Tag: اردو ڈراما

  • "قیصر باغ” کی چار دیواری میں رچایا گیا کھیل

    "قیصر باغ” کی چار دیواری میں رچایا گیا کھیل

    ڈرامے کو یونانی اور سنسکرت روایات میں زمانۂ قدیم سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ وہ مذہب کا بھی حصّہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ بھی، لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔

    اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا تو مختلف اصناف پر توجہ دی گئی، لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ ’’کھیلنے‘‘ کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کردار کا بہروپ بھرنا لازمی تھا اور یہ کام بھانڈوں اور نقالوں کا کہا جاتا تھا۔ یہ متانت اور سنجیدگی کے خلاف تصور ہوتا تھا۔ شاید اسی لیے اربابِ قلم نے اس کو قابلِ اعتنا نہ جانا۔ تاآںکہ علم و ادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدّت پسند طبع کے مالک نواب واجد علی شاہ کا اس طرف میلان ہوا۔

    ’’رادھا کنھیا کا قصّہ‘‘ 1842ء میں اسٹیج پر انھوں نے پیش کیا۔ اس طرح شاہی سرپرستی میں ڈراما کھیلا گیا تو لوگوں کی جھجھک دور ہوئی اور جلد ہی اہلِ اردو ڈراما نگاری کی طرف مائل ہو گئے۔

    دس سال کے اندر اندر ہی امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ نے اسٹیج کی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اسی دوران تھیٹر شروع ہو گیا تھا۔ مغربی ڈرامے پیش کرنے کے لیے بہت سی تھیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں اور یوں ڈراما نویسوں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔

    بعد میں آغا حشرؔ نے اردو ڈرامے کی دنیا میں گویا انقلاب برپا کر دیا اور مختلف ڈرامے لکھے، وہ خود ان کے ہدایت کار بھی تھے۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ اس زمانے میں لکھاریوں نے بدیسی ڈراموں کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگا کہ کہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مقامی کہانیاں بھی تھیٹر پر پیش کی جانے لگیں اور اعلیٰ معیار کے ڈرامے بنے۔

    بیسویں صدی میں سنیما کا چلن عام ہوا اور تھیٹر اور اسٹیج پر زوال آتا چلا گیا۔ اُس زمانے کے ڈراموں کی طباعت و اشاعت بھی کی گئی مگر اب ان کے نسخے دست یاب نہیں۔ تاہم وہ ہماری ادبی روایات کا اہم حصّہ ہیں، لیکن تحریری صورت میں ہمارے سامنے نہیں اور یوں آج کے باذوق نوجوان اور ادب کے طالب علم عظیم ورثے سے محروم ہیں۔

    اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ دوسرے علوم و فنون کی ترویج و ترقی میں مسلمان حکم رانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بڑا سبب غالباً یہ تھا کہ نہ تو عربی و فارسی ڈرامے کی کوئی روایت ان کے سامنے تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت ہی باقی تھی، لہٰذا ڈراما ان کی سرپرستی سے محروم رہا۔

    اردو ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے۔ اردو کے تقریباً تمام محققین، مسعود حسن رضوی ادیب کے اس خیال سے متفق ہیں کہ نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں اور ان کا رہس (تفریح طبع اور کھیل کی مخصوص شکل) ’’رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اوّل۔

    یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ’قیصر باغ‘ میں 1843ء میں بڑی شان سے کھیلا گیا۔ واجد علی شاہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی، رقص و سرود اور آرٹ کے بڑے دلدادہ اور مدّاح تھے۔ ’’رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ کے علاوہ واجد علی شاہ کے دوسرے رہس بھی بڑی آن بان سے شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے ۔

    ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو ’’قیصر باغ’‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1853ء میں سید آغا حسن امانتؔ کا ’’اندر سبھا’‘ عوامی اسٹیج پر پیش کیا جا رہا تھا۔ گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے، لیکن بے پناہ شہرت، ہر دل عزیزی اور قبولِ عام کی سند ’’اندر سبھا’‘ کے حصے میں آئی۔

    مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھتے ہیں اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اُس کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا ۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچا دیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظرِ عام پر آیا اور سیکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔

    (مضمون "اردو ڈرامہ اور آغا حشر” سے انتخاب، مصنف: ڈاکٹر انجمن آرا انجمؔ، ہندوستان)

  • حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    2003 میں آج کے روز حمید کاشمیری ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے۔ اردو ادب میں افسانہ نگاری، ڈراما نویسی ان کا میدان رہا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    6 جولائی کو کراچی میں اردو کے اس معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ یکم جون 1929 کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔

    کراچی میں صدر کی الفنٹن اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں بڑے بڑے رائٹرز اور نام ور ادبی شخصیتیں اکثر اکٹھی ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی وژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

  • دھابے جی آئے تو بتانا….

    دھابے جی آئے تو بتانا….

