Tag: اردو ناول
-
ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
-
ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
دریائے یوکان پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ وائٹ ہارس آنے والے اکثر سیاح سونا چھاننے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکال رہے تھے۔ ان میں سے ایک ڈریٹن بھی تھا جس نے کرائے پر چھلنی خریدی تھی اور پھر دریا کے کنارے ایک جگہ منتخب کر کے ریت چھاننے بیٹھ گیا تھا۔ اس کے ایک طرف امریکا سے آئی ہوئی ایک فیملی بیٹھی تھی اور دوسری طرف ادھیر عمر میاں بیوی بیٹھے ریت چھان رہے تھے۔ڈریٹن کافی دیر سے جھک کر دریا میں چھلنی ڈال کر نکالتا تھا اور چھاننے کے بعد اس میں ریت اور کنکر کے سوا کچھ نہ پاتا تھا۔ سونے پر سہاگا، اس کے ایک طرف بیٹھی فیملی کے لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خوشی سے چیخ اٹھتے تھے کیوں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنی چھلنی میں سونے کی چمک دار ڈلی موجود پاتا۔ یہ دیکھ کر وہ جلن اور حسد کے مارے تپنے لگا۔ دیگر لوگ بھی دریا کنارے بیٹھے کبھی کبھی مسرت بھری چیخ کے ساتھ اچھل پڑتے تھے، اور ڈریٹن کو آگ لگ جاتی تھی۔
وہ غصے کے مارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہی کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ باقی سب کو سونے کے ڈلے مل رہے ہیں اور وہ مسلسل محروم ہے۔ وہ اٹھا اور اپنی کمر سیدھی کرنے لگا، کیوں کہ وہ کافی دیر سے اکڑوں بیٹھا تھا، اس لیے اس کی کمر، گردن اور گھٹنے درد کرنے لگے تھے۔ اس نے دریا کنارے لوگوں پر ایک نگاہ ڈال کر زیر لب کہا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اب دوسرے پلان پر عمل کرنا ہوگا، ٹھیک ہے تو شروع ہو جاؤ ڈریٹن!‘‘
وہ چہل قدمی کرتے ہوئے قریب بیٹھی فیملی کے پاس سے گزرنے لگا تو قصداً پھسل کر گرنے کی اداکاری کی اور اس دوران ایک بچے کو دھکا دے کر اس نے دریا میں گرا دیا۔ بچے کے والدین اور بہن بھائی اپنی اپنی چھلنی ہاتھوں سے گرا کر گھبراتے ہوئے اسے بچانے دوڑے۔ جب کہ ڈریٹن نے اطمینان کے ساتھ ان کے ایک جگہ جمع کیے گئے سونے کے ڈلے اپنی جیب میں منتقل کر دیے۔ جب فیملی والے بچے کو نکال کر بھیگے ہوئے اپنی جگہ پر آئے تو سونا غائب پا کر افسوس کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ ڈریٹن نے اگلے ایک گھنٹے میں بھرپور کارروائیاں کیں اور کئی لوگوں کو سونے کے ڈلوں سے محروم کر دیا اور پھر بھری جیبوں کے ساتھ قریبی بینک جا کر رقم کے عوض سونے کے ڈلوں کا تبادلہ کر لیا۔ جب وہ بینک سے نکلا تو کئی ہزار کینیڈین ڈالرز سے اس کی جیبیں پھولی ہوئی تھیں۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو ساٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’ہم آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے فضا میں اچھل کر بولی۔ ’’اور ہم اس وقت کہاں ہیں، ہمیں نہیں پتا، شین کہاں ہے یہ بھی نہیں پتا، اور ہمارا سامان کہاں ہے، بالکل نہیں پتا!‘‘ وہ تینوں ہنسنے لگے۔
ان کے بیگ دریائے یوکان میں کہیں بہتے ہوئے جا رہے ہوں گے، لیکن انھیں اس کا غم نہیں تھا۔ دانیال سردی سے کانپتے ہوئے بولا: ’’ہم خوب بھیگ چکے ہیں، کہیں سردی سے برف نہ بن جائیں۔‘‘ جبران برف کی ایک چٹان پر چڑھ گیا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’شکر ہے سورج ابھی تک موجود ہے، ورنہ ہم قلفی کی طرح جم جاتے۔ اور یہ دیکھو، انکل اینگس کا کیمرہ ابھی تک میرے گلے میں موجود ہے، واؤ۔‘‘
ان دونوں کے برعکس دانیال کا برا حال تھا۔ وہ ایک جوہڑ میں گرنے کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت ہو چکا تھا۔ وہ بار بار بالوں سے کیچڑ نکال نکال کر جھٹک رہا تھا۔ ’’پانی کی یہ سواری تو میرے لیے بہت ناگوار ثابت ہوئی۔‘‘
ایسے میں جبران کو کرسٹل یاد آ گئی۔ اس نے کہا شاید ننھی پری بھی پانی میں بہہ کر غرق ہو گئی ہے۔ لیکن فیونا اچھل کر بولی: ’’وہ زندہ ہے، وہ رہی گلیشیئر کے پاس سے روشنی کی ایک کرن اڑ کر آ رہی ہے۔‘‘
جب وہ قریب آئی تو جبران نے اپنی ہتھیلی آگے کر پھیلا دی۔ ’’تمھیں زندہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ جبران نے کہا اور کرسٹل اس کی ہتھیلی پر اتر گئی۔
