Tag: اردو ناول

  • ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    تینوں نے نورِ فجر دیکھنے سے قبل کمرے میں جا کر غسل لینے کا فیصلہ کیا اور میز پر بل کے ساتھ ویٹرس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ دی اور اوپر آ گئے۔ فیونا نے دروازے کے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ جیسے ہی کھلا، سڑی بد بو کا ایک جھونکا آیا اور وہ تینوں اچھل پڑے۔

    ’’یہ کیسی بد بو ہے؟‘‘ فیونا پریشان ہو گئی۔ ’’ارے یہ آوازیں کیسی ہیں؟‘‘ دانیال تیزی سے باتھ روم کے بند دروازے کی طرف بڑھا: ’’ایسا لگتا ہے کہ اندر پرندے ہوں۔‘‘
    انھوں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، بہت ہی برا حشر بنا تھا کمرے کا۔ بد بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ وہ چٹکی سے ناک دبانے پر مجبور ہو گئے تھے، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں سانس لینے کے لیے ناک کھولنی پڑ رہی تھی۔ دانیال نے باتھ روم کے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور کہا: ’’مجھے لگتا ہے اندر کبوتر بند ہیں، غٹر غوں کی آوازیں آ رہی ہیں، کیا میں یہ دروازہ کھول دوں؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھا۔
    جبران نے حیران ہو کر کہا: ’’لیکن کبوتر اندر کیسے آ گئے! کیا تم دونوں میں سے کسی نے کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بستر پر بچھے ہوئے کمبل پر بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی فوراً اچھل پڑا۔ ’’اس میں کچھ ہے، مجھے چپچپا سا محسوس ہوا۔‘‘
    دانیال اور فیونا بستر کے قریب آ گئے: ’’تم کمبل اٹھا کر دیکھو، نیچے کیا ہے؟‘‘ دانیال نے کہا۔
    ’’نن … نہیں۔‘‘ جبران گھبرا کر بولا: ’’پپ … پتا نہیں اندر کوئی لاش نہ ہو۔‘‘ فیونا نے منھ بنا کر کہا یہاں کسی لاش کا کیا کام، بستر میں کوئی لاش ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں دانیال کی آواز آئی، تو پھر باتھ روم میں کبوتر کہاں سے آ گئے؟ فیونا کو یہ سن کر غصہ آ گیا، اور انھیں ڈرپوک کا طعنہ دے کر آگے آئی اور کمبل کا ایک کونا پکڑ کر اسے الٹ دیا۔ اس کے نیچے کھانا پھیلا کر پورے بستر اور تکیوں کا ستیاناس کیا گیا تھا۔ فیونا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’اب سمجھ آ گیا، یہاں کوئی داخل ہوا تھا اور کھانا بستر پر ڈال کر گندگی پھیلا کر چلا گیا، میں ابھی منیجر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
    ٹھہرو فیونا، پہلے باتھ روم کا جائزہ تو لیں۔‘‘ دانیال نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کبوتر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے اور وہ تینوں خود کو ان سے بچانے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم کے فرش اور دیواروں پر شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور کبوتر کی بیٹ جا بہ جا پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر فیونا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں، یہ سب اس خبیث ڈریٹن کی حرکت ہے، اسی نے آ کر یہ سب کیا ہے۔‘‘
    ’’لیکن فیونا، تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو، کیا پتا کہ یہاں ہمارے کسی نادیدہ دشمن نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دانیال بولا۔
    ’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور کبوتروں کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے مخاطب کیا: ’’کبوترو، تم جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاؤ، اور یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
    ایک کبوتر نے جواب دیا کہ انھیں ڈریٹن نے حکم دیا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈریٹن اپنی شیطانی قوت سے انھیں نقصان پہنچا دیتا۔ کبوتر نے فیونا کا نام لے کر معذرت بھی کی، جس پر فیونا حیران ہوئی کہ اسے نام کیسے معلوم ہوئے۔ کبوتر نے کہا پرندے فطرت کا حصہ ہوتے ہیں، جب کوئی ان سے بات کرتا ہے تو فطرت انھیں اس کا نام بتا دیتی ہے، اور یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا اور ڈریٹن مکمل شیطان ہے۔ فیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور پھر کھڑکی کھول دی، سارے کبوتر اڑ کر باہر چلے گئے۔
    وہ تینوں اس واقعے سے سخت غصے میں تھے، فیونا انٹرکام پر ہوٹل کے منیجر کو اطلاع دینے لگی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔

    جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
    ’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
    فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
    رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
    ’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
    ’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
    ’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
    ’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
    ’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
    ’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
    یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
    ’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
    فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
    ’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
    ’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
    اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
    ’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جب رینجر نے ٹرینکولائزر ڈارٹ (بے ہوشی کے تیر) کے ذریعے ریچھ کو مار گرایا تو ڈریٹن کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ لیکن وہ بھی یہ سوچ کر باقی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ لاپروا دکھائی دے، اور کسی کی نظروں میں نہ آ جائے۔ قریب آ کر اس نے دیکھا کہ فیونا بالکل ٹھیک ہے تو جھنجھلا کر سوچنے لگا کہ یہ منحوس لڑکی ہر بار کسی نہ کسی طرح بچ ہی جاتی ہے۔
    دانیال پر خوف کے مارے بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ وہ بولا: ’’تم ٹھیک ہو نا فیونا؟‘‘ پھر اس نے ریچھ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’ریچھ نے اچانک تم پر حملہ کیوں کر دیا؟‘‘ اسی وقت قریب ہی کھڑی ایک عورت نے تبصرہ کیا: ’’یہ ضرور بہت قریب چلی گئی ہو گی اور ریچھ نے سمجھا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
    ’’ریچھ کے بچے …‘‘ جبران کے منھ سے نکلا اور اس نے جلدی سے آس پاس دیکھا تو بے ہوش ریچھ کے دو بچے ماں کی طرف دوڑتے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ اس کے بال سہلانے لگے۔ جبران نے پھر کیمرہ سنبھالا اور ان کی تصاویر کھینچنے لگا۔
    رینجر نے فیونا کو ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ’’تم ٹھیک ہو نا، یہ ریچھ عموماً کسی کو کچھ نہیں کہتے، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں کیا!‘‘
    ایسے میں اچانک فیونا کا خیال ڈریٹن کی طرف چلا گیا تو وہ آس پاس موجود لوگوں میں اسے تلاش کرنے لگی۔ اس کی نظریں ایک لڑکے پر جم گئیں، اس نے اونی ٹوپی سے سر اور گردن کو چھپایا ہوا تھا اور اسے گھور رہا تھا لیکن وہ اس کا چہرہ صاف طور پر نہ دیکھ سکی۔
    ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور اپنے کپڑوں سے مٹی اور ٹہنیاں ہٹانے لگی۔ ’’میں بھیگ گئی ہوں، کیا آپ کے پاس کمبل ہوگا؟‘‘ لوگ وہاں سے چھٹنے لگے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہونے لگے۔ رینجر نے کہا کہ اس کے پاس کمبل نہیں ہے اور وہ وائٹ ہارس واپس جا رہے ہیں اگر وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تو ہیٹر کے قریب بیٹھ سکیں گے۔ رینجر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ان تینوں کو بس میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
    فیونا نے رینجر کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور وہ تینوں بس میں چڑھ کر سب سے آگے بیٹھ گئے، باقی مسافر ایک ایک کر کے چڑھنے لگے تو فیونا ہر ایک کو بہ غور دیکھنے لگی۔ جب ڈریٹن چڑھا تو اس نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔ فیونا اسے دیکھتی رہی، وہ بس کی پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا اور سیٹ پر اس طرح ٹانگیں پھیلا کر لیٹا کہ دور سے نظر نہیں آ رہا تھا، فیونا نے جبران کو اشارہ کیا: ’’یہ لڑکا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، وہ جو پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔‘‘ جبران اور دانیال دونوں نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو فیونا بڑبڑائی: ’’یہ ڈریٹن ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کو سردی کے جھونکے نے موسم کا مزاج سمجھا دیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے اونی ٹوپی نکال کر ایسے جمائی کہ گردن بھی اس میں چھپ گئی۔ اس نے نگاہیں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر توقع کے عین مطابق وہ تینوں اسے نظر آ گئے۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا، چلو فیونا کو ذرا یہ تو سمجھا دوں کہ یہاں اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اب اس کو بھی جانوروں سے باتیں کرنے والی طاقت مل چکی ہے، اس لیے اس نے ایک وحشی ریچھ کو فیونا پر حملہ آور کروانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک ریچھ فیونا کی طرف بڑھنے لگا ہے، اس نے ریچھ کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس لڑکی کی آنکھیں اپنے پنجوں سے نکال کر پھینک دو!
    فیونا اُس وقت گلیشیئرز کا تصور کر کے گھاس پر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور گال سہلا رہی تھی جس پر مچھروں نے جا بہ جا کاٹ لیا تھا۔ وہ دریا کی طرف گئی اور ٹھنڈے، برفیلے پانی سے چہرہ دھویا تاکہ کاٹنے سے ہونے والی کھجلی کچھ کم ہو جائے۔ وہ جیسے ہی جھکی، اسے اپنے پیچھے لوگوں کے چلانے کا شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے سر اٹھا کر دیکھا، ایک وحشی ریچھ اس کی طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا اور اس کے دانتوں میں ایک سالمن مچھلی پھنسی ہوئی جھول رہی تھی۔ قریب آ کر وہ رکا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر بھیانک آواز میں دھاڑنے اور گرجنے لگا۔
    اسے جبران کی آواز سنائی دی: ’’فیونا، بھاگو وہاں سے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کیمرہ آنکھ سے لگا کر تصویر اتارنے لگ گیا۔ دوسری طرف فیونا جہاں کھڑی تھی وہاں بت بن گئی تھی۔ ریچھ کسی بھی لمحے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا تھا۔ فیونا کو لگا کہ موت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر آ گئی ہے اور اس بار وہ اپنا بچاؤ کرنا بھی بھول گئی۔ یکایک ریچھ نے دھاڑنا بند کر دیا اور وہ جھول کر پانی میں جا گرا۔ فیونا کو لگا کہ ریچھ اس پر آ رہا ہے، اس لیے وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف جا گری۔ دور کھڑا پارک رینجر، جس نے بے ہوش کرنے والا تیر پھینک کر ریچھ کو بے ہوش کر دیا تھا، دوڑتا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ جبران اور دانیال اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا بلونگڑی کے پاس جا کر بولی: ’’ڈرو مت، یہ بوبی تمھیں اب کچھ نہیں کہے گا۔‘‘

    ’’نہیں، میں آگے نہیں آؤں گی۔‘‘ بلونگڑی نے جواب دیا۔ ’’تم نے دیکھا نہیں، کتنا بڑا کتا ہے، اس کے دانت اتنے بڑے بڑے ہیں، یہ تو ایک ہی حملے میں مجھے کاٹ ڈالے گا۔ مجھے اس کے پنجوں سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    فیونا اسے حوصلہ دینے لگی: ’’تم گھبراؤ مت، میں نے کتے سے بات کر لی ہے، اس کا نام بوبی ہے اور اب یہ تمھیں نہیں کاٹے گا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے مڑ کر کتے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں اس وقت بلی کو جانے دے رہا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا: ’’فیونا، تم اب بلی سے بھی بات کر رہی ہو، آخر یہ جانور کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘

    فیونا ان دونوں کو کتے اور بلی کے جھگڑے کے بارے میں بتانے لگی، پھر بلونگڑی سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب میں کہا ٹمبل۔ فیونا اچھل کر بولی: ’’ارے یہ کیا احمقانہ نام ہے، تمھارا نام فلفّی، جنجر، مارملیڈ یا اسی طرح کا کچھ ہونا چاہیے تھا نا … ٹمبل … ہش !‘‘
    اس نے منھ بنا کر بوبی کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ اس طرح گول ہوئے جیسے ہنس رہا ہو۔

    ’’کیا یہ کتا ہنس رہا ہے؟‘‘ دانیال نے دل چسپی سے آگے آ کر پوچھا، وہ جھک کر دونوں جانوروں کو قریب سے دیکھنے لگا تھا۔ ’’اے لڑکے، زیادہ قریب مت آؤ، فاصلہ رکھو۔‘‘ بوبی غرّایا تو دانیال جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ فیونا نے بلونگڑی سے کہا: ’’اب ہم جا رہے ہیں، تم جھاڑیوں سے نکل کر میرے پاس آؤ۔ میں تمھیں انکل اینگس کے ہاں لے جاؤں گی، وہاں اور بھی بلیاں ہیں اس لیے تمھاری آمد پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تم وہاں محفوظ رہو گی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، میں آ رہی ہوں لیکن اس کتے کو مجھ سے دور رکھو۔‘‘ بلونگڑی بولی اور رینگ رینگ کر جھاڑیوں سے نکلنے لگی۔ ایسے میں دانیال نے سکون کا لمبا سانس لیا اور بولا: ’’چلو اچھا ہوا، اب ہم اس سے زیادہ اہم کام کر سکیں گے یعنی دنیا کو شیطان سے بچانے کا کام۔‘‘

    وہ تینوں مسز بٹلر کے گھر سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں انکل اینگس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ انھوں نے خود دروازہ کھولا: ’’تو تم تینوں ہو، نہیں بلکہ ایک عدد بلی بھی ہے، یقیناً میرے لیے لائی ہوگی۔‘‘

    اسی لمحے فیونا کو بلونگڑی کی باتیں سنائی دینے لگیں، وہ کہہ رہی تھی: ’’یہ کیا بے ہودگی ہے، کیا میں بلی ہوں؟ کیا اس شخص کو اتنا بھی نہیں پتا کہ میں بلی ہوں یا نہیں۔ میں تو مشکل میں پڑ جاؤں گی یہاں۔‘‘

    ’’شش… ‘‘ فیونا نے اسے چپ کرایا اور کہا کہ انکل اینگس بہت اچھے آدمی ہیں اور بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ فیونا نے اسے اینگس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹمبل ہے اور اسے انھوں نے جین بٹلر کے کتے سے بچایا ہے۔ اینگس نے اس سے بلی کا بچہ لے لیا اور انھیں اندر بھیج دیا جب کہ بلونگڑی کی دوسری بلیوں کے ساتھ جان پہچان کرانے کے لیے گھرے کے پچھواڑے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ تینوں اندر آئے تو سوائے فیونا کی ممی کے، سب موجود تھے۔ انھوں نے ٹھنڈا پانی پیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں جانی اور جیک بھی کتاب لے کر آ گئے۔ جانی نے کتاب اینگس کے بستر پر رکھی اور باقی لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں مائری بھی پہنچ گئیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا بیکری باکس تھا۔ انھوں نے آتے ہی کہا: ’’اگر کوئی بھوکا ہے تو میں کیک، اسکاؤن، ڈبل روٹی اور پیسٹریاں لائی ہوں۔‘‘

    یہ سن کر سب ہی خوش ہو گئے۔ جانی نے کہا اب تم سب لوگ بیٹھ جاؤ تو بہتر ہوگا۔ سب بیٹھ گئے تو اینگس بھی اندر چلے آئے اور فیونا کی طرف دیکھ کر بولے: ’’تو تم تینوں اپنی اگلی مہم کے لیے تیار ہو؟‘‘

    یہ سن کر مائری ایک دم اچھل کر کھڑی ہو گئیں۔

    (جاری ہے)

  • ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھویں
    جبران اور دانیال بستے ہاتھوں میں لیے اسکول کے باہر فیونا کا انتظار کر رہے تھے، وہ کافی دیر بعد اسکول سے نکلی اور آتے ہی بولی کہ آج تو وقت ہی نہیں گزر رہا تھا۔ لیکن جبران نے کہا کہ اسے گھر جانا ہوگا کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ممی کو کوئی ضروری کام ہو، اور دانیال نے کہا کہ وہ کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی، کہنے لگی: ’’یہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو، آج اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جانا ہے اور مجھے تم دونوں کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹھہری اور پھر بولی: ’’پتا ہے پچھلی رات بڑی خوف ناک تھی۔ ڈریٹن نے تو بس جیزے کو مار ہی ڈالا تھا۔ وہ زخمی ہے اور ہمیں وہاں جانا چاہیے۔‘‘
    فیونا کے لہجے میں التجا تھی، جبران نے کہا ٹھیک ہے لیکن امید ہے کہ وہ کسی مشکل میں نہیں پڑے گا، دانیال نے بھی کہا کہ ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہو گیا تو بلال انکل اور شاہانہ آنٹی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ فیونا ان کو دلاسا دینے لگی کہ ان کے ساتھ خیر کی قوتیں ہیں جو اُن کی مدد کرتی رہتی ہیں اس لیے انھیں کچھ نہیں ہوگا۔ وہ تینوں چل پڑے اور راستے میں جِین بٹلر کے گھر سے گزرے تو فیونا نے دیکھا کہ نیم قطبی جزائر کا اسکاتستانی کتا شاہ بلوط کے قریب پنجے نکالے غرّا رہا تھا۔ درخت کے ساتھ بلی کا ایک بچہ پڑا خوف سے کانپ رہا تھا۔
    جبران غصے سے بولا: ’’ارے ایک ننھی بلونگڑی کو ڈرا رہا ہے یہ گندا کتا۔‘‘ وہ تینوں اس کی طرف دوڑ کر گئے۔ فیونا نے پاس پہنچ کر کہا: ’’گندے کتے، بلونگڑی کو جانے دو۔‘‘
    کتے نے پنجے گرا کر اس کی طرف دیکھا۔ فیونا کہہ رہی تھی: ’’تم کتے ہمیشہ بلیوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو! تم ایک گندے کتے ہو، چلو بھاگو یہاں سے۔‘‘
    ’’کیوں … میں تو ایک کتا ہوں، اور کتے ہمیشہ بلیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔‘‘ فیونا مزید قریب ہو کر بولی: ’’اگر میں تمھیں سہلاؤں تو تم مجھے کاٹو گے تو نہیں، نہیں ناں؟‘‘
    ’’نہیں میں تمھیں نہیں کاٹوں گا۔‘‘ کتے نے کہا تو فیونا اسے سہلانے لگی، کتا بولا: ’’تمھارے ہاتھ کا لمس مجھے اچھا محسوس ہو رہا ہے، اسی طرح سہلاتی رہو، تم بہت اچھی ہو۔‘‘
    فیونا اور کتے کے درمیان یہ گفتگو چل رہی تھی اور جبران دانیال حیران کھڑے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فیونا کی بات کے جواب میں کتا بھونک رہا ہے اور فیونا ایسے دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سمجھ رہی ہو۔ جبران نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا تم کتے کے ساتھ باتیں کر رہی ہو؟‘‘ دانیال بھی تجسس کے ساتھ قریب آ کر کتے اور فیونا کے درمیان ہونے والی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں کو تو صرف فیونا کی باتیں ہی سمجھ میں آ رہی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’ہاں، میں اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہوں اور ہم خیال رسانی کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ کتا چاہتا ہے کہ میں اس کی پیٹھ سہلاؤں۔‘‘
    یہ کہہ کر فیونا نے کتے کے کان رگڑے، کتے نے کہا ہاتھ مت روکو، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ فیونا نے پوچھا: ’’تمھارا نام کیا ہے پپی؟‘‘
    کتا بولا: ’’میرا نام بوبی ہے، گریفرائر کے بوبی کی طرح، لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی زیادہ تخلیقی نام نہیں ہے، اور تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ’’مجھے فیونا کہتے ہیں، یہ جبران اور یہ دانیال ہے، انھیں بھی مت کاٹنا، اور ہاں اس بے چاری بلونگڑی کو تم نے ڈرا کر تقریباً مار ہی ڈالا ہے۔ بتاؤ تم اسے تکلیف کیوں دے رہے ہو؟‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جونی نے کہا: ’’جب وہ وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔‘‘ دونوں زر و جواہر کے درمیان قدیم کتاب ڈھونڈنے لگے، جونی نے کئی دیدہ زیب اور قیمتی زیور اٹھا کر پینٹ کی جیب میں رکھے تو جیک کی توجہ پینٹ کی طرف چلی گئی۔ اس نے کہا: ’’جدید دور کا یہ لباس بھی کتنا عجیب ہے، مجھے تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے اس میں۔‘‘
    جونی ہنس پڑا اور کہا کہ اسے یہ لباس بہت پسند آیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد جب وہ تھک چکے تھے، انھیں آخر کار کتاب مل گئی۔ جونی نے کہا ہمیں اسے ڈریٹن سے دور رکھنا ہوگی، اس کا ایک بھی لفظ اس کے کانوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ دونوں محتاط ہو کر خفیہ دروازے بند کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ جیک نے کہا کہ وہ اوپر مرکزی ہال میں شیشے کی منقش کھڑکیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ڈریٹن ابھی ہال سے نکلنے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اسے سیڑھیوں کی طرف سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سیڑھیوں کی طرف مڑ کر چلایا: ’’پہلان … یہ تم ہو؟‘‘
    جیک اور جونی ایک دم رک گئے۔ جونی سرگوشی میں بولا: ’’میرا خیال ہے یہ ڈریٹن ہے، میں اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
    وہ دونوں اوپر کی طرف دوڑے۔ اس دوران ڈریٹن نے پھر پکارا … پہلان … لیکن اسے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسے فوراً خطرہ محسوس ہوا، وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر قلعے کے باہر کی طرف دوڑ پڑا تاکہ کہیں چھپ سکے۔ وہ دونوں جب اوپر ہال میں آئے تو ڈریٹن نہیں تھا۔
    ’’بزدل پھر بھاگ گیا۔‘‘ جونی جھنجھلا کر بولا۔ ’’میں اسے ڈھونڈنے باہر جا رہا ہوں، تم یہاں رک کر منقش شیشے والی کھڑکی دیکھو، ہاں یہ کتاب اپنے پاس رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف دوڑا اور جیک کو قلعے کے اندر اکیلا چھوڑ دیا۔
    ڈریٹن چھپ کر دیکھ رہا تھا، جب اس نے جونی کو باہر نکلتے دیکھا تو جھلا کر بڑبڑایا: ’’یہ پھر وہی آدمی آ گیا ہے، آخر یہ ہے کون؟ میں ایک بار پھر اپنا قد بڑا کر کے اسے قدموں سے کچل دوں گا۔‘‘
    وہ پہاڑیوں اور مجسموں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اور بار بار اپنی جگہ بدل کر جونی پر نظر رکھ رہا تھا۔ ایک موقع پر جونی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، تب اس کی نظر سدا بہار صنوبری درخت ئیو کی باڑ پر پڑی۔ ’’ارے واہ، یہ تو بھول بھلیاں ہیں، شان دار۔‘‘ وہ خوش ہو کر دوڑتا ہوا اس میں داخل ہو گیا اور ایک کے بعد ایک موڑ مڑ کر دائروں میں گھومنے لگا، یہاں تک کہ وہ بھول بھلیوں کے وسط میں پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا، جس کے قریب جا کر اس نے تختی پڑھی، لکھا تھا … کنگ رالفن، کنگ کیگان کے جدِّ امجد۔ ڈریٹن بڑبڑانے لگا: ’’تو یہ تم ہو بوڑھے بادشاہ، تم سے تو میں زیادہ خوب صورت لگ رہا ہوں، ہونہہ …‘‘
    یکایک اس کے کان کھڑے ہو گئے، شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اس نے باڑ سے ادھر ادھر جونی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب وہ تیزی سے مڑا اور مجسمے کے سامنے موجود کنوئیں کے اوپر رکھے ٹوٹے تختوں پر بغیر دیکھے پاؤں رکھ دیے۔ اگلے لمحے اس کے منھ سے ایک خوف زدہ چیخ نکلی اور اس نے خود کو ایک اندھے کنوئیں میں گرتے پایا۔ کنوئیں کی پتھریلی دیواروں سے اس کے کندھے چھل گئے اور سر زخمی ہوا۔ آخر کار ایک زبردست دھپ کے ساتھ وہ ایک سرنگ کی تہہ میں گر پڑا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔
    دوسری طرف جونی نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آ سکا، چناں چہ تھک ہار کر واپس ہال میں پہنچ گیا جہاں جیک ابھی تک اس منقش شیشے والی کھڑکی کو تک رہا تھا، جونی کی سماعت سے اس کی آواز ٹکرائی: ’’تو یہ ہیں بادشاہ کے بچے۔‘‘
    جونی چونک اٹھا۔ جیک رو رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا: ’’کیگان کو دیکھو، کتنا خوش نظر آ رہا ہے اور ملکہ تو ہمیشہ کی طرح بے حد خوب صورت ہے۔‘‘
    جونی نے اپنے دوست کے کندھے تھپتھپائے اور کہا: ’’چلو، یہ کتاب اینگس تک پہنچائیں۔‘‘
    ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی کشتی انھیں مل گئی۔ جیک نے پائن کے سوکھے درختوں پر نظر ڈالی لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ جونی بڑبڑایا، اچھا ہوا یہ کشتی ہمیں مل گئی، ڈریٹن اب جھیل تیر کر پار کرے گا۔
    کچھ دیر بعد دونوں دوسری طرف پہنچ گئے۔ جیک نے کشتی کھینچ کر ایک سدا بہار جھاڑی کَنِیر کے پیچھے اسے چھپا دیا اور دونوں گھر کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگے۔ ڈریٹن غار کے اندر زخمی حالت میں بے ہوش پڑا رہا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو انتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’ہاں وہ یہیں کہیں ہے، ذرا روشنی اس طرف ڈالنا۔‘‘ جونی نے کہا تو جیک نے اس طرف کی دیوار پر روشنی ڈالی۔ جونی کو مطلوبہ جگہ دکھائی دے گئی۔ اس نے ایک اینٹ پر دونوں ہاتھوں کا دباؤ ڈالا تو دیوار میں حرکت پیدا ہو گئی اور سیڑھیوں پر ذرات گرنے لگے۔ دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوا۔ دونوں اپنے سامنے موجود ایک چوکور کمرے میں داخل ہو گئے۔ یہ لمبائی اور چوڑائی میں پانچ فٹ کا کمرہ تھا جس میں وہ جھک کر داخل ہوئے۔ جیک نے دروازے کے راستے میں ایک پتھر رکھا تاکہ وہ بند نہ ہو جائے اور پوچھا: ’’تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’ایک اور درازہ۔‘‘ جونی مسکرایا۔ جیک حیران ہوا اور بولا کہ کیا وہ کمرہ اس سے بھی چھوٹا ہوگا۔ لیکن جونی نے بتایا کہ وہ دروازہ انھیں نسبتاً بڑے کمرے میں لے جائے گا۔ جونی نے محسوس کیا کہ جیک بند جگہوں سے ڈر رہا ہے، اس نے دل چسپی سے اس کا ذکر کر دیا۔ جیک بولا: ’’اس خوف کا تعلق میرے بچپن سے ہے۔ کبھی موقع ملا تو میں تفصیل کے ساتھ بتا دوں گا، فی الوقت تم دوسرا دروازہ تلاش کرو۔‘‘

    جانی نے اندازے سے ایک اینٹ کو دبایا تو آس پاس کی کئی اینٹیں اپنی جگہ سے سرکنے لگیں اور وہاں تقریباً دس فٹ چوڑا شگاف نمودار ہو گیا۔ اس نے جیب سے کچھ نکال کر اندر کمرے میں گھوم کر دیوار سے لٹکی مشعلیں روشن کر دیں۔

    جیک حیرت سے سانس بھرنا بھول گیا تھا، اس کا منھ کھلا تھا اور پھر وہ کھلا ہی رہ گیا۔ یہ کمرہ سونے سے بھرا ہوا تھا۔ شمع دان، صراحیاں، پراتیں، مالائیں اور دوسری بہت ساری چیزیں، جو سونے سے بنائی جا سکتی ہیں، وہاں موجود تھیں۔ چمک دمک والی چیزوں کے درمیان یاقوت، زمرد، ہیرے اور نیلم بکھرے پڑے تھے اور یہ اتنے بڑے تھے جتنی انسان کی ہتھیلی۔

    جیک نے کافی دیر بعد سانس لی اور کہا: ’’اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ تمھیں یہ کمرہ یاد رہا۔ میں جانتا تھا کہ کنگ کیگان اپنے ساتھ اپنی دولت کا ایک حصہ لایا تھا لیکن یہ اس مقدار میں ہو گا، یہ معلوم نہ تھا۔‘‘

    جونی کہنے لگا: ’’یہ دولت ہم نے وائی کنگ کے چند لشکروں، غرق شدہ ہسپانوی بادبانی جہازوں اور قلعوں پر لشکر کشی کر کے حاصل کی تھی۔ حالاں کہ ہم نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا لیکن یہ دولت ہمیں حاصل ہوئی۔ بہرحال، میں تمھیں بتا دوں کہ میں دولت نہیں ڈھونڈ رہا، میں تو ایک کتاب کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ یہ چمڑے، سونے اور لکڑی سے بنائی گئی کتاب ہے اور اس کی جِلد کندہ کی گئی ہے۔ تم دیکھتے ہی پہچان لو گے۔‘‘

    دونوں کمرے میں پڑے ڈھیر میں سے پیالے اور جام وغیرہ ہٹا ہٹا کر کتاب تلاش کرنے لگے۔ جیک نے اچانک ایک خیال آنے پر کہا کہ ہم ان میں سے اس کے وارثین مائری اور فیونا کے لیے بھی کچھ لے جا سکتے ہیں۔ جونی نے سر ہلایا، اور جیک نے ایک اور خیال کے تحت کہا: ’’جب سارے قیمتی پتھر جادوئی گولے میں پہنچا دیے جائیں گے تو ہمیں ایک عجیب سفر پر جانا پڑے گا، کیا تم نے سوچا ہے کہ تب مائری اور ان کی بیٹی فیونا کا کیا ہوگا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • ایک سو اٹھائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’میرے پاس اپنی والی کتاب ہے، لیکن تمھیں اس کی کیا ضرورت پڑ گئی؟’’ ڈریٹن نے جواب دیا لیکن پہلان گرجا: ’’میرے سوال کا جواب دو، کیا تم وہ کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کا خون غصے سے جوش مارنے لگا لیکن اس نے خود پر قابو کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں پتا وہ کہاں رکھی ہے، اس کے گھر میں کئی آدمی رہ رہے ہیں اور کتاب کی حفاظت ہو رہی ہے۔‘‘
    ’’ایک تیسری کتاب بھی ہے جو اس قلعے میں چھپائی گئی ہے۔‘‘ پہلان نے انکشاف کیا۔ ’’مجھے یہ کتاب چاہیے، یہ زیلان زبان میں لکھی گئی ہے جو میرے وطن کی زبان ہے۔ یہ کتاب یہیں پر ہے، میں اسے محسوس کر سکتا ہوں۔‘‘
    ’’کہاں ہے؟‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے پوچھا۔ ’’میں نہیں جانتا لیکن اس میں بہت سارے منتر ہیں اور راز کی دیگر باتیں ہیں۔ اگر یہ ہمارے ہاتھ لگ جائے تو میری قوتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
    ڈریٹن نے پوچھا کہ اس کتاب میں کس قسم کے منتر ہیں۔ پہلان بتانے لگا کہ اکثر ایسے جادو ہیں جنھیں سکھانے کے لیے اسے انسانی جسم حاصل کرنا ضروری ہے، اور وہ اس وقت محض ایک بھوت ہے، یا صرف ایک دھواں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے تمھیں اس قابل بنا دیا ہے کہ جو طاقت اس لڑکی فیونا کو ملے گی، وہ تمھیں بھی حاصل ہو جائے گی۔ بس، میں تمھارے لیے یہی کچھ کر سکتا ہوں۔ ہاں اگر تم تیسری کتاب ڈھونڈ کر لے آؤ تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ مدد ملے۔ تم ابھی سے اس کی تلاش شروع کر دو۔ اب مجھے جانا ہے، سورج کی روشنی زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ تم آج رات پھر آنا۔‘‘ پہلان یہ کہہ کر غائب ہو گیا اور ڈریٹن وہاں اکیلا رہ گیا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو ستائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ڈریٹن مرکزی دروازے میں داخل ہو کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ جادوگر پہلان ابھی اچانک نمودار ہوگا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں، اور وہ چیزیں زیادہ واضح دیکھنے لگا۔ تب اس نے ایک ہول ناک منظر دیکھا۔ ہال کی دیواریں اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہوئیں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’یہ کیا ہو رہا ہے!‘‘

    اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کے پیر فرش کے ساتھ جیسے چپک گئے تھے۔ دیواریں اب مزید قریب آ گئی تھیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’احمق جادوگر، تم مجھے ان دیواروں کے بیچ کچل کر مارنا چاہتے ہو!‘‘
    حرکت کرتی دیواریں اس سے چند ہی انچ کے فاصلے پر آ کر رک گئیں۔ ڈریٹن کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو تھیں۔ تب اچانک دیواریں واپس اپنی جگہ سرکنے لگیں اور ڈریٹن کو تھوڑی سی تسلی ہونے لگی۔ اچانک اسے پہلان کا قہقہہ سنائی گیا، اس نے اوپر دیکھا تو دھوئیں کا ایک بادل قدیم جھاڑ فانوس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
    ’’میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ڈریٹن غصے سے بولا: ’’تم اس طرح کی حرکتیں کر کے اپنا دل خوش کرتے ہو گندے جادوگر۔‘‘ یہ کہہ کہ اس نے فرش پر نظر دوڑائی تو اسے لوہے کا ایک پرانا زنگ آلود ٹکڑا مل گیا۔ اس نے لوہے کا ٹکڑا اٹھا کر پہلان کی طرف پھینک دیا۔ جادوگر نے دھوئیں کی صورت میں ایک چکر کاٹا اور پھر تیر کی طرح ڈریٹن کی طرف بڑھا اور ڈریٹن کے بدن کے گرد لپٹ کر اپنی طاقت استعمال کرنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے جادوگر اس کے سینے میں گھس کر اس کے دل کو پوری قوت سے دبانے لگا ہو۔ اس نے بے اختیار اپنا سینہ پکڑ لیا، اسے سانس رکتی محسوس ہو رہی تھی۔ اگلے لمحے وہ پتھریلے فرش پر گھٹنوں کے بل گر گیا۔ اس عالم میں اس نے بے بسی کے ساتھ ایک ہاتھ ہوا میں لہرایا اور دھوئیں کو پکڑنے کی ناکام کوشش کی۔ پہلان نے اس کا دل چھوڑ دیا اور اس کے جسم سے نکل گیا۔ ڈریٹن نے لمبی لمبی سانسیں لیں، ایسے میں اسے پہلان کی زہریلی آواز سنائی دی۔
    ’’تبھی تمھیں زندہ چھوڑ رہا ہوں احمق ڈریٹن، لیکن آئندہ اگر تم نے مجھے کوئی چیز مارنے کی کوشش کی تو میں تمھارا دل پھاڑ کر باہر نکلا لوں گا اور اسے بھیڑیوں کو کھلا دوں گا، سمجھے!‘‘
    پہلان کی آنکھیں پیلے بلب کی طرح روشن ہو گئی تھیں اور اس کا ہیولہ بے حد خوف ناک نظر آ رہا تھا۔ ڈریٹن کی ہوا خراب ہو گئی تھی، اس نے سر جھکا کر کہا: ’’معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
    ’’تم میرے لیے کیا خبر لائے ہو؟‘‘ پہلان کی آواز گونجی۔ ڈریٹن نے جواب میں بتایا کہ انھوں نے تیسرا پتھر بھی حاصل کر لیا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ آج رات ہی چوتھے پتھر کے لیے نکل جائیں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے دیکھا کہ تم نے گزشتہ رات کیگان کے ایک آدمی کے خلاف پنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، مجھے یقین ہے کہ تم نے اسے جان نہیں مارا ہوگا، میں تمھیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہوں کہ ہمیں بارہ پتھروں کے ساتھ ساتھ ان بارہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
    جادوگر پہلان کی نہایت سرد آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ڈریٹن بولا کہ اس کا تو جی چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی جان سے نہیں مارا۔ پہلان نے کہا: ’’تو پھر تم کچھ نیا سیکھنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم اینگس سے کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
    (جاری ہے…)