Tag: اردو ناول

  • کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    خالدہ حسین نے کہا تھا، ’کئی کہانیاں ایسی ہیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں، مگر یوں لگتا ہے جیسے میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسی طرح کاغذ پر آجائیں، لیکن بہر طور لکھوں گی۔‘

    11 جنوری 2019ء کو خالدہ حسین اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھوں نے 1954ء میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنا شروع کیں، لیکن ادبی حلقہ اور سنجیدہ قارئین 60ء کی دہائی میں ان کے نام سے واقف ہوئے۔ خالدہ حسین نے اپنے ابتدائی دور کی کہانیاں چند غیر معروف رسائل کو بھیجیں جو شائع ہوئیں اور اس وقت وہ دسویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ بعد میں ان کی تخلیقات معروف جرائد کی زینت بنیں اور تب عظیم افسانہ نگار غلام عباس، قرۃُ العین حیدر اور اس دور کے دیگر اہم نام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب خالدہ حسین نے ان سے اپنے فن اور اسلوب کی داد پائی۔

    18 جولائی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہونے والی خالدہ حسین کا خاندانی نام خالدہ اصغر تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے بچپن اور ماحول کے بارے میں خالدہ حسین بتاتی تھیں کہ ان کی زندگی کا ابتدائی دور نہایت حسین اور خوش گوار تھا، اساتذہ ہی نہیں بلکہ عزیز و اقارب اور احباب سبھی اچھّے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، ماحول ادبی تھا۔ سبھی مطالعے کے عادی تھے اور مختلف موضوعات پر مباحث کے بھی۔ خالدہ حسین کے مطابق ان کی سہیلیاں بھی باذوق تھیں اور لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ ایسے میں لکھنے لکھانے کی تحریک کیوں نہ پیدا ہوتی۔

    پاکستان کی اس ممتاز افسانہ نگار کی پسندیدہ مصنف قرۃُ العین حیدر تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب بھی پڑھا اور جنون کی حد تک مطالعہ کی عادی رہیں۔ وہ کافکا کے بعد روسی ادیب ترگنیف، ٹالسٹائی اور دوستوفسکی سے متاثر ہوئیں۔

    خالدہ حسین ادب کی مختلف اصناف میں نت نئے تجربات، ادبی تحریکوں سے بھرپور آگاہی رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم تمام موضوعات کو بخوبی سمیٹتا رہا۔

    ان کی کہانیوں اور افسانوں کی طرف چلیں تو ’پہچان‘، ’دروازہ‘، ’مصروف عورت‘، ’خواب میں ہنوز‘، ’میں یہاں ہوں‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ خالدہ حسین نے ایک ناول بھی لکھا جس کا عنوان ’کاغذی گھاٹ‘ تھا۔ تاہم اسے وہ توجہ اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔

    ان کی ایک کہانی ’سواری‘ نے اردو کی صفِ اوّل کی ادیب قرۃُ العین حیدر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ ایک ایسی کہانی تھی جس میں سماج اور ثقافت کے تمام رنگ شامل تھے۔ اس طویل کہانی کی فضا مابعد الطبیعاتی ہے۔ یہ کہانی ایٹم کے پلنے اور اس سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے متاثرین کی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ ایک سواری گزرتی ہے جس سے تعفن اٹھتا ہے اور لوگ اس تعفن سے بیمار پڑجاتے ہیں۔ 3 کرداروں کے ساتھ کچرا ڈمپ کرنے والے گڑھے اور اس تعفن پر خالدہ حسین نے کیفیات اور صورتِ حال کو جس طرح بیان کیا ہے وہ نہایت متاثر کن ہے۔

    خالدہ حسین نے اس کہانی میں علامت اور واقعہ نگاری کے امتزاج سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ تاہم خالدہ حسین کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیر کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں اور یہ آمیزش افسانے کا حُسن بڑھا دیتی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے معاشرتی مسائل کو تخلیقی انداز میں بیان کیا اور انہیں کسی خاص فکر یا نظریے کے تحت بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے اور کہانیاں متوسط درجے کے گھرانوں کی عکاس ہیں۔ ان کے تمام کردار ان جذبات اور کیفیات سے لبریز ہیں جو ہمارے گرد عام ہیں۔