’’تم لوگوں کی طرح میں بھی آزاد ہو گئی ہوں۔‘‘ وہ گہری سانس لے کر بولی۔ ’’اگرچہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی، میں زمرد کی حفاظت نہ کر سکی، میں تو بالکل ہی بھول گئی ہوں کہ باہر کی یہ دنیا کیسے لگتی ہے۔ میری دنیا تو برف تک محدود ہو گئی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ دنیا میں ہر چیز برف کی ہوتی ہوگی۔‘‘
فیونا کہنے لگی: ’’کرسٹل تم ناکام نہیں ہوئی ہو، ہمیں زمرد کے حصول ہی کے لیے بھیجا گیا ہے اور ہم اچھے لوگ ہیں۔ پتا ہے ابھی کچھ دیر بعد ہم اس شخص سے ملاقات کریں گے جس نے تمھیں زمرد کی حفاظت پر مامور کیا تھا۔ میرا خیال ہے اگر تم اپنے لوگوں سے جا ملو تو وہ شخص بہت خوش ہوگا۔ تم برف کی شہزادی ہو اور سچ میں شہزادیوں کی طرح لگتی ہو۔ اب تم گلیشیئر کی چوٹی پر چلی جاؤ، مجھے یقین ہے تم اپنے دوستوں کو ڈھونڈ لوگی۔‘‘
سورج کی روشنی میں پری کے پر چمکنے لگے تھے۔ وہ بولی: ’’ان کرنوں میں مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، میں ایک بار پھر پھولوں اور تتلیوں کا نظارہ کر سکوں گی۔‘‘
دانیال ابھی تک اپنے کپڑوں سے کیچڑ جھاڑنے میں لگا ہوا تھا، بولا: ’’کیا تتلیاں بھی تم سے دوستی کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ ہم تو بہت اچھے دوست ہیں۔‘‘ کرسٹل بولی: ’’ٹھہرو ذرا، میں تمھاری مدد کرتی ہوں، تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ لیکن ان دونوں سے ذرا دور۔‘‘
’’تم کیا کرنے والی ہو میرے ساتھ۔‘‘ دانیال نے اسے گھور کر دیکھا۔’’ڈرو نہیں، تم میرا جادو ابھی دیکھ لو گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی ہتھیلی اٹھا کر کھولی۔ اس پر برف کے ننھے ننھے ٹکڑے پڑے تھے اور بالکل قطروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ کرسٹل نے ہتھیلی کو جھٹکا دیا۔ برف کے ننھے ٹکڑے اڑ کر دانیال کے گرد چکر کاٹنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے وہ بھی ان کے ساتھ لٹو کی طرح گھومنے لگا۔ اس کے جسم پر موجود کیچڑ اڑ کر دور گرا اور جب وہ اپنی جگہ ٹھہر گیا تو بالکل صاف ستھرا نظر آنے لگا تھا جیسے اسے کیچڑ لگا ہی نہیں تھا۔ لیکن کچھ دیر تک اسے ایسا لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے۔ وہ ہوا میں ہاتھ پھیلا کر سہارا پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر اس کی حالت بحال ہو گئی۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
ایک سو انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’تم لوگوں کو یہاں سے نکل کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ کرسٹل بولنے لگی: ’’تم نے زمرد نکالا ہے، یہ ہر صورت یہیں رہے گا۔ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں اسے یہاں سے ادھر ادھر نہ ہونے دوں، اس لیے تم لوگ یہاں سے اب نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ہم یہاں رہے تو مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ہم انسان ہیں، پریاں نہیں۔ ہم کھاتے پیتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ تم تو پری ہو، تمھیں کھانے پینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تم اولے کی طرح سفید اور برف کی طرح سرد ہو، تم خود کو دیکھو ذرا۔‘‘
اچانک جبران بولا: ’’ہم تمھارے دوستوں تک تمھیں پہنچانے کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن کرسٹل کی سرد اور جذبات سے خالی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’میرے دوستوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں یہیں رہوں۔ تم لوگ بے کار بحث کر رہے ہو، میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گی چاہے مر ہی کیوں نہ جاؤں۔‘‘
فیونا نے التجا کی: ’’کرسٹل، تم ایک ہزار سال قدیم ہو، تم غالباً نہیں مروگی لیکن ہم تو بچے ہیں، تمھاری طرح لمبا عرصہ نہیں جئیں گے، پلیز ہمیں جانے دو۔‘‘ جبران نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر ذرا دور لے جا کر سرگوشی کی: ’’فیونا، تم آگ والا شعبدہ دکھاؤ، اس غار میں آگ بھڑکا کر اسے پگھلا کر رکھ دو۔ ہم گلیشیئر کے آخری سرے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اب ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ تم ایسا کرو کہ اس ننھی پری کو باتوں میں لگاؤ، اسے پتا نہ چلے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔‘‘
جبران کرسٹل کی طرف دوڑ کر گیا اور اچانک قہقہے لگا کر اس کے اردگرد اچھل کود کرنے لگا، پھر بولا: ’’کرسٹل، میں نے اپنا خیال بدل لیا ہے، اب میں تمھارے ساتھ یہاں رہوں گا، کیا تم مجھے برف کی مزید رنگین قلمیں دکھانا پسند کرو گی؟ اور مجھے بتاؤ کہ تم انھیں رنگین کس طرح بناتی ہو؟‘‘
