Tag: اردو مضامین

  • ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشۂ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔

    اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سر سیّد اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر و رسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کر دیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔

    پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کرسکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہو تو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لیے دوڑ دھوپ روحانی جد وجہد کا سا رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرِ آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔

    ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔

    جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔

    لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔

    بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صُمً بُکم عُمی فہم لایرجعون۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیر ملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔

    (ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔

    سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

    مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘ لکھی تو اوّل اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘

    مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلّی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

    تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

    آپ زیبُ النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحّت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

    ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اوّل اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔

    تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

    سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔

    نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ شری مدبھا گوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

    سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سر والٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

    نا بابا۔ ساماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،

    حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
    کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

    (اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار اور فلمی مکالمہ نویس راجندر سنگھ بیدی کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    بے اطمینانی انسان کی طبیعت میں ہے۔ نہ وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہ حال سے خوش۔ جب وہ اپنی ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے تو صرف ٹھنڈی سانس بھر کر چپکا نہیں ہو جاتا بلکہ جو واقعات گزر چکے ہیں کبھی کبھی اپنے ذہن میں ان کی ترکیب بدل دیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے تبدیلیاں کر لیتا ہے۔

    جس طرح ایک شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کرتے وقت تنقید کے خوف سے الفاظ کی ترتیب بدل ڈالے یا بعض الفاظ کو حشو سمجھ کر نکال دے اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے آئے۔ آپ نے اگر اس انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پر غور کیا ہے تو آپ کو اس طومار میں ایطائے خفی یا ایطائے جلی کی مثالیں نظر آئی ہوں گی۔ کبھی آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ اس شعر میں شتر گربہ ہے۔ یہاں بندش سست ہے۔ یہاں حرف صحیح ساقط ہو گیا ہے۔ یہاں مضمون پامال ہے۔ یہاں اختلافِ بحر ہے اور استغفراللہ یہ غزل کہتے وقت میری کیا مت ماری گئی تھی کہ پورا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن صاحب دل ہی دل میں اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کو الٹ پلٹ کے اور ان کی ترتیب بدل کے خوش ہو لینا اور بات ہے۔ زندگی سچ مچ شعر تو نہیں کہ جب چاہیں اس کی اصلاح کر لیں یا اگر کلام چھپ گیا تو اس کے ساتھ ایک غلط نامہ شائع کروا لیں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سوچ کے چپکے ہو رہیں کہ چلو اگلے ایڈیشن میں صحیح ہو جائے گی۔

    گزرے ہوئے دن پلٹ کر نہیں آتے اور جو کچھ ہو چکا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اگر مگر چناں و چنیں اور کاشکے کی بھول بھلیاں میں کھو جائیں اور ‘یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا’ گنگنانا شروع کر دیں یا مرزا غالب کی طرح یہ کہہ کے چپکے ہو رہیں کہ:

    آئینہ و گزشتہ تمنا و حسرت است
    یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم

    لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم اور زندگی میں جو غلطیاں کر چکے ہیں اگر وہ ہم سے سرزد نہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔ یا مرز غالب کو اپنے چچا کی پوری جاگیر مل جاتی تو آیا وہ کلکتہ اٹھ جاتے یا دہلی میں رہتے اور کلکتے چلے جاتے تو وہاں کی آب و ہوا کا ان کی غزل گوئی پر کیا اثر پرتا؟ مجھ سے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر چنگیز خان زندہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اوّل تو مجھے اس سوال پر ہی اعتراض ہے۔ چنگیز خان جن اثرات کی پیداوار تھا۔ ان پر غور کیا جائے تو علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جس کی کڑیاں گننا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے پیڑ میں ایسا کڑوا پھل ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لیے خاص موسم شرط ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ چنگیز خاں جیسے شخص کے لیے بارھویں تیرھویں صدی کا موسم اور مغولستان یعنی منگولیا کا ماحول ہی موزوں تھا۔ چنگیز خاں کو جس زمان اور جس ماحول میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اسی زمانے میں اور ماحول میں پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اور ہم اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کی ترتیب الٹنے پلٹنے اور نئے ڈھنگ سے ان کی چولیں بٹھانے کے عادی ہیں۔ چنگیز خاں سے بھی اسی قسم کی زبردستی کر گزریں یعنی اسے تیرھویں صدی سے کھینچ کر بیسویں صدی میں لا کھڑا کریں۔ خیر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ آئیے اب ہم اور آپ مل کر اس سوال پر غور کریں کہ اگر یہ مغل سردار جس نے پرانی دنیا کے نصف حصے کو زیر و زبر کر ڈالا تھا۔ آج ہوتا تو کیا ہوتا؟

    یہ سوال سن کر آپ کا ذہن یقیناً ہٹلر کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کے چہرے میں چنگیز خان کے خدوخال کا عکس تیار کر لینا بڑی آسان اور پیش پا افتادہ سی با ت ہے اور ممکن ہے کہ آپ کو اقبال کا یہ شعر بھی یاد آ گیا ہو کہ:

    از خاک سمر قندے ترسم کرد گر خیزد
    آشوبِ ہلاکوئے ہنگامۂ چنگیزے

    ہٹلر اور چنگیز خان میں بظاہر کئی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ اور دونوں کے کارناموں میں بھی بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً چنگیز خان تو چنگیز خانی کو جو اس کے بعض قوانین کا مجموعہ تھا ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا تھا۔ ہٹلر بھی نیا نظام قائم کرنے کا مدعی تھا اور نازیوں میں مائن کیمپ کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو مغلوں میں تورہ چنگیز خانی کو حاصل تھی۔ پھر دونوں میں تنظیم کی خاص صلاحیت ہے اور دونوں خون ریزی کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے بڑی مشابہت یہ ہے کہ کیف کا شہر دو دفعہ لٹا ہے۔ ایک دفعہ چنگیز مغلوں نے اسے تاراج کیا تھا اور دوسری دفعہ ہٹلر نازیوں کے ہاتھوں اس کی تباہی آئی۔ اس لیے مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر چنگیز خان آج زندہ ہوتا اور یورپ میں ہوتا تو نسل انسانی کے لیے ہٹلر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔ لیکن یہ امر مشتبہ ہے کہ اگر چنگیز خان آج مغولستان ہی میں پیدا ہوتا تو کیا دنیا اسے فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے جانتی۔ اور کیا اس کی سرداری میں مغل فوجیں آج بھی نصف کرۂ ارض کو پامال کر ڈالتیں۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی میں ایسے کارنامے انجام دینے کے لیے جو چیزیں ضروری تھیں وہ آج بے کار ہو کے رہ گئی ہیں، مثلاً اس عہد میں ہر نامور سردار کے لیے ضروری تھا کہ وہ جسمانی قوت میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ فنون سپہ گری یعنی تیغ گری، تیغ زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی، اور شہسوری میں ماہر ہو۔ لیکن آج کل جسمانی قوت یا فنونِ سپہ گری کی مہارت بے معنی ہے۔ ہٹلر میں تنظیم کی صلاحیت ضرور تھی۔ لیکن وہ پہلوان تو ہرگز نہ تھا۔ فنون سپہ گری سے بھی نابلد تھا۔ پھر اس نے وہ کیا جو چنگیز خاں نے اپنے عہد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ چنگیز خان نے بڑی بڑی فتوحات اس لیے حاصل کیں کہ منگولیا میں اعلیٰ نسل کے مضبوط اور جفا کش گھوڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ مغل گھوڑے چڑھے جب مغولستان کے کوہستانوں سے گھوڑے دوڑاتے نکلتے ہیں تو انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔

    آج کی لڑائیوں میں گھوڑوں کو اتنی اہمیت نہیں رہی، اب تو ٹینکوں کا زمانہ ہے اور ہٹلر نے ٹینکوں کی مدد سے ہی میدان سر کیے ہیں۔ شاید آپ کہیں گے کہ اگر چنگیز خان اس زمانے میں ہوتا تو اس کے پاس بھی ٹینک ہوتے لیکن صاحب مغولستان میں ٹینک کہاں سے آتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن منگولیا کے باشندوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی اب بھی قریب قریب ایسی ہی ہے کہ جیسی آج سے سات ساڑھے سات سو برس پہلے تھی۔ اب بھی دشت گوبی کے آس پاس کے علاقے میں مغل خانہ بدوشوں کے قافلے بھیڑ بکریوں کے گلے کے لیے چارے کی تلاش میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب بھی گھوڑے ان کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس لیے چنگیز خان آج ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار یا منگولیا کے کسی علاقے کا حاکم ہوتا۔ اور اگر اسے فتح مندی اور کشور کشائی کا شوق چراتا تو آس پاس کے علاقے پر چھاپا مارنا شروع کر دیتا اور ممکن ہے کہ اخباروں کے کالموں میں اس کا نام بھی آ جاتا۔ ریڈیو پر بھی ہم اس کا ذکر سن لیتے اور ہمارے ملک کے اکثر لوگ یہ جان لیتے کہ منگولیا کے سرداروں میں ایک صاحب چنگیز بھی ہیں۔ اور ممکن ہے ک کبھی ہم یہ بھی سن لیتے جاپانیوں یا روسیوں سے چنگیز کی ان بن ہو گئی۔ پہلے تو بڑے زور میں تھا لیکن ایک ہی ہوائی حملے نے ساری شیخی کرکری کر دی اور چنگیز خانی دھری کی دھری رہ گئی۔ اور ممکن ہے کہ چنگیز خان کو کسی قبیلے کی سرداری بھی ہاتھ نہ آتی اور ساری عمر جھیل بے کال کے آس پاس گھاس کھودتے گزر جاتی اور اس طرح اس مذاقِ خوں ریزی کی تسکین کا سامان فراہم ہو جاتا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ قیصر ولیم ثانی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد درخت کاٹا کرتے تھے۔ غالباً انہوں نے یہ مشغلہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ انہیں بھی تخریب سے ازلی مناسبت تھی۔

    منگولیا میں درخت کم ہیں، اس لیے چنگیز خان درختوں کے بجائے گھاس پر غصہ نکالتا اور اسی کو کشور کشائی اور جہانگیری کا بدل سمجھتا اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان منگولیا میں ہوتا۔ ورنہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہوتا نہ کسی علاقے کا حاکم۔ بلکہ یا تو لیڈر ہوتا یا پھر شاعر ہوتا۔ لیڈر ہوتا تو سیاست کے گلے پر کند چھری پھیرتا۔ اخبار نویس کی ٹانگ اس طرح توڑتا کہ بچاری ہمیشہ کے لیے لنگڑی ہو کر رہ جاتی۔ اور شاعر یا ادیب ہوتا تو ادب کا خون بہاتا۔ بھاری بھرکم لغات اس طرح لڑھکاتا کہ شاعری اس کے نیچے دب کے رہ جاتی۔ پرانے شاعروں کے دیوانوں پر ڈاکہ ڈالتا اور بڑے بڑے سلاطینِ سخن کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا۔ متداول بحروں میں ایسے تصرفات کرتا کہ ان کی شکل نہ پہچانی جاتی۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان پاکستان میں منگولیا ایسے گیاہستان نہیں جہاں چنگیز خان اطمینان سے گھاس کھود سکتا اور درخت کاٹنا جرم ہے اور یہ پھر بھی ہے جس طرح منگولیا گھوڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    ہمارا ملک شاعری اور شاعروں کے لیے مشہور ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ چنگیز خان کو شاعری کا پیشہ اختیار کر کے کاغذی گھوڑے دوڑانے اور قلم کی تلوار چمکانے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا اور اس معاملے میں مرزا غالب کا فتویٰ بھی تو یہی ہے کہ

    بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    (دنیائے ادب اور صحافت میں ممتاز چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • بڈھا اور  ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    بڈھا اور ٹکٹ کلکٹر (ایک واقعہ)

    میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس پر یہ اصرار ہو کہ میں اسے ضرور یاد رکھوں۔ مجھے اپنے بارے میں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ کسی اور کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہوگا جس کا تعلق مجھ سے رہا ہو اور وہ اسے بھول نہ گیا ہو۔

    نہ بھلائے جانے والے واقعات عام طور پر یا تو توبۃُ النّصوح قسم کے ہوتے ہیں یا تعزیراتِ ہند کے۔ بقول شخصے ’’یعنی گویا کہ‘‘ ترقی پسند ہوتے ہوئے میری زندگی کے اوراق میں اس طرح کے ’سال کا بہترین افسانہ‘ یا ’بہترین نظم‘ نہیں ملتی۔ میں تو اس درجہ بدنصیب سَر پھرا ہوں کہ لکھتے وقت یہ بھی بھول جاتا ہوں کہ ادب میں صرف ’اشتراکیت‘ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ اس کا سبب کیا ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم، مجھے اس کی فکر بھی نہیں کہ معلوم کروں۔ اگر آپ اس کے درپے ہیں کہ کوئی نہ کوئی وجہ دریافت کر لیں تو پھر صبر کیجیے اور اس وقت کا انتظار کیجیے، جب میں عزیزوں اور دوستوں سے زیادہ خوش حال اور نیک نام ہو جاؤں یا مجھ پر غبن یا اغوا کا مقدمہ دائر ہوجائے۔ اس وقت آپ میرے عزیزوں یا دوستوں ہی سے میرے بارے میں ایسے واقعات سن لیں گے جو مجھ پر گزرے ہوں یا نہیں، آپ خود ان کو کبھی نہ بھلائیں گے۔

