Tag: اردو ناول

  • ایک سو دس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو دس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    جونی مائری کے گھر پر تھا، انھوں نے کھانا کھایا، جونی نے کھانے کی بڑی تعریف کی۔ باتوں کے دوران اچانک جونی کہنے لگا: ’’مائری، میں آپ کو کچھ بتانا چاہ رہا تھا، لیکن کسی مناسب موقع کا انتظار کر رہا تھا، اب مجھے لگتا ہے کہ وہ بات مجھے کہہ دینی چاہیے۔‘‘
    ’’تو کیا آپ کے خیال میں یہ مناسب وقت ہے؟‘‘ مائری نے حیران ہو کر کہا۔ ’’تم نے تو مجھے تجسس میں ڈال دیا ہے۔‘‘
    جونی چند لمحے خاموش رہا، پھر کہنے لگا: ’’مائری، میرا نام جونی نہیں ہے، نہ جمی اور جیزے میرے بھائی ہیں!‘‘
    مائری کے لیے یہ بات بجلی کے جھٹکے سے کم نہ تھی، وہ بے اختیار چونک اٹھی، اور ان کے دماغ میں کئی طرح کے خیالات گونج اٹھے، تو کون ہیں یہ لوگ؟ اپنی شناخت کیوں چھپائی؟ کیا مقصد ہے ان کا؟ لیکن اس کے باوجود مائری نے خود پر قابو پایا، اور پھر خاموشی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا دیا اور تاروں بھرا آسمان نظر آنے لگا۔ مائری نے یکایک پلٹ کر تیز لہجے میں کہا: ’’آپ کا نام جونی نہیں ہے، اور یقیناً آپ کا تعلق لندن سے بھی نہیں ہے، پھر آپ کون ہیں؟ میں نے پہلے ہی محسوس کیا تھا کہ یہاں کچھ عجیب و غریب باتیں رونما ہونے لگی ہیں۔‘‘
    جونی پریشان ہو گیا۔ ’’آپ صوفے پر بیٹھ جائیں، میں ان حالات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
    مائری خاموشی سے بیٹھ گئیں اور جونی بتانے لگا: ’’میں آلرائے کیتھمور ہوں، ایک قدیم انسان۔ جمی کا نام کوآن اور جیزے کا پونڈ ہے۔ یہ ایک بے حد الجھی ہوئی کہانی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں!‘‘
    ’’بہتر ہوگا کہ شروع سے آغاز کریں آلرائے۔‘‘ مائری نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ انھوں نے اس بات کو بالکل ان سنی کر دیا تھا کہ وہ ایک قدیم انسان ہے، وہ اسے کوئی شاعرانہ جملہ سمجھی تھیں۔
    ’’نہیں… مجھے جونی کہہ کر پکاریں، یہ زیادہ اچھا اور ضروری بھی ہے۔‘‘ اس کے بعد جونی نے فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر کو ساری کہانی سنانے میں ایک گھنٹہ لے لیا۔ مائری دم بخود ہو کر سنتی جا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بت بن گئی ہوں۔ جونی کے ہونٹوں سے الفاظ نکل کر ان کے کانوں میں گھس رہے تھے اور بس … اس کے سوا انھیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہا تھا۔ جونی خاموش ہوا تو مائری کافی دیر تک اسی کیفیت میں بے حس و حرکت بیٹھی رہیں، پھر یکایک کسی اسپرنگ کی طرح اچھل پڑیں۔
    ’’ناقابل یقین ہے، آپ کی ہر بات ناقابل یقین ہے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری بیٹی فیونا جادو کے ذریعے دنیا بھر کا سفر کر رہی ہے، اور اس سفر کے دوران خطرناک جادوئی پھندوں سے اس کا سامنا ہو رہا ہے، اور حتیٰ کہ یہاں بھی کوئی شیطان اسی وجہ سے ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے!‘‘
    عین اسی لمحے گھر کا دروازہ آواز کے ساتھ کھلا۔ جیزے فیونا کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا۔ وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اپنی ممی کے گلے میں جھول گئی۔ ’’ممی، جیزے مجھے انکل اینگس کے گھر سے یہاں تک لائے ہیں۔‘‘
    ’’شکریہ کوآن۔‘‘ مائری نے جیزے کی جانب دیکھ کر سپاٹ لہجے میں کہا۔ فیونا یوں پیچھے ہٹ گئی جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ ’’ممی، کیا آپ جانتی ہیں کہ ان کا نام کوآن ہے؟‘‘
    جونی نے جلدی سے کہا کہ اس نے ساری باتیں بتا دی ہیں۔ مائری فیونا کی طرف مڑ کر بولیں: ’’اور تم کہاں سے آ رہی ہو، لگتا ہے کسی لمبے سفر سے آئی ہو، دیکھو چہرہ دھوپ سے سانولا پڑ گیا ہے۔‘‘
    ’’میں، جبران اور دانی سیچلز پہنچ گئے تھے۔‘‘ فیونا بتانے لگی۔ مائری حیران ہو گئی۔ فیونا نے کہا کہ یہ بحر ہند میں افریقی ساحلوں پر بہت سارے جزیروں کا مجموعہ ہے، جسے سیچلز کہتے ہیں۔ مائری کی آنکھیں حیرت سے یہ جان کر پھٹ گئیں کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی اتنی دیر میں افریقہ پہنچ گئی تھی۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر ٹیک لگا کر کہا: ’’یہ سب ناقابل یقین ہے!‘‘
    ’’کیا تم نے موتی حاصل کر لیا؟‘‘ جونی نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ موتی جادوئی گولے میں رکھا جا چکا ہے، اور انکل اینگس نے اس بدمعاش کا بھی پتا لگا لیا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے، اور وہ یہیں گیل ٹے میں ہے۔ فیونا نے یہ بھی بتایا کہ جمی اور جیک یعنی آرٹر انکل اینگس کے ساتھ قلعہ آذر چلے گئے ہیں، وہاں وہ آپ کا اور جیزے کا انتظار کریں گے۔
    جونی صوفے سے اٹھا تو مائری بھی اچانک اٹھ گئی، اچانک ان کے چہرے کا رنگ بالکل بدل چکا تھا، ذرا دیر پہلے والی حیرت اب سختی میں بدل گئی تھی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    اینگس نے بات جاری رکھی: ’’مجھے سو فی صد یقین تو نہیں ہے لیکن ایک اجنبی میک ڈوگل کے بی اینڈ بی میں ٹھہرا ہوا ہے۔ ایلسے نے مجھے قصبے میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں بھی بتایا ہے، یہ وہی ڈریٹن اسٹیلے کر رہا ہے۔‘‘
    جمی نے کہا: ’’ٹھیک ہے، اگر آپ کو اس پر شک ہے تو پھر ہمیں آپ سب کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ جیک، یہاں اینگس پر ایک بار قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے، اس لیے جب بچے دیگر قیمتی پتھر لانے جائیں تو ہمیں یہاں ان کی حفاظت کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ ڈریٹن کی مدد سے جادوگر پہلان کی طاقتیں بڑھتی جائیں گی۔‘‘
    جیزے نے کہا کہ اسے بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا ہے، جب کہ فیونا نے کہا کہ انھیں بھی گھر پر ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ فیونا کو اچانک ایک بات یاد آ گئی تو مڑ کر انکل سے کہا: ’’آپ نے بتایا نہیں، میرے پاس کون سی تیسری جادوئی طاقت آ گئی ہے؟‘‘
    یہ سن کر دانیال اور جبران بھی چونک اٹھے۔ دونوں مڑ کر اینگس کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی جادوگر ہو، اور ابھی کوئی منتر پڑھ کر سب کو پتھر میں بدل دیں گے۔ خود فیونا کے ہاتھ پیر بھی سنسنانے لگے تھے، وہ جاننا چاہ رہی تھی کہ اب اس کے پاس کون سی جادوئی طاقت آ گئی ہے۔
    اینگس نے ان کا انہماک دیکھ کر سرکھجایا اور پھر دھیرے سے بولے: ’’میں نے اس کے بارے میں کل رات ہی پڑھا ہے، اب تم جانوروں کے ساتھ باتیں کر سکتی ہو، تمھیں جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ آئیں گی اب۔‘‘
    ’’انکل، یہ تو میں کر چکی ہوں، جب ہم آئس لینڈ میں تھے تو پفن پرندوں کے ساتھ میں نے گفتگو کی تھی۔‘‘ فیونا جلدی سے بولی۔
    ’’ارے وہ تو روشن پری اور میگنس نے تمھاری مدد کی تھی۔‘‘ دانیال نے اسے یاد دلایا تو فیونا جھینپ کر سر کھجانے لگی۔
    اینگس نے کہا: ’’میں یہاں اپنے محافظوں جمی اور جیک کے ساتھ رہوں گا، جیزے تم تینوں کو گھر پہنچائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیک کو مخاطب کیا: ’’جب تم قلعے میں پہنچے تو وہاں کوئی غیر معمولی بات محسوس کی؟‘‘
    ’’قلعہ آذر …!‘‘جیک نے سوچ کر کہا: ’’کنگ کیگان اور اس کے خاندان کی روح کے علاوہ کچھ محسوس نہیں کیا۔‘‘
    جبران چونک اٹھا: ’’روح… کیا قلعے میں روحیں بھی ہیں؟‘‘جیک نے بتایا کہ وہ کنگ کیگان اور ملکہ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا، اور دونوں کو بہت چاہتا بھی تھا، اس لیے قلعے کی دیواروں میں ان کی روحیں محسوس کیں۔ جبران نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’میں سمجھ گیا، چترال میں ہمارے پاس ایک گائے تھی، وہ صنوبر کے نیچھے کھڑی رہتی تھی۔ جب وہ مر گئی تو میں جب بھی اس درخت کے پاس جاتا تھا تو مجھے وہ گائے یاد آ جاتی تھی، اور مجھے ایک لمحے کے لیے محسوس ہوتا تھا کہ وہ گائے ابھی بھی درخت کے نیچے کھڑی گردن ہلا رہی ہے اور میں اس کی گردن میں بندھی گھنٹی کی آواز بھی سنتا تھا!‘‘
    ’’بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’جب آپ کسی کو بہت زیادہ چاہتے ہو تو اس کی روح آپ کے دل سے کبھی نہیں نکلتی۔‘‘
    اینگس نے مداخلت کی: ’’ٹھیک ہے، جیزے اب ان بچوں کو گھر لے کر جاؤ اور ہم تینوں قلعہ آذر کا ایک چکر لگائیں گے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ جیزے تم جونی کو لے کر ایک گھنٹے میں وہاں ہم سے ملو۔‘‘
    جیزے بچوں کو لے کر چلا گیا تو اینگس جیک کو لے کر گھر سے نکلے اور آس پاس گھما کر نئے دور کے بارے میں بتانے لگے۔ جمی اور جیک کو خزاں کی اس سرد رات میں ماحول بہت عجیب لگ رہا تھا، ایسے میں اینگس کہنے لگے: ’’ایک عرصہ ہوا ہے، میں قلعہ آذر نہیں جا سکا ہوں، حیران ہوں کہ آج رات کیا رنگ دکھائے گی؟‘‘
    جمی نے دھیرے سے کہا: ’’امید ہے کہ سب ٹھیک رہے گا!‘‘
    وہ تینوں درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو کر اندھیرے کا حصہ بن گئے!
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اینگس ایک کے بعد ایک ہوٹل چیک کرنے لگا کہ کہیں اجنبی لوگ تو نہیں ٹھہرے ہوئے۔ اکثر ہوٹلوں میں تمام کمرے بک تھے۔ اکثریت جوڑوں کی تھی۔ ہائی لینڈ تھیسل ہوٹل کے مالک بونی مک فرلینڈ نے کہا: ’’یہاں کوئی اکیلا شخص نہیں ٹھہرا ہوا، آپ جا کر بی اینڈ بی چیک کریں۔‘‘
    اینگس کو اس کا مشورہ پسند آ گیا، اور وہ سیدھا مک ڈوگل کے بی اینڈ بی پہنچ گئے۔ چھوٹے سے باغیچے میں قرمزی رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے، وہ پھولوں کے پاس سے گزرے اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ ’’ہیلو ایلسے!‘‘
    لیکن جب ان کی آواز پر کوئی نہیں آیا تو انھوں نے چیخ کر کہا: ’’کوئی ہے؟‘‘
    ’’اینگس یہ تم ہو؟‘‘ ایلسے اپنے ایپرن پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے آ گئی۔ ’’تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں کچھ پکا رہی تھی، آؤ، کچن میں آ جاؤ۔‘‘
    ’’اچھی خوش بو ہے۔‘‘ اینگس لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایلسے نے خوش ہو کر کہا: ’’اگر تم پسند کرو تو میں اس میں سے کچھ پیک کر کے تمھیں دے دوں گی لے جانے کے لیے، کیوں کہ تمھیں پکا کر کھلانے والی کوئی عورت بھی تو نہیں ہے!‘‘
    ’’نہیں… شکریہ۔‘‘ اینگس نے جھینپ کر کہا۔ ’’میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم نے یہاں کچھ عجیب سے واقعات ہوتے دیکھے ہیں گزشتہ چند دنوں کے دوران۔‘‘
    ’’تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ ایلسے کام روک کر ان کی طرف مڑی۔ ’’حالاں کہ ایسا ہی ہوا ہے یہاں۔ کئی معزز لوگوں سے زیورات چوری ہوئے اور بٹوے غائب ہوئے۔ رات کو یہاں عجیب سی آوازیں سنی جاتی ہیں۔ کیا تمھارا اشارہ ان ہی کی طرف ہے؟‘‘
    ’’کیسی عجیب آوازیں؟‘‘ اینگس نے پوچھا۔ ’’چھت پر چلنے پھرنے اور کچھ ٹوٹنے کی آوازیں۔ چند مہمانوں نے ناشتے پر شکایت کی کہ رات کو ان کی کھڑکیوں کے زور سے بند ہونے کی آوازیں آئی ہیں۔ ایک نے تو شکایت کی کہ اس کی کھڑکی کے پاس کسی کا ہیولا گزرا۔‘‘
    ’’اوہ… یہ تو بہت عجیب ہے۔ کیا خیال ہے یہاں کوئی بھوت ہے؟‘‘ اینگس نے ایلسے کو ڈرانے کے لیے کہا۔ ’’ہم اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے میں رہ رہے ہیں، کس کو پتا، ہو سکتا ہے یہاں کوئی افسردہ بھوت رہتا ہو!‘‘
    ایلسے اچھل پڑی۔ ’’یہاں بی اینڈ بی میں بھوت!‘‘ وہ ایک ہاتھ میں چمچا پکڑے آنکھیں پھاڑ کر بولی: ’’ٹھیک ہے، یہ بہت پرانا ہے لیکن بھوت اور یہاں، نہیں اینگس، یہ فضول بات ہے!‘‘
    اینگس نے مسکرا کر فوراً موضوع بدلا: ’’اچھا بتاؤ یہاں کوئی اکیلا شخص آ کر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘ ایلسے نے انھیں گھور کر دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر کہا: ’’ہاں، برطانیہ سے ایک شخص آیا ہوا ہے۔ وہ ایک لکھاری ہے، اسے پرسکون اور خاموشی والی جگہ چاہیے تھی۔ اچھا نوجوان ہے، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے۔‘‘
    ’’ڈریٹن اسٹیلے۔‘‘ اینگس نے دہرایا۔ ’’کیا وہ اس وقت یہاں موجود ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
    ’’ہاں، وہ دوسری منزل پر ہے، چلو، مل آتے ہیں۔‘‘ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر آ گئے۔ ایلسے نے ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اندر موجود ڈریٹن نے کمرے کے باہر آوازیں اور پھر دستک سنی تو اسے خطرے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً کھڑکی کھول کر نیچے باغیچے میں کود گیا۔
    ’’اوہ شاید وہ یہاں نہیں ہیں۔‘‘ ایلسے نے کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں ہی ہیں۔ خیر تمھیں تو پتا ہے کہ میں یہاں آنے جانے والوں کو یاد نہیں رکھ پاتی۔‘‘
    اینگس نے کہا کہ اگر وہ آئے تو انھیں کال کر کے مطلع کر دے۔ اینگس جانے لگے تو ایلسے نے انھیں اپنے چند اسپیشل رول کاغذ کے لفافے میں ڈال کر زبردستی تمھا دیے، ساتھ میں اورنج مارملیڈ کی ایک چھوٹی سی بوتل بھی دے دی۔ اینگس نے شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ ڈریٹن ان کا تعاقب کرنے لگا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اینگس اس کے بارے میں کیوں پوچھتا پھر رہا ہے۔ اینگس بھی ڈریٹن سے متعلق اپنا دماغ دوڑانے لگے، اور چلتے چلتے بڑبڑانے لگے: ’’میرا خیال ہے میں نے گم شدہ وارث ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
    (جاری ہے….)
  • ایک سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
    ہوٹل کے باہر ایک دکان سے انھوں نے اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ دکان میں داخل ہونے سے قبل انھوں نے اپنے جسموں سے ریت جھاڑی تھی تاکہ دکان گندی نہ ہو۔ خریداری کے بعد وہ ہوٹل کے کمرے میں آ گئے۔ نہا دھونے کے بعد تینوں نئے کپڑے پہن کر لفٹ کی طرف بڑھے۔ ایسے میں جبران نے فیونا کو مخاطب کیا: ’’تم نے موتی کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ اس نے فیونا کے خالی ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔
    ’’پریشان مت ہو، وہ میں نے مومو کی جیب میں رکھ لیا ہے اور بالکل محفوظ ہے۔ میں اس لمبی فراک میں بہت اطمینان محسوس کر رہی ہوں۔ دیکھو اس کی جیبیں بھی گہری ہیں، کوئی بھی چیز آسانی سے چھپ سکتی ہے۔‘‘
    فیونا کہتے کہتے رکی اور پھر ان دونوں پر نگاہ ڈال کر بولی: ’’تم دونوں پر بھی نیا لباس بہت جچ رہا ہے۔‘‘
    دانیال نے شرما کر کہا کہ تمھارے بالوں میں یہ سرخ ربن اور پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ تینوں مسکراتے ہوئے، کھانے کے لیے بنے ہال میں پہنچ گئے۔ بھوک زوروں پر تھی لیکن وہ ہوٹل کی مخصوص سجاوٹ کو اب بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے، ویٹر نے انھیں کھڑکی کے پاس والی میز پر بٹھایا اور ایک ایک مینو ان کے حوالے کر دیا، جو بالکل سی شیل کی طرح لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ویٹر واپس آ کر پوچھنے لگا کہ انھوں نے کون کون سے آئٹم منتخب کیے ہیں۔ فیونا سب سے پہلے بول اٹھی: ’’مجھے آکٹوپس کری اور کوکونٹ مِلک چاہیے۔‘‘
    ’’ہیں … آکٹوپس کری … یہ کیا چیز ہے؟‘‘ جبران چونک اٹھا۔ سوال کا جواب ویٹر دینے لگا لیکن اس سے پہلے اپنا تعارف کرانا نہیں بھولا: ’’جی میں بتاتا ہوں۔ میرا نام فلپ ہے، میں یہاں آپ کا ویٹر ہوں۔ دراصل آکٹوپس کری یہاں کا خاص سالن ہے۔ آکٹوپس میں بینگن، زعفران، کری مسالا، لہسن، آکٹوپس کے مزید چھوٹے ٹکڑے بھرے جاتے ہیں اور اس پر ادرک اور دار چینی چھڑکی جاتی ہے۔ یہ بے حد ذائقہ دار سالن ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
    دانیال نے مینو پر نگاہ ڈالنے کے بعد ویٹر کو مخاطب کیا: ’’مسٹر فلپ، مجھے تو پہلے کیکڑے کا سوپ چاہیے، اس کے بعد شاہی مچھلی لائیے گا۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے جناب‘‘ ویٹر نے اثبات میں سر ہلایا اور جبران کی طرف مڑ کر آرڈر پوچھا۔ ’’میرے لیے تلی ہوئی شرمپ لا دیں۔‘‘ جبران نے جواب دیا اور اپنا مینو بند کر کے اس کے حوالے کر دیا۔ ویٹر کہنے لگا کہ تلی ہوئی شرمپ کے ساتھ کوکونٹ مِلک میں پکائے گئے کیلوں کی سویٹ ڈش بھی شامل ہے، جس پر پنیر چھڑکا جاتا ہے۔‘‘
