Tag: اردو ناول

  • نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ہمیں شاپنگ کی ضرورت ہے،‘‘ دانیال بولا: ’’ہم یہاں اس جزیرے پر ان کپڑوں میں نہیں گھوم پھر سکتے۔ میرے کپڑوں سے سمندر جیسی بو آ رہی ہے، مجھے اپنے بالوں میں برش بھی کرنا ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، چلو پہلے شاپنگ کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے اترے تو فیونا بولی: ’’یہاں ذرا ٹھہرو، اور کاؤنٹر والے شخص پر نظر رکھو، جیسے ہی وہ ادھر ادھر کسی کام میں لگ جائے، تب فوراً باہر نکلو۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے والدین کے بارے میں پوچھے۔‘‘

    انھیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، ایک نوجوان جوڑا آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ تینوں تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ان کی آڑ میں برآمدے سے ہوتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل گئے۔ سڑک پر آتے ہی جبران بولا: ’’ہوٹل کے برآمدے میں اتنی عجیب و غریب اور خوب صورت چیزیں ہیں کہ وہاں سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔‘‘ فیونا نے ہنس کر اس کی تائید کی، اور کہا کہ جب کاؤنٹر والا چھٹی کرے گا تو وہ برآمدے میں وقت گزاریں گے۔

    وہ تینوں سڑک کنارے دکانوں کے اندر جھانکنے لگے، وہ دکانوں میں سجی اشیا دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ راستے میں کھڑے اس شخص کو بھی نہیں دیکھ سکے جو رقم گن رہا تھا۔ جبران اچانک اس سے جا ٹکرایا۔ راستے میں کھڑے شخص نے لپک کر اسے گردن سے پکڑ لیا۔ ’’کیا کر رہے ہو، اندھے ہو کیا…!‘‘ وہ شخص بھڑک کر بولا: ’’اچھا تو تم میرے پیسے چرانا چاہتے ہو؟‘‘ جبران یہ دیکھ کر گھبرا گیا اور گڑگڑانے لگا: ’’نن … نہیں جناب، میں غغ … غلطی سے ٹکرایا!‘‘

    اس دوران دانیال اور فیونا بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اس شخص نے دونوں کو گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر پوچھا: ’’تم دونوں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’کک … کچھ نہیں۔‘‘ فیونا ایک دم گھبرا گئی: ’’آپ اسے چھوڑ دیں، جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا۔‘‘

    ’’اوہو…‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا: ’’تم تو بڑی بہادر لڑکی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جبران کو دھکا دے کر پیچھے گرا دیا اور وہ بے چارا چاروں شانے چت ہو گیا۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

    ’’میں سمجھتا ہوں تم سب کی چالاکی کو۔‘‘ وہ غرّا کو بولا۔ ’’تم پر کڑی نظر رکھوں گا میں۔ اگر تم پھر میرے راستے میں آئے تو تمھاری خیر نہیں ہے، مجھ سے دور ہی رہنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی دونوں دوڑ کر جبران کے پاس آ گئے اور اسے اٹھایا۔ فیونا اچانک بولی: ’’حیرت ہے اس شخص کا لہجہ بالکل انگریزوں والا تھا۔‘‘

    ’’وہ بدمعاش گینڈا تھا۔‘‘ جبران غصے میں بولا۔ کچھ دیر تک وہ اس ناخوش گوار واقعے پر تبصرے کرتے رہے اور پھر شاپنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک دکان سے فیونا نے اپنے لیے گلابی رنگ کا سوٹ خریدا جس پر جگہ جگہ سوزن کاری سے اسٹار فش بنائی گئی تھی۔ دانیال نے نیلے رنگ کی مختصر پینٹ اور سفید ٹی شرٹ اور ایک عدد بالوں کا برش خرید لیا۔ اس کی ٹی شرٹ پر سیچلز کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ جبران نے ہلکے سبز رنگ کی مختصر پینٹ پسند کی، اس نے بھی سفید ٹی شرٹ خریدی جس پر کھجور کے درخت کی تصویر تھی۔ تینوں نے اپنے لیے چپل بھی خریدی، اور اس کے بعد وہ ہوٹل واپس آ گئے اور کپڑے بدل لیے۔ انھوں نے پرانے کپڑے یونہی بستروں پر پھینک دیے۔ نئے کپڑوں میں وہ زیادہ بہتر محسوس کر رہے تھے، تینوں ہوٹل سے پھر نکل آئے، اس وقت موسم میں بھرپور نمی تھی، فیونا نے کہا: ’’ہمیں ایک کشتی کرائے پر لینی ہوگی، سلہوٹ آئس لینڈ جانے کے لیے ہم کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، چلو پہلے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘
    انھوں نے ایک پرائیویٹ کشتی بُک کر لی تو ان کے پاس ایک گھنٹہ تھا، جس کے بعد ہی کشتی نے روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں جبران بولا: ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے!‘‘

    (جاری ہے…)

  • نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’کھانا بھی کھا لیں گے جبران۔‘‘ فیونا بولی: ’’سب سے پہلے یہاں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بروشر کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک ایسی جگہ ڈھونڈنی ہے جہاں تین چوٹیاں ہیں۔‘‘

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    تینوں برآمدے میں آ گئے۔ ایک طرف دیوار کے پاس ہی انھیں میز پر بہت سارے بروشر نظر آ گئے۔ تینوں نے ایک ایک اٹھا لیا اور قریبی صوفے پر بیٹھ گئے۔ جبران نے ایک تصویر دونوں کو دکھائی: ’’یہ ہیں شاید تین چوٹیاں، جزیرہ ہے کوئی، جزیرہ سلہوٹ!‘‘

    ’’ہاں یہی لگتا ہے۔‘‘ فیونا نے سر ہلایا: ’’کیوں کہ کوئی اور تصویر نہیں ہے، اب ہمیں اس جگہ تک پہنچنا ہے، میرے خیال میں یہ جزیرہ زیادہ دور نہیں ہوگا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔

    دوسری طرف ڈریٹن ویونگ پامز نامی ہوٹل چلا گیا، اسے کمرے کی تلاش تھی۔ وہ ہوٹل کے برآمدے میں ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور آس پاس کئی اور لوگ بھی موجود تھے۔ اس نے ایک رسالہ اٹھا لیا اور جھوٹ موٹ پڑھنے لگا۔ وہ دراصل اطمینان سے لوگوں کی باتیں سننا چاہ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے ہی میں وہ نہ صرف ان لوگوں کے کمروں کے نمبر جان گیا بلکہ انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ کہاں کہاں اور کتنی دیر کے لیے باہر جائیں گے، اور یہ کہ ان کے پاس رقم ہے یا نہیں۔ ان کے جاتے ہی وہ ان کے کمروں کی طرف چلا گیا، وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ کمروں میں کمپیوٹرائز تالوں کی بجائے پرانے طرز کے تالے لگے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بے حد خوش ہو گیا، ذرا سی دیر میں وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا اور پھر تیزی سے رقم، کریڈٹ کارڈز اور زیورات اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اسی طرح اس نے تمام کمروں کا صفایا کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی قیمتی اشیا سے محروم کر دیا۔ اس ہوٹل کے بعد اس نے دوسرے ہوٹل کا رخ کر لیا، اور اس طرح تین گھنٹے بعد اس کی جیب میں چھ ہزار سے پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم آ چکی تھی، کئی کریڈٹ کارڈز، گھڑیاں، اور سونے کی انگوٹھیاں اس کے علاوہ تھیں۔ وہ سڑک کنارے چلتے ہوئے قہقہے لگانے لگا۔

    ’’صبح کے لیے اچھا شکار رہا‘‘ اس نے خود کلامی کی: ’’میرے پاس اب اتنی رقم آ چکی ہے کہ میں اس مشن کے دوران آسانی سے عیش کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    وہ تینوں اس وقت جزیرہ ماہی پر واقع ٹاؤن وکٹوریہ میں کھڑے تھے، سیچلز میں تقریباً ایک سو پندرہ جزیرے موجود ہیں۔ دانیال کو ریت عجیب سی لگی، اس نے مٹھی میں ریت بھری اور پھر اسے انگلیوں کے درمیان میں سے پھسلنے دیا۔ جبران نے ریت پر نگاہ ڈالی تو اسے اس میں ہلکا گلابی رنگ نظر آیا۔ فیونا نے کہا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں رنگوں کے ہزاروں شیڈز پائے جاتے ہیں۔

    جبران نے فیونا سے پوچھا کہ یہاں انھوں نے کون سا پتھر ڈھونڈ نکالنا ہے، فیونا نے جواب دیا: ’’موتی … اور کیا تم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم ایک اور جزیرے پر ہیں، آخر جزیرے ہی پر کیوں؟ کیا کنگ کیگان نے انھیں کہا تھا کہ ہر پتھر ایک جزیرے ہی پر چھپایا جائے؟‘‘

    دانیال نے سوچ کر کہا: ’’جزائر عام طور سے دور دراز مضافاتی علاقوں میں ہوتے ہیں، شاید اس لیے، جیسا کہ ہائیڈرا ایک دور مضافاتی علاقہ تھا، آئس لینڈ بھی، اور اب یہ سیچلز۔ میں نے تو ان کے نام بھی نہیں سنے تھے۔‘‘

    جبران نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اتنی دیر میں بالکل سوکھ گئے تھے: ’’تمھیں بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے، بال ایسے ہوئے ہیں جیسے رسیاں ہوں یا سانپ، ہائیڈرا کے عفریت کی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’ویسے آج کل جزائر مضافاتی نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہم کہیں بھی چند گھنٹوں میں اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اور ہم تو ایک منتر پڑھ کر چند ہی سیکنڈ میں یہاں پہنچے۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن دانی کی بات درست لگتی ہے، جونی اور جمی کے دور میں یہ جزائر واقعی دور دراز علاقوں میں واقع الگ تھلگ واقع تھے اور ان تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔‘‘

    فیونا نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر کہا: ’’آئس لینڈ سے واپسی پر میں نے انکل اینگس کو رقم واپس نہیں کی تھی، اس لیے یہ میرے پاس موجود ہے، اب ہمیں پھر سب سے پہلے بینک تلاش کرنا ہے، پتا نہیں یہاں برطانوی کرنسی چلے گی یا نہیں؟‘‘

    تینوں وکٹوریہ ٹاؤن میں گھومنے لگے، وہاں دکانیں بے حد شان دار تھیں۔ انھیں ایک بینک نظر آیا تو فیونا انھیں چھوڑ کر اندر چلی گئی لیکن ذرا ہی دیر بعد پریشانی کے عالم میں واپس آ گئی۔ ’’انھوں نے مجھے کرنسی تبدیل کر کے نہیں دی، کہہ رہے ہیں کہ پاسپورٹ کے بغیر تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’تو کسی اور بینک میں کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ایک اور بینک تلاش کیا، فیونا اندر گئی اور کچھ دیر بعد چہرے پر مایوسی طاری کیے واپس آ گئی۔ ان دونوں کے چہرے بھی اتر گئے، لیکن فیونا اچانک چہک اٹھی: ’’پریشان مت ہو، اب کہ بار میں کامیاب ہو گئی ہوں، یہاں سیچلز روپے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں لیکن وہ اس وقت سمندر میں نہانے چلے گئے ہیں اور ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے میری بات سن کر کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘

    جب انھیں معلوم ہوا کہ بحر ہند کے مغربی حصے میں واقع سیچلز پر ایک سو پندرہ جزیرے ہیں تو انھیں حیرانی ہوئی، جلد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان میں سے زیادہ ایسے جزائر ہیں جو مونگے کی چٹانوں اور دیگر چیزوں سے بنے ہیں، یعنی اصل جزیرے نہیں ہیں۔ فیونا نے کہا کہ چلو اب کوئی ہوٹل دیکھتے ہیں، لیکن جبران نے کہا: ’’ہم ہر بار ہوٹل میں کمرہ ہی کیوں لیتے ہیں، ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ ہم ابھی سے موتی ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال اس بات پر اچھل پڑا: ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں جبران! اگر ہمیں ابھی فوراً موتی نہیں ملا اور ہمیں بہت دیر ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تم یہاں ساحل پر لمبی تان کر سو جاؤ گے؟‘‘

    دانیال درست کہہ رہا تھا، فیونا نے اس کی تائید کی اور کہا: ’’آئس لینڈ میں ہم نے کمرہ حاصل کیا تھا جو ہمارے بہت کام آیا تھا، ہائیڈرا میں نہیں لیا لیکن یہاں ہمیں کسی کمرے کی ضرورت ہے، میں نہانا بھی چاہتی ہوں، اور آرام کی بھی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔ اگر یہاں سو سے زائد جزیرے ہیں تو میں شرط لگا سکتی ہوں کہ موتی اس والے جزیرے پر تو بالکل نہیں ہے۔‘‘

    انھیں پیاس لگی تو وہ ہوٹل کی تلاش چھوڑ کر ایک کھلی کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے ویٹر کو لیموں کے شربت کا آرڈر دیا، تو وہ کچھ دیر میں شیشے کی ایک صراحی کے ساتھ آ گیا، جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں لیمو، مالٹے اور گلاب کے کٹے پتے تیر رہے تھے۔ جبران نے لیموں کے رس سے گھونٹ بھرا اور تعریف کی۔ انھیں شربت بہت مزے دار لگا۔ شربت پینے کے بعد انھوں نے میز پر بل رکھا اور ساتھ میں ٹپ بھی، اور پھر نکل کر ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی انھیں ہوٹل کا سائن بورڈ دکھائی دیا جس پر لکھا تھا: ’’سی سائیڈ فینٹیسی!‘‘

    (جاری ہے…)

  • بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جیزے اچھل کر بولا: ’’ارے یہ تو ایسی بو ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا، باہر چھت میں آگ لگی ہوئی تھی، وہ چلا کر بولا: ’’بالٹیوں میں پانی لاؤ، جلدی کرو۔‘‘

    فیونا، جبران اور دانیال باہر کی طرف دوڑے۔ جبران خوف زدہ ہو کر چیخا: ’’انکل اینگس کے گھر کو آگ لگ گئی ہے، باہر نکلو سب۔‘‘

    وہ تینوں گھر سے باہر نکل گئے تھے جب کہ اندر جمی، جیزے اور اینگس بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر آگ پر پھینکنے لگے، اور پھر کچھ ہی دیر میں آگ پھیلنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔ لیکن سیاہ پانی نے دیواروں کا ستیاناس کر دیا تھا۔ اینگس یہ دیکھ کر دکھی ہو گئے۔ ’’ان نشانات کو صاف کرنا تو ناممکن ہے، مجھے لازماً دوبارہ پینٹ کروانا پڑے گا۔‘‘