    لیکن اربابِ ریڈیو نے مجھے اس پر مامور کیا ہے کہ آپ کو کوئی واقعہ سناؤں ضرور، اور میں سناؤں گا بھی ضرور۔ آپ نے گاؤں کی یہ روایت یا کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’نائی کا نوشہ ججمانوں کو سلام کرتا پھرے۔‘‘ اس روایت پر جو اصول بنایا گیا ہے وہ البتہ ایسا ہے جو کبھی نہ بھلایا جاسکے یعنی حق تمام تر ججمانوں کا اور ذمہ داری تمام تر نائی کے نوشوں کی۔ ایک دفعہ پھر ’’یعنی گویا کہ‘‘ لکھیں ہم، ترقی پسند آپ! یہ اصول ہماری سوسائٹی اور زندگی پر کتنا لاگو ہے، میں نے لاگو کا لفظ ان دوستوں کے احترام میں استعمال کیا ہے جو عدالت یا کونسل میں بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں، ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں کیا جن معنوں میں دلّی کی میونسپلٹی نے حال ہی میں لاگو جانوروں کے بارے میں اشتہار دیا ہے کہ جو شخص ان کو مار ڈالے اس کو انعام ملے گا۔ میں اس غرض سے دلّی آیا بھی نہیں ہوں۔ البتہ مجھے انعام لینے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ خواہ انعام کی رقم آدھی ہی کیوں نہ کر دی جائے۔ میرا یہ کارنامہ کیا کم ہوگا کہ میں کسی لاگو جانور کا شکار نہ ہوا! تو واقعہ ہے۔

    زیادہ دونوں کی بات ہیں ہے۔ میں حاضر، غائب، متکلم کی حیثیت سے آپ سے گفتگو کرنے دلّی آرہا تھا۔ جس ڈبّے میں مجھے جگہ ملی وہ خلافِ توقع اتنا بھرا ہوا نہ تھا جتنا کہ ریلوے والے چاہتے تھے۔ یہ بات بھی میں بھول نہیں سکتا لیکن اس اعتبار سے ڈبہ بھرپور تھا کہ اس میں ہر جنس، ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک بوڑھا کسان بھی گرتا پڑتا داخل ہوا۔ زندگی میں اس طرح کے بڈھے کم دیکھے گئے ہیں، بڑی چوڑی چکلی ہڈی، بہت لمبا قد لیکن اس طور پر جھکا ہوا جیسے بڑھاپے میں قد سنبھلتا نہ تھا اس لیے جھک گیا تھا۔ جسم پر کچھ ایسا گوشت نہ تھا لیکن اس کی شکل اور نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ اس کے دیکھنے سے اس کے چھو لینے کا احساس ہوتا تھا جیسے گوشت اورچمڑے کے بجائے مصنوعی اور مرکب ربر وغیرہ قسم کی کوئی چیز منڈھ دی گئی ہو۔ سخت ناہموار موسم پروف ہی نہیں، رگڑ پروف بھی۔ ہتھیلی اور اس سے متصل انگلیوں کی سطح ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کچھوے کی پیٹھ کی ہڈی کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کی پچے کاری کردی گئی ہو۔ میرے دل میں کچھ وہم سا پیدا ہوا جیسے یہ آدمی نہ تھا۔ کھیت، کھاد، ہل، بیل، مرض، قحط، فاقہ، سردی، گرمی، بارش سب نبٹنے اور اپنی جیسی کر گزرنے کی ایک ہندوستانی علامت سامنے آگئی ہو۔

    ڈبے میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے اس کی پذیرائی اس طور پر نہ کی ہو جیسے کوئی معذور، مریل، خارشی کتا آگیا ہو۔ نوجوانوں نے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ عورتوں نے بیٹی بیٹے مر جانے کے کوسنے دیے۔ بوڑھوں نے یہ دیکھ کر کہ نووارد بڈھا ان سے پہلے مر جائے گا اپنوں کو جوانوں میں شمار کر لیا اور ماں بہن کی گالی دینی شروع کر دی۔ بے دردی اور اپنی اپنی بڑائی بگھارنے اور بکھاننے کا ایسا بھونچال آیا کہ میں نے محسوس کیا کہ تعجب نہیں کہ ڈبہّ بغیر انجن کا چلنے لگے گا۔ نووارد کی نظر ایک دوسرے بڈھے پر پڑی جو شاید اس قسم کے سلوک سے دوچار ہو کر ایک گوشے میں سہما سمٹا اپنے ہی بستر پر جو فرش پڑا ہوا تھا، دونوں یکجا ہوگئے۔ آنے والا اپنی لٹھیا کے سہارے فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور سر کو اپنے دونوں گھٹنوں میں اس طور سے ڈال لیا کہ دور سے کوئی اچٹتی ہوئی نظر ڈالے تو چونک پڑے کہ یہ کیسا شخص تھا جس کے کندھوں پر سر نہ تھا۔ شور اور ہنگامہ کم نہ ہوا تھا کہ گاڑی پلیٹ فارم سے سرکنے لگی۔ ایک کلکٹر صاحب نازل ہوگئے۔ ڈبّے میں کچھ ایسے لوگ تھے جن کے پاس ٹکٹ نہ تھے۔ صرف قیمتی سگریٹ کیس، فاؤنٹن پین، گھڑی اور سونے کے بٹن تھے۔ ٹکٹ کلکٹر کو کسی نے سگریٹ پیش کیا، کسی نے دو بڑے بڑے انناس دیے، کسی نے اپنی ساتھی خاتون کا یوں تعارف کرایا کہ وہ بی اے پاس تھیں اور فلم میں کام کرتی تھیں۔ سب کو نجات مل گئی…. بڈھا پکڑا گیا۔ اور وہ سب جو ٹکٹ نہ لینے کے مواخذہ سے نجات پا چکے تھے، ٹکٹ کلکٹر کی حمایت میں بڈھے کو برا بھلا کہنے لگے اور وہی قصے پھر سے شروع ہوگئے۔ یعنی پھبتی، پھکڑ، گالی گلوچ اور معلوم نہیں کیا کیا۔

