Tag: اردو ناول

  • تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔

    ’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔

    ’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘

    ’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘

    فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔

    ’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔

    ’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔

    ’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘

    ’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘

    مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘

    ’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
    ’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘

    جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘

    وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔

    (جاری ہے…..)

  • بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُرتجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’واہ یہ تو زبردست بات ہو گئی ہے۔ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو رہا ہے جیسے کوئی مکھن کھا رہا ہو۔ دنیا پر حکمرانی کا خیال کتنا شان دار اور خوب صورت ہے۔‘‘ ڈریٹن خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود کو ابھی سے دنیا کا بادشاہ سمجھے لگا۔ اس نے شیشے پر کنگ کیگان کی تصویر کو مخاطب کیا: ’’تو قلعہ آذر کے آقا، اب تم کیا سوچ رہے ہو۔ تم مردہ ہو اور میں زندہ ہوں اور جلد ہی جادوئی گولا میرے قبضے میں ہوگا۔ اب میں جا رہا ہوں، کل پھر ملاقات ہوگی۔‘‘

    وہ قلعے سے نکلا اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے دوسرے کنارے اتر گیا۔ اس نے قریب ہی ایک بھاری پتھر تلاش کیا اور اسے اٹھا کر کشتی پر مارنا چاہا تاکہ اسے ڈبو دے، لیکن پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اب اسے ہر رات یہاں آنا ہے، اس لیے کشتی کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اس نے وہ پتھر پانی میں پھینک دیا۔ ڈریٹن واپس اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر کسی نے اسے روکا تو ایک جھٹکے سے اس کی گردن کا منکا توڑ دے گا۔ دروازے پر پہنچ کر اسے پھر بلیوں نے گھیر لیا۔ اس نے بلیوں کو لاتیں مار مار کر بھگا دیا اور اندر داخل ہو گیا۔

    ڈریٹن اندر جا کر اینگس کی تمام چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگا، اور آدھے ہی گھنٹے بعد خوش قسمتی نے اسے بری طرح چونکا دیا جب اسے غیر متوقع طور پر قدیم کتاب مل گئی۔

    ’’ارے یہ کیا ہے۔‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’یہ اینگس تو چھپا رستم نکلا، اس نے تو قدیم کتاب بھی حاصل کر لی ہے۔ لگتا ہے یہ بھی میرا ساتھی ہے۔ آخر کون ہو تم بوڑھے اینگس اور اس لڑکی سے تمھارا کیا رشتہ ہے؟‘‘ وہ کتاب پا کر خود کلامی کرنے لگا۔ پھر اس نے ڈیجیٹل کیمرہ نکال کر کتاب کے ہر صفحے کی تصویر لی۔ چوں کہ کتاب گیلک زبان میں لکھی گئی تھی اور اسے اس کی کوئی شدھ بدھ نہیں تھی، اس لیے اسے غصہ آنے لگا۔ اس کے پاس جو کتاب تھی وہ پرانی انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کسی بے وقوف اسکاٹ ہی نے اسے گیلک میں لکھا ہوا ہوگا۔ پھر اسے اپنا لیپ ٹاپ یاد آ گیا۔ اس نے خوش ہو کر سوچا کہ وہ اسے لیپ ٹاپ پر اپ لوڈ کر کے کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اسے کچھ رقم کے عوض ترجمہ کر دے۔

    اچانک وہ ایک خیال آنے پر چونک اٹھا۔ ’’ارے میں تو بھول گیا تھا، یہ کتاب جہاں ہو گی یقیناً جادوئی گیند بھی وہیں ہوگی۔‘‘ یہ بڑبڑاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چیزوں کی تلاشی لینے لگا۔ کافی دیر تک تلاش کے باوجود جب اسے جادوئی گولا نہیں ملا تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور اسی عالم میں چیخا: ’’یقیناً وہ بڈھا اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے، لیکن میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر بعد اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور ساری چیزیں ویسے ہی اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیں، تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس بیڈ اینڈ بریک فاسٹ پہنچ گیا۔ وہ عین وقت پر پہنچا تھا کیوں کہ رات کا کھانا تیار تھا۔ کھانا کھا کر اس نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ گفتگو کر کے خود کو ایک اچھا لڑکا ثابت کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بستر پر بیٹھ کر اس نے جیب سے تین بٹوے، دو ہیروں کے ہار اور ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر سامنے رکھ دی، اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف دیہاتی!‘‘ اس نے بڑبڑا کر کہا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ یہ ساری چیزیں اس نے اسی ریستوران میں لوگوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پار کی تھیں، اور کسی کو کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک ہوشیار جیب کترا تھا!

    (جاری ہے…)

  • اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    چمنی سے خاکی مائل بادامی دھواں اندر آ کر اس کی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا تھا، جس نے آن کی آن میں چکراتے ہوئے اوپر اٹھ کر اسے لپیٹ میں لے لیا۔ پھر دھوئیں کے چکر میں تیزی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی تیزی سے گھومنے لگا جس پر دہشت کے مارے اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ’’یہ … یہ … کیا ہو رہا ہے؟‘‘ لیکن کچھ ہی لمحوں کے بعد دھواں ٹھہر گیا، تو اس کا گھومنا بھی بند ہو گیا۔ اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ دھواں اس کے سامنے کھڑا ہو کر دھیرے دھیرے انسان کی شکل اختیار کرنے لگا۔

    ’’کک … کیا تم کنگ کیگان ہو؟ مم … میں نے تمھیں ابھی ابھی برا بھلا کہا … کک … کیا تم مجھے … اس کی سزا دو گے؟‘‘ وہ خوف کے مارے ہکلانے لگا۔

