Tag: اردو ناول

  • روئے مردہ کی نقاشی

    روئے مردہ کی نقاشی

    "بوف کور” فارسی زبان میں لکھا گیا ناول ہے جس کے مصنف صادق ہدایت دنیائے فکشن کا ایک اہم نام ہیں۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

    صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حالت میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1951ء میں صادق ہدایت نے بھی خود کشی کرلی تھی۔

    صادق ہدایت نے قیام یورپ کے دوران کئی افسانے لکھے۔ بعد میں وہ بمبئی منتقل ہوئے اور وہاں "بوف کور” جیسا مشہور ناول ان کے قلم سے نکلا۔ یہ ناول تہران کے اخبار روزنامہ ایران میں قسط وار اور بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک زندہ دستاویز اور فنی معیار کے لحاظ سے ایک مکمل شاہ کار ہے۔ اس کا شمار جدید فارسی کے ادبِ عالیہ میں ہوتا ہے۔ ان کے اس ناول کا اجمل کمال نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہاں ہم ناول "بوف کور” سے ایک سحر انگیز اقتباس پیش کررہے ہیں:

    ایسے موقعوں پر ہر کوئی اپنی زندگی کی کسی پختہ عادت میں یا اپنے کسی وہم میں پناہ لیتا ہے۔ شرابی شراب میں مست ہو جاتا ہے، لکھنے والا لکھنے میں، سنگ تراش، سنگ تراشی میں۔ اور ہر ایک اس بے چینی اور الجھن کو اپنے اپنے محرک کے وسیلے سے زندگی سے خارج کرتا ہے؛ ‘اور یہی موقعے ہوتے ہیں جب ایک سچا فن کار اپنے شاہکار کو وجود میں لا سکتا ہے۔’

    لیکن میں، بے ذوق اور بے بس، محض قلم دان کے ڈھکنوں کا نقاش۔ میں بھلا کیا کرسکتا تھا؟ ان معمولی، بھڑک دار اور بے روح تصویروں میں سے، جو سب ایک ہی شکل کی تھیں، میں کون سی تصویر بناتا کہ شاہ کار ہوتی؟

    پھر بھی مجھے اپنے تمام وجود میں ایک سرشاری اور حرارت محسوس ہو رہی تھی، ایک خاص طرح کا جوش اور ہلچل۔ میں چاہتا تھا کہ ان آنکھوں کو جو اب ہمیشہ کے واسطے بند ہوگئی تھیں، کاغذ پر اُتار کر اپنے پاس رکھ لوں۔۔۔ اس احساس نے مجھے اپنے خیال کو عمل کی صورت دینے پر اُکسایا۔ مجھ میں ایک عجیب طرح کی زندگی پیدا ہو گئی۔ اس وقت جب میں ایک لاش کے ساتھ محبوس تھا، اس خیال نے مجھ میں عجب نشاط پیدا کیا۔

    آخر میں نے دھواں دیتے چراغ کو گُل کیا اور دو شمع دان لا کر اس کے سرھانے روشن کر دیے۔ شمع کی لرزتی ہوئی روشنی میں اُس کا چہرہ اور پرسکون ہو گیا تھا اور کمرے کی دُھندلی روشنی میں وہ ایک پُر اسرار اور آسمانی کیفیت میں لگ رہی تھی۔ میں کاغذ اور نقاشی کا سامان لے کر اُس کے پلنگ کے پاس آیا۔۔۔ ہاں، یہ پلنگ اب اُس کا تھا۔ یہ صورت جسے آہستہ آہستہ گل کر نابود ہو جانا تھا، اور جو اس وقت بے حرکتی اور ٹھہراؤ کی کیفیت میں تھی، میں اس کے خطوط کو بہت آرام سے کاغذ پر اتار لینا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اُس کی صورت کے وہ خطوط چنوں جنھوں نے مجھے متاثر کیا تھا۔ میری نقاشی چاہے سادہ اور مختصر ہو لیکن مؤثر ہو اور روح رکھتی ہو۔

    میں اب تک قلمدانوں پر محض عادت کی بنا پر ایک سی تصویریں بنایا کرتا تھا۔ اب اپنی فکر کو کام میں لا کر مجھے اپنے خیال کو یعنی اس واہمے کو مجسم کرنا تھا، جس نے اُس کی صورت سے اٹھ کر مجھ پر اثر کیا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر مجھے آنکھیں بند کر لینی تھیں اور اس کے منتخب نقوش کو کاغذ پر لانا تھا کہ اپنے ذہن کے وسیلے سے اپنی جکڑی ہوئی روح کے لیے تریاق پیدا کر سکوں۔

    آخر کار میں نے بے حرکت خطوط و اشکال کی دنیا میں پناہ لی۔

    روئے مردہ کی نقاشی۔۔۔ یہ موضوع میری مردہ نقاشی سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ اصل میں میں لاشوں ہی کا نقاش تھا۔ لیکن کیا اس کی آنکھوں کو، بند آنکھوں کو دوبارہ دیکھنا ضروری تھا ؟ کیا وہ ابھی تک میرے ذہن اور فکر میں کافی مجسم نہیں ہوئی تھیں؟ میں نہیں جانتا صبح تک کتنی بار میں نے اس کی تصویر بنائی لیکن کوئی بھی میرے جی کو نہ لگی۔ جو بھی تصویر بنائی، پھاڑ ڈالی۔ اس کام میں مجھے تھکن کا احساس ہوا اور نہ وقت کے گزرنے کا۔
    اندھیرا چھٹ رہا تھا۔ ایک گدلی سی روشنی کھڑکی کے شیشے میں سے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ میں جو تصویر بنانے میں منہمک تھا وہ مجھے پچھلی تمام تصویروں سے بہتر لگ رہی تھی۔ لیکن آنکھیں؟ وہ کسی نا قابل معافی گناہ پر سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں میں کاغذ پر نہ اتار سکا۔۔۔ میرے ذہن سے ان آنکھوں کا وجود اور ان کی یاد بالکل مٹ چکی تھی۔ میری کوشش بیکار تھی۔ کتنا ہی اس کے چہرے پر نگاہ جماتا، ان آنکھوں کی کیفیت ذہن میں نہ آتی تھی۔

    اچانک اسی وقت میں نے دیکھا کہ اس کے رخساروں پر ہلکی سی سرخی آئی اور ہوتے ہوتے ان کا رنگ قصاب کی دکان پر لٹکے ہوئے گوشت کا سا ہو گیا۔ اس میں پھر سے جان پڑ رہی تھی۔۔ اس کی بے اندازہ گہری اور حیران آنکھیں جن میں زندگی کا تمام تر فروغ جمع ہو گیا تھا اور جو بیماری کی دھیمی روشنی سے چمک رہی تھیں، وہ سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں بہت آہستہ آہستہ کھلیں اور میرے چہرے کی طرف اُٹھیں۔۔۔ پہلی بار اُس نے میری طرف توجہ کی، مجھ پر نگاہ ڈالی اور پھر اس کی آنکھیں مند گئیں۔ اس بات میں شاید ایک لمحے سے زیادہ نہیں لگا ہوگا، لیکن یہ عرصہ میرے لیے اُس کی آنکھوں کی کیفیت پانے کو کافی تھا تا کہ میں اُس کیفیت کو کاغذ پر اتار سکوں۔ میں نے مو قلم سے اُس کیفیت کو کاغذ پر نقش کیا اور اب کے میں نے تصویر کو نہیں پھاڑا۔۔!

  • دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔

    مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔

    ہدایت کاری

    اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔

    کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔

    اداکاری

    اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار ارشد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔

    آخری بات

    یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے

    عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
    اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
    جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
    عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
    ان کی منزل ہیں
    اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
    کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
    اس کی شان ہے
    اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
    جہالت اور وحشت تنہائی
    اور بے جادہ گردش ہے
    عشق مزرعِ زندگی ہے
    (دشتِ سُوس)

  • دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    "جن ایک ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو سبز پہننا پسند کرتا ہے؟ یہ مزاحیہ ہے، ہے نا؟” حکیم ہنستے ہنستے اپنے اطراف میں ریت پر گھومنے لگا۔ ٹرین کی گرج کی طرح ایک شور نے زمین کو ہلا دیا۔ "اوہ۔ میرے جانے کا وقت۔” وہ جانے لگا لیکن ہچکچاتا رہا۔ تیزی سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا، "میں جانے سے پہلے، میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے۔ یہاں، کالم. چراغ تمہارا ہے۔ اس کی اچھی طرح حفاظت کریں اور اس کے اندر کسی جن کو نہ پھنسائیں۔ فیونا، آپ کو اور ایلسپیٹ کو اپنے تحائف کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے جانا ہوگا۔ میں آپ کو چھپانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ ابھی!” جن غائب ہو گیا۔
    اچانک چراغ والا جن اچھل کر بولا ’’میرے جانے کا سمے آ گیا، میں تو نکل رہا ہوں، اور تمھیں بھی مشورہ ہے کہ کہیں چھپ جاؤ۔‘‘ ابھی وہ تینوں اس کی بات سمجھے بھی نہیں تھی، ایک طرف تو حکیم غائب ہو گیا، دوسری طرف انھوں نے اپنی طرف ایک بھورے رنگ کی دیوار تیزی سے بڑھتی دیکھی، جس میں سے گرج کی آواز آ رہی تھی۔ جبران چلایا: ’’یہ ریت کا طوفان ہے، بھاگو!‘‘ اور وہ تینوں دوڑے پڑے۔
    انھیں چھپنے کے لیے قلعے کا ایک گوشہ ملا، جہاں بیٹھ کر انھوں نے خود کو جادوئی قالین سے ڈھانپ لیا۔ قالین کے نیچے وہ ریت کے طوفان کی دہشت ناک آواز سنتے رہے۔ ریت کے ذرے انھیں ایسے چبھ رہے تھے جیسے مکھیوں کے غول ڈنک مار رہا ہو۔ شور اتنا تھا کہ انھیں کان بہرے ہونے کا احساس ہونے لگا اور ہوا اتنی گاڑھی ہو چکی تھی کہ ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب انھوں نے سانس لینے کی جدوجہد کی تو پھیپھڑے درد سے پھٹنے لگے۔
    اچانک ان کے ہاتھوں سے قالین بھی چھوٹ گیا۔ فیونا بہ مشکل بول پائی کہ یہ تیسرا پھندا ہے۔ ریت کے طوفان نے قالین کو اڑایا اور وہ پل بھر میں غائب ہو گیا۔ اور پھر ان کو بھی ریت نے ڈھانپنا شروع کر دیا۔ فیونا تکلیف کے عالم میں سانس روک روک بولی: ’’ہمارا دم گھٹنے والا ہے۔ ریت ہمیں ڈھانپ لے گی اور ہم سانس نہیں لے پائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں جبران اور دانیال کے حواس سے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ تینوں ایک دوسرے سے لپٹے بیٹھے تھے، اور اس عالم میں تین گھنٹے گزر گئے۔ ریت ان کی گردنوں تک جمع ہو گئی تھی، اور وہ اس میں دفن ہونے جا رہے تھے۔ طوفان تھمنے لگا تو دانیال کی ڈوبتی آواز آئی: ’’میں اپنا ہاتھ نہیں ہلا پا رہا ہوں۔‘‘
    ایسے میں فیونا کو یاد آیا کہ وہ موسم بدل سکتی ہے، اس نے جلدی سے بارش سے بھرے بادلوں کے بارے میں سوچا۔ اور ذرا دیر میں صحرا میں بارش شروع ہو گئی، ان تینوں کو اپنے چہروں پر، جو اُس وقت ریتے باہر تھے، چھینٹے پڑنے کا احساس ہوا۔ اگلے ایک گھنٹے تک بارش برسنے کے بعد ہوا میں ریت کے طوفان کے اثرات ختم ہو گئے، اور جگہ جگہ ریت میں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں سی بن گئیں۔ دانیال نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر جادوئی قالین بھی زمین پر گرا پڑا تھا۔
    کچھ ریت پانی میں بہہ گئی تھی اور باقی کو انھوں نے ہٹایا اور باہر نکلے، انھوں نے اپنے سروں پر قوس قزح کو دیکھا، تو ان کے موڈ کچھ بہتر ہوئے۔ ایسے میں چراغ والا جن پھر نمودار ہو گیا۔ اس نے تالی بجائی اور قالین تین گنا بڑا ہو گیا، اور اس پر ماربل کی خوب صورت میز نمودار ہو گئی جس کے پائے صندل کی لکڑی کے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ میز پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ قالین پر چار عدد خوب صورت اور نرم رنگین تکیے بھی اب نظر آ رہے تھے۔ حکیم نے کہا: ’’یہ چار اس لیے ہیں کہ اب میں بھی تم لوگوں کے ساتھ اس پر سفر کروں گا۔‘‘ اس نے بتایا ’’چاندی کے ان تین خوب صورت جگوں میں انگور، انار لیموں کا رس ہے۔ ان پلیٹوں میں انگور، کھجور، خربوزے، کیلے اور کیوی کے پھل چنے گئے ہیں جنھیں کاٹا گیا ہے۔ اور ان پلیٹوں میں چکن، گائے کا بھنا گوشت، مسالے دار چٹنی، میمنے کے کباب، بادام اور پائن والے چاول، اور چپاتیاں ہیں۔ اور ہاں یہ والی ڈش ملوخیہ کہلاتی ہے، یہ چکن اور چاول کے ساتھ پالک کا اسٹو ہے، اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
    اتنی چیزیں دیکھ کر ان کی بھوک چمک اٹھی، اور چہروں پر خوشی کے اثرات اور گہرے ہو گئے۔
    جاری ہے…
  • دو سو چار ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو چار ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    قالین ہوا میں اڑنے لگا تھا کہ دانیال نے چیخ کر کہا اس کے کنارے پر مجھے تین مکڑیاں نظر آ رہی ہیں، انھیں گراؤ۔ جبران نے قالین کے درمیان خود کو ٹھیک سے متوازن کیا اور جوتا اتار کر ایک مکڑی کو دے مارا، وہ نیچے جا گرا۔ دوسری مکڑی کی ٹانگیں قالین کے کنارے پر ٹکی ہوئی نظر آ رہی تھیں، جبران نے اسے نیچے گرا دیا۔ تیسری مکڑی اچانک اوپر آ گئی اور فیونا کی ٹانگ پر چڑھ گئی۔ وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹی تو قالین سے ایک چیخ کے ساتھ لڑھک گئی، لیکن اس نے بدحواسی میں قالین کے کنارے کو سختی سے دبوچ لیا تھا جس کی وجہ سے وہ گرنے سے بچ گئی لیکن اب ہوا میں لٹک رہی تھی۔ مکڑی تو گر گئی تھی لیکن فیونا کی جان کو خطرہ تھا، اس نے گھبرا کر کہا ’’مجھے بچاؤ ۔۔۔ مجھے گرنے مت دو پلیز۔‘‘
    دانیال نے اس کے ہاتھ کو تھاما اور اسے اوپر کھینچنے لگا لیکن چند ہی لمحوں میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ وہ فیونا کو اوپر نہیں لا پائے گا۔ تب فیونا نے آنکھیں بند کیں اور پرندوں کو پکارا ۔۔۔ ’’کہاں ہو تم پرندو، میں گرنے والی ہوں، میری مدد کرو!‘‘
    جبران نے کسی بڑی چیز کو ہوا میں تیرتے آتے دیکھا۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا، کہ وہ کیا چیز ہے۔ جبران اور دانیال سمجھے شاید کوئی گدھ ہے اس لیے وہ گھبرا گئے تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ کر دے، لیکن فیونا نے تسلی دی کہ وہ مدد کو آ رہا ہے۔ پاس آ کر پرندہ فیونا سے بات کرنے لگا اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا اسے مدد کی ضرورت ہے۔ فیونا نے اسے اپنی سچویشن بتائی۔ وہ ایک بہت بڑا گدھ تھا، فیونا نے دانیال کو ہاتھ ہٹانے کے لیے کہا اور پھر خود ہی قالین کا کنارہ چھوڑ دیا۔ وہ نیچے گرنے لگی تو گدھ نے جھپٹا مار کر اسے پنجوں میں دبوچ لیا۔
    گدھ نے ذرا دیر میں فیونا کو قلعے کی چوٹی پر اتار دیا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ گدھ نے اس سے کسی مردے کے بارے میں دریافت کیا تو فیونا نے بتایا کہ مردہ تو نہیں دیکھا لیکن قلعے میں ریت کی مکڑیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گدھ یہ سن کر مکڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ جبران نے قالین کو فیونا کے قریب اترنے کا حکم دیا تو قالین نے تعمیل کی، کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں پھر قالین پر سوار اڑ رہے تھے۔ وہ خود کو کھلے آسمان میں اڑتا دیکھ رہے تھے اور ان کے بال تیز ہوا سے اڑے جا رہے تھے، انھیں بہت لطف آ رہا تھا۔ قالین نے انھیں آدھے گھنٹے تک صحرا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کا موقع فراہم کیا، انھوں نے بدوؤں کے خیموں کے باہر کیمپ فائر کا نظارہ بھی کیا۔ جب وہ قلعے واپس پہنچے تو فیونا کے کہنے پر قالین زمین سے دس فٹ اوپر ٹھہر گیا، ان کا قالین پر اسی طرح سونے کا ارادہ تھا۔ فیونا اور جبران نے جادوئی چراغ کو لے کر دانیال کا مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ تینوں کچھ ہی دیر میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے نیند کی وادی میں کھو گئے۔
    طلوعِ فجر کے ساتھ وہ باری باری جاگ گئے۔ انھوں نے نیچے دیکھا تو زمین صاف تھی۔ فیونا نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا یاقوت کی تلاش میں جانا ہے اب۔ جب قالین زمین پر پہنچا تو انھوں نے نیچے چھلانگ لگا دی، فیونا نے قالین کو لپیٹا اور قلعے کی دیوار سے لگا کر رکھ دیا۔

    جبران نے پوچھا کہ نگینہ کہاں تلاش کرنا ہے، کس راستے پر جائیں گے؟ فیونا نے خاموشی سے وہاں دیواروں پر ایک نگاہ دوڑائی اور پھر بولی اس طرف۔ وہ پتھر کی ایک اونچی دیوار کی طرف چلنے لگے۔ لیکن اس سے چند فٹ کے فاصلے پر جیسے ہی وہ رکے، دیوار اچانک سامنے سے غائب ہو گئی۔ تینوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’دیوار کہاں چلی گئی؟‘‘ دانیال اور جبران ایک ساتھ بول اٹھے۔

    فیونا جھجھکتے ہوئے آگے بڑھی اور غائب ہوئی دیوار کی جگہ سے گزرنے لگی، لیکن اسے بری طرح ٹھوکر لگی اور وہ پیچھے گر پڑی۔ اس نے ماتھا پکڑ لیا اور اٹھ کر بولی ’’دیوار ابھی بھی موجود ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ شاید ہمیں اس کے گر چکر لگا کر چلنا چاہیے لیکن مشکل تو تب بھی ہوگی کہ ہم اس کے گرد جائیں گے کیسے جب یہ نظر ہی نہیں آ رہی۔‘‘ تاہم وہ ایک طرف آگے بڑھنے لگے، لیکن پھر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے دیوار غائب ہوئی تھی۔ انھوں نے دیکھا دیوار وہاں موجود تھی اور نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد وہ دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کافی دور تک چلنے کے بعد فیونا کو محسوس ہوا کہ وہ نگینے کے قریب نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہ پریشانی کی بات تھی۔
    جبران نے کہا ’’یہ دیوار جادوئی ہے، بہتر ہے ہم واپس جائیں کیوں کہ اس طرح تو ہم کہیں بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘ وہ مڑ کر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے چلے تھے۔ فیونا ایک بار پھر دیوار کے قریب گئی تو وہ غائب ہو گئی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دیوار غائب ہونے کے بعد وہ جگہ خالی نظر آنے کی بہ جائے وہاں صحرا نظر آ رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے دور اونٹوں کا کوئی ریوڑ جا رہا ہو۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • دو سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    انھوں نے ایک نوکیلے پتھر کی مدد سے انار توڑ کر اس کے دانے نکالے اور مزے سے کھانے لگے، لیکن فیونا نے اناڑی پن سے اپنے کپڑے سرخ دھبوں سے بھر دیے تھے۔ ان کے پاس پانی کم تھا اور صحرا میں پانی پینے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا ہے، اس لیے اسے اسی طرح رہنا تھا۔ جب تک انھیں خبر ہوتی، سورج غروب ہونے لگا تھا، انھوں نے بیگ میں رکھا کھانا ختم کیا اور پھر زمین پر قالین بچھا دیا۔ دانیال نے کہا کاش حکیم ہمیں وہ جادوئی لفظ بتا پاتا تو ابھی قالین پر اڑنے کا مزا لیتے۔ فیونا نے کہا کہ چراغ والا حکیم تو ہمیں جو مشورہ دینا چاہتا تھا وہ بھی آزادی کے جوش میں نہیں دے پایا۔ چلو، اب اس قالین پر سو جاتے ہیں۔ وہ قالین بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور اربوں ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا مجھے لگتا ہے اس کاینات میں ہمارے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندہ مخلوق ہوگی۔ فیونا نے فوراً کہا، ہاں اور اس محل میں بھی ہمارے علاوہ دوسری مخلوق موجود ہے۔ وہ دونوں یہ سن کر چونک اٹھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اس طرف دیکھنے لگے جس طرح فیونا دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا وہ کیکڑے ہیں؟‘‘ دانیال نے حیرت سے پوچھا۔
    ’’نہیں، یہ بڑے سائز کی مکڑیاں ہیں، میں نے ایک ٹی وی شو میں دیکھا تھا کہ صحرا کی یہ مکڑیاں لوگوں سے زیادہ تیز دوڑ سکتی ہیں، دیکھو کتنی بد صورت ہیں یہ۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ دانیال نے جلدی سے فیونا سے کہا کہ وہ جادوئی لفظ ادا کرے تاکہ قالین اڑے، لیکن وہ بھول گیا تھا کہ حکیم نے جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ مکڑیوں سے بات کر کے انھیں بھگایا جائے۔ فیونا بولی کہ اسے تو ویسے ہی مکڑیاں بہت بری لگتی ہیں اور تسمانیہ کے بعد اب پھر ان کا سامنا مکڑیوں سے ہو رہا ہے۔ مکڑیاں قریب آئیں تو دانیال چیخا: ’’حکیم ہماری مدد کرو، وہ جادوئی لفظ بتا دو۔‘‘
    فیونا نے آگ لگانے اور ریت کی مکڑیوں کو جلانے کے بارے میں سوچا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ صحرا کی رات پہلے ہی کافی گرم تھی، اس لیے اس نے مکڑیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عین اسی لمحے جبران نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ارے دیکھو، شوٹنگ اسٹار ۔۔۔۔ اسے شہابِ ثاقب کہتے ہیں نا دانی۔‘‘
    دانیال اور فیونا اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اچانک فیونا نے حیرت سے کہا یہ شوٹنگ اسٹار تو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ باقی دونوں بھی یہ محسوس کر کے اچھل پڑے۔ تینوں اس صورت حال سے حیران بھی اور پریشان بھی تھے۔ شہابِ ثاقب کے ان پر گرنے کا مطلب تھا کہ ان کا خاتمہ۔
    شوٹنگ اسٹار تیزی سے ان کی طرف آیا، وہ مکڑیوں کے ڈر سے قالین سے اٹھ کر بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور پھر وہی ہوا، ٹوٹا ستارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آ کر قالین پر دھم سے گرا، اور انھیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ تینوں ششدر رہ گئے۔ فیونا بولی کہ اس نے پہلے کبھی قالین پر گرتے ستارے کے بارے میں نہیں سنا۔ ستارہ اتنا روشن تھا کہ اس نے پورے محل کو روشن کر دیا، اور انھیں ہر جگہ موجود مکڑیاں اچھے سے نظر آنے لگیں۔ جبران نے ڈرتے ڈرتے ستارے کو پاؤں سے ٹھوکر لگائی اور وہ تھوڑا سا ہلا۔ پھر اس نے ہمت کی اور ہاتھ اس کے قریب لے گیا، لیکن اسے کوئی گرمی محسوس نہیں ہوئی۔ ’’یہ تو عجیب ہے، نہ یہ گرم ہے نہ اس میں آگ ہے۔‘‘ جبران نے فٹ بال کے سائز کے ستارے کو ہاتھ میں اٹھا کر گھما پھرا کر دیکھا۔
    اچانک وہ چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ستارے کے بالکل درمیان میں حکم کا چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ فیونا چلا کر بولی ’’حکیم ہم مصیبت میں ہیں، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ حکیم اسے دیکھ کر بولا ارے تمھارے کپڑے اتنے گندے کیوں ہیں۔ جبران نے جلدی سے اسے انار کے بارے میں بتایا اور کہا کہ جو باتیں وہ بتانا بھول گیا ہے، جلدی سے بتا دے۔
    حکیم نے کہا ہاں سوری، میں بھول گیا تھا۔ تم نے قالین پر بیٹھ کر صرف اتنا کہنا ہے ’’اڑ اڑ جا اڑ‘‘ اور یہ اڑنے لگے گا، اور ہاں ایک مشورہ بھی دینا چاہ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’زمین پر مت سونا، یہاں ریت کی مکڑیاں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر ستارہ آسمان کی طرف اڑ گیا۔
    چاند کی روشنی میں انھیں مکڑی کی پیلی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، تینوں جلدی سے قالین پر ٹھیک سے بیٹھے اور فیونا نے کہا اڑ اڑ جا اڑ۔ ادھر قالین فضا میں بلند ہوا اور ادھر مکڑیاں پاگلوں کی طرف ان کی طرف دوڑ پڑیں، کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ شکار ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔ لیکن دیر ہو چکی تھی، قالین اب فضا میں بلند ہو چکا تھا۔ تینوں گھبرا رہے تھے اور انھوں نے قالین کے کنارے مضبوطی سے پکڑ رکھے تھے کہ کہیں نیچے نہ گر جائیں۔
    (جاری ہے…)
  • دو سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    اگلے دن فیونا کو اسکول سے چھٹی کرنی پڑی کیوں کہ جب وہ جاگی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے ممی کو جگایا، وہ بھی کام پر نہیں جا سکی تھیں۔ اس وقت جمی اور جونی بھی جاگ گئے تھے۔ انھوں نے نہا دھو کر، تازہ دم ہو کر کھانا کھایا اور پھر انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے ان سے کہا کہ اب پہلے وہ اپنے کام کی جگہ پر جائیں گی تاکہ نہ آنے کی وجہ بتا سکیں اور پھر فیونا کے اسکول جا کر کوئی بہانہ کریں گی، اور واپسی پر کھانے کی چیزیں لے کر آئیں گی۔ یہ کہہ کر وہ بغیر کچھ سنے پھر نکل کر چلی گئیں۔
    ذرا ہی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی، انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے دوست دانیال اور جبران آ گئے ہیں۔ وہ دونوں فیونا کے پاس بیٹھ کر گزشتہ رات کی کہانی سننا چاہ رہے تھے لیکن فیونا نے کہا کہ ابھی سب سے پہلے انھیں اگلے مقام کے لیے نکلنا ہے، کیوں کہ اگلا قیمتی پتھر ان کا منتظر ہے۔ فیونا نے کہا کہ پتا نہیں وہ کیسی جگہ ہوگی، گرم یا سرد، بہرحال ان ہی کپڑوں میں جانا ہوگا۔ فیونا کو ابھی بھی نیند آ رہی تھی، اس نے کہا امید ہے کہ وہاں اچھی نیند کا موقع ملے گا۔
    انکل اینگس نے فیونا کو مزید کچھ رقم دی، اور کہا کہ اپنی جادوئی طاقتوں کا استعمال بھولنا مت، اس کی ضرورت پڑے گی۔ فیونا نے مسکرا کر کہا، ضرور، بس اب ہم جاتے ہیں اور چند منٹوں میں واپس آ جائیں گے۔
    وہ تینوں کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ فیونا منتر پڑھنے لگی۔ کمرہ ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا، اور بہت سارے رنگ ان کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ جب وہ رک گئے تو انھوں نے خود کو ریت ایک ٹیلے پر کھڑے پایا۔ پاس کھڑے ایک اونٹ نے جھک کر فیونا کا ہاتھ چاٹا، فیونا ایک دم بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’شاید میں جانتی ہوں کہ ہم کہاں آ گئے ہیں ….. اردن ہے یہ!‘‘
    جبران نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا، ہر طرف ریتے کے ٹیلوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا، سورج سر پر کھڑا آگ برسا رہا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کیا ہم واقعی اردن میں ہیں؟ ہم منگولیا میں بھی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہاں اتنی گرمی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ لمبے سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی کی طرف مبذول کرائی جو ایک چٹان سے ٹیک لگا کر سو رہا تھا۔ اس کے سر پر سرخ اور سفید چیک والا اسکارف کوفیہ بندھا ہوا تھا۔
    فیونا نے ان سے کہا ’’یہ اونٹ ضرور اس شخص کے ہیں، اگرچہ قیمتی پتھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن مجھے اس مقام کے متعلق زیادہ درست اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے، یہاں سرخ ریت اور سرخ چٹانیں ہی دکھائی دے رہی ہیں، اور گرمی بہت زیادہ ہے، سورج بھی غروب ہونے والا ہے، ہمیں اونٹ لے کر کوئی گاؤں یا قصبہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
    انھوں نے دیکھا کہ اونٹ ریت پر بیٹھ گئے تھے جب کہ ان کا مالک بے سدھ سو رہا تھا، ایک چاقو اس کے کمر سے بندھی رسی میں اڑسا ہوا تھا۔ فیونا نے کوئی آواز کیے بغیر ایک اونٹ کے پاس جا کر اس کی رسی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی۔ رسی اتنی گرم تھی کہ فیونا کا ہاتھ جل گیا اور رسی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ اونٹ سر ہلایا اور اٹھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ فیونا نے ایک اور اونٹ کے پاس جا کر اس کے کان میں کہا، اٹھو اونٹ ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ دانیال نے سرگوشی کی ’’کہیں وہ بدو جاگ نہ جائے، دیکھو اس کے پاس ہتھیار بھی ہے۔‘‘
    فیونا کا ہاتھ جل گیا تھا اور اونٹ اٹھ نہیں رہے تھے، اسے غصہ آ گیا اور ان دونوں سے مدد کے لیے کہا۔ جبران نے مسکرا کر کہا ’’فیونا تم ہمیشہ اپنا جادو بھول جاتی ہو، تم جانوروں سے باتیں کر سکتی ہو، تو اونٹ سے ان کی زبان میں بات کرو۔‘‘
    فیونا مسکرائی اور اپنا جادو استعمال کرنے لگی، فیونا نے ایک اونٹ سے کہا ’’تم کتنے پیارے جانور ہو، کیا تم اپنے دانت اچھے سے برش نہیں کر سکتے، خیر ہمیں قریبی شہر تک جانے کے لیے سواری کی ضرورت ہے، اگر تم میں سے کوئی ہمیں لے جائے گا تو ہم تمھیں واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور ہم تمھیں چوری کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
    ایک اونٹ بولنے لگا ’’میرا نام سلوم ہے، میں تم لوگوں کو سواری دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ تم مجھے کچھ کھجور کھلاؤ۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی اور بولی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اونٹ کھجور بھی کھاتے ہیں۔ اونٹ نے کہا کہ وہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔ فیونا نے اس کے ساتھ سودا کر لیا۔ وہ تینوں اس پر بیٹھنے لگے تو اونٹ نے فیونا سے کہا ’’پیٹھ پر پڑا کمبل خراب مت کرنا، مجھے اس سے بہت لگاؤ ہو گیا ہے، یہ میرے آقا احمد نے پچھلے سال پنی بیویوں میں سے ایک سے میرے لیے بنوایا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت خوب صورت ہے۔‘‘
    وہ تینوں بڑی مشکل سے اونٹ پر بیٹھے اور خود کو سنبھالا۔ اونٹ نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں اردن کے قدیم شہر مادبا لے کر جا رہا ہے، کیوں کہ وہی ایک قریب ترین شہر ہے۔ اونٹ نے فیونا سے یہ بھی کہا کہ تین بچے اس وقت صحرا میں کیا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کا یہاں ہونا بہت خطرناک ہے۔ فیونا نے اسے بتایا کہ وہ جواہر کی تلاش میں ہیں۔ اونٹ نے حیران ہو کر کہا کہ یہاں جواہرات نہیں ہیں، ہاں صحرائی ہیروں کی بات الگ ہے۔ صحرائی ہیروں کی بات سن کر وہ تینوں پرجوش ہو گئے لیکن اونٹ نے بتایا کہ زیادہ خوش نہ ہوں، وہ قیمتی تو ہیں لیکن اصلی ہیرے نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے بلور کے ٹکڑے ہیں، اور اصلی ہیرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چلتے ہوئے دائیں بائیں بلور تلاش کرتے ہوئے جا رہے تھے لیکن ایک گھنٹا ہو گیا اور اونٹ چلتا ہی رہا۔ وہ اونٹ کے سفر سے بہت تھک گئے تھے کیوں کہ گرمی بھی بہت تھی۔ دانیال نے کہا کیا کہیں رک کر آرام نہیں کیا جا سکتا۔ فیونا نے کہا اچھا خیال ہے، یہاں تو شام ہونے کے بعد بھی سورج چمک رہا ہے۔ اس نے اونٹ سے کہیں رکنے کے لیے کہا تو اونٹ ایک جگہ رک کر بیٹھ گیا۔
    وہ تینوں دوڑتے ہوئے ایک پتھر کے سائے میں پہنچ گئے، تینوں پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ جبران نے کہا ’’ہم شاید کسی بڑے صحرا میں ہیں، ابھی تک کسی شہر کا کوئی نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیا۔‘‘ فیونا نے کہا کہ قیمتی پتھر یہیں اسی علاقے میں کہیں ہے۔ وہ چٹان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں بھی پاس ہی بیٹھ گئے۔
    (جاری ہے)
  • رفاقت حیات کا ناول رولاک – بیانیے کا قضیہ

    رفاقت حیات کا ناول رولاک – بیانیے کا قضیہ

    خالق داد امید

    تمہید: ہیئت اور مافیہا


    عموماً جب کسی افسانے یا ناول میں راوی بہ طور غائب متکلم (تھرڈ پرسن نریٹر) اپنے کرداروں کے متعلق لکھتا ہے کہ کردار اول نے ’’یہ کہا۰۰۰ ‘‘ ، ’’کردار دوم چل کر کردار اول تک آیا۰۰۰ دونوں کردار ایک دوسرے کو گھورنے لگے۰۰۰‘‘ تو ہم منظر میں راوی کی موجودگی کو ہمیشہ قبول کرتے ہیں۔ پس منظر اور تناظر کے کسی اختصاص کے بغیر کہ کون کہاں سے بول رہا ہے اور یہ بیان کیسے ممکن ہے، مگر جب راوی کہتا ہے کہ کردار دوم نے اپنی کن پٹی کے اوپر کے سفید بالوں میں انگلیاں پھیریں اور سوچا کہ ’’مجھے اس کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے۔‘‘ تو ہمیں دھچکا لگتا ہے کہ راوی کی منظر میں سماعت اور بصارت کی ہر حد تک موجودگی برحق، مگر کردار کے ذہن میں داخل ہو کر اس کی سوچ کو بیان کرنا کس قدر ممکن اور درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کسی کردار کی سوچ کو عمل سے قبل یا عمل کے بغیر بیان یا ظاہر کرنے کی ضرورت کا کیا کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیان کا صیغہ واحد متکلم (فرسٹ پرسن نریشن) رکھا جائے اور کردار کے منہ سے اس کی ذہنی حالت بیان کی جائے۔ چناں چہ روﻻک کے بیانیے کے لیے فرسٹ پرسن نریشن کی تکنیک کے انتخاب کا رفاقت حیات کا فیصلہ اس لیے احسن سجھتا ہوں کہ مرکزی کردار قادر بخش کی بیتی دراصل اس کے وجود سے بڑھ کر اس کے ذہن پر بیتی ہے۔

    بیانیہ تکنیک کے انتخاب کے اس درست فیصلے نے ناول میں موجود بہت سی خوبیوں کو سہارا دیا ہے، کچھ خوبیاں پیدا کی ہیں اور بہت سی ممکنہ خامیوں کا راستہ روکا ہے۔ گو کہ اس فیصلے کی وجہ سے کچھ کمیاں اور کمزوریاں بھی ناول کا حصہ بنی ہیں؛ جیسا کہ خواتین کرداروں کا کہانی میں ان کی لازمی اور اہم ترین موجودگی کے باوجود بھرپور طور پر نہ ابھر سکنا (یہ خواتین کردار نہ صرف اس ناول کے مرکزی خیال دو رولاک باپ بیٹے کی نفسیاتی اور وجودی کشمکش کی ضرورت تھی، بلکہ بہ ظاہر خواتین کرداروں کی بے جا کثرت بہ غور دیکھنے سے اس کہانی کی پیداوار اور پلاٹ کا ﻻزمہ نظر آتی ہے)۔ مگر یہ وہ کمی ہے جو کوئی بھی طریقہ کار اپناتے ہوئے در آ سکتی ہے، کیوں کہ محض طریقہ کار بدلنے سے کمیاں بھی دوسری شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں، یعنی یہ کمیاں جس بھی طریقہ کار میں ظاہر ہوں، یہ اُسی طریقہ کار کی محدودیت پر دلیل بن جاتی ہیں۔ سو اس واحد متکلم بیانیے کی تکنیک کے انتخاب سے مکمل اتفاق اور اس انتخاب کی وجہ سے در آنے والی مخصوص محدودیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں صرف مصنف کے اس بیانیہ تکنیک کے استعمال کے طریقے اور غیر مناسب وسعتِ استعمال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں اور اس میں موجود ان خامیوں کو سمجھنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے میرے خیال میں اس ناول کے متن کو بے تحاشا نقصان پہنچا۔

    رولاک کے مصنف رفاقت حیات

    ناول لکھنا بے شک ’ﻻمحدود کا انتخاب‘ اور ’آزادی‘ ہے۔ اگر کسی کو اس سلسلے میں مجھ سے اتفاق ہے اور اس اتفاق کی وجہ میرا مندرجہ باﻻ جملہ ہے تو میں اس جملے کے پیراڈاکس سے بات آگے بڑھاؤں گا۔ یاد رہے اس جملے کی صحت سے مجھے اتفاق ہے اور میں مصنف کی ’لامحدود انتخاب کی آزادی‘ کا قائل ہوں۔ مگر اس جملے کے دو اہم الفاظ ’ﻻمحدود‘ اور ’آزادی‘ جس معنوی نتیجے پر لے جاتے ہیں، تیسرا اہم لفظ ’انتخاب‘ اس لامحدود کو کسی نہ کسی منتخب حد میں محدود، اور آزاد کو کسی نہ کسی صورت میں پابند کر کے ایک پیراڈاکس تشکیل دیتا ہے – کہ یہ ﻻمحدود سے مصنف کا منتخب استفادہ ہے جو کہ بہر حال محدود ہے۔ یوں، مصنف جب اپنی ﻻمحدود آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادیوں کا انتخاب کرتا ہے جیسا کہ مرکزی خیال، کہانی، کردار، زمان و مکان (عصر اور لوکیل)، بیانیہ اور تناظر وغیرہ، تو یہ لامحدود ایک منتخب پلاٹ تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس حد کا انتخاب مصنف کی استطاعت، صوابدید بلکہ ضرورت کے سبب ہوتا ہے نہ کہ قاری، ناول کی صنف یا انتقاد کے کسی مدرسہ فکر (اسکول آف تھاٹ) کے سبب۔ یوں مصنف کا یہ انتخاب اس کی آزادی پر حد لگا کر قاری کو آزادی دیتا ہے کہ وہ مصنف کے انتخاب پر سوال اٹھائے۔ مصنف کے منتخب کردہ مافیہا (content) ’’کیا‘‘ جو کہ اس کے تخیل کی پیداوار – مرکزی خیال، کہانی _ ہے اور مصنف کے مخصوص تکنیک کے ذریعے پیدا کردہ ہیئت (form) کے ’’کیسے‘‘ اس تخیل، کہانی، مافیہا کو بیان کیا جا رہا ہے، پر سوالات اٹھانا ہی تنقیدی عمل کے تاریخی تسلسل میں ان گنت تغیرات کے درمیان مرکزی، مستقل، مستند اور آزمودہ (tested) طریقہ کار ہے۔

    جب ہم ناول روﻻک میں مافیہا ’’کیا‘‘ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک آوارہ باپ بیٹے کی کہانی ہے جو کہ باپ کی جانب سے آپس میں ملتے جلتے چند جنسی واقعات اور بیٹے کو ان سے دور رکھنے کی کوشش پر مشتمل ہے، اور اس کے بیان کے لیے صیغہ واحد متکلم کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ اب مافیہا ’’کیا‘‘ کے حوالے سے یہ ایک حقیقت پسند content ہے، جس کے کردار، واقعات اور لوکیل وغیرہ سے حقیقت کی عکاسی ہو رہی ہے۔ مگر ایک کمزوری ضرور بہ طور سوال ابھرتی ہے کہ اس کہانی کا مافیہا ناول اور اس قدر ضخیم ناول کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ اس کا جواب ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی مدد سے دیا گیا ہے اور بھرپور دیا گیا ہے۔ یوں ایک انتہائی سیدھے سادے، واضح اور محدود حقیقت پسند مافیہا (content) کو غیر ضروری طور پر وسیع، پیچیدہ، جادوئی اور قطعی طور پر غیر حقیقت پسند ہیئت (form) میں پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مافیہا کی حقیقت پسندی کو ہیئت کی حقیقت نگاری کی جس ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی، اس کے بر خلاف ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ یوں جب یہ متن اس کے بیانیہ تکنیک کی مدد سے تشکیل دی گئی ہیئت کے اکلوتے ستون پر کھڑا ہے، تو اس کا جائزہ بھی ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی روشنی میں لیا جائے گا۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ہم یہ جائزہ لیں کیوں کہ اس متن کی حقیقت پسندی اور دیگر خوبیاں اور خامیاں، اس کی ہیئت کی جانچ ہی سے بہتر اور درست طور پر ظاہر ہو سکیں گی۔ مگر اس بیانیہ تکنیک کے سقم (ہیئت) پر گفتگو سے قبل اس طویل متن کو لے کر چند دیگر مسائل پر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

    مسئلہ اوّل: ’’ﻻلی‘‘


    صفحہ 101 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی کو ہماری گلی کا رخ کیے دو سے زاٸد ہفتے گزر چکے تھے۔‘‘
    صفحہ 102 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی سے پہلی ملاقات کے بعد بابا پر اگلی تین شامیں بہت بھاری گزری تھیں۔۔۔‘‘
    صفحہ 103 پر راوی کہتا ہے کہ ’’چوتھے روز دوپہر کے کھانے کے بعد بابا قیلولہ کرنے کے بجائے گھر سے نکل گئے۔‘‘
    صفحہ 104 پر راوی چوتھے روز کی اگلی صبح، دوپہر سے قبل ’’ﻻلی کے دروازے پر دستک‘‘ کی بات کرتا ہے۔ یعنی ﻻلی دو ہفتے سے زائد گلی کا رخ بھی نہیں کرتی اور پانچویں دن کھل کر کھیلنے کے لیے قادر بخش کی گلی بلکہ گھر کے کمرے میں موجود بھی ہے۔ اکثر قارئین اس غلطی کو نظر انداز کرنے میں تحمل نہیں کریں گے، اور میں بھی فکشن میں وقت کے حوالے سے اس طرح کی غلطیوں کی کثرت سے موجودگی کو قبول (Admit) کرتا ہوں۔ مگر جہاں تک رولاک کی بات ہے تو اس متن کو جتنے ماہرین نے دیکھا، اس کے بعد اس طرح کی غلطی کو بدقسمتی سمجھتا ہوں اور خوف زدہ ہوں کہ یہ غلطی تینوں اشاعتوں (امریکا، ہندوستان اور پاکستان) میں آ گئی ہوگی۔