    بڈھا بھونچکا تھا اور برابر کہے جارہا تھا کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت اور تکلیف میں تھا۔ کسی کے پاؤں پکڑ لیتا، کسی کی دہائی دیتا۔ اس کی بیوہ لڑکی کا اکیلا نوعمر ناسمجھ لڑکا گھر سے خفا ہوکر دلّی بھاگ گیا تھا۔ بغیر کچھ کھائے پیے یا لیے، جس کے فراق میں ماں پاگل ہورہی تھی اور گھر کے مویشیوں کے گلے میں بانہیں ڈال ڈال کر روتی تھی، جس طرح بڈھا ہم سب کے پاؤں میں سر ڈال کر منتیں کرتا اور روتا تھا۔ گاؤں والے کہتے تھے کہ ماں پر آسیب ہے۔ بڈھا بے اختیار ہو ہو کر کہتا تھا، حجور سچ مانوں میری بہو پاگل نہیں ہے، اس پر آسیب نہیں ہے، وہ تو میری خدمت کرتی تھی، ڈھور، ڈنگر کی دیکھ بھال کرتی ہے، کھیتی باڑی کا بوجھ اٹھاتے ہوئے گھر کا سارا دھندا کرتی ہے۔ اس پر سونے کے بٹن نے فرمایا، ارے بڈھے تو کیا جانے وہ اور کیا کیا دھندا کرتی ہے۔ بڈھا بلبلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر رونے لگا۔ بولا، ’’سرکار مائی باپ ہو۔ یہ نہ کہو میری بہو ہیرا ہے۔ دس سال سے بیوہ ہے، سارے گاؤں میں مان دان ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، ’’ٹکٹ کے دام لا، بڑا بہو والا بنا ہے۔‘‘ بڈھا پھر گڑگڑانے لگا۔ اس پر کسی صاحب نے، جن کا لباس میلا، فاؤنٹن پین امریکن اور شکل بنجاروں جیسی تھی اور پتّے پر سے انگلی سے چاٹ چاٹ کر دہی بڑے ختم کیے تھے، سنی ہوئی انگلی سے بالوں کو خلال کرتے ہوئے فرمایا، کیوں رے بڈھے! منھ پر آنکھ نہ تھی کہ ہمارے ڈبے میں گھس آیا۔ شریفوں میں کبھی تیرے پُرکھا بھی بیٹھے تھے۔ بڈھا گھگھیا کر بولا،’’بابو! سراپھوں ہی کو دیکھ کر چلا آیا، سراپھ دیالو ہوتے ہیں۔ تمہارے چرنوں میں سکھ اور چھایا ہے، تھرڈ کلاس میں گیا تھا۔ ایک نے دھکیل دیا، گر پڑا۔ بہو نے بچّے کے لیے ایک نئی ٹوپی اور کچھ سوکھی جلیبی دی تھی جو انگوچھا میں بندھی تھی کہ لونڈا بھوکا ہوگا، دے دینا۔ ٹوپی پہن کر جلیبی کھائے گا تو خوشی کے مارے چلا آئے گا۔ ہڑبڑ میں نہ جانے کس نے انگوچھیا ہتھیا لی۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے سگریٹ کا آخری ٹکڑا کھڑکی کے باہر پھینکا اور فیصلہ کن انداز سے کھڑے ہو کر فیصلہ دیا۔ بڈھا تو یوں نہ مانے گا، اچھا کھڑا ہو جا اور جامہ تلاشی دے ورنہ لے چلتا ہوں ڈپٹی صاحب کے ہاں، جو پاس کے ڈبے میں موجود ہیں اور ایسوں کو جیل خانے بھیج دیتی ہیں۔ بڈھا جلد تلاشی کے لیے اس خوشی اور مستعدی سے تیار ہوگیا جیسے بے زری اور ناکسی نے بڑے آڑے وقت میں بڑے سچے دوست یا بڑے کاری اسلحہ کا کام کیا تھا۔ اب دوسرے بڈھے سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا، ’’ بابو صاحب بڈھے نے برا کیا جو اس ڈبے میں چلا آیا اور ٹکٹ نہیں خریدا لیکن اس کو سزا بھی کافی مل چکی ہے۔ اب مار دھاڑ ختم کر دیجیے، بڈھا بڑا دکھی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر کا نزلہ اب دوسرے بڈھے پر گرا۔ فرمایا، ’’ آپ ہوتے کون ہیں؟ ہم کو تو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’آپ فرض ادا کرتے ہیں، بڑا اچھا کام کرتے ہیں لیکن فرض ادا کرنا تو 24 گھنٹے کا کاروبار ہوتا ہے۔ کیا آپ یقین کرتے ہیں کہ چند منٹ پہلے بھی اس ڈبے میں اپنا فرض ادا کرتے تھے۔ بڈھے کی جامہ تلاشی کیوں لیتے ہیں۔ آپ کو جس چیز کی تلاش ہے وہ اس کے پاس تو کیا اس کی نسل میں بھی کبھی نہ تھی۔ اس کے ہاں تو صرف وہ بہو ملے گی جس کا ایک دھندا اپنے لڑکے کو کھو دینا اور اپنے سوکھے مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر تسکین پانے کی کوشش کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ دھندا بھی ہو جو ہمارے ان ساتھی دوست کو معلوم ہے جو ایک لاچار بڈھے کی غم نصیب بہو کا دھندا خود اپنے بے ٹکٹ سفر کرنے سے زیادہ بہتر طریقہ پر سمجھتے ہیں۔ کتنی بے عقل بہو ہے کہ بچے کے غم میں مویشیوں کے گلے سے لپٹ کر روتی ہے اور ہمارے دوست کے گلے سے لپٹ کر رقص کرتی ہے۔‘‘

    ٹکٹ کلکٹر نے کہا، ’’یہ دیہاتی بڑی حرفوں کے بنے ہوتے ہیں اور دام رکھ کر بے ٹکٹ سفر کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں تو رو پیٹ کر چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ بڈھے نے جواب دیا، ’’لیکن آپ کو اس کا بھی تجربہ ہوگا کہ بعض دیہاتی ایسے نہیں ہوتے۔‘‘ فرمایا، ’’آپ رہنے دیجیے میں تو اس کے حلق سے دام نکال لوں گا۔‘‘

