Tag: اردو مکتوب نگاری

  • جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    یہ تذکرہ ہے دو مشہور و معروف شخصیات کے مابین خط کتابت کا جن کا زمانہ تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ ایک تھے سر راس مسعود اور دوسرے جوش ملیح آبادی۔

    قابل، باصلاحیت شخصیات، علمی و ادبی کام کرنے والوں کی قدر اور عزّت افزائی کے ساتھ اس زمانے میں اخلاق و مروّت اور لوگوں‌ میں مدد اور تعاون کا جذبہ بہت تھا۔ اس دور کی یاد تازہ کرتا یہ پارہ مشفق خواجہ کی منتخب تحریروں پر مشتمل کتاب سن تو سہی سے لیا گیا ہے۔

    سَر راس مسعود کو ہندوستان میں ایک ماہر مدرّس اور منتظم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ سرسیّد احمد خان کے پوتے تھے۔ اس زمانے میں علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، ان میں سَر راس مسعود کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ نہایت قابل، فکر و نظریہ اور علم و فن کے رسیا تھے۔ دوسری طرف شاعرِ انقلاب کہلانے والے جوش صاحب تھے۔

    مشفق خواجہ لکھتے ہیں، "یہ قاعدہ تھا کہ ان(سر راس مسعود) کے نام شاعروں ادیبوں کے جو خطوط آتے تھے، وہ انہیں محفوظ رکھتے تھے۔ جواب میں جو کچھ لکھتے تھے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ راس مسعود کے ذاتی کاغذات کا بڑا حصہ جناب جلیل قدوائی کے پاس محفوظ ہے۔ ہماری درخواست پر قدوائی صاحب نے جوش صاحب کے اصل خطوط اور ان کے جوابات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

    اس مراسلت کا پس منظر یہ ہے کہ حیدرآباد دکن سے اخراج کے بعد جوش صاحب کے مالی حالات اچھے نہ رہے۔ سر راس مسعود اس زمانے میں ریاست بھوپال میں تھے، جوش صاحب نے انہیں مالی امداد کے لیے خط لکھا۔ راس مسعود نے اس خط کا حوصلہ افزا جواب دیا۔ جوش صاحب نے "جواب الجواب” 15 اکتوبر 1935ء کو لکھا، جب وہ مختصر قیام کے لیے ریاست دھول پور میں تشریف رکھتے تھے۔ اس خط میں جوش صاحب فرماتے ہیں:

    "آپ کے مکتوبِ گرامی نے میرے دل سے وہی سلوک کیا ہے، جو مرہم زخم سے اور ابرِ برشگال پیاسی زمین سے کرتا ہے۔ نتیجہ خواہ کچھ ہو کہ نہ ہو، آپ میری دست گیری کی سعی میں کام یاب ہوں یا ناکام، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ نے میری بات تو پوچھی، امداد پر آمادگی تو ظاہر ہوئی، مشفقانہ لہجے میں خط کا جواب تو دیا۔ کیا میرے تاحیات احسان مند رہنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟ اپنی حالت کیا عرض کروں، اگر تنہا ہوتا تو بڑی سے بڑی مصیبت کا حقارت آمیز تبسم سے خیر مقدم کرتا اور ہر عظیم سے عظیم بلا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضحکہ اڑاتا، مگر کیا کروں مجبور ہوں اہل و عیال سے۔ باپ نے، جب میں نو برس کا تھا، میرا نکاح کر دیا تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام دولت و ثروت ان کے گھر سے چلی جائے گی۔ مجھے آج تک اپنے سہرے کی لڑیوں کی خوشبو یاد ہے، کتنی دلفریب تھی، مگر آج وہی ذریعہ بنی ہوئی ہے میری پریشاں خاطریوں کا۔

    میرے محترم! مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ آبائی جائیداد تو پہلے ہی تلف ہو چکی تھی، اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، حیدرآباد میں جگہ مل گئی تھی، سو وہ بھی سازشوں کی نذر ہو گئی۔ اب میں ہوں اور بے کسی، میرے مریض اہل و عیال ہیں اور کسمپرسی۔ دھول پور میں اپنے ماموں کے وہاں پڑا ہوا ہوں۔ ماموں سوتیلے نہیں حقیقی ہیں۔ لیکن جس طرح جی رہا ہوں، اس سے موت بہتر ہے۔ واضح رہے کہ ماموں جان کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہوار ہے۔ کیا آ پ کو عبرت نہیں ہوگی؟ میں آپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتا، صرف اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ بھوپال وغیرہ سے میرے رسالے کے واسطے اتنی مدد کرا دیجیے کہ میں فراغت سے زندگی بسر کر سکوں۔ رسالے کے اخراجات پانچ سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہیں۔ سر لیاقت حیات خان وزیر پٹیالہ نے پٹیالے سے ایک مستقل ماہانہ امداد کا وعدہ فرما لیا ہے۔ پنڈت کیلاش نرائن صاحب ہاکسر بھی گوالیار سے امداد دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر بھوپال یا دو تین جگہیں اور ملا کر آپ ڈھائی سو روپے ماہوار کی مستقل ادبی امداد کا بندوبست کر دیں تو میرے مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟

    میں ایک بار اور عرض کروں کہ میرے تمام عمر احسان مند رہنے کے واسطے آپ کی پرسش ہی بہت کافی ہے۔ کیا ایک محبت کی نگاہ، تمام دنیا کے خزانوں پر بھاری نہیں، اور کیا ایک مخلصانہ تبسم، تمام عالم کے زر و گوہر سے زیادہ گراں قیمت نہیں؟ خدا کرے آپ اچھے ہوں، میں اور میرے متعلقین میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔”

    معتوبِ قدرت
    جوش۔

    سر راس مسعود نے 17 اکتوبر 1935ء کو اس خط کا جواب لکھا اور ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا تھا۔

  • انقلابی شاعر علی سردار جعفری کا آزاد کے نام خط

    انقلابی شاعر علی سردار جعفری کا آزاد کے نام خط

    ایک زمانہ تھا جب ہر خاص و عام خطوط میں سلام و پیام، اپنا مدعا، غرض اور حال احوال دور دراز بسنے والے اپنے عزیز و اقارب اور احباب تک پہنچاتے تھے۔

    خط نویسی اور پیغام رسانی کا یہ طور اردو ادب میں مکتوب نگاری کے طور پر یوں اپنایا گیا کہ اسے خاص اہمیت اور مشاہیر و اہم تخلیق کاروں کے خطوط کو ایک دستاویز کا درجہ حاصل ہو گیا، اردو ادب میں اپنے وقت کے نام ور ادیب، شعرا اور علم و فنون سے وابستہ شخصیات کے خطوط مشہور ہوئے۔ پیشِ نظر خط ہندوستان کے مشہور انقلابی شاعر اور ترقی پسند ادیب علی سردار جعفری کا ہے جو انھوں نے معروف شاعر اور تخلیق کار پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے نام تحریر کیا تھا۔ اس خط کی خاص بات علی سردار جعفری کی جانب سے فیض احمد فیض کے ایک انٹرویو کا حوالہ ہے جو باذوق اور ادب شناس قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    برادرم آزاد تسلیم
    13 ستمبر، 1984

    ایک عرصے سے آپ کی خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ اب شاید ملاقات کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ 23 ستمبر کو جالندھر میں ٹیلی ویژن کا ایک مشاعرہ ہے۔ میں شریک ہورہا ہوں۔ یقین ہے کہ آپ بھی مدعو ہوں گے۔

    وہاں سے میں آٹھ دس دن کے لیے جموں آنا چاہتا ہوں۔ وسط اکتوبر میں دہلی یونیورسٹی میں نظام خطبات پیش کرنے ہیں، لیکن ابھی تک ایک خطبہ بھی مکمل نہیں کرسکا۔ وجہ یہ ہے کہ بمبئی میں مکروہات بہت زیادہ ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے مہمان خانے میں آٹھ دس دن کے لیے ایک کمرہ مل جائے تو وہاں بیٹھ کر خطبات لکھ لوں گا۔ 11 اکتوبر کو سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے بھی مشاعرہ ہے۔ اس میں بھی شریک ہونا ہے۔

    میں نے اپنی منظوم آپ بیتی نومبر میرا گہوارہ کے کچھ اور حصے لکھے ہیں۔ جموں کی آب و ہوا راس آئی تو شاید کچھ اور تخلیق ہوجائے۔ آپ تو اس زمانے میں وہاں ہوں گے۔ ملاقات ہوتی رہے گی۔

    میں نے یونیورسٹی کے مہمان خانے میں کمرہ کے لیے وائس چانسلر صاحب کو خط نہیں لکھا ہے۔ آپ میری طرف سے بات کرکے انتظام کر دیجیے اور مجھے تار کے ذریعے سے اطلاع دے دیجیے کہ انتظام ہوگیا۔ میں 19 ستمبر تک بمبئی میں رہوں گا۔ 20 کو دہلی پہنچ جاؤں گا اور دوگل کے گھر قیام کروں گا۔ 22 کی شام تک جالندھر۔ مشاعرہ 23 کو ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ آپ 24 سے31 ستمبر تک کے لیے کمرے کا انتظام کردیجیے۔

    کراچی سے صہبا لکھنوی کا پیام آیا ہے۔ ”افکار” کے سردار جعفری نمبر کے لیے یہاں کے مضامین مانگ رہے ہیں۔ کچھ چیزیں ان کے پاس پہنچ گئی ہیں، مثلاً ڈاکٹر وحید اختر کا مضمون۔ آپ کا مضمون اب تک نہیں ملا ہے۔ آپ نے شاید کوئی مضمون میرے جموں کے قیام پر لکھا ہے سہیل کے لیے۔ اگر آپ نیا مضمون نہ لکھیں تو وہ پاکستان میں بھی شایع ہوسکتا ہے۔

    کشمیر کے کوئی نصرت چودھری ہیں، ان کا ایک انٹرویو جو انہوں نے فیض سے لیا ہے کتاب نما کے تازہ شمارہ میں شایع ہوا ہے۔ انہوں نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ ”سردار جعفری کی آج کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آ پ کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔ ”فیض نے اپنے انداز میں اس کی تصدیق بھی کی اور یہ بھی اشارہ کردیا کہ آج کے دور میں سب شعرا انہی کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔ انٹرویو پڑھ کر جی خوش ہوا۔سوچا کہ اس مسرت میں آپ کو بھی شریک کرلوں۔

    امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔

    آپ کا
    سردار جعفری

    پس نوشت: پوری صاحب سے میرا سلام کہیے گا۔ شعبہ اردو کے تمام احباب کو بھی آداب۔ کالرا صاحب کا عید کارڈ آیا تھا اس کا شکریہ اب تک ادا نہیں کیا۔ اب آؤں گا تو ذاتی طور سے شکریہ ادا کردوں گا۔