    ’’کیا میں کنگ کیگان کی طرح دکھائی دیتا ہوں؟‘‘ یکایک ایک کمزور اور بوڑھی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں پہلان ہوں، کنگ دوگان کا جادوگر۔ میں سیکڑوں برس سے یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، اور آخر کار تم پہنچ ہی گئے۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو … پہلان …‘‘ ڈریٹن یہ سن کر اچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا کہ تم میرا انتظار کر رہے تھے، کیا مطلب ہے اس کا، تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟‘‘ اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا اور وہ کسی پولیس والے کی طرح سوال پر سوال داغنے لگا، لیکن جادوگر پہلان کو اس کی یہ بدتمیزی پسند نہیں آئی۔

    ’’لڑکے، میں تمھارے آبا و اجداد میں سے ہوں، میرا احترام کرو۔ مجھے ایک معمولی بھوت مت سمجھو۔ میں پہلان ہوں پہلان … زیلیا کا جادوگر!‘‘

    ’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ ڈر کر ایک دم سے با آدب کھڑا ہو گیا۔ پہلان کہنے لگا کہ اسے سونے کی گیند تمام قیمتی پتھروں سمیت چاہیے۔ پہلان نے کہا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکلس تمھارے پاس ہے۔‘‘

    ڈریٹن کی شرٹ سے نیکلس لہراتے سانپ کی طرح باہر نکل آیا۔ ’’نہیں، میں یہ آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے اسے واپس شرٹ کے اندر ڈال لیا۔

    ’’بے وقوف لڑکے، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے آبا و اجداد کی طرح بالکل نہیں ہو۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ تم نے کتنی بے کار چیز کو گلے میں ڈال رکھا ہے تو انھیں تم پر غصہ آئے گا۔ اور تم نے عورتوں کی طرح یہ بُندے کیوں پہن رکھے ہیں، میں نے مردوں کو کبھی انھیں پہنے نہیں دیکھا۔

    ’’اب بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں اور مرد بھی انھیں پہننے لگے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے فوراً جواب دیا۔

    ’’میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ تمھارے سوا میں نے کسی کو بھی کانوں کے چھلے پہنے نہیں دیکھا۔ بہرحال تم جادوئی گولا اور قیمتی پتھر میرے پاس لے کر آؤ۔ جب یہ ساری چیزیں میرے پاس ہوں گی تو میں پھر سے زندہ ہو جاؤں گا اور تمھارا جادوگر بن کر تمھاری خدمت کروں گا۔ ہم ساری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یقیناً تم بھی یہی پسند کرو گے، کیا کہتے ہو نوجوان ڈریٹن۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہے ایسے ہی تھے جیسے بھوت ہنس رہے ہوں جسے سن کر زندہ لوگوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔‘‘

    ’’واہ یہ تو بہت شان دار خیال ہے۔‘‘ ڈریٹن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یعنی اب میں بھی ایک جادوگر سے کام لے سکتا ہوں۔ لیکن جادوئی گیند ہے کہاں؟‘‘

    پہلان کے بھوت نے بتایا کہ جادوئی گولا اسی گاؤں میں ہے، ایک لڑکی نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اس نے ایک قیمتی پتھر بھی ڈھونڈ لیا ہے۔

    ’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا نیکلس کیوں اچانک چمکنے لگا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے چونک کر کہا۔ ’’چوں کہ میں دونوں خاندانوں کا وارث ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں دوگان کے جادو کا طریقہ سیکھوں۔‘‘

    ’’تمھیں ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہو گا۔‘‘ پہلان کے بھوت نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔ ’’میں خود ہی جادوئی گیند اور قیمتی پتھر حاصل کر لیتا لیکن میں اس قلعے اور جھیل سے باہر نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’اور اگر آپ یہاں سے نکلے تو کیا ہوگا … کیا آپ مینڈک بن جائیں گے یا کچھ اور؟‘‘ ڈریٹن نے عادت سے مجبور ہو کر مذاق اڑایا۔

    ’’بس … گستاخی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ پہلان کے بھوت کو غصہ آ گیا۔ ’’میں یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوں گا، لیکن اگر نکلا تو عظیم جادوگر کا قہر مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ اسے نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور مجھ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے میں یہیں رہوں گا۔‘‘

    ’’تو تم کبھی بھی یہاں سے باہر نہیں نکلو گے؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا۔

    اس نے کہا: ’’فی الحال حالات ہی ایسے ہیں، اگر مجھے کوئی چھوٹا بدن مل جائے تو میں یہاں سے نکل سکتا ہوں، لیکن وہ بھی صرف بارہ گھنٹوں کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

    ڈریٹن چونکا، اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کک … کہیں آپ میرا جسم لینے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔ چھوٹے بدن سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کسی جانور کا؟‘‘

    ’’احمق لڑکے، میں کسی انسانی بدن میں نہیں جا سکتا، کم سے کم اتنی آسانی سے تو بالکل نہیں۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں میں کسی بھتنے، بونے، بالشتیے یا پھر پریوں کی دنیا کی کسی اور مخلوق کے جسم میں اندر جا سکتا ہوں اور اس پر قبضہ جما سکتا ہوں۔‘‘ پہلان جادوگر کا بھوت کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں نے تمھیں بہت کچھ بتا دیا ہے، وہ باتیں جو تمھیں بتانے کی نہیں تھیں۔ مجھے وہ جادوئی گولا چاہیے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے اپنا جسم حاصل کر سکوں۔ اب تم میرے حکم کی تعمیل کرو گے ورنہ میں تمھیں مینڈک سے بھی زیادہ بدتر چیز میں تبدیل کر دوں گا۔ تم ہر رات یہاں آؤ گے اور میں تمھیں جادوگروں کے طریقے اور منتر سکھاؤں گا۔ جب وقت آئے گا تو تم ان منتروں کو استعمال کر کے جادوئی گولا حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘

    یہ کہہ کر جادوگر کا بھوت پھر دھواں بن کر غائب ہو گیا۔

    (جاری ہے….)

  • اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

    ’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    ’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

    ’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

    ’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

    مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

    اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

    ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

    ’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

    جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

    فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

    ’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

    دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

    (جاری ہے….)

  • اکتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    وہ بولی: "کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابھی میں نے ڈریگن کو تصور میں دیکھا اور ابھی یہ فوراً پہنچ بھی گیا، کیا یونان میں ڈریگن بھی ہوتے تھے؟”

    "نہیں، حقیقت میں ڈریگن کہیں بھی نہیں ہیں۔” جبران نے جواب دیا۔ "یہ سب کچھ بہت عجیب سا ہے۔ یہ آیا کہاں سے؟”

    "میرے خیال میں ڈریگن میرے تصور سے آیا ہے۔” فیونا نے عجیب بات کہہ دی۔ "میں نے اسے اپنے تصور میں دیکھا اور پھر اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میرا خیال ہے کہ بادشاہ کیگان نے کچھ کیا ہوگا، یا شاید یہ اس کا جادوگر تھا۔” دانیال نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: "ڈریگن کہیں سے بھی آیا ہو، بہرحال اس نے ہمیں اس بد شکل ہائیڈرا سے بچا لیا، چلو اب چلتے ہیں۔” تینوں باہر نکلے اور آسمان کی طرف منھ اٹھا کر دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ فیونا نے کہا: "مجھے یقین ہے ڈریگن یہاں کے لوگوں کو نظر ہی نہیں آیا ہوگا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا ہے کہ کسی کو توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملا ہوگا۔”

    لیکن جب وہ قصبے سے گزرنے لگے تو انھوں نے کئی لوگوں کو آسمان کی طرف اشارے کرتے دیکھا۔ دانیال بولا: "تمھارا یقین ٹھیک نہیں، لوگوں نے اسے دیکھا۔” اور پھر وہ تینوں ہنسنے لگے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ کیا وہ دونوں بھی گھر واپسی کے لیے تیار ہیں، دونوں نے ایک ہی وقت میں جواب دیا: "ظاہر ہے۔”

    "اگرچہ ہمارا یہ دن بہت خوفناک گزرا ہے تاہم بڑا مزا آیا، میں نے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔” دانیال نے تبصرہ کیا۔ جبران نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "یہ میری زندگی کا بھی یادگار ترین دن ہے۔”

    جب وہ ساحل پر اس مقام پر پہنچے جہاں سے وہ واپس اپنے گھر کے لیے جانے والے تھے، تو انھوں نے ساحل پر پانی میں بہت ساری کشتیوں کو دیکھا جو رسیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھیں۔ فیونا پرجوش ہو کر بولی: "ارے یہ تو "ڈولتا بازار” ہے۔ میں نے ایک دکان کی کھڑکی پر اس کا اشتہار چسپاں دیکھا تھا۔ ہفتے میں ایک دن اس جزیرے کے کسان اپنی اپنی چیزیں یہاں لا کر فروخت کرتے ہیں۔”

    "یہ کشتیاں تو سبزیوں، پھلوں اور مچھلیوں سے بھری ہوئی ہیں، کتنا خوب صورت منظر ہے یہ۔ کاش میرے پاس کیمرا ہوتا تو میں ان سب کی تصاویر اتار لیتا۔ حتیٰ کہ خانقاہ اور بچھوؤں کی بھی۔” دانیال ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

    "میں تو ڈریگن کی تصویر لیتا لیکن اگر میں کسی سے ڈریگن کا ذکر کروں گا تو وہ بالکل یقین نہیں کرے گا۔” جبران نے چونک کر کہا۔

    فیونا کہنے لگی: "کیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ ہماری کسی بھی بات پر یقین کر لیں گے؟ کون یقین کرے گا کہ پتھروں میں جان آئی اور وہ ایک عفریت کی شکل میں تبدیل ہو گئے، اور پھر وہ ہمارے پیچھے دوڑنے لگا۔ کوئی نہیں کرے گا۔ لوگ ہمیں بے وقوف سمجھیں گے۔ اس لیے ہمیں یہ باتیں خود تک محدود رکھنی ہوں گی۔”

    جبران نے اس سے اتفاق کیا۔ چلتے چلتے اس نے کہا: "اس سے پہلے کہ ہم واپس جائیں، اپنے انکل اینگس کے لیے یہاں سے کچھ میٹھا لے کر چلو، کیوں کہ وہ واحد آدمی ہے جنھیں پتا بھی ہے اور یقین بھی کرتے ہیں۔”

    "گڈ آئیڈیا۔” فیونا خوش ہو گئی۔ "چلو دیکھتے ہیں کہ یہاں بیکری میں کیا ہے؟” وہ ایک بیکری میں داخل ہو گئے۔ شیشوں کے اندر مٹھائیاں موجود تھیں۔ جبران نے ایک کیک کی طرف اشارہ کیا: "یہ دیکھو، اسے یہاں کی زبان میں امیگدالوتا کہتے ہیں۔ میری ٹیچر نے کہا تھا کہ یہ بادام کا کیک ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ انکل اینگس کے لیے یہ چھوٹا سموسہ بھی خریدنا چاہیے۔ اسے یہاں کی زبان میں گیلکٹو بوریکو کہتے ہیں، دارچینی اور سیرپ کے ساتھ۔”

    فیونا نے جبران کو مقامی کرنسی کے چند نوٹ دیتے ہوئے کہا: "ہمارے لیے بھی کچھ خرید لینا، میں باقی رقم برطانوی پاؤنڈز میں تبدیل کر کے آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور کچھ ہی دیر بعد واپس آ گئی۔

    جبران نے سامان سے بھری تھیلی پکڑ لی اور وہ ساحل پر چلتے ہوئے کھانے لگے۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا نے کہا: "یہ ہے وہ جگہ جہاں سے ہماری واپسی ہونی ہے۔” انھوں نے قصبے کو آخری بار دیکھا، فیونا نے کہا مجھے ہائیڈرا بہت یاد آئے گا۔ جبران نے ساحل پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: "شکر ہے کہ پولیس اور ہائیڈرا کے تعاقب کے بعد بھی ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ میں اپنی ڈائری میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھوں گا۔”

    فیونا نے کہا: "چلو، اب ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ جبران خیال رکھنا تھیلی گر نہ جائے۔”

    فیونا نے دونوں کے ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے، ناک کی سیدھ میں نظریں جما دیں، اور منتر پڑھنے لگی: "دالث شفشا یم بِٹ۔”

    اگلے لمحے انھیں لگا کہ آسمان سے بادل اتر کر ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا ہو۔ ان کے جبڑے سخت ہو گئے۔ ہاتھوں کی گرفت بھی مزید سخت ہو گئی۔ ذرا دیر بعد وہ صرف مختلف رنگوں ہی کو دیکھنے لگے۔ ان کے ارد گرد اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ساری دنیا انتہائی تیزی سے لٹو کی مانند گھوم رہی تھی۔ جب انھوں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    "ہیلو بچو، مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ تم لوگ زندہ سلامت لوٹ آئے ہو۔” اینگس کرسی سے اٹھ کر بولا۔

    (جاری ہے…)

  • تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیے

    ’’میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ جبران بولا۔ ’’مجھے خود ہائیڈرا سے نفرت ہے، چلو یہاں سے بھاگتے ہیں۔‘‘

    تینوں ایک بار پھر بھاگنے لگے۔ سیاہ آبسیڈین کی تلاش میں اس جزیرے پر آ کر وہ اب تک اتنا بھاگ چکے تھے کہ انھیں لگتا تھا زندگی بھر اتنا نہ بھاگے ہوں گے۔ کافی دور جا کر جبران نے مڑ کر دیکھا۔ ’’نہیں….‘‘ وہ چیخا۔ ’’وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم سے کہیں زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔‘‘

    ’’ہمیں ساحل کی طرف جانا ہوگا۔‘‘ دوڑے دوڑتے فیونا نے کہا۔ ’’پتا نہیں ماربل کی ایک اینٹ سے کیسے اتنا بڑا عفریت بن گیا ہے۔ یہ یونانی اساطیر بھی بے حد عجیب ہیں۔‘‘

    اچانک چرچ کی گنٹیاں بجنے لگیں۔ فیونا کو ایسا لگا جیسے وہ گھنٹیاں اسے روک رہی ہوں، اور وہ ایک دم رک گئی۔ اس نے دونوں کو آواز دے کر کہا: ’’ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں، چلو اندر چلتے ہیں۔‘‘

    ’’کیاااا…. تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔‘‘ جبران جھلا کر بولا۔ ’’ہم مڑ کر واپس نہیں جا سکتے۔ ہائیڈرا ہمیں آسانی سے شکار کر لے گا۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو سانپوں کے سروں میں کتنے نوکیلے دانت ہیں۔ میں تو ان ماربل کے سانپوں سے نو بار ڈسنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے دیکھا کہ جبران کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھا گئے ہیں اور وہ اس کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ وہ بولی: ’’دیکھو جبران، میرا من کہہ رہا ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ کیسے، یہ میں نہیں جانتی۔ اگر ہم اندر نہیں گئے تو یہ ہائیڈرا ہمیں پا کر مار ڈالے گا۔ اور ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس کے پنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ اس نازک وقت پر تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا ہوگا جبران۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس قدیم بازنطینی چرچ کی طرف جانا چاہیے۔ چلو، ہم دوسرے راستے سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    جبران اور دانیال نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ دونوں بے حد خوف زدہ تھے۔ اچانک دانیال کو پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس نے دوڑتے دوڑتے جبران سے کہا: ’’تم نے سنی یہ آواز، یہ تو بہت قریب سے آ رہی ہے۔‘‘

    جبران اور فیونا نے بھی پھنکار کی آواز سن لی تھی۔ وہ چلائی: ’’وہ ہمارے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور تیز بھاگو۔‘‘

    ماربل سخت تھا لیکن پتا نہیں پتھر کا یہ سانپ کیسے حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین پر رینگ نہیں رہا ہو بلکہ چند انچ اوپر ہوا میں تیر رہا ہو۔ فیونا نے کہا: ’’وہ دیکھو، چرچ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ہم میں سے جو بھی سب سے آخر میں داخل ہو، وہ اپنے پیچھے دروازہ فوراً بند کر دے۔‘‘

    جب وہ چرچ کے دروازے پر پہنچے تو سب سے پہلے جبران اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے ہی فیونا اور پھر آخر میں دانیال داخل ہوا۔ فیونا اندر داخل ہوتے ہی چلائی تھی: ’’دانی دروازہ بند کر دو، جلدی کرنا۔‘‘

