Tag: اردو ناول
-
ایک سو چوبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
اگلی صبح فیونا اپنی ممی کے ساتھ الجھ رہی تھی۔’’لیکن ممی، میں آج اسکول نہیں جانا چاہتی، ہمیں اگلے مقام سے قیمتی پتھر حاصل کرنا ہے۔ انکل اینس اور دیگر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے جزبز ہو کر احتجاج کیا۔
’’فیونا، کان کھول کر سن لو، تمھیں اسکول جانا ہے۔ اینگس اس بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تم اسکول کے بعد وہاں چلی جانا، مجھے بھی کام پر جانا ہے، میں بھی وہاں سے سیدھی اینگس کے ہاں آ جاؤں گی۔ اب کوئی بحث نہیں، اسکول جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر مائری مک ایلسٹر نے اسکول بیگ اور ٹفن اس کے حوالے کر دیا۔ فیونا نے غصے میں بیگ اور ٹفن لیا اور ماتھے پر بوسہ لیے بغیر دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کرتے ہوئے چلی گئی۔ مائری نے ٹھنڈی آہ بھری اور دروازہ بند کر کے بیکری کی طرف چل پڑی۔
اسکول سے ایک فرلانگ پہلے ہی فیونا کو جبران بھی مل گیا۔ وہ بھی بجھے دل کے ساتھ اسکول جا رہا تھا۔ چلتے چلتے فیونا اسے گزشتہ رات کے واقعات بتانے لگی۔ ’’تم گھر چلے گئے تو ہم اس کے بعد قلعہ آذر گئے۔ وہاں زیر زمین ایک غار تھا اور بہت سارے سرنگ تھے۔ ڈریٹن نے اپنی جسامت بڑھا کر جیزے کو اٹھایا اور دور پھینک دیا، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔‘‘
’’ذرا ٹھہر جاؤ، تھوڑا آہستہ آہستہ بولو۔‘‘ جبران نے تجسس سے کہا۔ فیونا نے اس کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا: ’’مجھے تو بہت غصہ آ رہا ہے، ممی نے مجھے زبردستی اسکول کے لیے بھیجا ہے، وہ بھی کام سے واپسی پر انکل اینگس کے ہاں آ رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب…‘‘ جبران چونک اٹھا۔ ’’کیا تمھاری ممی سب کچھ جان گئی ہیں؟ کیا وہ میری ممی کو بتا تو نہیں دیں گی؟‘‘
’’انھوں نے کہا تو ہے کہ وہ سب کچھ راز رکھیں گی۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’لیکن کچھ پتا نہیں ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی زخمی ہو جاتا ہے تو اس صورت میں وہ تمھارے والدین کو بھی ضرور مطلع کریں گی۔‘‘
باتیں کرتے کرتے وہ اسکول کے دروازے پر پہنچ گئے، اسی لمحے گھنٹی بجنے لگی۔ ’’اچھا، اسکول کے بعد ملتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور دونوں اپنی اپنی کلاس کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی جگہ پا کر وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔
’’کہاں ہوں میں؟‘‘ وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق بدحواس ہو کر بڑبڑایا۔ تب اسے یاد آیا کہ رات کو وہ غیر قانونی طور پر ایک گھر میں گھسا تھا۔ اس نے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر کسل مندی دور کی اور سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا۔ گھر کے دوازے کے پاس بہت سارے خطوط پڑے تھے جو صبح صبح ڈاکیے نے آ کر پھینکے تھے۔ اس نے یہ جاننے کے لیے کہ گھر میں کون رہتا ہے، ایک لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لکھا تھا، جون اینڈ سوزن مک ایلسٹر۔ اس نے منھ بنا کر کہا: ’’ایک تو اس فضول ٹاؤن میں مک ایلسٹرز بہت رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے خط پھینک دیا لیکن پھر اچانک ایک خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی لفافے میں رقم ہو۔ اس نے جلدی جلدی سارے لفافے پھاڑ کر دیکھ لیے لیکن کسی میں بھی پیسے نہیں تھے۔ واپس باروچی خانے میں آ کر کھانے کی چیزیں تلاش کرنے لگا لیکن الماری میں سیریل کے پیالے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس نے غصے میں پیالہ فرش پر پٹخ دیا، پھر ریفریجریٹر کھول کر کھانے پینے کی ساری چیزیں فرش پر بکھیر دیں۔
ایک بوتل میں ٹماٹر کی چٹنی دیکھ کر بولا، لگتا ہے یہاں ہر شخص ٹماٹر کی چٹنی کا دیوانہ ہے۔ وہ بوتل لے کر لیونگ روم میں آ گیا اور چھت ایک گول دائرہ بنا ڈالا۔ پھر ٹی وی اور صوفوں پر چٹنی ڈال دی۔ پورے گھر کا خانہ خراب کر کے اس نے دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کر دیا اور قلعہ آذر کی طرف چل دیا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو تئیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’میرے خیال میں آپ اور فیونا اب سو جاؤ۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’کل کا دن بہت مصروف گزرے گا۔ فیونا اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جائے گی، آپ کام پر جائیں گی اور میں ایک بار پھر قلعہ آذر جاؤں گا، مجھے کچھ تلاش کرنا ہے۔ وہاں چند ایسی جگہیں ہیں جو کوئی اور نہیں جانتا۔ ہو سکتا ہے میں وہاں کوئی ایسی چیز پا لوں جو ہماری معاون ثابت ہو، مثلاً کوئی ہتھیار۔‘‘
’’یہ اکیسویں صدی ہے جونی۔‘‘ مائری بولیں: ’’ہم ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے نہیں لڑ سکتے۔ ویسے بھی ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔‘‘
جونی جلدی سے بولا: ’’ہتھیار سے مراد یہ نہیں تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کوئی اور کتاب مل جائے جس میں جادو منتر ہوں۔ یا ایسی معلومات ہوں جو پہلان اور ڈریٹن اسٹیلے کے مقابلے میں کارآمد ثابت ہوں۔‘‘
’’اوہ پھر ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا: ’’ویسے میں اس بات سے مطمئن نہیں ہوں کہ فیونا، جبران اور دانیال دور دراز کے ملکوں میں جا کر بلاؤں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ لڑیں۔‘‘
فیونا، جو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر سونے جا رہی تھی، یہ سن کر رک گئی اور مڑ کر بولی: ’’مجھے نہیں ہوگا ممی، میں ایسا کر تو چکی ہوں، جبران اور دانی ہی میری مدد کر سکتے ہیں اور ہم مل کر تین مقامات پر جا چکے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوا، ہم ٹھیک ٹھاک ہیں!‘‘
یہ کہہ کر وہ اوپر چلی گئی تو مائری پریشانی کے عالم میں بڑبڑانے لگیں: ’’وہ آکٹوپس کی خوراک بنتے بنتے بچی، ٹرالز اسے زندہ بھوننے والے تھے، بچھو اسے کاٹنے دوڑے تھے اور یہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں پریشان نہ ہوں، اس کی فکر نہ کروں، یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں!‘‘ جونی نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی: ’’اب فیونا کے پاس ایک اور قوت آ گئی ہے، وہ روز بہ روز طاقت ور ہوتی جا رہی ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ مزید کچھ ایسی قوتیں بھی موجود ہیں جو شروع سے اس کی مدد کر رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب … کیسی قوتیں؟‘‘ مائری چونک اٹھیں۔ جونی نے جواب دیا: ’’میں اس کی وضاحت تو نہیں کر سکتا لیکن آئس لینڈ کو بہ طور مثال لیں، جب اسے شدید ضرورت تھی تو پریوں نے اس کی مدد کی۔ جب کسی کو واقعی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو خیر کی قوتوں کو اس کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اس کی مدد کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ میرے خیال میں آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی!‘‘
’’لیکن میں کیسے ان سب کو حقیقت سمجھوں۔‘‘ مائری کی پریشانی کم نہ ہو سکی: ’’ایک ہفتہ قبل فیونا کے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ وہ شدید بور ہو رہی تھی اور اب وہ پریوں، بھتنوں اور شیطان جادوگروں سے مل رہی ہے، یہ سب ایک سپنے جیسا ہے!‘‘
’’میں جانتا ہوں۔‘‘ جونی نے آخر میں بڑی دلیل دے دی: ’’لیکن میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں تو حقیقت میں ہوں نا!‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو بائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط اس لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں
ڈریٹن نے ایک ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور جھٹک دیا۔ یکایک زمین سے آگ کا ایک بہت بڑا گولا نمودار ہو کر اوپر کی طرف اٹھا۔ آگ کے گولے نے ان دونوں اور باقی افراد کے درمیان ایک دیوار سی کھڑی کر دی۔
’’دیکھ ماسٹر پونڈ، اب میرے اور تمھارے سوا یہاں کوئی نہیں ہے۔‘‘ جیزے ڈریٹن کے منھ سے اپنا اصل نام سن کر حیران ہوا۔
’’کیا ہوا پونڈ، بڑے حیران دکھائی دینے لگے ہو، حیرانی اس بات پر ہے نا کہ میں تمھارا اصل نام کیسے جانتا ہوں۔ میں تمھارے اور تمام بارہ کے ٹولے کے بارے میں جانتا ہوں۔ پہلان مجھے ہر چیز کے بارے میں بتا چکا ہے۔ میرے خیال میں تمھیں یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ جو جادوئی طاقت تمھارے پاس ہے وہ میرے پاس بھی ہے۔‘‘
جیزے نے جواب دیا تو اس کے لہجے میں طنز واضح تھا: ’’منّے، تمھارے جادوئی شعبدے مجھے خوف زدہ نہیں کر سکتے۔ تم اپنے آبا کی طرح بے وقوف ہو۔ اوہو … تو اب حیران ہونے کی باری تمھاری ہے۔ جی ہاں، میں دوگان کو جانتا ہوں، میں نے اس خبیث سے بہت مرتبہ جنگ لڑی ہے۔ لیکن سنو، وہ پھر بھی شکل و صورت سے معقول آدمی تھا تم تو انتہائی نامعقول لگتے ہو، تم نے تو عورتوں کی طرح بالیاں پہنی ہوئی ہیں۔ عورتوں کی طرح لمبے بال چھوڑے ہیں، یقیناً تم لڑتے بھی عورت کی طرح ہو گے۔‘‘
ڈریٹن غصے سے بُھنّا کر بولا: ’’ابھی دکھاتا ہوں کہ میں کیسے لڑتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا قد تین گنا بڑا کر دیا۔ پھر اس نے سر جھکا کر جیزے کی طرف دیکھا تو وہ بونا نظر آ رہا تھا۔ اس نے اپنے بہت بڑے ہاتھ میں اسے پکڑا اور دور اچھال دیا۔ جیزے ہوا میں تیرتا ہوا، درختوں سے ٹکراتا ہوا جھیل کنارے جا گرا۔ وہاں بھڑکتی آگ کے شعلے یک لخت سرد ہو گئے اور صرف جلتی لکڑیاں رہ گئیں۔ ڈریٹن کو اس بات پر شدید غصہ آ رہا تھا کہ وہ جیزے کو جان سے نہیں مار سکتا تھا۔ وہ فوراً نارمل قد میں آ گیا اور درختوں کے جھنڈ میں دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے اسے خیال آیا کہ اب وہ بی اینڈ بی نہیں جا سکتا اس لیے رہائش کے لیے کوئی اور جگہ ڈھونڈنی ہوگی۔ وہ کسی بھی صورت ایک اور رات باہر نہیں گزارنا چاہتا تھا اس لیے ٹاؤن کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک اسے ایک اور خیال آ گیا کہ اس کی ساری رقم تو کمرے ہی میں ہے اس لیے ایلسے کے ہاں ایک بار جانا ضروری ہے۔
ایلسے نے دروازہ کھولا تو ڈریٹن داخل ہو کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ ایلسے بولی: ’’کہاں تھے تم، میں تمھارا ہی انتظار کر رہی تھی!‘‘’’میں یہاں سے جا رہا ہوں۔‘‘ ڈریٹن چلایا۔
’’آج رات؟‘‘ ایلسے کے منھ سے نکلا۔ ’’نہیں، ابھی، اسی وقت۔‘‘ ڈریٹن نے منھ پھاڑ کر بدتمیزی سے جواب دیا اور کمرے میں جا کر اپنی ہر چیز بیگ میں ٹھونس کر زپ بند کر دی، کمرے سے نکل سیڑھیاں اترنے لگا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھ کر وہ ایک دم رک گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایلسے اور دیگر کئی لوگ آتش دان کے قریب بیٹھ کر چاکلیٹ اور بسکٹ کھا رہے ہیں اور گپ شپ میں مگن ہیں۔ ڈریٹن کی آنکھوں میں شیطانی چمک ابھری۔ اس نے ان کا رخ کیا اور قریب جا کر زور سے کھانس کر سب کو متوجہ کیا۔
’’سنو، میں یہاں سے جا رہا ہوں اس لیے تم سب اپنی اپنی جیبیں میرے اس بیگ میں خالی کر دو۔‘‘ ایلسے یہ سن کر اسپرنگ کی طرح اچھلی: ’’یہ کیا بکواس ہے ڈریٹن!‘‘
لیکن ڈریٹن نے بے رحمی سے اسے دھکا دے کر کرسی میں گرا دیا: ’’چپ رہ بڈھی، منھ بند رکھو اور جلدی سے اپنی جیبیں اور ہینڈ بیگز سے تمام چیزیں نکال کر میرے حوالے کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جوتے سے ایک لمبے چمک دار پھل والا چاقو نکال کر ان کے سامنے لہرایا۔ ’’جلدی کرو، مجھے اس کا استعمال کرنے پر مجبور مت کرو۔ ایلسے پہلی خاتون ہوگی جسے میں زخمی کروں گا اس چاقو سے۔‘‘
ایلسے کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ وہاں موجود مہمانوں نے فوری طور پر اپنی جیبیں خالی کر کے سب کچھ ڈریٹن کے حوالے کر دیا۔ ڈریٹن قہقہے لگاتا وہاں سے نکل گیا۔ پانچ منٹ تک دوڑتے رہنے کے بعد وہ ٹھہر گیا اور سانسیں درست کرنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ اب تک وہ پولیس کو طلب کر چکے ہوں گے اور اس ٹاؤن میں اسے ’مطلوب‘ قرار دیا جا چکا ہوگا۔ ڈریٹن گھروں کے سامنے سے گزرتا ہوا کھڑکیوں سے اندر جھانکتا جا رہا تھا، کہ کوئی گھر خالی مل جائے تو اندر گھس کر آرام کر لے۔ آخر کار راب رائے لین میں اسے ایسا ہی گھر نظر آ گیا۔ کھڑکی کھلی تھی، وہ بہ آسانی اندر کود گیا اور سیدھا ریفریجریٹر کی طرف گیا۔ کھانے پینے کا سامان وافر مقدار میں موجود تھا۔ ٹھونس ٹھونس کر کھانے کے بعد وہ کنگ سائز بیڈ پر گر کر سو گیا۔ اس نے اپنے گندے جوتے بھی اتارنا گوارا نہیں کیا تھا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو اکیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
اینگس نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو جمی اور جیک نے جیزے کو اندر لے جا کر ایک بستر پر لٹا دیا۔ اینگس جلدی سے پانی گرم کر کے ایک تولیہ لے آیا اور جیک اس کے زخم صاف کرنے لگا۔ جیزے کو زخم نہ صرف جلنے سے آئے تھے بلکہ متعدد زخم کٹ اور رگڑ سے بھی آئے تھے۔ کچھ دیر بعد جیک نے اس پر ایک کمبل ڈال دیا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔ جمی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے اینگس سے مخاطب ہوا: ’’مجھے بیتے دن یاد آ گئے ہیں۔ دوگان اور اس کا جادوگر روزانہ ہمارے لوگوں پر حملے کر کے ظلم ڈھاتا تھا اور یہ سب محض لالچ کی وجہ سے تھا۔ اسے جادوئی گولا درکار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے کنگ کیگان سے چھین کر خود اس کی طاقتیں استعمال کرے اور دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جما دے۔ دوگان تو فنا ہو گیا لیکن اس کا جادوگر پہلان کسی طرح روح کی صورت واپس آ گیا ہے اور وہ دوگان کے وارث ڈریٹن کے ساتھ رابطہ کرنے لگا ہے۔‘‘