    تینوں واپس اندر آ گئے تھے، فیونا کا خیال تھا کہ آگ آتش دان سے لگی ہوگی، اس لیے اس نے آتے ہی پوچھا: ’’انکل، ہوا کیا ہے، آگ چھت تک کیسے پہنچی؟‘‘

    اینگس کی آنکھوں میں تشویش کے سائے دوڑنے لگے تھے، انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا: ’’میں یہاں ایک طویل عرصے سے رہتا آ رہا ہوں، ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جمی اور جیزے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے، آخر کار جمی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’جی ہاں، یہ وہی دشمن ہے، اب ہمیں مزید احتیاط کرنی ہوگی، اس گولے میں جتنے ہیرے آئیں گے، اتنی ہی پریشانیاں ہمارے ارد گرد بڑھیں گی۔‘‘

    وہ تینوں پریشان کھڑے تھے، اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن اتنا وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ تینوں بڑے وہ کچھ جانتے ہیں جو انھیں معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں دانیال نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا: ’’آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟‘‘

    اینگس اچانک ان کی طرف مڑے: ’’میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں تم سب کو کھل کر ساری بات بتا دوں۔‘‘ انھوں نے ایک طویل سانس لی اور پھر جمی اور جیزے سے مخاطب ہوئے: ’’براہِ مہربانی آپ دونوں یہاں صفائی کر دیں، میں ابھی آ کر آپ دونوں کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ تینوں بچوں کو اندر کمرے میں لے گئے اور بتانے لگے: ’’جمی، جیزے اور جونی وہ نہیں ہیں جو وہ بتاتے ہیں، لیکن پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤ گے۔‘‘

    تینوں نے وعدہ کر لیا تو اینگس نے کہا: ’’جمی کا اصل نام کوآن، جیزے کا پونڈ اور جونی کا کیتھور ہے، آلرائے کیتھمور…‘‘

    اتنا سنتے ہی تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ ’’یعنی کنگ کیگان کا مؤرخ، جس نے وہ قدیم کتاب لکھی؟‘‘ جبران کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اینگس نے مضبوط لہجے میں کہا: ’’جی ہاں ۔۔۔ آلرائے کیتھمور۔‘‘

    ’’نہیں یہ ناممکن ہے، وہ تو صدیوں پہلے کا انسان تھا۔ کوئی بھی شخص اتنی طویل عمر نہیں جی سکتا۔‘‘ جبران نے سر انکار میں ہلاتے ہوئے کہا اور باقی دونوں کی طرف تصدیق کے لیے دیکھا۔ فیونا اور دانیال نے بھی سر ہلا دیا۔

    اینگس نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا: ’’یاد کرو، میں نے تم سے کنگ کیگان کے جادوگر زرومنا کا ذکر کیا تھا، اس نے آلرائے کیتھمور پر ایک منتر پڑھا تھا۔ یعنی جب بھی، کسی بھی زمانے میں قدیم کتاب کھول لی جاتی ہے، وہ ٹائم پورٹل کے ذریعے سفر کرتے ہوئے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

    ’’اوہ …‘‘ تینوں کے منھ حیرت سے کھل گئے۔ دانیال کو ابھی یقین نہیں آ رہا تھا، وہ بولا: ’’آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جونی ماضی سے آیا ہے … ایک قدیم دور سے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ اینگس نے سنجیدگی سے جواب دیا: ’’جب کہ جمی یا کوآن وہ شخص ہے جس نے سیاہ آبسیڈین کو ہائیڈرا میں چھپایا اور وہاں پھندے لگائے۔ اسی طرح جیزے یا پونڈ نے مرجان کو آئس لینڈ میں چھپایا تھا۔ جب تم کوئی ہیرا حاصل کرتے ہو اور ہم اسے واپس جادوئی گولے میں رکھ دیتے ہیں تو یہ لوگ بھی ایک ایک کر کے اس دور میں چلے آتے ہیں۔ زرومنا کا منتر ان پر بھی ویسے ہی کام کرتا ہے جیسا کہ آلرائے کیتھمور پر کرتا ہے۔‘‘

    تینوں ششدر ہو کر یہ عجیب و غریب کہانی سن رہے تھے۔ اتنی عجیب و غریب کہانی انھوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اور یہ سب تو خود ان کے ساتھ ان کی زندگی میں حقیقتاً ہو رہا تھا۔ جبران بولا: ’’تو یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بچھو اور ہائیڈرا کی بلائیں تخلیق کیں؟‘‘
    دانیال بھی بول اٹھا: ’’اور انھوں نے وائیکنگز اور زلزلہ پیدا کیا تھا!‘‘

    (جاری ہے)

  • اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے اینگس کے دروازے پر دستک دی اور پھر صبر کرنے کی بجائے چلّا کر آواز دی: ’’انکل اینگس… دوازہ کھولیں!‘‘

    اینگس نے دروازہ کھولا تو حیرت سے فیونا کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بتایا کہ کوئی پھر گھر میں گھس آیا تھا۔ وہ اندر چلے گئے۔ فیونا نے ان کے استفسار پر واقعے کی تفصیل سنائی اور کہا: ’’اس مرتبہ اس نے تالے کھولنے کے لیے خاص قسم کے اوزار استعمال کیے، اور اس نے اسپرے پینٹ کا ڈبہ بھی بے پرواہی سے صحن میں پھینکا، اسے فنگر پرنٹس کا بھی خوف نہیں۔‘‘
    اینگس نے واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے کن پٹی سہلاتے ہوئے کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں اب بہتر ہوگا کہ تم اگلے ہیرے کے لیے سفر پر روانہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ یہ ہیرے جتنے جلد حاصل کیے جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی اور بولی: ’’انکل، آپ نے یہ بات جمی اور جیزے کے سامنے کیوں کی، یہ تو اس معاملے سے ناواقف ہیں!‘‘

    اینگس مسکرائے: ’’میری بچی، یہ تینوں بھائی اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں، اور ہم ان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔‘‘

    لیکن فیونا کی پریشانی کم نہ ہوئی، وہ ایک ٹک ان تین ’’بھائیوں‘‘ کی طرف دیکھنے لگی۔ جمی نے سنجیدگی سے کہا: ’’پریشان مت ہو فیونا، ہم یہاں آپ ہی کی مدد کرنے آئے ہیں۔ میں اور جیزے یہاں آپ کے انکل کے ساتھ رہیں گے اور جادوئی گولے کی حفاظت کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ دراصل گزشتہ دنوں کے دوران یہاں جو عجیب و غریب واقعات ہونے لگے ہیں، انھیں دیکھنے کے بعد ہم نے جادوئی گولے کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

    جبران اور دانیال ایسے میں خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ فیونا نے اپنے طور سے بات کو سمجھا تو ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ سارے بھائی ہماری بہت مدد کرتے ہیں۔‘‘

    وہ جبران اور دانیال سے مخاطب ہو کر بولی: ’’چلو … اب چلتے ہیں، نئی جگہ اگلا پتھر ہمارا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

    وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھے اور فیونا کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ فیونا ابھی منتر دہرانے ہی والی تھی کہ اسے دھوئیں کی بو محسوس ہوئی۔ دانیال نے حیرت سے کہا: ’’یہ کس چیز کی بو ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ناک اوپر کر کے ہوا میں سونگھنے لگا۔
    ۔۔۔
    ڈریٹن جب اینگس کے گھر کے قریب پہنچا تو چند لمحوں کے لیے رک گیا، پھر دبے قدموں پچھلی طرف کی کھڑکی کے پاس پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اندر جھانکنے لگا۔ اندر چھ افراد کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مکروہ قسم کی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس نے سوچا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ اینگس اکیلا ہو گا اور وہ آسانی سے اس کی گردن کی ہڈی توڑ دے گا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے پاس بھی دو طاقتیں ہیں … جادوئی طاقتیں!

    ’’تو کیوں نہ آگ والی پراسرار طاقت کو آزمایا جائے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ جادوگر پہلان نے اسے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ گولا چاہتا ہے تو یہاں کسی کو نقصان نہ پہنچائے لیکن اس نے پہلان کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا اور عین اس لمحے جب تینوں بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کچھ کرنے والے تھے، ان کے سروں پر موجود چھپر کے ایک کونے نے آگ پکڑ لی، اور ذرا سی دیر میں وہاں دھواں بھر گیا۔ وہ یہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’آہا، ان کے ساتھ تو یہی ہونا چاہیے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا اور جھاڑیوں کی طرف دوڑا اور وہیں چھپ کر اینگس کے گھر کو جلتا دیکھنے لگا۔

    (جاری ہے)

  • اَسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ڈریٹن کافی دیر سے ایلسے کے چھوٹے سے سرائے خانے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے غسل خانے میں گھسا ہوا تھا۔ وہ پینٹ سے لتھڑے ہاتھ دھو رہا تھا اور سارے غسل خانے کو گندا کر رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔

    ’’مائری کو دیواریں اور ساری چیزیں صارف کرتے ہوئے یقیناً خوب مزا آیا ہوگا، اور اب ایلسے کو بھی آئے گا۔ ویسے بھی لوگ اسے رقم دیتے ہیں تو یہ اسے صاف کرنا ہی ہوگا، ہاں بے چاری کو مجھ سے کچھ نہیں ملے گا۔ امید ہے کہ آج رات کے کھانے کے لیے اس نے کوئی زبردست قسم کی ڈش تیار کی ہوگی۔ اگر کوئی بے مزا چیز پکی ہو گی تو میں اس سرائے خانے کو نیا رنگ دے دوں گا۔‘‘

    ہاتھ دھو کر جب وہ نیچے اترا تو ایلسے کو کنٹربری سے آئے ہوئے ایک جوڑے کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ ایلسے کی نظر اس پر پڑی تو فوراً بول اٹھی: ’’ہیلو ڈریٹن… میں ذرا ان براؤنز صاحبان کو بتا رہی تھی کہ آج جو میں ٹی پارٹی میں گئی تھی، وہ کیسی رہی۔‘‘ ڈریٹن نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا: ’’رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایلسے نے گردن گھما کر بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا اور جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی: ’’میں براؤنز صاحبان کو یہ بتا رہی تھی کہ شاہانہ نے ایک شان دار پارٹی دی تھی مائری مک ایلسٹر کے اعزاز میں، لیکن کوئی شیطان اس کے گھر میں گھس گیا تھا اور بہت گندگی پھیلائی۔‘‘

    ڈریٹن نے چونکنے کے اداکاری کی: ’’اوہ، یہ تو بہت شرم کی بات ہے، میں ضرور مائری کے گھر جاؤں گا۔‘‘

    ایلسے نے بات جاری رکھی: ’’میں کیا بتاؤں، شاہانہ نے کتنی خوب صورت پارٹی دی تھی۔ میز پوش اتنے حسین تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شاید وہ پاکستان سے لائی ہیں۔ فنگر سینڈوچ، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، کیک، چائے اور جانے کیا کچھ تھا، بہت مزا آیا۔‘‘

    ڈریٹن دل ہی دل میں تلملا رہا تھا، غصّے کو دباتے ہوئے بولا: ’’اگر آپ کہہ رہی ہیں تو واقعی بہت اچھی پارٹی رہی ہو گی، لیکن رات کے لیے یہاں کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایک بار پھر وہ مطلب کی بات پر آ گیا تھا لیکن ایلسے نے اسے پھر گھورا اور لمبی سانس لے کر کہا: ’’تم بہت اکھڑ مزاج ہو … بہرحال رات کے کھانے میں پودینے کی چٹنی کے ساتھ بھنی ہوئی بھیڑ، آلو کا بھرتا، مٹر اور ڈبل روٹی اور اس کے بعد پنیر کا کیک ہوگا۔ تمھیں تو یہ پسند ہوں گے نا ڈریٹن؟‘‘ کہتے کہتے آخر میں ایلسے نے برا سا منھ بنا لیا۔

    ڈریٹن خوش ہو کر بولا: ’’اوہو … زبردست … میرے خیال میں پہلے میں باہر کا ایک چکر ضرور لگا آؤں تاکہ بھوک خوب بڑھ جائے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے براؤنز فیملی کی جانب دیکھا اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا: ’’آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس نے برطانوی جوڑے کا جواب سننے کا انتظار بھی گوارا نہیں کیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے دانت کچکچائے: ’’ہونہہ … احمق انگریز … دیکھ لوں گا رات کو ان سے بھی۔ ابھی پہلے تو مجھے قلعہ آذر جانا ہے تاکہ وہ زیلیا کا عظیم جادوگر، عزت مآب پہلان مجھ پر پھر خفا نہ ہو۔‘‘ ڈریٹن نے قہقہہ لگایا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔ درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جب وہ جھیل پہنچا تو اسے مخصوص مقام پر کشتی نظر نہیں آئی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے آس پاس تلاش کیا لیکن کشتی نہیں ملی۔ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب قلعے سے کیسے پہنچے۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں تیر کر جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک پتھر اٹھایا اور غصے سے جھیل میں پھینک دیا۔ اسی عالم میں وہ حسب عادت بڑبڑانے لگا: ’’پہلان سوچے گا کہ میں کہاں مر گیا ہوں۔ ٹھیک ہے، تو پھر میں اس اینگس کے بچے کی گردن ناپوں گا۔‘‘

    وہ غصے سے پھنکارتا ہوا اینگس کے گھر کی جانب چل پڑا۔

    (جاری ہے…)

  • ستتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے فیونا، یہ دیکھو، دروازے میں یہ دعوت نامہ پڑا ملا۔‘‘ مائری بولیں، فیونا اس وقت ناشتہ کر رہی تھی، اس نے پوچھ لیا کہ کیسا دعوت نامہ۔ مائری نے کہا: ’’یہ تو جبران کی امی شاہانہ کی طرف سے ہے، انھوں نے ہمارے اعزاز میں ٹی پارٹی دی ہے دوپہر کو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر بولنے لگیں: ’’اسکول میں ویسے بھی ہاف ڈے ہے، واپسی پر دیر مت کرنا، میں تمھارے بہترین کپڑے نکال کر رکھ دوں گی، میں بھی کام سے جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
    فیونا نے ناشتہ مکمل کر لیا تو کتابیں بیگ میں ڈال کر اسکول کے لیے چل دی۔
    ۔۔۔۔

    دوسری طرف جب جونی جبران کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کے والد بلال گھر سے نکل چکے تھے، شاہانہ نے کہا کہ آج جونی برادرز کو تھوڑا سا وقت کہیں اور بِتانا پڑے گا کیوں کہ یہ خواتین کی پارٹی ہے۔

    جونی وہاں سے اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، جب کہ شاہانہ کافی دیر تک کھانے کی چیزیں تیار کرتی رہیں۔ گوٹا کناری والے میز پوش نکال کر گول میزوں پر بچھائے اور باغیچے سے تازہ پھول توڑ کر گل دانوں میں سجائے اور پھر باقی انتظامات کرنے لگ گئیں۔
    ۔۔۔۔

    اسکول سے واپسی پر فیونا نے اپنا پسندیدہ، سفید رنگ کا لباس پہنا، جس پر بینگنی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھے گئے تھے، اور گلے اور کناروں پر زیتون کے سبز پتے بنے ہوئے تھے۔ فیونا کو بستر پر سفید دستانے اور ایک ٹوپی بھی دکھائی دی، وہ فوراً بولی: ’’اوہ ممی، میں ہیٹ نہیں پہنوں گی۔‘‘

    مائری نے آنکھیں گھما کر کہا: ’’فیونا… سمجھا کرو… یہ ٹی پارٹی ہے۔ دستانے اور ہیٹ پہن لو، میں بھی تو پہن رہی ہوں۔‘‘

    فیونا نے ہیٹ اٹھا کر سر پر رکھا اور آئینے میں خود کو دیکھا، پھر منھ بنا کر بولی: ’’دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے، احمق لگ رہی ہوں۔‘‘
    ۔۔۔۔

    جونی اینگس کے گھر پہنچا تو وہاں جمی اور جیزے پہلے ہی سے موجود تھے۔ اینگس بولے: ’’آپ کے بھائیوں نے مجھے آپ کی جنم بھومی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ جونی چونکا: ’’اوہ، تو آپ سب جان گئے ہیں، اچھی بات ہے، لیکن میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا، مائری کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘ اینگس نے کہا کیا آپ قدیم کتاب دیکھنا چاہیں گے اور یہ کہہ کر انھوں نے دراز سے کتاب نکال لی۔ ’’یہ رہی وہ کتاب جو صدیوں پہلے آپ ہی نے لکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کو پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔‘‘

    جونی نے کتاب ہاتھوں میں جیسے ہی لی، اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس کا چہرہ جوش اور مسرت سے تمتمانے لگا تھا، اور بولتے وقت آواز بھی جذبات سے لرزنے لگی: ’’یہ … یہ … میری کتاب … اوہ … یہ آج بھی سلامت ہے … اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی… حیرت انگیز!‘‘

    وہ کتاب لے کر جلدی سے بیٹھ گیا اور ایک ایک ورق الٹ کر دیکھنے لگا۔ ’’مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اسے لکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو۔‘‘ وہ صدیوں پرانی یادوں میں کھو گیا تھا کہ اچانک اسے اینگس کی آواز نے چونکایا۔

    ’’آپ نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کتاب کا ایک حصہ آپ نے فونیزی اور عربی زبانوں میں لکھا ہے اور پھر اسکاٹ لینڈ آمد کے بعد گیلک میں لکھنے لگے، یہ ایک ملغوبا بن گیا ہے۔‘‘

    جونی یعنی آلرائے کیتھمور مسکرا دیا اور بولا: ’’میں دراصل بہت تیزی سے زبانیں سیکھنے لگتا ہوں۔ ہمارا ایک ملازم ایک مقامی دیہاتی تھا جس کا نام بروس تھا۔ جب وہ اپنا کام ختم کرتا تھا تو میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ جاتا اور پھر اس سے میں گیلک زبان سیکھتا۔ وہ بہت شان دار آدمی تھا، مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔‘‘

    باقی لوگوں نے اسے قدیم کتاب اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا اور اینگس کے ساتھ باہر نکل کر ایک قدیم شاہ بلوط کی شاخوں کے نیچے کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔

    (جاری ہے…)

  • تہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے جواب دیا: ’’شہزادی ازابیلا نے رابرٹ کے بھائی کولن سے شادی کی تھی۔‘‘
    چوں کہ ساری کہانی اب واضح ہو گئی تھی اس لیے اینگس نے کہا: ’’اب باقی ہیروں کا کیا بنے گا؟ اب تو آپ یہیں پر ہیں تو خود جا کر انھیں کیوں حاصل نہیں کر لیتے۔ بچوں پر سے اتنی بھاری اور خطرناک ذمہ داری کا بار ہٹ جائے گا۔‘‘

    ’’بات دراصل یہ ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’صرف فیونا ہی یہ ہیرے جمع کر سکتی ہے۔ مائری بھی اگر ضرورت پڑی تو مدد کر سکتی ہیں اور یہ بھی بچوں پر ہے۔ فیونا ہماری واحد امید ہے۔ جب تک جادوئی گولا مکمل نہیں ہوتا تب تک ہم خود کو پہلان اور دوگان کے حملوں سے نہیں بچا سکتے۔ وقت آئے گا تو آلرائے کو ایک منتر آتا ہے، اس کے ذریعے وہ انھیں علاقے سے دور رکھ سکتا ہے۔ بس اسی لیے فیونا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ وہ جتنی جلدی یہ ہیرے حاصل کرتی ہے، ہم اتنا ہی زیادہ محفوظ ہوتے جائیں گے۔‘‘

    اینگس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ جمی نے جیزے کو مخاطب کیا: ’’پونڈ! میں بلال کے ہاں جا رہا ہوں، تم یہاں ہوشیار رہنا۔ مجھے یقین تو نہیں ہے کہ وہ آج رات دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کرے گا، لیکن کسی بھی غیر معمولی واقعے کے لیے تیار رہنا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دوسری طرف مائری، فیونا اور جونی مل کر گھر کی صفائی کر رہے تھے۔ فیونا نے کچن کی دیوار رگڑتے ہوئے کہا: ’’ممی، کیا آپ جانتی ہیں کہ جونی کے بہت سارے بھائی ہیں؟‘‘
    ’’ہاں، جیزے کی آمد سے پہلے معلوم نہیں تھا، اس کے آنے کے بعد جونی نے بتایا کہ اس کے بارہ بھائی ہیں۔‘‘

    ’’ممی، کیا آپ نے غور کیا، ان کے نام ’ج‘ سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘ فیونا مڑ کر بولی: ’’کتنا عجیب ہے نا!‘‘

    مائری نے باورچی خانے سے نکل کر کمرے کا جائزہ لیا اور لمبی سانس لی: ’’اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ کسی نے ہمارے گھر میں گھس کر سب کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ہاں یہ تو ہے، اور پتا ہے ممی، جس شخص نے ہمارے گھر کے ساتھ یہ کیا، وہ آج رات انکل اینگس کے گھر میں بھی گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘

    مائری چونک اٹھیں: ’’کیا… لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ وہی تھا۔‘‘

    فیونا نے جلدی سے کہا: ’’دراصل انکل اینگس، جمی اور جیزے کا رویہ عجیب تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہاں کوئی جنگلی جانور ہے لیکن مجھے یقین ہے یہ وہی برا آدمی تھا، جس کا ارادہ تھا کہ وہاں سے …..‘‘

    فیونا کہتے کہتے ایک دم رک گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کی ممی کو ابھی تک جادوئی گولے اور اس سے جڑے واقعات کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

    مائری نے پوچھا: ’’کیا ارادہ تھا، کیوں چپ ہو گئی ہو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ممی، چھوڑیں اس بات کو، میں بہت تھک گئی ہوں اب، جا کر لیٹتی ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

    (جاری ہے)

  • ستّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    جمی نے فیونا کو بہلانے کی کامیاب کوشش کی، اور کہا کہ وہ اینگس کے ساتھ مل کر اُس چیز کو پکڑنے کے لیے ایک پھندا لگائیں گے، بس اتنی سی بات ہے اس لیے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ پھر وہ تینوں جیزے کے ساتھ نکل گئے۔ بچوں کے جانے کے بعد اینگس نے جمی سے پوچھا: ’’کیا وہ بھاگ گیا ہے؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’ہاں، میں نے اسے اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔‘‘

    وہ دونوں اندر چلے گئے تو جمی نے کہا: ’’جیسا کہ تم اب جادوئی گولے اور اس کے تمام رازوں سے آشنا ہو گئے ہو، اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کو اپنی اصلیت کے بارے میں بتا ہی دوں۔‘‘

    اینگس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے بتاؤ، تمھارے پاس کیا راز ہے؟‘‘

    جمی بھی ایک کونے میں پڑے صوفے پر دھم سے بیٹھ گیا: ’’جونی کا نام آپ نے سنا ہوگا، وہ دراصل آلرائے کیتھمور ہے۔‘‘ جمی نے بتانا شروع کر دیا۔ اینگس کو حیرت کا اتنا زور دار جھٹکا لگا کہ وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے۔ ’’آلرائے کیتھمور … یعنی تاریخ نویس … یہ کک … کیسے ممکن ہے … میرے پاس تو اس کی قدیم کتاب ہے۔‘‘

    ’’ہاں میں جانتا ہوں کہ تمھارے ہی پاس ہے وہ اور جادوئی گولا بھی تمھارے قبضے میں ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’قصہ یہ ہے کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا جادوگروں کی سرزمین زیلیا لوٹ رہا تھا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا طریقہ بتا دے۔ جب بھی یہ کتاب کھولی جاتی ہے آلرائے اپنے زمانے سے مستقبل میں چلا جاتا ہے۔ یہ کسی کو نہیں پتا لیکن یہ کتاب خود جادوئی ہے۔ فلسطین میں جب کنگ کیگان کہیں بھی دکھائی نہیں دیے تو ہم برسوں تک وہاں حیران و پریشاں گھومتے رہے۔ وہ جونی یونی آلرائے کیتھمور ہی تھا جس نے ان بارہ آدمیوں کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم سب مختلف راہوں پر نکل گئے۔ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا جو راز ہے، اس کا مستقبل والا حصہ اس وقت قلعہ آذر ہی میں ہے۔ اسی کے ذریعے ہم آج یہاں موجود ہیں۔ پہلی مرتبہ جب بچوں نے وہ کتاب ڈھونڈ نکالی اور اسے کھولا تو جونی وہاں پہنچ گیا، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ وہیں قلعہ آذر ہی میں ٹھہرا رہا اور دیکھتا رہا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ جب اگلے دن بچے پھر قلعے میں آئے اور انھوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا تو جونی پھر بھی وہیں رہا۔ تب اس نے فیونا کے بارے میں جانا۔ پھر جب جادوئی گولے میں پہلا قیمتی پتھر رکھا گیا تو میری واپسی ہوئی۔‘‘

    جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’میرا نام کووان ہے، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سیاہ آبسیڈین ہائیڈرا میں چھپایا تھا۔ جونی یعنی آلرائے نے ایک بس میں چڑھ کر فیونا کی ماں مائری کے ساتھ ایک اتفاقی ملاقات کا ڈراما رچایا اور پھر یہیں سے کہانی شروع ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ جلد ہی میں بھی اب نمودار ہو جاؤں گا۔ پتھر حاصل کرنے کے لیے فیونا نے بلاشبہ بہت بہادری دکھائی۔ جس طرح اس نے پھندوں پر قابو پایا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ میرے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ کوئی اس اینٹ سے قیمتی پتھر نکال بھی سکتا ہے۔ وہ پھندے تیار کرنے کے لیے میں نے اور جادوگر زرومنا نے بہت سخت محنت کی تھی۔ ان سے بچ نکلنا بلاشبہ فیونا اور اس کے دوستوں کا ایک کارنامہ ہے، یقین جانو، مجھے فیونا اور اس کے دوستوں پر فخر محسوس ہوا۔ پھر جب آئس لینڈ میں بچوں نے دوسرے پتھر مرجان کو بھی حاصل کر لیا تو پونڈ، میرا مطلب ہے کہ جیزے بھی اس زمانے میں پہنچ گیا۔ جیسے جیسے فیونا اور اس کے ساتھی باقی ہیروں کو ڈھونڈ نکالتے جائیں گے، ہم بارہ ایک ایک کر کے نمودار ہوتے جائیں گے۔ لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو پھندے تخلیق کیے ہیں وہ نہایت ہی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘

    جمی پوری کہانی سنا کر خاموش ہو گیا تو اینگس نے اپنے سینے میں کافی دیر سے قید سانس کو ایک دم سے آزاد کر دیا۔ اینگس نے کافی طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’تو یہ ہے تمھاری داستان … ہووں … کافی دل چسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لیکن تم سب یہاں پہنچے کیسے؟ اور اُس وقت کیا ہوگا جب بارہ کے بارہ ہیرے جادوئی گولے میں نصب کر دیے جائیں گے؟‘‘

    اینگس نے یہ کہہ کر ایک چاکلیٹ اٹھا کر اسے توڑا، آدھا جمی کو دیا اور آدھا خود کھانے لگا۔ جمی نے چاکلیٹ منھ میں رکھتے ہوئے جواب دیا: ’’ہم بھی جونی کی طرح اسی ٹائم پورٹل کے ذریعے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں سفر کرتے ہیں۔ جب ہم ہیرے چھپانے جا رہے تھے تو جادوگر زرومنا نے ہمیں ٹائم پورٹل کو استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ ہاں جب سارے ہیرے جمع ہو جائیں گے تو آلرائے اور ہم بارہ اسے لے کر فلسطین جائیں گے، جیسا کہ صدیوں پہلے کنگ کیگان نے ہمیں حکم دیا تھا۔ جب جادوئی گولا مکمل ہو جائے گا اور کنگ کیگان اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے تو ان کا خاندان ایک بار پھر ان سے آن ملے گا۔ اگرچہ وہ مر چکے ہیں لیکن ان کی موت سے چند ہی دن قبل جادوگر زرومنا نے انھیں ٹائم پورٹل دے دیا تھا۔ زرومنا نے کچھ ایسا انتظام کیا تھا کہ جیسے ہی آخری پتھر جادوئی گولے میں نصب ہوگا، وقت کنگ کیگان اور اس کے خاندان کے لیے پیچھے چلا جائے گا، اور وہ واپس اسی زمانے میں پہنچ جائیں گے جب انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ دراصل انھیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔ زرومنا بھی ایک بار پھر جادوئی سرزمین زیلیا سے نکل کر اپنے آقا کی خدمت میں پہنچ جائے گا، اور اس کے بعد جادوئی گولا اس کی اصل سرزمین پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

    جمی نے بات مکمل کر دی تو اینگس نے حیرت سے پوچھا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ گولا یمن پہنچایا جائے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • پمپیائی کا کتّا

    پمپیائی کا کتّا

    آج سے دو ہزار سال پہلے پمپیائی سلطنت روم کا ایک نہایت خوبصورت شہر تھا۔ اس شہر کے باہر ایک آتش فشاں پہاڑ تھا جسے ویسوَیس کہتے تھے۔ پمپیائی کے باشندے بڑے عیّاش اور بد کار لوگ تھے۔ اُن میں نیکی اور خدا ترسی نام کو یہ تھی۔ طاقت ور کم زوروں کو بے گناہ مار ڈالتے۔ ساہوکار اور مال دار غریبوں کا خون چوستے اور اس طرح اُنہوں نے اپنے گھروں میں بے شمار سونا چاندی جمع کر لیا تھا۔

    آخر جب ان لوگوں کے گناہ حد سے زیادہ ہو گئے تو اُن پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔ ایک روز آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا اور اُس میں سے پگھلتا ہوا سرخ لاوا پانی کی طرح بہہ نکلا۔ پمپیائی پر آگ کے شعلوں کی بارش ہوئی اور سارا شہر ایک خوف ناک زلزلے سے تھوڑی ہی دیر میں خاک کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ یہ کہانی جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اِسی پمپیائی سے تعلّق رکھتی ہے۔

    ٹیٹو اور اُس کا کُتّا بمبو، شہر کی فصیل کے باہر رہا کرتے تھے۔ قریب ہی بڑا دروازہ تھا، جس کے راستے باہر کے لوگ شہر میں جاتے تھے۔ ٹیٹو اور بمبو یہاں سونے کے لیے آتے تھے۔ اُن کا یہاں گھر نہ تھا۔۔۔ اُن کا گھر تو کہیں بھی نہ تھا۔ وہ جہاں چاہتے، چلے جاتے اور جس جگہ جی چاہتا سو جاتے۔ شہر میں ہر وقت دھماچوکڑی مچی رہتی تھی۔ میدانوں میں مختلف کھیل تماشے ہوتے رہتے۔ اسٹیڈیم میں جنگی کھیل دکھائے جاتے۔ غلاموں کی آپس میں لڑائیاں کرائی جاتیں اور کبھی کبھی بھُوکے شیروں سے بھی لڑوایا جاتا۔

    سال میں ایک مرتبہ روم کا بادشاہ پمپیائی آیا کرتا تھا۔ اس کی آمد پر شہر میں کئی روز تک خوشیاں منائی جاتیں اور خوب جشن ہوتے لیکن بے چارہ ٹیٹو ان کھیل تماشوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اندھا تھا۔ شہر کے کسی باسی کو معلوم نہ تھا کہ اُس کے ماں باپ کون تھے؟ اس کی عمر کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس بھری دنیا میں اُس کا ہمدرد اور غم خوار صرف بمبو تھا اور وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ لیکن دن میں تین مرتبہ ایسا ہوتا کہ وہ اپنے دوست کو کسی محفوظ جگہ چھوڑ کر چلا جاتا اور تھوڑی دیر بعد منہ میں روٹی یا گوشت کا ٹکڑا دبائے واپس آ جاتا۔ پھر دونوں مِل بانٹ کر کھا لیتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔

    کُتّے کی بدولت ٹیٹو کو دِن میں تین وقت کھانا مِل جایا کرتا تھا اور کبھی فاقے کی نوبت نہیں آئی تھی لیکن اِس کے باوجود وہ ہر وقت اُداس سا رہتا تھا۔ وہ پمپیائی کی گلیوں میں بچّوں کو بھاگتے دوڑتے ہوئے سُنتا، کبھی وہ آنکھ مچولی کھیلتے اور کبھی چور اور بادشاہ کا کھیل۔ اُن کے اچھلنے کودنے کی آوازیں ٹیٹو کے کانوں میں پہنچتیں تو اُس کا دل چاہتا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ کھیلے لیکن وہ ایسا نہ کر سکتا تھا۔ وہ تو ایک بے سہارا، غریب اور اندھا لڑکا تھا اور سوائے ایک کتّے کے اُس کا کوئی دوست نہ تھا۔ خدا نے اگرچہ اُسے آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دیا تھا لیکن سننے، سونگھنے اور چُھو کر محسوس کرنے کی قوّتیں دگنی دے دی تھیں۔ وہ انہی قوّتوں کی بدولت ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی واقف ہو جاتا جو دوسرے لوگ آنکھیں رکھنے کے باوجود معلوم نہ کر سکتے تھے۔

    جب دونوں دوست شہر کی سیر کے لیے نکلتے تو ٹیٹو ارد گرد کی آوازیں سن کر صحیح اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

    پمپیائی کی اکثر عمارتیں بالکل نئی تھیں کیونکہ بارہ سال پہلے یہاں ایک زلزلہ آیا تھا جس سے بہت سی عمارتیں گِر گئی تھیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد لوگوں نے سارا شہر گِرا کر اُسے دوبارہ تعمیر کیا جو پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت شہر بن گیا اور نیپلز اور روم جیسے عالی شان شہروں کا مقابلہ کرنے لگا۔

    پمپیائی کے کسی باشندے کو معلوم نہ تھا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے۔ ملّاح کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کا سبب یہ ہے کہ شہر کے لوگ ملّاحوں کی عزّت نہیں کرتے۔ ملّاح سمندر پار سے اُن کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتے ہیں اور سمندری ڈاکوؤں سے بھی اُن کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مندروں کے پُجاری کہا کرتے تھے کہ زلزلہ آنے کی وجہ آسمانی دیوتاؤں کی ناراضگی ہے کیونکہ لوگوں نے عیش و عشرت میں پڑ کر عبادت کرنی چھوڑ دی ہے اور وہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں بھی نہیں کرتے۔

    شہر کے تاجر کہتے تھے کہ باہر سے آنے والے تاجروں کی بے ایمانیوں نے شہر کی زمین کو ناپاک کر دیا ہے اور اِسی لعنت کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے۔ غرض، جتنے مُنہ، اتنی باتیں۔ ہر شخص اپنی بات زور زور سے کہتا اور اُسے منوانے کی بھی کوشش کرتا۔

    اُس روز بھی دوپہر کو جب ٹیٹو اور بمبو بڑے چوک میں سے گزر رہے تھے، شہر کے لوگ اِسی قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ چوک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی تھی۔ لیکن ٹیٹو کے کان بڑے تیز تھے۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ دو آدمی آپس میں بحث کر رہے تھے اور اُن کے گرد بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ اُن میں سے ایک کی آواز بھاری تھی اور دوسرے کی ہلکی مگر تیز۔ بھاری آواز والا کہہ رہا تھا ’’میں کہتا ہوں اب یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔ تُم نے سُنا نہیں کہ آسمانی بجلی کی طرح زلزلہ بھی جہاں ایک بار آ جائے، دوبارہ نہیں آیا کرتا۔‘‘

    ’’تمہارا خیال غلط ہے۔‘‘ ہلکی آواز والے نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم نہیں کہ پندرہ برس کے اندر سسلی میں دو مرتبہ زلزلہ آیا تھا؟ بھلا بتاؤ تو ویسوَیس پہاڑ دھواں کیوں اُگلتا رہتا ہے؟ کیا اس کا کوئی مطلب نہیں؟‘‘

    یہ سُن کر بھاری آواز والا آدمی قہقہہ مار کر ہنس پڑا اور بولا۔ ’’ارے بھائی! یہ دھواں تو ہمیشہ سے نکلتا ہے اور سچ پُوچھو تو یہ دھواں ہمارے لیے ہے بھی بڑا مفید۔ ہم اس سے موسم اور ہوا کا رُخ پہچان لیتے ہیں۔ اگر دھواں سیدھا آسمان کی طرف جائے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ موسم صاف رہے گا اور جب اِدھر اُدھر پھیلنے لگے تو اِس مطلب ہوتا ہے کہ آج کُہر پڑے گی۔ اگر دھواں مشرق کی طرف۔۔۔‘‘

    ’’اچھّا۔ اچھّا۔ بس کرو۔ میں سمجھ گیا جو تم کہنا چاہتے ہو۔‘‘ ہلکی آواز والے نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ہمارے یہاں ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو لوگ انسان کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے انہیں دیوتا سبق دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میں تمہیں ایک تنبیہ ضرور کرتا ہوں کہ جب آتش فشاں پہاڑ کا دھواں آسمان پر گھنے درخت کی صورت اختیار کر لے تو اُس وقت تم لوگ اپنی جان بچانے کی فکر کرنا! یہ کہہ کر وُہ چلا گیا۔

    ٹیٹو اُن کی یہ گفتگو سُن کر بُہت حیران ہوا۔ بمبو کتّے کا بھی یہی حال تھا۔ وہ اپنی گردن، ایک طرف جھکائے کچھ سوچ رہا تھا۔ لیکن رات ہوتے ہوتے لوگ یہ باتیں بھول بھال گئے اور اس جشن میں شامل ہو گئے جو روم کے بادشاہ سیزر کی سالگرہ کی خوشی میں منایا جا رہا تھا۔

    دوسرے دِن صبح کو بمبو ایک بیکری سے دو میٹھے کیک چرا کر لایا۔ ٹیٹو ابھی تک سو رہا تھا۔ بمبو نے زور زور سے بھونک کر اسے جگایا۔ ٹیٹو نے ناشتا کیا اور پھر سو گیا، کیونکہ رات کو بہت دیر سے سویا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد بمبو نے اُسے پھر اٹھا دیا۔ ٹیٹو نے اٹھ کر جمائی لی تو ایسا لگا جیسے فضا بہت گرم ہے۔ اسے ایک گہری دھند چاروں طرف پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی جو سانس کے ذریعے اُس کے پھیپھڑوں میں جا رہی تھی۔ وہ کھانسنے لگا اور سمندر کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے کے لیے وہاں سے اٹھا لیکن تھوڑی ہی دور جا کر اسے محسوس ہوا کہ ہوا بے حد گرم اور زہریلی ہے۔ اُس کی ناک میں عجیب سی بُو آ رہی تھی۔ بمبو اُس کی قمیص پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ لیکن کہاں؟ ٹیٹو یہ نہ سمجھ سکا۔ گرم ہَوا کے جھونکے بار بار اُس کے چہرے سے ٹکراتے تھے۔ اُس نے محسوس کیا کہ یہ ہوا نہیں بلکہ گرم راکھ ہے جو بارش کی طرح چاروں طرف برس رہی ہے۔ یہ راکھ اتنی گرم تھی کہ ٹیٹو کے بدن کی کھال جلی جا رہی تھی۔

    اچانک اُس کے کانوں میں عجیب طرح کی ڈراؤنی آوازیں آنے لگیں۔ جیسے ہزار ہا وحشی درندے زمین کے نیچے دبے ہوئے چلّا رہے ہوں۔ پھر بہت سے لوگوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ اب زمین درخت کے پتّے کی طرح کانپ رہی تھی اور گرج دار آوازوں سے کلیجا بیٹھا جاتا تھا۔ وہ دونوں بے تحاشا ایک طرف کو بھاگنے لگے۔

    شہر کی طرف سے آنے والی آوازیں اور ڈراؤنی ہو گئی تھیں۔ پہاڑ گرج رہا تھا، زمین ہل رہی تھی، عمارتیں دھڑا دھڑ گِر رہی تھیں اور لوگ پتّھروں کے تلے دبے چیخیں مار رہے تھے۔ جو بچ گئے تھے وہ بے تحاشا سمندر کی طرف بھاگ رہے تھے تا کہ کشتیوں میں بیٹھ کر کِسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں۔

    ٹیٹو اور بمبو بھی ایک طرف کو بھاگے جا رہے تھے۔ ٹیٹو زخموں سے نڈھال ہو چکا تھا۔ آگ کے شعلوں اور راکھ سے اُس کا سارا بدن جھلس گیا تھا۔ بمبو نے منہ میں اُس کی قمیص کا دامن پکڑ رکھا تھا اور اُسے اپنے ساتھ گھسٹتے لیے جا رہا تھا۔ آخر وہ اُسے لوگوں کے ہجوم سے بچاتا ایک محفوظ جگہ پر لے گیا اور یہاں وہ دونوں پتھروں کی آڑ میں بیٹھ گئے۔

    دوپہر ہو گئی۔ تکلیف، بھوک اور پیاس کے مارے ٹیٹو کا بہت بُرا حال تھا۔ اس نے بمبو کو پُکارا: ’’بمبو۔۔۔ بمبو۔۔۔!‘‘ لیکن بمبو وہاں نہیں تھا۔ اتنے میں ایک آدمی بھاگتا ہوا ٹیٹو کے پاس سے گزرا۔ اُس نے اندھے لڑکے کو اِس حال میں دیکھا تو اُسے جھپٹ کر گود میں اُٹھا لیا اور ایک کشتی میں جا کر بٹھا دیا۔ ملّاحوں نے پوری قوّت سے چپّو چلانے شروع کر دیے۔ ٹیٹو برابر اپنے کّتے کو آوازیں دیے جا رہا تھا۔ ’’بمبو!۔۔۔ بمبو!۔۔۔ میرے دوست! تم کہاں ہو؟‘‘ آخر روتے روتے اُس کی ہچکی بندھ گئی اور وہ نڈھال ہو کر کشتی میں لیٹ گیا۔

    اٹھارہ سو سال بعد۔۔۔ سائنس دانوں کی ایک جماعت پمپیائی کا سراغ لگانے کے لیے اس جگہ پہنچی جہاں صدیوں سے یہ شہر مٹّی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ مزدوروں نے زمین کھودی تو اُس کے نیچے سے کھنڈر نکلے۔ سارا شہر برباد ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے محل اور عالی شان عمارتیں خاک کا ڈھیر ہو چکی تھیں۔ بازاروں میں قیمتی چیزیں اور سونے چاندی کے زیورات بھرے پڑے تھے۔ انسانوں کے ہزاروں ڈھانچے بھی نظر آئے۔ ایک روز کھدائی کے دوران ایک عجیب چیز بر آمد ہوئی۔ یہ ایک کتّے کا ڈھانچا تھا۔

    ایک شخص حیرت سے بولا۔ ’’ارے! اس کتّے کے منہ میں کیا چیز ہے؟‘‘ اور پھر غور سے دیکھا گیا تو وہ ایک روٹی کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔

    سائنس دانوں نے کہا۔ ’’یہاں ایک نانبائی کی دکان تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کُتا زلزلے کے وقت روٹی چرانے نکلا تھا مگر بے چارہ دب کر مر گیا۔‘‘

    کاش انہیں معلوم ہوتا کہ بے چارہ بمبو کس کے لیے روٹی چرانے گیا تھا!

    (از مقبول جہانگیر)