اتنا ہی بڑا ڈالا جائے لیکن احتیاط سے۔

    صبح سویرے ہی وہ اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر دس فیصد معلومات حاصل کر لیں جس پر وہ بہت نازاں تھیں کہ جہاں سے ایک فیصد بات اُگلوانا بھی ناممکن ہے، وہاں سے اُن کی ناممکن کی جستجو نے ممکنہ فتح حاصل کر لی۔ وہ جان گئی تھیں کہ درخشاں کے رشتے کی بات چیت اُس کی امی کی خالہ زاد بہن کے نواسے سے چل رہی ہے جو ایک سرکاری ادارے میں آفیسر ہے۔ اتنا بھید بھی خالہ گرم مسالہ کی سیماب صفت اور تجسس پسند فطرت کے لیے کافی تھا۔ جہاں وہ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھیں وہاں ”لڑکے“ کی سرکاری آفیسر والی اطلاع اُنہیں تشویش میں مبتلا کر گئی کہ سرکار کی تو خود حالت بہت پتلی اور غیر ہے۔ جس کی اپنی ترقی خطرے میں ہو، جو خود اپنی خیر خواہ نہ ہو، ایسی سرکار سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

    اور پھر خالہ گرم مسالہ نے اس خبر کو بارہ مسالوں سے آراستہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا یہ خبر سماعتوں کی نذر کر دی۔ چونکہ خالہ گرم مسالہ خود سیراب نہ ہو سکیں تھیں۔ اس لیے اوروں کو مطمئن کرنا اُن کے لیے خاصی بڑی آزمائش تھی۔ کہ لوگ اس نامکمل معلومات میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن خالہ گرم مسالہ کی سنانے کی ہوس تھی کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ خالہ گرم مسالہ کے برس ہا برس کے تجربات سے مستفیض ہونے کے لیے ایک ادارے نے اُن سے رابطہ کر لیا۔ بے شک سیاسی بصیرت اُن میں نام کو نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ اپنی زباں دانی کے جوہر اور لفظوں کے ہیر پھیر سے سیاسی مبصرین کو باہمی جھگڑوں میں الجھا کر مات دینے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ ابھی خالہ گرم مسالہ کو پیشکش ملے گھنٹہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ آپ نے محلے بھر میں الم نشرح کر دیا۔ محلّے والوں نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا اور خالہ گرم مسالہ کو جلد از جلد یہ پیشکش قبول کرنے کی تاکید بھی کی۔ خالہ گرم مسالہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں کہ خالو ببلو بیچارے (خالہ گرم مسالہ کے میاں) نے یکایک بے چارگی کا لبادہ اُتار پھینکا اور اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس سالہ عرصے میں پہلی مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالہ گرم مسالہ پر قدغن لگا کر اُنہیں اس فعل سے باز رکھا جو وہ اگر اختیار کر لیتیں تو جہنم کے دروازے اُن کے لیے کھل جاتے۔ ابھی بھی وہ محلّے بھر میں کون سا کارِ خیر کر رہی تھیں لیکن شر کی جو تاریخ وہ رقم کرنے جا رہی تھیں اس کا کفارہ بہت مشکل تھا اور جب یہ خبر عمران تک پہنچی جس نے خالہ گرم مسالہ کے میاں کو خالو ببلو بیچارے کے خطاب سے نوازا تھا، ببانگِ دہل اعلان کرتا پھر رہا تھا کہ ”خالو ببلو بیچارے بنے انگارے۔“ لیکن نہ جانے خالو ببلو نے خالہ گرم مسالہ کے کانوں میں کیا صور پھونکا تھا کہ وہ اس خواہش سے تائب ہو گئیں تھیں اور چینل والوں کے بے حد اصرار پر بھی راضی ہو کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔

    خالہ گرم مسالہ کے قطعی انکار سے عمران سخت آزردہ تھا۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ خالہ گرم مسالہ کو بھڑکا کر راضی کر سکے تاکہ خالہ گرم مسالہ کے توسط سے وہ بھی سوشل ورکر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکے۔ اور اب خالو ببلو بیچارے خالو خسارے بنے اُس کی راہ کی دیوار بن رہے تھے۔ جب خالہ گرم مسالہ عمران کے پے در پے سوالوں سے زچ آگئیں تو اُنہوں نے بڑے سبھاؤ اور تدبر سے کہا کہ ”سر اور دستارکی سلامتی اسی میں ہے کہ اس جھنجھٹ سے دور رہا جائے۔“ عمران ہونق بنا اُن کی شکل دیکھے گیا اور جب کچھ دیر بعد اُس کاسکتہ ٹوٹا تو اُس نے صرف اتنا ہی کہا ”کاش خالو ببلو بیچارے، بیچارے ہی بنے رہتے۔ کر دیا نا اُنہوں نے آپ کا کباڑا، بن گئے نا خالو مرچ مسالہ۔آج تک کسی نے آپ کو کچھ کہا؟ کس شان سے سر اُٹھا کر جی رہی ہیں۔“

