Tag: اردو مکتوب

  • رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    رَسّی تیرے کتنے کام…. جتنے کام، اتنے نام!

    ’’محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسّی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے۔“ صدیقی صاحب مرحوم (ابوالفضل صدیقی) نے فوراً ٹوکا کہ اُس کو رسّی نہیں ”الگنی“ بولتے ہیں۔

    پھر جمیل بھائی سے مخاطب ہو کر بولے رسّی کو بہ لحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لیے چھوڑا جاتا تو اِس ڈر سے کہ وہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ اُس کی اگلی ٹانگوں میں رسّی باندھ دیتے ہیں۔ اُس کو ”دھنگنا“ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ ”اگاڑی“ ”پچھاڑی“ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر جو رسّی سوار پکڑتا ہے وہ ”لگام“ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے اگر ٹم ٹم، بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسّی ”راس“ کہلاتی ہے۔

    اسی لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لیے جو رسید لکھی جاتی تھی، اُس میں یہ الفاظ لکھے جاتے تھے ”یک راس گھوڑے کی قیمت“ اور ہاتھی کے لیے ”یک زنجیر ہاتھی“ استعمال ہوتا تھا۔

    گھوڑے کو جب ٹریننگ کے لیے سائیس پھراتا ہے اور جسے ”کاوا پھرانا“ بولتے ہیں، اُس رسّی کو جو سائیس اُس وقت پکڑتا ہے اس کو ”باگ ڈور“ کہتے ہیں۔

    پھر مرحوم نے کہا بیل کی ناک کے نتھنوں میں جو رسّی ڈالتے ہیں اُس کو ”ناتھ“ (اسی لیے ایسے بیل کو ”نتھا“ ہوا بیل بولتے ہیں، اُس کے بعد ہی بیل رہیلو اور ہل وغیرہ کے کام میں آتا ہے) کہتے ہیں اور اونٹ کی ناک میں ”نکیل۔“ کنویں سے بڑے ڈول کی جو بیل کھینچتے ہیں اُس میں جو موٹا رسّا استعمال ہوتا ہے اُس کو ”برت“ یا ”برتھ“ بولتے ہیں۔‘‘

    (نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)

  • مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    ذاکر باغ،
    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
    5 جنوری 1975

    مکرمی، سلام مسنون

    آپ نے جن مقامات کی سیاحت فرمائی، وہاں کے جن گزشتہ اور موجودہ علما، شعرا، سلاطین اور اکابر کو یاد کیا اور ان کی منزلت یاد دلائی، نیز یہ کہ ان کے عظیم کارنامے کتنے وسیع خطۂ ارض، کیسی گراں قدر تصانیف اور یادگاروں اور مختلف الاحوال لوگوں کے ذہن و دماغ میں کس طرح اور کس شکل میں جلوہ گر ہیں اس کا احساس شاید ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے میں بھی کم ہی لوگوں کو ہوگا۔

    ان کار ہائے عظیم اور خدماتِ جلیلہ کے باوجود ہماری جو حالت و شہرت مہذب دنیا میں ہے وہ کتنی عبرت ناک ہے۔ آپ نے اس کا احساس کیا اور کلام پاک کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا۔ لیکن کلامِ پاک کی تنبیہ اور تاکید کو یاد دلانا آسان ہے اس کو منوانا اور ذہن نشیں کرا دینا، جس کی قدرت میں ہے، وہ نہ ہمارے بس کا ہے نہ آپ کے بس کا۔

    قلب ضرور ہمارا ہے، لیکن اس کا مقلب تو کوئی اور ہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کا اقبال گزشتہ تہذیبوں کے فطری زوال کے مانند عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو۔ ایسا ہے تو اس کی ضرب کہاں کہاں پہنچتی ہے اس کا اندازہ مجھ سے کہیں زیادہ آپ کرسکتے ہیں۔

    دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں انشا پردازی کا جو حسن، جامعیت اور ”موافق الاحوال“ ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں۔ مختلف تقریبوں میں آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور بَرمحل ہیں۔ کہیں کوئی ڈھیل بر بنائے مصلحت نہیں ملتی۔ سطرِ آخر سے پہلی سطر میں آپ نے ”اسلامی نخوت“ کا فقرہ لکھا ہے۔

    نخوت کا لفظ اسلامی کے ساتھ کھٹکا، عربی، فارسی زبان میں نخوت کا جو بھی مفہوم ہو، اردو میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے معنی میں بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر کبرونخوت ہی بولتے ہیں۔ اردو میں نخوت کو بزرگی کا مفہوم شاید ہی کسی نے دیا ہو، لیکن اس معاملے میں آپ کا قول، قولِ فیصل ہے۔

    دعا ہے کہ آپ خوش و خرم ہوں۔

    مخلص
    رشید احمد صدیقی


    (ممتاز ادیب، نقاد اور محقق رشید احمد صدیقی نے معروف عالمِ دین اور نہایت قابل شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نام اس خط میں‌ ایک سفر نامے پر مولانا کو مسلمانوں‌ کا حقیقی خیر خواہ اور مصلح کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے)