Tag: اردو ناول

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی (اردو ویب) پر قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جس دیوار میں مطلوبہ اینٹ لگی ہوئی تھی وہ بہت خستہ ہو چکی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے اب گری تب گری۔ فیونا اینٹ کے پاس رک گئی۔ "یہ واقعی ڈھیلی ہے اور بہ آسانی باہر نکل آئے گی۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "فیونا، داموں کو مت بھولو۔” دانیال نے اسے پھر یاد دلایا۔ اس سے خاموش نہ رہا گیا تھا۔ وہ بے چینی سے فیونا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "یہ کارنر اسٹون ہے، اس پر پوری دیوار ٹھہری ہوئی ہے۔”

    "میں داموں کو بھولی نہیں ہوں۔” اس نے مڑے بغیر تیز لہجے میں جواب دیا اور اینٹ کو جھٹکے سے کھینچ لیا۔ دیوار اچانک لرز کر رہ گئی۔ اوپر سے ان کے سروں پر ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور خشک کیچڑ گرنے لگا۔ انھوں نے فوراً بازوؤں سے سر چھپا لیے۔ "یہ یقیناً پھندوں میں سے ایک ہے، اگر ہم نے اینٹ نکالی تو پوری دیوار ہم پر گر جائے گی۔” فیونا چلا کر بولی۔ دانیال نے اس کا جملہ پورا کر دیا: "اور ہم سب مر جائیں گے۔”

    ایسے میں جبران نے آئیڈیا پیش کیا: "کیوں نہ گدھے سے کام لیا جائے۔ ہم نکولس سے اس کے گدھے کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ سہ پہر کو وہ ویسے بھی آرام کرنے جائے گا۔ ہم گدھا یہاں لا کر اس سے ایک رسی باندھ لیں گے اور اس رسی کا دوسرا سرا اینٹ کے گرد لپیٹ دیں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں ایک اور اینٹ لے کر کھڑا ہوگا۔ جیسے ہی گدھا اینٹ کھینچ لے گا، وہ فوراً اس جگہ پر دوسری اینٹ رکھ دے گا۔ کیسا ہے یہ آئیڈیا؟” جبران فخر سے سینہ پھلائے ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔

    "آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھا چوری نہیں، ادھار پر لینا پڑے گا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ نکولس ہمیں اپنا گدھا ادھار دینا پسند کرے گا۔ ویسے تم دوڑ کر ساحل پر جا کر گدھا لا سکتے ہو۔ میں یہاں کھڑے ہو کر سوچوں گی کہ اور کیا کر سکتی ہوں۔” فیونا نے اسے دیکھ کر کہا۔

    "ٹھیک ہے، مجھے پیاس بھی لگی ہے، ہم چلے جاتے ہیں۔” دانیال بولا۔ فیونا نے ڈریکما کے چند نوٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "یہ لو مقامی کرنسی، کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور ہاں رسی بھی خرید کر لانا۔”

    جبران اور دانیال کے جانے کے بعد فیونا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسی کونے والی ماربل اینٹ ہی پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس نے ایک جھٹکا کھایا اور مڑ کر دیکھنے لگی۔ اس کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ قلعۂ آذر کے ایک کمرے کی چھت کے قریب ہوا میں کسی تتلی کی طرح منڈلا رہی ہے۔ نیچے میز پر ایک اعلیٰ قسم کا فیتے والا خوب صورت میز پوش نظر آ رہا تھا۔ میز پر سنہری رنگ کا شمع دان رکھا تھا جس میں گلابی رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ گل دان گیندے، سوسن اور گلاب سے بھرے ہوئے تھے، جن میں گندم کی ڈنٹھل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ میز پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے جن کی خوش بوؤں سے کمرا مہک رہا تھا۔ ماحول بے حد پر سکون تھا۔ اچانک فیونا کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر بہت سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے منقش شیشے والی کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے والوں میں بادشاہ کیگان کو پہچان لیا۔ بادشاہ نے ترشے ہوئے سفید پشم کے ساتھ سرخ عبا پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر خالص سونے کا تاج دھرا تھا جو، روبی، نیلم اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ اس کے دائیں طرف بادشاہ کی ملکہ تھی اور چند بچے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ ان سب نے شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ آتش دان کے پاس مسخرے اور شعبدہ باز کھڑے اس شاہی خاندان کو اپنے ہنر سے خوش کر رہے تھے۔ شاہی خاندان اور ان کے دوست کھانے کی میز کے گرد اکھٹے ہو گئے۔

    اچانک سارا محل خطرے کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ ملکہ نے فوراً خطرہ محسوس کر کے بچوں کو اکٹھا کیا اور کمرے سے باہر نکال کر ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اسی وقت چوبی ڈھالوں اور اسٹیل کی چمکتی تلواروں سے مسلح افراد اندھا دھند کھانے کے کمرے میں گھسے چلے آئے۔ ان کے سامنے جو بھی آیا، اسے ان حملہ آوروں نے تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فرش پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے اردگرد اس کے مہمان خون میں ڈوبے پڑے تھے۔ اسی لمحے فیونا کو کمرے کے باہر سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ ملکہ اور بچے بھی ان ظالموں سے نہیں بچ سکے۔

    یہ اتنا دل دوز منظر تھا کہ فیونا شدت غم سے سسکیاں بھرنے لگی۔ عین اسی وقت اچانک بادشاہ کیگان نے گردن موڑ کر اوپر فیونا کی آنکھوں میں دیکھا۔ یکایک تلوار چمکی اور کسی نے بادشاہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ فیونا خوف کے مارے چھت کے ساتھ دُبک گئی۔ ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے بادشاہ کیگان کی کٹی ہوئی گردن سے ہار کھینچ لیا۔ کئی اور افراد نے ملکہ اور بچوں کی لاشیں گھسیٹتے ہوئے اندر لا کر بادشاہ کے قریب ڈھیر کر دیں۔

    کمرے کو نذر آتش کرنے سے قبل ایک شخص نے شاہی خاندان کی لاشوں پر تیل چھڑک دیا۔ یہ منظر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔ فیونا اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکی اور ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں آگ کے سرخ شعلے چھت کو چھونے لگے۔

    فیونا آنکھیں کھول کر اٹھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس نے گال صاف کیے۔ وہ یہ جان کر بڑی خوش ہوئی کہ وہ محض ایک خواب تھا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ وہ تمام قیمتی پتھر حاصل کر کے انھیں جادوئی گیند پر واپس رکھ دے گی۔ وہ بڑبڑ انے لگی: "میں اپنے جد امجد بادشاہ کیگان کا اقبال مزید بلند کرنے کے لیے جادوئی گولے کو پھر سے مکمل کر کے رہوں گی۔”

    (جاری ہے….)

  • بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں ساحل پر زیتون کے ایک قدیم ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔ ان کی نگاہیں پہاڑی پر مرکوز تھیں۔ دانیال نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا: "قیمتی پتھر اسی علاقے میں ہوگا، یہ ساحل اتنا پھیلا ہوا نہیں ہے۔”

    "یہ کتنا پیارا منظر ہے۔ وہ دیکھو، آرٹسٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔” جبران نے چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو ایزل کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

    "ہاں، میں اور بھی بہت کچھ دیکھ رہی ہوں۔ بہت سارے لوگ فوٹو گرافی کررہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ سیاح ہوں گے۔” فیونا بے زاری سے بولی۔

    "میرے خیال میں یہ لوگ کلینڈر کے لیے فوٹو گرافی کر رہے ہیں۔” جبران نے سر کھجایا۔ "میری ممی نے گھر کے لیے ایک کلینڈر خریدا تھا، اس پر یونان کی تصاویر تھیں لیکن وہ اس ساحل کی نہیں تھیں۔ میرے خیال میں وہ سنتارینی کی تصاویر تھیں۔”

    فیونا نے گائیڈ بک کھول لی جو وہ خرید کر لائے تھے۔ "مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کہیں قریب ہی ہیں۔” فیونا کسی سوچ میں گم بولی۔ دانیال اٹھ کر آرٹسٹ کے قریب چلا گیا۔ جبران نے بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیں اور چند لمحوں بعد وہ تنے سے ٹیک لگا کر نیند کی دنیا میں کھو چکا تھا۔ فیونا نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ اونگھنے لگی اور اسی عالم میں اس نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز میدان میں کھڑی ہے۔ ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ ہے اور زیتون کا ایک درخت کھڑا ہے۔ اسی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ اس نے جلدی سے جبران کو جگایا اور دانیال کو بھی آواز دی۔ "جلدی آؤ، میں نے جان لیا ہے کہ قیمتی پتھر کہاں ہے۔” جبران نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا: "میں بہت میٹھی نیند میں تھا، تم کیا کہہ رہی ہو؟”

    "میں کہہ رہی ہوں کہ پتھر جس جگہ موجود ہے میں وہ جگہ جانتی ہوں۔ اس تصویر کو دیکھو۔” فیونا نے گائیڈ بک آگے کر دی۔ "یہ سینٹ الیگزینڈر چرچ ہے، یہ سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں سے ایک یا دو میل دور واقع ہے۔ چلو اپنا اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    دانیال ہنسا۔ "ہمارے پاس سامان کہاں سے آگیا، چلو ہم تیار ہیں۔” تینوں ساحل چھوڑ کر شہر کی طرف چل پڑے۔ فیونا بولی: "دیکھو خیال رکھنا، ہم شہر کے اندر جا رہے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ ہم کہیں راستہ بھٹک جائیں۔”

    وہ ایک سیدھ میں چلنے لگے۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبران چونک اٹھا۔ "یہ تو کھنڈرات ہیں فیونا، پتا نہیں کتنے قدیم ہیں۔”

    "گائیڈ بک کے مطابق اس کی تعمیر 1200 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔” فیونا کتابچہ کھول کر دیکھنے لگی۔ "یہ تو واقعی بہت قدیم ہیں۔ اپنے وقت میں یہ بلاشبہ بہت خوب صورت تعمیر رہی ہوگی۔” اس نے کتابچہ بند کر دیا۔ جبران نے اچانک ایک خطرناک بات یاد دلا دی: "فیونا کیا تمھیں یاد ہے کہ انکل اینگس نے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا تھا کہ پتھر کے آس پاس تین پھندے بچھائے گئے ہیں۔ پتا نہیں یہ کس قسم کے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ خانقاہ کے اندر شیر ہو، یا سانپوں والے سروں کا عفریت ہائیڈرا۔” جبران کی آواز میں انھوں نے خوف کی جھلک واضح محسوس کی۔

    جب وہ خانقاہ کے قریب پہنچے تو فیونا نے کہا: "میں نہیں سمجھتی کہ یہ قلعۂ آذر سے زیادہ خوف ناک جگہ ہوگی۔ یہاں روشنی ہے۔ میرے خیال میں خانقاہوں میں بھوت نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔”

    دانیال فیونا سے کتابچہ لینے کے بعد اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ آخر کار اس نے کتابچہ بند کر کے پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیا اور کہا: "کتابچے میں لکھا ہے کہ یہاں بھی کہیں پر منقش شیشے کی کھڑکی موجود ہے، جیسا کہ قلعۂ آذر میں تھی۔ یہاں اور بھی پچی کاری کے کام کی یادگاریں موجود ہیں۔”

    دونوں اس کی بات سن کر مڑے اور اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا: "دانی کیا تم نے نہیں سنا، ہم نے ابھی کیا باتیں کیں؟” دانیال کے چہرے پر حماقت کے تاثرات چھا گئے، اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ جبران بے بتایا: "ہم نے کہا کہ اگر یہاں پھندے کے طور پر کوئی عفریت ہوا تو…”

    "جبران! غلط بات ہے۔ اسے کیوں ڈرا رہے ہو۔ خانقاہ میں کوئی عفریت نہیں ہے، آؤ میرے ساتھ۔” فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور اندر داخل ہو گئی۔ "واؤ، پتھر تو ماربل کے لگ رہے ہیں، یہ گرینائٹ کے نہیں ہیں۔ بہت شان دار۔”

    "ہاں اچھے ہیں۔” جبران نے کوشش کی کہ اس کے لہجے سے خوف ظاہر نہ ہو، لیکن یہ سچ تھا کہ ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ انھوں ںے دیکھا کہ خانقاہ کی کئی دیواریں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور اینٹیں فرش پر بکھری پڑی تھیں۔ دانیال اچانک پرجوش ہو کر چیخ جیسی آواز میں بول اٹھا: "وہ دیکھو، منقش شیشے کے ٹکڑے بھی پڑے ہیں۔” فیونا اور جبران کی نگاہیں خانقاہ کے دور کے ایک کونے پر پڑیں۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا کھڑا تھا۔ نظریں ملتے ہی فیونا اخلاقاً مسکرائی اور جبران کے قریب ہو کر سرگوشی کی: "قیمتی پتھر ماربل کی ان ہی اینٹوں میں سے کسی ایک کے اندر ہے۔”

    "تم کیسے جانتی ہو یہ؟” جبران نے ماربل کی اینٹوں پر نظریں جما دیں۔ فیونا تفصیل بتانے لگی: "بس جانتی ہوں۔ جس نے قیمتی پتھر ماربل اینٹ میں چھپایا تھا، اس نے اس کے لیے کوئی طریقہ بھی ظاہر ہے کہ ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے جب آنکھیں بند کی تھیں تو اسے صاف طور سے ماربل کی اینٹ میں دیکھا تھا۔”

    "لیکن یہاں تو ہزاروں ماربل اینٹیں ہیں فیونا، ہم کیسے جانیں گے کہ پتھر کس اینٹ میں ہے؟” دانیال نے پریشان ہو کر کہا اور ایک ٹوٹی اینٹ اٹھا لی۔ "یہ تو خاصی چمک دار ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”

    "ماربل کی اینٹ اس جگہ پر ہے جہاں وہ نوجوان جوڑا کھڑا ہے۔ جب وہ جائے گا تو ہم وہاں جا کر اسے ڈھونڈیں گے۔” فیونا نے کہا اور ٹوٹے ماربل کے ایک بڑے ٹکڑے پر بیٹھ کر ہاتھوں کے پیالے میں ٹھوڑی رکھ لی۔ اس کی نگاہیں نوجوان جوڑے پر گڑی ہوئی تھیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ جوڑا کچھ بے چینی محسوس کر کے باہر چلا گیا۔ "اوہ شکر ہے وہ چلے گئے۔” جبران نے اچانک چھلانگ ماری اور اس جگہ کی طرف دوڑ پڑا۔ فیونا چلا کر بولی: "خبردار جبران، یہاں کوئی دام بھی بچھا ہو سکتا ہے۔”

    دانیال نے کہا: "ہاں کوئی دیوار بھی گر سکتی ہے جس کے نیچے دب کر ہم سب مر سکتے ہیں۔ کیا پتا یہاں نیچے انتہائی زہریلے چھوٹے سانپ بھی ہوں۔”

    "میں جانتا ہوں۔ وائپر اور ایسپ ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔” جبران رک کر مڑا اور سانپوں کے متعلق اپنی معلومات جھاڑیں۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "اوہ دانی، اتنا ڈرامائی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم ڈرتے ہو تو باہر جا کر ہمارا انتظار کرو۔”

    "ٹھیک ہے، میں چپ رہوں گا۔” دانیال نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیے اور ماربل کی اینٹوں کو گھورنا شروع کر دیا۔ فیونا اس کے سامنے سے گزر کر کونے کے قریب جا کر بولی۔ "پتھر اس اینٹ کے اندر ہے، یہ جو بالکل کونے میں لگی ہوئی ہے۔ میں جا کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہوں، یہ مجھے ڈھیلی لگتی ہے۔”

    (جاری ہے…)

  • اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے خود کو یونانی جزیرے ہائیڈرا پر بحر ایزن کے کنارے پایا۔ اینگس کمرے میں بُت بنے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں چند لمحے قبل ان کی بھتیجی اور اس کے دوست کھڑے تھے اور اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں ایک دَم سے بڑھ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں فکر اور اندیشوں کی بے شمار لہریں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    سر کا چکرانا بند ہوا تو فیونا بولی۔ "آہا… ہم یہ کہاں آ گئے ہیں؟”

    وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ "ارے مجھے یاد آیا، میں اسے پہچان رہی ہوں، یہ جگہ تو میں اور میری ممی نے پرسوں رات کو خواب میں دیکھی تھی۔ کتنا عجیب ہے نا!”

    "یہ پانی دیکھو، کتنا نیلا ہے اور یہ آسمان بھی۔” دانیال بولا۔ اس بات پر جبران کے ساتھ ساتھ فیونا بھی حیرت کے مارے اچھل پڑی۔ "کک … کیا … ابھی تم نے کیا بولا تھا؟” فیونا تیزی سے اس کی طرف مڑنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

    دانیال جھجکنے لگا۔ "مم … میں سمجھا نہیں، میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ یہ پانی اور آسمان کتنے نیلے ہیں۔”

    "ارے دانی، تم سمجھے نہیں، ابھی تم نے جو کہا اسے میں نے آسانی سے سمجھ لیا ہے، جبران نے ترجمہ نہیں کیا۔” فیونا نے کہا۔ "اوہ، یہ…یہ کیسے ہو سکتا ہے۔” دانیال بھی اچھل پڑا۔ "میں بھی آسانی سے تمھاری باتیں سمجھ پارہا ہوں اب۔”

    "یہ تو معجزہ ہو گیا۔” جبران بے اختیار بولا۔

    "یہ جادو ہے۔” فیونا ایک دم بول اٹھی۔ سب سناٹے میں آ گئے۔ "تو کیا ہم جادو والے علاقے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ تب تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔” فیونا کے لہجے میں تشویش تھی۔

    انھوں نے ساحل پر چلتے ہوئے اپنے سامنے پھیلے منظر کو دیکھا۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سفید گھر دھبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ اتنا خوب صورت منظر تھا کہ وہ مسحور ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ تاحد نظر پھیلے ہوئے سبزے پر خوش رنگ پھول کھل کر لہلہارہے تھے۔ گل نسترن، سوسن اور گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے رنگ رنگ کے پھول وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ فیونا بڑبڑا کر بولی۔ "ایسے پھول تو میں نے اسکاٹ لینڈ میں کبھی نہیں دیکھے۔”

    "تم لوگوں کو صرف پھول ہی نظر آ رہے ہیں۔” اچانک دانیال بولا "ان گدھوں کو بھی تو دیکھو۔”

    وہ گدھوں کی طرف دیکھنے لگے لیکن جبران نے ایک اور طرف توجہ دلا دی۔ "یہاں کوئی کار نظر نہیں آئی، کسی سائن بورڈ پر یونانی زبان کی تحریر بھی دکھائی نہیں دی۔”

    "لیکن تم یہ کیسے پہچانو گے کہ یہ یونانی زبان کی تحریر ہے؟” فیونا نے حیرت سے ناک پر انگلی رکھ دی۔ جبران مسکرا کر بتانے لگا "ہم نے اسکول میں پڑھی ہے، آخری چند ہفتوں میں ہم نے یونانی جزائر کے متعلق پڑھا تھا۔ ہم ایک جزیرے ہائیڈرا کے متعلق بھی پڑھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی جزیرۂ ہائیڈرا ہے۔ ہاں وہ دیکھو، وہ سائن بورڈ یونانی زبان میں لکھا ہوا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کیا لکھا گیا ہے۔”

    "ایک مسئلہ ہے، ہم یونانی نہیں جانتے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہم کس طرح گفتگو کریں گے؟” فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔

    "یہ ایک سیاحتی مقام ہے فیونا، یہاں لوگ ضرور انگریزی بولتے ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا۔ تینوں ساحل کے قریب آبادی کی طرف بڑھنے لگے۔ "تم ٹھیک کہتے ہو۔” فیونا کہنے لگی۔ "یہ یونان ہے، بالکل کسی تصویری پوسٹ کارڈ کی مانند۔ اب ہمیں سب سے پہلے اپنے پاس موجود رقم یونانی کرنسی میں تبدیل کروانی ہے۔ ویسے یونانی کرنسی کو کہتے کیا ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا۔

    "ڈریکما کہتے ہیں…لیکن کیا تم یہ سوچ رہی ہو کہ وہ ہمیں پیسے دے دیں گے؟ ہمارے پاس کوئی شناخت اور پاسپورٹ تک نہیں۔” جبران نے جواب دیا۔

    "میں جلدی سے بہانا بنا دوں گی کہ میرا پاسپورٹ والدین کے پاس رہ گیا ہے، اور وہ تفریح کے لیے نکل گئے ہیں، اب ہمیں لنچ لینا اور پیسے نہیں ہیں۔” فیونا بولی۔ وہ خود کو ایک دم بہادر محسوس کرنے لگی۔ "یہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔ یہاں واقعی کوئی کار، بس، موٹر سائیکل حتیٰ کہ سائیکل بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو جہاں بھی جانا ہو، انھیں پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔”

    "یا پھر گدھوں پر سواری کرتے ہوں گے۔” دانیال بولا۔ "وہ دیکھو ایک بوڑھا گدھے پر سوار ہے۔”

    "میرے خیال میں گدھوں سے بدبو آتی ہوگی، میں تو ان پر سواری نہیں کرنا چاہوں گی۔” فیونا نے ناک سکیڑ کر کہا۔

    "یہاں ہر طرف چرچ، خانقاہیں، اور محرابی راستے ہیں۔ ہمیں کوئی نقشہ خریدنا ہوگا تب ہی ہم راستہ ڈھونڈ سکیں گے۔ وہ رہی سیاحوں کی دکان، وہاں نقشے ضرور ملتے ہوں گے۔” جبران نے کہا۔

    "ہاں، لیکن پہلے مجھے بینک جانا ہوگا۔” فیونا بولی۔ "بینک بھی سامنے ہے، تم دونوں باہر ٹھہرنا۔ میں اکیلے اندر جاؤں گی۔ انھیں روتے ہوئے ایک دکھ بھری کہانی سناؤں گی۔ اگر وہ نہیں مانے تو پھر تم دونوں نے کوشش کرنی ہوگی۔”

    یہ کہ کر وہ اندر چلی گئی۔ چند ہی منٹ بعد وہ باہر نکلی تو دونوں چونک اٹھے، فیونا رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچے۔ "کک … کیا ہوا فیونا، تم کیوں رو رہی ہو؟” جبران گھبرا کر بولا۔ لیکن فیونا نے یکایک قہقہ لگایا اور پھر ہنسنے لگی۔ "ارے یہ تو جعلی آنسو ہیں، دیکھا ان کی طرح تم بھی دھوکا کھا گئے۔” اس نے یونانی کرنسی ڈریکما کے نوٹ ان کے سامنے لہرائے۔

    "اوہ… فیونا، تم تو زبردست اداکارہ ہو۔” دانیال حیرت سے بولا۔ وہ واقعی اس کی صلاحیت سے متاثر ہوا تھا۔ فیونا اس کی طرف دیکھ کر جھینپ گئی اور بولی "میں نے کبھی اداکاری نہیں کی۔ دانیال نے بے اختیار کہا کہ تم خداداد صلاحیتوں کی مالک ہو اور فیونا نے شرما کر شکریہ ادا کیا۔

    وہ تینوں سیاحوں کی ایک دکان کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو گئے، وہاں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا۔

    (جاری ہے….)

  • چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    سورج کی نرم گرم شعاعیں نیزوں کی طرح کھڑکی سے اندر داخل ہو کر فیونا کو جگانے لگیں۔ وہ کسمسا کر اٹھی اور کھڑکی کے پار لہلہاتے پھول دیکھنے لگی۔ یکایک وہ چونک اٹھی۔ "ارے آج تو ہفتہ ہے۔” اچھل کر بستر سے اتری۔ منھ ہاتھ دھو کر مستعدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور بدل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی ممی مائری گاجر دھو رہی تھیں۔ فیونا میز کے سامنے بیٹھ گئی۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس ایک منٹ، میں کچھ نہ کچھ دے دوں گی ابھی۔ دراصل آج میں نے باغیچے سے یہ تازہ گاجر نکالے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے آج رات کے کھانے میں شلجم اور بروسل کی کونپلیں بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ تمھیں یہ ننھے ننھے گوبھی تو پسند ہی ہیں۔ قیمہ اور آلو کا بھرتہ شلجم اور بروسل کے کونپلوں کے ساتھ کیسا رہے گا؟”

    "آپ جانتی ہیں ممی، مجھے قیمہ اور آلو کا بھرتہ پسند ہیں۔” فیونا بولی۔ "لیکن اس وقت تو میں صرف سیریل ہی کھاؤں گی۔ میں اپنے نئے دوستوں سے ملنے جاؤں گی۔ ہم سارا دن ساتھ کھیلیں گے اس لیے ممی مجھ سے کچھ زیادہ توقع نہ رکھیں آج۔”

    "ہاں، آج ہفتہ ہے، کھیلنے کا دن ہے، چلو یہ اچھا ہے۔ میں بھی بیکری میں آج دیر تک کام کروں گی۔ جانے سے پہلے میں ‘پرفیکٹ بی’ سے شہد بھی لوں گی۔” مائری نے دھلے گاجر ایک طرف پڑے شلجموں کے پاس ہی رکھ دیے اور گیلے ہاتھ ایک کپڑے سے خشک کرنے لگیں، پھر بولیں۔ "میرے خیال میں سیریل پڑ ا ہوا ہے، بس ابھی دیتی ہوں۔”

    "اوہ ممی، آپ کتنی اچھی ہیں، سچ بتاؤں آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ جبران کے والدین کی طرف جائیں، وہ آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ مسٹر تھامسن، جنھیں آپ نے بھیجا تھا، وہ بھی جبران کے پاپا کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ یہ ننھے ننھے گوبھی بروسل بھی لے جائیں۔ یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے ممی کہ مجھے بھی نئے دوست مل گئے ہیں اور آپ کا تعلق بھی دفتر سے نکل کر گھر تک پھیل گیا ہے، ہماری دوستی کی وجہ سے آپ کو بھی دوست مل گئے ہیں۔ ”

    "اوہ میری پیاری بیٹی، خدا تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔” مائری نے جذباتی ہو کر فیونا کا ماتھا چوم لیا۔ فیونا مسکرانے لگی۔ ناشتہ کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور برتن بیسن میں رکھ دیے۔ "ممی، میں واپس آ کر انھیں دھو لوں گی، مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔”

    اس نے ممی کے گال پر بوسہ دیا اور دوڑتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔ جبران اور دانیال اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اینگس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بنے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    "بڑی دیر کر دی تم نے، دس منٹ لیٹ ہو۔” جبران نے کہا۔

    "دراصل آنکھ ہی دیر سے کھلی، میں بہت گہری نیند سوئی رہی۔”

    تینوں تیز تیز قدموں سے اینگس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک پر وہ باہر نکلے، انھوں نے دیکھا اینگس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں اور چہرہ بھی دھلا نہیں ہے۔ فیونا نے صبح بخیر کہتے ہی کہا "انکل کیا آپ سوئے نہیں؟”

    "دراصل میں ساری رات جاگ کر یہ کتاب پڑھتا رہا، تم لوگ اندر آ جاؤ، میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کتاب میں کیا پایا، سب کچھ حیرت انگیز اور جوش میں ڈال دینے والا ہے، چلو آؤ اندر۔”

    وہ اندر داخل ہوئے تو اینگس نے پوچھا کیا تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اینگس بولے کہ میں نے تو نہیں کیا لیکن میں چند بسکٹ ہی کھاؤں گا۔ جبران نے کہا صرف بسکٹ تو کوئی بہتر ناشتہ نہیں ہے، کیا آپ کے پاس سیریل یا انڈے نہیں ہیں۔ جبران نے گھر میں چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔ "کیا دودھ والا روزانہ دودھ نہیں لاتا، اور ریفریجریٹر بھی نہیں ہے کیا؟”

    اینگس نے چشمہ اپنے ہاتھ سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ "آتا ہے، دودھ والا بھی آتا ہے، اور انڈے بھی آتے ہیں، مگر میں اسے پچھلے کمرے میں رکھ دیتا ہوں۔ وہ کافی ٹھنڈا رہتا ہے اس لیے مجھے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب میرے گھر میں پنیر بھی آتا ہے تو وہ بھی وہیں اس کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ مجھے کبھی اس سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چلو تم لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے تمھیں بہت کچھ بتانا ہے۔” یہ کہ کر اینگس خود بھی ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔

    "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے درمیان سے کسی نے چند اوراق پھاڑ دیے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کتاب محفوظ ہے۔ میں نے اس میں بہت ساری دل چسپ باتیں پڑھی ہیں، اس کتاب میں ایک قسم کا منتر بھی ہے۔ یہ ایسا منتر ہے جو بادشاہ کیگان کے کسی وارث کو ان جگہوں پر پہنچا سکتا ہے جہاں جادوئی ہیرے چھپائے گئے ہیں۔”

    تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اینگس نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگے۔ "کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کیگان ابھی فلسطین جانے کا منصوبہ ہی بنا رہا تھا کہ اس کے بارہ آدمی ہیرے چھپا کر کہیں چلے گئے اور بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ راز انھی کے ساتھ ہی رہا کہ ہیرے کہاں کہاں چھپائے گئے ہیں۔ بہ قول آل رائے کیتھ مور جب بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور قلعے کو نذر آتش کیا گیا، تو وہ کئی برسوں تک غائب رہا۔ دراصل وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ان بارہ آدمیوں کو تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان سے جہاں تک ممکن ہو سکا واقعات کی تفصیل جمع کر لی۔ ذرا سوچو، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ کئی برس بعد لوٹا اور یہ ساری تفصیل کتاب میں درج کر دی۔ اس میں ایک ہار کا بھی ذکر ہے جس کے بارہ کونے ہیں اور وہ کسی ستارے کی شکل میں ہے۔ اس کا ہر کونا ایک ایک آدمی اور ہیرے کا نمائندہ ہے، دیکھو اس کی تصویر۔”

    اینگس آگے کی طرف جھک کر اس کی تصویر دکھانے لگے۔ "یہ تو بالکل ویسی ہی تصویر ہے جیسی کہ ہم نے منقش شیشے پر دیکھی تھی۔” جبران حیران ہو کر بولا۔ "فیونا نے اس کی تصویر بھی اتاری ہے۔”

    "یہ کوئی معمولی ہار نہیں۔” اینگس بتانے لگے۔ "رالفن کے جادوگر لومنا نے یہ ہار اسی وقت ہی بنوایا تھا جب وہ جادوئی گولا بنوا رہا تھا اور یہ بھی ایک ہی سونے سے بنایا گیا تھا۔ اس نے بارہ اصلی ہیروں سے چاندی لے کر اسے ہار میں استعمال کیا۔ جب دوگان کے آدمیوں نے بادشاہ کیگان کو جان سے مار دیا تو انھوں نے اس کے گلے سے یہ ہار بھی کھینچ کر نکالا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ دوگان نے اسے پہنا اور پھر اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں نے اسے اپنے گلے کی زینت بنایا۔”

    (جاری ہے….)

  • بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "ضروری نہیں ہے۔” اینگس نے سر ہلایا۔ "گہری زیتونی جلد اور بال ہسپانویوں سے بھی ملائے جا سکتے تھے۔ بہرحال یہ بڑی عجیب بات ہے۔ ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں لوگ کسی کے آبا و اجداد سے اتنی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، جتنی کہ چند صدیوں بعد ان میں اس کا رواج پڑا۔ بہرحال، اسکاٹس نے ان کے آبا و اجداد کو صدیوں سے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ بادشاہ دوگان کا تعلق بھی اسی شیطان قبیلے سے تھا جس سے بادشاہ بارتولف وابستہ تھا۔ وہ بھی انتہائی ظالم اور مکار تھا۔ اس کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، نام تھا اس کا پہلان۔ یہ سلطنت کے لوگوں کو ڈرانے کے لیے اپنا جادو استعمال کرتا تھا۔ یہ پہلان ہی تھا جس نے آخر کار بادشاہ کیگان کو شکست دے دی۔ اس نے کیگان پر بھی جان لیوا حملہ کیا لیکن وہ بچ کر نکل گیا۔ دوگان وہی گولا حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں جادو کے کئی اسرار پوشیدہ تھے۔ تب تک پوری دنیا میں جادوئی گولے کی شہرت پھیل چکی تھی۔ گرمیوں کی ایک صبح کو دوگان کے آدمیوں نے کیگان کی سرزمین پر حملہ کر دیا۔ وہ کیگان خاندان میں سے تو کسی کو نہ مار سکے البتہ اس کی دو بیٹیوں ازابیلا اور آنا کو اٹھا کر لے گئے۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
    "کتنی عجیب کہانی ہے۔” فیونا آنکھیں سکیڑ کر بولی۔ "کیا واقعی اس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے؟”

    "ہاں، میں اسے لفظ بہ لفظ پڑھ رہا ہوں۔ کئی برسوں تک اس کے اور اس کے خاندان کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہا۔ پھر یہ بہت برا ہوا کہ ایک رات وہ اپنا تمام خزانہ، با اعتماد افراد، خاندان اور تاریخ نویس کو لے کر کہیں غائب ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ کیگان نے سب کو نظروں سے غائب کر دیا تھا۔ انھیں پھر کسی نے نہیں دیکھا۔ چوں کہ وہ ایک نیک دل بادشاہ تھا اس لیے اس نے اپنی رعایا کے لیے کافی خزانہ چھوڑا، تاکہ وہ آرام سے گزر بسر کر سکیں۔ اگرچہ وہ پھر اپنی رعایا کو نہ دیکھ سکا لیکن ہمیشہ ان کا دردمندی سے ذکر کرتا رہا۔ پھر جب وہ عرب کے جنوبی ساحل کے نخلستان میں پہنچ کر خود کو محفوظ سمجھنے لگا تو اس نے تمام ہیرے نکال کر اپنے بارہ انتہائی قابل اعتماد خدمت گزاروں کو دیے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بارہ جاں نثار اپنی جانیں قربان کر دیں گے لیکن بادشاہ یا قوم پر کسی قسم کی مصیبت نہیں آنے دیں گے۔ پھر بادشاہ کیگان نے انھیں دنیا کے بارہ مختلف مقامات کی طرف بھیجا اور کہا کہ ان ہیروں کو وہاں چھپا دو۔ کیگان نے انھیں ان دور دراز، اور سنسان علاقوں کے نام بھی بتا دیے، جہاں انھیں ہیرے چھپانے تھے۔ یہ جگہیں بادشاہ کو اس کے جادوگر زرومنا نے بتائے تھے۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ وہ دس سال کے عرصے میں ان سے فلسطین میں ملیں۔ ہیرے خود سے دور کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کے پاس جادوئی قوتیں نہیں رہی تھیں، لیکن وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ جادوئی گولا اور ہیرے دوگان کے قبضے میں چلے جائیں۔”