    جبران دانیال کی مدد کے لیے تیار کھڑا تھا، دونوں نے عین اسی لمحے دروازہ بند کیا جب ہائیڈرا پہنچ گیا تھا۔ ’’اُف خدا، تم نے دیکھا فیونا، کتنا بھیانک چہرہ ہے اس کا۔‘‘ جبران تھوک نگل کر بولا۔

    ’’چلو اوپر چلتے ہیں، ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہ اس کھڑکی کے پاس آئے جہاں سے انھوں نے اینٹ نیچے پھینکی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ہائیڈرا کے تیز دانت چرچ کے چوبی دروازے میں گڑے ہوئے تھے اور وہ اسے چبا کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’بے فکر رہو، ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک بار پھر انھیں تسلی دی۔ جبران نے تقریباً روتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ دروازے کو چبا چبا کر توڑ ڈالے گا اور ہمیں آسانی شکار کر لے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی سے ہٹا اور دیوار کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے رونا آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتا ہے۔

    فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیب سے قیمتی پتھر نکال لیا۔ اس کے اندر ڈریگن کا نقش تھا۔ اس میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل رہی تھی۔ فیونا جبران کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے تصور میں ایک عظیم الجثہ سیاہ ڈریگن دیکھا جس کی آنکھیں قیمتی پتھر کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ آسمان میں کہیں بادلوں سے نکلا اور غوطہ مار کر نیچے آیا اور پھر اپنے لمبے نوکیلے دانتوں میں عفریت ہائیڈرا کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔

    ’’ارے وہ دیکھو۔‘‘ یکایک جبران کی آواز فیونا کی سماعت سے ٹکرائی، اس کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔ ’’جلدی آؤ دانی، فیونا، ورنہ تم یہ منظر دیکھنے سے محروم رہ جاؤ گے۔ اوہ دیکھو، اتنا بڑا ڈریگن۔ اس کے پر یقیناً پچاس فٹ لمبے ہوں گے۔‘‘

    اسی لمحے ان کے کانوں سے عجیب قسم کی کرخت آوازیں ٹکرانے لگیں۔ وہ دونوں دوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ باہر ایک بہت ہی بڑا سیاہ ڈریگن ہائیڈرا پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کی پشت پر لمبے اور مضبوط کانٹوں والی ریڑھ کی ہڈی دم تک چلی گئی تھی اور اس کی لمبی دُم ہوا میں کسی کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ اس نے ہائیڈرا کو دانتوں میں دبوچا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ہائیڈرا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا لیکن ڈریگن نے اپنی گرفت ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تینوں نے سکون کی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہے اور دل کی تیز دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے انھیں چونکا دیا۔

    (جاری ہے…)

  • انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پہاڑ سے نیچے اتر کر فیونا تھکن سے چور ہو کر ایک ٹوٹی ہوئی پتھریلی دیوار پر بیٹھ گئی۔ ’’اب چاہے کچھ بھی ہو، میں تو ان سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں چڑھنے والی۔‘‘

    ’’لیکن اب ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس اینٹ کو اپنے ساتھ گیل ٹے لے کر جا سکتے ہیں، تاکہ وہیں پر سیاہ آبسیڈین اس سے نکال سکیں؟‘‘ جبران کی خواہش تھی کہ اب جتنی جلد ہو سکے، انھیں گھر چلنا چاہیے۔

    ’’نہیں جبران۔‘‘ فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’یہ اصول ہے، ہمیں یہیں پر اسے نکالنا ہوگا، ہمیں اسی زمین پر اس قیمتی پتھر کو ہاتھ میں لینا ہے۔‘‘

    ’’آبسیڈین ایک پتھر ہے یا زیور؟‘‘ دانیال نے اینٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ فیونا نے جواب دیا: ’’دراصل یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن کسی زیور سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

    ’’تو اب اسے توڑیں گے کیسے؟‘‘ دانیال کے سوال نے انھیں ایک بار پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا۔ جبران کہنے لگا کہ کوئی بھاری پتھر ڈھونڈ کر اسے اینٹ پر مارا جائے۔ لیکن فیونا کا اعتراض تھا کہ اتنا بھاری پتھر ہم کیسے اٹھا سکیں گے، جس سے واقعی یہ اینٹ ٹوٹ سکے، اس لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا۔ تینوں اپنے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اچانک جبران اچھل پڑا۔ وہ بولا: ’’میرے دماغ میں ایک اور زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر قدیم بازنطینی چرچ ہے، جس کی گنبد نیلے رنگ کی ہے۔ ہم میں سے دو اوپر چڑھ کر اینٹ کو نیچے گرا دیں گے، اور نیچے جو کھڑا ہوگا وہ اس سے قیمتی پتھر نکال لے گا۔‘‘

    فیونا کو یہ خیال پسند آ گیا اور اس نے جبران کو شاباشی دی۔ تینوں تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بازنطینی چرچ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا: ’’اوپر کون جائے گا؟‘‘

    ’’میں جاؤں گی اوپر، جبران تم بھی ساتھ چلو۔ اور دانی تم یہاں نیچے ٹھہرنا۔ تم نے پتھر فوراً اپنے قبضے میں لینا ہے، اور کسی کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دینا۔‘‘ فیونا نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

