Tag: اردو ناول نگار

  • معروف شاعر اور مقبول ناول نگار ایم اسلم کی برسی

    معروف شاعر اور مقبول ناول نگار ایم اسلم کی برسی

    ایم اسلم کا نام افسانوی ادب اور بالخصوص تاریخی ناول نگاری میں آج بھی زندہ ہے انھوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز بحیثیت شاعر کیا تھا، لیکن علّامہ اقبال نے ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور نثر نگاری کی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں انھوں نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور نام ور ہوئے۔ ناول، افسانہ، تنقیدی مضامین اور شاعری ان کا بڑا حوالہ ہیں۔ آج اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر کی برسی ہے۔

    ایم اسلم کے افسانوں میں ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے خاص طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے 200 سے زائد ناول تحریر کیے۔ ان کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروس غربت، معرکۂ بدر، فتح مکہ، صبح احد، معاصرۂ یثرب، ابو جہل، جوئے خون، پاسبان حرم، فتنۂ تاتار، گناہ کی راتیں شامل ہیں۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ مخیّر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی جہاں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی اور ان کی تربیت میں اقبال نے اپنا کردار نبھایا۔

    ایم اسلم نے شاعری اور افسانہ کے بعد جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہی ان کی مقبولیت اور شناخت بن گیا۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے جس نے انگریزی سے اردو تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ کیا۔

    23 نومبر 1983ء کو اردو کے اس معروف تخلیق کار اور مقبول ناول نگار کا انتقال ہوگیا۔

  • اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    آج اردو زبان کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات ہے۔ خدیجہ مستور کا شمار اردو کی اُن ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی وفور اور شعور سے افسانہ اور ناول نگاری کے میدان میں نام و مقام بنایا اور ان اصنافِ ادب کا وقار بڑھایا۔ وہ 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔

    خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927ء کو بریلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942ء میں کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ بسا تھا۔ یہاں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے بھی منظرِ عام پر آئے جنھیں بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر آنگن کو بہترین ناول مانا گیا جس پر 1962ء میں خدیجہ مستور کو آدم جی انعام بھی دیا گیا تھا۔

    خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموما متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

    خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جب کہ ان کے بھائی خالد احمد کا نام جدید شاعری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

    خدیجہ مستور کو لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    ممتاز ادیب اور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کا ناول "کارِ جہاں دراز ہے” شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔ ان کی اس سوانحی تصنیف میں ایک ایسی تحریر سے اقتباس بھی شامل ہے جس کا مصنف نامعلوم ہے۔

    کہتے ہیں یہ تحریر سترھویں صدی کے کسی مفکر اور دانا کی ہے جو انگلستان کے ایک قدیم گرجا گھر سے ملی تھی۔ یہ اقتباس ہم آپ کے لیے یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    ’’شور اور ہنگامے میں سے پُرسکون گزرو۔ اور یاد رکھو کہ امن خامشی میں ہے۔ خود کو جھکائے بغیر سب سے نبھائو۔ اپنی سچائی کو شانتی اور صراحت کے ساتھ بیان کرو اور دوسروں کی سنو خواہ وہ لوگ غیر دل چسپ یا کم علم ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ ان کے پاس بھی ان کی کہانی موجود ہے۔

    چھچھورے لوگوں سے احتراز کرو کہ وہ روح کے لیے ناگوار ہیں اور اگر تم نے اپنا موازنہ دوسروں سے کیا تمھارے اندر نخوت یا تلخی پیدا ہو جائے گی، اپنے کارناموں اور منصوبوں سے لطف اندوز ہو، اپنے کام اور فرضِ منصبی میں دل لگائو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو کیوں کہ تھارا ہنر ہی وہ شے ہے جسے گردشِ ایام کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔

    اپنے معاملات میں سوجھ بوجھ سے کام لو۔ دنیا مکروفریب سے پُر ہے۔ لیکن اہلِ دنیا کے چھل کپٹ سے دل برداشتہ ہو کر اچھے انسانوں کی نیکیوں کو نظر انداز نہ کرو۔

    بہت سے لوگ ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نصب العین کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور ہر جگہ زندگی دلاوری سے معمور ہے۔ تم جو خود ہو، وہی رہو مصنوعی جذبات کا اظہار نہ کرو۔ نہ محبت کے متعلق کلبیت کا رویہ اختیار کرو کیوں کہ ساری خشک سالی اور مایوسیوں کے درمیان محبت سدا بہار گھاس کی مانند اگتی رہتی ہے۔

    گزرتے برسوں کے مشوروں کو نرم مزاجی سے قبول کرو۔ اور نوعمری کے مشاغل سے وقار کے ساتھ دست بردار ہونا سیکھو۔ اپنی اندرونی قوت کو پروان چڑھائو جو کسی اچانک مصیبت کے وقت تمھارے کام آسکے۔ لیکن توہمات سے خود کو پریشان نہ کرو کہ بہت سے خوف اور خدشے درماندگی اور تنہائی کی وجہ سے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔

    ایک معقول حد تک ضبط وتوازن قائم کرکے اپنی ذات سے نرمی برتو۔ اپنے اوپر بلاوجہ ظلم نہ کرو اور یاد رکھو کہ زمین کی گھاس اور آسمان کے درخشاں ستاروں کی طرح تم بھی کائنات کے بچے ہو اور چاہے تمھاری سمجھ میں یہ بات نہ آوے، مگر کائنات متواتر اور پیہم اپنے اسرار منکشف کررہی ہے چناں چہ جو بھی تمھارا تصور خدا کے متعلق ہے، راضی برضائے پرورد گار ہو جائو اور زندگی کی پرُشور الجھنوں کے درمیان اپنی روح کے ساتھ امن سے رہو کیوں کہ اپنی تمام بیہودگیوں اور کلفتوں کے باوجود دنیا بڑی خوب صورت جگہ ہے۔‘‘

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں