Tag: اردو پوئٹری

  • چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    خوابوں پر نشان لگا کے رکھ دینے والے نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    شاعر‌ کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔

    عزمی بتاتے ہیں، "میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوں۔ کتب بینی کا شوق ہے، مطالعے کو میرا مشغلہ کہہ سکتے ہیں۔ بچپن ہی سے شاعری پسند تھی، اور گھر میں کتابیں، اخبار پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

    اسی پڑھنے پڑھانے نے مجھے شعر گوئی کی طرف مائل کیا اور یوں‌ میں‌ نے شاعری کا سفر شروع کیا۔ ”

    محسن نقوی کو اپنا پسندیدہ شاعر بتانے والے عزم الحسنین عزمی کا کلام پیش ہے۔

    غزل

    کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا
    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا

    رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان
    کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا

    آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر
    آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا

    رات کو پھر دیر تک سب بول رکھ کے سامنے
    کب کہاں کس سے بھلا، کیا کیا کہا، دیکھا گیا

    روشنی دن کو سنبھالی تھی ذرا سی جو حضور
    ڈال کر شب کو دیے میں راستہ دیکھا گیا

    یہ نہیں کہ رک گئے پہلے یا تیرے بعد عشق
    ہاں مگر کچھ روز تجھ پر اکتفا دیکھا گیا

    اس قدر عادت ہوئی اس کی، کہ پہلے درد سے
    ہاتھ چھڑوانے سے پہلے دوسرا دیکھا گیا

    شاعر: عزم الحسنین عزمی

  • گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے (شاعری)

    غزل اور نظم دوںوں اصنافِ سخن میں سارہ خان کی تخلیقات ہمارے سامنے ہیں۔

    خوب صورت لب و لہجے کی اس شاعرہ کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ تاہم گزشتہ پندرہ برس سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ یوں تو زمانہ طالبِ علمی سے شعر کہہ رہی ہیں، لیکن شاعری کا باقاعدہ آغاز چند سال پہلے ہوا اور ان کی تخلیقات مختلف ادبی پرچوں اور ویب سائٹس کی زینت بنیں۔

    سارہ خان کی پسندیدہ صنفِ سخن، نظم ہے۔

    فیض، ن، م راشد اور محسن نقوی سارہ خان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ان کی ایک نظم آپ کے شعری ذوق کی نذر ہے

    "کمی”
    گلاب لہجوں میں دل گزیں سے سراب کیوں کر
    گلاب لہجوں میں حسرتیں ہیں
    گلاب لہجوں میں خواب کیوں کر
    گلاب لہجے جو خوشبؤں کی ضمانتوں کے امین ٹھہرے
    یہ کیسی ان میں جھلک دِکھی ہے
    گلاب لہجوں میں خار کیوں کر۔۔۔۔
    یہ کون ہے جو گلاب چہروں پہ رنگ پت جھڑ کے بھر رہا ہے
    یہ کون ہے جو گلاب لہجوں میں راکھ بن کے بکھر رہا ہے
    گلاب لہجوں پہ نقش کتنی کہانیاں ہیں
    خزاں رُتوں میں چمن میں اک آتشیں سماں ہے،
    گلاب لہجوں پہ ڈھیر ساری اداسیاں ہیں
    گلاب لہجے جو اک زمانے میں سانس لیتے تو گُل کھلاتے
    گلاب لہجوں پہ کس کا سایہ پڑا ہے
    کیسی ویرانیاں ہیں
    گلاب لہجوں میں اِک شکن ہے
    گلاب لہجوں میں کیوں تھکن ہے
    گلاب لہجوں پہ شامِ ہجراں کا عکس کیوں کر
    گلاب لہجوں میں ساعتوں کی نمی چھپی ہے
    گلاب لہجوں میں رقص کرتے ہزاروں منظر
    مگر جو دیکھو گلاب کی ہی…
    گلاب لہجوں میں کچھ کمی ہے!
    شاعرہ: سارہ خان