    دانیال نے اینٹ جبران کے حوالے کر دی۔ دونوں اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دانیال چرچ کے ساتھ تنہا کھڑا رہا۔ اس نے قصبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ بہت خوب صورت ساحلی قصبہ تھا، سمندر کے کنارے سورج کی روشنی پانی پر منعکس ہو رہی تھی، جس سے ایک حسین منظر تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک شخص کنارے کی طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک بہت بڑا آکٹوپس تھا جس کی ٹانگیں ریت کو چھو رہی تھیں۔ دانیال آس پاس کے نظارے میں مگن تھا کہ اسے فیونا کی آواز سنائی دی: ’’دانی تم کہاں ہو؟‘‘

    دانیال دیوار کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گیا۔ اس نے اوپر دیکھا، ایک کھڑکی سے فیونا اور جبران کے سر باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’پیچھو ہٹو دانی، میں اسے نیچے پھینکنے والا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا اور اینٹ ہاتھ سے چھوڑ دی۔ اینٹ زمین سے ٹکراتے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دانیال نے جلدی سے ٹکڑے ادھر ادھر ہٹائے اور پھر اسے قیمتی پتھر نظر آ گیا۔

    ’’یہ تو بہت خوب صورت ہے۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پتھر اٹھا لیا۔ یہ دو انچ قطر کا پتھر تھا۔ سورج کی کرنیں اس پر پڑتے ہی پتھر چمکنے لگا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے جا کر دیکھنے لگا۔ اسے اس کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ یہ پتھر بالکل شیشے کی مانند تھا۔ اسی وقت فیونا اور جبران دوڑتے ہوئے باہر آ گئے۔

    ’’تم نے ڈھونڈ لیا اسے…. اوہ شکر ہے۔‘‘ فیونا اطمینان کی سانس لے کر بولی۔ ’’ذرا دکھاؤ مجھے۔‘‘ دانیال نے پتھر فیونا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قیمتی پتھر کے گرد صرف دو ہی دام بچھائے گئے تھے۔‘‘ فیونا بول اٹھی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوکا۔ ’’تم نے یہ کہنے میں جلدی دکھا دی ہے‘‘ یہ کہتے ہی جبران ان دونوں کو بازوؤں سے پکڑ کر بڑی تیزی سے وہاں سے کھینچا جہاں وہ کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ فیونا گھبرا گئی۔

    ’’وہ دیکھو۔‘‘ جبران نے زمین پر بکھرے اینٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ارے … یہ … یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فیونا اور دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اینٹ کے ٹکڑے مائع ہو کر بہنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے مائع ٹکڑے مل کر ایک شکل کو ترتیب دینے لگے۔ فیونا نے خوف زدہ ہو کر قیمتی پتھر جیب میں رکھ دیا اور بڑبڑانے لگی کہ یہ کیا بن رہا ہے۔ اگلے لمحے تینوں کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ وہ اپنے سامنے ایک سانپ کی شکل بنتی دیکھ رہے تھے۔ تب فیونا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی، وہ بولی: ’’یہ تو عفریت ہائیڈرا کی شکل بن رہی ہے، جبران تم بار بار اس کا ذکر کر رہے تھے دیکھو اب یہ حقیقت میں بن رہا ہے۔‘‘

    پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شکل کی جسامت بڑھ گئی۔ اس کے سر سے سانپوں کے نو سر نکل آئے، اور ہر سر میں سے پتھر جیسی زبان باہر کی طرف لپکنے لگی، اور انھیں پھنکار کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔

    (جاری ہے…)

  • اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے یہ پتے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے چلا کر بولی۔ اس نے چند اور پتے پھینکے۔ بچھو ایک دوسرے پر چڑھ کر کاٹنے لگے۔ شاید انھیں بونے پریشان کر دیا تھا۔ وہ ہمت کر کے چند قدم اندر چلی گئی۔ پھر اس نے چھت کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہاں کئی بچھو ایک دوسرے سے لٹک کر جھول رہے تھے اور ان کے ڈنک فرش کی طرف لپک رہے تھے۔ اس نے مزید پتے پھینکے اور مزید راستہ بن گیا۔ اب صرف دو قدم کا فاصلہ تھا اور اس کے پاس بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ آخرکار اس نے اینٹ پر بھی چند ٹکڑے پھینکے۔ بچھوؤں نے پیچھے کی طرف سمٹ کر اینٹ کو چھوڑ دیا۔ پتوں کی بو نے انھیں بری طرح پریشان کر دیا تھا اور وہ غیض و غضب میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے۔

    فیونا نے ڈرتے ڈرتے جھک کر اینٹ اٹھا لی اور تیزی سے مڑی۔ اس کے سامنے دروازے تک راستہ بنا ہوا تھا جس کے دونوں طرف سیاہ بچھو کلبلا رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جبران اور دانیال کے پاس پہنچ کر وہ بے اختیار گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

    ’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں نے اینٹ حاصل کر لی ہے۔‘‘ اس نے بیٹھ کر آنسو پونچھے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ جھلملانے لگی۔

    ’’مڑ کر دیکھو فیونا، اب وہ راستہ بھی نظر نہیں آ رہا، بچھوؤں نے اسے بھی ڈھک دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بچھو اس بوٹی کی بو کو برداشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔ فیونا مڑ کر دیکھنے لگی۔ اچانک جبران چیخا: ’’ہلنا مت فیونا… تمھارے بالوں میں ایک بچھو ہے۔‘‘

    فیونا کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ ’’جبران… اسے میرے بالوں سے ہٹا دو، ورنہ یہ مجھے کاٹ لے گا۔ کیا پتا اس پر کسی قسم کا جادو ہوا ہو اور میں مر جاؤں، یا اس کے زہریلے ڈنک سے میں بھی بچھو بن جاؤں۔‘‘