    "دس سال…. یہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔” فیونا بولی۔

    "ہاں، لیکن بادشاہ نے انھیں دور دراز علاقوں میں بھیجا تھا اور پھر سواری بھی نہیں تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ گھوڑوں پر سفر کر سکتے تھے۔ بہرحال اپنے آدمی بھیجنے کے بعد اس نے شمالی اسکاٹ لینڈ کی طرف سفر شروع کیا اور یہاں قلعہ آذر تعمیر کرکے رہنے لگا۔ قلعے میں آنے کے بعد اس کے اور ملکہ سرمنتا کے کئی بچے پیدا ہوئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ کئی سال بعد جادوگر پہلان نے آخر کار اپنے جادو کے ذریعے یہ معلوم کر لیا کہ بادشاہ کیگان کہاں چھپا ہوا ہے، چناں چہ دوگان نے اپنے آدمیوں کو ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ کیگان نے اپنی سلطنت سے نکلتے وقت تاریخ نویس کو بھی ساتھ لیا تھا، چناں چہ اس نے بادشاہ کے حکم پر یہ سارے واقعات اس کتاب میں قلم بند کر دیے۔ حتیٰ کہ ہیرے جہاں جہاں چھپائے گئے تھے، ان جگہوں کے نام بھی لکھوا دیے۔ بادشاہ کی طرف سے تاریخ نویس آل رائے کیتھمورکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کے بغیر کہیں بھی نہیں جائے گا۔ یعنی وہ جہاں بھی جائے گا کتاب اپنے ساتھ لے کر جائے گا۔ چناں چہ ایک دن وہ مچھلی کا شکار کرنے جھیل کنارے گیا، وہاں بیٹھے بیٹھے اسے نیند آ گئی اور وہ سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ قلعے سے دھواں نکل رہا ہے۔ وہ گھبرا کر قلعے کی طرف دوڑا، لیکن وہاں اسے دہشت ناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ بادشاہ کیگان اپنے خاندان سمیت خون میں لت پت پڑا تھا۔ حتیٰ کہ دوگان کے آدمیوں نے معصوم بچے کو بھی نہیں چھوڑا۔ تمام قلعے کو تباہ و برباد کر کے دوگان کے آدمیوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا لیکن ہیروں کے بغیر۔ دوگان نے جادوئی گیند غصے کے عالم میں فرش پر دے مارا، کیوں کہ وہ کسی کام کا نہیں تھا۔ تاریخ نویس یہ دیکھ کر سخت گھبرا گیااور کتاب لے کر کہیں دور چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ پھر لوٹا اور یہ کتاب ایک صندوق میں بند کر کے اسے قلعے کے خفیہ کمرے میں رکھ دیا، اور پھر اسے لومنا جادوگر کی میز کے ساتھ آتش دان کے پیچھے دھکیل دیا۔ لو، یہاں تو میز کا مسئلہ بھی حل ہو گیا، کیا تم لوگوں نے وہاں جادوئی گیند بھی دیکھی تھی یا نہیں؟”

    کہتے کہتے اینگس نے ان کی طرف دیکھا۔ فیونا کو اب یقین آنے لگا تھا کہ اس کے انکل جو بتا رہے تھے وہ غلط نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا۔ "ہم نے کوئی گیند وہاں نہیں دیکھی لیکن ہم وہاں دوبارہ جا کر اسے تلاش کرسکتے ہیں۔ وہ شاید خفیہ کمرے میں دیگر چیزوں کے ساتھ پڑی ہوگی۔ وہاں اندھیرا تھا اس لیے ہم نہیں دیکھ سکے، اس مرتبہ ہم فلیش لائٹ ساتھ لے کر جائیں گے۔”

    "تو کہانی ختم ہو گئی، انکل اینگس؟” جبران نے بے چینی سے پہلو بدل کر پوچھا۔ "چند باتیں اور۔” اینگس نے طویل سانس کھینچا۔ "آل رائے کیتھمور یہ کتاب اپنے ساتھ لیے پھرنے سے بہت خوف زدہ تھا، اسے دوگان اور پہلان جادوگر کا ڈر تھا، لیکن اسے سارے واقعات اس میں لکھنے بھی تھے، اس لیے وہ اسے ساتھ لیے پھرتا رہا۔ اب تم لوگوں کو یہ کتاب ملی ہے۔ اس میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ کیگان کی بیٹیوں ازابیلا اور آنا کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں اس میں یہ ضرور لکھا ہے کہ جادوئی گولے کو صرف کیگان ہی کی اولاد استعمال کر سکتی ہے۔ جادوگر نے اسے بنایا ہی کچھ اس طرح تھا کہ اگر یہ دوگان جیسے دشمنوں کے ہاتھ لگ بھی جائے تو کسی کام کا نہ ہو۔ چناں چہ یہ عین ممکن ہے کہ ازابیلا اور آنا کو زندہ رکھا گیا ہو، اور ان کی اولاد بھی رہی ہو۔”

    "اگر ہم اسی وقت روانہ ہوں، تو ہم قلعۂ آذر پہنچ کر شام سے پہلے پہلے واپس آ سکتے ہیں۔” فیونا نے اچانک جبران اور دانیال کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ دونوں چونک اٹھے۔ اینگس نے کتاب بند کر کے آرام کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "یہ پوری کہانی ایک عجوبہ ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں تم لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ حالاں کہ ابھی مجھے اس سارے معاملے کے بارے میں مکمل علم حاصل نہیں ہوا ہے تاہم مجھے یہ معاملہ کچھ شیطانی لگ رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا خیال ہے کہ تم لوگ قلعہ جا کر گولا ڈھونڈو۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ گولا کسی درست شخص کے ہاتھوں میں ہو تو یہ شیطانی قوتوں کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔”

    اینگس نے الماری سے بسکٹ نکال کر انھیں دیے اور کہا "اچھا، اب تم لوگ جاؤ اور محتاط رہو۔”

    "ٹھیک ہے انکل، شکریہ۔” تینوں اینگس کے گھر سے نکلے تو اینگس نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔

    (جاری ہے….)

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)

  • دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "شہنشاہ رالفن نے لومنا کو اپنا جادوگر بنا لیا لیکن وہ اسے صرف اچھے کاموں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جنگوں میں بھی جادوگر مدد کے لیے آگے آتا لیکن رالفن اسے منع کر دیتا۔ بادشاہ لومنا سے دو مواقع پر مدد لیا کرتا تھا؛ ایک جب اسے اپنی رعایا کی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا تھا، دوم جب اچانک قحط پڑ جاتا تھا۔ قحط کی صورت میں بادشاہ لومنا کو غذا کی فراہمی کے کام پر لگا دیتا تھا۔ ایک جنگ کے دوران رالفن شدید زخمی ہو گیا۔ لومنا کو اپنے بادشاہ سے بہت پیار تھا، اور وہ اس کا شکر گزار بھی تھا، اس نے بادشاہ کی جان بچا لی۔ جب رالفن صحت یاب ہو گیا تو لومنا نے عرض کیا کہ وہ انھیں ایک خاص تحفہ دینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا، اور ساری دنیا میں گھوم پھر کر بارہ ہیرے جمع کیے۔ پھر ایک سنار سے کہہ کر ایک سنہری گیند بنوائی، ایک ایسی گیند جس پر یہ بارہ ہیرے رکھنے کی جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ باتیں اس نے بہت راز میں رکھیں۔ ان میں سے ہر ہیرا رالفن کی ایک ایک بیوی کے لیے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے ہر حال میں بارہ ہی ہیرے جمع کرنے ہیں کیوں کہ رالفن اپنی تمام بیویوں کو بہت چاہتا تھا، یہ اور بات تھی کہ اس کی بیویاں حسد میں مبتلا تھیں۔ ہر ایک خود کو زیادہ اہم ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوتی تھی۔ یہاں ان بیویوں کی فہرست بھی دی ہوئی ہے، کیا آپ لوگ اسے سنا پسند کریں گے؟”

    اینگس نے ٹھہر کر ان کی جانب دیکھا۔ فیونا کو ان بیویوں کے ناموں میں دل چسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اس نے دیکھا کہ خود اینگس کے چہرے پر جوش کے آثار چھائے ہوئے ہیں، تو اس نے بے دلی سے کہا۔ "جی انکل سنائیے۔” وہ اینگس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھی کہ اینگس کو کتاب میں دی ہوئی معلومات میں بے حد دل چسپی محسوس ہو رہی ہے۔ اینگس سنانے لگا۔ "ان میں ہر بیوی دنیا کے مختلف علاقے سے آئی ہوئی تھی، اور رالفن کی پہلی بیوی کا نام پولا تھا، وہ پونِک تھی۔”

    "پونِک… اس کا کیا مطلب ہے؟” جبران نے ناک کھجائی۔

    "اس کا مطلب ہے کہ پولا ہیڈرمیوٹم سے آئی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو اس وقت دونوں کی عمر صرف بیس سال تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ رالفن یا تو بورل سے وہاں گیا تھا یا پھر وہ کسی دور میں وہاں رہا ہوگا۔ جو لوگ کارتھیج کے آس پاس رہتے تھے، وہ پونیشیائی نسل سے تعلق رکھتے تھے، اسے مختصر طور پر پونِک کہتے تھے۔”

    "اس میں تو کافی تفصیل درج ہے۔” جبران حیران ہوا۔

    "ہاں ، آگے سنو۔” اینگس سر اٹھائے بغیر بولے۔ "اس کی دوسری بیوی فرانک تھی، اس کا نام بطینی تھا۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کوئی پوچھے میں خود بتا دیتا ہوں کہ فرانکس دراصل فرانسیسی تھے، جنھیں آج ہم فرنچ کہتے ہیں۔ اس وقت رالفن کی عمر تئیس برس تھی جب کہ بطینی انیس سال کی تھی۔ تیسری بیوی کا نام آبدی تھا، وہ ناک تھی۔”

    تینوں ہنسنے لگے۔ "یہ ناک کیا ہے؟” فیونا بے خیالی میں اپنی ناک مسلنے لگی۔ "یہ کون سا ملک ہے؟”

    "بری بات ہے، اگر تم لوگ کسی بات کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو اس کے متعلق ہنسنا نہیں چاہیے۔” اینگس نے بہ ظاہر ناراضی کا اظہار کیا۔

    "سوری …. سوری انکل۔” انھوں نے جلدی سے معذرت کی۔ وہ بتانے لگے۔ "ناکس دراصل افریقا میں نائجیریا کی ثقافت والے لوگ ہیں۔ وہ لوہے سے چیزیں بنانے میں ماہر تھے۔ وہ اس وقت بہ مشکل سترہ سال کی تھی، اور غالباً شہزادی تھی، جب کہ بادشاہ رالفن اب چھبیس برس کا ہو گیا تھا۔ اس کی چوتھی بیوی حضرہ رومن تھی۔ اس کی عمر بھی انیس سال تھی جب کہ رالفن انتیس سال کا تھا۔ پانچویں بیوی جرمن تھی جس کا نام گریسلڈا تھا، وہ تمام بیویوں میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ اس کے بال نقرئی سنہری تھے اور آنکھیں سمندر کی طرح نیلی تھیں۔ رالفن کی عمر اس سے شادی کے وقت بتیس سال تھی اور گریسلڈا اٹھارہ سال کی تھی، چھٹی بیوی کا نام لیلا تھا، وہ بھارت سے تھی۔”

    "بھارت… میں نے تو یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا۔” فیونا جلدی سے بولی۔ اس سے پہلے کہ اینگس جواب دیتا، جبران نے فوراً بول پڑا۔ "میں بتاتا ہوں، یہ انڈیا کا سنسکرت نام ہے، اور ہمارا پڑوسی ملک ہے۔”

    "ہاں انڈیا سنا ہے میں نے۔” فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔

    اینگس کتاب پڑھنے لگے۔ "لیلا کے بال لمبے سیاہ تھے اور اسی طرح آنکھیں بھی سیاہ کٹار تھیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو بادشاہ پینتیس سال کا جب کہ لیلا اکیس برس کی تھی۔

    (جاری ہے….)

  • آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جمعے کی یہ صبح کتنی خوش گوار ہے۔” مائری نے فیونا سے کہا جو باورچی خانے میں میز کے سامنے بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ "میں نے رات کو انتہائی عجیب خواب دیکھا۔ میں ایک خوب صورت جزیرے پر تھی۔ میرے پاس گدھے تھے اور آس پاس سفید عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔”

    فیونا کو ایک دم سے پھندا سا لگا۔ "کیا ہوا؟” مائری چونک اٹھیں۔

    "کچھ نہیں… کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں۔” فیونا نے تیزی سے رومال سے منھ صاف کیا۔ دراصل اس کی ممی نے بات ہی ایسی کی تھی جس نے اسے چونکا دیا تھا۔ عین یہی خواب تو اس نے بھی دیکھا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے لیکن پھر چپ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔

    https://urdu.arynews.tv/story-urdu-translation-rafi-ullah-mian/
    "ممی ذرا جئی کا یہ کیک تو دیں۔” مائری نے پلیٹ اس کے آگے سرکا دی۔ میں نے صبح سویرے تمھارے لیے کالے بیر توڑے ہیں، بالکل تازہ ہیں، کیا تم کھانا پسند کرو گی؟”

    "ضرور ممی، کیا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارے باغیچے میں بیری کے درخت نے پھل دینا شروع کر دیا ہے۔”

    مائری نے مسکرا کر کالے بیر سے بھرا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ "تم اسکول کے بعد کیا کرو گی؟ میں کام سے ذرا دیر سے آؤں گی۔”

    فیونا کچھ کہنے والی تھی کہ اسے بستر کے نیچے رکھی کتاب یاد آ گئی۔ "میں جبران اور دانی کے ساتھ کھیلنے جاؤں گی… اور ہو سکتا ہے کہ راستے میں انکل اینگس کے گھر پر بھی رک جائیں۔”

    "یہ تو تم بہت اچھا کرو گی فیونا۔ انھیں مہمانوں کا آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ان کو بتانا کہ میں کل چند تازہ سبزیاں لے کر ان سے ملنے آؤں گی۔”

    فیونا نے خاموشی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور پھر اسکول بیگ اٹھا کر بھاگتے ہوئے اسکول کی راہ لے لی۔ اسکول سے واپسی پر پہلے تو وہ گھر گئی اور پھر جبران کے گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں گھر ہی پر مل گئے۔ فیونا کو اس کے موزے میں واضح طور پر چاقو پڑا محسوس ہوا۔ "کیا تم رات کو اسی کے ساتھ سو گئے تھے؟” اس نے حیرت سے پوچھ لیا۔ "نہیں، میں نے اسے چھپا لیا تھا۔ دراصل میں اور عرفان ایک کمرے میں سوتے ہیں، اور وہ کوئی بات چھپا نہیں سکتا، کاش میرا کوئی الگ کمرہ ہو۔”

    "چھوڑو یہ باتیں، دیر ہو جائے گی، چلو۔” فیونا بولی۔ "جبران، کیا تمھارے پاپا نے اس بارے میں کوئی ذکر کیا ہے کہ وہ جونی تھامسن کو مچھلیوں کے شکار کے لیے لے کر جائیں گے؟”

    "ہاں، پاپا کے مطابق جونی تھامسن یہاں پر ہے اور ان کا بھائی جلد آ رہا ہے، کیوں؟” جبران نے دانیال کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور پھر تینوں کتاب لے کر انگل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں جبران نے پوچھا۔ "کیا تمھارے انکل اینگس قابل اعتماد ہیں؟”

    فیونا نے بتایا ” وہ سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اور رازوں کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور پتا ہے وہ دن بھر صرف اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔”

    وہ انکل اینگس کے گھر پہنچ گئے۔ جبران اور دانیال کو دور ہی سے دیواروں پر بلیاں دکھائی دے گئیں۔ فیونا نے اپنی بات جاری رکھی۔ "وہ بہت مختلف انسان ہیں، میری ممی انھیں منفرد کہا کرتی ہیں۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں ہے، وہ کوئلہ جلاتے ہیں۔”

    وہ سب دروازے پر رک گئے، فیونا نے دستک دے دی۔ ذرا دیر بعد دروازہ کھلا اور ادھیڑ عمر کا اینگس نمودار ہو گیا جو فیونا کے چچا تھے۔ اینگس فیونا کے پاپا کے بڑے بھائی تھے اور ان کی عمر پچاس سال تھی۔ جبران کو وہ بہت عجیب سے لگے۔ ان کے بال بھورے اور آنکھیں خاکی مائل نیلی تھیں۔ فیونا نے اسے بتایا تھا کہ انکل اینگس لکڑی کے کھلونے بنا کر برطانیہ میں مختلف شو کر کے انھیں فروخت کرتے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ فیونا نے ان کا پورا نام اینگس روڈرِک مک ایلسٹر بتایا تھا۔

    اینگس فیونا کو دیکھتے ہی چہک اٹھے۔ "اوہو… میری بھتیجی آئی ہے اور ساتھ میں اس کے دوست بھی ہیں۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں یہ تمھارے نئے دوست ہوں گے۔” فیونا یہ سن کر ہنس پڑی۔ "بالکل درست اندازہ لگایا آپ نے انکل۔”

    وہ انھیں لے کر اندر لے گئے۔ آتش دان میں آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اینگس نے انھیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھتے ہی بولے۔ "تو اب بتاؤ، تم میرے پاس کیا لے کر آئی ہو؟ کیوں کہ فیونا، اس سے پہلے تم کبھی اپنی ممی کے بغیر یہاں نہیں آئی ہو۔”

    جبران حیرت سے چونک اٹھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیونا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی۔ فیونا کے انکل نے دوسری مرتبہ بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ فیونا نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا۔ "انکل، آپ یہ سیاہ کیتلی آگ پر لٹکائے رکھتے ہیں، آپ چولھا کیوں نہیں خرید لیتے؟”

    وہ مسکرا دیے۔”میری پیاری سی بھتیجی، دراصل میں تکے، سوپ اور اسی طرح کی چیزیں ہی تیار کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی اور چیز کی ضرورت پڑے تو باہر جا کر خرید لیتا ہوں۔ میں بہت پرانے خیالات کا آدمی ہوں۔ دیکھو نا ہر ایک کے گھر میں بجلی ہے، گیس ہے، لیکن میرے ہاں نہیں۔ میں پرانے وقتوں کی طرح اب بھی مٹی کے تیل کے دیے اور لال ٹین جلاتا ہوں۔ اگر کبھی کچھ اور کھانے کو جی کرے تو جھیل کی طرف جاکر مچھلیاں پکڑ لیتا ہوں اور پھر مزے سے بھون کر کھاتا ہوں۔ میں خرگوش بھی بڑے شوق سے شکار کرتا ہوں اور پھر شاید تمھیں معلوم نہیں ہے کہ تمھاری ممی میرے لیے بیکری سے پیسٹری اور ڈبل روٹیاں لے کر آتی ہے۔ اس لیے فیونا، تم میرے بارے میں بالکل پریشان مت ہوا کرو۔ میں اپنے اس گھر اور اپنی حالت پر بے حد خوش ہوں۔” انھوں نے پوری تفصیل سے اپنے شب و روز کے متعلق بتا کر چپ سادھ لی۔ ماحول میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    "سوری انکل۔” فیونا نے طویل سانس لے کر خاموشی توڑی۔ "میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا چاہ رہی تھی، بس میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ شاید آپ کی آسانی کے لیے، تاہم آپ خوش ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔”

    انھوں نے جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور فیونا کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ فیونا نے جھجکتے ہوئے کتاب نکالی اور ان کی طرف بڑھا دی۔ "انکل یہ کتاب ملی ہے۔ میں بس اس میں سے ایک ہی لفظ خزانہ پڑھ سکی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ گیلک زبان جانتے ہیں اس لیے آپ کے پاس لائی ہوں اسے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟”

    اینگس نے کتاب ہاتھ میں لی اور ایک ٹک اس کے کتاب پوش کو دیکھنے لگے۔

  • چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”

    "فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔

    "مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔

    پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    "تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”

    فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”

    "شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”

    "ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”

    جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”

    جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”

    "میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”

    "جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”

    "نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”

    "اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”

    جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”

    "جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”

    مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”

    "ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔

    مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”

    "ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔

    "ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔

    "نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”

    جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”

    اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”

    جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”

    وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”

    وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”

    اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”

    "ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”

    یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”

    ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”

    "میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟

    اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

    جاری ہے…….