Tag: اردو ناول

  • پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘

    فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘

    ’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘

    ’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

    ’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔

    ’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔

    ’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    ’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘

    ’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
    فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘

    (جاری ہے)

  • ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے جواب دینے والی تھی کہ دانیال اس سے پہلے ہی بول پڑا: ’’گھبراؤ نہیں، تم اتنی جلدی کیوں خوف زدہ ہو جاتے ہو۔ پمفلٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جولفر نامی کشتی ایک جدید ترین کشتی ہے، دیکھو یہ نئی بھی لگتی ہے۔ اس میں ایک کیفے ٹیریا ہے اور ایک فلمی تھیٹر بھی۔ اگر ہم چاہیں تو عرشے پر بیٹھ کر ڈولفنوں اور وھیل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سمندر بہت پرسکون دکھائی دے رہا ہے، اس لیے آج ہواؤں کا کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے، لہریں بھی چھوٹی چھوٹی ہیں۔‘‘

    فیونا حیرت سے دانیال کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’واہ تم تو بہت اچھی باتیں کرنے لگے ہو۔‘‘

    ’’بس یہ تو تم لوگوں کا اثر ہے۔‘‘ دانیال نے قہقہہ لگایا۔ تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے عرشے پر چڑھ کر سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ’’دانی تمھارے پاس جو گائیڈ بک ہے، اس میں تھورلیکشوف کے متعلق بھی تو کچھ لکھا ہوگا، ذرا مجھے سنانا کیا لکھا ہے؟‘‘ فیونا نے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے پوچھا۔

    دانیال پمفلٹ کھول کر پڑھنے لگا: ’’اس میں لکھا ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر جنوبی ساحل پر ہے اور اس کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے مچھلی اور پومس برآمد کیے جاتے ہیں۔ تھورلیکشوف میں آئس بلو کے نام سے ایک واٹر پلانٹ بھی ہے جہاں منرل واٹر تیار کیا جاتا ہے۔‘‘ جبران نے پوچھا کہ یہ پومس کیا ہے، تو فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اے تم نہیں جانتے، میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم بہت کچھ جانتے ہو، بہرحال، یہ ایک قسم کا خاکی رنگ کا ہلکا سا آتش فشانی پتھر ہے۔ اسے پیس کر مختلف چیزوں کو مہین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ دراصل لاوے سے بنتا ہے۔‘‘

    اسی وقت کشتی کا انجن چالو ہو گیا، اور ذرا دیر بعد کشتی سمندر میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ ابھی انھوں نے آدھے گھنٹے ہی کا سفر طے کیا تھا کہ جبران کے ساتھ ساتھ فیونا کی طبیعت بھی خراب ہونے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی توجہ لہروں پر چلی گئی تو وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ’’لہریں تو بہت بڑی ہیں۔ کک… کک … کیا جبران نے درست کہا تھا اور … یہ کشتی ڈوب جائے گی؟‘‘

    دانیال کا حال بھی ان دونوں کی طرح تھا۔ سمندر میں یہ ان کا پہلا سفر تھا اس لیے انھیں متلی ہونے لگی تھی، اور سر چکرانے لگا تھا۔ دانیال بولا:’’ میرا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے فیونا لیکن تم اس طرح کی بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ لہریں اتنی بھی بڑی نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ پکڑا اور اٹھ کر جنگلے کے پاس جا کر اپنی توجہ ہٹانے لگا۔

    ’’یہاں آؤ، میں نے قاتل وھیل دیکھ لیے ہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دونوں کو پکارا۔ دونوں کِلر وھیل کا سن کر عارضی طور پر اپنی تکلیف بھول گئے اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’ارے وہ رہے کلر وھیل۔‘‘ جبران خوشی سے چلایا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پانی کے اس خطرناک جانور کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسے جو کم زوری محسوس ہو رہی تھی، وہ پل بھر میں غائب ہو گئی تھی۔ فیونا بھی دل چسپی سے وھیل کو دیکھ رہی تھی جو بڑی تعداد میں تھیں اور کشتی کے ساتھ ساتھ ہیمے کی طرف سفر کر رہی تھیں، اور جن پر لمبی اور رنگین چونچوں والے پرندے پفن بہت بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    فیونا چلائی: ’’وہ دیکھو، یہ ہیمے ہے اور لاوا بہہ رہا ہے۔ یہاں آتش فشاں پہاڑ ہے اور وہ رہے کالے پتھر۔ میری دعا ہے کہ جب تک ہم یہاں ہیں یہ نہ پھٹے۔‘‘

    ’’افوہ، فیونا ایک تو تم دونوں بہت جلد پاگل پن کی باتیں کرنے لگ جاتے ہو۔‘‘ دانیال جھلایا۔ ’’یہ تو ایک پیارا جزیرہ ہے، یہ دراصل ویسٹ مین جزائر کا ایک حصہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے ویسٹ مانیار کہتے ہیں، جب کہ ہیمے ایک آتش فشانی جزیرہ ہے۔ اور کیا تم یہ یقین کرو گے کہ ایک دن یہاں قزاق آئے اور یہاں کی تمام عورتیں اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (more…)

  • اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جونی تھامسن نے پانی سے بھرا گلاس مائری کو دیتے ہوئے پوچھا: ’’اب بتاؤ کیا ہوا تھا؟‘‘

    ماہری بتانے لگیں: ’’جب میں کام سے گھر لوٹی تو دروازے کے پٹ کھلے ہوئے تھے۔ فیونا نے کہا تھا کہ وہ اپنے انکل کے گھر جائے گی، اس لیے میں جانتی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہوگا، لیکن جب میں نے یہاں یہ تباہی دیکھی تو خیال آیا کہ کہیں وہ گھر واپس نہ آئی ہو اور کسی نے اندر داخل ہو کر اسے نقصان نہ پہنچایا ہو، یہ دیکھو نا انھوں نے کتنی بے دردی سے ہر چیز الٹ پلٹ کر کے رکھ دی ہے۔ حتیٰ کہ ریفریجریٹر سے بھی تمام چیزیں نکال کر نشست گاہ کے فرش پر پھینک دی ہیں۔ قالین پر سے یہ پگھلتی ہوئی آئس کریم اب کبھی صاف نہیں ہو سکی گی۔‘‘

    ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ نوجوان لڑکوں کے کسی گروہ نے کیا ہے، یہ سب کسی ایک سرکش آدمی کا کام ہے۔ کوئی ایسا شخص جو بے رحم ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟‘‘ جونی نے سارے کمرے گھوم کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’گیل ٹے میں اس طرح کا کوئی بھی شخص نہیں ہے۔ ہاں میں نے آج بیکری میں کچھ افواہیں سنی ہیں۔ کسی چور نے ایلسے کے سرائے پر مہمانوں کو لوٹا۔‘‘ مائری نے گالوں پر آنسوؤں سے بنی لکیروں کو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’میرے خیال میں آپ فوراً پولیس کو ٹیلی فون کر کے رپورٹ درج کرائیں۔‘‘ جونی بولا:’’آپ پولیس کو طلب کریں اور میں گھر کو صاف کرتا ہوں۔‘‘

    مائری نے ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا، کچھ ہی دیر میں پولیس پہنچ گئی۔ ’’کیا ہوا ہے مائری؟‘‘ آفیسر اینڈرسن نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں نے آج تک گیل ٹے میں اس قسم کی واردات کبھی نہیں دیکھی۔ یہ تو کوئی ذہنی مریض لگتا ہے۔‘‘

    پھر آدھے گھنٹے تک پولیس رپورٹ لکھتی رہی، معلوم ہوا کہ گھر سے کوئی بھی چیز چوری نہیں ہوئی۔ آفیسر اینڈرسن کو اس پر حیرت ہوئی۔ آخر میں اس نے رپورٹ بک بند کر کے اٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے مائری، جیسے ہی ہمیں کوئی خبر ملتی ہے ہم آپ کے پاس آ جائیں گے، تب تک آپ دروازہ بند کر کے رکھا کریں۔‘‘

    ’’دیکھو، میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا نا۔‘‘ جونی نے دروازے کے قریب کچرے سے بھری تھیلی پھینکتے ہوئے کہا۔ مائری نے بتایا کہ انھوں نے دروازہ بند کیا تھا، وہ کھڑکی سے اندر آیا ہوگا۔ جونی نے خیال ظاہر کیا کہ لگتا ہے اسے کسی چیز کی تلاش تھی لیکن نہ ملی تو غصے میں گھر کی چیزیں الٹ پلٹ دیں۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی، مائری نے جا کر دروازہ کھولا تو بلال اپنی بیگم شاہانہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، ان کے ساتھ جونی کا بھائی جمی بھی تھا۔

    ’’جیسے ہی ہم نے سنا ہم چل پڑے۔‘‘ شاہانہ اندر آ کر بولیں: ’’ان کے لہجے میں مائری کے لیے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ واقعہ سننے کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہم بھی گھر کو درست کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘‘

    انھیں گھر پھر سے بحال کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ چوں کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی تھی، اس لیے شاہانہ کے کہنے پر بلال واپس گھر جا کر رات کے لیے پکا ہوا کھانا اٹھا کر لے آئے، سب نے مل کر کھانا کھایا۔ مائری نے شاہانہ کو گلے لگا کر کہا: ’’آپ کا بہت بہت شکریہ، اچھا ہوا کہ فیونا کے آنے سے پہلے ہی گھر درست ہو گیا ورنہ وہ بہت خوف زدہ ہو جاتی۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘ شاہانہ نے اپنائیت سے کہا: ’’بس اب اپنا خیال رکھیے۔‘‘

    جونی نے اپنے بھائی کو مخاطب کیا: ’’جمی، تم بلال صاحب کے ساتھ جا کر یہاں کی روایتی تقریب کا مزا لو، میں یہاں رات کے لیے ٹھہر جاؤں گا، لیکن پہلے اینگس کے گھر سے ہوتے ہوئے جانا،‘‘

    ’’یہ آپ کی اچھائی ہے لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ مائری بولیں۔

    ’’نہیں، اس کی ضرورت ہے۔‘‘ جونی نے جواب دیا۔ ’’وہ پاگل شخص کسی بھی وقت پھر آسکتا ہے۔‘‘

    کچھ ہی دیر بعد بلال اور شاہانہ اپنے گھر، جب کہ جمی اینگس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (جاری ہے…)

  • انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘

    استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘

    ’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘

    آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔

    (جاری ہے)

  • اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔

    ’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘

    وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘

    ’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔

    ’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔

    وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔

    وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔

    ’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔

    ’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘

    ’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘

    جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔

    (جاری ہے)

  • سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    وہ تینوں ایک پہاڑی پر کھڑے تھے، ذرا ہی دیر پہلے منتر نے انھیں اس پہاڑی پر پہنچایا تھا اور وہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے قصبے کو دیکھ رہے تھے۔ یکایک جبران چلایا: ’’ہٹو فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے برق رفتاری سے اس کا بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ وہ لڑکھڑا کر گھاس پر گری۔ عین اسی لمحے وہاں سے گھوڑوں کا ایک ریوڑ دوڑتا ہوا گزرا، جن کی دُمیں اور ایال ہوا میں لہرا رہی تھیں۔

    ’’یہ کیا تھے؟‘‘ فیونا نے اٹھ کر اپنی نیلی پینٹ سے گرد جھاڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

    ’’چھوٹے قد کے گھوڑے۔ ذرا دیر ہو جاتی تو وہ تمھیں کچل کر گزر چکے ہوتے۔‘‘ جبران نے دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے آنکھوں کے سامنے ہاتھ آگے کیا۔ ’’ذرا دیکھو انھیں، کتنے پاگل پن سے دوڑ رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ تو طے ہے کہ یہ ٹراپیکل یعنی گرم مقام نہیں ہے۔‘‘ دانیال کہنے لگا، حیرت انگیز طور پر فیونا اب اس کی بات اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔ ’’یہ قصبہ تو ہائیڈرا اور گیل ٹے سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بہت خوب صورت جگہ ہے۔ میں واپس جا کر اس کی تصاویر پینٹ کروں گا۔‘‘ اس نے پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے قصبے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں دور تک نیچے واقع سمندر تک سرخ، سبز اور نیلی چھتوں والے گھروں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا نظر آ رہا تھا۔ ’’دیکھو یہ پانی یونان کے پانی سے بالکل مختلف لگ رہا ہے، یہ بہت سرد محسوس ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہم ہیں کہاں پر؟‘ جبران اس فہرست کو یاد کرنے لگا جہاں جہاں انھیں جانا تھا۔ ’’یہ نیپال تو نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہاں آس پاس پہاڑی سلسلے نہیں ہیں، اور یہ منگولیا بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سمندر کے کنارے نہیں، یا ہے؟ کیا منگولیا میں اس طرح کے جنگلی گھوڑے پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے فیونا کی طرف دیکھا۔

    فیونا بولی: ’’میرے خیال میں ہم آئس لینڈ میں ہیں اور یہ آئس لینڈ کے گھوڑے تھے۔ کتنے چھوٹے قد کے گھوڑے تھے نا۔ ایسا لگتا تھا کہ بدمست بھینسے دوڑ رہے ہوں۔‘‘ اس نے جیب سے کیمرہ نکالا اور کہا: ’’اس مرتبہ اگر گھوڑے پھر آگئے میں پوری طرح تیار رہوں گی۔‘‘ اس نے کیمرے کا فلیش چیک کیا۔ ’’یہ رنگین چھتیں دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ قصبہ ریکجاوک ہے۔‘‘

    ’’اگر ہم آئس لینڈ میں ہیں تو پھر قلفی بن کر جم کیوں نہیں گئے؟‘‘دانیال بولا۔ اسے زمین پر کہیں بھی برف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ’’آئس لینڈ میں تو برف ہی برف ہوتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘

    جبران چاروں طرف نگاہ دوڑا کر موسم پر تبصرہ کرنے لگا: ’’ہم آئس لینڈ ہی میں ہیں، برف باری جلد شروع ہو سکتی ہے۔ چند ہی دن میں یہاں سرد ہوائیں چلنی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہاں قیمتی پتھر مرجان ڈھونڈنا ہے۔ تمھارے انکل اینگس نے کہا تھا کہ یہ گلابی مائل سرخ رنگ کا اور بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ہم اسے کہاں سے ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال نے کہا: ’’ہمیں قصبے جانا چاہیے، سہ پہر کا وقت ہے، ایسا لگتا ہے یہاں اندھیرا جلد اترے گا۔‘‘

    دونوں نے تائید کی اور تینوں قصبے کی طرف چل پڑے۔ سبز چمکتی گھاس پر لمبے بالوں والی بھیڑیں گھاس چر رہی تھیں۔ فیونا نے وہاں مختلف اور نمایاں رنگوں کو محسوس کیا اور کہا: ’’یہاں کتنے سارے رنگ ہیں، میں نے سفید سے لے کر گہرے بھورے رنگوں کے شیڈز تک دیکھ لیے ہیں۔ یہ بھیڑیں تو بالکل ہمارے ہائی لینڈز کی بھیڑوں کی طرح ہی نا۔‘‘ اس نے قریب جا کر بھیڑ کو چھونا چاہا لیکن وہ دور بھاگ گئیں۔ کچھ فاصلے پر پودوں کے درمیان مور جتنے سفید پرندے پہاڑی کی طرف اڑے۔ جبران انھیں دیکھ کر بولا: ’’یہ تیتروں کی ایک قسم ہے جسے ٹارمگین کہا جاتا ہے، پتا ہے یہ موسم کے حساب سے رنگ بدل سکتے ہیں، گرمیوں میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور اب یہ سفید ہونے لگے ہیں، جلد ہی یہ مکمل طور پر سفید ہو جائیں گے اور اس طرح خود کو برف میں چھپا سکیں گے۔‘‘

    ’’واہ تم تو آئس لینڈ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا۔ جبران نے کہا: ’’ہاں، اسکول میں پڑھا ہے اس کے بارے میں، انھیں دیکھ کر اچانک یاد آیا مجھے۔‘‘

    فیونارکجاوک قصبے سے متعلق بتانے لگی: ’’یہ دارالحکومت ہے، اور یہ لائبریریوں اور مجسموں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں خوب صورت ایڈر بطخیں اور سرخ چپٹی چونچ والے پفن نامی پرندے بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔‘‘ کچھ دور تک چلنے کے بعد فیونا نے کہا: ’’اب ہمیں سب سے پہلے کسی بینک کو تلاش کرنا ہے، جہاں ہم کرنسی کا تبادلہ کر سکیں، میرے خیال میں آئس لینڈ کی کرنسی کو کرونر کہتے ہیں۔‘‘

    ’’ان بارہ آدمیوں نے قیمتی پتھر چھپانے کے لیے جزائر ہی کیوں چنا؟‘‘ دانیال بولا: ’’وہ دیکھو، ساحل سے دور جزیرے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

    جبران نے اس کے جواب میں جو معلومات بتائیں اسے سن کر فیونا بھی حیران رہ گئی، وہ بولا:’’غالباً اس لیے کہ یہ جزیرے اس دور میں الگ تھلگ واقع تھے، ان کے پاس بحری جہاز اور بڑی کشتیاں نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ آسانی سے جزیرہ ہائیڈرا چلے جاتے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے لیے ان جگہوں پر پہنچنا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ آئس لینڈ اسکاٹ لینڈ سے بہت دور ہے۔ وہ شاید مشرقی ساحل کی کسی ماہی گیر کشتی میں یہاں پہنچے ہوں گے۔‘‘

    فیونا اسے حیرت اور خوشی سے دیکھنے لگی: ’’تم تو معلوما ت کا خزانہ ہو، تمھیں یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’مجھے پڑھنے کا شوق ہے، میری ممی میرے پڑھنے کے لیے کتابیں خرید کر لاتی ہیں اور میں انھیں شوق سے پڑھتا ہوں۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ذرا دیر بعد وہ قصبے کی مرکزی سڑک پر پہنچ گئے۔ یہاں ہوٹل، ریستوران اور دکانوں کو رنگین بنایا گیا تھا۔ سڑک پر تھوڑا آگے جا کر وہ ایک بینک کے پاس رک گئے۔

    (جاری ہے)

  • چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اسکول سے نکلنے کے بعد فیونا گھر نہیں گئی۔ وہ مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی اس لیے سیدھا جبران کے گھر چلی گئی، اسے دراصل اینگس کے گھر پہنچنا تھا۔ جبران بھی اسی وقت گھر پہنچا تھا، اسے دیکھتے ہی فیونا نے کہا: ’’تم تیار ہو۔ چلو انکل کے ہاں چلتے ہیں، میں جلد سے جلد کسی دوسرے ملک جانا چاہتی ہوں۔ ویسے پتا نہیں کہ آج وہ منتر ہمیں کس دیس لے کر جائے گا!‘‘

    دانیال بولا: ’’میرے خیال میں وہ کوئی سرد مقام ہو سکتا ہے، اس لیے میں تو اونی کوٹ لے کر جاؤں گا۔‘‘

    جبران نے اپنی پسند کا اظہار کیا: ’’لیکن مجھے امید ہے اس مرتبہ ہم کسی گرم علاقے میں جائیں گے، مجھے ایسے ہی علاقے پسند ہیں جو گرم ہوں اور وہاں بارش زیادہ نہ ہو۔‘‘

    تینوں بے تابی سے اینگس کے گھر کی طرف دوڑتے ہوئے جانے لگے۔
    ……………………

    دوسری طرف مائری مک ایلسٹر بیکری سے نکلنے کے بعد جیسے ہی گھر پہنچی، اور گھر کا دروازہ کھولا، ان کے منھ سے ایک چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر اندر گئیں اور گھبراہٹ میں فیونا کو آوازیں دینے لگیں۔ وہ سمجھی تھیں کہ شاید وہ اپنے کمرے میں ہو، لیکن وہاں کوئی نہ تھا اور گھر میں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی آنکھیں حیرت اور خوف کے مارے پھٹ رہی تھیں۔ انھوں نے گھبرا کر ٹیلی فون اٹھا کر جبران کے گھر کا نمبر ملا دیا۔ دوسری طرف شاہانہ نے فون اٹھایا۔ ’’ہیلو شاہانہ، کیا مرد حضرات شکار سے واپس آ گئے ہیں؟‘‘ مائری نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ شاہانہ نے کچھ کہا تو مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ذرا جونی کو فون دیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھیں انتظار کرنا پڑا۔

    ان کے سامنے گھر کا نقشہ بکھرا پڑا تھا اور ان کے گالوں پر آنسو بہتے جا رہے تھے۔ جونی نے دوسری طرف سے جیسے ہی ہیلو کہا مائری جلدی سے بولیں: ’’جونی کیا آپ فوری طور پر یہاں آ سکتے ہیں؟ یہاں … یہاں خوف ناک بات ہو گئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور وہیں پر گر کر سسکیاں بھرنے لگیں۔ انھیں شدید جذباتی جھٹکا لگا تھا۔ کیوں کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ گیل ٹے میں ان کے گھر میں کبھی اس طرح کا واقعہ رو نما ہو سکتا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مائری کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی، جونی اندر آ گیا۔ مائری اس وقت ایک کونے میں سمٹی بیٹھی ہوئی، خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔ جونی نے مائری کو سہارا دے کر اٹھایا اور صوفے پر بٹھا دیا، اور ایک کمبل اٹھا کر ان کے گرد لپیٹ کر بولا: ’’اب بتاؤ، کیا ہوا ہے؟‘‘
    …………………..

    ’’کیا وہ واپس آ گئے ہیں؟‘‘ جبران نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر کھڑکی سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ’’ارے یہ بلیاں باہر کیوں پھر رہی ہیں، انکل تو انھیں کبھی باہر نہیں چھوڑتے۔ چلو اندر چل کر معلوم کرتے ہیں کہ سب ٹھیک تو ہے۔‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    دانیال نے ہینڈل گھمایا اور تینوں اندر داخل ہو گئے۔ ’’یہاں تو مجھے سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہے۔ بلیوں کو اندر آنے دو، یہ بے چاری تو بہت بھوکی ہوں گی۔‘‘ فیونا نے مخصوص پیالے پانی اور بلیوں کی خوراک سے بھرنے لگی۔ اینگس دروازے کے پیچھے ہی ایک تھیلے میں ان کی خوراک بھر کر رکھتے تھے۔ پھر فیونا اور جبران بلیاں اندر لے آئے۔

    ’’وہ ابھی تک نہیں لوٹے۔ ہمیں ان کا انتظار کرنا چاہیے، مجھے یقین ہے وہ جلد پہنچ جائیں گے۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں کرسیوں پر بیٹھ گئے، انھیں واقعی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، دروازہ کھلا اور اینگس اندر داخل ہو گئے۔ تینوں انھیں دیکھتے ہی اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا نے کہا: ’’ہم آپ کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے، ہم دوسرا قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    اینگس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ انھوں نے کندھوں پر رکھا بوجھ اتار کر کہا: ’’ذرا صبر بچو، میں لمبے سفر سے لوٹا ہوں، پہلے کچھ کھانے تو دو۔ پھر سارا سامان کھولوں گا اور پھر دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘

    وہ ان کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن جھک کر فیونا کے کان میں شرارت سے سرگوشی کی: ’’تو اس بار تم کہاں جانے کا سوچ رہی ہو!‘‘ فیونا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا: ’’ہم تو صرف قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ لیکن پھر اچانک فیونا سنجیدہ ہو کر بولی: ’’پتا ہے آپ کو، جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، یہاں آس پاس کچھ عجیب سی باتیں ہونے لگی ہیں۔‘‘

    یہ سن کر اینگس چونک اٹھے: ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’سب سے پہلی بات… جونی اور جمی تھامسن۔‘‘ فیونا بتانے لگی۔ جبران نے کہا وہ ہمارے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ فیونا نے بتایا کہ وہ کچھ عجیب سے لوگ ہیں لیکن ممی کو یقین ہے کہ برے لوگ نہیں ہیں۔

    ’’اوہو بچو… چھوڑو ان باتوں کو۔ تم لوگ خوامخواہ معمولی بات کا بھتنگڑ بنا رہے ہو۔‘‘ اینگس نے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو، سب سے پہلے تمھارا ہی کام کرتے ہیں۔ تم تینوں آتش دان کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جادوئی گولا نکال رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بیگ سے جادوئی گیند نکال کر میز پر رکھ دی، اور فیونا کو مخاطب کیا: ’’میں تمھیں بتانا بھول گیا تھا کہ اب تم آگ پیدا کر سکتی ہو، اور اس کے لیے تمھیں اپنے دماغ میں حکم دینا پڑے گا بس!‘‘

    ’’واہ زبردست … شکریہ انکل۔ موقع ملا تو میں اس طاقت کو ضرور استعمال کروں گی۔‘‘ فیونا نے خوش اور حیران ہو کر کہا، اور پھر وقت ضایع کیے بغیر جبران اور دانیال کے ہاتھ تھام کر منتر دہرانے لگی … دالث شفشا یم … دالث شفشا یم … اور پھر تینوں اینگس کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئے، انھوں نے مسکرا کر ٹیک لگالی۔

    (جاری ہے….)

  • پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’گھر میں کوئی نہیں، یہ صبح میرے لیے لکی ہے۔‘‘ ڈریٹن مسکرایا اور احتیاطاً سارے گھر کے گرد ایک چکر لگا لیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ باغیچے میں بھی کوئی نہیں ہے تو اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔

    ’’ارے یہ تو بند ہے، حیرت ہے۔ یہاں کسی کے گھر کا دروازہ بند نہیں ہوتا، لیکن اس گھر کا دروازہ بند ہے۔ کیا بات ہے مائری اور فیونا… کیا چھپا رکھا ہے تم دونوں نے؟‘‘ وہ پُر جوش ہو کر بڑبڑانے لگا۔

    نہ صرف دروازے بلکہ کھڑکیاں بھی اندر سے بند تھیں۔ ہاں باورچی خانے کی کھڑکی کھلی مل گئی۔ اس نے دیوار کے ساتھ ایک گملا رکھا اور اس پر چڑھ کر اچھلا اور کھڑکی پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ گھر کے اندر تھا۔ گھر اندر سے صاف ستھرا تھا اور ہر شے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ یہ بات اس کو سخت ناپسند تھی، اس لیے اس نے الماریوں سے برتن نکال نکال کر فرش پر پٹخ دیے۔ ذرا دیر میں اس نے گھر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ریفریجریٹر سے بھی کھانے پینے کی تمام اشیا نکال کر فرش پر پھینک دیں۔

    ’’فیونا… تم نے اسے آخر کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس نے بیڈروم کی الماری بھی اسی طرح خالی کر دی۔ طاقچوں میں رکھے سارے برتن اب فرش پر بکھرے پڑے تھے۔ غرض ہر چیز اس نے الٹ پلٹ کر رکھ دی لیکن وہ جس چیز کی توقع کررہا تھا، وہ اسے نہیں مل سکی۔ آخر تھک ہار کر وہ بڑبڑایا: ’’ہونہہ … تو اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسے چھپایا ہوا ہے، تاکہ کوئی بھی اسے نہ پاسکے۔‘‘ کوئی ایک گھنٹے بعد وہ فیونا کے گھر سے نکلا۔ اس کا رخ اب اینگس کے گھر کی طرف تھا۔

    (جاری ہے…)

  • چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    پیر کی صبح گیل ٹے میں بڑی مصروفیت بھری ہوتی ہے، بچے اسکول کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور ان کے والدین کام کی جگہ کو محو سفر ہوتے ہیں، کسی کا رخ گاؤں کی طرف تو کسی کا شہر کی طرف ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریل گاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈریٹن پر جب سورج کی شعاعیں پڑنے لگیں تو اس نے انگرائی لیتے ہوئے اٹھنے ہی میں غنیمت جانی۔ سستی اتارتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔

    ’’شکر ہے بارش نہیں ہو رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور لیپ ٹاپ نکال کر تمام تصاویر اپ لوڈ کر لیں جو اس نے اینگس کے گھر میں قدیم کتاب کی اتاری تھیں۔ کمرے میں ٹیلی فون لائن دیکھ کر اور خوش ہوا، اور ساری تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پرانے دوست کو بھیج دیں، اور ہدایات کے ساتھ یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تصویریں اس کے پاس پہنچا دے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترا، اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ منسلک کرنے پر جو بھاری بل آئے گا وہ ایلسے کے گلے میں پڑے گا۔ جیسے ہی وہ نیچے اترا، اس کا سامنا ایلسے سے ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔

    ’’اوہ تم کیسے ہو ڈریٹن۔ افسوس یہاں کوئی چور گھس آیا تھا۔ آپ کا بٹوہ تو محفوظ ہے نا، یا آپ کا بھی چوری ہو گیا؟‘‘

    ’’نہیں، میرا بٹوہ میری جیب میں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ اس نے رات ہی کو تمام بٹوے خالی کر کے انھیں کچرے میں پھینک دیا تھا۔ ’’صرف اتنا ہی نہیں ڈریٹن۔‘‘ ایلسے کہنے لگی: ’’کوئی چور اکثر لوگوں سے زیورات بھی کر چکا ہے۔ اب جب تک چور نہ پکڑا جائے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہے۔‘‘

    اس نے رات ہی کو چرایا ہوا زیور ایک درخت کی جڑ میں دبا دیا تھا، اور فی الحال محفوظ تھا۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے ایلسے، اگر میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں تو مدد کے لیے ضرور کہیے گا۔‘‘

    ناشتے کی میز پر اسے چاروں طرف ایک ہی موضوع پر گفتگو سننے کو ملی۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں آنے والے سب ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اٹھا اور وہاں سے نکلنے لگا۔ دروازے کے قریب اس نے ایلسے کو روک کر پوچھا: ’’آپ کو یہ پوچھے جانے پر بڑی حیرت ہو گی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اینگس اپنے رشتہ داروں میں کس کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے، خصوصاً کوئی چھوٹی لڑکی؟ دراصل میں اس کے لیے ایک تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اس کی بھتیجی فیونا۔‘‘ ایلسے نے جواب دیا۔ ’’وہ زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا ہے۔ جب سے فیونا کے ڈیڈی دنیا سے گزر گئے ہیں، تب سے وہی اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کیا آپ اینگس کے گھر جائیں گے؟‘‘

    ’’میں کل گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے پیشگوئی کی تھی۔ میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑا۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ ڈریٹن بولا۔
    ’’بس ایسے ہی۔‘‘ ایلسے کہتے کہتے رک گئی۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا۔ ’’فیونا کہاں رہتی ہے، میں اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔

    ’’وہ اپنی ممی مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ ایلسے نے اس کے گھر کا پتا بتا دیا۔
    ’’بہت بہت شکریہ ایلسے۔ آپ میری بہت کام آئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور طے کر لیا کہ واپسی میں اسے گل دستہ تحفے میں دے گا، تاکہ بڑھیا اور بھی اس کے کام آ سکے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ فوراً اس درخت کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کھود کر زیور نکالا اور پوسٹ آفس جا کر اسے ٹرورو میں اپنے گھر بھیج دیا۔ اس نے لفافے کے اوپر اپنی ماں کے لیے لکھا کہ وہ اسے کھولنے کی کوشش نہ کرے ورنہ یہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور وہ چند ہفتوں میں گھر پہنچ جائے گا۔
    فیونا کا گھر ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ ڈریٹن گلیوں میں گھوم پھر کر تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی اسے وہ گھر مل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ وہ ایک کھڑکی کے پاس جا کر اندر جھانکنے لگا۔

    (جاری ہے)