Tag: اردو ناول

  • سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    جبران کی ماں شاہانہ کچن میں صفائی میں مصروف تھیں کہ دروازے پر دستک سنائی دی۔ شاہانہ نے بلال کو آواز دی۔ ’’آپ ذرا باہر جا کر دیکھیں، کون ہے؟‘‘
    انھیں تقریب سے آئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی، آتے ہی وہ دونوں مختلف کاموں میں لگ گئے تھے۔ جبران کے والد بلال اس وقت آتش دان بھڑکا رہے تھے۔ عرفان اور سوسن پانی کے ٹب میں چھپا کے مار مار کر ہنس رہے تھے۔ وہاں سے مہمان خانہ نظر آرہا تھا جہاں اس وقت جمی صوفے پر ٹانگیں پھیلائے اونگھ رہا تھا۔ بلال نے جمی کو مخاطب کیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں۔ ’’جمی، اگر برا نہ مناؤ تو ذرا دروازے پر جا کر دیکھ لیں، کون ہے؟ میرے ہاتھ کوئلے میں سیاہ ہو رہے ہیں۔‘‘

    ’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘ جمی نے کہا اور جا کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’پونڈ … تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    آنے والا ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجا کر بولا: ’’کووان! تم مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہوئے ہو؟ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے بھی آخر کار تم لوگوں سے ملنا ہی تھا، جیسا کہ دیگر لوگ یہاں آچکے ہیں… ارے ہاں آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی نے اسے جواب دینے کی بجائے اندر کی طرف مڑ کر بلند آواز میں کہا: ’’بلال … میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا اور پونڈ کو بازو سے پکڑ کر باغیچے کی طرف لے گیا۔ ’’بے وقوف، تم ایسے کیوں چلے آئے۔ میں بلال سے تمھارے بارے میں کیا کہوں گا؟‘‘ لیکن پونڈ نے اس کی بات نظر انداز کر کے باغیچے میں گھاس پر بیٹھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پوچھا: ’’یہاں ہو کیا رہا ہے کووان؟ آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی بولا: ’’پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لو کہ میں یہاں جمی اور آلروئے جونی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ میں اتنا جان گیا ہوں کہ ہیرے ایک ایک کر کے جمع ہو رہے ہیں اور جادوئی گیند میں رکھے جا رہے ہیں۔ اب تک صرف دو ہی ملے ہیں۔ ایک میرا یعنی سیاہ آبسیڈین اور ایک تمھارا یعنی مرجان۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ باقی ہیروں کو جمع ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا اب۔ پھر باقی لوگ بھی سامنے آ جائیں گے۔‘‘

    ’’تو آخرکار یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘ پونڈ نے لمبی سانس لے کر کہا: ’’ہیرے کون جمع کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ کنگ کیگان کا کوئی وارث ہوگا۔‘‘

    جمی یعنی کووان کہنے لگا: ’’ایک لڑکی ہے، جس کا نام فیونا مک ایلسٹر ہے، اور وہ کنگ کیگان کی وارث ہے۔ ایک بار جب ہم بارہ اکھٹے ہو جائیں گے اور بارہ ہیرے جادوئی گولے میں پہنچ جائیں گے، تب ہی ہم اس قابل ہوں گے کہ اپنے شروع کیے ہوئے کام کو انجام تک پہنچا سکیں۔‘‘

    پونڈ حیرت سے بولا: ’’ایک لڑکی یہ سب کچھ کر رہی ہے … کتنی عمر ہے اس کی؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’اس کی عمر گیارہ سال ہے لیکن ہے بہت ذہین اور بہادر۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، کیا ہم فلسطین جائیں گے؟‘‘ پونڈ نے پوچھ لیا۔ جمی نے سر ہلا کر جواب دیا کہ ہاں وہ مل کر پہلے فلسطین جائیں گے اور پھر بورل لوٹ کر پرامن زندگی گزاریں گے۔ اس نے کہا: ’’صدیاں گزر گئیں ہیں صدیاں، یہاں پہلے کبھی ہماری سلطنت ہوا کرتی تھی، ہم اب بھی اپنی سلطنت قائم کر سکتے ہیں، جب وقت آئے گا تو ہم ایسا کریں گے۔ فی الحال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم جادوئی گولے اور فیونا کی حفاظت کریں، یہاں تک کہ سارے ہیرے جمع کر لیے جائیں اور گولا ایک بار پھر ہمارے قبضے میں آ جائے۔‘‘

    پونڈ نے ایک بار پھر سوال کیا: ’’دوگان اور پہلان کے بارے میں کیا خبر ہے؟‘‘
    ’’’’مجھے خدشہ ہے پونڈ، کہ وہ یہیں پر ہیں۔‘‘ جمی نے سرسراتی آواز میں کہا۔

    (جاری ہے …)

  • پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ وہ اینگس کے گھر پر کھڑے تھے۔ جبران نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’وہ سو رہے ہیں، ہمیں دھیمے قدموں سے یہاں سے جانا چاہیے، کہیں ان کی نیند میں خلل نہ آ جائے۔‘‘

    ’’ہم ایسا نہیں کر سکتے، مرجان کو گولے میں رکھنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے اینگس کو جگا دیا۔ وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے، انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی واپس آ جائیں گے۔ اینگس نے کہا کہ انھیں شاید اونگھ آ گئی تھی اور یہ کہ وہ سو نہیں رہے تھے۔ فیونا نے مرجان ان کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہمیں یہ بہت مشکل سے حاصل ہوا ہے، کبھی ٹرالز، کبھی زلزلہ تو کبھی وائی کنگز … بس سارا وقت دوڑتے بھاگتے ہی گزرا۔‘‘

    جبران نے بتایا کہ انھیں ایک موقع پر پفن نے بچایا: ’’مجھے تو ٹرالز پکڑ کر زندہ بھون کر کھانا چاہ رہے تھے، لیکن بچت ہوگئی۔‘‘

    ایسے میں دانیال بھی حالات کا ایک حصہ بتانے لگ گیا: ’’ہم ایک کشتی میں گئے، نیلی جھیل میں تیراکی کی، اور پتا ہے ایک بھتنے اور روشنی کی پری سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔‘‘

    یہ سن کر جبران اور فیونا حیرت کے مارے اچھل پڑے۔ وہ کسی جادوئی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں کھڑے تھے۔ لیکن دانیال نے بڑی روانی سے انگریزی میں بات کی تھی۔

    ’’اوہ … اس کا مطلب ہے کہ اب تم انگریزی مکمل طور پر سیکھ چکے ہو۔‘‘ فیونا نے دانیال کی طرف حیرت سے دیکھا۔ دانیال خود بھی اچھل پڑا تھا۔ اس کے منھ سے نکلا …. ارے … یہ …. یہ کیسے ہو گیا؟ جبران نے خوش ہو کر کہا چلو اچھا ہوا، اب مجھے ترجمانی کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ دونوں اس بات پر مسکرا دیے۔ تب انھیں اینگس نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ’’تم لوگوں نے بلاشبہ کئی مہمات سر انجام دی ہوں گی، کیوں نہ اس مرتبہ دانیال ساری تفصیل بیان کرے، کیوں کہ پچھلی مرتبہ فیونا نے تفصیل سنائی تھی۔‘‘

    جبران نے ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اینگس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں جبران، تم اگلی مرتبہ سناؤ گے۔‘‘

    ’’اوہو … میری باری تو ہمیشہ آخر میں آتی ہے۔‘‘ دانیال کہانی سنانے لگا۔ ایک دشوار سفر کی کہانی سن کر اینگس نے کہا: ’’تم لوگ واقعی بہت ساری مشکلات سے گزر کر آئے ہو، یہ اتنی بڑی ہیں کہ تمھاری عمر کے بچوں کا ان سے سامنا کرنے کی توقع بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ وہ ان واقعات کو اپنی ڈائری میں لکھے گا، ٹرالز، پفن اور میگنس کی تصاویر بھی بنائے گا۔ اینگس نے بھی اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ شام کو یہ کہانی لکھیں گے۔

    جادو کا گولا ان کے سامنے میز پر دھرا تھا۔ اینگس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ والا ہیرا، پہلے والے ہیرے سے قطار میں پہلے آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے ہیرا پہلی سوراخ میں رکھ دیا، عین اسی لمحے دونوں ہیرے چمک اٹھے۔

    جبران نے کہا: ’’ارے ڈریگن چمک اٹھے ہیں۔‘‘ اینگس پراسرار لہجے میں بولا: ’’فیونا … کیا تم جانتی ہو کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں بتاتا ہوں، اب تمھارے پاس دوسری طاقت بھی آ گئی ہے، ایک ایسی پراسرار طاقت جس کی مدد سے تم خود کو چھوٹا اور بڑا کر سکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر تینوں ایک دم سناٹے میں آ گئے۔

    وہ اینگس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات تو سیدھی طرح ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہی تھا کہ کوئی شخص خود کو اپنی مرضی سے چھوٹا یا بڑا کر سکتا ہے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اینگس کو اس انداز سے دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ آپ نے ابھی کیا کہا تھا!

    اینگس ان کا رد عمل دیکھ کر مسکرا دیے، اور بولے: ’’میرے کہنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے، یعنی فیونا اب خود کو اپنی مرضی کے مطابق سکیڑ کر چھوٹا بھی کر سکتی ہے اور پھیلا کر بڑا بھی … اتنا بڑا کہ مجھ سے بھی …!‘‘

    ’’واؤ …‘‘ تینوں کے منھ سے بے اختیار چیخ نما نعرہ نکلا۔ ’’مم … میں … اب نہ صرف آگ لگا سکتی ہوں بلکہ خود کو چھوٹا بڑا بھی کر سکتی ہوں …. اوہ … یہ … یہ … بالکل خواب جیسا ہے … پر مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ فیونا پرجوش ہو کر بولی۔

    لیکن اس سے قبل کہ جبران یا دانیال کچھ بولتے، اینگس نے نہایت سنجیدہ لہجے میں فیونا کو خبردار کیا: ’’میں نے تم سے جو کہا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت شان دار ہے اور تمھیں بے حد مزا بھی آ رہا ہے لیکن یہ مت بھولو کہ یہاں شیطانی قوتیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ خود اعتمادی ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر لمحے چوکنا رہو۔‘‘

    اینگس کہتے کہتے ایک لمحے کے لیے ٹھہرے اور پھر بولے: ’’چلو اب دیکھتے ہیں کہ قدیم کتاب میں اور کیا لکھا ہے، اور … آگے کیا کچھ ہونے والا ہے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’وائی کنگز بہت تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتے آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا بولنے لگی۔ ’’لیکن جیسے ہی یہ لوگ روشنی کی اس دیوار سے ٹکرائیں گے، سب کے سب ختم ہو جائیں گے۔‘‘

    فیونا کا ہاتھ ابھی تک فضا میں بلند تھا، جس میں موجود مرجان سے نکلنے والی شعاع نے دیوار اٹھا دی تھی، جبران تجسس میں اس کے بہت قریب ہو گیا تو اس کا کندھا فیونا سے ٹکرا گیا، فیونا کو تو جھٹکا لگا ہی، لیکن جبران کو ایسے لگا جیسے کسی تیز برقی آرے نے اسے سَر سے بالکل درمیان میں پیروں تک چیر کر رکھ دیا ہو۔ فیونا بے اختیار چلائی: ’’یہ کیا کر رہے ہو جبران، دور رہو مجھ سے۔‘‘ جبران خود بہ خود ہی دور ہو چکا تھا لیکن اس جھٹکے کے باعث وہ کچھ دیر تک سن کھڑا رہا۔ فیونا کے ہاتھ میں مرجان سورج کی طرح چمکتا رہا۔

    وائی کنگز اندھا دھند دوڑے چلے آ رہے تھے، وہ بالکل بے خوف تھے اور راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لا رہے تھے، چناں چہ وہ جیسے روشنی کی دیوار سے ٹکرائے، غائب ہو گئے۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرتے غائب ہوتے رہے۔

    ’’آہا، دیوار نے کام کر دیا۔‘‘ جبران جو اب تک جھٹکے سے سنبھل چکا تھا، خوش ہو کر بولا۔ اس کے چہرے پر اب خوف کی جگہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ ذرا دیر بعد سب کے سب وائی کنگز کا خاتمہ ہو گیا، تو فیونا نے اطمینان کی سانس لی، اور مرجان کو جیب میں رکھ دیا۔ روشنی کی دیوار بھی خود بہ خود غائب ہو گئی۔ دانیال نے فیونا سے پوچھا کہ اسے روشنی کی دیوار بنانے کا خیال کیسے آیا۔ فیونا نے کہا: ’’پتا نہیں، میرے دماغ میں خود بہ خود خیال آتا ہے اور میں فوراً عمل کر لیتی ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ کنگ کیگان کے جادوگر کے جادو کا اثر ہے۔‘‘

    ’’مجھے تو یقین نہیں آ رہا ہے فیونا۔‘‘ جبران بولنے لگا: ’’کہ ہم اتنے خطرات کے بعد بھی زندہ ہیں۔ مجھے تو یقین ہو گیا تھا کہ میں ٹرال کا لقمہ بن جاؤں گا۔‘‘

    ’’چلو، اللہ کا شکر ہے کہ ہم بچ گئے، اب یہ بتاؤ جبران کہ کیا تمھارا موڈ ہو رہا ہے کہ تم اپنی پسندیدہ ڈش پھر کھاؤ۔‘‘ دانیال نے مسکرا کر کہا۔

    ’’اہو … شرط لگا لو … میں تو تیار ہوں۔‘‘ جبران جھٹ سے بولا۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’پلیز جبران، اب تم یہ مت کہنا کہ پفن جیسا معصوم پرندہ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘

    ’’نہیں، بالکل نہیں، میں تو کیلا اور پپرونی پیزا کھانا چاہوں گا، جو تم نے پہلے بھی کھایا تھا۔‘‘ جبران نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ دانیال نے ایسے میں جیب سے پمفلٹ نکال لیا اور پھر دونوں کو خبردار کیا: ’’ہمیں واپس لے جانے کے لیے کشتی یہاں سے دو گھنٹے بعد روانہ ہو گی۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا کہ اب تین گھنٹے پھر جی متلاتا رہے گا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ اب کے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ سمندر پرسکون ملے گا۔ تینوں بھوکے تھے، ٹاؤن کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ریستوران میں برگر اور پیزا کھا کر پیٹ بھرے اور بروقت جا کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر واقعی پر سکون رہا۔ دوسری طرف ساحل پر اترنے کے بعد انھوں نے بس پکڑی اور ریکجاوک پہنچ گئے۔

    ’’میرے خیال میں ہمیں گھر واپس جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’کیا خیال ہے کہ جاتے جاتے نیلی جھیل میں کچھ دیر نہاتے ہوئے جائیں۔ ہم تیراکی کا لباس پھر کرائے پر لے لیں گے۔ اس کے بعد ایک یا دو برگر مزید کھا کر اپنے اپنے گھر ہو لیں گے۔‘‘

    ’’زبردست …!‘‘ جبران بولا۔ دانیال کو بھی تجویز پسند آئی۔ تینوں اپنے ہوٹل جا کر بل ادا کرنے لگے۔ انھوں نے میگنس کو الوداع کہا تو اس نے حیرت سے کہا: ’’گھر جا رہے ہو؟ میں نے تو تمھارے والدین کو ابھی تک نہیں دیکھا۔‘‘ فیونا کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑنے لگی۔ اس نے میگنس کے جوتوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’کتنے عجیب جوتے ہیں، تم تو بالکل بھتنے کی طرح لگتے ہو۔‘‘ میگنس کو اس کی بات عجیب لگی لیکن اس نے فیونا کی بات کا برا نہیں منایا، اور ان کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ باہر نکلے تو میگنس نے انھیں الوداع کر کے کہا: ’’سچ یہ ہے کہ میں واقعی بھتنا ہوں۔‘‘

    یہ سن کر تینوں مسکرانے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ میگنس مذاق کر رہا ہے اور حقیقت میں بھتنے نہیں ہوتے۔ لیکن میگنس نے ایک ہاتھ اٹھا کر اسے ہلکا سا جھٹکا دیا اور ایک شعلہ سا بھڑک کر اس کے سر سے پیروں تک چلا گیا، اور اگلے لمحے اس کے کپڑے تبدیل ہو چکے تھے۔

    (جاری ہے)

  • باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا پرندے کو پیار کر رہی تھی کہ اچانک جبران کی سرسراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: ’’فیونا، میرے خیال میں تیسرا پھندا میری سمجھ میں آ گیا ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال دونوں چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ جبران دور ساحل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پرندوں کا غول دور نیلے آسمان میں اڑتا جا رہا تھا۔

    ’’وہ کیا ہے؟ سمندری ڈاکو؟‘‘ فیونا نے دور سمندر میں ایک بحری جہاز کی طرف دیکھ کر کہا، جس کے بادبان پر سرخ و سفید دھاریاں تھیں اور جہاز کا مستول کسی ڈریگن کے سر کی طرح مڑا ہوا تھا۔

    دراصل یہ ایک وائی کنگ جہاز تھا جو ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور یہ بہت بڑا تھا۔ جب وہ ساحل کے قریب لنگر انداز ہوا تو بے شمار لوگ اس پر سے چھلانگیں مار کر اترے اور بحری جہاز کو ریت پر کھینچنے لگے۔

    ’’یہ وائیکنز ہیں…؟‘‘ دانیال کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان آدمیوں نے گھٹنوں تک پینٹیں پہنی تھیں اور شرٹس کی آستینیں لمبی لمبی اور کھلی کھلی تھیں۔ سب نے کانسی کی طرح دکھائی دینے والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جن کی اطراف سے سینگ نکلے ہوئے تھے۔ ’’ارے ان کے کپڑے تو اتنے غلیظ ہیں، یہ دھوتے نہیں ہیں کیا؟‘‘ دانیال نے منھ بنا کر کہا۔

    ’’میرے خیال میں یہ بھاگنے کا وقت ہے، چلو بھاگو سب۔‘‘ جبران نے کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوا۔ ’’ٹھہرو… ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور وہ دونوں بھی جبران کے پیچھے دوڑنے لگے۔

    وائی کنگز کسی اجنبی زبان میں چلا چلا کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سونٹے اور برچھیاں تھیں، اور وہ سب ان تینوں کو پکڑنے آ رہے تھے۔ ’’میرے خیال میں اس بار پفن پرندے ہماری مدد کو نہیں آ سکیں گے۔‘‘ دانیال نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں ہمیں وائی کنگز کو شہر کی طرف نہیں لے کر جانا چاہیے۔ سوچو، یہ لوگ شہریوں کے ساتھ کیا کچھ کریں گے، یہ تو ہمیں پکڑنے کے لیے ان سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے میں جانتی ہوں لیکن ہمارے پاس دوسرا کیا راستہ ہے؟‘‘ فیونا کے لہجے میں پریشانی تھی۔ اچانک دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ بولا: ’’فیونا ہمارے پاس ہے دوسرا راستہ۔ تم زبردست قسم کی آگ بھڑکاؤ، وائی کنگز سمجھیں گے کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
    ’’لیکن یہاں کے رہنے والے لوگ بھی اس آگ کو دیکھیں گے، وہ سب بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔‘‘ فیونا ایک جگہ ٹھہر گئی۔ پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر کہا مجھے سوچنے دو۔ جبران ایسے میں بے چین ہو کر بولا: ’’ہم بیٹھ نہیں سکتے … وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں۔‘‘ دانیال نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پہاڑی کے سرے پر جا کر نگرانی کرے، اگر وائی کنگز نزدیک پہنچ جائیں تو چلا کر خبردار کر دے۔ جبران کے اس کے مشورے پر عمل کیا۔

    فیونا نے بیٹھے بیٹھے گہری سانسیں لیں۔ دانیال خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فیونا نے آنکھیں بند کیں۔ اگلے لمحے اس نے دیکھا کہ وہ جزیرے پر تیز ہوا کی زد میں ہے اور وہ ایک نیلی تتلی کے پروں پر اڑ رہی ہے۔ عین اسی لمحے جبران ان کی طرف دوڑتا ہوا آ گیا: ’’بھاگو، وہ پہنچ گئے۔‘‘ فیونا اچھل کر کھڑی ہو گئی، دانیال نے پوچھا کہ کیا اس نے کوئی ترکیب سوچی۔ جب کہ فیونا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی تھی، اس نے کہا ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔
    جبران نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم نے جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کرو، وہ ہمارے سروں پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے دیکھا وائی کنگز واقعی پہاڑی پر پہنچ گئے تھے۔ وہ سب قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور اپنے ہتھیار لہرا رہے تھے۔ اچانک وہ چیختے چلاتے پہاڑی پر نیچے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ زمین پر ان کے قدموں کی دھمک واضح محسوس ہو رہی تھی۔

    فیونا نے مرجان جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ سورج کی شعاعیں اس پر منعکس ہونے لگیں۔ گلابی شیشے جیسا ہرا چمک اٹھا۔ اسی لمحے فیونا کو ہیرے کے اندر ڈریگن نظر آ گیا۔ اس نے جبران کی طرف مڑ کر کہا: ’’میں ڈریگن کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکتی….لیکن …‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئی، جبران کے چہرے پر حیرت پھیل گئی، وہ بھی یہی کہنے والا تھا، لیکن فیونا نے یک لخت مڑ کر قیمتی پتھر کو وائی کنگز کی طرف کر دیا، اور خواب جیسی کیفیت میں بولی: ’’جب تک یہ سورج ہمارے سروں پر چمکتا رہے گا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    دانیال اور جبران نے دیکھا کہ مرجان اب براہ راست سورج کی روشنی میں نہا رہا تھا اور لمحہ بہ لمحہ روشن تر ہوتا گیا۔

    ’’فیونا، یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔ ہیرے سے ایک گلابی شعاع نکلی اور اگلے لمحے اس سے ان کے آگے پچاس فٹ اونچی ایک دیوار بن گئی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا۔ وہ حیرت سے دیوار کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگے۔ دیوار دونوں اطراف میں خود بخود پھیلتی جا رہی تھی اور ان کے اور وائی کنگز کے درمیان راستے کو بند کر رہی تھی۔

    (جاری ہے)

  • اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’آؤ آؤ … تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ فیونا ان کا منھ چڑانے لگی۔ دانیال کی آنکھیں خوف سے بھر گئیں۔ وہ ڈری ڈری آواز میں بولا: ’’فیونا یہ کیا کر رہی ہو، دیکھو وہ تمھارے قریب آ رہے ہیں۔‘‘

    فیونا سیٹی سے مشابہ آواز میں مسلسل گنگنا رہی تھی، اچانک ایک پرندہ غار کے اوپر بنے دہانے سے اندر آیا۔ دانیال نے مڑ کر دیکھا تو دوسرا پرندہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ذرا سی دیر میں غار پفن نامی پرندوں سے بھر گیا۔ دانیال کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار چھائے اور پھر وہ مسرت سے کھل اٹھا۔ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ذرا ہی دیر میں درندوں کو پاگل سا کر دیا۔ ایسے میں فیونا نے چیخ کر دانیال سے کہا کہ وہ جلدی سے جا کر جبران کو چھڑا کر لائے۔ فیونا اور جوش سے گانے لگی اور پرندوں سے مخاطب ہو کر حکم دیا: ’’ٹرالز پر حملہ کر دو۔‘‘ پرندوں نے اشارے کی سمت میں دیکھا اور ٹرالز پر حملہ آور ہو گئے۔ جبران پر پہرہ دینے والا ٹرال بھی دیگر ٹرالز کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ وہ سب غرا کر پرندوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ پرندے ان کی ناکوں، آنکھوں، کانوں اور جگہ جگہ نوچنے لگے تھے۔ دانیال دوڑ کر جبران کے پاس پہنچ گیا، جبران نے کہا: ’’جلدی کھولو دانی، ٹرال کے واپس آنے سے پہلے مجھے آزاد کر دو۔‘‘

    دانیال نے رسی کھول دی۔ دونوں اٹھ کر سرنگ میں فیونا کے پاس آ گئے۔ ’’بہت خوب، کیسے ہو جبران؟‘‘ فیونا اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھ کر چہک اٹھی۔ جبران نے پوچھا: ’’حیرت ہے فیونا، یہ پرندے تو ٹرالز پر دشمنوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں، تم نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘

    ’’میرے خیال میں کنگ کیگان نے مجھے یہ دھن سکھائی ہے۔‘‘ فیونا دھن سنانے لگی۔

    درندے نہایت غصے کی حالت میں دیگر سرنگوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ باہر نکل سکیں۔ فیونا نے چلا کر پرندوں سے کہا کہ ان کے غار سے نکلنے تک درندوں کو نہ چھوڑیں۔ اور پفن پرندے خوف زدہ ٹرالز کو بدستور کاٹتے نوچتے رہے۔

    فیونا نے دونوں سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہو سکے انھیں غار کے علاقے سے چلے جانا چاہیے، لیکن سب سے پہلے مرجان حاصل کرنا ہے۔ دانیال نے جبران کو بتایا کہ انھوں نے مرجان کو تقریباً نکال ہی لیا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ جبران نے بھی کہا اس نے بھی زلزلے کو محسوس کیا تھا لیکن ٹرالز بالکل اس پر پریشان نہیں ہوئے تھے، اس نے کہا کہ شاید یہ ان کے لیے معمول کی بات ہو۔ فیونا انھیں دوبارہ اسی مقام پر لے گئی جہاں مرجان موجود تھے، لیکن اب وہاں ایک بڑے پتھر نے سوراخ کو بند کر دیا تھا۔ تینوں نے مل کر زور لگایا اور آخر کار پتھر کو ہٹا دیا۔ فیونا بولی: ’’یہی ہے وہ سوراخ جس کے اندر مرجان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اٹھانے کی کوشش کریں گے، زلزلہ آ جائے گا۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

    ’’میرے خیال میں مرجان اٹھا کر اندھا دھند بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ جبران بولا، لیکن دانیال نے فوراً مداخلت کی: ’’لیکن یہاں تیسرا پھندا بھی تو ہے۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’وہ تو جب سامنے آئے گا تو اس وقت ہی اس کے ساتھ بھی دیکھ لیں گے، فی الوقت مجھے جبران کی بات درست لگ رہی ہے۔ دانی، تم جیسے ہی مرجان اٹھالو گے ہم سب فوری دوڑ لگا لیں گے اور جتنا تیز بھاگ سکتے ہیں، اتنی تیزی سے بھاگیں گے۔ مجھے امید ہے کہ چھت ہم پر نہیں گرے گی۔‘‘

    ’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ جبران نے دانیال کی طرف دیکھا۔ دانیال نے سر ہلایا، گہری سانس لی، اور پھر بیٹھ کر سوراخ میں ایک بار پھر ہاٹھ ڈال دیا۔ فیونا نے جبران کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا: ’’جیسے وہ پتھر اٹھاتا ہے، تم نے دوڑ لگانی ہے اور پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا۔‘‘

    دانیال نے اپنی انگلیوں پر مرجان کو محسوس کیا۔ ’’میں نے اسے پکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی میں اسے باہر کھینچوں گا ہم مر جائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں … ہم نہیں مریں گے، تم اسے نکال لو۔‘‘ فیونا مضبوط لہجے میں بولی۔ دانیال نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر مرجان کو مٹھی میں دبایا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

    زمین کو شدید جھٹکا لگا۔ اور غار میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ غار کی چھت سے سیاہ لاوے کے بڑے بڑے ٹکڑے گرنے لگے۔ اور وہ تینوں ان سے بچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہوئے غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے۔ زمین مسلسل ہل رہی تھی، اس لیے وہ دوڑتے دوڑتے بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اس دوران زمین سے نوکیلے پتھر بھی نکل آئے تھے، اور ان کے پیچھے دھول کا ایک بادل چکر کاٹتا چلا آ رہا تھا۔

    ’’ہم مرنے والے ہیں۔‘‘ جبران نے خوف سے چلا کر کہا لیکن اس نے دوڑنا بند نہیں کیا۔ ان کے پیچھے زبردست دھماکے ہونے لگے تھے، غار کی چھت جگہ جگہ سے منہدم ہو رہی تھی۔ عین اسی لمحے جب وہ غار کے دہانے سے باہر نکلے، پورا غار ہی ایک دھماکے سے بیٹھ گیا اور ہر طرف دھول چھا گئی۔

    ’’ہم زندہ نکل آئے … ہم زندہ نکل آئے … دیکھا ہم نہیں مرے۔‘‘ دانیال خوشی سے اچھلنے لگا۔ لیکن جبران تیزی سے فیونا کی طرف بڑھا: ’’کیا ہوا، کیا تم زخمی ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا، اسے دراصل لاوے کے چھری کی تیز دھار جیسے نوکیلے پتھر چبھ گئے تھے۔ جبران نے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے احتیاط کے ساتھ وہ ٹکڑے نکالے۔ ’’شکر ہے کہ ہمارے سر ان سے بچ گئے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا ایک کپڑے خون صاف کرنے لگی۔

    ’’حیرت ہے، وہ احمق ٹرالز کہاں چلے گئے۔‘‘ دانیال نے چاروں طرف دیکھا۔ ’’میرے خیال میں میں جانتی ہوں، چلو میرے پیچھے آؤ۔‘‘ فیونا بولی۔ وہ انھیں پہاڑی کے اوپر لے گئی اور ایک جگہ سلگتے انگاروں کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’وہ رہے ٹرالز۔‘‘

    ’’یہ تو ٹرالز نہیں ہیں، کسی نے کچرا جلایا ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا لیا۔ دانیال نے خدشہ ظاہر کر دیا کہ کہیں آتش فشاں پھر سے تو نہیں ابلنے لگا ہے۔ جب تینوں اس جگہ کے مزید قریب گئے تو فیونا بولی: ’’دیکھو، ان کی ساخت بالکل ٹرالز جیسی ہے، پفن پرندوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہ باہر سورج میں نکل آئے اور جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘

    تینوں اس بات پر بہت خوش دکھائی دینے لگے۔ فیونا اچھلنے لگی تھی، کہ پرندوں نے ان کی کس طرح سے مدد کی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوک دیا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تیسرا پھندا بھی یہیں کہیں موجود ہے۔

    دانیال نے جیب سے مرجان نکال کر انھیں دکھایا۔ فیونا نے وہ لے لیا اور اوپر کر کے اسے دیکھنے لگی۔ ’’یہ تو آبسیڈین سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، دیکھو کتنا گلابی ہے یہ۔‘‘ فیونا نے کہیا اور پھر سے سیٹی بجانے لگی۔ پفن پرندے ذرا ہی دیر میں اڑ کر ان کی طرف آ گئے۔ وہ بولی: ’’ذرا ان پرندوں کو دیکھو، آسمان پر ان سے ایک کالی چادر سی تن گئی ہے۔‘‘

    پرندے ان تینوں کے سروں پر چکر کاٹنے اور آوازیں نکالنے لگے۔ ’’کتنے پیارے ہیں یہ پرندے۔‘‘ فیونا بولی۔ کچھ دیر تک پرندے ان کے گرد چکر کاٹتے رہے اور پھر اڑ کر چلے گئے۔ ایک پفن جو ابھی بچہ تھا، پیچھے رہ گیا۔ فیونا نے اسے اٹھایا اور بڑے پیار سے چہرے سے لگا لیا۔

    (جاری ہے)

  • ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

    سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔

    ’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔

    ’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘

    فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘

    فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

    غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘

    وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘

    کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘

    فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘

    دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

    تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

    فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

    ’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

    ’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

    (جاری ہے)

  • اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’یہاں تو اچھی خاصی بدبو ہے، ٹرال کی بدبو تو یونان کے اُس گدھے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ دانیال نے چٹکی سے نتھنے بند کر دیے۔ فیونا ایک جگہ رک کر بولی: ’’مرجان یہاں ہے، لاوے کے اندر۔ کیا تم نیچے بیٹھ کر کسی سوراخ کو تلاش کر سکتے ہو؟‘‘ فیونا نے اپنے قدموں کے پاس اشارہ کیا۔ دانیال وہاں پڑے ایک پتھر کے نیچے سرک گیا اور پھر بولا: ’’ہاں یہاں ایک سوراخ ہے جس میں میرا ہاتھ آسانی سے جا سکتا ہے۔‘‘

    فیونا پُر جوش ہو کر بولی: ’’ٹھیک ہے دانی، تم جلدی سے وہاں مرجان تلاش کرو۔‘‘

    ’’میں کسی مہین چیز کو محسوس کر رہا ہوں، میرے خیال میں یہی مرجان ہے۔‘‘ دانیال مسرت بھرے لہجے میں بولا: ’’یہ رہا، میں نے اسے پکڑ لیا۔‘‘ عین اسی وقت غار میں زلزلہ آ گیا اور غار کی چھت سے لاوے کے ٹکڑے ٹوٹ کر نیچے گرے۔ فیونا گھبرا کر چلائی: ’’یہ کیا ہو رہا ہے … مم میرا خیال ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ دانی جلدی سے ہاتھ کھینچ لو، ہمیں خود کو محفوظ جگہ چھپانا ہوگا۔‘‘

    زمین سے ایسی گڑگڑاہٹ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی ٹرال غرا رہا ہو۔ غار کا فرش بری طرح لرز رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے لپیٹنے لگا ہو۔

    ’’ارے فرش کو دیکھو… یہ تو بالکل دھوئیں کی لہریں ہیں۔‘‘ دانیال چیخا۔

    زلزلے کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہو گئی تھی کہ انھیں کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ یکایک ان سے ذرا فاصلے پر چھت سے لاوے کے ٹکڑوں سے بنا ایک بڑا پتھر گرا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، اور یہ ٹکڑے نہایت تیزی سے غار میں پھیل گئے۔

    ’’لیٹ جاؤ دانی، اگر ایک بھی پتھر لگا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور فوراً زمین پر خود کو گرا دیا۔ دانیال نے بھی اس کے پاس ہی پتھریلی زمین پر خود کو گرا دیا۔ دونوں کے چہرے خوف سے زرد ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیرنے لگے تھے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ہو پایا تھا۔ بہادری جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سب ہوا ہو گئی تھی۔ اگلے دس منٹ تک دونوں بازوؤں میں سر چھپائے لیٹے رہے تاکہ لاوے کا کوئی پتھر انھیں نہ لگ جائے۔ پھر آخر کار زلزلہ تھم گیا اور غار دھول سے اٹ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ اٹھ کر دیکھنے لگے اور پھر کھانسنا شروع کر دیا۔

    ’’دانی، آگ بجھ گئی ہے۔‘‘ گھپ اندھیرے میں اس کے کانوں سے فیونا کی آواز ٹکرائی۔

    اس نے کہا کہ تم جلدی سے مزید آگ بھڑکاؤ، لیکن فیونا کوشش کے باوجود ناکام ہو گئی۔ فیونا کو خیال آیا کہ شاید دھول میں یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ دانیال نے کہا فیونا تم گھبرائی ہوئی ہو بس، ایک بار پھر فوکس کرو۔ فیونا نے ایک بار پھر آگ کے خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس بار وہ واقعی کام یاب ہو گئی۔

    ’’یہ آگ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں ہم مرجان کو تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ فیونا خوش ہو گئی۔ دونوں کا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا، اور ان میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی تھی۔

    ایسے میں دانیال نے یاد دلایا: ’’پھندا نمبر دو۔ ایک اور زلزلے میں خود کو مارے بغیر ہم مرجان کیسے حاصل کر سکیں گے؟‘‘

    دونوں اگلے ٹریپ کے خیال سے محتاط ہو گئے۔ دانیال نے کہا شاید جبران بھی ہو تو وہ بھی کچھ مدد کر سکے۔ فیونا کو بھی لگا کہ اب جبران کو پہلے ڈھونڈنا ہی بہتر ہے۔ دونوں اس پر متفق ہوئے تو فیونا پچھلی دیوار کی طرف بڑھنے لگی، جہاں اسے ایک سوراخ نظر آیا۔ وہ بولی: ’’ارے یہاں تو بدبو بھی ہے، ضرور ٹرال یہاں سے گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک فلیش لائٹ نکال لی، اور اس کی روشنی میں آگے دیکھنے لگی۔ ’’وہ اسی راستے سے گئے ہیں، وہ دیکھو، جبران کے جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔‘‘ فیونا نے ایک سفید ڈوری پر روشنی ڈالی۔

    ’’فیونا، یہاں تو اور کوئی سرنگ نہیں ہے، یہ ایک ہی بہت بڑا غار ہے جو مختلف سمتوں مین بٹا ہوا ہے۔ کیا پتا اگلا پھندا یہیں پر ہو اور کیا پتا کہ وہ یہاں ہمارا انتظار کر رہا ہو تاکہ ہمیں ہڑپ کر جائے۔‘‘

    ’’دانیال، اب تم بھی بالکل جبران کی طرح باتیں کرنے لگے ہو، کیا پتا کیا پتا کی والی باتیں مت کرو، بس اسے ڈھونڈو۔‘‘ فیونا ایک طویل اور اندھی سرنگ میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، لیکن پھر ایک آواز سن کر اس کے قدم رک گئے۔ اس نے دانیال کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا: ’’اب جلدی کرو، میں نے ٹرال کی آواز سن لی ہے۔‘‘

    دس قدم کے بعد وہ ایک اور بڑے غار کے دہانے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے فلیش لائٹ سامنے سے ہٹا دیا، اب اس کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ غار کی چھت میں ایک سوراخ سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سب کچھ نظر آ رہا تھا۔
    ’’لو، یہاں تو ایک نہیں تین تین ٹرالز ہیں۔‘‘ فیونا بری طرح چونک اٹھی۔

    (جاری ہے)

  • ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ’’رک جاؤ جبران، واپس آ جاؤ، ہم نے یہ مہم ایک ٹیم کی صورت سر کرنی ہے، ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ فیونا نے اسے آواز دی۔ ’’بہادر بنو اور جلدی واپس آؤ، دیکھو یہ ٹرال نہیں غالباً روشنی کی وجہ سے کسی چیز کا عکس بن رہا ہے۔‘‘

    جبران کے قدم رک گئے۔ وہ مڑ کر واپس ان کے پاس آ گیا لیکن وہ کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آگ نے پورے غار کو روش کیا ہوا تھا، جس میں وہ ہر چیز کو دیکھ سکتے تھے، تاہم آخری سرا اب بھی اندھیرے میں تھا۔ فیونا چند منٹ مزید خاموش کھڑی سوچتی رہی اور پھر بولی: ’’مرجان بس ذرا سا اور آگے ہے، میں وہ جگہ بھی دیکھ سکتی ہوں جہاں پتھر کو چھپایا گیا ہے۔ بس چند ہی قدم آگے ہے۔‘‘

    یکایک ایک گونج دار آواز نے ان کے دل دہلا دیے۔ ’’یہ … یہ کیا تھا… چچ … چلو فیونا واپس چلتے ہیں۔‘‘ جبران پر بری طرح گھبراہٹ طاری ہو گئی تھی۔

    غار کے آخری سرے سے ایک اور گڑگڑاہٹ جیسی آواز گونجی۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’یہ ٹرال کی آواز ہے۔‘‘

    پھر ایک چیز ان کی طرف بڑھتی دکھائی دی۔ جبران چلایا: ’’یہ ہمیں کھانے آ رہا ہے۔‘‘
    تقریباً بیس فٹ اونچا ٹرال ان کے سامنے کھڑا تھا اور سبز آنکھوں سے انھیں اوپر دیکھ رہا تھا۔ ’’اس کی ناک واقعی بہت بڑی ہے۔‘‘ دانیال کے منھ سے ڈری سی آواز نکلی۔ اچانک ٹرال غرایا۔ اس کی گونج دار آواز سے انھیں کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
    فیونا کو اس سے ڈر بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تو بہت کاہل مخلوق ہے، لیکن لگتا ہے اسے غصہ آ رہا ہے۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ کوئی ترکیب سوچو کہ اس سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ٹرال نامی اس درندے کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جس کے چیتھڑے اس کے بازوؤں سے لٹک رہے تھے۔ اس کی ٹانگوں کی جلد یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ چھیلی گئی ہو۔ اس کے جسم پر موٹے موٹے بال اگے ہوئے تھے۔ اس نے جوتے نہیں پہنے تھے اور وہ دانیال کے پمفلٹ میں لکھی گئی تفصیل کے عین مطابق تھا۔

    دانیال بولا: ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ یہ درندے سورج کی روشنی سے سخت نفرت کرتے ہیں کیوں کہ اگر سورج کی شعاعیں ان سے ٹکرائیں گی تو یہ جل جائیں گے۔ اس لیے فیونا تم ڈھیر سے ساری آگ بھڑکا کر اسے مار سکتی ہو۔‘‘

    جبران کسی اور تجویز کے انتظار کے حق میں نہیں تھا، اس لیے وہ پلٹا اور بھاگنے کے لیے پر تولنے لگا۔ اچانک غیر متوقع سی بات ہو گئی تھی، ٹرال آگے کی طرف ایک قدم بڑھا تھا اور ساتھ ساتھ وہ آگے کی طرف خاصا جھک بھی گیا تھا، جیسے انھیں پکڑنا چاہتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک بار پھر کان پھاڑ غراہٹ کے ساتھ چیخا تھا۔ دانیال اور فیونا بچاؤ کی جبلت کے تحت تیزی سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جبران کی ٹانگیں ڈر کے مارے لڑکھڑا گئیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے نہ ہٹ سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ درندے نے ہاتھ بڑھا کر اسے شرٹ سے پکڑ کر فضا میں بلند کر لیا۔

    ’’بچاؤ … بچاؤ … درندے نے مجھے پکڑ لیا ہے۔‘‘ جبران غار کی چھت کے قریب جھولتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں چلایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتے، درندہ مڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ’’یہ … یہ کیا ہو گیا فیونا، ٹرال تو جبران کو کھا جائے گا۔‘‘ دانیال ڈر اور بے چینی سے پاگل ہونے لگا تھا۔ ’’ہم یہاں کھڑے نہیں رہ سکتے، ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
    ’’مجھے سوچنے دو … مجھے سوچنے دو۔‘‘ فیونا کے چہرے پر اب خوف کی جگہ غصہ چھا گیا تھا۔ ’’کاش اس وقت وہ ڈریگن ہمارے پاس ہوتا۔‘‘

    ’’لیکن ڈریگن ہمارے پاس نہیں ہے، جلدی کرو فیونا، وہ اسے دور لے جا رہا ہے، کیا وہاں کوئی دوسرا غار بھی ہے؟‘‘

    اسی لمحے جبران کی چیخ اندھیرے میں گونج کر رہ گئی تھی۔ فیونا لاوے سے بنے ایک پتھر پر بیٹھ کر بولی: ’’میرے خیال میں ہمیں پہلے قیمتی پتھر مرجان کو حاصل کرنا چاہیے، اس کے بعد جبران کے پیچھے جانا چاہیے، کیوں کہ درندہ اسے نہیں کھائے گا۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں، کیوں کہ ٹرالز کو کچا گوشت پسند نہیں ہوتا، انھیں اپنی خوراک آگ پر بھون کر کھانا پسند ہے۔‘‘

    ’’فیونا …‘‘ دانیال چلایا۔ ’’وہ درندہ جبران کو زندہ بھوننے جا رہا ہے اور تم مرجان کے متعلق سوچ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھو دانیال، مجھے غلط مت سمجھو۔ مجھے پھر سے اپنے اندر سے ایسے اشارے مل رہے ہیں اور میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ جبران کچھ دیر تک محفوظ رہے گا اور اتنی دیر میں ہم مرجان حاصل کر لیں گے۔ جب قیمتی پتھر ہمارے ہاتھ آئے گا تو ہمارے پاس مزید قوت آ جائے گی۔ پھر ہم یہ قوت جبران کو چھڑانے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

    یہ کہہ کر فیونا کھڑی ہو گئی۔ ’’مرجان بہت قریب ہے۔ میں اسے محسوس کر سکتی ہوں۔ یاد ہے نا انکل اینگس نے کیا کہا تھا۔ قیمتی پتھر سے خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں اور میں اسے محسوس کر رہی ہوں، وہ مجھے بلا رہا ہے۔‘‘

    دانیال نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس حالت میں زیادہ بہتر کیا ہے۔ وہ فیونا کی طاقتوں کی مدد کے آگے مجبور تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ ابھی یہاں مزید پھندے بھی باقی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔ فیونا نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور تسلی دی، پھر دونوں غار میں آگے بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اف، یہاں تو بے حد سردی ہے، غار عموماً سرد ہُوا کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کوٹ کے بٹن جلدی سے بند کر دیے۔ دانیال نے سردی سے ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے کہا: ’’فیونا، جب ہم گھر سے روانہ ہو رہے تھے تو اس سے ذرا دیر قبل تمھارے انکل نے کہا تھا کہ تم اگر چاہو تو آگ بھڑکا سکتی ہو۔ تمھارے پاس اس کی طاقت آچکی ہے۔ کیا تم نے انکل اینگس کی یہ بات نہیں سنی تھی؟‘‘

    ’’ہاں انھوں نے کہا تھا لیکن میں نے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔‘‘ فیونا غار میں چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’انکل اینگس کی عادت ہے کہ وہ ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن میرے خیال میں وہ ہانک نہیں رہے تھے بلکہ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب تم جادوئی گیند میں قیمتی پتھر رکھنے لگی تھی۔ تو اسی وجہ سے تمھیں یہ طاقت ملی ہے، اور اس کا تعلق قیمتی پتھر ہے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے جب انھوں نے یہ کہا تمھیں بس آگ کے بارے میں سوچنا ہے اور اس کی خواہش کرنی ہے، اور بس آگ اچانک بھڑک اٹھے گی۔‘‘ دانیال نے ہاتھ جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’تو کیوں نہ اس طاقت کو یہاں آزماؤ تم، میں تو سردی سے منجمد ہو رہا ہوں، کاش میں دستانے لے آتا۔‘‘

    ’’مجھے بھی شدید سردی لگ رہی ہے فیونا، چلو اسے آزماؤ بھی اب۔‘‘ جبران نے بھی اس سے جادو کے ذریعے آگ جلانے کا مطالبہ کیا۔

    ’’تو کیا تم دونوں یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسا کر سکتی ہوں؟‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    ’’ہاں، بالکل تم کر سکتی ہو۔‘‘ دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔ یہ دیکھ کر فیونا نے لمبی سانس لی اور پھر آنکھیں بند کر کے آگ کا تصور کیا۔ یکایک ان سے چند فٹ کے فاصلے پر آگ بھڑک اٹھی، اور تینوں ہی اسے دیکھ کر اچھل پڑے۔

    ’’اوہ … شان دار … یہ تو کمال ہو گیا۔‘‘ فیونا خوشی سے چلائی۔

    ’’دیکھا، تم نے ایسا کر دکھایا۔‘‘ جبران بولا اور فوراً آگ کے قریب چلا گیا۔ ’’ہے تو یہ گرم، جیسا کہ آگ ہوتی ہے، لیکن یہ کیسے جل رہی ہے؟ یہاں تو لکڑی وغیرہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’چھوڑو اس بات کو۔‘‘ دانیال بھی قریب آ گیا، اور اپنے سرد ہوتے ہاتھ آگ پر تاپتے ہوئے بڑبڑایا: ’’اس کے شعلے زرد اور نیلے رنگ کے ہیں، کتنا عجیب ہے یہ نا!‘‘

    ’’اس میں سبز رنگ بھی ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’اب ذرا تم دونوں دور ہٹو، میں مزید آگ بھڑکا دوں۔ اگر ہم نے یہاں مرجان ڈھونڈنا ہے تو ہمیں خود کو گرم رکھنا ہوگا۔ اور وہ پتھر غار کی پشت کی طرف ایک سوراخ میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اگلے لمحے غار میں دور تک آگ روشن ہو گئی۔ تینوں غار میں آگے کی طرف بڑھنے لگے اور کافی اندر چلے گئے۔

    ’’ان پتھروں پر چلنا تو بے حد دشوار ہے، میں کئی جگہ سے زخمی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا نے کراہتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ سے پینٹ پر آئے ہوئے کٹ کو ٹٹولنے لگی۔

    ’’میں نے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔‘‘ اچانک جبران کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ غار میں مکمل خاموشی تھی، اور جبران کی آواز گونج گئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’وہ عین ہمارے سامنے ہے اور ہم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’جبران، اب مزید نہیں۔‘‘ دانیال نے غار میں آگے کی طرف دیکھا جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ’’تم بلاوجہ چیزوں کا تصور کر لیتے ہو۔ ویسے تم نے اس مرتبہ کیا دیکھ لیا ہے، اب یہ مت کہنا کہ ٹرال دیکھ لیا ہے۔‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ ٹرال ہوتا کیسے ہے لیکن پھر بھی یہ ٹرال ہو سکتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور فیونا کے پیچھے ہو گیا۔ ’’چلو، یہاں سے نکل چلتے ہیں۔ میں … میں کسی ٹرال سے لڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کا بازو پکڑ لیا۔

    ’’تم بہت ڈرپوک ہو جبران، فیونا کا ہاتھ چھوڑ دو۔‘‘ دانیال اس کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’ٹرال نامی مخلوق ناروے سے یہاں وائی کنگ کے بحری جہازوں پر آئی تھی، یہ بے حد سست مخلوق ہے۔ اس کی ناک بڑی ہوتی ہے جس پر ایک گلٹی نکلی دکھائی دیتی ہے۔ نوک دار سینگ، بڑا منھ جس میں تیز دانت ہوتے ہیں۔ اس کی جلد گانٹھ دار ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے اس پر گلٹیاں نکلی ہوئی ہیں۔ اس کے کان بالکل چھوٹے ہوتے ہیں، اور یہ ایک بے وقوف قسم کا جانور ہے جس کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں۔ چوں کہ انھیں سورج کی روشنی پسند نہیں اس لیے یہ مخلوق غاروں میں رہتی ہے۔‘‘

    ’’تمھارا مطلب ہے کہ اس جیسے غاروں میں۔‘‘ جبران یہ کہہ کر پلٹا: ’’میں تو باہر جا رہا ہوں۔ میں اب مزید آگے نہیں جا پاؤں گا۔ اگر تم دونوں کو مرجان کی تلاش ہے تو پھر اکیلے جاؤ۔‘‘

    (جاری ہے ….)