    طوفان تھم سا گیا۔ گاڑی کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کر اس حلقے میں جا بیٹھے جہاں جوان عورت، سونے کے بٹن اور قیمتی سگریٹ تھے۔ ایک سگریٹ اور سیاسی مسائل پر سستے جذبات کا اظہار کرنے لگے۔ دوسری طرف نکمے بڈھے نے کسان کو ٹکٹ کے دام دیے۔ وہ شکریے میں کچھ اور رونے پیٹنے پر آمادہ ہوا تو نکمے نے بڑے اصرار اور کسی قدر سختی سے روک دیا۔ کلکٹر صاحب پھر سے تشریف لائے اور بے ٹکٹ بڈھے سے مواخذہ شروع کردیا۔ بڈھے نے کرایہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ ٹکٹ کلکٹر متحیر رہ گیا لیکن فوراً سمجھ گیا کہ واقعہ کیا تھا۔ دوسرے بڈھے سے بولا، ’’آپ نے روپے کیوں دیے؟ آپ کا نقصان کیوں؟ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بڈھے کو یہ معلوم ہو کہ بے ٹکٹ سفر کرنا معاف کیا جاسکتا ہے۔ دو چار روپے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کچھ دیر تک خیال میں کھویا رہا۔ بے خبری ہی میں اس نے اپنا سگریٹ نکالا اور سلگا کر پینے لگا۔ ابھی نصف بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سگریٹ کو فرش پر ڈال دیا اور جوتے سے مَسَل دیا اور دیر تک مسلتا رہا۔ اس کا خیال کہیں اور تھا۔ دور بہت دور۔ قریب کی جھاڑیاں، تار کے کھمبے، درخت، مویشی، پانی کے گڈھے، آسمان کی وسعتیں، افق کا نیم دائرہ، تیزی سے گزرتی اور چکر کاٹتی معلوم ہونے لگیں۔ ٹکٹ کلکٹر اٹھ کھڑا ہوا جیسے وہ یا تو ڈبے کی زنجیر کھینچ لے گا یا خود کھڑکی باہر جست کر جائے گا۔ اس نے دونوں انناس ہاتھ میں اٹھائے اور لے جا کر اس کے مالک کے پاس رکھ دیے اور بولا، ’’ان کو واپس لیجیے اور ٹکٹ کے دام لائیے۔‘‘ ٹکٹ کلکٹر کے ارادے میں ایسی قطعیت اور اس کے تیور کا کچھ اندازہ تھا کہ مسافر نے پرس کھول کرٹکٹ کے دام گِن دیے۔ دوسروں نے بھی بغیر کسی تمہید یا تامل کے دام دے دیے۔ ٹکٹ کلکٹر نے سب کو رسید دی۔ ان سے فارغ ہو کر وہ جوان عورت سے مخاطب ہوا اور بولا، ’’شریمتی جی! میں آپ سے روپے نہ لوں گا۔ یہ لیجیے رسید حاضر ہے۔ عورت تیار نہ ہوئی اور رد و قدح شروع ہو گئی۔‘‘

    گاڑی دلّی کے اسٹیشن پر آکر رکی۔ میں بھی اتر پڑا۔ اب دیکھتا ہوں کہ ایک طرف بڈھا کسان دوسرے بڈھے کے پیچھے پیچھے روتا دعائیں دیتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جوان عورت ٹکٹ کلکٹر کے تعاقب میں چلی جارہی ہے اور میں آپ کی خدمت میں باتیں بنانے حاضر ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار رشید احمد صدیقی کی ایک تحریر)

  • غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    مجھے یاد ہے کہ جب میں عباس صاحب سے پہلی دفعہ استاذی صوفی تبسم صاحب کے ہاں ملا تو انہوں نے مجھے اپنی نیاز مندی کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُلٹا مجھے بتانے لگے کہ ” میں نے آپ کے سب مضامین پڑھے ہیں، آپ سے غائبانہ تعارف تو ہے، بس ملاقات نہیں ہوئی، تاثیر صاحب، فیض صاحب اور محمد حسن عسکری سے آپ کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہر اُردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی وہ غلام عباس تھے۔ اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’پھول‘ ہر گھر میں ہفتہ وار سوغات کی طرح آتا تھا، میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کو بچوں اور نوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن آتا تھا۔

    عباس صاحب لاہور میں بہت خوش تھے۔ یہاں کی گلیوں میں انہوں نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے تھے ، ان کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر ان یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔

    ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ چلیے آپ کو اس محلے میں کچھ اپنے پرانے دوستوں سے ملا لائیں۔ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، ہم جب وہاں پہنچے تو عقب میں واقع بادشاہی مسجد کے میناروں سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور محلے کی گلیوں میں شام ہو چکی تھی۔ ایک ذرا کشادہ گلی کی نکڑ پر ایک بڑے سے مکان کے سامنے عباس صاحب نے اپنا موٹر سائیکل روک لیا اور بڑی احتیاط سے پارک کیا۔ آس پاس کے دکان داروں سے علیک سلیک کی۔ مکان سے دروازے ہی پر کچھ ملازم پیشہ لوگوں نے عباس صاحب کو پہچان لیا۔ اندر اطلاع دی گئی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ ہم اوپر کی منزل کے ایک دالان میں پہنچے تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں نمودار ہوئیں، بڑی بوڑھیوں نے عباس صاحب کی بلائیں لیں، دو ایک ہم عمروں نے گلے لگایا اور نئی نویلی لڑکیاں آداب سلام بجا لائیں۔ عباس صاحب نے میرا تعارف کرایا تو گورنمنٹ کالج میں میرے لیکچرار ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے عزیزوں میں سے فلاں فلاں وہاں پڑھتے رہے ہیں اور فلاں اب بھی پڑھ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک تپائی پر چائے کا سامان رکھ دیا گیا۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گرم گرم سموسے اور شامی کباب، گاجر کا حلوہ۔ گپ شپ بھی ہوتی رہی اور کام و دہن کی تواضع بھی۔ آخر ایک مناسب موقع تلاش کر کے عباس صاحب نے میری خاطر سے گانے کی فرمائش کی۔ پہلے تو معمول کے عذر پیش کیے گئے۔ گلا خراب ہے، بہت دنوں سے ریاض نہیں کیا، یوں بھی اب تو لڑکیاں ہی گاتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ عباس کے دوست ہیں اور پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے ہیں، ہیرا بائی نے ہامی بھر لی۔ ساتھ والے کمرے سے طنبورہ اور طبلہ منگوائے گئے۔ ایک لڑکے نے طبلہ سنبھالا۔ ہیرا بائی نے طنبورہ ہاتھ میں لیا اور غالب کی غزل شروع کی:

    دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
    دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

    اور اس طرح ڈوب کر گائی کہ سماں باندھ دیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی غالب کے الفاظ اور اپنی آواز کے جذب و اثر میں کھوئی گئی ہیں، غزل ختم ہوئی تو میں نے جیسے ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ شعر دہرا دیا:

    دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پا
    موجِ خرام ِ یار بھی کیا گُل کتر گئی

    ہیرا بائی فوراً بولیں۔ ’’پروفیسر صاحب! اب موجِ خرامِ یار کہاں، اب تو یار پھٹ پھٹی پر آتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی عباس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا۔

    کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد ہم نے اجازت چاہی، نیچے آئے تو ڈیوڑھی کے ساتھ والا دالان جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا، سفید چاندنی پر گاؤ تکیے لگا دیے گئے تھے۔ سازندے سازوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور لڑکیاں سجی بنی مسند پر بیٹھی تھیں۔

    ہیرا بائی سے اپنی بھرپور جوانی کے عشق کا قصّہ عباس صاحب مجھے سنا چکے تھے، وہ ان کی زندگی میں پہلی عورت تھی جو اُن سے عمر میں کچھ بڑی بھی تھی لہٰذا اس کی محبت میں کچھ شفقت بھی شامل تھی۔

    عباس صاحب کو اس دو گونہ نشے نے دیوانہ کر دیا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہیرا بائی کے گھر والے اس تعلق سے خوش نہیں تھے اور نہ عباس صاحب کی والدہ اِس لیے کہ انہیں اپنے ہونہار اکلوتے بیٹے سے بڑی امیدیں تھیں، وہ بیٹا جس کی لکھی ہوئی کہانیاں رسالوں میں چھپتی تھیں، جو مولوی سید ممتاز علی کے زیر سایہ’’پھول‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور اہل علم لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔

    عباس صاحب کے لیے بھی ادب اور ادیبوں کی صحبت گویا ایک نئی دنیا کی سیر تھی، اس کی کشش نے اُن کے دل کو ایسا رِجھایا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے اوّلین عشق سے دامن چھڑا لیا۔

    (اردو کے نام ور ادیب اور کئی مشہور افسانوں کے خالق غلام عباس پر ڈاکٹر آفتاب احمد کے تذکرے سے اقتباسات)

  • ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    دلّی کے غریبوں میں بھی یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہونا چاہتے تھے، چنانچہ جو ہنر یا فن انہیں پسند آتا اسے اس فن کے استاد سے باقاعدہ سیکھتے تھے۔

    استاد اپنے شاگردوں سے پیسہ کوڑی نہیں لیتے تھے۔ اس لیے بڑے بے نیاز ہوتے تھے۔ شاگرد خدمت کر کے استاد کے دل میں گھر کر لیتا تھا اور کسی بات سے خوش ہوکر استاد شاگرد کو دوچار گُر بتا دیا کرتا تھا۔

    دراصل خدمت لینے میں یہ گُر پوشیدہ تھا کہ استاد شاگرد کی خو بُو سے اچھی طرح واقف ہو جاتا تھا۔ استاد کو اندازہ ہو جاتا کہ شاگرد اس فن کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہم کہیں گے اسے مانےگا یا نہیں؟ اگر ہم نے بتایا اور اس نے نہ کیا تو ہماری بات نیچی ہوگی اور شاگرد کا کچا پن ہماری بدنامی کا باعث ہوگا، لہٰذا خوب کَس لیتے تھے۔ کوڑی پھیرا بازار کا کراتے، برتن منجھواتے، گھر کی جھاڑو دلواتے، ہاتھ پاؤں دبواتے۔ جو اِن ناگواریوں کو گوارا کر لیتا، اسے اس کے ظرف کے مطابق اپنا فن یا ہنر سکھا دیتے۔ نااہل کو کبھی کوئی استاد کچھ نہ دیتا تھا۔ اناڑی کے ہاتھ میں تلوار دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینا ان کے نزدیک گناہ تھا۔

    معمولی سی بات ہے پنجہ لڑانا، مگر دلّی میں اس کے بھی استاد تھے۔ پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا اور اس کی بھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں استاد سے سیکھا جاتا تھا۔ دلّی کے میر پنجہ کش کا نام بہت مشہور ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پنجہ لڑانے والوں کا خط خراب ہو جاتا ہے، مگر میر پنجہ کش نہ صرف پنجہ کشی کے استاد تھے بلکہ اپنے زمانے کے اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی وصلیاں دیکھ کر آج بھی آنکھوں میں نور آتا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے تک دلّی میں بعض نامی پنجہ کش تھے جو اپنے شاگردوں کو زور کراتے اور پنجے کے داؤ پیچ بتاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دبلا پتلا سا نوجوان ہے جو ایک قوی ہیکل دیہاتی سے پنجہ پھنسائے بیٹھا ہے۔ دیہاتی کا چہرہ زور لگا لگا کر سرخ ہوا جا رہا ہے مگر نوجوان کا ہاتھ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ اس انداز سے انگلیاں چڑھا رکھی ہیں کہ دیہاتی کی ساری طاقت بیکار ثابت ہو رہی ہے۔

    جب دیہاتی کام یاب نہیں ہوتا تو کہتا ہے، ’’نہیں جی، یوں نہیں میری انگلی اتر گئی تھی۔‘‘ پھر خوب انگلیاں جما کر کہتا ہے، ’’ہاں اب لو۔‘‘ مگر اب کے بھی اس کی پیش نہیں جاتی۔ کہتا ہے، ’’میاں جی اب تم موڑو۔‘‘ نوجوان اس کا پنجہ ایسے پھیر دیتا ہے جیسے موم کا ہو۔ دیہاتی حیران ہوکر کہتا ہے، ’’ٹھیرو میاں جی، مجھے اپنی انگلیاں تو جما لینے دو۔‘‘

    ’’لے بھئی چودھری، تو بھی کیا یاد کرے گا خوب گانٹھ لے۔ اچھا اب ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘ اور پھر چودھری کا پنجہ نہیں رکتا اور پھرتا چلا جاتا ہے۔ دراصل ہنر اور فن میں گاؤ زوری نہیں چلتی۔ جبھی تو رستمِ زماں گاما پہلوان اپنے سے دوگنے پہلوانوں کو مار کر لیا کرتا تھا۔

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، ماہرِ موسیقی اور مدیرِ مشہور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کے مضمون دلّی کے حوصلہ مند غریب سے اقتباس)

  • دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے!

    دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے!

    یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنٰی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا، کام کاج، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔

    ہاتھ پاؤں کی محنت اوقات بسر کرنے اور روٹی کما کر کھانے کے لیے نہایت ضروری ہے اور روٹی پیدا کرنا اور پیٹ بھرنا ایک ایسی چیز ہے کہ بہ مجبوری اس کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں کی کاہلی چھوڑی جاتی ہے اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ اور وہ جو کہ اپنی روزانہ محنت سے اپنی بسر اوقات کا سامان مہیا کرتے ہیں بہت کم کاہل ہوتے ہیں۔ محنت کرنا اور سخت سخت کاموں میں ہر روز لگے رہنا گویا ان کی طبیعتِ ثانی ہو جاتی ہے۔ مگر جن لوگوں کو ان باتوں کی حاجت نہیں ہے وہ اپنے دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ کر بڑے کاہل اور بالکل حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔

    یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزار پڑھے لکھوں میں سے شاید ایک کو ایسا موقع ملتا ہوگا کہ کہ اپنی تعلیم کو اور اپنی عقل کو ضرورتاً کام میں لاوے لیکن اگر انسان ان عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قویٰ کو بے کار ڈال دے تو وہ نہایت سخت کاہل اور وحشی ہو جاتا ہے۔ انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے اور جب کہ اس کے دلی قویٰ کی تحریک سست ہو جاتی ہے اور کام میں نہیں لائی جاتی تو وہ اپنی حیوانی خصلت میں پڑ جاتا ہے۔ پس ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ اپنے اندرونی قویٰ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہے اور ان کو بے کار نہ چھوڑے۔