    ’’تم باتیں نہ کرو۔ میں لکڑی کی کوئی چھڑی ڈھونڈٹا ہوں۔ اس کے ذریعے بچھو کو گرانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ جبران بولا اور ادھر ادھر چھڑی تلاش کرنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے لکڑی کی ایک چھڑی مل گئی۔ وہ فیونا کے پاس چلا آیا۔ ’’جبران احتیاط سے… بچھو کو میرے سر پر مارنے کی احمقانہ کوشش مت کرنا۔‘‘ فیونا نے گھبرا کر کہا۔

    ’’میں بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘ جبران نے تیز لہجے میں کہا اور لکڑی کی چھڑی اس کے سر کے اوپر لے گیا۔ بچھو نے اسے محسوس کر لیا۔ اس نے ڈنک اوپر کی طرف اٹھا لیا۔ جبران نے نہایت احتیاط کے ساتھ چھڑی بچھو کے بہت قریب کر دی۔ بچھو نے اس پر ڈنک مارا اور پھر اس سے چمٹ گیا۔ جبران نے اطمینان کے ساتھ چھڑی زمین پر پھینک دی۔ فیونا نے کافی دیر سے سانس روکی ہوئی تھی، بچھو ہٹتے ہی اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ بچھو چھڑی چھوڑ کر تیزی سے خانقاہ کے اندر چلا گیا تھا۔ دانیال نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا :’’اب اس ماربل اینٹ کو کیسے توڑیں، یہ تو کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہمیں کسی ہتھوڑی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جبران نے اینٹ ہاتھ میں لے کر تولتے ہوئے کہا۔ اچانک فیونا نے خوف زدہ لہجے میں کہا: ’’ٹھہرو، تم لوگ بھول گئے ہو۔ ایک اور دام ابھی باقی ہے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہے لیکن جب اس اینٹ کو توڑا جائے گا تو تیسرا اور آخری پھندا ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘

    فیونا کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ جبران نے اینٹ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ اینٹ گھاس والی زمین پر ٹپکا کھا کر فیونا کے قدموں کے پاس رک گئی۔ ’’اوہ… تم نے اسے پھر گرا دیا، یہ دوسری مرتبہ ہے، بہت ڈرپوک ہو۔‘‘ دانیال نے اسے ٹوکا۔

    ’’وہ رہے تینوں بچے…‘‘ اچانک انھیں ایک افسر کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ خانقاہ کے اندر ہیں، ٹھہرو بچو… بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘

    ’’ہمیں اس اینٹ کے ساتھ ہی واپس ساحل پر جانا ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد ہی ہم قیمتی پتھر کو اینٹ سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور لپک کر اینٹ اٹھا لی۔ تینوں ایک بار پھر پولیس سے بچنے کے لیے دوڑ پڑے۔ پولیس اہل کار جیسے ہی خانقاہ کے قریب پہنچے ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا: ’’بچھو… ارے یہاں تو ہزاروں بچھو ہیں۔ بچوں کو جانے دو۔ ان بچھوؤں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہاں سیاح آ گئے تو کیا ہوگا؟‘‘ وہ تینوں رک گئے اور انھوں نے بچوں کا تعاقب چھوڑ دیا۔

    فیونا ایک درخت کے پیچھے سے نکل کر بولی: ’’شکر ہے، یہ خطرناک بچھو بھی ہمارے کچھ کام آئے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ پولیس اہل کار ہمارے پیچھے آنے کی پھر زحمت نہیں کریں گے۔‘‘

    تینوں سیڑھیوں کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں نکولس سے ان کا سامنا ہونے کا امکان نہیں تھا۔

    (جاری ہے….)

  • چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    "یہاں اس جزیرے پر ہم جڑی بوٹیوں کی دکان کہاں ڈھونڈیں گے، یہ تو سیاحوں کا جزیرہ ہے۔ یہاں جڑی بوٹیوں کا کیا کام؟” دانیال بولا۔ "یہاں تو نقشے، پینسل اور شیشے کے گلوب ہی ملیں گے۔ وہ اس وقت ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے نیچے قصبے کی طرف دیکھ رہے تھے: "اور تب کیا ہوگا جب نکولس سے ہمارا سامنا ہوگا؟”

    "دانی پلیز، اتنی مایوسی کی باتیں نہ کرو۔” فیونا جلدی سے بولی: "پہلے ہم دیکھ تو لیں۔ یہاں ضرور کوئی ایسی دکان ہوگی جہاں جڑی بوٹیاں فروخت ہوں گی۔ یونانی اپنے کھانوں میں جڑی بوٹیوں کا بہت استعمال کرتے ہیں اور یہاں صرف سیاح ہی نہیں مقامی لوگ بھی ہیں جو یہیں پر رہتے ہیں۔”

    وہ ساحل پر دکانوں کی پھیلی ہوئی لمبی قطار کو دیکھنے لگے۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہاں پتھریلی سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھیں۔ یہ اتنی ڈھلواں تھیں کہ ان پر نیچے اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھیں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔

    "یہاں کئی جگہ اس قسم کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، پتا نہیں یہ کس نے اور کب بنائی ہیں؟” دانیال نے تبصرہ کیا۔

    ‘کیا یہاں پتھر لا کر سیڑھیاں بنائی گئیں یا پہاڑ ہی میں تراشی گئی ہیں!” جبران حیرت سے سیڑھیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے بیٹھ کر سیڑھیوں پر انگلیاں پھیریں اور پھر بولا: "کچھ پتا نہیں، تاہم ان پر سخت محنت ہوئی ہے۔”