کرسٹل نے ہاں میں سر ہلایا اور غار کے مزید اندر کی طرف اڑ کر جانے لگی۔ دوسری طرف فیونا دانیال کی طرف دوڑ کر گئی اور اس سے بولی کہ برف کی دیوار سے پیچھے ہٹ جائے کیوں کہ وہ اسے آگ سے پگھلانے والی تھی۔ ’’دانی، تم کوئی چیز مضبوطی سے پکڑ لو، کیوں کہ برف پگھلے گی تو پانی ریلا بہہ کر آئے گا۔‘‘
دانیال نے قریب ہی ایک لٹکتی مضبوط قلم کے گرد بازو پھیلا کر اسے جکڑ لیا۔ فیونا نے آگ کا تصور کیا اور برف کی دیواروں پر ننھے ننھے شعلے بھڑک اٹھے۔
’’دیکھو دانی، یہ شعلے برف پر کتنی پیاری چمک پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے ننھے شعلے دیکھے تو خوش ہو کر کہا لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’بھاڑ میں گئے یہ پیارے شعلے، زیادہ آگ بھڑکاؤ تاکہ ہم یہاں سے آزاد ہو سکیں۔‘‘فیونا نے پھر آگ پر توجہ مرکوز کر دی۔ اب ننھے شعلے یکایک دگنے تگنے ہو کر پھیل گئے، اور لمحوں میں برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اس نے پھر توجہ بڑھائی اور شعلے مزید بڑے ہو گئے۔ برف کی قلمیں یکے بعد دیگرے گرنے لگے ار پانی کا ریلا بہنا شروع ہوا۔ اس نے چیخ کر دانیال کو خبردار کیا: ’’خود کو سنبھالو!‘‘
لمحوں کے اندر اندر وہ دونوں پانی میں مکمل طور پر بھیگ گئے تھے۔ صاف اور برفیلے پانی نے انھیں اس طرح گھیرا جیسے کوئی انھیں زمین یا دیواروں پر پٹخ رہا ہو۔ آگ کی وجہ سے غار میں ٹھنڈا یخ دھواں پھیل گیا تھا۔ برف کے بڑے بڑے تودے ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے اور برف کی چھت میں دراڑیں نمودار ہو گئی تھیں، جن روشی چھن کر غار میں آنے لگی تھی۔ روشنی دیکھ کر دانیال خوشی سے چیخ کر بولا: ’’فیونا، تمھارے جادو نے کام کر دکھایا، ہم آزاد ہو رہے ہیں۔‘‘
جب کرسٹل کو پتا چلا تو دیر ہو چکی تھی، وہ چیخنے چلانے لگی اور برف کے گرتے ٹکڑوں سے خود کو بچاتے ہوئے ادھر ادھر بدحواسی میں اڑنے لگی۔ ’’تم نے میرا گھر برباد کر کے اچھا نہیں کیا، تم یہاں سے باہر نہیں جا سکتی، تم نے یہیں میرے ساتھ رہنا ہے۔‘‘اُمڈتے ہوئے پانی کے تیز دھارے نے آخرکار گلیشیئر کی دیواروں کو توڑ دیا اور پہاڑ کے نشیب کی طرف بہنے لگا۔ اس کا رخ بھی اسی طرف تھا جس طرف کچھ دیر قبل پانی کا ایک ریلا گیا تھا۔ گلیشیئر کا سامنے والا حصہ مکمل طور پر گر کر ٹوٹ چکا تھا۔ پانی کی لہر ان تینوں کو بھی اپنے ساتھ اس غار سے باہر نکال کر لے گئی۔
(جاری ہے……)
-
ایک سو اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
دانیال بڑبڑایا: ’’شفاف پری!‘‘ فیونا بولی: ’’ہیلو کرسٹل فیری، میرا نام فیونا ہے، یہ دانی اور جبران۔ کیا تم یہاں گلیشیئر کے اندر رہا کرتی ہو؟‘‘
’’میں یہاں سے بہت دور شمال کی طرف دوسری پریوں کے ساتھ رہا کرتی تھی۔‘‘ ان کے کانوں سے شفاف پری کی آواز ٹکرانے لگی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ پری کی آواز میں دکھ ہے۔ ’’ہم سیر کرنے نکلے تھے کہ ایک دن زبردست طوفان آیا۔ تیز ہوا کے تھپیڑوں نے مجھے زمین پر دے مارا اور میں بے ہوش ہو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو خود کو اس گلیشیئر میں قید پایا۔ پتا ہے، میں کتنے عرصے سے یہاں قید ہوں؟ ایک ہزار سال سے!‘‘
’’ایک ہزار سال سے!‘‘ تینوں کے منھ سے حیرت کے مارے بہ یک وقت نکلا۔ دانیال ایک طرف سر جھکا کر دیکھنے لگا تاکہ اس کے ننھے پر واضح طور پر دیکھ سکے۔ ’’کیا دوسری پریوں نے تمھیں تلاش نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھ لیا۔ کرسٹل پری نے جواب دیا کہ ضرور تلاش کیا ہوگا لیکن پھر مایوس ہو گئی ہوں گی۔ اس نے کہا: ’’میں آج تک یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہوں لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا۔ اب تم آ گئے ہو تو راستہ بن گیا ہے۔ یہ جو رنگین قلمیں نظر آ رہی ہیں دراصل یہ میں نے وقت گزاری کے لیے انھیں رنگوں سے سجایا ہے۔ زمین کے اوپر خوش رنگ پھول مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ برف کی یہ قلمیں خوب صورت ہیں نا؟‘‘
اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا، دانیال نے فیونا کی طرف جھک کر سرگوشی کی کہ اگر یہ سچ مچ میں پری نہ نکلی تو کیا ہوگا، اگر یہ تیسرا پھندا ہوا تو؟ فیونا نے جواباً دانت کچکچائے: ’’بے وقوف مت بنو دانی، یہ پری برف کے گالے کی طرح معصوم ہے۔‘‘
’’کیا تم تینوں میرا گھر دیکھنا چاہو گے؟‘‘ وہ غار کے اندر کی طرف اڑتے ہوئے بولی۔ ’کیوں نہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا: ’’تم بہت پیاری ہو، کیا میں تمھاری تصویر بناؤں؟‘‘
’’ہاں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرے پیچھے آؤ۔‘‘یہ کہہ کر وہ اڑ کر اندر جانے لگی۔ فیونا اور جبران اس کے پیچھے چلنے لگے تو دانیال نے بھی مجبوراً قدم اٹھائے۔ اس نے پھر سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا ہم اس پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ کیا پتا یہ تیسرا پھندا ہو اور ہمیں پھنسانے لے جا رہی ہو۔‘‘دانیال پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ برف میں ہمیشہ کے لیے قید ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن فیونا ناگواری سے کہنے لگی: ’’دیکھو دانی، کیا کرسٹل کسی شیطان کی طرح نظر آتی ہے؟ کیا وہ ایک پھندا دکھائی دیتی ہے؟ اس نے خود ہی کہا ہے کہ وہ تو ایک ہزار سال سے یہاں قید ہے … بے چاری!‘‘
کرسٹل انھیں برف کی قلموں کے آس پاس سے گزار کر لے جا رہی تھی، وہاں انھیں مزید جھلملاتے رنگ دکھائی دیے، جو سرخ، زرد اور نارنجی تھے۔ جبران نے ان کی بھی تصویر لی۔ اچانک انھیں اپنے پیچھے کچھ چٹخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دانیال نے جلدی سے مڑ کر دیکھا اور گھبرا کر بولا: ’’فیونا، مڑ کر دیکھو، برف کی دیوار سخت ہو گئی ہے۔ ہم کرسٹل کے برفیلے غار میں قید ہو چکے ہیں!‘‘
تینوں گھبرا کر اس دیوار کی طرف دوڑ کر گئے اور اسے زور زور سے لاتیں مارنے لگے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دانیال بڑبڑایا: ’’میں شرط لگا سکتا ہوں یہ کرسٹل کی کارستانی ہے۔‘‘
جبران پاگلوں کی طرح چلا کر بولا: ’’مارو… اسے زور سے مارو، تاکہ یہ دیوار ٹوٹ جائے۔ ہمیں باہر نکلنے کے لیے اسے توڑنا ہی ہوگا ورنہ یہ غار ہماری قبر بن جائے گا۔‘‘
فیونا مڑ کر کرسٹل کو آوازیں دینے لگی: ’’کرسٹل فیری، تم کہاں ہو؟‘‘جبران نے جھنجھلا کر کہا: ’’تم اسے کیا آوازیں دے رہی ہو، وہ تو غائب ہو گئی ہے۔ میں یہاں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ ایک دم روہانسا ہو گیا اور پھر اچھل اچھل کر برف کی دیوار کو لاتیں مارنے لگا۔ دانیال بھی اپنی کوشش کر رہا تھا لیکن برف کی دیوار ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ پتھر کی ہو۔ پھر اس نے ٹھہر کر مایوسی سے کہا: ’’نہیں، یہ نہیں ٹوٹے گی، ہم یہیں مر جائیں گے، میں شروع سے جانتا تھا یہ پری بہت گندی ہے۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھہرو، ہم اس دیوار کو نہیں توڑ سکتے۔ ہمیں کرسٹل سے بات کرنی ہوگی، کہاں گئی وہ، میں جاتی ہوں اس کے پیچھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑی۔ جبران بدستور برف کی دیوار پر ضربیں لگا رہا تھا پھر بولا: ’’دانی، تم اسے اپنے بوٹ سے توڑنے کی کوشش کرتے رہو، یہ برف ہے ضرور ٹوٹ جائے گی۔ میں فیونا کے پاس جاتا ہوں، ہو سکتا ہے اس کو مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘
جبران فیونا کے پاس آیا تو وہ کرسٹل سے کہہ رہی تھی: ‘‘کیا مطلب ہے تمھارا، ہم یہاں سے کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘
(جاری ہے۔۔۔)
-
ایک سو ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
فیونا کی آواز ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’گلیشیئر کے اندر یہ رنگ کہاں سے آئے!‘‘ اس نے برف کی ایک قلم کو چھو کر دیکھا اور پھر بولی: ’’یہ تو برف ہی کی طرح ہے، سرد لیکن رنگ ہلکا سبز دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ جبران نے فوراً کیمرہ نکال کر برف کی رنگین قلموں کی تصویر اتاری اور کیمرہ واپس گلے میں لٹکا لیا۔ فیونا نے اوپر دیکھا تو دراڑ سے روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ برف کی قلمیں چونے کے پتھر جیسے سبز، سبز مائل نیلے، نہایت ہلکے سبز رنگ، نیلے آسمانی رنگ، سرخ مائل پیلے رنگ، خاکستری اور جامنی رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ سارے ہی رنگ بہت دل کش تھے۔ دانیال اِدھر اُدھر گھوم کر مزید رنگ تلاش کرنے لگا اور جلد ہی اسے ہلکے گلابی اور انگوری رنگ کی قلمیں بھی نظر آ گئیں۔ وہ بولا: ’’یہ نظارہ خوب صورت اور دل کش تو بہت ہے لیکن پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، میرا دل اچانک گھبرانے لگا ہے۔‘‘
وہ چپ ہوا تو دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ اسے اچانک کچھ یاد آیا تو فیونا کی طرف مڑا۔ ’’فیونا، یاد ہے، میں نے تمھیں تحفے میں ایک نیکلس دیا تھا۔‘‘
’’ہاں …‘‘ وہ حیران ہوئی، پھر مسکرا کر شرٹ سے نیکلس نکال کر دکھایا: ’’یہ رہا۔‘‘
نیکلس دیکھ کر دانیال کی آنکھوں میں سکون اتر آیا۔ ’’پتا ہے، یہ چھوٹا سا چوہا بہت لکی ہے، ہو سکتا ہے ہمیں آج اس کی ضرورت پڑے۔‘‘’’ارے دانی، تم تو برف کے اس غار میں داخل ہونے سے پہلے بہت بہادر بن رہے تھے، اب کیا ہو گیا تمھیں!‘‘ فیونا نے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں رکھ کر اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔ جبران پاس آ کر بولا: ’’تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو، مجھے تو یہ جگہ بہت جادوئی سی لگتی ہے، کتنی پراسرار جگہ ہے یہ۔‘‘
فیونا ہنس پڑی۔ ’’جادوئی … پر اسرار … ہاہاہا!‘‘ ہنستے ہنستے وہ گھومی اور پھر یکایک نہ صرف اس کا جسم ایک جگہ ٹھہر گیا بلکہ ہنسی بھی رک گئی۔ وہ دونوں سوالیہ نگاہوں سے اس کی دیکھنے لگے۔ ’’مم … میرے چہرے سے کچھ ٹکرایا تھا ابھی۔‘‘ وہ ہکلا کر بولی۔
’’کک … کیا …؟‘‘ دانیال نے بالکل اسی کے انداز میں مذاق اڑایا اور ہنسا۔
’’میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ فیونا واقعی سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔ ’’دیکھو، دیکھو!‘‘ وہ اچھل کر بولی۔ ’’ابھی میرے سامنے سے کچھ گزرا ہے، کیا تم دونوں نے نہیں دیکھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں پریشانی کی جھلک نمایاں ہو گئی تھی۔
’’ارے ہاں، میں نے بھی دیکھا۔ یہ تو کسی پری کی طرح تھی۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا: ’’میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے اب۔ میں نے اندر آنے سے پہلے کہا تھا کہ کوئی عجیب بات ہو جائے تو غار سے نکلیں گے۔‘‘
’’یہ تم دونوں کیا پری پری کر رہے ہو۔ گلیشیئر کے اندر پری کہاں سے آ گئی؟‘‘ دانیال کو لگا وہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔
’’اُدھر دیکھو، وہ کیا ہے؟‘‘ جبران نے ایک طرف اشارہ کیا اور تینوں ایک قطار میں کھڑے ہو کر اُس طرف دیکھنے لگے۔ ان کے سامنے ہوا میں ایک ننھی پری اپنے برف ایسے پر پھڑپھڑا رہی تھی، اور اس پھڑپھڑاہٹ سے ہلکی ہلکی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
’’برف کی پری!‘‘ دانیال کے منھ سے ایسے نکلا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ ’’اف میرے خدا، برف کی بھی پری ہوتی ہے، اور ایسے ہوتی ہے!‘‘
وہ دیکھ رہے تھے کہ پری خود بھی سفید تھی اور اس کے کپڑے اور لمبے بال بھی سفید اور چمک دار تھے۔ اس کے سر پر برف سے بنا ایک ننھا سا چمک دار تاج سجا ہوا تھا۔ وہ اڑ کر ان کے قریب آئی اور پھر انھیں پری کی آواز سنائی دی: ’’میرا نام کرسٹل فیری ہے۔‘‘
وہ تینوں ایسے چونکے جیسے خواب سے جاگے ہوں۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
ایک سو ترپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اس سے پہلے کہ ان کے قدم دوڑے کے لیے حرکت میں آتے، گلیشیئر کا ایک بہت ٹکڑا ان سے چند قدم کے فاصلے پر دھم سے آ گرا اور وہ تینوں خود کو اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بچا نہیں پائے۔ انھیں ایسا لگا جیسے انھیں پتھر آ کر لگے ہوں۔ ’’بھاگو، جان بچاؤ، ورنہ ہم یہیں دفن ہو جائیں گے۔‘‘ فیونا چلا کر بولی۔
تینوں تکلیف کے باوجود دوڑنے لگے۔ برف ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگی تھی اور وہ دہشت سے آنکھیں پھاڑے ان سے بچ بچ کر کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہو رہے تھے اور برف کے تودے ان کے دونوں طرف گر رہے تھے۔ ایک جگہ انھیں اپنے قدم روکنے پڑ گئے، انھوں نے دیکھا کہ وہ برف کے دو بڑے تودوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ سامنے نکلنے کا تنگ راستہ تھا۔ وہ امید کا دامن تھام کر اس طرف لپکے۔ ایسے میں برف ٹوٹنے کی ایک اور دہشت ناک آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑے لیکن راستہ بند ہو چکا تھا۔ ابھی وہ آنے والی آفت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ گلیشیئر کی منجمد دیوار یک لخت پھٹ گئی اور ٹھنڈے یخ پانی کی ایک لہر ان پر چڑھ دوڑی۔
’’یہ پانی کہاں سے آیا؟‘‘ دانیال کی آواز میں خوف اور حیرت دونوں تھے۔ جبران جلدی سے بولا: ’’جہاں سے بھی آیا ہو، چلو راستہ تو بن گیا۔‘‘ جبران جلدی سے اس راستے کی طرف بڑھا لیکن فیونا نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا اور اسے گلیشیئر کے ایک بڑے تودے کی طرف کھینچتی ہوئی لے گئی۔ دانیال بھی جلدی سے تودے پر چڑھا۔ پانی کا تند و تیز ریلا بڑے بڑے پتھر لڑھکاتا ہوا نیچے جانے لگا۔ فیونا نے اپنی سانسوں پر قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’میں بتاتی ہوں کہ یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ پہلے اس تودے کے سب سے اوپری سرے پر چڑھتے ہیں۔ جبران تم تو موت کے منھ میں گرنے جا رہے تھے۔‘‘
جب تینوں مزید اوپر چڑھ رہے تھے تو جبران کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔ موت کا نام سن کر اس کی زبان حرکت کرنا ہی بھول گئی تھی۔ دانیال نے بہ مشکل کہا: ’’یہ کک … کیا ہو رہا ہے؟ مم … مجھے لگ رہا ہے کہ آج ہم زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘
’’مایوسی کی باتیں مت کرو دانی۔‘‘ فیونا ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے ہوئے بولی۔ تینوں کے دانت بج رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار ان کا سامنا برفیلی آفت سے ہوگا۔ ایک ایسی آفت جس کا کوئی علاج انھیں نہیں سوجھ رہا تھا۔
فیونا کہنے لگی: ’’شَین نے کہا تھا کہ کبھی کبھی گلیشیئر دریا کے اوپر ایک ڈیم بنا دیتا ہے۔ یہ ڈیم گلیشیئر کے نیچے آہستہ آہستہ ایک بہت بڑی جھیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے، پھر جب دباؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو یہ پھٹ پڑتا ہے، جس طرح ابھی یہ پھٹا ہے۔ اگر جبران اس راستے کی طرف چلا جاتا تو پانی کا خوف ناک ریلا اسے بہا کر لے جاتا۔‘‘
’’لیکن یہ ریلا اب جا کہاں رہا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔’’معلوم نہیں، دریائے ڈنجِک یا دریائے یوکان میں، لیکن جب یہ ریلا ان میں سے کسی بھی دریا سے ٹکرائے گا تو اس وقت وہاں کوئی نہ ہو، ورنہ لوگوں کی جانیں جانے کا خطرہ ہے۔‘‘ فیونا فکرمندی سے بولی۔
’’کیا یہ پانی اسی طرح بہتا رہے گا؟‘‘ بڑی دیر بعد جبران نے زبان کھولی۔ اس کی نظریں اب بھی پھٹی ہوئی برفیلی دیوار سے نکلتے پانی پر جمی ہوئی تھی۔
’’ہمیں کچھ دیر تک تو انتظار کرنا پڑے گا، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔ وہ تینوں برف کی ایک بہت بڑی سِل کے سب سے اونچے سرے پر جا کر نیچے دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے برف کی دیوار ٹوٹی تھی وہاں سے کچھ دیر تک پانی ریلا نکل کر نیچے بہتا رہا، پھر دھیرے دھیرے پانی نکلنا بند ہوا تو وہاں ایک جوہڑ بن گیا، جس میں پتھر اور برف کے ٹکڑے رہ گئے تھے۔
’’چلو اس سوراخ سے گلیشیئر کے اندر چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا: ’’میرے خیال میں آج تک کوئی بھی گلیشیئر کے اندر نہیں گیا ہوگا، فوٹوگرافی بھی کر لیں گے۔‘‘
’’نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں اندر نہیں جانا چاہیے، اگر گلیشیئر ہمارے سروں پر آ گرا تو …‘‘ جبران نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ڈرو مت، اوپر سے ہم پر برف نہیں گرے گی، یہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔‘‘ دانیال نے اس بار بہادر بنتے ہوئے کہا۔ لیکن فیونا نے اسے یاد دلایا کہ کیا پتا تیسرا پھندا اس کے اندر ہی ہو۔
’’ٹھیک ہے، تم دونوں یہیں ٹھہرو، میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘ دانیال نے کہا اور برف کی سِل سے نیچے اترا۔ وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ دانیال واقعی بہادر دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ جوہڑ سے گزرا تو اس کے بوٹ گندے ہو گئے، نیچے اچھی خاصی کیچڑ بن گئی تھی جس سے اس کے بوٹ بھاری ہو گئے تھے۔ وہ برف کی دیوار میں بنے سوراخ کے پاس پہنچا تو اس نے دندانے دار ٹکڑے دیکھے جو شیشے کی نوکیلی کرچیوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ برف کے ٹکڑے تھے، اگر ان میں سے کوئی ٹکڑا گر کر کسی کے جسم پر لگتا تو یقیناً تیر کی طرح آر پار ہو سکتا تھا۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ تین آدمی اندر بہ یک وقت داخل ہو سکتے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دانیال نے سوراخ کے کناروں پر بوٹ رگڑ کر صاف کیے اور پھر وہ اندر داخل ہو گیا۔ انھوں نے اوپر سے دیکھا کہ دانیال نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ فیونا اور جبران کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ان کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا۔ انھیں لگا، ابھی دانیال کی چیخ سنائی دے گی، اور پھر چند سیکنڈز کے بعد ہی اس کی چیخ سنائی دی، جسے سن کر ان کے دل زور سے دھڑکے۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے کسی بھی لمحے سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے دھیرے دھیرے گھوم کر دیکھا۔ اس کے اور ان دونوں کے درمیان نوکیلے دانتوں والا قدیم ٹائیگر کھڑا تھا۔ اتنا بڑا ٹائیگر اس نے کبھی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کار جتنا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ اور نارنجی دھاریاں تھیں۔ اس کے سفید چمکتے دانت پینسل جتنے لمبے تھے اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔
ایک بار پھر وہ زبردست گرج کے ساتھ غرایا۔ اس کا رخ فیونا اور جبران کی طرف تھا، وہ دونوں بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔ جبران کی ٹانگیں واضح طور پر کانپ رہی تھیں، فیونا کے ہاتھ سے بھی کدال گر گیا تھا اور اسے اس کا پتا بھی نہیں چلا، وہ تو دہشت زدہ ہو کر سیبر ٹوتھ ٹائیگر کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ہم م م م… خط … رے …‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ اس سے قبل کبھی اتنی دہشت زدہ نہ ہوئی تھی۔ پھر ٹائیگر نے ان کی طرف چند قدم بڑھائے اور جبران فیونا کی طرف کھسک گیا۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’تت … تم ٹائیگر کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ مم … میں … نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹائیگر اپنی آنکھوں کے ذریعے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں، اگر تم آنکھیں نہیں ملاؤ گی تو یہ حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
اس دوران فیونا نے خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا، اس لیے وہ جبران کی بات پر جھنجھلا کر بولی: ’’لگتا ہے ٹائیگر کو دیکھ کر تمھاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ وہ کب حملہ کر کے ہماری تِکا بوٹی کرنے آ رہا ہے!‘‘
’’فف … فیونا … جلدی کرو، تمھارے پاس قوتیں ہیں، تم آگ سے اس پر حملہ کر دو۔‘‘ جبران اس کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ آگ روشن ہونے سے ٹائیگر دانی کی طرف مڑ سکتا ہے۔ جبران نے اگلا مشورہ دیا کہ اپنی جسامت بڑھا کر اسے دم سے پکڑ کر دور پھینک دو۔ فیونا نے اس پر اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔ اس نے سوچا کیوں کہ ٹائیگر سے بات کی جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ٹائیگر اچانک مڑا اور دانیال کی طرف دوڑ پڑا۔ جبران نے جبلی طور پر اطمینان کی سانس لی کیوں کہ خطرے کا رخ اب کسی اور کی جانب تھا، لیکن پھر وہ دانیال کی طرف چلا کر بولا: ’’دانی بھاگو۔ یہ تمھیں کھا جائے گا۔‘‘ لیکن دانیال نے جب ٹائیگر کو اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو وہ بھاگنا ہی بھول گیا۔ پتا نہیں ایک دم اسے کیا ہوا، زندگی بچانے کی بے پناہ خواہش اور قوت کی وجہ سے اسے ترکیب سوجھ گئی، اور اس نے خود سے کہا: ’’دانی، مر جاؤ!‘‘
فیونا اور جبران دیکھ رہے تھے کہ ٹائیگر کسی بھی لمحے دانیال کے قریب پہنچ پر اس پر چھلانگ دے مارے گا لیکن وہ چونک اٹھے۔ دانیال اچانک برف پر گر پڑا تھا۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ جبران کے منھ سے گھبراہٹ میں نکلا: ’’یہ … یہ دانی کو کیا ہو گیا!‘‘’’ٹھہرو۔‘‘ فیونا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹائیگر اس کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اپنی تھوتھنی سے دانیال کو ایک ٹہوکا مارا۔ وہ شاید دیکھنا چاہ رہا تھا کہ دانیال زندہ ہے یا مر گیا۔ دوسری طرف دانیال کو اس کی تھوتھنی سے اٹھنے والی بدبو محسوس ہوئی اور اس نے سمجھا کہ یہ اس کا آخری وقت ہے، اور وہ اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ایسے میں جبران نے بے اختیار ہو کر فیونا کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا: ’’تم کچھ کرتی کیوں نہیں ہو، وہ دانی کو کھا جائے گا۔‘‘
فیونا چپ چاپ ٹائیگر کو دیکھے جا رہی تھی، اس کے ہونٹ بند تھے لیکن آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہو۔ جبران اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چھیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
وہ تینوں گھنٹہ بھر بیٹھے رہے پھر کمرے میں چلے آئے۔ انھیں نیند آ رہی تھی اور اگلے دن انھیں بہت مصروف گزارنا تھا، اور پتا نہیں کیا واقعات پیش آئیں، جب کہ ڈریٹن کی طرف سے بھی خطرہ موجود تھا، تاہم انھیں یہ امید بھی تھی کہ ڈریٹن اب ان کے راستے میں مزید نہیں آئے کیوں کہ ایک بار اس نے ان کے کمرے میں تباہی مچا کر اپنے نفس کو تسکین پہنچا دی تھی۔ وہ بستر پر لیٹتے ہی سو گئے۔ رات کا کوئی پہر تھا جب دانیال کی نیند ٹوٹی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو گئی تھیں، اس نے گھبرا کر جبران اور فیونا کو آوازیں دے کر جگا دیا۔
’’اٹھو … جبران، فیونا … اٹھو، میں نے کچھ عجیب آوازیں سنی ہیں۔‘‘ وہ دونوں گہری نیند سے اٹھے اور آنکھیں ملنے لگے۔ ’’کیا ہوا دانی؟ تم نے اتنی رات گئے کیوں جگا دیا؟‘‘ فیونا بولی اور تکیے سے ٹیک لگا لیا۔
دانیال نے بتایا کہ اس نے ایک آواز سنی تھی، جیسے کوئی کھڑکی کھرچ رہا ہو۔ جبران نے یہ سن کر اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا۔ اس نے کھڑکی بھی کھول کر نیچے دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا۔
’’دانی، کھڑکی پر ہوا کی وجہ سے آوازیں پیدا ہوئی ہوں گی۔ کچھ نہیں ہے، سو جاؤ۔‘‘ جبران نے کہا اور واپس بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ فیونا نے بھی سونے کے لیے کہہ دیا۔ انھیں سوئے ہوئے بھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ دانیال کی آنکھ ایک بار پھر کھل گئی۔ آواز اب کہ بہت واضح طور پر سنائی دی تھی، اس نے پھر فیونا کو جگا دیا۔
’’میں نے آواز سنی ہے، میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا، کھڑکی کے باہر ضرور کچھ ہے۔‘‘
’’اوہو، دانی تم ہمیں سونے نہیں دو گے، تمھیں وہم ہو رہا ہے۔‘‘ فیونا نے اس بار جھنجھلا کر کہا۔ لیکن دانیال بہ ضد تھا، اس نے تجویز بھی دی کہ فیونا کچھ دیر یوں ہی لیٹی رہی اور سوئے نہ، وہ آواز ضرور سن لے گی۔ فیونا نے ہامی بھر لی اور تکیے سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد کھڑکی پر کھرچنے کی آواز آئی تو وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل بھی تیز تیز دھڑکنے لگا۔ آدھی رات کو کھڑکی پر کوئی پراسرار آواز کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بستر سے اترتے ہوئے بولی: ’’جیسے ہی آواز دوبارہ آئے گی ہم کھڑکی کھول کر باہر دیکھیں گے، آؤ تم بھی۔‘‘وہ دونوں کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جبران کی نیند بھی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی، وہ انھیں کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر وجہ پوچھنے لگا۔ فیونا نے بتایا کہ دانی کا کہا ٹھیک تھا۔ جبران کا خیال فوری طور پر بھوت کی طرف چلا گیا، اس نے بھوت کا ذکر کیا تو فیونا نے اسے گھور کر کہا چپ رہا، یہ ڈریٹن کی حرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن دانیال نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی اونچائی پر دانیال کیسے کھڑکی تک پہنچ سکتا ہے۔ فیونا نے اسے یاد دلایا کہ وہ بھی قد بڑھا سکتا ہے، اور وہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ایسے میں فیونا کو اچانک خیال سوجھا۔ اس نے جبران سے باتھ روم سے برف کے پانی والی بالٹی منگوا لی۔ وہ تیار کھڑے تھے، جیسے ہی شیشے پر کھرچنے کی آواز سنائی دی، دانیال نے کھڑکی کھول دی۔ وہاں واقعی ڈریٹن تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، جبران نے اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی الٹ دی۔
انھیں ڈریٹن کی بے ساختہ چیخ سنائی دی۔ ٹھنڈا پانی اس کے چہرے پر پڑا تو وہ ایک دم حواس باختہ ہو گیا اور فوراً سکڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔ دانیال نے کھرکی پھر بند کر دی اور تینوں خوشی سے کمرے میں ناچنے لگے۔ ’’واؤ، ہم نے اس شیطان کو مزا چکھ ا دیا!‘‘ جبران اور فیونا قہقہے لگانے لگے۔ انھیں اطمینان ہوا کہ اب ڈریٹن انھیں پریشان کرنے کی مزید جرات نہیں کرے گا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر بستروں میں گھس گئے۔ رات کے تین بج رہے تھے، کچھ ہی دیر میں تینوں نیند کی وادی میں گم ہو گئے۔
(جاری ہے)