    ایک ایسے شخص کی حالت کو خیال کرو جس کی آمدنی اس کے اخراجات کو مناسب ہو اور اس کے حاصل کرنے میں اس کو چنداں محنت و مشقت کرنی نہ پڑے جیسے کہ ہمارے ہندوستان میں ملکیوں اور لاخراج دازوں کا حال تھا اور وہ اپنے دلی قویٰ کو بھی بے کار ڈال دے تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہی ہوگا کہ اس کے عام شوق وحشیانہ باتوں کی طرف مائل ہوتے جاویں گے۔ شراب پینا اور مردار کھانا اس کو پسند ہوگا، قمار بازی اور تماش بینی کا عادی ہوگا اور یہی سب باتیں اس کے وحشی بھائیوں میں بھی ہوتی ہیں، البتہ اتنا فرق ہوتا ہے کہ وہ پھوہڑ، بد سلیقہ وحشی ہوتے ہیں اور یہ ایک وضع دار وحشی ہوتا ہے۔ شراب پی کر پلنگ پر پڑے رہنا اور ناریل میں تمباکو کے دھویں اڑانا اس کو پسند ہوتا ہے۔ پس پیچوان اور ناریل اور بچھونے اور ریت کے فرق سے کچھ مشابہت میں جو ان دونوں میں ہے کمی نہیں ہوتی۔

    ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے ایسے کام بہت کم ہیں جن کو ان کو قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع ملے اور بر خلاف اس کے اور ولایتوں میں اور خصوصا انگلستان میں وہاں کے لوگوں کے لیے ایسے مواقع بہت ہیں۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انگریزوں کو بھی کوشش اور محنت کی ضرورت اور اس کا شوق نہ رہے جیسا کہ اب ہے تو وہ بھی بہت جلد وحشت پنے کی حالت کو پہنچ جاویں گے، مگر ہم اپنے ہم وطنوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنے قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع نہیں رہا ہے اس کا بھی سبب یہی ہے کہ ہم نے کاہلی اختیار کی ہے یعنی اپنے دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم کو قوائے قلبی اور قوتِ عقلی کے کام میں لانے کا موقع نہیں ہے تو ہم کو اسی کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ موقع کیونکر حاصل ہو اگر اس کو حاصل کرنے میں ہمارا کچھ قصور ہے تو اس کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ قصور کیونکر رفع ہو۔

    غرض کہ کسی شخص کے دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے۔ کسی نہ کسی بات کی فکر و کوشش میں رہنا لازم ہے تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے کی فکر اور مستعدی رہے اور جب تک ہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چھوٹے گا، اس وقت تک ہم کو اپنی قوم کی بہتری کی توقع کچھ نہیں ہے۔

    ( ہندوستانی مسلمانوں کے خیرخواہ اور مصلح سرسید احمد خان کے مضامین سے انتخاب)

  • مہذب قوم

    مہذب قوم

    چھوٹا بچّہ اپنے سے بڑے لڑکے کی باتوں کی پیروی کرتا ہے اور کم سمجھ والا اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ سمجھدار سمجھتا ہے اور ناواقف اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ واقف کار جانتا ہے۔

    اسی طرح نامہذب قوم کو تہذیب یافتہ قوم کی پیروی کرنی ضرور پڑتی ہے، مگر بعض دفعہ یہ پیروی ایسی اندھا دھند ہوتی ہے جس سے بجائے اس کے کہ اس پیروی سے فائدہ اٹھاویں، الٹا نقصان حاصل ہوتا ہے اور جس قدر ہم نامہذب ہوتے ہیں اس سے اور زیادہ ناشائستہ ہوتے جاتے ہیں۔

    نامہذب آدمی جب تربیت یافتہ قوم کی صحبت میں جاتا ہے تو ان لوگوں کو بہت عمدہ پاتا ہے اور ہر بات میں ان کو کامل سمجھتا ہے، ہر جگہ ان کی تعریف سنتا ہے مگر ان میں جو خراب عادتیں ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے۔ مثلا ً شراب پینا، جوا کھیلنا وغیرہ۔ پس یہ شخص ان باتوں کو بھی ان کے کمالوں ہی میں تصور کر لیتا ہے۔ ان میں جو خوبیاں اور کمالات درحقیقت ہیں ان کو تو وہ حاصل نہیں کرتا اور نہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر جو بری باتیں ان میں ہیں ان کو بہت جلد سیکھ لیتا ہے۔

    ایسا کرنا درحقیقت اس آدمی کی غلطی ہے کہ اس نے ان کے نقصوں کو ان کا کمال سمجھا ہے۔ وہ لوگ بسبب کسی دوسرے کمال و لیاقت اور خوبی کے جو ان میں ہے اور بسبب دوسری عمدہ خصلتوں کے جو انہوں نے حاصل کی ہیں، مہذب و شائستہ کہلاتے ہیں، نہ بسبب ان باتوں کے جن کو اس نے سیکھا ہے۔ بلاشبہ مہذب آدمیوں کی برائیاں ان کی بہت سی خوبیوں اور کمالوں کے سبب چھپ جاتی ہیں اور لوگ ان پر بہت کم خیال کرتے ہیں، تاہم وہ برائیاں کچھ ہنر نہیں ہو جاتیں، بلکہ جو برائی ہے وہ برائی ہی رہتی ہے، گو کہ ایک مہذب قوم ہی میں کیوں نہ ہو۔

    ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی قوم گو وہ کیسی ہی عمدہ اور مہذب ہو، مگر جو برائیاں اس میں ہیں وہ اس کے وصف نہیں ہیں، بلکہ ان کے کمال کی کمی ہے جس کی پیروی ہم کو کرنی نہیں چاہیے۔ اگر ایک خوب صورت آدمی کے منہ پر ایک مسّا ہو توہم کو خوب صورت بننے کے لیے ویسا ہی مسّا اپنے منہ پر نہ بنا نا چاہیے کیونکہ وہ مسّا اس کی خوب صورتی کا نقصان ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو یہ خیال کرنا مناسب ہے کہ اگر یہ مسّا بھی اس کے منہ پر نہ ہوتا تو کتنا اور خوب صورت ہو جاتا۔

    ہم بلاشبہ اپنی قوم کو اپنے ہم وطنوں کو سولائزڈ قوم کی پیروی کی ترغیب کرتے ہیں، مگر ان سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان میں جو خوبیاں ہیں اور جن کے سبب وہ معزز اور قابل ادب سمجھی جاتی ہیں اور سولائزڈ شمار ہوتی ہیں ان کی پیروی کریں، نہ ان کی ان باتوں کی جو ان کے کمال میں نقص کا باعث ہیں۔