    ” عمران بیٹا! بے شک شان سے ہی نہیں آن سے بھی جی رہی ہوں۔ لیکن اس لیے کہ اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا۔ وہ کون سے میرے اپنے ہیں جو میرا مان رکھیں گے۔“

    اور عمران! خالہ گرم مسالہ کے اپنے پرائے کے فلسفے میں الجھا سوچ رہا تھا۔خالہ گرم مسالہ کا اپنوں پہ یہ کیسا مان ہے جس نے اُن کو شہرت کی خواہش سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا واقعی اپنائیت کا احساس ایسا طاقتور ہوتا ہے جو خالہ گرم مسالہ کو خالہ نرم دو شالہ بننے پر آمادہ کر دے؟

    (شائستہ زریں کے قلم سے)

  • صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوراں میں جانا ہوا۔

    بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘

    ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘

    کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘

    بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھا کے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘

    ’’نہاری ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘

    ’’بٹیر کی نہاری؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلّی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔

    ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘

    بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اور شوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘

    ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے!

    ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘

    بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘

    ہم نے پوچھا، ’’ہدیہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹا کر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘

    ’’کتنے کا ہو گا؟‘‘

    ’’دو سو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سو روپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایا نہ ڈھونڈیے۔‘‘

    (شاعر و ادیب اور معروف مزاح‌ نگار ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • "دس بار مسکرائیے!”

    "دس بار مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی کو اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثر نگار کہا جاتا ہے۔

    عام طور پر مزاح‌ نگار کوئی انوکھی بات اور نرالی منطق پیش کرتے ہوئے، دل چسپ اور عجیب صورتِ حال کی منظر کشی کے ساتھ مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے اپنے قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مشتاق احمد یوسفی نے الگ ہی راہ نکالی اور عہد ساز ٹھہرے۔ ان کا مزاح فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے اور وہ گہری اور چبھتی ہوئی بات اس طرح کرتے ہیں‌ کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم مشتاق احمد یوسفی کے دس تیکھے جملے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ٭ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچّائی ہوتی ہے۔

    ٭ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین در جے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

    ٭ محبّت اندھی ہوتی ہے، چناں چہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

    ٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکی داری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

    ٭ آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کر نے لگے۔

    ٭ مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں مصا ئب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

    ٭ مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔

    ٭ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    ٭ مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔

    ٭ عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں، وہ ا یک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔

  • چائے اور چارپائی!

    چائے اور چارپائی!

    لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں، مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔

    چناں چہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذّکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔

    لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

    ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے "اً اٍ” کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔

    بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔

    مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دسترخوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم کی شوخی)

  • گھر داماد

    گھر داماد

    ہمارے ایک دوست ’’بی۔ اے۔ پاس‘‘ ہیں، لیکن ’’بی بی پاس‘‘ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے پاس دوست بے روزگار ہونے کے علاوہ خود دار آدمی بھی ہیں، لہٰذا ’’گھر داماد‘‘ بننے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔

    چنانچہ ’’بی بی پاس‘‘ ہونے کا نہ سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور نہ بچّہ۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اچھی سی نوکری ملے اور کوئی اچھا سا مکان کرائے پر لیں تاکہ بی بی پاس ہو۔

    ہم نے ان بی اے پاس دوست کو بہتیرا سمجھایا کہ ’’میاں، یہ خود داری چھوڑو۔ بی اے پاس ہو تو اب بی بی پاس بھی ہوجاؤ۔ تمہاری بی بی تو سچ مچ کی ’’گھر والی‘‘ ہے۔ ہماری بیویوں کی طرح ’’گھر والی‘‘ تو نہیں کہ گھر کے مالک ہم، گھر کا کرایہ ہم دیں اور ہماری بی بی صاحبہ مفت میں گھر والی کہلائیں۔

    مگر وہ جھکّی، خواہ مخواہ کے خود دار بی اے پاس دوست بی بی پاس ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

    حالاں کہ ان کے ’’خسر‘‘ صاحب ’’مُصِر‘‘ کہ ’’داماد‘‘ ان پر ’’اعتماد‘‘ کریں کہ ان کے ساتھ ’’روایتی بدنام گھر داماد‘‘ جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

    ’’ساس‘‘ بے چاری ’’آس‘‘ لگائے بیٹھی ہیں کہ داماد کب ’’بی بی پاس‘‘ ہوگا۔

    ایک دن ہمارے بی اے پاس دوست حسبِ معمول ہمارے پاس بیٹھے بی بی کی یاد میں ٹسر ٹسر روتے ہوئے ساس سُسر کو کوس رہے تھے، تو ہمیں بڑا غصّہ آیا اور ہم پھٹ پڑے۔

    ’’ارے کم بخت۔ جب تو کہیں نوکر نہیں ہوا تھا اور تیرے پاس رہنے کے لیے گھر تک نہیں تھا، تو تُو نے آخر شادی کی کیوں تھی؟‘‘

    بی اے پاس دوست تنک کر بولا، ’’میں نے کب کی تھی۔ میرے سُسرال والوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ شادی سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے ایک الگ گھر لے کر دیں گے، اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے لیکن شادی کے بعد سے میرے سسر صاحب بالکل انجان ہوگئے، اب وہ اسی بات پر مُصر ہیں کہ علیحدہ گھر خریدنا تو مشکل ہے اسی گھر کا ایک علیحدہ کمرہ دے دیں گے۔ یقین نہ آئے تو تم خود ان سے پوچھ لو۔‘‘

    اتفاق سے اسی شام ایک اور ’’لڑکی کے نیلام‘‘ یعنی شادی کی تقریب میں ہمارے دوست کے خسر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ہم نے اپنے دوست کا ذکر چھیڑ کر پوچھا، ’’کیوں صاحب، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے میرے دوست سے یہ وعدہ کیا تھا کہ شادی کے بعد اسے ایک علیحدہ گھر لے کر دیں گے اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے۔‘‘

    یہ سُن کر بے چارے خسر صاحب کا چہرہ ایک دم مرجھا سا گیا اور وہ جیسے اپنے آنسو روک کر بولے، ’’ہائے، کیا مصیبت ہے۔ سترہ اٹھارہ برس تک بیٹی کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر بڑا کیجیے اور شادی کے موقع پر بیٹی کے علاوہ ایک مکان، دکان اور روپیہ بھی دیجیے۔‘‘

    اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اللہ، موجودہ لالچی زمانے میں کسی غیرت مند آدمی کو بیٹی کا باپ نہ بنا۔‘‘ ہمیں ان پر ترس تو آیا لیکن ہم یہ پوچھنے میں پھر بھی حق بجانب تھے کہ’’قبلہ، جب آپ مکان، دکان دینے کا وعدہ پورا نہ کرسکتے تھے تو آپ کو وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

    بے چارے بڑے آزردہ اور آب دیدہ ہوکر بولے، ’’آپ سچ کہتے ہیں۔ واقعی مجھے وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے وعدے پر اب بھی قائم ہوں مگر کیا کروں لالچ ہر جگہ ہے، جو مکان چار ہزار کی لاگت میں میرے سامنے تعمیر ہوا، اس کے اب بیس بیس، پچاس پچاس ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔

    میں نے صاحبزادے سے اب بھی وعدہ کیا ہے کہ چھ مہینے اور انتظار کریں۔ میری ایک بڑی رقم ایک محکمہ میں پھنسی ہے وہ مل جائے تو تمہیں خدا کی قسم ایک مکان لے دوں گا۔ جب تک تم میرے گھر کو اپنا گھر سمجھو لیکن میں حیران ہوں کہ ایک انسان بیک وقت لالچی اور خود دار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    یہ درد ناک باتیں سن کر ہمیں ان بزرگ سے واقعی بڑی ہم دردی ہوگئی اور ہم نے وعدہ کیا کہ ہم ان کے نامعقول داماد کو آج ہی شام ان کے پاس پکڑ کر لائیں گے اور اسے گھر داماد بنائے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ چنانچہ ہم بڑی ترکیب سے بہلا پھُسلا کر ان کے داماد کو گھر لے گئے۔ صلح صفائی کی باتوں میں جب داماد نے کہا، ’’لیکن اگر میں گھر داماد بن گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

    خُسر صاحب نے بڑے تلخ لہجے میں کہا، ’’برخوردار، میں پوچھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں کون گھر داماد نہیں ہے۔ ہر جہیز میں ایک مکان یا کوٹھی جو دی جاتی ہے، وہ کوئی داماد کے باپ کا گھر ہے؟‘‘

    فرق صرف یہ ہوگیا ہے کہ پُرانے زمانے میں لڑکی کے والدین داماد کو گھر داماد بنالیا کرتے تھے اور موجودہ زمانے میں وہ داماد کے لیے جہیز میں ایک الگ ’’داماد گھر‘‘ خرید کردیتے ہیں۔

    ’’گھر داماد‘‘ نہ سہی…….. ’’داماد گھر‘‘ سہی۔ بات تو ایک ہی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ زمانے میں کون شخص کسی نہ کسی شکل میں گھر داماد نہیں ہے؟‘‘

    اور یہ کہہ کر خسر صاحب نے رازدارانہ لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھ کر سَر جھکا لیا اور مَری ہوئی آواز میں بولے، ’’برخوردار، میں خود بھی گھر داماد ہوں۔‘‘

    (معروف ادیب، طنز و مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔

    آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا۔ ’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھیے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھیے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘۔

    اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔

    ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سیکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں۔‘‘ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے:

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے:

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار، بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فرمایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا۔‘‘

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ یار پر
    پَر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے:

    کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے:

    ہمیں بھی نامہ بَر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے
    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ وہ شعر ہے۔۔۔۔ شعر ہے۔۔۔ کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔۔۔۔۔ ہاں، یاد آ گیا۔

    لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون "ایک شعر یاد آیا” سے اقتباس)

  • بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    اردو زبان کے مزاح گو شعرا میں‌ سید ضمیر جعفری اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ بامقصد شاعری کے قائل ہونے کی وجہ سے ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1999 میں آج ہی کے دن فرشتہ اجل نے انھیں ابدی نیند کا پیام دیا تھا۔ آج ہم نام ور شاعر، ادیب اور مترجم سید ضمیر جعفری کی برسی منا رہے ہیں۔

    یکم جنوری 1914 کو ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے سید ضمیر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں کار زار، لہو ترنگ، مافی الضمیر، مسدس بے حالی، کھلیان، ضمیریات، قریۂ جان، ضمیرِ ظرافت شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف مضامین تحریر کرنے کے ساتھ کالم نویسی بھی کی جن میں ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ سماجی مسائل اور تلخ حقیقتوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

    سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ وہ راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    جوتا ایسی چیز نہیں کہ زیور کی طرح مانگ تانگ کر پہن لیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ چپل پہن کر بینک جائیں اور تین دن بعد تنخواہ ملے تو نیا جوتا خرید لیں۔

    پھر خیال آیا کہ اگر اینڈرسن پوچھ بیٹھا کہ آج انسپکشن ڈیپارٹمنٹ چپل پہنے کیوں پھر رہا ہے تو کیا جواب دیں گے۔
    ایک دفعہ ایک افسر بینک میں بغیر ٹائی کے آگیا تو اینڈرسن نے اس سے پوچھا کہ آج کیا بینک ہالی ڈے ہے جو یوں ننگ دھڑنگ پھر رہے ہو؟

    اسی طرح ایک کلرک کا تین دن کا بڑھا ہوا شیو دیکھ کر دوّنی پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اپنا کیمو فلاج منڈوا کر آؤ تاکہ چہرہ شناخت کر کے رجسٹر میں حاضری لگائی جاسکے۔

    ذہن پر زور ڈالا تو اس کا حل بھی نکل آیا۔ چپل پہن کر ایک پیر پر پٹی باندھ لیں گے۔

    کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے، چوٹ لگ گئی ہے اور یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہیں۔ آخر اندرونی چوٹ تو آئی ہی تھی جس کے بارے میں حضرت نوحؔ ناروی سہلِ ممتنع میں فرما گئے ہیں:

    جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
    جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

    ایک مونڈھے پر نیلے رنگ کا جھاڑن پڑا نظر آیا۔ اس میں سے ایک لمبی سی دَھجی پھاڑ کر پٹی باندھ لی۔ سہ پہر کو اینڈر سن کی نظر پڑی تو کہنے لگا کہ زخم پر کبھی رنگیں پٹی نہیں باندھنی چاہیے، پک جاتا ہے، خصوصاً برسات میں۔

    دوسرے دن صبح دونوں کام پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو بیگم دوپٹا اوڑھتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہارے ان لاڈلوں نے ناک میں دَم کر رکھا ہے اور کچھ نہیں تو کم بخت آدھا دوپٹا ہی پھاڑ کر لے گئے۔

    ہم نے پٹی بجنسہٖ واپس کر دی اور جلدی جلدی ایک پھٹے پاجامے کے لٹھے کی سفید پٹی باندھ کر بینک چلے گئے۔
    گیارہ بجے کسی کام سے اینڈرسن نے طلب کیا۔ واپس آنے لگے تو عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتے ہوئے فرمایا: Just a minute, Tamerlane، تمہارے زخم نے چوبیس گھنٹے میں کافی مسافت طے کی ہے، دائیں سے بائیں پیر میں منتقل ہو گیا ہے۔

    اب جو ہم نے نگاہ ڈالی تو دَھک سے رہ گئے۔ افراتفری میں آج دوسرے یعنی بائیں پیر پر پٹی باندھ کر آگئے تھے۔

    (معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب زرگزشت سے انتخاب)

  • کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔

    انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔

    گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کیے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انھوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’آپ شاعر ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپوری نظر آتے ہیں۔‘‘

    پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ضرور ملیے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘

    پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘

    ’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘

    انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

    بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انھوں نے کردیا۔

    پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘

    سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔

    ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔‘‘

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)