    نیچے اترنے کے بعد ان کی جان میں جان آ گئی۔ "اف میری ٹانگیں تو جیلی کی طرح کانپنے لگی ہیں۔ میں تو دوبارہ یہ مشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔” فیونا اپنی ٹانگوں کو جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگی۔

    "ہمیں نکولس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔” جبران بولا۔ "چلو ان بغلی گلیوں میں چلتے ہیں۔ اگر چہ دیر لگے گی لیکن ہم بے خطر وہاں پہنچ جائیں گے۔”

    چند منٹ بعد وہ دکانوں کی ایک قطار تک پہنچ گئے۔ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم نکال کر دی اور کہا: "ہم الگ الگ دکانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کو بھی جڑی بوٹی ملی، وہ خرید کر واپس اسی جگہ آئے۔” وہ تینوں الگ الگ دکانوں کی طرف چل پڑے۔

    ایک گھنٹے بعد وہ سیڑھیوں کے پاس جمع ہو گئے۔ "میں نے وہاں نکولس کو دیکھا لیکن اچھا ہوا کہ مجھ پر اس کی نظر نہیں پڑ سکی۔ وہ اب بھی بہت غصے میں نظر آ رہا تھا۔ میں سر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگا۔” دانیال نے انھیں بتایا۔

    "کیا تمھیں جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان بھی ملی یا نہیں؟” فیونا نے پوچھا۔ دانیال نے جواب دیا: "نہیں، میں جن دکانوں میں گیا وہاں صرف شرٹس اور برساتیاں ہی فروخت ہو رہی تھیں۔”

    "میں جن دکانوں میں گیا وہاں مجسمے، جھنڈے اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔” جبران نے کہا۔ فیونا نے بھی مایوسی سے سَر ہلاتے ہوئے کہا: "مجھے بھی جڑی بوٹیوں کی کوئی دکان نہیں ملی۔ اب مجبوراً ہمیں یہاں کے لوگوں سے پوچھنا پڑے گا، شاید کوئی ایسا شخص ملے جس نے اپنے باغیچے میں وہ بوٹی اگائی ہو۔ لیکن پہلے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ یونانی زبان میں لیڈی مینٹل کو کیا کہتے ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا: "کیا تم جانتے ہو؟”

    "کیوں، میں کیوں جانوں گا بھلا؟” جبران نے ماتھے پر بل ڈا ل دیے۔ فیونا مسکرائی: "اس لیے کہ تمھیں یونان کے متعلق بہت ساری معلومات ہیں۔”

    جبران نے کہا : "صرف اسے دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔”

    "تو ٹھیک ہے، ہم ایک بار پھر مختلف سمتوں میں جا کر یہاں ادھر ادھر اُگے پودوں سے پتے توڑ کر ایک گھنٹے بعد پھر یہاں ملیں گے۔ اور یہاں جبران انھیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرے گا۔” فیونا نے کہا اور ایک طرف چل پڑی۔ باقی دونوں بھی مختلف اطراف میں روانہ ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ تینوں سیڑھیوں کے پاس پھر اکھٹے ہوئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودوں کے پتے تھے۔ جبران کے ہاتھ خالی تھے۔ اس نے فیونا اور دانیال کے لائے ہوئے پتے دیکھ اور سونگھ کر کہا: ” ان میں سے کوئی بھی لیڈی مینٹل نہیں ہے۔”

    ان کے چہرے پھر اتر گئے۔ فیونا حتمی لہجے میں بولی: "تب پھر ہمیں بچھوؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ سوچنا ہوگا۔ چلو واپس خانقاہ چلتے ہیں اور پھر سے اس پر سوچتے ہیں۔”

    تینوں سیڑھیوں کی طرف منھ کر کے اوپر دیکھنے لگے۔ "میں تو ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھنا چاہتی، بس یہ آخری مرتبہ ہے۔” فیونا منھ بنا کر بولی۔

    "رک جاؤ چورو! ” اچانک ان کی سماعتوں سے چیخنے کی آواز ٹکرائی۔ "وہ رہے آفیسرز، انھوں نے میرا گدھا چوری کیا تھا۔”

    یہ آواز ان کی سماعتوں پر بم کی طرح لگی تھی۔ وہ سناٹے میں آ گئے تھے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیلی وردی میں ملبوس تین سپاہیوں کے ساتھ ان کی طرف بھاگتا آ رہا تھا۔

    "بھاگو…!” فیونا چلائی۔

    وہ سیڑھیوں سے چھلانگیں مار کر اترے۔ "اگر ہم الگ ہوئے تو خانقاہ میں ملیں گے۔” فیونا بولی اور تیر کی طرح پہاڑ کے دامن میں بنے گھروں کی طرف دوڑی۔ دانیال بھاگ کر کچھ فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اچھی طرح چھپ گیا ہے تو اس کی نظریں عین سامنے اُگے پودے پر پڑیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اس کے پتے خاکی مائل سبز تھے۔ اس میں چھوٹے زرد رنگ کے پھول بھی کھلے تھے۔ "ارے یہی پہچان ہی تو بتائی تھی جبران نے۔” مسرت سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے جلدی سے کئی شاخیں توڑیں اور پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیں۔ پھر وہ احتیاط سے جھاڑیوں سے سر باہر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دبے قدموں چلنے لگا۔ یکایک اسے نکولس کی آواز سنائی دی۔

    (جاری ہے)

  • پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔

    "میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔

    "ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”

    دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔

    "یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”

    شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”

    "بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”

    "شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”

    "جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔

    شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”

    مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”

    شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔

    (جاری ہے….)