    اسی سبب سے جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری قوم نے کسی سولائزڈ قوم کی عمدہ خصلتوں اور عادتوں میں پیروی کی تو ہم کو بہت خوشی ہوتی ہے اور جب یہ سنتے ہیں کہ اس نے ان کی برائیوں کی پیروی کی اور شراب پینی شروع کی اور پکا متوالا ہوگیا اور جوا کھیلنا سیکھا اور بے قید ہو گیا تو ہم کو نہایت افسوس ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری قوم عمدہ باتوں کو سیکھے گی اور بری باتوں کو ہمیشہ برا سمجھے گی۔

    (سرسیّد احمد خان کے مضامین سے انتخاب)

  • ذہین لوگ کہاں گئے؟

    ذہین لوگ کہاں گئے؟

    یورپ میں بادشاہت کے نظام کے دوران امرا کا طبقہ ریاست کے تمام شعبوں پر پوری طرح سے حاوی تھا۔ یہ لوگ سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔

    فوج کے اندر اعلیٰ عہدے بھی ان ہی کے لیے تھے، چرچ میں بھی اونچے عہدوں پر ان ہی کا تقرر ہوتا تھا۔ لہٰذا خاندان در خاندان مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے، اور اس تمام سلسلہ میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، کیوں کہ تقرر کی وجہ خاندان تھا، ذہانت نہیں تھی۔

    چاہے یہ ذہنی طور پر اوسط درجہ کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے خاندانی رشتوں اور تعلقات کی وجہ سے ریاست کے تمام عہدے ان کے لیے تھے۔

    اس فرق کو ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں کہ جب امریکا آزاد ہوتا ہے تو چوں کہ اس کے معاشرے میں کوئی امرا کا طبقہ نہیں تھا، اس لیے ان لوگوں کے لیے جو ذہین، محنتی اور لائق تھے، کام یابی کے تمام مواقع موجود تھے۔

    یورپ سے بھی جو غریب اور مزدور یا کسان طبقوں سے لوگ امریکا ہجرت کرکے گئے، انہیں وہاں کام کرنے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کے پورے مواقع ملے۔ مثلاً اینڈریو کارنیگی، ایک کاری گر کا لڑکا تھا، جو اسکاٹ لینڈ سے امریکا گیا، اگر یہ وہیں رہتا تو اپنے باپ کے پیشہ کو اختیار کرکے زندگی گزار دیتا، مگر امریکا میں اس کو اپنی ذہانت اور محنت دکھانے کے موقع ملے۔ اور یہ وہاں کا بڑا سرمایہ دار اور صنعت کار بن گیا۔

    اس نے خاص طور سے اپنے سرمایہ کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا اور شہروں میں جگہ جگہ کتب خانے قائم کیے۔ کارنیگی کی طرح کے اور بہت سے افراد تھے کہ جنہوں نے خاندان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کام یابی حاصل کر کے نام پیدا کیا، یہ لوگ سیاست میں بھی آئے اور ان میں اکثر غریب خاندان کے لڑکے ملک کے صدر بنے اور اعلیٰ عہدوں پر رہے۔

    پاکستان کے ابتدائی دنوں میں چوں کہ یہاں ہر طبقے کے لوگوں کے لیے تعلیم کی یکساں سہولتیں تھیں، اس لیے پبلک اسکولوں میں امیر و غریب دونوں کے بچّے پڑھتے تھے اور یہ تعلیم یونیورسٹی تک اسی طرح سے بغیر کسی فرق کے تھی، اس لیے ذہین طالب علموں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کام یاب ہوجائیں، یا دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں اپنی ذہانت کی بنیاد پر کام یابی حاصل کریں۔

    لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ دولت مند اور امرا کا طبقہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا گیا، انہوں نے اپنے بچّوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کی ابتدا کردی جو بڑھتے بڑھتے اس قدر مہنگے ہوئے کہ اس میں عام لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک اسکولوں کا معیار گرتا چلا گیا، اور سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ غریب لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم کے بعد آگے بڑھنے یا ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔

    یہاں بھی مواقع ان کے لیے ہیں کہ جن کے پاس سرمایہ ہے، جو اس سے محروم ہیں، چاہے وہ کتنے ہی لائق اور محنتی کیوں نہ ہوں، ان کے لیے معاشرے میں کوئی عزت اور وقار کی جگہ نہیں رہی ہے۔

    مراعات سے محروم طبقوں کے لیے زندگی میں اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذہانت کی جگہ خوشامد سے کام لیں، اور طبقۂ اعلیٰ کے لوگوں کی چاپلوسی کر کے ان سے جو بچ جائے وہ حاصل کرلیں۔

    اس کی مثال پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہ یا تو بڑے جاگیردار ہیں یا سرمایہ دار، انہی بنیادوں پر ان کو سربراہی ملی ہوئی ہے، اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی اہلیت یا صلاحیت ہے۔ اب اگر ان کی پارٹی میں باصلاحیت لوگ ہیں، تو پارٹی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سربراہ کی خوشامد میں مصروف رہیں، کیوں کہ جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان ہی افراد کی سرپرستی کرتے ہیں، جو ان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کسی فرد میں کس قدر لیاقت ہے اور وہ پارٹی کے لیے یا اقتدار میں آنے کے بعد ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

    اگر کبھی کسی فرد سے ان کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے، یا وہ اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرتا ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اسے تمام سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب پاکستان میں عہد وسطیٰ کے امرا اور طبقہ اعلیٰ کی جگہ جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان غالب آگئے ہیں اور ان کے خاندانوں کی حاکمیت مستحکم ہوگئی ہے۔

    اس پورے سلسلہ میں معاشرے کے ذہین افراد جن کا تعلق عوام یا نچلے طبقوں سے ہے، ان کو محروم کر کے ان کی ذہانت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

    سیاسی خاندانوں کے اس تسلط کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ وہ افراد بھی کہ جو اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنی ذہانت کو تسلیم کراچکے ہیں، جب انہیں معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ یا تو خاموش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں، یا ملک سے ہجرت کرکے نئے مواقعوں کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں۔

    ذہین افراد اس کمی کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں نالائق اور اوسط ذہن کے لوگ آگے آگے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں زوال اور پس ماندگی کے آثار پوری طرح سے ظاہر ہورہے ہیں۔

    المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکا اور یورپ کے ملک باصلاحیت اور ماہرین کی تلاش میں ملک ملک گھومتے ہیں، مگر ہمارے ہاں باصلاحیت لوگ اپنے ہی حکم رانوں کے ہاتھوں محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔

    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ذہانت کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ یورپ میں جمہوری روایات نے امرا کے خاندان کے تسلّط کو توڑا اور ذہین لوگوں کے لیے راہ ہموار کی، ہمارے ہاں بھی اس کی ضرورت ہے، مگر اس کام کو کون کرے گا؟

    (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "تاریخ کی گواہی” سے انتخاب)