Tag: اردو مزاح

  • کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔

    وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔ مصور الوان و خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اِس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اُٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میر کو بھی اِس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اِس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اِس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔
    علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انھوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی۔ یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چھونا تو کیا، انھیں دور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوء ادب ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوق کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔

    یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔

    مشفق خواجہ کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ

  • جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    ہمارے ایک ٹیچر مشتاق نامی لڑکے سے بہت بیزار تھے۔

    مشتاق کا کمال یہ تھا کہ اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہتے وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے "میرا بہترین دوست” ضرور فٹ کردیتا تھا جو اسے فَر فَر یاد تھا۔

    مثال کے طور پر اسے کہا جاتا کہ ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے، وہاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے، اس کے تین بہن بھائی ہیں، اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    اگر اسے "میرا استاد” مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا۔

    ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ہیں۔ ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وہاں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں۔ اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    ظاہر ہے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وہاں بھی زاہد حسین موجود ہوتا ہے۔ تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کہ دیکھو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر جگہ تمھارا دوست زاہد حسین موجود ہو۔ آج تم ہوائی جہاز پر مضون لکھو اور یاد رکھو ہوائی جہاز میں زاہد حسین موجود نہیں ہونا چاہیے۔

    دوسرے دن مشتاق نے مضمون لکھا وہ اس طرح تھا۔

    میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئرپورٹ گیا۔ وہاں جہاز کھڑا تھا، ہم اس میں بیٹھ گئے۔ جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا۔ پھر جہاز اڑنے لگا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاہد جا رہا تھا۔ زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی……

  • جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    ہم پاکستان کے ممتاز اور نام ور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن جب سے خود ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا ہم سائے کے بارے میں بدگمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

    کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

    انہیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کے لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے (ہم نے نہیں) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں اس میں تو تین زندہ گھوڑے باآسانی آسکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اس کے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔

    یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دُم بناتے ہیں اس کا سو واں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنالٹی کھچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک بال پر مالکانہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے دُم بنائی ہے۔

    چناں چہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیے تو وہ فقط دُم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لیے طوعاً وکرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی ہے تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے تھے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہوجائے۔

    بلبل فقط آواز ہے طاﺅس فقط دُم

    یوں بنانے کو تو انہوں نے البیلے اونٹ بھی بکثرت بنائے ہیں اور الٹے بانس بریلی بھیجے ہیں۔ یعنی درجنوں کے حساب سے عرب ممالک کو روغنی اونٹ ایکسپورٹ کیے ہیں۔ ان کے بعض اونٹ تو اتنے منہگے ہیں کہ صرف بینک، شیوخ، غیر ملکی سفارت کار اور مقامی اسمگلر ہی خرید سکتے ہیں۔

    یونائیٹڈ بینک نے ان سے جو نایاب اونٹ خریدے وہ اتنے بڑے نکلے کہ ان کے ٹانگنے کے لیے ہال کے بیچوں بیچ ایک دیوار علیحدہ سے بنوانی پڑی لیکن انہیں دیکھ کر شیوخ اتنے خوش ہوئے کہ بعض نے اصل یعنی بالکل انہی جیسے اونٹوں کی فرمائش کردی۔ اب بینک اس مخمصے میں پڑگیا کہ:

    ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

    جب ہم بینک سے متعلق و منسلک ہوئے تو ایک دن ہمت کرکے گل جی سے کہا کہ حضور اگر آپ آیندہ ایسے اونٹ بنائیں جو اس عالمِ آب و گل میں با آسانی دست یاب ہوجایا کریں تو بینک کو شیوخ کی فرمائش پوری کرنے میں آسانی رہے گی۔ نوکری کا سوال ہے۔

    بہرکیف گل جی کے اونٹ میں وہ گھوڑے والی بات پیدا نہ ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے، کہاں گھوڑے کی تابہ زانو گھنیری چنور شاہی دُم، کہاں اونٹ کی پونچھڑی!

    دُم نہیں دُم کا ٹوٹا کہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اس سے تو ڈھنگ سے شُتر پوشی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہر جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم“ سے اقتباس)