    ’’بہت خوب، یقیناً مجھے پسند آئے گی یہ ڈش۔‘‘ ویٹر کچھ دیر بعد سب کی پسند کے کھانے لے کر آ گیا۔ تینوں نے مزے لے کر کھایا اور پیٹ بھرنے کے بعد تگڑی ٹپ چھوڑ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ دانیال بولا: ’’تو اب چلنے کی تیاری ہو!‘‘
    فیونا نے کہا کہ اس کا تو بالکل جی نہیں چاہ رہا کہ واپس جائے، اور گیل ٹے میں بور ہوتی پھرے، لیکن موتی لے جانا بھی ضروری تھا۔ جبران کے بھی یہی جذبات تھے۔ فیونا نے جا کر ہوٹل کے کلرک کو بل دیا تو اس نے مشکوک نگاہوں سے گھورا۔ بل ادا کرنے کے بعد تینوں پام کے درختوں کے پاس آ گئے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور بولی: ’’تم دونوں تیار ہو نا!‘‘
    دونوں نے سر ہلایا اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر دور دراز کے جزیرے سے ان کی واپسی کا وقت آ گیا تھا، ان کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ انھیں ایک بار پھر جادوئی منتر کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا تھا اور وہ یہ سفر کئی مرتبہ طے کر چکے تھے لیکن ہر بار جب وہ اس سفر سے گزرتے تھے، تو ان جانا خوف انھیں گھیر لیتا تھا۔ کیا پتا، کبھی جادو میں کوئی گڑبڑ ہو، اور وہ پھر کبھی گھر نہ پہنچ سکیں۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے اور پھر فیونا کے لب ہلنے لگے:
    ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
    وہ بھاگے چلے جا رہے تھے، ان کے سروں پر بڑے بڑے چمگادڑ اڑ رہے تھے لیکن انھیں اس سے بھی بڑے خطرے کا سامنا تھا اس لیے وہ ان سے نہیں ڈرے۔ جب بڑا خطرہ سامنے ہو تو چھوٹے خطرے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ جبران گھبرا کر بولا: ’’قذاق بہت قریب پہنچ گئے ہیں، مجھے ان کی بو آ رہی ہے۔‘‘
    انھوں نے سنا، ایک قذاق اپنی بے سری آواز میں گا رہا تھا …. یو ہو ہو اور اک بوتل ۔۔۔ !
    دانیال یہ سن کر قہقہ لگا کر بولا: ’’ارے یہ تو واقعی انتہائی بے وقوف ہیں،ان کی سوچ بس بوتل اور تختے تک محدود ہے، کیا ان میں کوئی ایک بھی عقل مند نہیں ہے۔‘‘
    اچانک ان کی سماعتوں سے ایک چیختی ہوئی آواز ٹکرائی اور ان کے قدم بے ساختہ جہاں تھے وہیں جم گئے۔ وہ آواز کہہ رہی تھی: ’’بدمعاشو… ہے نا ایک عقل مند پائریٹ اور وہ میں ہوں۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ عین ان کے سامنے جھاڑیوں سے ایک انتہائی بدوضع اور خوف ناک شکل والا قذاق کود کر ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی شکل مزید بگاڑ کر بولا: ’’حیران ہو گئے نا کہ میرے پاس بھی دماغ ہے ۔۔۔۔ ارغ ۔۔۔‘‘
    اس کے چہرے پر بڑے بڑے بال تھے، اور سر کے گہرے بھورے رنگ کے چپڑے بال رنگین رومال سے باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔وہ حیرت اور خوف سے قذاق کو دیکھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں باقی سمندری ڈاکو بھی پہنچ گئے اور سب نے دائرہ بنا کر انھیں گھیرے میں لے لیا۔ ایک بولا: ’’سردار، ان بدمعاشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟‘‘
    بدوضع اور بد نما قذاق مسکرایا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں سامنے کے تین دانت غائب تھے، اور ایک خلا نظر آ رہا تھا۔ اس کے باقی دانتوں پر کوئی بدبودار اور غلیظ مادہ چپکا ہوا تھا جس کی بو دس فٹ دور کھڑے ان تینوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’ارے بونی جان، تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے، چوں کہ ہمارے پاس بحری جہاز نہیں ہے اس لیے ہم انھیں تختے پر نہیں لے کر جا سکتے۔‘‘
    ان میں سے ایک پائریٹ جس کا نام بگ ٹومی تھا، نے تجویز پیش کی کہ انھیں کسی اونچے درخت سے لٹکا کر پھانسی دی جائے، کوے اور چوہے ان کے جسم مزے سے کھا جائیں گے۔‘‘
    اچانک فیونا چلا کر بولی: ’’نہیں… تم سب ہم سے دور رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موتی نکال لیا اور بولی: ’’یہ ایک جادوئی بال ہے، اگر میں تم لوگوں کے سامنے کردوں تو تم سب بندر بن جاؤ گے۔‘‘
    تمام قذاق یہ سن کر ہنسنے لگے۔ ان کا سردار کیپن وِل منھ بگاڑ کر بولا: ’’اووو… ارے تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
    فیونا نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تھوک نگلا اور بولی: ’’تو ٹھیک ہے، اگر تم اتنے بہادر ہو تو آگے بڑھو اور اسے حاصل کر لو۔‘‘ کہتے کہتے فیونا ٹھہری اور چند لمحے بعد بولی: ’’ڈر گئے نا!‘‘
    کیپن ول کی ہنسی ایک دم رک گئی۔ اس کے سر پر بندھا رومال ڈھیلا ہو کر اس کی آنکھ پر آیا۔ آنکھ پر بندھی پٹی گر گئی اور اس کی دوسری آنکھ بھی نظر آ گئی۔ جبران یہ دیکھ کر حیرت سے بولا: ’’ارے، اس کی دوسری آنکھ تو سلامت ہے، اس نے بلاوجہ چھپائی ہوئی تھی.‘‘
    کیپن ول نے جلدی سے پٹی آنکھ پر دوبارہ چڑھائی اور سر پر رومال کس کر باندھا اور پھرتی سے خنجر نکال کر غرایا: ’’میرے خیال میں تمھاری زبان کاٹنی ہی پڑے گی، بہت بولتے ہو تم۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا گھٹنوں کے بل ریت پر بیٹھ کر جبران سے بولی: ’’ایک بڑا سا پتھر لے آؤ، اب اسے توڑنے کی باری ہے۔‘‘
    دانیال نے آنکھیں پھاڑ کر دو مونہے سمندری خول کو گھورا اور بڑبڑایا: ’’فیونا، کیا تم نے اسی خول سے آکٹوپس کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟‘‘
    فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے۔ جبران نے ایک پتھر لا کر فیونا کو تھما دیا۔ فیونا نے صدفہ نوک کی طرف سے ریت میں دھنسا دیا اور اس کے اوپر پتھر مارنے لگی لیکن کئی بار ایسا کرنے پر بھی سخت خول ٹوٹ نہیں پایا۔ خول سے بدبودار پانی کے چھینٹے اڑ کر ان کے ہاتھوں پر لگے۔ جبران اور دانیال خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگے۔
    ’’کک … کیا یہ زہر ہے … مم … میرے ہاتھ جل نہ جائیں۔‘‘ دانیال خوف کے مارے ہکلانے لگا۔ فیونا نے جھک کر اسے سونگھا اور بتایا کہ یہ زہریلا نہیں ہے بلکہ سمندری پانی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور پتھر جبران کے حوالے کر کے کہا: ’’میں خول کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتی ہو اور تم اس پر پتھر مارو۔‘‘
    جبران نے ایسا ہی کیا لیکن اس بار پھر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ فیونا خول کو گھما کر بہ غور دیکھنے لگی، اور پھر کچھ سوچ کر اس کے اندر انگلیاں پھسا کر اس کا اوپری چھلکا زور لگا کر توڑنے لگی۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ یہ ترکیب کارگر ہو رہی ہے، اس کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو گئے تھے لیکن اچانک دانیال گھبرا کر بولا: ’’رک جاؤ فیونا… پلیز رک جاؤ… دیکھو ہمارے پیروں تلے زمین سرکنے لگی ہے۔‘‘
    لیکن فیونا نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور سمندری خول کھولنے کی جدوجہد میں لگی رہی۔ جبران بولا: ’’ارے وہ تیسرا پھندہ کیا ہو سکتا ہے؟ یاد ہے نا، ہر قیمتی پتھر کے لیے تین پھندے … جیسے ہی ہم اسے کھولیں گے کوئی خطرناک بات ہو جائے گی۔‘‘
    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے ایک بات ہے، اب ہم سمندر میں نہیں ڈوبیں گے اور آکٹوپس بھی یہاں نہیں آ سکتا۔ یہاں ٹرال بھی نہیں ہے اور زلزلے بھی نہیں آئیں گے۔‘‘
    دانیال نے فوراً لقمہ دیا: ’’لیکن ہزار پا اور بڑے بڑے حشرات تو آ سکتے ہیں۔ یاد ہے جیکس نے یہی کہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ان جھاڑیوں میں کوئی خوف ناک چیز ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ جیسے ہی خول ٹوٹے گا، وہ نکل کر ہمیں ہڑپ کر جائے گی!‘‘ لیکن فیونا نے ہاتھ نہیں روکے اور پوری قوت صرف کر کے آخر کار اس نے خول کھول لیا، جس میں سے ایک بہت ہی چمک دار اور خوب صورت ہیرا برآمد ہوا، جو سمندری پانی کی وجہ سے چپچپا ہو رہا تھا۔ یہ موتی تھا … ایک بہت ہی خوب صورت اور قدیم موتی!
    فیونا بے ساختہ بولی: ’’واؤ … اس کی قیمت تو ضرور دس لاکھ پاؤنڈ ہوگی۔‘‘
    جبران کی نظریں بھی موتی کا طواف کرنے لگی تھیں جب کہ دانیال کی نظریں آس پاس تیزی سے گھوم رہی تھیں۔ وہ بے حد خوف زدہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب کچھ ہونے والا ہے … بہت ہی خطرناک …!‘‘
    اور پھر وہی ہوا جس اسے ڈر تھا!
    عین فیونا کے پیچھے اچانک ریتیلی زمین پھٹی اور ایک دل دہلا دینے والا ہاتھ برآمد ہوا۔ اس ہاتھ میں ایک چمکتی تلوار لہرا رہی تھی۔ دانیال دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ یکایک ان دونوں کو بھی احساس ہوا کہ کوئی بری بات ہو گئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگے۔ زمین پھاڑ کر جو ہاتھ باہر نکلا تھا اب وہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ کئی اور ہاتھ بھی قطار در قطار نکل آئے تھے، اور ان میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور ہر ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ ایسے میں دانیال جھاڑیوں کی طرف بھاگتے ہوئے چیخا: ’’میں نے کہا تھا نا کہ زمین کے اندر کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
    ’’ٹھہر جاؤ …‘‘ جبران بھی دوڑ پڑا۔ ’’میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا اور خوف سے چلایا: ’’یہ بحری قزاق ہیں۔‘‘
    زمین سے نکلنے والے ہاتھ اب محض ہاتھ نہیں رہے تھے بلکہ وہ پورے انسانوں کا روپ اختیار کر چکے تھے، یعنی قدیم بحری ڈاکو اپنی قبروں سے نکل آئے تھے۔ انھوں نے سیاہ و سفید دھاریوں والی شرٹ اور پھٹی ہوئی سیاہ پینٹیں پہنی تھیں، جب کہ سروں پر سرخ رومال بندھے ہوئے اور آنکھوں پر پٹیاں تھیں۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
    ڈریٹن کی آنکھیں کھلیں تو اسے شدید تکلیف کا احساس ہونے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی غسل آفتابی نہیں کیا تھا، سر سے پیر تک اس کی جلد میں جلن اور دکھن ہو رہی تھی۔ وہ رو پڑا: ’’اوہ … بہت تکلیف ہو رہی ہے!‘‘
    قریب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص چھتری تھامے گزرا، اس نے ڈریٹن کو تکلیف میں دیکھ کر مشورہ دیا: ’’بیٹا، تم نے سورج کی کرنوں سے خود کو نادانی میں بری طرح جلا دیا ہے، جاؤ اور ایلوویرا نامی پودے کا عرق اپنے جسم پر ملو، اس سے تمھیں درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘
    ڈریٹن بجائے شکریہ ادا کرنے کے، اس ادھیڑ عمر شخص سے بدتمیزی کرنے لگا۔ ’’اوئے بڈھے، کیا میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے، اپنا کام کرو، چل نکل یہاں سے۔ میں کوئی بے وقوف ہوں، پتا ہے مجھے کہ خود کو سورج کی تیز روشنی سے جلا چکا ہوں۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے برا سا منھ بنا کر کہا: ’’آج رات تمھیں اس کا اصل مزا آئے گا، اور میں اس کا سوچ کر ہی ابھی سے لطف لے رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور ڈریٹن نے غصے سے اپنا تولیہ جھٹکے سے اٹھا لیا، جس کے ساتھ ریت بھی اڑی، جو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں پر جا گری۔ ایک بچہ روتے ہوئے بولا: ’’ممی، اس احمق آدمی نے میرے سینڈوچ پر ریت جھاڑ دی ہے۔‘‘
    ڈریٹن نے نہایت بدتمیزی سے قریب آ کر بچے کا خالی ٹفن باکس اٹھا کر اس میں ریت بھری اور اسے بچے کے بالوں میں الٹ دیا۔ خالی باکس دوبارہ بھر کر پکنک پر آئی ہوئی فیملی کے کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹوکری میں الٹ دیا اور بچے کی ممی سے بولا: ’’اپنے اس چوزے کو سمجھاؤ کہ چوں چوں بند کرے، نہیں تو ابھی اس کا کچومر نکال دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹفن سمندر میں اچھال دیا، اور پھر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
    کچھ ہی فاصلے پر کاسمیٹک کی ایک دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوا، اس پر لکھا تھا ’’سن اینڈ فن۔‘‘اس کے بدن پر اب بھی ریت چپکی ہوئی تھی جو دکان کے اندر بھی گر رہی تھی۔ سیلز مین کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا، اس نے آگے بڑھ کر نہایت مؤدب لہجے میں کہا: ’’سر، براہ مہربانی آپ باہر جا کر اپنے جسم سے ریت جھاڑ کر آئیں، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
    ڈریٹن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا: ’’ارے تم اتنے مزاحیہ لہجے میں کیوں بول رہے ہو، کیا تم احمق ہو؟‘‘
    سیلز مین نے دیگر کسٹمرز کی موجودگی میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کو میرے لہجے میں کیا سروکار ہے؟ آپ باہر جائیں اس سے پہلے کہ میں پولیس کو طلب کروں۔‘‘
    ڈریٹن نے مسکرا کر زبردست جھرجھری لی اور تمام ریت دکان کے اندر ہی جھاڑ دی، اور پھر اطمینان سے دکان سے نکل کر ایک بار پھر سمندر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ بچے نے اپنا ٹفن اٹھا لیا تھا۔ ڈریٹن نے اس کے ہاتھ سے ٹفن چھینا اور اس میں پھر ریت بھر دی۔ بچے کی ماں نے جلدی سے بچے کو ایک طرف اپنی آڑ میں چھپا لیا۔ ڈریٹن مڑا اور دکان کے اندر چلا گیا۔ اس نے ہاتھ پیچھے رکھے تھے، سیلز مین اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور بولا: ’’آپ پھر آ گئے اندر، فوراً باہر نکل جائیں۔‘‘
    دیگر کسٹمرز اسے دیکھ کر تیزی سے باہر نکلے۔ انھیں ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ بد مست بھینسا انھیں نشانہ نہ بنا دے۔ ڈریٹن نے سیلز مین سے کہا: ’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن پہلے آپ یہ بتا دیں کہ آپ کا لہجہ کس قسم کا ہے؟‘‘
    سیلز مین نے ایک لمحہ ٹھہر کر نرمی سے جواب دیا: ’’یہ کرول لہجہ ہے، میرے ورثے کا ایک حصّہ!‘‘
    ’’اوہ…‘‘ ڈریٹن نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا اور اسے دھکا دیتے ہوئے اسی کے لہجے میں نقل اتاری: ’’تو ورثے کی زبان میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
    سیلز مین اس کے دھکے سے لڑکھڑا گیا تھا، اور سنبھلنے سے پہلے ہی ڈریٹن نے اس کے سَر پر ریت ڈال دی۔ جس سے اس کے بال، کپڑے اور فرش گندا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے اس دوسری دکان نظر آ گئی، وہ اندر داخل ہوا اور ریک سے ایلوویرا جل، لوشن اور سن اسکرین اٹھا کر تولیے میں لپیٹ لیے۔ سیلز مین کسی دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف تھا اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ باہر نکل گیا، اس کے بعد وہ ہوٹل پہنچ کر نہایا۔ نہانے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید ان چالاک بچّوں نے اب تک موتی حاصل کر لیا ہو گا، لیکن کیا میں ان کو کہیں ڈھونڈوں یا واپس گیل ٹے چلا جاؤں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے جانا چاہیے، وہ خاصا دولت مند ہو کر لوٹ رہا تھا۔ جانے کا فیصلہ کر کے اس نے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہر قیمتی شے کو پکڑا اور واپسی کا منتر پڑھنے لگا۔
    جب گھومنا بند ہو گیا تو اس نے خود کو اینگس کے گھر کے باہر پایا، بارش ہو رہی تھی، ذرا ہی دیر میں وہ بھیگ گیا۔ سورج کی تیز روشنی سے اس کی جلد دکھ رہی تھی اور بارش کے پانی سے اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے سیچلز ہی میں چھوڑے تھے اور شارٹس، جوتوں اور ایک ٹی شرٹ میں چلا آیا تھا، اس لیے وہ تیز رفتاری کے ساتھ بی اینڈ بی کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ایلسے اس کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ایک دھماکے سے درازہ بند کر دیا۔ ایلسے نے حیرت سے کہا تھا: ’’ارے ڈریٹن، تم تو جلے ہوئے پورے!‘‘
    (جاری ہے…)
  • چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    جبران کی خوف سے سرسراتی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’یہ ایک بہت بڑا آکٹوپس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے اختیار اتنا پیچھے ہٹا کہ اس کی کمر غار کی دیوار سے لگ گئی۔ دانیال نے دہشت زدہ ہو کر کہا: ’’تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں ایک بہت بڑے ہشت پا کے ساتھ پھنس چکے ہیں، اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟‘‘ دانیال کے چہرے پر خوف واضح دکھائی دے رہا تھا، وہ بولنے لگا: ’’دیکھو لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور پانی کی سطح بھی۔ مجھے لگتا ہے یا تو ہم ڈوب جائیں گے یا کسی سمندری بلا کی خوراک بن جائیں گے۔‘‘

    سچائی یہ تھی کہ وہ تینوں انتہائی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ آنکھیں خوف کے مارے ابل رہی تھیں۔ فیونا کا رنگ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ہونٹ کانپ کر رہ جاتے تھے۔ جبران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’یہ ضرور تین پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔‘‘

    اچانک تینوں خوف کے مارے چیخ پڑے۔ ان کے سامنے پانی سے سبز مائل کتھئ رنگ کا کوڑے کی طرح بہت موٹا سرا برآمد ہوا۔ جبران خوف سے لرزتے ہوئے بولا: ’’اس پر تو چوسنے والی کنڈلی بھی ہے، اگر یہ ہم میں سے کسی سے چھو گیا تو جسم کا سارا خون چوس لے گا۔‘‘

    لمبا نوکیلا تڑپتا کوڑا ان سے کئی گز کے فاصلے پر فضا میں گھوما۔ دانیال کانپ رہا تھا، اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ … ابھی ہمارا خون چوس لے گا۔‘‘
    فیونا ایسے میں بھی جھلا گئی، اور کہا: ’’بے وقوف مت بنو، آکٹوپس خون نہیں چوستا، ہاں اگر خوں آشام ہو تو پھر ضرور خطرہ ہے۔ یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ میں اپنا جادو بھی استعمال نہیں کر سکتی، ادھر پانی کی سطح بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’لیکن تم خود کو چھوٹا اور بڑا تو کر سکتی ہو نا، خود کو اتنا بڑا کردو کہ اس خوں آشام آکٹوپس کو ختم کر سکو۔‘‘

    ’’لیکن یہ غار تو اتنا بڑا نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غار کی چھت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’میں خود کو زیادہ سے زیادہ بارہ فٹ تک بڑا کر دوں گی جو کہ ایک بہت بڑے آکٹوپس کو ختم کرنے کے لیے ناکافی جسامت ہے۔ ویسے میرے خیال میں خوں آشام آکٹوپس کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

    جبران چلایا: ’’وہ دیکھو، دوسرا کوڑے نما سرا بھی پانی سے نکلا ہے۔ اگر تم خود کو بارہ فٹ تک بڑا کر دو گی تو کم از کم اس کے ساتھ مقابلہ تو کر سکوگی نا۔‘‘
    دانیال کی روہانسی آواز سنائی دی: ’’ابھی دو ہی سرے باہر نکلے ہیں اور کُل آٹھ ہیں۔ فیونا ہم موت کے منھ میں جانے ہی والے ہیں۔‘‘

    ’’چپ کرو دانی۔‘‘ فیونا پریشان ہو کر بولی: ’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں بعد کچھ کہے بغیر اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دانیال بے ساختہ چیخ اٹھا: ’’یہ تم نے کیا کیا… آکٹوپس تمھیں ایک لمحے میں کھا جائے گا اب۔‘‘

    دانیال نے خوف کے مارے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ جبران حیرت سے اچھل پڑا تھا۔ اس نے کہا: ’’دانی، آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فیونا جا جسم بڑا ہو رہا ہے۔ اف میرے خدا!‘‘

    جبران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے فیونا کا بدن تیزی سے اپنی جسامت سے بڑا ہوتا گیا اور اتنا بڑا اور لمبا ہو گیا کہ اس کا سر غار کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ وہ ایک دیو کی طرح لگ رہی تھی اب۔ دانیال نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ششدر رہ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا لیکن اس کے سامنے کا منظر خواب نہیں حقیقت تھا۔ انھیں اپنے سروں کے اوپر فیونا کی باریک آواز سنائی دی: ’’مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے، میں کتنی لمبی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا انھیں سر جھکا کر دیکھ رہی تھی، دانیال کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی: ’’بیس فٹ لمبی ہو گئی ہو فیونا، لیکن ہوشیار ہو جاؤ، پانی سے آکٹوپس کی چھ ٹانگیں نکل چکی ہیں!‘‘ اور پھر وہی ہوا جس کا انھیں ڈر لگا تھا۔ آکٹوپس کی کوڑوں کی مانند لہراتی، دہشت ناک ٹانگیں فیونا کی طرف بڑھیں۔ ایک ٹانگ فیونا کی بائیں ٹانگ سے لپٹی اور اسے پانی میں نیچے گرا دیا۔

    (جاری ہے…)

  • پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    دانیال نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، کاش کسی آسان سی جگہ پر ہوتا موتی، لیکن ہر بار ایک بہت ہی مشکل جگہ میں قیمتی پتھر چھپا ہوتا ہے۔‘‘

    اچانک فیونا نے تشویش بھرے لہجے میں دونوں کو خبردار کیا: ’’اگر لہریں اندر جا رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ غار پانی سے بھرا ہو گا، اور اتنا گہرا ہوگا کہ ہم ڈوب سکتے ہیں، اس لیے ہمیں جلدی کرنا ہوگا۔ دانی تم کتنی دیر تک سانس روک سکتے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جھک کر پانی میں سر ڈال دیا۔ جب اس نے سر باہر نکالا تو زور زور سے سانس لینے لگی۔ دانیال نے بتایا کہ وہ صرف تیس سیکنڈ سانس روک سکی ہے۔ اس کے بعد دانیال نے سانس کھینچ کر پانی میں سر ڈال دیا لیکن صرف پچیس سیکنڈ بعد ہی سر نکال واپس نکال لیا۔ جبران سب سے زیادہ ایک منٹ تک سانس روکنے میں کامیاب ہوا۔ فیونا نے کہا: ’’سنو، وہ سخت خول عین میرے پیروں کے نیچے ہے، دیکھو پانی بالکل شفاف ہے اور خول کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

    جبران نے بھی کہا کہ اسے بھی نظر آ رہا ہے، اسے یہ زیادہ بڑا نہیں لگا۔ اس نے کہا: ’’میں پانی میں غوطہ لگا کر اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ صدف کے دونوں پرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خول کو اٹھا کر باہر نکالنا بہتر ہوگا، باہر اسے پتھر پر مار کر توڑا جا سکتا ہے۔ جبران غوطہ لگا کر خول کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کائی جمنے کی وجہ سے خول پھسلواں ہو چکا تھا۔ اس نے صدفے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس جواب دے گئی تھی، اس لیے اس نے سر باہر نکال لیا۔

    ’’خول پر کائی جم گئی ہے اس لیے اسے پکڑنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا نے کچھ سوچ کر اپنا سینڈل اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خول توڑنے کی کوشش کر لے، ہو سکتا ہے کام بن جائے۔‘‘

    جبران نے سینڈل لے کر گہری سانس لی اور پھر غوطہ لگا لیا۔ ایسے میں دانیال ہنس کر بولا کہ پانی کے اندر وہ سینڈل استعمال نہیں کر سکے گا، کیوں کہ پانی کے اندر اس کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں… تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ وہ مسکرا دی، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ جبران نے جوتے کی مدد سے خول پر سے کائی ہٹانے کی کوشش کی۔ ایسے میں اس نے کن اکھیوں سے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ کہیں شارک نہ ہو، اس لیے فوراً اٹھا اور ایک پتھر پر چڑھ کر بولا: ’’نیچے کچھ ہے!‘‘

    ’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ فیونا نے پوچھا: ’’اور میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    ’’کوئی بڑی اور سیاہ چیز تھی، سینڈل سے خول نہیں کھل سکے گا، ہمیں کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘

    فیونا نے نیچے دیکھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں دانیال نے ان دونوں کے پیچھے دیکھا اور چلایا: ’’وہ دیکھو، کوئی چیز ہے وہاں۔‘‘

    جبران بھی چیخا: ’’تم دونوں بھی پتھر پر چڑھ جاؤ۔‘‘ دونوں جلدی سے پتھر پر چڑھے اور ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر پوچھا: ’’میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    جبران کی توجہ سینڈل پر جا ہی نہیں سکی، کیوں کہ اس کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی چیز تیرتی ہوئی ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سانپ ہو، یا کوئی ٹانگ یا بازو۔

    (جاری ہے…)

  • اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے، دانیال نے کہا: ’’جلدی بتاؤ!‘‘
    ’’یہ گھنٹہ گزارنے کے لیے چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ جبران نے مسکراتے ہوئے اپنا آئیڈیا پیش کر دیا۔ دانیال کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’دھت تیرے کی!‘‘ فیونا نے ہنس کر جبران کے آئیڈے کی تائید کی۔

    قریب ہی ایک چھوٹا سا کیفے تھا، تینوں اس میں گھس گئے کیوں کہ کوئی اور کیفے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کیفے میں بیٹھ کر ایک بڑے سائز کی شرمپ مچھلی منگوائی، جس کے ساتھ ایک بہت سیپی میں درجن بھر مختلف چٹنیاں بھی تھیں۔ وہ مزے لے لے کر کھانے لگے۔ تینوں اتنی بڑی سیپی دیکھ کر حیران ہو گئے تھے، دانیال نے خیال ظاہر کیا کہ یہ اصلی نہیں ہے، لیکن جبران کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اصلی ہو، کیوں کہ وہ سیچلز میں تھے اور ممکن ہے سیچلز میں اتنی بڑی سیپیاں ہوں۔ وہ دونوں کھانا کم کھا رہے تھے اور تبصرے زیادہ کر رہے تھے، جب کہ فیونا انھیں خاموشی سے دیکھ کر مسلسل کھانے میں مصروف تھی۔ آخر میں فیونا نے ٹشو سے ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’واہ، بہت مزا آیا، بہت مزے دار کھانا تھا۔‘‘

    ’’ارے تم نے کھا بھی لیا!‘‘ جبران چونک اٹھا۔ فیونا نے کہا کہ تم دونوں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور میں کھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ان دونوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ فیونا بولی: ’’اب ہمیں بندرگاہ جانا ہے اور وہ کشتی تلاش کرنی ہے جس کا نام لاپلیگ ہے۔‘‘

    ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ کا ناخدا ان کا منتظر تھا، تینوں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور بولا: ’’میڈم فیونا، مجھے جیکس مونٹ کہتے ہیں، میں آپ کے اور آپ کو جزیرہ سلہوٹ تک لے جانے کی خدمت انجام دوں گا، آپ کشتی پر آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انھیں کشتی پر آنے کے لیے سہارا دیا۔ کشتی کی تہہ میں لکڑی کے تختوں پر آدھ انچ تک پانی کھڑا تھا۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی کہ بروشر میں یہ کشتی اتنی بری حالت میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک جبران نے منھ بنا کر سوال کیا: ’’کشتی میں اتنا پانی کیوں ہے؟‘‘
    جیکس مونٹ نے جلدی سے کہا: ’’گبھرائیں مت، کشتی میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی چھوٹی کشتیوں میں ایسا ہوتا ہے، جب بھی میں کشتی کے موٹر کو اسٹارٹ کرتا ہوں تو لہروں کی وجہ سے تھوڑا سا پانی اندر آ جاتا ہے۔‘‘
    فیونا نے جیکس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔ دانیال نے ایک پاؤں اٹھا کر کشتی کے کنارے پر رکھ دیا تو اس کے جوتے سے پانی سمندر میں گرنے لگا۔ جیکس بولا: ’’میں بہت چھوٹا تھا جب انگریزی سیکھی تھی۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ جیکس مونٹ نے بھورے بالوں کو چمک دار نیلے رنگ کی ٹوپی سے چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کر کے کہا: ’’آپ اپنے مہمانوں کا بھی تعارف کرائیں گی؟‘‘

    فیونا بولی: ’’ضرور …. یہ دانیال ہے اور یہ جبران۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور اسکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن آپ لوگوں کے والدین کہاں ہیں؟ یقیناً آپ ان کے بغیر تو اس جزیرے پر نہیں آئے ہوں گے۔‘‘ کشتی کے مَلّاح نے پوچھا۔ فیونا نے جلدی سے جواب دیا: ’’جی ہاں، وہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں ہیں، ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تھے، اور ہمارے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘‘

    ’’کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں آپ لوگ؟‘‘ جیکس نے اگلا سوال داغ دیا۔ اس بار دانیال نے جواب دیا لیکن اس کے لہجے میں واضح طور پر بے زاری جھلک رہی تھی: ’’سی سائیڈ فینٹیسی ہوٹل میں!‘‘

    ’’اچھا وہ تو بڑا شان دار ہوٹل ہے۔‘‘ جیکس نے چونک کر کہا، اس کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کے والدین بہت مال دار ہوں گے جو اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے آپ کو بھی اچھی خاصی رقم دی ہوگی اکیلے جانے کے لیے۔‘‘ اس کی گول آنکھیں جبران کی چھوٹی پتلون کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے نوٹوں پر مرکوز ہو گئی تھیں۔

    (جاری ہے)