    عرشِ منیر نے ریڈیو پاکستان پر لاتعداد ڈراموں کے لیے صدا کاری کی۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انھوں‌ نے ٹیلی ویژن کے مقبول ترین ڈراموں میں بھی اپنی شان دار پرفارمنس سے خوب شہرت حاصل کی۔

    ہم یہاں ریڈیو پر نشر ہونے والا ان کا ایک مشہور ڈراما "دھابے جی آئے تو بتانا” آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں کراچی سے حیدرآباد تک کا سفر صرف نیشنل ہائی وے کے ذریعے ہی ممکن تھا۔

    اس ریڈیو ڈرامے کے مناظر اور مکالمے کچھ اس طرح ہیں۔

    کنڈکٹر: حیدرآباد…. حیدرآباد…… جلدی کرو…اماں جلدی چڑھو۔

    ڈرائیور: چلیں بھائی، اوپر آجائیں اور سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔

    (بس اسٹارٹ ہوتی ہے اور چلنے لگتی ہے۔ لانڈھی آنے سے پہلے پہلے کنڈکٹر نے سب سے ٹکٹ کے پیسے وصول کرلیے، جس مسافر نے جہاں تک جانا تھا، اس نے اس کے مطابق کرایہ ادا کردیا۔ اس بس میں عرش منیر بھی سوار ہیں جو ایک بوڑھی خاتون ہیں۔ اور اب بس لانڈھی سے آگے جاچکی ہے)

    عرش منیر: بھیا کنڈکٹر دھابے جی آئے تو بتانا۔

    کنڈکٹر: جی اماں ضرور

    ( کنڈکٹر لانڈھی سے سوار ہونے والے مسافروں سے ٹکٹ کے پیسے لے رہا تھا کہ بڑھیا دوبارہ بولی)

    عرش منیر: بھیا کنڈکٹر دھابے جی آئے تو بتانا۔

    کنڈکٹر: جی اماں ضرور بتا دوں گا۔

    عرش منیر(چند لمحے بعد): بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا، دھابے جی آئے تو بتانا۔

    کنڈکٹر(کچھ ناراضی سے): اچھا اماں ضرور بتا دوں گا اب آپ خاموش بیٹھیں۔

    عرش منیر: ائے لو میں نے کیا بُرا کہہ دیا، بس یہ ہی تو کہا تھا کہ بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا، دھابے جی آئے تو بتانا، اس پر اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ کہہ دیا خاموش بیٹھوں، کیا دھابے جی کا پوچھنا کوئی جرم ہے؟

    کنڈکٹر(برہمی سے): کتنی مرتبہ پوچھو گی، جب دھابے جی آئے گا تو بتادوں گا، اب نہ پوچھنا!

    ایک بزرگ مسافر: ( کنڈکٹر سے) اگر پوچھ لیا تو تمہارا کیا نقصان ہوگیا۔

    دوسرا نوجوان مسافر: ( بزرگ مسافر سے) چاچا ایک مرتبہ، دو مرتبہ کتنی مرتبہ پوچھیں گی یہ بڑی بی، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ نقصان کیا ہوا۔

    تیسرا مسافر: (دوسرے مسافر سے) تو آپ کو کیا تکلیف ہوگئی؟ آپ سے تو نہیں پوچھا اور تھوڑی بات کرنے کی تمیز سیکھو اماں یا خالہ کی جگہ بڑی بی کہہ رہے ہو۔

    کنڈکٹر: ( تیسرے مسافر سے) تو پھر اماں کو جب کہہ دیا کہ بتا دوں گا تو بار بار پوچھنا ضروری ہے؟

    عرش منیر: ارے بھیا کنڈکٹر تم بھول مت جاﺅ اس لیے بار بار تم کو یاد دلایا ہے کہ دھابے جی آئے تو بتانا۔

    پہلی خاتون مسافر: اماں خدا کے لیے اب خاموش ہو جاﺅ، جب دھابے جی آئے گا تو کنڈکٹر بتادے گا۔

    دوسری خاتون: (پہلی مسافر خاتون سے) ارے بہن تم کو کیا مصیبت آگئی، اماں جی کے دھابے جی کا پوچھنے سے۔
    ڈرائیور : او بہنو! خدا کے واسطے خاموش ہو جاﺅ، کیوں آپس میں لڑ رہی ہو؟

    ( اب پوری بس میں‌ صورت حال یہ تھی کہ مردوں کے حصے میں تمام مرد جب کہ عورتوں کے حصے میں تمام عورتیں لڑ رہی تھیں عرش منیر کی حمایت اور مخالفت میں، مگر خود عرش منیر خاموش بیٹھی تھیں۔ اس چیخ پکار میں بس دھابے جی سے کوئی ایک میل آگے چلی گئی اور ڈرائیور کو ہوش آیا تو اس نے کنڈکٹر کو اپنے پاس بلاکر بتایا کہ دھابے جی تو پیچھے رہ گیا، دونوں‌ نے واپس پیچھے جانے کا فیصلہ کیا اور دھابے جی جاکر بس روک لی)

    کنڈکٹر نے عرش منیر کو مخاطب کیا اور کہا: اماں اُترو، دھابے جی آگیا۔

    عرش منیر(کچھ حیرانی اور غصے سے): بھیا کنڈکٹر میں نے تم کو حیدر آباد کا کرایہ دیا ہے تو دھابے جی پر کیوں اتروں؟

    کنڈکٹر:( غصے میں) تو پھر بار بار کیوں پوچھ رہی تھیں کہ دھابے جی آئے تو بتانا۔

    عرش منیر(اطمینان سے): بھیا کنڈکٹر آج صبح سے میری طبیعت خراب تھی تو میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی تھی، انہیں یہ بھی بتا دیا کہ میں حیدرآباد جا رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوا والی گولیاں دیں اور کہا کہ ایک ابھی کھالیں اور حیدرآباد جاتے ہوئے جب دھابے جی آئے تو دوسری گولی دھابے جی پر کھالیں، اس لیے تم سے بار بار پوچھ رہی تھی کہ دھابے جی آئے تو بتانا۔