Tag: اردو ناول
-
ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے
وہ دونوں انگور کی بیلوں کے درمیان کھڑے فیونا کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جبران کے منھ سے نکلا: ’’کیا اور کوئی بھیانک واقعہ ہونے والا ہے ہمارے ساتھ؟‘‘ فیونا نے جواب میں انھیں ڈرانا نہیں چاہا، بلکہ بولی کہ اب بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد انگور کے بیل کی جڑ میں کھدائی کی جائے اور پکھراج نکالا جائے۔ فیونا نے یہ کہہ کر بیٹھ گئی اور مٹی کھودنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے تاکہ جلدی سے اسے نمٹایا جا سکے۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی کھودا تھا کہ ان کے پیچھے غراہٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دانیال نے جلدی سے کھدائی روک کر پیچھے دیکھا اور پھر اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’کتا … یہ تو کتا ہے!‘‘
فیونا اور جبران نے بھی پلٹ کر دیکھا تو جبران نے کہا: ’’دانی یہ کتا نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں پتا یہ کیا چیز ہے، پر ہے بہت غلیظ قسم کی۔‘‘ فیونا نے منھ سے نکلا: ’’تسمانیہ کا شیطان لگ رہا ہے یہ!‘‘دانیال حیران ہو گیا: ’’تسمانیہ کا شیطان بھلا کیا چیز ہے؟‘‘ فیونا نے انھیں یاد دلایا کہ جو کتاب انھوں نے خریدی تھی، اس میں اس کی تصویر موجود تھی اور لکھا تھا ’تسمانین ڈیوِل!‘‘ جبران یہ سن کر چونک اٹھا اور بولا کہ اسے بھی یاد آ گیا۔ اس نے کہا یہ ’ٹاز‘ ہے، دانی یاد کرو کارٹون کیریکٹر۔ یہ وہی ہے۔ تب دانی نے پریشان ہو کر کہا: ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شیطان تیزی سے ہماری ہی طرف آ رہا ہے۔‘‘
اُس جانور کا جسم گہری بھوری فر سے ڈھکا ہوا تھا، اور اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، جن سے رال ٹپک رہی تھی۔ اور اس کے حلق سے بھیانک قسم کی غراہٹ نکل رہی تھی۔ جب وہ کافی قریب آ گیا تو دانی چیخا: ’’کچھ کرو فیونا!‘‘
فیونا نے جلد سے اپنے اور جانور کے درمیان جادو سے آگ بھڑکا دی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور نے اس پر سے لمبی چھلانگ لگا دی اور ان سے تقریباً بیس فٹ کی دوری پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اتنی خوف ناک چیخ نکالی کہ ان تینوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ جبران اور دانیال کو لگا کہ ان کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا ہے۔ فیونا تیز لہجے میں بولی: ’’کوئی بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلنے کی غلطی نہ کرے، اگر ہم ہلے تو یہ فوراً حملہ آور ہو جائے گا اور لمحوں میں ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘
اسی لمحے ان کے پیچھے سے ایک تیز غراہٹ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونک اٹھے۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا وہاں اسی قسم کا ایک اور جانور کھڑا تھا۔ جبران نے گھبرا کر کہا: ’’اب تو دو دو تسمانوی بھوتیا جانور ہو گئے!‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ سوچ سکیں، ایک اور جانور انگور کی بیلوں کے درمیان سے چھلانگ لگا کر ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر غرانے لگا۔ اور پھر چوتھا بھی انگور کی بیلوں سے نکل آیا۔ ’’چار ہو گئے، یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ دانیال روہانسا ہو کر بولا۔ ’’فیونا، فوراً اپنا قد بڑا کر دو اور ان سب کو کچل دو۔‘‘
اچانک تسمانیہ کے شیطانوں میں سے ایک نے فیونا کے گلے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے جلدی سے گلا بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے۔ عین اسی لمحے گولی چلنے کی دھماکے دار آواز سنائی تھی، جس نے جانوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ ایک اور فائر ہوا اور جانور ان تینوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھوں میں رائفل لیے کھڑا تھا اور چلا کر کہہ رہا تھا: ’’بچو میری طرف آؤ، میں نے پہلے کبھی اتنے بڑے شیطان نہیں دیکھے۔‘‘
ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ایک شیطان نے اچھل کر دانیال پر چھلانگ لگا دی، اور اسے نیچے گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ فیونا اور جبران کے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس شخص نے شیطان کی طرف رائفل سیدھی کی اور پھر کافی اونچائی پر کئی ہوائی فائر مار دیے۔ اس بار سارے جانور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جبران اور فیونا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا اور پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ دانیال بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے چوٹ نہیں آئی تھی۔ انھیں اس شخص کی آواز سنائی دی: ’’بچو، تم میرے انگور کے باغ میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
فیونا کے ذہن میں اگرچہ یہ سوال نہیں اٹھا تھا لیکن جیسے ہی اس نے سنا، وہ فوراً ہوشیار ہو گئی۔ اس نے بات بنا کر کہا: ’’میرے اس دوست کو بہت بھوک لگ گئی تھی اس لیے ہم باغ سے کچھ انگور لینے رک گئے تھے لیکن پھر اس سے یہاں کچھ گر گیا تھا جسے ہم تلاش کرنے لگے۔‘‘
باغ کے مالک نے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’میرا نام ونچنزو منزانیو ہے، میں اور میری بیوی ابھی ابھی گھر پہنچے اور ہم نے پورے گھر اور باغ میں سرخ پیٹھ والی مردہ مکڑیاں دیکھیں، یہ سب کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی بھی کوئی وضاحت ہے؟‘‘
جبران کو اچانک ایک خیال سوجھا، وہ جلدی سے بولا: ’’جب ہم کھدائی کر رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ فیونا کی انگوٹھی تلاش کر رہے تھے، تو یہ مکڑیاں زمین سے باہر نکل آئیں، اور ہم ان سے بچنے کے لیے آپ کے گھر بھاگے تھے۔‘‘
’’اور میرے قالین پر آگ کیسے لگی؟‘‘ اب ونچنزو کی آواز نارمل نہیں رہی تھی، بلکہ اس میں غصہ جھلک رہا تھا۔ جبران نے گھبرا کر جلدی سے کہا: ’’دراصل فیونا نے سوچا کہ اگر اس نے انھیں آگ سے نہیں جلایا تو یہ ہمیں کاٹ کھائیں گی۔ لیکن پھر یہ لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں۔‘‘
’کیا مطلب، لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ جبران نے نے بتایا کہ ان سرخ مکڑیوں کو لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں نے مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد جب ہم واپس یہاں آ کر انگوٹھی تلاش کرنے لگے تو کہیں سے یہ تسمانیہ کے شیطان نمودار ہو گئے۔
’’کیا کہانی ہے، بہت عجیب۔‘‘ باغ کے مالک نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ’’خیر کیا تم لوگوں کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ جبران نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ڈرے ہوئے تھے کہ اب پتا نہیں باغ کا یہ مالک کیا کہے گا اور کیا کرے گا، لیکن ان کی توقع کے برخلاف اچانک اس نے مسکرا کر دانیال کو مخاط کر کے کہا: ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اندر جاؤ، میری بیوی تمھیں کھانے کو کچھ دے دیں گی، اور میں یہاں ان دونوں کے ساتھ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مدد کر دوں گا۔‘‘
دانیال نے یہ سن کر اسی میں اپنی بھلائی محسوس کی کہ وہ خاموشی سے اندر چلا جائے، اگرچہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سو کر کہ باغ کا مالک پھر غصے میں نہ آ جائے، وہ سر ہلا کر گھر کی طرف چلا گیا۔
باغ کے مالک نے اس کے جاتے ہی باقی دونوں سے ان کے نام دریافت کیے، اور پھر بولا کہ چلو انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی جڑ میں گھٹنے زمین پر رکھ بیٹھا تو اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں پر گرے۔ لیکن اسی لمحے اس نے فیونا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو فیونا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بیل کی جڑ میں موجود مٹی کی طرح بھوری تھیں۔ فیونا نے جلدی سے نظریں ہٹا کر کہا: ’’وہ ایک بڑی سی انگوٹھی ہے۔‘‘
’’کس قسم کی انگوٹھی؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا تو فیونا نے بتایا کہ اس میں پکھراج جڑا ہوا ہے۔ اس نے بات بنائی کہ اسے انگوٹھی کی پروا نہیں لیکن پکھراج اس کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نشانی ہے۔’’ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔‘‘ باغ کے مالک نے کہا۔ اور جبران نے فیونا کی طرف دیکھ کر منھ ہی منھ میں لفظ ’جھوٹی‘ کہا، جسے فیونا نے سمجھ لیا اور اس نے مسکرا کر جواباً آنکھ مار دی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھیے
اگلی صبح وہ دس بجے اٹھے۔ دانیال نے جوتے پہنتے ہوئے فیونا سے پوچھا کہ پکھراج کو کہاں تلاش کرنا ہے، اور کیا اس نے اس سلسلے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہے یا نہیں۔ فیونا نے تیار ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اس مقام کو پہچان لوں گی، لیکن فی الوقت یہ نہیں پتا کہ وہ ہے کہاں پر۔ ہمیں بس شہر میں جانا ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
جبران نے ان کا دھیان ناشتے کی طرف مبذول کرایا: ’’میں نے دیکھا تھا کہ اس ہوٹل میں مزے کا ناشتہ ملے گا، اور لنچ تو باہر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘کچھ دیر بعد وہ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلے تو فیونا نے بتایا کہ اس نے سیاحوں کی گائیڈ بک میں ایک جگہ کا نام پڑھا تھا جسے بیٹری پوائنٹ کہتے ہیں۔ جبران نے پوچھا کہ کیا پکھراج وہیں پر ہے، لیکن فیونا نے کہا کہ اسے نہیں معلوم۔ جبران اسے گھورنے لگا تو فیونا نے کہا تم لوگ یہاں ٹھہرو، میں سوچتی ہوں کچھ۔ یہ کہہ کر اس نے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یک بہ یک اس کے ذہن میں انگور کے ایک باغ کی تصویر ابھری۔ اس نے آنکھیں کھول لیں تو دونوں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔ فیونا نے منھ بنا کر کہا تم ایسے بے قوفوں کی طرح گھور کیوں رہے ہو۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے لگا شاید تم سو گئی ہو!‘‘
فیونا بولی: ’’میں سو نہیں گئی تھی، ہمیں بس ایک انگور کے باغ کو ڈھونڈنا ہے، یعنی ہمیں لوگوں سے پوچھنا ہے کہ انگور کے باغات کا علاقہ کہاں پر ہے۔‘‘
انھیں کچھ فاصلے پر کتابوں کی ایک دکان نظر آئی جو گلی کے اندر واقع تھی۔ دانیال نے کہا تسمانیہ سے متعلق جاننے کے لیے ایک کتابچہ خریدنا چاہیے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جبران نے کتاب کھول کر دیکھا تو انھیں ایک نقشے سے معلوم ہوا کہ سمندر ان سے بس پانچ منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں یہاں پینگوئن بھی دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں پریاں کہلاتی ہیں۔ تاہم جبران نے کہا کہ وہ اس علاقے کے قریب نہیں ہیں۔ فیونا نے ساحل کی ریت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا کہ کتاب سے پتا چلا کہ انگور کے باغات کہاں ہیں؟ دانیال نے بتایا کہ کتاب سے پتا چلتا ہے کہ تسمانیہ میں انگور کے سیکڑوں باغات ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ایک فون بوتھ کی تلاش میں سڑک کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے انھیں ایک نام بتایا کہ ان کا مطلوبہ انگور کا باغ وہاں ہے، اس جگہ کو جاننے کے لیے انھوں نے فون بوتھ میں پڑی فون ڈائریکٹری کھنگالی تو پتا چلا کہ ان کی مطلوبہ جگہ ہوبارٹ شہر ہی میں نہیں ہے، اور یہ کہ انھیں ایک لمبا سفر کرنا پڑے گا۔
فیونا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑے گی۔ وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے، جب ٹیکسی آئی تو فیونا نے ڈرائیور کو پتا سمجھایا۔ ڈرائیور نے مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں یا نہیں۔ فیونا نے مسکرا کر کہا بے فکر ہو جاؤ، اچھی ٹپ بھی ملے گی، بس ہمیں وہاں لے جاؤ۔
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے عقبی آئینے سے میں دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم لوگ تو بہت چھوٹے ہو، ادھر ادھر کیسے گھوم رہے ہو۔ تمھارے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ سے آئے ہو۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ ریڈیو کے قریب ڈیش بورڈ پر ڈرائیور کا لائسنس چپکایا گیا تھا، اور اس پر ڈرائیور کا نام ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔ فیونا نے کہا: ’’مسٹر ڈیوڈ، ہمارے والدین بزنس میٹنگ میں ہیں۔ ہم جہاں جا رہے ہیں اس باغ کے مالک میرے والدین کے دوست ہیں، والدین ہم سے بعد میں وہاں ملیں گے۔‘‘
ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، اس لیے وہ آرام سے ٹیک لگا کر سو بھی سکتے ہیں۔ فیونا نے اس سے پوچھا کہ کیا تسمانیہ میں واقعی پینگوئن ہیں؟ ڈیوڈ نے بتایا کہ ہاں لیکن وہ دوسری سمت میں ہیں، البتہ اگر چڑیا گھر جائیں تو وہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ پینگوئن بھی مل جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ جب وہ مطلوبہ انگور کے باغ پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ تینوں ٹیکسی سے اتر گئے اور فیونا نے اسے کرایہ ادا کیا۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ یہ ہے وہ جگہ یہاں پکھراج موجود ہے۔(جاری ہے….)
-
وہ مقبول ناول جو افغانستان میں جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے
دنیا کی مختلف زبانوں اور بالخصوص انگریزی زبان میں افسانوی اور غیرافسانوی ادب پر مبنی کتابوں میں افغانستان بھی موضوع بنا ہے۔
بدقسمتی سے افغانستان قبائلی تنازعات، خانہ جنگی کے علاوہ پچھلی صدی میں روس اور رواں صدی کی دونوں دہائیوں میں امریکا اور اس کے اتحادیوں سے جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی دیکھتا آرہا ہے۔ اب طالبان کی حکم رانی میں افغانستان کو عالمی سطح پر کئی پابندیوں اور ملک کے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انگریزی ادب میں افغانستان کے پس منظر میں ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے بھی تخلیقات سامنے آتی رہی ہیں اور آج بھی ناول نگار افغانستان کو موضوع بنارہے ہیں۔
ہم اگر دیکھیں تو ‘اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ’ ایک اچھی مثال ہے اس موضوع پر ناول نگاری کی، جو سنہ 1887 میں شایع ہوا تھا۔ ‘اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ’ وہ ناول تھا جس میں پہلی بار مشہور سراغ رساں کردار شرلاک ہومز کی افغان جنگ سے لوٹنے والے ڈاکٹر جان واٹسن سے ملاقات دکھائی گئی۔ ڈاکٹر واٹسن دوسری افغان جنگ کے بعد حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے تھے۔ اسی کردار کی زبانی مصنّف سر آرتھر کونن ڈوئل نے متعدد کہانیاں اور ناولوں کو واقعات کی مالا سے مکمل کیا تھا۔ افغانستان کے پس منظر میں انگریزی ادب کو رڈیارڈ کپلنگ سے لے کر جان ماسٹرز اور پھر خالد حسینی تک کئی ناول نگاروں نے کہانیاں دی ہیں جو مقبول بھی ہوئیں۔
اب ان ناولوں کی طرف چلتے ہیں جن کی کہانیاں افغانستان کے گرد گھومتی ہیں اور انھیں قارئین نے پسند بھی کیا۔
رڈیارڈ کپلنگ کا ناول دی مین ہو وڈ بی کنگ سنہ 1888 میں شائع ہوا تھا جس کی کہانی دو انگریز باشندوں کے گرد گھومتی ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے اور یہاں کی معاشرت سے ایک ہندوستانی کی طرح خوب واقف تھے۔ ان کے ناول کے یہ دونوں کردار افغانستان میں واقع کافرستان نامی علاقے میں پہنچ کر وہاں کا بادشاہ بننے کی ٹھان لیتے ہیں۔ یہ انگریز باشندے اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ مقامی افراد کا ان کے مادّی اسباب، ان کی بندوقوں اور دنیا کے بارے میں ان دونوں کی معلومات سے متاثر ہونا تھا۔ وہ دونوں ایک پسماندہ اور ناخواندہ معاشرے میں لوگوں کو اپنی باتوں سے آسانی سے بیوقوف بنا لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو ‘خدا’ تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک معمولی غلطی ان سے یہ بادشاہت اور ان کا مقام و مرتبہ چھین لیتی ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ نے 1901 میں ‘کِم’ نامی ناول بھی دوسری افغان جنگ کے پس منظر میں لکھا تھا، لیکن اس کے واقعات ہندوستان میں پیش آئے تھے۔
دی لوٹس اینڈ دی ونڈ برطانوی ناول نگار جان ماسٹرز کا 1953 میں شائع ہونے والا ناول ہے۔ یہ ناول ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو ایک انجان افغان کے قتل کی چشم دید گواہ ہے اور جس کی کڑیاں ‘دی گریٹ گیم’ جو کہ برطانیہ اور روس میں متعدد جنگوں کی وجہ بنا، اس سے ملتی ہیں۔مصنّف نے اس ناول میں این نامی لڑکی کی ملاقات برطانوی فوجی روبن سیوج سے دکھائی ہے جس کی تعیناتی افغانستان میں ہوئی ہے لیکن اسے جنگ سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ یہ ناول ایک افسوس ناک واقعے کے بعد دو زندگیوں کے متاثر ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
سنہ 1978 میں دی فار پویلینز قارئین تک پہنچا جس کی برطانوی مصنّف ایم ایم تھیں۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئی تھیں اور دس برس تک اسی معاشرے کا حصّہ رہیں۔ ان کے ناول کی کہانی میں مرکزی کردار ایشٹن نامی نوجوان ہے جو اپنے انگریز والدین کی موت اور 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مقامی شناخت اور نام کے ساتھ یعنی اشوک بن کر اپنی آیا سیتا کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ ناول میں ایک ہندوستانی شہزادی کا کردار ہے۔ اس انگریز لڑکے کو شہزادی سے محبّت ہو جاتی ہے۔ پہلے وہ اس کے گھر میں نوکر ہوتا ہے اور پھر ایک انگریز بن کر شہزادی کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔
لڑکا جو اپنے انگریز ہونے سے لاعلم ہوتا ہے جب اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں بلکہ انگریز ہے، تب وہ اپنی شناخت کی تلاش میں کبھی افغانستان، کبھی انگلستان اور کبھی ہندوستان میں جا نکلتا ہے۔ یہ واقعات اس ناول میں دل چسپی اور قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں۔ ایشٹن کو افغانستان میں دو حصّوں میں وقت گزارتے دکھایا گیا ہے۔اسے دوسری افغان جنگ سے قبل انگریز فوج کے لیے بطور جاسوس افغانستان بھیجا جاتا ہے۔
ٹو اسٹیپس فرام ہیون روسی ناول نگار اور پینٹر میخائل ایوسٹافیوو کا ناول ہے جس میں روس اور افغانستان کی جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔ یہ ناول 1997 میں شائع ہوا تھا اور اس کی کہانی 80 کی دہائی کی اس جنگ کے گرد گھومتی ہے جس مجاہدین اور روسی فوج آمنے سامنے تھیں اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
-
ایک سو پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
فیونا اور باقی افراد انکل اینگس کے گھر پہنچ چکے تھے، اچانک فیونا چونک اٹھی: ’’امی ابھی تک نہیں آئیں، کافی دیر ہو گئی ہے، وہ اتنا وقت کیوں لے رہی ہیں؟‘‘
بات تو پریشانی والی تھی لیکن اس وقت کسی نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا، اور انکل اینگس نے فیونا کو تسلی دی کہ آتی ہی ہوں گی۔ انھوں نے جیب سے کچھ رقم نکالی اور فیونا کو دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ اس بار پیسے سمجھداری کے ساتھ خرچ کرے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ اب فیونا کے پاس جادوئی طاقتیں بھی ہیں، خصوصاً اب وہ سونا اور زیورات اور زمین میں دبی ہوئی دولت تلاش کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اور اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
جبران اور دانیال فرش پر بیٹھے فیونا اور اینگس کی باتیں دل چسپی سن رہے تھے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور کہا ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور فیونا نے منتر پڑھا۔۔۔۔ دالث شفشا ۔۔۔ اور اگلے لمحے وہ روشنی کے چکر میں غائب ہو گئے تھے۔
اینگس نے کہا کہ بچے چلے گئے، میں ذرا مائری کی تلاش میں جاتا ہوں، ان کو آنے میں اتنی دیر نہیں ہونی چاہیے تھی، مجھے امید ہے بچوں کی واپسی سے پہلے ہم دونوں لوٹ آئیں گے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے اور جونی نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔ان تینوں نے خود کو ایک ایسی جگہ پایا جہاں آس پاس ہریالی تھی، جس کا مطلب تھا کہ بہار کا موسم ہے، جب کہ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیچھے خزاں چھوڑ کر آئے تھے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہیں اس وقت۔ جبران نے موسم کی مناسبت سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر گلوب کے نقشے پر دیکھا جائے تو اس وقت ہم خط استوا کے جنوب میں ہیں لہٰذا ہم یا تو ارجنٹائن میں ہیں، ملاوی میں یا تسمانیہ میں۔
دانیال نے دلیل دی کہ نہ تو وہ ملاوی جیسے چھوٹے جزیرے پر ہیں، نہ ہی افریقہ میں، اس لیے بچتا ہے تسمانیہ یعنی آسٹریلیا کی ریاست۔
فیونا نے آس پاس دیکھا کہ وہاں ازالیا نامی جھاڑی نما درخت تھے، کمیلیا نامی سرخ پھولوں والے پودے تھے، گلاب اور چیری کے بھی تھے۔ جبران نے ان کی توجہ ایک عمارت کی طرف دلائی جس پر لکھا کہ یہ تسمانیہ کا نباتاتی گارڈن ہے۔ اس کے بعد ہی انھیں یقین آیا کہ وہ واقعی تسمانیہ میں ہیں۔
انھوں نے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ لندن سے دس گھنٹے آگے تھے۔تسمانیہ میں صبح کے چار بج رہے تھے اور وہاں ہلکا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پکھراج کی تلاش سے قبل حسب معمول وہ کوئی ہوٹل تلاش کرنے لگے کیوں کہ انھیں کچھ دیر کے لیے نیند لینی تھی۔ فیونا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’پھر ایک ہوٹل کی تلاش!‘‘جب وہ باغات سے گزر کر شہر کی روشنیوں میں پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تسمانیہ کے دارالحکومت ہوبارٹ میں ہیں۔ انھوں نے سڑک کنارے کچھ ہوٹل دیکھے۔ ایک ہوٹل پر لکھا تھا ’’بارامونڈی بیرک۔‘‘ جبران نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی کیمپ ہو، دعا ہے کہ ہمیں کاٹ کی چارپائیوں پر نہ سونا پڑے۔‘‘
جب وہ اندر گئے تو کاؤنٹر پر فیونا سے عمر میں بس تھوڑی ہی بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ نائٹ منیجر لڑکی نے انھیں دیکھتے ہی کہا: ’’بچے اتنے سویرے کیسے نکل آئے، تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘ وہاں صوفے پڑے ہوئے تھے، فیونا نے باقی دونوں کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نائٹ منیجر کی طرف مڑ کر وضاحت کرنے لگی کہ گاڑی میں تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی ہے، والدین اسے ٹھیک کروا کر ابھی پہنچ ہی جائیں گے، انھوں نے ہمیں بھیجا کہ ہم کمرہ بک کر لیں۔
نائٹ منیجر کا نام اسٹیفنی تھا، اس نے کہا کہ کئی بستروں والا کمرہ چاہیے ہوگا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر انھیں ہوٹل کا سب سے بڑا خالی کمرہ دے دیا گیا۔ کمرہ دوسری منزل پر تھا، تینوں اوپر پہنچ گئے۔ فیونا نے انھیں بتایا کہ اچھی بات یہ ہوئی کہ منیجر نے بغیر کسی سوال کے برطانوی کرنسی قبول کر لی۔ تینوں کمرے میں پہنچ کر الگ الگ بستروں پر ڈھیر ہو گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
مائری مک ایلسٹر کی آنکھ کھلی تو بارش برس رہی تھی، وہ بستر سے اٹھیں اور کھڑکی پر سے پردے ہٹا دیے۔ انھوں نے جیسے ہی کھڑکی کھولی بارش سے بھیگی مٹی کی خوش بو کمرے میں بھر گئی۔ نہانے سے قبل انھوں نے کچن میں جا کر چائے کے لیے پانی چڑھایا، اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو جونی سو رہا تھا۔ مائری نے سوچا کہ آج جونی کو خریداری کے لیے لے جاؤں گی تو سیکڑوں سال قدیم یہ آدمی یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ آج جدید دور میں ان کے اختیار میں کیا کیا آ چکا ہے۔فیونا اوپر سے نیچے آئی تو ناشتے کا پوچھنے لگی، مائری نے کہا ناشتے میں آج پین کیک اور روغنی میٹھی ٹکیا ویفلز ملیں گے، وہ سن کر خوش ہو گئی لیکن بارش دیکھ کر ہمیشہ کی طرح پریشان ہو کر منھ بنانے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ جونی اور جیزے کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے ناشتے کی چیزیں بالکل نئی تھیں، انھوں نے حیرت سے لیکن مزے لے کر ناشتہ کیا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ اینگس کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انکل اینگس اور جیفری کرینلارچ کے لیے ٹرین پکڑنے روانہ ہو چکے تھے۔ جیزے کو ابھی تک طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ جاتے ہی بستر پر گر گیا۔ فیونا، جونی، جمی اور جیک کو لے کر مائری شاپنگ کے لیے شہر میں نکل گئیں۔ موسم خاصا سرد تھا تو وہ اونی مصنوعات کی ایک دکان میں گھس گئے جہاں جمی کو اپنی آنکھوں سے میل کھاتا گہرے بھورے رنگ کا ایک اونی جمپر پسند آ گیا۔ جمی نے انھیں بتایا کہ بورل میں انھوں نے ایسے کپڑوں کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، وہاں تو وہ بس ایک لمبا ڈھیلا سفید رنگ کا چغہ پہنتے تھے اور پاؤں میں سینڈل۔ جمی نے وہ جمپر پہنا تو فیونا سے مسکراتے ہوئے پوچھ بیٹھا: ’’کیا میں اب برطانوی لگ رہا ہوں؟‘‘ فیونا زور سے ہنسی اور اثبات میں سر ہلا دیا، اس نے پرجوش ہو کر کہا ’’کیا آپ مجھے بوریل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ میں جانتی ہوں کہ یہ جزیرہ نمائے عرب پر واقع ہے جہاں اب یمن ہے۔‘‘
جمی نے گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ ایسی باتیں پوچھنے کی جگہ نہیں ہے، کل اگر یاد دلاؤ گی تو کچھ باتیں بتا دوں گا۔ اس کے بعد سب نے اپنے لیے جمپر پسند کیا اور مائری نے پیسے ادا کر دیے، وہ جمپر پہن کر ہی دکان سے نکلے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے شہر کی ہر چیز حیرت میں مبتلا کر دینے والی تھی، گاڑیاں، ریل گاڑی اور ہر وہ جدید چیز جس کے ذریعے آج کے دور کے انسان نے اپنے لیے زندگی میں بے پناہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ شاپنگ کے بعد وہ دوپہر کے کھانے کے لیے دی ہاگز ہیڈ اِن میں داخل ہو گئے۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے اپنی چھتریاں جھٹک دیں اور کرسی کے ایک طرف ٹکا کر زمین پر رکھ دیں۔ کچن سے آتی بھنے ہوئے گائے کے گوشت، پیاز اور آلوؤں کی مہک نے ان کی بھوک بڑھا دی تھی۔ کھانا کھا کر وہ پھر اینگس کے گھر پہنچ گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
جونی نے کتاب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’یہ کتاب ہمیں جادوگروں کے منتروں اور عجیب و غریب جادو کے بارے میں بتاتی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ….. ‘‘
جونی کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ ناچنے لگی تھی۔ وہ خصوصی طور پر فیونا، جبران اور دانیال پر نظریں جمائے مسکرائے جا رہا تھا۔ وہ تینوں بے چینی سے پہلو بدل کر نہایت غور سے جونی کی طرف ہمہ گوش ہو گئے تھے اور اس وقت تینوں کے منھ تجسس کے مارے کھلے ہوئے رہ گئے تھے۔
’’جلدی بتائیں نا پلیز۔‘‘ فیونا مچل کر بول اٹھی۔ ’’تم نے تو ہم سب کو تجسس میں ڈال دیا ہے جونی۔‘‘ مائری سے بھی رہا نہ گیا۔
جونی نے سر ہلا کر کہا: ’’ٹھیک ہے بتاتا ہوں، میں سمجھا کہ شاید آپ میں سے کوئی سمجھ جائے گا لیکن خیر یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زیلیا کا راستہ کس طرف ہے اور وہاں کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘ فیونا، جبران اور دانیال حیرت اور خوشی کے مارے چیخ اٹھے۔
’’شان دار …. سنسنی خیز … زیلیا کی مہم تو بہت دل چسپ رہے گی۔‘‘ فیونا نے کہا اور یہ بات باقی دونوں کے دل کی بھی آواز تھی۔
جونی نے کہا: ’’ہاں، لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اس کتاب کو ڈریٹن اور پہلان سے چھپا کر رکھنی ہے … ہر حال میں … اگر یہ کتاب ان کے ہاتھ لگ گئی تو پتا ہے کیا ہوگا؟ یہ کتاب آپ کی اس دنیا کو، ہماری دنیا کو الٹ پلٹ سکتی ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ تینوں پریشان نظر آنے لگے۔ ایسے میں اینگس نے کام کی پوچھی: ’’جونی کیا تم زیلیا کی زبان پڑھ سکتے ہو؟‘‘
جونی نے جواب دیا: ’’نہیں لیکن ہم بارہ آدمیوں میں سے ایک اسے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اسے یہاں پہنچنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ اس کا نام بون ٹابی ہے۔ ہم میں صرف اسی کو زیلیا کی زبان پڑھنا آتا ہے۔ ہمیں اس کتاب کی حفاظت کرنی ہے جیسا کہ ہم جادوئی گولے کی کرتے آ رہے ہیں۔ اس وقت تک جب تک وہ یہاں آ کر ہمارے ساتھ نہ مل جائے۔‘‘
اینگس کہنے لگے: ’’یہ ساری تفصیلات بہت دل چسپ ہیں اور بہت ساری باتیں مزید ہو سکتی ہیں لیکن بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب ان بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا زیادہ ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے والدین ان کے پریشان ہوں گے۔ فیونا اور مائری تم دونوں بھی اب گھر جاؤ۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جونی نے مائری کو جواب دیا کہ ایسا ممکن ہے، چند ماہ کے اندر قلعے کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جب مائری نے قلعے کے باغات سے متعلق بات کی تو جونی نے انھیں بتایا کہ ان بارہ افراد میں سے ایک جولیان ہے جو باغبان تھا اور یہ کہ وہ اس قلعے کو بہت کم وقت میں بحال کر سکتا ہے۔ دونوں قلعے کی تزئین کے فیصلے پر متفق ہو گئے۔ قلعے میں مکڑیوں اور سرنگوں کا بھی مسئلہ تھا جن کے بارے میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں بھر دیا جائے گا اور یہ طے کر وہ اندر چلے گئے تاکہ باقی سب کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ وہ سب جادوئی چمکتے دمکتے گولے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مائری نے سب کو مخاطب کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن جیسے ہی انھوں کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، دروازے پر دستک سنائی دی۔ سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اینگس بولے میں دیکھتا ہوں۔ انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک اجنبی کھڑا تھا۔ پانچواں اجنبی!
اینگس اسے دیکھ کر پہلے جو جھجکے اور پھر اسے بھی اندر لے آئے۔ سب اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آتے ہی بولا: ’’مجھے کیٹر کہتے ہیں۔ اوہو آرٹر، کووان، پونڈ، آلرائے تم چاروں کیسے ہو، کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
’’بیٹھ جاؤ کیٹر۔‘‘ جونی نے گہری سانس لی۔ ’’یہ اینگس ہے، اس گھر کا مالک اور یہ مائری، یہ ان کی بیٹی فیونا، اور یہ دونوں اس کے دوست دانیال اور جبران۔ ان بچوں نے قلعہ آذر میں جادوئی گولے کو ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ تینوں اب قیمتی پتھر جمع کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ یہ ابھی کچھ ہی دیر قبل زمرد حاصل کر کے آئے ہیں اسی لیے تم زرومنا کے وعدے کے مطابق وقت کی گزرگاہ سے ہو کر یہاں آئے ہو۔ ہم ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘
جونی کی وضاحت سن کر وہ بولا: ’’قلعہ آذر وہی جگہ ہے نا جو میں نے تلاش کی تھی۔ یہ کون سا سال ہے؟‘‘ وہ ان کے لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھا۔
’’دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ میں ہیں۔ کنگ کیگان ہم سے جدا ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور یہاں اس قلعے کو تعمیر کیا تھا۔ مائری اور فیونا ان کے وارث ہیں۔‘‘ جونی نے اسے بتایا۔
ایسے میں اچانک جیک نے اسے مخاطب کیا: ’’آج کے بعد تمھارا نام جیفری ہے کیوں کہ ہمارے قدیم نام اس دور میں بہت عجیب لگتے ہیں۔لوگ سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے ابھی مزید کچھ سننے کو ملے گا فی الحال مائری کچھ کہنے جا رہی ہیں، انھیں سنتے ہیں۔‘‘
جیفری نے اثبات میں سر ہلایا، اسی لمحے اس کی نظر ہار پر پڑی۔’’اوہو، یہ تو ملکہ سمانتھا کا ہار ہے۔‘‘جونی بولا ’’ہاں یہ میں نے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ملکہ سمانتھا بھی یہی چاہتی۔ بہرحال، تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں۔ میں جونی ہوں، کووان جمی ہے، پونڈ جیزے ہے اور آرٹر کا نام جیک ہے۔‘‘
مائری نے کھانس کر سب کو پھر اپنی طرف متوجہ کیا، اور جیفری کو مخاطب کر کے بولیں: ’’تم دوسروں سے مختلف نظر آ رہے ہو، تمھاری آنکھیں نیلی ہیں اور بال ہلکے رنگ کے ہیں۔‘‘ جیفری نے اس پر بتایا کہ اس کے والد گال کے رہنے والے تھے اور والدہ عرب تھیں بورل کی۔ جیفری پھر بورل کے بارے میں بتانے لگا: ’’گال لوہے کے زمانے میں مغربی یورپ کا ایک علاقہ تھا، جو فرانس، لگزمبرگ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، شمالی اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی پر مشتمل تھا۔‘‘
مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، اب میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، دراصل میں قلعہ آذر کی نئے سرے سے آرائش اور مرمت کرنے کا سوچ رہی ہوں تاکہ ہم وہاں منتقل ہو سکیں۔‘‘یہ سن کر فیونا اچھل پڑی۔ اس کے لیے یہ خبر سب سے زیادہ سنسنی خیز تھی۔
(جاری ہے)
-
حئی بن یقظان: عربی کا وہ ناول جس سے مغربی مصنّفین نے بھی استفادہ کیا
نیاز فتح پوری نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ذکر میں لکھا تھا کہ ایک بار حکمائے اسلام کے سلسلہ میں ابنِ طفیل کا ذکر آگیا تو مولانا نے اس کی مشہور کتاب "حئی بن یقظان” کی ساری داستان ایک نشست میں اس طرح سنا دی گویا وہ اس کے حافظ تھے۔
اسی تذکرہ نے ابنِ طفیل اور اس کی کتاب کے متعلق جستجو پیدا کی۔ ابو بکر محمد بن عبد الملک بن محمد بن طفیل القیسی 1110ء کو غرناطہ کے نواح میں پیدا ہوئے۔ ان کے ابتدائی حالات تاریکی میں ہیں۔ ابنِ طفیل نے طبابت کا پیشہ اختیار کیا۔1154ء میں طنجہ کے گورنر کے سیکریٹری مقرر ہوئے اور پھر الموحد خاندان کے فرمانروا، ابو یعقوب یوسف کے دربار میں پہنچے جہاں انہیں وزیر مقرر کیا گیا اور عہدۂ قضا بھی انہیں کے سپرد تھا۔ مشہور فلسفی ابنِ رشد کو انہوں نے ہی شاہی دربار تک پہنچایا تھا۔
ابنِ طفیل نہ صرف طبیب بلکہ ماہرِالٰہیات، فلکیات، فلسفی اور ناول نگار بھی تھے۔ ان کی کتابوں میں صرف ایک کتاب "اسرارُ الحکمۃ المشرقیہ” (حئی بن یقظان) محفوط رہی۔ ابنِ طفیل کا انتقال 1185ء میں طنجہ میں ہوا۔
حئی بن یقظان ایک فلسفیانہ ناول ہے جس میں افلاطونیتِ جدیدہ کے مسائل کو افسانے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کے مقدمہ میں ابنِ طفیل نے پہلے مسلم فلاسفی کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے ابنِ سینا، ابنِ باجہ اور غزالی کی تعریف کی ہے۔ اور پھر یہ ثابت کیا ہے کہ فلسفہ کی اصل غائت ذاتِ خداوندی سے متحد کر دینا ہے اور یہی فلسفہ صوفیا کا ہے۔
قصہ یوں شروع ہوتا ہے:
ایک شہزادی نےاپنے لڑکے کو، جس کا باپ نہ تھا، سمندر میں ڈال دیا اور یہ بہتا بہتا ایک سنسان جزیرے میں پہنچ گیا۔ اس موقع پر وہ اس نظریہ کو پیش کرتے ہیں کہ اوّل اوّل زمین میں گرمی سے جو کیفیت خمیر کی پیدا ہوئی تھی اس سے جاندار کی تخلیق ہونا ممکن تھی، ابنِ طفیل نے اس کا نام حئی ( زندہ ) رکھا۔ اس لڑکے کو ایک ہرن لے گیا اور اسی ہرن نے اس کی پرورش کی۔ جب حئی نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ وہ دوسرے جانوروں کی طرح ننگا اور غیر مسلح تھا، اس لئے اس نے پتّوں سے جسم کو ڈھانکا اور درختوں کی شاخ سے لکڑی توڑ کر ایک چھڑی تیار کی۔ اس طرح سب سے پہلے اسے اپنی ہاتھ کی قوت کا علم ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ شکاری بن گیا اور اپنی رہائش کے لیے ایک جھونپڑا بھی تیار کرلیا۔جب ہرن بہت بوڑھا ہو کر بیمار پڑگیا تو اس لڑکے نے سوچا کہ بیماری کیا چیز ہے اور اس کا سبب کیا ہے۔ پھر وہ یہ سوچ کر کہ بیماری کا تعلق سینہ سے ہے وہ اسے ایک تیز نوک دار پتھر سے چیرنے لگا۔ اس طرح اسے دل، پھیپھڑے اور اندرونی اعضاء کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ وہ یہ بھی محسوس کرنے لگا کہ جسم کے اندر کوئی اور چیز ایسی تھی جو نکل گئی تو اس کے باعث ہرن بے حس و حرکت ہو گیا۔ جب ہرن کا جسم سڑنے لگا تو حئی نے ایک کوّے کو دوسرے کوّے کا مردہ جسم زمین کھود کر اندر گاڑتے ہوئے دیکھ کر خود بھی ہرن کا جسم زمین میں دفن کر دیا۔
اس کے بعد اتفاق سے خشک شاخوں کی باہمی رگڑ سے آگ پیدا ہوتے دیکھ کر اس نے خود بھی آگ سے جان پہچان بنائی۔ اسی کے ساتھ اس گرمی کی طرف بھی اس کا خیال منتقل ہوا جو جسمِ حیوانی میں پائی جاتی ہے اور وہ جانوروں کی کھال نکال کر ان کی جسمانی حرارت پر غور کرنے لگا۔ اس کی ذہانت اب ایک قدم اور آگے بڑھی۔
یعنی وہ کھالوں کے لباس بنانے لگا۔ اس نے روئی کاتی، سوئی بنائی اور چڑیوں کے گھونسلے دیکھ کر مکان تیار کیا۔ شکاری پرندوں کو دیکھ کر خود بھی شکار کرنا شروع کیا۔ چڑیوں کے انڈے کھانے لگا اور جانوروں کے سینگوں سے ہتھیار کا کام لیا۔
اب اس کا علم بڑھتے بڑھتے فلسفہ کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ رفتہ رفتہ نباتات و معدنیات کا مطالعہ کرنے لگا۔ اعضاء، وزن اور دیگر خصوصیاتِ طبعی کی بنا پر جانوروں کی قسمیں مقرر کیں۔ آخر میں وہ روح پر غور کرنے لگا جس کا تعلق اس کے نزدیک دل سے تھا اس نے روح کی دو قسمیں (روحِ نباتی، روحِ حیوانی) قرار دیں۔ اس کے بعد اس نے عناصرِ اربعہ کا علم حاصل کیا اور مٹی پر غور کرتے کرتے اس کا خیال مادّہ کی طرف منتقل ہوا۔ پانی کو بخار ( بھاپ ) میں تبدیل ہوتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک مادّہ دوسرے مادّہ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور پھر اس کا خیال علتِ تخلیق کی طرف منتقل ہو کر خالق تک پہنچا اور زمین سے ہٹ کر اب اس کی نگاہیں آسمانوں کی طرف مائل ہوتی نظر آئیں۔ اس نے سوچا کہ کیا یہ کائنات غیر محدود ہے؟
لیکن اس کی عقل اس بات کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اس نے سیاروں کے کُروی ہونے کا گمان کیا۔ آخر کار رفتہ رفتہ ایک خالق یا خدا کا تصور اس کے ذہن میں پیدا ہوا جسے حئی بن یقظان نے آزاد اور صاحبِ علم و ادراک تصور کیا اور پھر روحِ انسانی کو بھی غیر فانی قرار دے کر ذاتِ خداوندی سے اس کے ربط و تعلق پر غور کرنے لگا۔ ایک زمانہ اس نے اسی فکر و مراقبہ میں گزارا۔
اس موقع پر قریب کے جزیرہ سے ایک شخص اسال وہاں پہنچا جو ایک الہامی مذہب کا پیامبر تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسال جس مذہب کا پابند ہے وہ دراصل وہی ہے جس تک حئی سالہا سال کے غور و فکر سے پہنچا۔ پھر اسال نے اسے آمادہ کیا کہ وہ جزیرہ جا کر وہاں کے بادشاہ سلامان کو اس حقیقت سے آگاہ کرے کہ ایک خدا پر ایمان لاؤ اور فطرت کے قوانین کو مت توڑو۔ لیکن سلامان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ آخر کار حئی اور اسال دونوں واپس آ گئے اور صحرا میں رہ کر فکر و مراقبہ میں انھوں نے اپنی زندگی تمام کر دی۔
ابنِ طفیل کی اس عربی کتاب پر حواشی بھی لکھے گئے اور اس کتاب سے نصیر الدین طوسی اور جامی نے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب سے مغربی مصنفین نے بھی بہت فیض حاصل کیا ہے۔ انگریزی کے مشہور ناول ٹارزن میں ہیرو کی تربیت کا تصور اسی کتاب سے استفادہ کا ثبوت ہے۔ انگریزی ہی کے ایک اور مشہور ناول رابنسن کروسو (Robinson Crusoe) کی تخلیق میں اس کے مصنف ڈینیل ڈیفو (Daniel Defoe) نے اسی ناول کی تقلید کی ہے۔ لئیون گوئٹے نے حئی بن یقظان کے مقدمہ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ رابنسن کروسو میں فرائی ڈے کا کردار، اسال کا چربہ ہے اور اس میں جو فلسفیانہ نکتہ سنجی اور حکیمانہ موشگافیاں پائی جاتی ہیں وہ بھی اسی سے ماخوذ ہیں لیکن اسلوب عصرِ جدید کے مطابق ہے۔
جوناتھن سوِفٹ (Jonathan Swift) اپنی کہانی گلیورز ٹریولز (Gulliver`s Travels) کی تالیف میں "حئی بن یقظان” ہی کا مرہونِ منت ہے۔ بون یونیورسٹی کے پروفیسر روڈلف نیس نے اپنے ناول خاندان سوئزر لینڈ میں اسی عربی کتاب کا تتبع کیا ہے۔
1671 میں اس کتاب کا ترجمہ ایڈورڈ پوکوک نے لاطینی میں کیا۔ اس کا ترجمہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، ہسپانوی، ولندیزی اور اردو میں ہوچکا ہے۔ 1900ء میں اس کا ایک ترجمہ عبرانی زبان میں بھی کیا گیا ہے۔
اشویل نے اپنے انگریزی ترجمہ کے مقدمہ میں ابنِ طفیل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
"ابو بکر ابنِ طفیل مشہور مسلمان فلسفی ہے۔ اس نے اپنے قصہ میں ارتقائے عقلِ انسانی کے مدارج واضح کیے ہیں اور نہایت چابک دستی سے راز ہائے کائنات کا انکشاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی دقتِ مشاہدہ حوادثِ کون و مکاں کی تفسیر میں ظاہر بین ہے۔”
(یہ اقتباس اردو کے معروف علمی و ادیی جریدے نگار کے 1955ء میں شایع ہونے والے ایک شمارے سے لیا گیا ہے)