    مسئلہ دوم: بے چینی، عدم اطمینان اور نیند


    صفحہ 178 پر ایک دن کی طویل تفصیل میں راوی اس روز اپنی بے چینی بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہو سکنے، خود کو اطمینان دﻻنے کی کوشش میں ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد صفحہ 179 پر اُسی روز ’’ایسا خوش گوار دن میری زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا‘‘ کو بیانیہ کا حصہ بنا کر چونکاتا ہے۔ پھر اسی سطر میں ’’جس کا آغاز اس قدر سہانا ہوا۰۰۰ دوپہر تک خوار پھرنا اب میرا مقدر تھا‘‘، کا بیان دے کر قاری کو یہ معنی لینے اور بیانیے سے ہم آہنگ رہنے کی راہ سجھاتا ہے کہ صبح بے شک خوش گوار تھی مگر پھر دن بھر بے چینی اور بے اطمینانی رہی۔ مگر اسی دن اسکول سے واپسی کے وقت گھر پہنچ کر گرم کھانا کھاتے ہی ’’جماہیوں سے میرا منہ پھٹنے لگا اور اپنی چارپائی پر گہری نیند سو گیا۔ اس دن کی آوارگی اور تعاقب نے اتنا مزا دیا کہ میں شام ڈھلنے تک خوابوں میں کھویا رہا۔ اس دوران اماں نے بار بار مجھے جگانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ مغرب کے تھوڑی دیر بعد جب بابا واپس گھر آئے تو انھوں نے مجھے جگایا۔‘‘ کا بیان پڑھ کر قاری حیران رہ جاتا ہے کہ بے چینی اور عدم اطمینان کہاں گیا۔ 669 صفحات کے طویل متن میں کئی بار سونے جاگنے کا ذکر ہے لیکن کسی کردار کی اس قدر گہری (دن کے وقت) نیند کا ذکر اس قدر تفصیل اور شدت سے ایک بار ہی کیا گیا، اور اس کردار کی اس گہری نیند کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جو کہ اس کے لیے بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہونے والی بے چینی اور عدم اطمینان کا دن تھا۔

    مسئلہ سوم: تجسس کا قتل


    اس ناول کے بیانیہ تکنیک کو صیغہ واحد متکلم کے درست ٹریک پر ڈالنے اور قارٸین کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کے لیے راوی کی طرف سے پہلے دو صفحات (جو کہ اس ماجرے کا پہلا اور آخری منظر ہے) میں ہی مرکزی کردار قادر بخش کے کہانی کے آخری لمحے تک زندہ رہنے کی نوید، بعد میں باپ بیٹے کی رقابت میں شدت اور قتل کے المیے سے قبل، قادر بخش کی جانب سے باپ کا پیچھا کرنے کے دوران کے تجسس کو بالکل کم کر دیتا ہے۔ سنسنی کے ان لمحات میں مصنف کا زورِ قلم قاری کو معلوم نتیجے (کہ باپ قتل ہوگا یا کم از کم قادر بخش کو کچھ نہیں ہوگا) کے مقابل بہت کمزور محسوس ہوتا ہے۔ اور میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ قادر بخش کے زندہ رہنے کے مکمل یقین نے میرے تجسس کو بہت نقصان پہنچایا اور ناول کو بھی تجسس، سنسنی کے حوالے سے بہرحال فرق پڑا۔ میں پھر واضح کر دوں کہ اس بیانیہ تکنیک کے طریقہ استعمال کی کمزوریاں اور خامیاں سمجھنا میرا مقصود ہے اور میں تجسس اور سنسنی کی اس کمی کو خامی نہ سہی ایک کمزوری ضرور سمجھتا ہوں۔ اب یہ اس تکنیک کی لازمی محدودیت ہے جو کہ مصنف کے آڑے آئی ہے یا اس بیانیہ تکنیک کے مصنف کے طریقہ استعمال میں خامی ہے، اس مشکل سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں؛ کہ میں تو کسی بھی طرح مذکورہ تجسس کی موجودگی کا متمنی ہوں اور اس کی غیر موجودگی سے ناول کی صحت کو پہنچنے والے نقصان پر رنجیدہ ہوں۔

    مسئلہ چہارم: حقیقت پسندی


    جس حقیقت پسند روش کا ذکر رولاک کی اشاعت سے قبل اور بعد از اشاعت کثرت سے مذکور ہے اور جس کی اس ناول میں موجودگی اور معیاری موجودگی کو محترم محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے ’’جدت کے نام پر قلابازیوں‘‘ کے مقابل ’’حقیقت پسندی کے بڑے دم خم‘‘ کے ثبوت کی صورت دریافت کیا ہے، اس سے میں ایک سطح پر اتفاق کرتا ہوں کہ کہانی کے مرکزی خیال، کرداوں، واقعات یعنی مافیہا (content) میں اس کا اہتمام ہے۔ مگر بیانیے (ہیئت/فارم) میں ناول کے لوکیل کی پوری منظر کشی ہو، جزئیات نگاری ہو، قادر بخش کی نفسیاتی حالت کا بیان ہو، اس کا فیمنسٹ اور طبقاتی شعور ہو، ہر جگہ اور کثرت سے غیر حقیقت پسند، فلسفیانہ خیال طرازی ہے۔ بلکہ کہیں کہیں اعلیٰ درجے کا شاعرانہ تخیل متحرک ہے اور اس بیانیے کا بنیادی محرک ہے۔ یعنی یہ بیانیہ (ہیئت) اس کہانی، سچویشنز، قادر بخش کے تجربات و احساسات، نفسیاتی حالت، علم، شخصیت اور دانش کا لازمہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ غالب طور پر مصنف کے علم، نقط نظر، افکار، نظریاتی وابستگی اور کہیں کہیں شاعری کے شوق کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ پانچ سالہ بچے کا علم یا تئیس سالہ قیدی کی یادداشت کا قضیہ بھی اس ناول کے حقیقت پسند امیج (دعویٰ) پر بڑا سوال ہے۔

    حقیقت پسندی سے ایک سطح اور غالب سطح (بیانیہ/ہیئت) پر اس متن کی دوری یا تضاد پر میری فکر مندی (concern)، حقیقت پسندی سے میرے کسی نظریاتی اتفاق یا اختلاف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں میری رائے ہے کہ کیا فکشن کو ’’فکشناٸز‘‘ کیے بغیر کوئی چارہ ہے؟ یا فکشن کو جدت (ارتقا کے تقاضے) کے ’عفریت‘ سے محفوظ رکھنا ممکن ہے؟ اسی طرح حقیقت سے جڑت کی ایک گہری سطح کے بغیر فکشن ممکن ہے یا کم از کم اسے دوام ہے؟ تو صرف حقیقت پسندی اور صرف جدت پر زور کیسا؟ بہرحال میں بیانیے کے مصنف کے طرز یا اسلوب میں جو سقم دیکھ رہا ہوں اور اس کے برے اثرات پورے متن پر محسوس کر رہا ہوں، وہی حقیقت پسندی سے انحراف کا باعث بھی بن رہا ہے۔

    میرا اس متن کو حقیقت پسندی سے انحراف کہنا شاید کچھ پڑھنے والوں کو نامناسب لگے اور انھیں اس متن کے چند اجزا میں حقیقت پسندی نظر آئے، تو ان کے لیے عرض ہے کہ مصنف جو کانٹینٹ لے کر آئے ہیں اس سے حقیقت پسندی جھلکتی ہے مگر اس کانٹینٹ کو جس ہیئت میں پیش کیا گیا ہے، جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ طریقہ حقیقت نگاری سے کوئی لگا نہیں کھاتا۔ کسی حقیقت پسند کانٹینٹ کو حقیقت نگاری کے ذریعے پیش کرنے میں مصنف پابند ہوتا ہے کہ مثالیت پسندی، رومانیت، عینیت، موضوعیت اور تعصب سے پرہیز کرے، خیالی باتوں سے گریز کرے اور ذاتی رائے کی آمیزش سے بچتے ہوئے خارجی حقائق کو معروضی صحت کے ساتھ بیان کرے۔ اب رولاک کے بیانیے کا گہرا تجزیہ کریں یا اچٹتی سی نظر ڈالیں، بہر صورت واضح ہوتا ہے کہ مصنف کے تعصب اور مداخلت نے کہانی کے خارجی حقائق کی معروضیت کو موضوعیت، مثالیت اور تصوراتی شاعرانہ لفاظیت کے طویل، غیر حقیقت پسند رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اور راوی قادر بخش اپنی ’’سمجھ بوجھ‘‘، فیمنسٹ، طبقاتی اور نفسیاتی علم اور فلسفیانہ تفکر پر حیران بیٹھا، راوی کی ذمہ داری مکمل طور پر مصنف پر چھوڑ چکا ہے۔ قادر بخش کی بہ طور راوی بس اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ مصنف کے بیان کردہ انتہائی باریک تفاصیل خصوصاً منظر نگاری کی جزئیات کی پانچ سال کی عمر سے شروع ہو کر تئیس سال کی عمر تک اپنے ذہن میں جادوئی صحت کے ساتھ موجودگی کو قبول کرے۔ باقی فیمنزم اور طبقاتی فلسفہ، انسانی نفسیات کا علم اور مشکل جذباتی حالات میں غیر حقیقی حد تک معروضیت کے لیے میں بہ طور قاری، راوی قادر بخش کو ذمہ دار نہیں سمجھتا، کہ یہ تمام اختیارات مصنف نے بہ طور واحد متکلم راوی کو دان ہی نہیں کیے۔ یہی راوی کے اختیارات سے مصنف کا استفادہ اس متن کا جادو، غیر حقیقت پسندی اور بڑی خامی ہے۔ مگر اس خامی کا بھی ایک منبع ہے۔ آئیے دونوں پر نظر ڈالیں۔

    بیانیہ کا سقم


    اوپر جن چار کمزوریوں کا بہ طور مسال ذکر کیا گیا ہے اور کچھ کی نشان دہی میں یہاں کرنا چاہتا ہوں؛ سب کی جڑیں اس بیانیہ تکنیک کے غلط اور بے جا استعمال میں پیوست ہیں۔ مگر پہلے اس بیانیے کی مرکزی خامی پر نگاہ کرتے ہیں جس کا میں نے اب تک براہ راست ذکر نہیں کیا ہے، اور جو بہ طور معلول پورے متن میں پھیلی ہوئی ہے۔ راوی جیل سے بائیس تئیس سال کی عمر میں یادداشت کی مدد سے ماضی میں پانچ سال کی عمر سے اپنا ماجرا اور اس پر تبصرہ شروع کرتا ہے اور ناول کی تکنیک چھوڑ کر بالکل فلم کی تکنیک میں، ماضی کو حال بنا کر مکمل تفصیل اور جزئیات کے ساتھ واقعات، مناظر دکھاتا اور ان پر تبصرہ کرتا ہے۔ فلم میں چوں کہ اس کی ویژول میڈیم تکنیک (بصری سہولتی طریقہ کار) کی وجہ سے ماضی کی کہانی سنانے کا یہی ممکنہ طریقہ ہے (اس طریقہ کار کی اپنی کمزوریاں اور محدودات ہیں جیسا کہ رولاک یعنی ناول کی طرح طویل بیانیہ اور صورت حال پر تبصرہ ممکن نہیں رہتا) مگر ناول کی تحریری تکنیک میں ایسا کرنے کے لیے راوی کو ﻻمحالہ ماضی میں جانا پڑتا ہے۔ اور جب اس غیر حقیقت پسندانہ بیانی طریقہ کار کے تحت راوی منظر میں تئیس سال کی عمر میں پانچ سالہ کردار کے کندھوں پر سوار ہو جاتا ہے تو یہ دکھانا اور تفصیل سے دکھانا آسان ہو جاتا ہے کہ کسی عام سی گلی کی غیر ضروری (کہانی کے لحاظ سے) بیکری نما دکان کا دروازہ کھلا ہے اور اس کے ساتھ والی دکان کا بند، شاہ کمال کے مزار سے نکلتی سڑک پر کون کون سی گدھا گاڑیاں، سوزوکیاں اور چکڑے سبزی منڈی کے آس پاس کھڑے ہیں اور کون سے ادھر ادھر رواں دواں، زمین پر کتے، بلیاں اور چوہے جب کہ آسمان پر چیلیں اور کوے منڈلا رہے ہیں، ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں ہرے رنگ کی چادر کے اوپر دو رجسٹر، ایک گلوب اور بازو جتنا، گول گول پیلے رنگ کا بید موجود ہے۔ اور منظر میں تئیس سال کی عمر میں موجودگی سے تبصرہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں راوی تئیس سال کی عمر میں جیل سے یادداشت کے بل بوتے پر یہ سب تفصیلات بیان کر رہا ہے اور ہیڈ ماسٹر کے کمرے اور گھر سے اسکول تک کے راستے میں پانچ سالہ قادر بخش کے ساتھ تئیس سالہ قادر بخش کی بہ طور راوی موجودگی میرے تخیل کی خُرافت ہے، تو میں اس یادداشت کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور اس بیانیے کو سائنس فکش بیانیہ کہوں گا۔

    واضح رہے مصنف بہ ظاہر جیل سے راوی کی یادداشت کے سہارے ہمیں کہانی میں شریک کر رہا ہے مگر اس یاد کرنے کے عمل میں راوی بہ نفس نفیس ماضی کے منظر میں ٹائم مشین کے ذریعے پہنچ کر تئیس سال کی عمر میں ہم سے کہانی بیان کر رہا ہے اور اس پر اپنا میچور تبصرہ فرما رہا ہے۔ تکنیک بالکل فلم والی ہے یوں یہ سب کچھ قطعی غیر حقیقی، جادوئی اور نامناسب ہے۔

    اگر بیانیے کا سقم اتنا ہی ہے تو اس تکنیک کو غیر حقیقت پسندانہ تو کہا جاسکتا ہے مگر یہ ان سب خامیوں کا باعث نہیں ہو سکتا جو کہ اس ناول میں موجود ہیں۔ اور کچھ کی طرف میں اشارے کر چکا ہوں۔ تو عرض ہے کہ یہ بیانیے کا سقم اور دیگر مسائل معلول (Effects) ہیں، علت (Cause) دراصل ایک طویل افسانے یا ’’میرواہ کی راتیں‘‘ (مصنف کا پچھلا ناولٹ) جتنے ماجرے کی استطاعت والے مافیہا (content) پر بیانیہ تکنیک کے ہیئتی زور سے ایک ضخیم ناول کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ رولاک ایک کردار کی کُل زندگی کا ماجرا ہے اور یہ کہانی اپنے مرکزی خیال میں ناول بننے کی متقاضی ہے تو میں اتفاق کرتا ہوں اور ساتھ ہی عرض رکھتا ہوں کہ ناول کے باب میں ناولٹ کے مختصر ترین متون سے ضخیم ترین ناولوں کی موجودگی اور طوالت کے حوالے سے فرق (Variation) اس بات پر (بلکہ اکثر ایک ہی مصنف کی جانب سے کبھی مختصر اور کبھی طویل ناول کی پیش کش) دلالت ہے کہ ہر کہانی، ماجرے کا باطن (چاہے یہ کہانی، ماجرا ناول لکھنے کے لیے کتنا ہی موزوں کیوں نہ ہو) واقعات، کرداروں کی تعداد، مصنف کے نقطہ نظر اور راوی کے تبصرے کی ایک خاص مقدار ہی کو سہار سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس متن میں غیر ضروری کردار اور غیر ضروری واقعات ڈالے گئے ہیں، ایسا بالکل نہیں کیا گیا ہے۔ مگر بیانیہ میں، مصنف کے نقطہ نظر کی پیش کش کی خاطر راوی مضمون بندی کی جتنی اور جیسی جادوگری کیے چلا جا رہا ہے کہانی، مافیہا اسے سہار نہیں پا رہا ہے۔ یہی بات ایک اور طرح سے عرض کرتا ہوں۔

    کسی بھی کہانی کے مافیہا (content) کا ایک بنیادی کام معنی خیزی ہے، جب کہ ہیئت (Form) کا ایک بنیادی کام مضمون بندی ہے۔ یوں تخیل اور تکنیک، مافیہا اور ہیئت، معنی اور مضمون، کسی بھی اچھے خیال کی اچھی پیش کش کے لیے باہم ایک خاص توازن کا تقاضا کرتے ہیں۔ کوئی بھی مافیہا معنی خیزی کی ایک خاص گنجائش رکھتا ہے اور یہ گنجائش مصنف کو اس کی تکنیک کی مدد سے خود (معنی خیزی کی گنجائش) میں ایک محدود اور مناسب رد و بدل کی ہی اجازت دیتا ہے اور بدلے میں نقطہ نظر و تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کو اس حدِ معنی خیزی سے ہم آہنگ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یوں مصنف کے تخیل (مافیہا/معنی) اور تکنیک (ہیئت/مضمون) کے درمیاں ایک توازن تشکیل پاتا ہے۔ اب اگر اس توازن کا خیال نہ رکھا جاٸے اور ایک مخصوص مافیہا کے محدود معنی پر مصنف یا راوی کے نقطہ نظر، تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کا ﻻمحدود یا معنی سے کئی گنا بوجھ ڈال دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہی کچھ روﻻک کے ساتھ ہوا ہے۔

    طوالتِ متن کی پتا نہیں کس ضرورت یا خواہش کے تحت مصنف یا راوی کے نقطہ نظر کو بیانیے میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سے متن میں کمزوریوں کے علاوہ غلطیاں بھی در آئی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کی گئی ’’ﻻلی‘‘ کے دو ہفتے کی غلطی، حقیقت پسند نہ رہتے ہوئے شاعرانہ تخیل کے بھرپور تحریک کی غلطی، بے چینی اور عدم اطمینان سے بھرپور دن میں لمبی، گہری اور بھرپور نیند کی غلطی وغیرہ۔

    اس طوالتِ متن کی خواہش کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔ صفحہ 467 پر فٹبال کے ذکر میں، راوی ہوٹل میں بیٹھے ہوئے مکرانی نوجوانوں کی طرف سے ارجنٹینا اور برازیل کو فیورٹ قرار دینے کے ساتھ ’’اس بار میراڈونا ارجنٹینا کو چیمپئن بنوا دے گا‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح کسی واقعے کا ذکر مرکزی ماجرے کے زمانے کو ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ ہے مگر یہاں چار مرتبہ ورلڈ کپ فائنلز کھیلنے واﻻ میراڈونا دو دفعہ 1986 اور 1990 میں اس حالت میں تھا کہ اپنے ملک کو چیمپئن بنوا سکے۔ اور دونوں دفعہ فائنلز کا فائنل کھیل کر ایک دفعہ چیمپئن بناتا بھی ہے۔ اب مندرجہ باﻻ جملے میں چیمپئن سے قبل، اس دفعہ بھی یا ایک دفعہ پھر کے الفاظ بڑھا کر گفتگو کے زمانے کو 1990 یا 1994 (میراڈونا کی آخری ورلڈ کپ فائنلز کی شرکت) تک بہ آسانی ﻻیا جاسکتا تھا۔ ایسا نہ کرنے سے معاملہ 1982 (میراڈونا کی پہلی ورلڈ کپ فائنلز شرکت) اور 1986 تک محدود ہو جاتا ہے۔ قادر بخش اس فٹبال کے ذکر کے وقت اپنے ماجرے کے اختتام (والد کے قتل) کے بہت قریب ہے اور والد سے اپنی آخری محبت (سومل) کے لیے برسر پیکار ہے۔ اب راوی نے جس زمانے کا تعین ہماری کہانی کو لے کر فٹ بال کے ذکر سے کر دیا ہے، اس کے مطابق قادر بخش کے پانچ سال کی عمر کا زمانہ 70 کی دہائی میں یقیناً جائے گا اور اگر راوی 1982 کے ورلڈ کپ کا ذکر کر رہا ہے تو یہ زمانہ 60 کی دہائی میں چلا جائے گا (میں قادر کے ماجرے کے آغاز کے لیے کم از کم دوسرے شہر کے ساڑھے تین سال اور اسکول کے دس سال ملا کر 14 سال پیچھے جاؤں گا)۔

    اب اگر میرا کوئی قاری دوست اس زمانے کے تعین کے حوالے سے اس متن کو جانچے گا تو مسائل دریافت ہوں گے، جیسا کہ قادر بخش کے دانش کی نمو (Intellectual Development) کا مسئلہ۔ میرے خیال میں مختلف علوم اور نظریات کی دانش ورانہ حد تک سجھ بوجھ کا جو وزن مصنف نے بہ طور راوی قادر بخش پر ﻻد دیا ہے (اور اس کے حصول کے لیے پانچ سال سے بیس سال کی عمر تک صرف آوار گردی کو بہ طور دانش کدہ اور طریقہ کار -پراسس- اختیار کیا ہے) اس بوجھ سے نبرد آزما ہونے کے لیے قادر بخش کی زیست کے زمانے کا ماضی میں دور واقع ہونا نقصان دہ (unjustified) ہے۔ اس کے علاوہ بھی متن میں وسیع پیمانے پر ایسے ثبوت (منظر نگاری میں بازاروں کی حالت کا بیان، واقعات نگاری میں تعلیم بہ طور مجموعی اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم، سلاٸی کڑائی کے مراکز، نوجوان لڑکیوں کا رکھ رکھاؤ وغیرہ) موجود ہیں جس سے اس متن کا زمانہ بیسوی صدی کی آخری دہائی یا اکیسویں صدی کے ابتداٸی سال ظاہر ہوتا ہے۔ صرف فٹبال کا غیر ضروری ذکر ہے جو اس ماجرے کی ابتدا کو پیچھے بہت پیچھے شاید سقوطِ ڈھاکا سے قبل کے دور میں دکھیلتا ہے۔

    ایک اور دل چسپ اور ناول کے لیے انتہائی نقصان دہ پہلو دیکھیے۔ اس متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) غیر ضروری طور پر اتنی وسیع، مضبوط اور طاقت ور ہے (اور ایسا بھرپور کوشش سے کیا گیا ہے) کہ مرکزی کردار اور راوی قادر بخش کو کہانی، مافیہا نہیں متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) قابو کیے ہوئے ہے، وہ بیانیہ جسے خود مافیہا اور خصوصاً راوی قادر بخش کے قابو میں ہونا چاہیے تھا۔ یوں یہ ہیئت (بیانیہ تکنیک) مصنف کے نقطہ نظر کے سوا کچھ نہیں، روای قادر بخش کی تو پورے متن میں بہ طور کردار ایسی کوئی نمو (Development) ہی نہیں ہوٸی جو اسے اس بیانیے کا بوجھ اٹھانے کے قابل کرتی۔

    بس بیانیے پر مصنف کے نقطہ نظر کا یہ واضح پُر تعصب قبضہ ناول کی خوبیوں سے لڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور میری نظر میں یہ دست درازی اور موشگافی ناول کے کلائمکس حتمی نتیجے کو بھی دو انتہاٸی اہم حوالوں سے بری طرح متاثر (Dictate) کرتی ہے۔ اوّل قادر بخش کا اپنی ماں کے لیے ہمدردی، رغبت اور محبت محسوس نہ کرنا۔ باپ کے قتل اور خود کے جیل میں ہوتے ہوئے اس کمزور عورت پر ان شدید صدموں کے اثر کے بارے میں ایک بار بھی نہ سوچنا حالاں کہ ماں کا یہ کردار تو اس ناول کے محلِ وقوع، زمانے، اور سماج کے تلخ حقائق کا بہترین ترجمان ہے۔ اور مذکورہ سماج اور زمانے کے کسی کم پڑھے لکھے بیٹے کے لیے آئیڈیل، مگر مصنف کے فیمنسٹ کمٹمنٹ کا تعصب کردار قادر سے اس کی ڈیولپمنٹ کے برخلاف رویے کا اظہار کراتا ہے جو کہ انتہائی غیر حقیقی اور نامناسب ہے۔ دوم اسی طرح بہ آسانی اور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ باپ کا اس قدر بے دردی سے قتل اور خصوصاً عضو تناسل کاٹ کر دور پھینک دینا کہانی کے منطقی تقاضے اور کردار قادر بخش کے جذبات و احساسات کی ترجمانی سے بڑھ کر ہے اور مصنف کی فیمنسٹ فکر سے گہری وابستگی کی ترجمانی ہے۔ یوں یہ، کردار بیٹے کی طرف سے اپنے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پر باپ کو سزا نہیں، مصنف کی طرف سے قادر بخش کے بابا کو خواتین سے اس کے طویل، مجموعی ہتک آمیز رویے کی سزا ہے اور اردو کے فیمنسٹ فکشن میں ایک سنگ میل۔


    (مضمون نگار خالق داد امید پشتو کے شاعر اور نقاد ہیں۔ کسی اردو ناول پر ان کا یہ پہلا باقاعدہ تنقیدی مضمون ہے)

  • ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    سب اپنے اپنے خیمے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے، فیونا اور اس کی ممی بھی اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے کہا: ’’ممی میں چند منٹوں کے لیے دوربین سے یہاں کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں، بس ابھی واپس آ جاؤں گی، ٹھیک ہے؟‘‘
    مائری نے ٹھیک ہے کہہ کر سر اثبات میں ہلایا، فیونا باہر نکل گئی اور وہ سلیپنگ بیگ پھیلانے لگییں۔ فیونا سوچ سمجھ کر باہر نکلی تھی، اس نے ڈھلوان پر پہنچ کر دوربین آنکھوں سے لگایا اور رات کی تاریکی میں جنگل، پہاڑیوں اور درختوں کے گہرے سایوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ آخر کار وہ چونک اٹھی: ’’یہ کیا ہے؟ اوہ یہ تو ایک کار ہے۔‘‘ اس نے دوربین میں غور سے دیکھا تو اسے ڈریٹن بھی کار میں پچھلی سیٹ پر سوتا نظر آ گیا۔ فیونا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور کیمپ گراؤنڈ کے آس پاس موجود ریچھوں، راکون بندروں، چوہوں اور گلہریوں کو پکارا، اور انھیں حکم دیا کہ وہ گاڑی میں موجود لڑکے کے گرد جمع ہو کر اسے ڈرائے، تاہم اسے زخمی نہ کرے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو درختوں کے درمیان تیز سرسراہٹیں سنائی دینے لگیں، مختلف جانور ڈریٹن کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دوربین میں یہ نظارہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک اسے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
    ’’آپ کیا کر رہی ہیں فیونا؟‘‘ یہ جیک تھا۔
    ’’مم … میں ستاروں کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر جھوٹ بولا۔ لیکن وہ بھول گئی تھی کہ دوربین کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ نیچے جنگل کی طرف تھا۔ جیک کی گھومتی نظروں سے ہار کر آخر اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈریٹن کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ جیک چونک اٹھا اور بولا: ’’ڈریٹن؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ فیونا نے اسے دوربین دے کر ایک طرف اشارہ کیا۔ جیک نے دیکھا کہ ایک ریچھ گاڑی پر کھڑے ہو کر اچھل کود کر رہا تھا، ایک پہاڑی شیر گاڑی کے دروازے پر حملہ آور ہو کر اپنے نوکیلے پنجے اس میں گاڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے دیکھا کئی بندر اور بڑی گلہریاں اور دیگر کئی جانوروں نے گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جیک کو بھی دیکھ کر مزا آیا اور اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں مسکراہٹ پھیلی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک انھوں نے ڈریٹن کی خوف زدہ صورت حال کا لطف لیا اور پھر خیموں میں چلے گئے، فیونا نے جیک سے کہا تھا کہ وہ اس کے بارے میں ممی کو ہرگز نہ بتائے۔
    ۔۔۔۔۔
    گاڑی میں بری طرح ہلچل کی وجہ سے ڈریٹن کی آنکھ کھل گئی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاڑی کے آس پاس ہر قسم کا جنگلی جانور موجود ہے اور گاڑی پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر جانوروں کو دور ہونے کا حکم دینے لگا لیکن کسی نے اس کا حکم نہ سنا۔ وہ غصے سے چیخ چیخ کر انھیں جانے کا کہتا رہا لیکن جانوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک اور رات بے خوابی میں گزرے گی اب۔ اس نے جادوگر پہلان کو آواز دے کر کہا اس سے بری رات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پہلان نے اس کی چیخیں سنیں، تو اس کی حالت پر افسوس کرتا ہوا قلعے کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کہ اس احمق سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس نے کمرے میں سرخ ٹوپیوں والی بد روحوں میں سے تین کو ڈریٹن کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جا کر اس کی مدد کرو، جانوروں کو ڈرا کر بھگاؤ اور پھر انسانوں کو خوف زدہ کرو۔ تین بد روح، گھناؤنی شکلیں پہلان کے حکم پر روانہ ہو گئیں۔
    بد روحوں نے گاڑی کے آس پاس پھیلے ہوئے جانوروں کو ڈرا کر بھگا دیا۔ بد روحوں کو دیکھ کر ڈریٹن کی بھی روح فنا ہو گئی تھی، اور وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ پتا نہیں پہلان نے انھیں پھر اذیت دینے کے لیے نہ بھیجا ہو۔ بد روحوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اٹھو اور بتاؤ کہ انسان کہاں پر ہیں، پہلان نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈریٹن یہ دیکھ کر خوش ہو گیا اور بد روحوں کو بتایا کہ فیونا کا گروپ کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ بد روحیں فیونا اور باقی افراد کی طرف اڑ گئیں جب کہ ڈریٹن پھر گاڑی میں لیٹ کر سو گیا۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
    ڈریٹن میں ہمت نہیں تھی کہ اندھیرا پھیلنے تک اس جگہ سے حرکت بھی کرے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اس پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی اور وہ دبک کر بیٹھا تلی ہوئی مچھلیوں اور پھلیوں کی خوش بو سونگھ رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں سخت بھوک سے چوہوں نے طبل جنگ بجا دیا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی جادوئی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شہد کی مکھیوں کو حکم دیا کہ وہ چھتے چھوڑ کر کیمپنگ ایریا پر حملہ کریں اور اس ٹرپ کو برباد کر دیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    اس وقت جولیان باقی سب کو اپنے تسمانیہ کے سفر کی روداد سنا رہا تھا، جب درختوں پر موجود چھتوں سے شہد کی مکھیوں کے غول کے غول کیمپ کی طرف بڑھے۔ ابتدا میں چند مکھیاں ان تک پہنچیں تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چونک اٹھے۔ فیونا نے اپنے چہرے کے پاس اڑنے والی مکھی کو ہاتھ لہرا کر بھگایا اور حیرت سے کہا: ’’یہ مکھیوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
    اینگس نے کہا اف خدا بہت ساری شہد کی مکھیاں چلی آ رہی ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکلنے لگیں، وہ سب شہد کی مکھیوں کو مار رہے تھے لیکن وہ بھی ڈنک مارنے میں کامیاب ہو رہی تھیں کیوں کہ بہت زیادہ تھیں۔ مجبور ہو کر وہ اٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ہر ڈنک کے ساتھ ان کے منھ سے تکلیف دہ چیخ نکلتی تھی۔ ایسے میں جونی کے دماغ نے کام کیا اور وہ چلا کر بولا: ’’یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
    انکل اینگس نے یہ سن کر اپنا جبڑا رگڑتے ہوئے کہا فیونا سے کہا کہ وہ بھی جانوروں سے بات کر سکتی ہے تو ان سے بات کر کے جان چھڑاؤ۔ فیونا کو خود شہد کی مکھیوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے مکھیوں کو پیغام بھیجا: ’’میرے دوستوں کو ڈنک مارنا بند کر دو۔ میری ممی گھر میں شہد کی مکھیاں خود پالتی ہیں اور دیکھ بھال کرتی ہیں، تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
    کئی شہد کی مکھیاں فیونا کے پاس اڑ کر گئیں اور کہا کہ انھیں ڈریٹن نے حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور جب حکم دیا جائے تو انھیں ماننا پڑتا ہے۔ فیونا نے کہا تو میں تمھیں رکنے کا حکم دیتی ہوں، ڈریٹن بہت بری آدمی ہے، اسے تمھاری حفاظت کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، دیکھو تم میں سے کتنی مکھیاں زمین پر مری پڑی ہیں، جاؤ اور ڈریٹن کو تلاش کر کے اسے ڈنک مارو، وہ ایک شریر آدمی ہے۔‘‘
    مکھیوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ برائی سے زیادہ اچھائی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ فیونا سے بات کرنے والی مکھی اڑ کر دوسری طرف گئی اور گانے کی آوازیں نکالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہد کی تمام مکھیاں رک گئیں اور پھر اکھٹی ہو کر اس طرف اڑنے لگیں جہاں ڈریٹن چھپا ہوا تھا۔

    جب انھیں اطمینان ہو گیا تو جمی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میرے تو صرف ایک بازو پر ایک درجن ڈنک پڑے ہیں۔‘‘ جیفرے نے کہا ’’اور میرے چہرے پر کم از کم بیس ڈنک ہیں۔‘‘ اینگس گاڑی میں بیٹھ کر دریا کی طرف گئے اور بالٹی میں پانی بھر کر لے آئے۔ سبھی بالٹی کے پاس جمع ہو کر کپڑے بھگو بھگو کر زخموں پر لگانے لگے۔
    ۔۔۔۔۔۔

    سورج غروب ہو چکا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ پہاڑی علاقے میں سخت سردی تھی، ڈریٹن کانپنے لگا تھا اور اس نے اپنے بازو اپنے گرد لپیٹ دیے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج رات وہ سو نہیں پائے گا، اس لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھا۔ یہی لمحہ تھا جب شہد کی پہلی مکھی نے اسے ڈنک مارا۔ اس کے منھ سے سسکاری نکلی، اور پھر ایک اور مکھی نے اپنا ڈنک اس کے ماتھے کی جلد میں پیوست کر دیا۔ اور پھر کئی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے منھ سے شدید غصے میں غراہٹ جیسی آواز نکلی: ’’بے وقت مکھیوں، تمھیں فیونا پر حملہ کرنا تھا مجھ پر نہیں۔‘‘ لیکن شہد کی مکھیوں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف گیا، اور ایک اخبار نکال کر مکھیوں کو بھگانے لگا۔

    شہد کی مکھیوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نے سوچا کہ فیونا اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے تو چلو مزید کھیل کر دیکھتا ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور بارش، بجلی اور اولوں کے بارے میں سوچا۔ پھر جب اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اسے بارش کے پہلے قطرے گرتے محسوس ہوئے، پھر ایک منٹ کے اندر اندر موسلا دھار بارش ہوئی۔ ’’اب مزا آئے گا ان کو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    (جاری ہے ۔۔۔۔)
  • ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن بنیادی طور پر ایک نہایت لالچی شخص تھا، اس لیے پل پل اس کی طبیعت بدل رہی تھی۔ جب مائری کو اس نے جھیل میں پھینکا تو کشتی کو دوبارہ اس غار کی طرف لے گیا جہاں سے قلعہ آذر میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ رات کا وقت تھا، وہ کشتی سرنگ کی طرف کھینچ کر لے گیا تاکہ کوئی اور اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ اور پھر قلعے کی اس منزل پر چلا گیا جہاں اس نے سونا اور زیورات چھوڑے تھے۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اتنا سونا اور جواہرات ہیں کہ اسے جادوئی گیند کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب باقی زندگی عیش سے بسر کی جا سکتی ہے۔ اس نے دل میں کہا پہلان، تم بھی بھول جاؤ اور جادوئی گیند خود حاصل کرو اب۔ میں تو اس مقابلے سے باہر ہو گیا ہوں۔ پھر اس نے خزانے سے بہت سارا ایک لکڑی کے کریٹ میں باندھا اور کشتی تک لے گیا۔ جب اس نے کشتی کے نچلے حصے میں اسے خالی کیا تو خیال آیا کہ اب اسے اپنے گھر ٹرورو کیسے پہنچاؤں گا، تب اسے جواب ملا کہ بحری راستے ہی سے جائے گا یہ۔ ڈریٹن کے لیے یہ کافی نہیں تھا، اس نے کئی چکر لگائے اور کریٹ بھر بھر کر کشتی پر لاتا رہا۔ پھر اس نے کشتی کو جھیل میں ڈال دیا۔ رات کافی پر سکون تھی، آسمان ستاروں سے ڈھکا ہوا تھا، جھیل کے پانی پر کشتی دھیرے سے تیر رہی تھی، ہوا بھی خوش گوار تھی۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اتنے سارے سونے جواہرات کو کہاں چھپائے گا، جہاں وہ مضبوط باکس تلاش کر کے انھیں اس میں پیک کرے گا اور پھر اپنے گھر بھیج دے گا۔
    اس کی توجہ کشتی کے نیچے پانی کی طرف چلی گئی، اسے لگا کہ پانی سیاہ سے دودھیا ہونے لگا ہے، وہ حیران ہوا اور آسمان میں چاند کی طرف دیکھا کہ کہیں یہ اس کا پھیلتا سایہ تو نہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ پھر یکایک کشتی کے پچھلے کنارے کی طرف جھیل کے پانی میں ایک بھنور بن گیا اور کشتی اس کی طرف پوری قوت سے کھنچنے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ جادوگر پہلان کی کارستانی ہے، اس لیے وہ پوری قوت سے دوسرے کنارے کی طرف کشتی چلانے لگا اور بھنور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ذرا ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ جھیل کا پانی نیچے اتر کر کم ہونے لگا ہے، پانی اس گہرے بھنور میں جا کر غائب ہو رہا تھا۔ وہ چلایا: ’’پہلان، مجھے اکیلا چھوڑ دو!‘‘ لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے محسوس کر لیا کہ وہ سونے کی ایک چیز بھی نہیں لے جا پائے گا تو اس نے کشتی سے چھلانگ لگا دی اور کنارے کی طرف تیرنے لگا، لیکن بھنور اسے بھی اپنی طرف کھینچنے لگا۔
    آخر کار ڈریٹن نے جادو کے ذریعے اپنا قد بڑا کر دیا اور کنارے پر پہنچ گیا۔ وہاں سے وہ کشتی کو ساری دولت کے ساتھ اس بھنور میں گر کر کہیں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ لمبے لمبے قدم بھرتا واپس قلعے والے کنارے کی طرف چلا گیا اور سیدھا محل جا پہنچا۔ وہ بھی ایک ضدی تھا، دولت چھوڑ کر جانا اس کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے اس نے مزید سونا اور جواہرات اٹھا کر پینٹ کی جیبوں میں خوب بھر لیے، اور پھر محل سے نکل کر قد بڑا کر کے جھیل پار کر لی۔ اب کے اس نے خود اعتمادی محسوس کی، کیوں کہ وہ سونا لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا، اور پھر وہ جنگل میں اسے کہیں چھپانے کی جگہ تلاش کرنے لگا۔ اس نے ایک درخت کا انتخاب کیا اور اس کی جڑ میں مٹی کھودی اور اپنی جیبیں اس میں خالی کر دیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ مٹی کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے بے خبر کہ جھیل کی جانب سے ایک دھند اس کی طرف لپکتی آ رہی ہے۔ ہوا درختوں کے درمیان سے سرسراتے ہوئے گزر رہی تھی۔ پہلان کا دھواں جیسا وجود درختوں کے جھنڈ کے پیچھے رک گیا، اور ایک سرگوشی کے ذریعے جنگل کی تمام بد روحوں کو بلانے لگا۔ سب سے پہلے سرخ ٹوپیوں والی بدشکل بد روحیں نمودار ہو گئیں، ان کی ٹوپیاں انسانی خون سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے ہمیں بلایا ماسٹر۔‘‘ یہ فوفیم تھا جس نے آتے ہی پہلان جادوگر کے آگے سر جھکایا اور باقی سرخ ٹوپیوں والے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ’’آپ کا کیا حکم ہے آقا؟‘‘ فوفیم کے حلق سے نکلنے والی آواز خاصی کریہہ تھی۔
    پہلان نے کہا: ’’سب کو لے کر قلعہ آذر میں مجھ سے ملو۔ میرے پاس تمھارے لیے کچھ کام ہے۔‘‘
    سرخ ٹوپیوں والی بہت کریہہ قسم کی مخلوق تھی، یہ انسانوں سے بڑے تھے، ان منھ اور سر خنزیر کی مانند تھے اور گالوں پر بد نما مسّے تھے، جبڑوں سے ہاتھ دانت کی طرح دانت باہر نکلے تھے، سر کے بال غلیظ اور الجھے ہوئے، باقی جسم پر بھی لمبے لمبے بال تھے۔ اور انھوں نے پیروں میں لوہے کے زنگ آلود جوتے پہن رکھے تھے اور ہاتھوں کی انگلیاں دراصل نوکیلے خم دار پنجے تھے۔
    پہلان نے پوچھا: ’’جیسا کہ میں نے کہا مجھے تم لوگوں سے کام ہے، تو تم اس کام کے کیا لوگے؟‘‘ ایک اور بد روح نے کھڑے ہو کر جواب دیا: ’’میں ڈوکومک ہوں، ہم تو بس آپ کی خدمت پر مامور ہیں اس وقت، ماسٹر، آپ حکم کریں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، تو قلعہ آذر جاؤ، میں تمھیں انعام ضرور دوں گا۔‘‘ فوفیم اور ڈوکومک نے حکم کی تعمیل بجا لائی اور تمام سرخ ٹوپیوں والوں کو لے کر قلعے کی طرف چلے گئے۔
    ان کے جاتے ہی پہلان نے ایک بار پھر سرگوشی کی اور اس بار اس نے اسکاٹ لینڈ کی لوک داستانوں کی ایک مادہ روح ’بین نی یے‘ کو طلب کیا۔ اسے موت کا ہرکارہ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ عجیب اور خوف ناک عورت کسی کے کپڑے دھو دے تو وہ مر جاتا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں جھیل کے پانی سے ہلکی نیلی شکلیں نمودار ہو کر تیزی سے پہلان کی طرف تیرنے لگیں۔ پاس آ کر انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہے ان کے لیے۔ پہلان نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا صرف ایک نتھنا تھا، اور ایک پھیلا ہوا دانت۔ اس کے پاؤں جالی دار تھے۔ پہلان نے انھی دیکھ کر کہا: ’’دھوبی عورتو! میں نے تمھیں ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے، ویسے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ان میں سے ایک لیڈر دھوبن آگے بڑھ کر بولی کہ اس کا نام ایریا ہے، اور کیا اسے دھلائی کی ضرورت ہے۔ پہلان نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس کی بات مانیں گے تو وہ انھیں مرنے والے انسانوں کی بے شمار دولت دے دے گا۔
    ایریا نے کہا: ’’آقا، آپ جانتے ہیں کہ ہم وہ عورتیں ہیں جو زچگی کے دوران مر گئی تھیں، ہم پر تو ہمیشہ کی پھٹکار پڑ چکی ہے، اور سزا یہ ہے کہ بس کام کرتے جائیں، تو تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
    پہلان نے کہا کہ تم سب قلعہ آذر جاؤ، ایک کام ہے، اور وعدہ ہے کہ اتنا کام دوں گا کہ تمھاری ضرورت سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ روحیں بھی قلعے کی طرف چل پڑیں۔ اس کے بعد شیطان جادوگر نے ایک گہری سانس لی اور اسے اونچی آوازوں کے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن یہ آوازیں انسان نہیں سن سکتے تھے۔ اگلے ہی لمحے مغرب کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ کی مانند بد روحیں اڑتی ہوئی آئیں، اور زمین پر اترتے ہی انسان نما شکلیں اختیار کر لیں۔ ان کا لیڈر روفریر آگے بڑھ کر بولا: ’’آپ نے ہمیں طلب کیا ماسٹر۔‘‘
    (جاری ہے)