اینگس اٹھ کر کچن کی طرف چلے گئے۔ چائے کے لیے کیتلی چولھے پر رکھی اور کچھ دیر بعد دو پیالیوں میں چائے بھر کر واپس آ گئے۔ ایک پیالی جیک کو تھما کر خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ’’میں بھی کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ فیونا جب پہلی بار وہ کتاب میرے پاس آئی تو میں نے بہت دل چسپی سے اسے پڑھا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب کچھ ہوگا۔ آخر تم لوگ کس طرح سے زندگی کی طرف لوٹے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ زرومنا نے تم سب پر جادو کیا ہے لیکن … لیکن یہ اکیسویں صدی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے جینے والا کوئی شخص پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چائے پینے لگے۔
’’جادوگر بہت طاقت ور ہوتے ہیں اینگس۔‘‘ جیک نے جواب دیا۔ ’’مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ کیسے کیا گیا، کیوں کہ میں جادوگر نہیں ہوں۔ بس، جب قیمتی پتھر جادوئی گیند میں واپس رکھا جاتا ہے، میں پھر سے انسانی روپ میں آ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں، جیتا ہوں، اور سانس لیتا ہوں۔ میں نے خود کو قلعہ آذر میں پایا تھا جہاں دوسروں کی طرح میں کبھی گیا ہی نہیں تھا۔ پہلی بات جو میرے دماغ میں خود بہ خود آئی، وہ یہی تھی کہ مجھے اس گھر پہنچنا ہے۔‘‘
جمی بھی صوفے پر پہلو بدل کر بولا: ’’اینگس، میری کہانی بھی ایسی ہی ہے لیکن میں پہلے مک ایلسٹر کے گھر پہنچا جہاں جونی ٹھہرا ہوا تھا۔ جیسے جیسے قیمتی پتھر جادوئی گیند میں آتے جائیں گے، ویسے ویسے سارے افراد زندگی کی طرف لوٹیں گے اور ہم بارہ ایک بار پھر اکھٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اس نے پیالی فرش پر رکھتے ہوئے بات جاری رکھی: ’’میری یادداشت کچھ کچھ دھندلا گئی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب تمام قیمتی پتھر گولے میں آ جائیں گے تب ہمی آگے کا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
جیک نے جیزے پر نگاہیں جما کر کہا: ’’کنگ دوگان کے وارث کے ہاتھوں جیزے زخمی پڑا ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈریٹن شیطان کی طرح طاقت ور ہوگا، جیسا کہ کنگ دوگان تھا۔ پہلان اس کی طرف ہے اور ہمیں ان سے دو بہ دو جنگ لڑنی ہے۔ میرے خیال میں بچے کل صبح آ کر نئے سفر پر نکل جائیں گے نا۔‘‘
’’ہاں وہ کل صبح آ جائیں گے۔‘‘ اینگس نے جواب دیا: ’’ایسا لگتا ہے کہ ڈریٹن اور پہلان کی خواہش ہے کہ پتھر حاصل کرنے کے لیے خطرات ان کی بجائے بچے مول لیں۔ کیا آپ ایسا کچھ نہیں جانتے جس سے ان بچوں کی مدد ہو سکے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ جیزے کی طرف چند لمحے دیکھتے رہے پھر جیسے ایک دم کچھ یاد آیا، اور کہا: ’’میرے خیال میں مجھے کتاب مزید پڑھنی چاہیے۔ چوں کہ جونی تو مائری کے ہاں ہے تو میں کتاب کے مزید کچھ صفحات ترجمہ کر لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ مدد کے لیے کوئی راستہ ملتا ہے یا نہیں۔‘‘
اینگس اٹھ کر الماری کی طرف گئے، کتاب نکال کر واپس صوفے پر آ گئے۔ ان کی بے قرار نگاہیں گیلک زبان کے الفاظ اور علامات پر پھسلنے لگیں۔ ایسے میں جمی کہنے لگا: ’’اب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، ہم صرف یہاں اینگس، مائری اور جادوئی گولے کی حفاظت ہی کر سکتے ہیں۔ کچھ نہیں پتا کہ ڈریٹن کا اگلا قدم کیا ہوگا!‘‘
یہ کہہ کر اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
فیونا نے جب دیکھا کہ ڈریٹن کسی بے قابو بھینسے کی طرح پتھروں پر اچھلتا، کودتا نیچے اتر رہا ہے، تو وہ ذرا بھی نہیں گھبرائی، اور بہادری کے ساتھ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ قریب آیا تو فیونا نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’تو یہ تم ہو، تم وہی بدمعاش ہو نا جس نے سیچلز میں جبران کو گرا دیا تھا، لیکن تم وہاں پہنچے کیسے تھے؟‘‘
ڈریٹن اسے یوں بے خوفی سے باتیں کرتے دیکھ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک گیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’سنو مچھر، میں تمھیں اور تمھارے بارے میں اور قیمتی پتھروں اور جادوئی گولے کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میں نے تمھیں تمام پتھر جمع کرنے دیا ہے، جب سارے جمع ہوں گے تو میں تمھیں اور تمھاری ممی کو جان سے مار کر جادوئی گولا لے کر چلا جاؤں گا اس منحوس جگہ سے۔‘‘
فیونا کو ذرا بھی ڈر نہیں لگا، وہ اسی طرح بہادری سے بولی: ’’تو یہ بات ہے۔ تو تم مجھ سے چھین لو گے … ہونہہ … منھ دھو رکھو اپنا۔ تم شیطان ہو اور بھولو مت کہ اچھائی ہمیشہ برائی پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘
’’ہاہاہا… تو تمھارے اس مقولے نے کنگ کیگان کی کوئی مدد کیوں نہیں کی۔ کاش میں ابھی اس وقت موجود ہوتا اور اس کا سر قلم ہوتا دیکھ لیتا۔‘‘ ڈریٹن قہقہہ لگا کر بولا۔ فیونا کو اس کے بے رحمانہ الفاظ نے بہت تکلیف دی۔ ایسے میں اس کی نظر دور پیچھے سے آنے والے دو سایوں پر پڑی۔ ان کی آمد سے ڈریٹن بے خبر ہی رہا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سرنگ سے آنے والے جیزے اور جیک ہیں، انھیں آتے دیکھ کر وہ اور نڈر ہو گئی: ’’تم بزدل ہو ڈریٹن، بالکل کنگ دوگان کی طرح۔ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہو۔ یاد رکھو، میں تمام قیمتی پتھر جمع کرلوں گی اور تم ایک تک بھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔ میں تم پر ایسا منتر پڑھوں گی کہ تم ایک پسّو بن جاؤ گے اور پھر تمھیں آسانی سے اپنے جوتے سے مسل کر زمین کے ساتھ برابر کر دوں گی۔‘‘
عین اسی وقت جیزے نے دوڑ کر ڈریٹن کے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا پھندا بنا کر اسے جکڑ لیا۔ جیک فیونا کو ہاتھ سے پکڑ کر سرنگ کی طرف دوڑا اور اسے اندر چھوڑ کر پلٹا، لیکن ابھی جیزے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین سے آگ کا ایسا بڑا شعلہ اوپر اٹھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ آگ نے راستے میں دیوار کھڑی کر دی تھی اور وہ ان دونوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ واپس سرنگ میں آ گیا۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہ ضرور ڈریٹن نے لگائی ہے، اس کے پاس بھی یقیناً وہی طاقتیں ہیں جو میرے پاس ہیں، میں بھی آگ بھڑکا سکتی ہوں۔ جیزے کی حفاظت ضروری ہے، مجھے خود کو بڑا کر کے ڈریٹن پر حملہ کرنا چاہیے۔‘‘
’’نہیں فیونا۔‘‘ مائری نے سختی سے کہا: ’’بہ بہت خطرناک ہے، تم یہیں رہو، ہمیں جونی اور جمی کا انتظار کرنا ہے۔‘‘
’’یہ خطرناک نہیں ہے ممی، میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں، مجھے جانے دیں۔‘‘ وہ مچلنے لگی تھی، مائری نے اسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں رکھا تھا۔ ذرا دیر بعد شعلے بجھ گئے، اور جمی اور جونی بھی پہنچ گئے۔ وہ شعلے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے: ’’یہ شعلے کیسے ہیں، اور جیزے کہاں ہے؟‘‘ جیک نے بتایا کہ جیزے نے ڈریٹن کو پکڑ لیا تھا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ وہ جلدی سے اس مقام پر گئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے پر انھیں جیزے جھیل کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا مل گیا۔ وہ بے ہوش تھا اور ڈریٹن کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ جونی نے اس کی نبض دیکھی اور اینگس سے کہا کہ اسے طبی امداد کے لیے جلد گھر پہنچانا ہوگا۔ جیک نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور وہ سب گھر کی طرف چل پڑے۔
فیونا نے بتایا کہ اس نے ڈریٹن کو سیچلز میں دیکھا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس بھی وہی طاقتیں ہیں۔ جونی کہنے لگا کہ پتا نہیں وہ کس طرح ان ہی جگہوں کا سفر کر رہا ہے، یقیناً پہلان جادوگر اس کی مدد کر رہا ہوگا۔ اس نے کہا: ’’اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود قیمتی پتھر حاصل نہیں کرسکتا، اب ہمیں جتنی جلدی ہو سکے باقی پتھر حاصل کرنے ہوں گے، کیوں کہ حالات خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلان ڈریٹن کو سب کچھ سکھا رہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن کو اپنے پیچھے آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ وہ تیزی کے ساتھ اندھیرے اور ہوا دار سرنگ میں دوڑتا جا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر کار وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وہ سرنگ سے باہر نکلا تو اس نے خود کو صنوبر کے جھنڈ میں پایا۔ اس نے مڑ کر ٹارچ لوچ جھیل میں پھینک دیا۔ سرنگ کا دہانہ ایک ٹیلے سے نکلا ہوا تھا، اسے ٹیلے کے اوپر چڑھنے کا راستہ نظر آیا تو بغیر کوئی دوسری سوچ، وہ اوپر چڑھنے لگا۔ ٹیلے پر چڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے درختوں کی جڑیں اور پتھر تھامنے پڑ رہے تھے، اور وہ ہر دو قدم بعد واپس نیچے کی طرف پھسل پڑتا تھا۔ سرنگ کے دہانے کے عین اوپر پہنچ کر اس نے کئی بڑے پتھر اٹھا کر دیکھے اور بڑبڑایا۔ ’’ہونہہ… یہ یقیناً ٹھیک رہیں گے، ان میں سے کئی ایک کے سر تو آسانی سے پھاڑ سکوں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔’’وہ رہا دہانہ ممی … درخت یہاں سے بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل کر بولی اور بھاگ کر دہانے سے باہر نکلی۔ عین اسی وقت ڈریٹن نے اسے نشانہ بنایا لیکن بھاری پتھر اس کی کھوپڑی کی بجائے اس کے پیروں میں آ گرا۔ وہ چیخ مار کر اچھلی۔ جیک قریب تھا، چلا کر بولا: ’’سنبھل کر فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔
’’یہ کیا تھا؟‘‘ مائری کے لہجے میں خوف تھا۔ انھیں اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ جیک انھیں چپ رہنے کا اشارہ کر کے احتیاط کے ساتھ باہر نکلا اور اوپر دیکھنے لگا۔ ایک پتھر اس کے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر لگا۔ وہ تیزی سے پلٹا اور بولا: ’’اوپر کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم سرنگ سے باہر نکلیں۔‘‘
اینگس نے غار کی چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ ڈریٹن ہے … صرف وہی تھا جو غار میں موجود تھا، اس لیے یہ وہی ہے۔ یہی اس کا اسٹائل ہے، وہ بزدل ہمارا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
صورت حال ایسی تھی کہ ان میں سے جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اوپر سے ایک پتھر آ جاتا۔ ایسے میں جونی کو ایک خیال سوجھا۔ ’’اس طرح تو ہم باہر نہیں نکل سکیں گے، اس لیے میں اور جمی واپس قلعے جاتے ہیں، اس وقت تک تم میں سے کوئی نہ کوئی کچھ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اسے مصروف رکھے، ہم پیچھے سے آ کر اسے بے خبری میں پکڑ لیں گے۔‘‘
باقیوں کا اس کا خیال پسند آیا، اور وہ دونوں الٹے قدموں لوٹ گئے، جب کہ فیونا نے پرجوش ہو کر کہا: ’’میں دوڑ کر باہر نکلتی ہوں، میں چھوٹی ہوں اس لیے نشانہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ لیکن مائری جلدی سے بولیں: ’’میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی، میں ہرگز نہیں چاہتی کہ تمھارا سر پھٹا ہوا دیکھوں، سمجھی!‘‘’’لیکن ممی، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، میں بہت تیز دوڑ سکتی ہوں، وہ چاہے بھی تو مجھے نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انتظار کیے بغیر دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ توقع کے مطابق اوپر سے آیا ہوا پتھر اسے چھو نہ سکا۔ وہ درختوں کے درمیان کھڑے ہو کر اندھیرے میں غار کے اوپر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر کار، جب اسے ایک انسانی ہیولا نظر آ گیا تو وہ چلا کر بولی: ’’کیا یہ تم ہی ہو احمق ڈریٹن… یہی نام ہے نا تمھارا … اب کس بات کا انتظار ہے، پھینکو پتھر، مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا!‘‘
فیونا کی طرف سے طنز کے تیز آئے تو ڈریٹن اپنے مزاج کے عین مطابق آگ بگولہ ہو گیا، اور نہایت غضب ناک آواز میں غرایا: ’’چیونٹی کی نسل، تم آئی ہو میرے مقابلے پر، تمھیں تو ابھی مسل کر رکھ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر فیونا کی طرف اچھالے لیکن اس نے بہ آسانی خود کو بچا لیا۔
’’تمھاری آواز جانی پہچانی ہے، کیا میں تمھیں جانتی ہوں بدمعاش؟ تم بچوں کی طرح چھپے ہوئے کیوں ہو، اور سامنے کیوں نہیں آ رہے؟‘‘ تین اور پتھر ہوا میں سنسناتے ہوئے اس کی طرف بڑھے، لیکن فیونا ایک طرف ہو گئی اور پتھر آگے جا کر گرے۔ وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے اسے مزید غصہ دلانے کے لیے بولی: ’’آہا … تمھارے پتھر بھی تمھاری طرح بے وقوف ہیں، مجھے دیکھتے ہوئے پاس سے گزر جاتے ہیں اور مجھے چھو بھی نہیں پاتے!‘‘
یہ سن کر ڈریٹن کے منھ سے خوف ناک غراہٹ نکلی: ’’میں ابھی تمھیں مچھر کی طرح مسل کر رکھ دیتا ہوں۔‘‘ اور پتھروں پر اچھلتا، پھسلتا نیچے اتر کر فیونا کی طرف بڑھنے لگا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دل چسپ ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
’’مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس اوزار کو ساتھ لے آئے ہیں، یہ تو بہت کارآمد معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے سلنڈر نما اوزار کو ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اینگس نے مسکرا کر کہا: ’’اسے ٹارچ کہتے ہیں، تم اسے سوئچ کے ذریعے جلا سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے اس کی ٹارچ کو روشن کر دیا۔ ’’حیرت انگیز!‘‘ جیک بے اختیار بولا: ’’اس نے تو سارا کمرہ روشن کر دیا ہے۔‘‘ جیک نے بڑی دل چسپی کے ساتھ اس کی روشنی دیواروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ پہلے تو وہ بڑا خوش دکھائی دیا لیکن پھر یکایک اس نے کمرے کو پہچان لیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اس نے بے تابی سے ٹارچ کی روشنی فرش پر ڈالی: ’’کنگ کیگان کو اسی کمرے میں قتل کیا گیا تھا۔۔۔ میں اس درد اور خوف کو ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں!‘‘ جیک کے لہجے میں واقعی درد جھلکنے لگا تھا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔‘‘ جمی نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’اگرچہ اس واقعے کے وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن میں بھی اس درد اور خوف کو محسوس کر سکتا ہوں، جو اس عظیم شاہی خاندان کو آخری لمحات میں محسوس ہوا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اینگس کی طرف مڑ کر پوچھا: ’’ہم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘
اینگس نے فکر سے بھری اپنی نگاہیں قدیم دیواروں پر جما کر جواب دیا: ’’یہاں کوئی بہت ہی پراسرار کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور میرے خیال میں اس کھیل کی کلید قلعے کی دیواروں میں چھپی ہے!‘‘
جمی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی، اس نے استفسار کیا: ’’ہم جادوئی گولہ حاصل کر چکے ہیں اور اب ایک ایک کر کے قیمتی پتھر جمع کر رہے ہیں، جب تک بارہ کے بارہ اپنی جگہ نہ پہنچیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ہمیں یہاں سے کیا ملنے کی توقع ہو سکتی ہے؟‘‘
جمی جیسے ہی چپ ہوا، اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے کمرے کے دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ ’’خاموش… وہاں کوئی ہے!‘‘ اس نے سب کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے اوپر سے کمرے میں اترنے والی سیڑھیوں پر نظریں جما کر دیکھنے لگے۔ سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ اگلے لمحے انھوں ںے جونی، جیزے، فیونا اور مائری کو دیکھ کر سکون کی سانس لی۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹارچ تھی۔ اینگس نے مائری کو دیکھا تو حیران ہو گئے اور چونک کر فیونا سے مخاطب ہوئے کہ وہ اپنی ماں کو بھی لے آئی۔
’’اینگس، میں سب کچھ جان گئی ہوں۔‘‘ مائری نے انھیں ڈانٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’تم ان کے ساتھ شامل تھے اور مجھے اس سے معاملے سے بالکل بے خبر رکھا، تم نے آخر ایسا کیسے کیا؟‘‘
اینگس نے شرمندہ ہو کر کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں مائری، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا میں نے تمھاری بہتری ہی کے لیے کیا۔‘‘
’’میری بہتری…؟‘‘ مائری نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’تمھیں اس سے متعلق وضاحت کرنی ہے بعد میں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اینگس نے زور زور سے سر ہلا کر جان چھڑائی۔ مائری نے پوچھا کہ وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ جیک نے جواب میں کہا کہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ اس بار فیونا نے کمرے کی دیواروں پر نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’لیکن ایسی کیا چیز ہے؟‘‘
جیک نے کہا کہ اس کا تو نہیں پتا لیکن جب ملے گی چیز تو سب جان جائیں گے۔ ایسے میں جونی، جو اس سے پہلی بار مل رہا تھا، بانہیں پھیلا کر آگے آ گیا: ’’آرٹر، میرے دوست، ہم ایک طویل عرصے بعد مل رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہو ر ہی ہے۔‘‘
دونوں گلے ملے تو جونی نے مائری کا تعارف کرایا: ’’یہ مائری ہے، فیونا کی ممی، کنگ کیگان اور بدقسمتی سے کنگ دوگان کی مشترکہ وارث۔‘‘
’’تمھارا مطلب ہے کہ شہزادی ازابیلا کے واسطے سے وارث!‘‘ جیک بولا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ دوگان نے شہزادی ازابیلا سے اس کا بیٹا ہیگر چھین لیا تھا، اور اسے پال پوس کر اپنی ہی ماں کا دشمن بنا دیا تھا۔‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’تم اتنے چڑچڑے کیوں ہو؟‘‘ یہ کہہ کر پہلان نے اسے ایک ٹارچ تھما دی۔ ڈریٹن نے ٹارچ کی روشنی خود سے بے حد قریب رکھی، اور کہا: ’’ابھی ایک سیکنڈ پہلے تو یہ ٹارچ تمھارے پاس نہیں تھی، کہاں سے آئی یہ؟‘‘
پہلان اس کے بے وقوفانہ سوال پر جھلا کر بولا: ’’بھولو مت کہ میں ایک جادوگر ہوں، بس اپنا منھ بند رکھو اور میرے قریب رہو۔ ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم کم زور دل ہو لیکن خیال رکھو کہ یہاں نیچے غار میں کچھ چیزوں سے سامنا ہو سکتا ہے!‘‘
’’چیزیں …!‘‘ ڈریٹن نے خوف زدہ ہو کر دہرایا: ’’کیسی چیزیں؟‘‘
پہلان کی آواز آئی: ’’چمگادڑ، چوہے، بھیڑیے اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔‘‘
’’بس یہی چیزیں؟‘‘ ڈریٹن نے اس بار طنزیہ لہجے میں کہا۔ پہلان نے اسے خبردار کیا: ’’مجھے یقین نہیں لیکن تم میرے قریب ہی رہنا۔‘‘ دونوں کچھ دیر تک خاموشی سے سیڑھیاں اترتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل سیڑھیاں پاتال میں اترتی محسوس ہوتی تھیں۔ ڈریٹن کو خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘
لیکن پہلان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا دیر بعد اس نے پھر منھ کھولا: ’’کس نے بنائی ہیں اتنی ساری سیڑھیاں، لگتا ہے کئی برس لگے ہوں گے۔‘‘ پہلان بدستور خاموش رہا۔ وہ نیچے ہی نیچے اترتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ایک بہت بڑے غار میں پہنچ گئے۔ اچانک بہت سارے چمگادڑ ڈریٹن کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ پر جھپٹے۔ اس کے ہاتھ سے ٹارچ گر پڑی۔ اسی لمحے پہلان کے ہاتھوں کی تالی سنائی دی اور لمحوں میں تمام چمگادڑ جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئے اور غار میں روشنی ہو گئی۔
’’ہونہہ … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘ اس بار پہلان نے اسی کے لہجے میں کہنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر طنز کیا۔ ’’مجھے قائل کرنے کے لیے تمھیں واقعی بہادری دکھانی پڑے گی سمجھے!‘‘
ڈریٹن نے شرمندہ ہو کر کہا:’’مجھے نہیں پتا تھا کہ ہم اس طرح اچانک کسی غار میں پہنچ جائیں گے، یہاں تو کئی سرنگ ہیں، یہ کہاں جاتے ہیں۔‘‘
پہلان ابھی اس بات کا جواب دے ہی رہا تھا کہ بری طرح ٹھٹھکا۔ پھرکی کی طرح گھوم کر چیخنے جیسی آواز میں بولا: ’’احمق لڑکے، کیا تم نے کسی کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا، تم قلعے میں دوسرے لوگوں کو لے آئے ہو!‘‘ ڈریٹن حیران ہو گیا، اسے بھی آوازیں سنائی دیں۔ ’’میں کسی کو اپنے پیچھے لگا کر نہیں لایا۔ جو بھی آیا ہے وہ اپنے طور پر منصوبے سے آیا ہوگا، اور یہ غالباً فیونا اور اس کے دوست ہی ہوں گے، وہ پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکے ہیں۔‘‘
’’فیونا…!‘‘ پہلان جادوگر چونک اٹھا۔ ’’تم یہیں ٹھہرو، میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کون ہے قلعے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک کالے دھوئیں میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔
ڈریٹن اندھیرے غار میں گرینائٹ سے بنی دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا اور ٹارچ عین اپنے سامنے کر دی تاکہ اگر ’چیزوں‘ میں سے کوئی اچانک سامنے آئے تو وہ اسے دیکھ سکے۔ وہ سوچنے لگا کاش میں بھی اسی طرح دھواں بن کر غائب ہونا سیکھ لوں، کتنا مزا آئے گا!(جاری ہے…)
-
ایک سو گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
مائری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ میرے بغیر کہیں نہیں جا رہے، فیونا، تم جا کر کوئی گرم چیز پہن لو، کیوں کہ تم اب سیچلز میں نہیں ہو۔ ہم آپ کے ساتھ ہی جا رہے ہیں، اور اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں ہوگی۔ جب ہم گھر لوٹیں گے تو میں فیونا کے ساتھ اطمینان سے تفصیل کے ساتھ بات کروں گی، پھر آپ کے ساتھ بھی بات ہوگی۔‘‘
جونی پریشان ہو گیا: ’’میرے خیال میں آپ کا جانا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ مائری نے دو ٹوک لہجے میں کہا: ’’ہم جا رہے ہیں، اگر میری بیٹی اس بادشاہ کی وارث ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہمیں ہر بات کا پتا ہو اور ہر معاملے میں شامل رہیں۔‘‘
فیونا واپس آ گئی تو مائری نے جبران اور دانیال کے متعلق پوچھ لیا کہ کیا وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں اور کیا ان کے والدین کو یہ سب معلوم ہے۔ جیزے نے بتایا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں، اور یہ کہ ان کے والدین کو کچھ نہیں پتا، اور یہی بہتر ہے کہ انھیں کچھ بھی پتا نہ چلے۔ مائری نے اپنا اونی سویٹر اٹھا کر پہنا اور کہا: ’’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!‘‘
وہ سب گھر سے نکلے تو مائری نے دروازہ لاک کر دیا، اور سبھی قلعہ آذر کی جانب چل پڑے۔
(جاری ہے…)