    ‘رہائی’ اور ‘تیسرا پہر’ کے علاوہ ‘جزیرہ’ اور ‘ابنِ آدم’ مہذب دنیا کی جانب سے فلسطین، عراق اور دیگر خطوں پر ظلم اور ناانصافی مسلط کرنے کی داستان ہیں۔ اسی طرح ‘سلسلہ’ اور ‘میں یہاں ہوں’ جیسی کہانیاں ایک قسم کی روحانی وارداتوں کا بیان ہیں۔

    ناقدین کے نزدیک وہ خوب علامتی یا تجریدی افسانہ لکھتی تھیں، مگر خود خالدہ حسین کی نظر میں ایسا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہانیوں میں استعارہ اور علامت ہوگی، مگر اس پر معنویت غالب ہے۔

  • آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    پاکستان میں کلاسیک کا درجہ رکھنے والی فلم ‘امراؤ جان ادا’ 1972ء میں‌ آج ہی کے دن شائقینِ سنیما کے لیے بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔

    یہ مرزا ہادی رسواؔ کے ناول پر مبنی ایسی فلم تھی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی جذباتی اور رومانوی کہانی کے ساتھ درد بھرے گیتوں نے سنیما بینوں کو بہت متاثر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی مظلوم خاندان، ایک ستم رسیدہ ماں کی کہانی، یا کم عمری میں حادثاتی طور پر بہن بھائیوں کے بچھڑ جانے اور برسوں بعد ان کا ملاپ سنیما بینوں کو جذباتی کر دیتا تھا۔ یہ بھی ایسی ہی فلم تھی جس میں ایک مجبور اور بے بس لڑکی مقدر کے لکھے کو قبول کرلیتی ہے۔

    مرزا ہادی رسوا نابغۂ روزگار تھے۔ ان کے چند ناولوں میں سب سے زیادہ امراؤ جان ادا مقبول ہوا جس پر اردو ادب میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور مصنّف کے ادبی مذاق اور ان کے فنِ تخلیق کو موضوع بنایا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ رُسوا ان کا تخلّص تھا۔ مرزا صاحب فلسفہ، منطق، ریاضی، طب، مذہبیات، کیمیا، موسیقی اور نجوم میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔

    مرزا ہادی رسوا کا یہ ناول 1905ء میں منظرِ عام پر آیا تھا جس کی فنی عظمت اور مقبولیت نے اسے ان گنت قارئین دیے اور تعلیمی نصاب کا حصّہ بننے کے بعد اسے طالبِ علم بھی پڑھتے رہے۔ اس ادبی تخلیق کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے، اور ان برسوں میں اس کے مختلف ابواب کی نصابی ضرورت کے تحت قسم قسم کی تشریحات بھی کی گئی ہیں۔

    یہاں ہم فلم کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپنے قارئین، بالخصوص نئی نسل کی دل چسپی کے لیے اس ناول کی کہانی بیان کرتے ہیں:

    یہ امیرن نام کی ایک آٹھ سالہ بچّی کی کہانی ہے جسے اس کے آبائی علاقے (گاؤں) سے اغوا کرکے فروخت کرنے کے لیے لکھنؤ پہنچا دیا جاتا ہے۔ یوں وہ خانم نامی عورت کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہے اور اسی کے زیرِ سایہ تربیت پاتی ہے، وہ شعر و ادب سے شغف رکھنے والی باذوق لڑکی کے طور پر عمر کے مدارج طے کرتی ہے اور اسے رقص بھی سکھایا جاتا ہے۔ لڑکی اپنے کوٹھے پر آنے والوں کے ذوقِ موسیقی اور رقص دیکھنے کے شوق کی تسکین کے لیے ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے تیّار رہتی ہے۔ وہ باذوق افراد کو موسیقی اور رقص سے بہلانے کے ساتھ شعر بھی سناتی ہے۔

    اسی کوٹھے پر ایک نوجوان نواب سلطان کا آنا جانا بھی ہوتا ہے جس کے آگے امراؤ دِل ہار بیٹھی ہے اور ایک جذباتی موڑ اس وقت کہانی میں آتا ہے جب نواب صاحب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے سوال پر اسے گھر والوں کی رضامندی سے مشروط کردیتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘خاندانی بہو’ لانے والے ہیں۔

    اب کہانی وہ ڈرامائی موڑ لیتی ہے جو ہندوستان پر برطانوی راج قائم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشوں، مفاد پرستی اور لڑائی کے ساتھ آزادی کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں اور جان و مال کی قربانیوں تک تاریخ کا حصّہ ہے۔ جس وقت لکھنؤ پر انگریز فوج کا حملہ ہوتا ہے تو کہانی کے مطابق خانم کے ڈیرے سے بھی سب راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امراؤ اپنے ساتھیوں سمیت لکھنؤ سے باہر نکل پڑتی ہے اور یہ لوگ ایک قصبے میں قیام کرتے ہیں۔ وہاں امراؤ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی اس کا آبائی علاقہ ہے جہاں سے وہ اغوا ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد واپس پہنچ گئی تھی

    ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے تو ایک موقع پر اس کی اہلِ خانہ سے ملاقات کا انتہائی جذباتی منظر پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خاندان ایک طوائف کو قبول کرلے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے سے معذوری ظاہر کردیتے ہیں۔ امراؤ آنسوؤں خود کو ایک طوائف کے طور پر دوبارہ خانم کے ڈیرے پر کھینچ کر لے آتی ہے اور رقص و موسیقی میں ڈوب جاتی ہے۔ یوں ایک مظلوم اور مجبور عورت پہلے طوائف کے روپ میں اپنی محبّت کو پانے میں ناکام ہوتی ہے اور بعد میں ایک بیٹی اور بہن کے طور پر اپنے ہی اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ گہرے دکھ اور کرب سے گزرتی ہے۔

    برصغیر میں اس ناول پر متعدد فلمیں بنائی گئیں اور اس میں فلم کی ضرورت کے مطابق کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ اب بات کرتے ہیں فلم کی جسے پاکستان میں حسن طارق نے کمرشل ضروریات کے تحت تبدیلیوں کے ساتھ پردے پر پیش کیا تھا۔

    اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا جس میں اسکرپٹ رائٹر اور مشہور شاعر سیف الدّین سیف بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی کا بھی فلم کی کام یابی میں‌ بڑا کردار رہا۔ اداکاروں میں رانی اور شاہد نے مرکزی کردار نبھائے جب کہ خانم کا مشہور کردار نیّر سلطانہ نے ادا کیا تھا۔

    اس فلم کا مشہور ترین نغمہ ” آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں” رانی پر فلمایا گیا تھا جس نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ پاکستان میں فلم کی کام یابی کو دیکھ کر بھارتی ہدایت کار مظفر علی اور جے پی دتہ نے بھی اس ناول پر فلمیں بنائی تھیں۔

    پاکستان میں بننے والی امراؤ جان ادا کے گیتوں میں ‘جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں’ اور ‘کاٹے نہ کٹے رے رتیاں’ نے بھی مقبولیت حاصل کی اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

  • اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    افسانوی ادب بالخصوص تاریخی ناول نگاری کے لیے ایم اسلم کا نام اردو کے مشہور و معروف تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر بھی تھے۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ خیر خواہ و مخیّر شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں‌ انھیں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے ایم اسلم کو عزیز رکھا اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو سنوارا۔ ان کی تربیت میں اقبال کا کردار اہم رہا۔ ایم اسلم کو نثر نگاری کی جانب کی طرف متوجہ کرنے والے علاّمہ اقبال ہی تھے۔

    ایم اسلم نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے اور جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی خاص شناخت بن گئی۔

    ان کے افسانوں اور ناولوں میں رومان، حقیقت، حزن و طرب نمایاں ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے اور روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    ایم اسلم کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروسِ غربت، معرکۂ بدر، فتح مکّہ، صبحِ احد، جوئے خون، بنتِ حرم، فتنۂ تاتار، رقصِ ابلیس، مرزا جی کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے افسانوں کے مجموعے صدا بہ صحرا، نغمۂ حیات اور گنہگار کے نام سے شایع ہوئے۔

    ایم اسلم نے انگریزی سے تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ اردو کے اس مشہور ادیب اور شاعر نے 23 نومبر 1983ء کو وفات پائی۔

  • مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
    تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

    جس نے موت کو دعوت ان الفاظ میں 31، 32 سال قبل دی تھی، اس کی شمعِ حیات واقعتاً اکتوبر 1931ء میں گُل ہوکر رہی۔ موت کو جب آنا ہوتا ہے جب ہی آکر رہتی ہے۔

    شاعر کی طبیعت ممکن ہے حیات سے اسی وقت سیر ہو چکی ہو، لیکن خود حیات اس وقت شاعر سے سیر نہیں ہوئی تھی۔ موت تو جبھی آئی جب اسے آنا تھا اور جب آئی تو بہتوں نے یہ بھی نہ جانا کہ کس نام کے رسواؔ اور شعروادب کے رسیا کو اپنے ہم راہ لیتی گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔

    بقا نہ کسی شاعر کو نہ شاعری کو، نہ ادب کو، نہ ادیب کو، کیسے کیسے افسانہ گو اور افسانہ نویس آئے اور کیسی کیسی مزے دار کہانیاں سنانے بیٹھے مگر، دیکھتے ہی دیکھتے خود انہیں کی زندگی افسانہ بن گئی۔ باقی رہنے والا بس جو ہے، وہی ہے۔

    ذاتِ معبود جاودانی ہے
    باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے

    جو رونقِ محفل ہوتے ہیں وہ ایک ایک کرکے اٹھتے جاتے ہیں لیکن محفلِ کی رونق جوں کی توں! لسانُ العصر اکبر کے الفاظ میں،

    دنیا یونہی ناشاد یوں ہی شاد رہے گی
    برباد کیے جائے گی، آباد رہے گی

    ناول نویسی کی عمر اردو میں مرزا سوداؔ کی عمر سے بڑی ہے۔ سرشارؔ اور شررؔ اور دوسرے حضرات اپنے اپنے رنگ میں اس چمنِ کاغذی کی آب یاری شروع کر چکے تھے۔ کہنا چاہیے کہ انیسویں صدی عیسوی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں انگریزی ناول بھی اردو میں خاصی تعداد میں منتقل ہو چکے تھے جب کہیں جاکر مرزا محمد ہادیؔ، مرزاؔ لکھنوی بی اے نے انیسوی صدی کے نویں دہے میں اس کوچہ میں قدم رکھا۔

    آدمی پڑھے لکھے صاحبِ علم شریف خاندان سے تھے۔ شمار شہر کے متین و ثقہ طبقہ اور اہلِ علم میں تھا۔ ناول نویسی کا مشغلہ اس وقت تک کچھ ایسا معزز نہ تھا، غرض کچھ وضعِ قدیم کا پاس، کچھ اپنے علمی وقار کا لحاظ، داستان سرائی کرنے بیٹھے تو چہرہ پر ’’مرزا رسوا‘‘ کا نقاب ڈال لیا، حالاں کہ یہ نقاب تھا اتنا باریک کہ جو چاہے وہ ایک ایک خط و خال، ایک ایک بال باہر سے گن لے۔

    اردو میں ناول بہتوں نے لکھے، اچھے اچھوں نے لکھے، پَر ان کا رنگ سب سے الگ، ان کا انداز سب سے جدا، نہ ان کے پلاٹ میں ’’سنسنی خیزیاں‘‘ نہ ان کی زبان میں ’’غرابت زائیاں‘‘ نہ ان کے اوراق میں ’’برق پیمائیاں‘‘ اور نہ ’’کوہ تراشیاں‘‘ نہ ان کے الفاظ ’’ترنم ریز‘‘ نہ ان کی ترکیبیں ’’ارتعاش انگیز‘‘ نہ ان کی تصویرِ رزم میں ’’برق پاشیاں‘‘ نہ ان کی داستانِ بزم میں ’’ابتسام آرائیاں۔‘‘

    پلاٹ وہی روز مرّہ صبح و شام کے پیش آنے والے واقعات جو آپ ہم سب دیکھتے ہیں۔ زبان وہی گھر اور باہر کی ستھری اور نکھری بول چال جو ہم آپ سب بولتے ہیں۔ قصہ کے مقامات نہ لندن، نہ ماسکو، نہ برلن، نہ ٹوکیو۔ بس یہی لکھنؤ و فیض آباد، دہلیؔ و الٰہ آباد۔ افسانے کے اشخاص نہ لندھورؔ، نہ سند باد، نہ تاجُ الملوک نہ ملکہ زر نگارؔ، بس یہی حکیم صاحب اور شاہ صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، میر صاحب اور مرزا صاحب، عسکری بیگم اور عمدہ خانم، امراؤ جان اور بوا نیک قدم۔

    کہتے ہیں کہ صاحب کمال لاولد رہ جاتا ہے، اس کی نسل آگے نہیں چلتی۔ اپنے طرز کا موجد بھی یہی ہوتا ہے اور خاتم بھی وہی۔ مرزا سوداؔ کا بھی کوئی خلفِ معنوی آج تک پیدا نہ ہوا۔

    پیش رو اکثر اور معاصرین بیشتر تکلفات میں الجھ کر رہ گئے۔ رسواؔ تصنع سے پاک اور آورد سے بے نیاز۔ ابھی ہنسا رہے تھے، ابھی رلانے لگے۔ مزاح و گداز، سوز و ساز، شوخی و متانت سبھی اپنے اپنے موقع سے موجود، لیکن آمد و بے ساختگی ہر حال میں رفیق۔ شستگی و روانی ہر گوشۂ بساط میں قلم کی شریک۔ جو منظر جہاں کہیں دکھایا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرصع ساز نے انگوٹھی پر نَگ جڑ دیا ہے، ہر نقل پر اصل کا گمان، ہر عرض میں جوہر کا نشان، تصویر پر صورت کا دھوکا، الفاظ کے پردہ میں حقیقت کا جلوہ۔

    (یہ پارے جیّد عالمِ دین، بے مثل ادیب اور صحافی عبدالماجد دریا بادی کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں انھوں نے اپنے وقت کے مشہور مصنّف اور ناول نگار مرزا ہادی رسوا کے فن و شخصیت کو سراہا اور تعریف کی ہے)

  • سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    ایران کے ایک قدیم شہر کا نام شاید آپ نے بھی سنا ہو، جو خراساں کے صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔ یہ شہر ہے نیشا پور۔ اس شہر کے ایک سوداگر کی یہ کہانی سبق آموز ہی نہیں، دل چسپ بھی ہے۔

    نیشا پور میں ایک سوداگر رہتا تھا جو خود کو نہایت عقل مند سمجھتا تھا۔ وہ شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے لے کر گھر لوٹ جاتا۔ کبھی وہ قریبی شہروں اور مضافات کا چکر لگاتا اور کبھی کئی دنوں کا سفر کرکے دور کے علاقوں‌ تک بھی چلا جاتا۔ قسمت سے وہ اچھا کمانے لگ گیا تھا۔ اسے تجارت میں‌ زبردست نفع ہوا جس نے اس کا دماغ خراب کردیا۔ وہ خود کو نہایت دانا اور عاقل سمجھنے لگا تھا اور دوسرے لوگوں کو کم عقل۔ اسی زعم میں اس نے خود کو عاقل مشہور کردیا۔ لوگ اسی نام سے اسے جاننے اور پکارنے لگے تھے۔ اس ’’عاقل‘‘ کا اصل نام نصیر الدّین تھا۔

    وہ جس شہر میں نادر و نایاب اشیاء کے بارے میں سنتا، اور مشہور ہنرمندوں یا دست کاروں کے مال کی بات اس کے کانوں میں پڑتی، کوشش کرتا کسی طرح اس تک پہنچ کر مال کا سودا کرلے اور اسے منافع کے ساتھ فروخت کرے۔ واقعی، وہ ایسی اشیاء لے کر آتا کہ دیکھنے والے فوراً متوجہ ہوتے اور منہ مانگے دام دینے کو بھی تیّار ہوجاتے تھے۔

    ایک دن وہ بازار میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا۔ ایک چڑی مار اس کے قریب سے گزرا جو گا رہا تھا۔

    سونے کی چڑیا
    جادو کی پڑیا
    بجتا ہے گھنٹہ
    دیتی ہے انڈا

    اس نے جو یہ سنا تو اپنے دوست سے رخصت لی اور چڑی مار کے پیچھے چل دیا۔ چڑی مار کے پاس سب پنجرے خالی تھے۔ بس ایک پنجرے میں خاکی رنگ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔ سوداگر چلتے چلتے سوچنے لگا کہ سونے کی چڑیا مجھے خرید لینی چاہیے۔ اگر یہ واقعی سونے کا انڈا دیتی ہے تو پھر مجھے اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ اسے اچانک خیال آیا بچپن میں اس کی دادی اس کی ماں کو میکے جانے پر کہا کرتی تھیں۔

    ’’تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے چلی گئیں، تو میرا بیٹا غریب ہوجائے گا۔‘‘

    تو گویا سونے کی چڑیا ہوتی ہے۔ بس اس کی یہ خواہش تھی کاش اس کے پاس وہ چڑیا واقعی ہو۔ ایک مقام پر پہنچ کر سوداگر نے چڑی مار کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی کیا یہ واقعی سونے کی چڑیا ہے، یہ تو عام سی چڑیا لگ رہی ہے۔‘‘

    چڑی مار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور جان گیا کہ کوئی بے وقوف شخص ہے جو امیر ہونا چاہتا ہے۔ اس نے نہایت پُراعتماد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔‘‘

    چودھویں رات کو جب دور کہیں گجر بجتا ہے، یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اس چڑیا نے مجھے امیر کردیا ہے۔ میرے گھر میں اب تک دس انڈے دے چکی ہے۔ میرے ملک چلو وہاں میرے بڑے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ میں اسے نہیں بیچتا، مگر یہ اپنے مالک کو صرف دس انڈے دیتی ہے اس کے بعد اگر کوئی اسے خرید لے۔ پھر اس کے پاس مزید دس انڈے اور اسی طرح دوسرے مالک کو پھر دس انڈے دے گی۔‘‘

    سوداگر چڑی مار کی باتوں میں آگیا اور چڑیا خرید لی۔ اس کے بدلے میں‌ اس نے اپنا سب سامانِ تجارت اور گھر بار کا سارا سامان تک چڑی مار کو دے دیا۔ چڑی مار اگلے روز بازار میں پھر کسی کو نظر نہ آیا۔

    سوداگر سارا مال و دولت، گھر بار ایک چڑیا کے عوض چڑی مار کو فروخت کر کے، ایک جھونپڑی میں چڑیا کا پنجرہ رکھ کر رہنے لگا۔ وہ امیر ترین شخص بننے کا خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے کچھ پُرخلوص احباب نے سمجھایا کہ ’’اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے اور دھوکہ کھایا ہے۔‘‘ مگر سوداگر کا کہنا تھا،’’ وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، تم دیکھنا مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔

    سوداگر کو بس چودھویں رات کا انتظار تھا۔ آخر وہ رات آگئی۔ سوداگر بہت خوش تھا کہ اس کی چڑیا آج سونے کا انڈا دے گی۔ پوری رات جاگتا رہا۔ چڑیا پنجرے میں کبھی سوتی اور کبھی پر پھڑپھڑاتی رہی۔ آخر صبح ہونے لگی گجر بجا اور سوداگر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی اور وہ پنجرے کے پاس گیا تو پنجرے میں انڈا نہیں تھا۔ چڑیا اسے بہت عام سا پرندہ لگی۔ وہ اسی طرح پنجرے میں ادھر سے ادھر اڑتی اور پھدکتی پھر رہی تھی۔ آج جانے کیوں سوداگر کو اس میں‌ کچھ بھی خاص نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بہت پچھتایا اور جان گیا کہ چڑی مار نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

    سوداگر نے سبق سیکھا کہ غرور و تکبر اور دوسروں سے مشورہ نہ کرنے اور کسی کو خاطر میں‌ نہ لانے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بڑے کام کو کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنے احباب سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    (قصّوں اور قدیم حکایات سے انتخاب)

  • مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ کا مضحک کردار اپنے احساسِ کمتری کو احساسِ برتری میں بدلنے کے لیے چرب زبانی کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کے مضحک کردار ہمارے اردگرد آج بھی پائے جاتے ہیں جو ظاہری تصنّع اور شان و شوکت کا بھرم رکھنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو معاشرے کا باعزّت فرد ظاہر کرنے کے لیے اپنی امارت اور حسب و نسب کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے ان کو عزت ملے، لوگ انہیں احترام دیں۔

    اس طرح کے ہزاروں ظاہر دار بیگ ہر سماج میں خود کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کا تخلیق کردہ یہ کردار اپنے عہد کی اس تہذیب اور معاشرت پر کڑی تنقید کرتا ہے جہاں عزّت صرف دولت مندوں اور اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو ملتی تھی۔

    ظاہر دار بیگ کا کردار ایک نوعیت کی معاشرتی پیروڈی ہے۔ وہ اپنے عہد کی زندہ علامت ہے اور اس ظاہر داری کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی ترقی پذیر تہذیب کی تباہی کے لیے معاشرے میں رونما ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دستِ افلاس نے قوم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا اور سماج میں بے چینی کا عالم تھا۔ معاشرتی زندگی میں بڑے چھوٹے کا امتیاز تھا اور شہری حقوق سب کو یکساں طور پر میّسر نہ تھے۔

    عوامی زندگی ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جو نہ تو کوئی مقصد رکھتی تھی نہ منزل۔ 1857ء کے نتیجے میں پھیلی ہوئی تباہی عام تھی، لوگ اپنی اقدار کو بھول چکے تھے، اعصابی طور پر کم زور ہو چکے تھے، معاشرتی بیماریاں پھیل رہی تھیں، اس کا انجام یہ ہوا کہ ہر فرد حقیقت سے فرار حاصل کرنا چاہتا تھا۔

    مشرقی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب، ہندوستانی کھانوں کی جگہ مغربی کھانے، مکتب اور پاٹھ شالہ کی جگہ کالج اور یونیورسٹیوں نے لے لی اور یہ وقت انسان کو اکسا رہا تھا کہ یا تو خود کو بدل لے یا ماضی کے نہاں خانوں میں گھٹ گھٹ کر ختم ہو جائے۔

    مرزا ظاہر دار بیگ کا کردار اپنے عہد کی ظاہر داریوں کا نمائندہ ہے۔ احساسِ کمتری اسے اپنی بڑائی کا بھرم رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چوں کہ یہ کردار غیرلچک دار ہے اس لیے اس کی ناہمواریاں سمٹنے کے بجائے پھیل کر سامنے آتی ہیں جو ناظرین کو ہنسانے کا موجب بنتی ہیں۔

    توبتُہ النّصوح کا یہ کردار نذیر احمد کے دیگر کرداروں کی طرح اسمِ بامسمّیٰ ہے جس میں مرزا سفید پوش طبقے کا نمائندہ ہے جو نہ تو خود کو غریب کہلوانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی امراء کی برابری کی استطاعت رکھتا ہے۔ مرزا اہلِ لکھنؤ کی پرتصنع زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے لے آتا ہے، مگر ساتھ انفرادیت بھی رکھتا ہے۔

    اپنا یہ بھرم مرزا ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اپنی امارات کے قصّے اپنے قریبی دوست کلیم سے بھی بیان کرتا رہا۔ اپنے نانا کی جائیداد کو اپنی بیان کرتا رہا۔ جمعدار کے بیٹوں کی دیکھا دیکھی بھی مرزا کی عادتیں بگڑیں تھیں۔ مرزا ان کو اپنا رشتہ دار بتانا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔

    مرزا کا دوست کلیم جب گھروالوں سے ناراض ہو کر مرزا کی طرف آ گیا تو مرزا نے گھر کی بجائے اسے مسجد میں ٹھہرایا۔ مسجد میں اندھیرا تھا، جس کے حوالے سے کلیم کے اعتراض کو مرزا نے اس خوب صورتی سے ٹالا، مرزا کی چرب زبانی ملاحظہ کریں:

    چراغ کیا میں نے تو لیمپ روشن کروانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہوں گے اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہوں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجیے کہ ماہتاب نکال آتا ہے۔

    کلیم کو بھوک نے ستایا تو اس نے ذکر کیا، مرزا نے پہلے تو دیر ہو جانے کا عذر پیش کیا اور پھر بالآخر بُھنے ہوئے چنے لے آیا اور کرنے لگا تعریفیں چنوں کی۔

    مرزا کا لازوال کردار دراصل دہلی کے شکست خوردہ اور زوال پذیر معاشرے کے کھوکھلے پن، ظاہری نام و نمود اور ریا کاری کا عکس ہے۔ یہ کردار ہر معاشرے میں آج بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو غربت کے باعث احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا، امیروں میں شامل ہونے کے شوق میں مذہبی و اخلاقی اقدار سے بھی بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ محض اپنی چرب زبانی سے سب کو مرعوب کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

    (ارشاد علی کے مقالے، ‘اردو نثر کے مضحک کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ’ سے اقتباس)

  • بہروپیا

    بہروپیا

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔

    اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غربا ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے۔

    ان کے ٹھاٹھ تو کچھ ایسے امیرانہ نہ تھے، مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شاید وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔

    گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔

    ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اور انعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔

    جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کر رہا ہے۔ کبھی جٹا دھاری سادھو ہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہا دیو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔

    میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلا کا ضدی۔

    ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔

    ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن، صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔

    یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کر پل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔ میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘

    ’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘

    ’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کر امیر امرا کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا یہ شخص ہر روز آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار۔ روز روز آئے تو لوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘

    ’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھلا کتنا انعام ملتا ہو گا انہیں؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ، کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیسِ اعظم صاحب اگر پانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔

    اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکر نہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘

    میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔

    بہروپیے کا پیٹھ موڑنا تھا کہ مدن دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘

    ’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا،’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اور کن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘

    مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ناچار میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

    یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھے کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔

    وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندر داخل ہو جاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی، مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیا تھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

    ہم نے اب تک بڑی کام یابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلد ہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ بہروپیا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جو ذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔

    جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہو گی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

    بہروپیے نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، پھر ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘

    ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے‘‘۔ یک بارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘

    اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔

    وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔

    پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابک دستی سے بناتا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔

    اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔

    ’’اسلم جلدی سے تیارہو جاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘ اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔

    جب ہم کبھی دوڑتے، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا۔ ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گئے۔

    دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔

    ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہوئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولا رنگ، اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔

    وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ آگے ایک باڑا آیا، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔

    اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا۔ اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ ایک بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔

    جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘

    ’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا۔ وہ تو گوالا تھا گوالا۔ آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ تیزی سے ادھر آتا ہوا دکھائی دیا۔

    یہ جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘

    دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتنا ہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔

    ہم لوگ تین بجے سے پہلے ہی پھر بہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

    ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہر نکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کا سوانگ بھرا ہے۔

    ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں سے گزرا۔ تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گئے جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتا تھا۔ پھیری والے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، مٹھائیاں، چاٹ علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

    ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکر شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی:’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کم زور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کو نظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجیے۔‘‘

    ’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دست یاب ہوا تھا۔ خدمتِ خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘

    میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کر دی تھی۔

    دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔

    ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔


    (مشہور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس کی ایک شان دار تخلیق)

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں