Tag: اردو نظم

  • یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بنا دیا تھا۔ اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والے اس شاعر کے منفرد طرزِ فکر اور اندازِ بیان نے کئی نظم نگاروں کو متاثر کیا، لیکن ان کی ذات کثرتِ مے نوشی، رنگین مزاجی اور بعض قبیح عادات کے سبب نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا جی نے 1949ء میں آج ہی کے دن ممبئی میں وفات پائی۔

    صرف 38 سال جینے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا اور یوں میرا جی نے تعلیم و تربیت کے مراحل بھی مختلف شہروں طے کیے۔

    نثاءُ اللہ ڈار کے والد نے لاہور میں اقامت اختیار کی تو میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی اس کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے عشق میں انھوں نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق میں ناکام رہا اور بعد کے برسوں میں وہ عشق اور ہوس میں تمیز کیے بغیر نجانے کتنی زلفوں کے اسیر ہوئے اور رسوائیاں اپنے نام کرتے رہے۔ یہ بدنامیاں ایک طرف حلیہ بھی ان کا ایسا تھا کہ نفیس طبیعت پر ان کا ساتھ گراں گزرتا۔ خاکہ نگاروں نے لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی ظاہری حالت، اور شخصی کم زوریوں کو ان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے خوب موضوع بنایا ہے، لیکن اس سے میرا جی کی فنی عظمت کم نہیں‌ ہوتی۔

    میرا جی کو شروع ہی سے مطالعہ کا شوق اور علم و ادب سے لگاؤ رہا۔ طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری شروع کر دی اور علم و ادب سے شغف کے سبب وہ معروف اور قابلِ‌ ذکر رسالے ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے مضامین لکھنے کا آغاز کیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو میرا جی کی طبع زاد تخلیقات اور تنقیدی مضامین بھی رسالے میں شایع ہونے لگے اور ادیبوں اور باذوق قارئین کی توجہ حاصل کی۔

    جب میرا جی نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ہند پر برطانیہ کا تسلط تھا اور ہندوستان آزادی کی لڑائی میں لڑ رہا تھا۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور اردو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت میرا جی نے حلقہ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی۔

    ڈاکٹر انور سدید نے میرا جی کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی عرصلے میں انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی اور نئی روایت قائم کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ اردو شاعری میں‌ ان کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔

    میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    اردو زبان کے مشہور شاعر اور جدید نظم کے بانی میرا جی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟ (نظم)

    کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟ (نظم)

    موجِ خوشبو!

    موجِ خوشبو! یہ ترا حسنِ تغافل، توبہ
    کس قدر کیف ملا تجھ کو بکھر جانے میں
    کیا ملا تجھ کو بیاباں میں پریشاں ہو کر
    تیری پہچان گئی رازِ فنا پانے میں
    میں بھی اک گوشہء ہستی میں کہیں بیٹھا ہوں
    اپنی تجسیم کے انداز سے نالاں نالاں
    آرزو مجھ کو بھی ہے رازِ فنا پانے کی
    بیکراں دہر کی وسعت میں بکھر جانے کی

    موجِ خوشبو، یہ ذرا رازِ دروں تو کہنا
    پھول کے ساتھ ترا ربط تھا محکم کتنا؟

    دامنِ گل سے ہمیشہ کو گریزاں ہو کر
    کیا ملا تجھ کو بھلا بوئے پریشاں ہو کر؟

    شاعر: اکرم جاذب

     

     


    (اکرم جاذب کا تعلق منڈی بہاءُ الدین سے ہے، غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں اوراپنے کلام کو کتابی شکل میں پیش کرچکے ہیں، مختلف روزناموں اور ادبی رسائل میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے)

  • فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے، ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے، اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض نے 1935 میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے، انھوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    انھوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سرِ وادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    اردو کے عظیم شاعر فیض 1959 میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئے پھر 1962 تک وہیں تعینات رہے۔ ادبی رسالہ ادب لطیف کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔

    انھیں 9 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے، جب کہ دو اپریل 1955 کو انھیں رہا کر دیا گیا۔

    فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنھیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    اردو کے شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔

  • اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    لاہور: نامور شاعرہ، مترجم اور افسانہ نویس فہمیدہ ریاض کو لاہور کے ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خا کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز نظم نگار اور افسانے لکھنے والی ترقی پسند 73 سالہ ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ روز انتقال کر گئیں تھیں، انھیں آج لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

    [bs-quote quote=”شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کی نمازِ جنازہ میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

    نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں معروف شاعر امجد اسلام امجد بھی شامل تھے، شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

    فہمیدہ ریاض نے اپنی ادبی اور سماجی زندگی میں ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کی۔

    خیال رہے فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    فہمیدہ ریاض کے انتقال پر آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔

  • آج ن -م -راشد کی 41ویں برسی ہے

    آج ن -م -راشد کی 41ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کو بین الاقوامی سطح پر روشنا س کرانے والے نادر و نایاب شاعر ن – م – راشد کی اکتالیسویں برسی ہے، عالمی موضوعات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر انہوں نے اردو نظم کو ایک نئی جہد عطا کی۔

    اردو کے اس معرکتہ الآرا شاعر کا اصل نام نذر محمد راشد ہے ، آپ 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتےتھے۔

    اردو شاعری کو روایتی موضوعات سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا بلاشبہ ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔

    ماورا کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو شاعری میں انقلاب برپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔

    ن م راشد سے قبل اردو نظم اپنے مروضہ اصولوں پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے۔واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال، یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔ راشد نے جو نظمیں تحریر کریں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔

    ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔

    راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم’ حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔

    راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔

    ان کے تین مجموعے’ماورا‘، ’ایران میں اجنبی‘ اور’لا انسان‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے، جب کہ’ گمان کا ممکن‘ ان کی رحلت کے بعد شائع ہوا۔

    راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ انہوں اپنے لواحقین کو اپنی میت کو’ چتا‘ میں جلانے کی وصیت کی تھی جس پر ان کی انگریز زوجہ شیلا نے ان کے صاحبزادے سے مشورہ کیے بغیر عمل درآمد کیا۔