Tag: اردو کانفرنس

  • رواں برس عالمی اردو کانفرنس کس طرح منعقد ہوگی؟

    رواں برس عالمی اردو کانفرنس کس طرح منعقد ہوگی؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے سب سے بڑے ثقافتی و ادبی اجتماع عالمی اردو کانفرنس کی رونقیں بھی کرونا وائرس کے باعث ماند پڑ گئیں، رواں برس عالمی اردو کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے تصدیق کردی کہ رواں برس تیرہویں عالمی اردو کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ عالمی اردو کانفرنس گزشتہ 12 برس سے ہورہی ہے اور یہ اس کا تیرہواں سال ہے، اس سال بھی کرونا وائرس کی وبا کے باوجود یہ مکمل اہتمام سے منعقد کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ ہر سال اردو کانفرنس کے موقع پر آرٹس کاؤنسل میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بار اس میں عوام کی شرکت کو محدود کیا جارہا ہے۔

    احمد شاہ نے بتایا کہ اس سال بھی نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا سے مہمان و معززین کانفرنس میں شرکت کریں گے تاہم بڑی عمر کے معززین، مصنفین، شاعر اور اہل ادب، جن کی صحت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، اس سال آن لائن شرکت کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ بھارت سے معروف شاعر گلزار اور ان کی اہلیہ و اداکارہ شبانہ اعظمی بھی آن لائن اس کانفرنس میں شرکت کریں گی۔

    احمد شاہ کے مطابق کانفرنس میں سیشنز حسب معمول منعقد ہوں گے البتہ عام افراد کا داخلہ ممنوع ہوگا، اس کی کوریج کے لیے صحافیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے گی، علاوہ ازیں محدود تعداد میں مصنفین و شاعر حضرات بھی شریک ہوسکیں گے تاہم انہیں پہلے سے رجسٹریشن کروانی ہوگی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ 3 دسمبر کی شام 4 بجے سے شروع ہونے والی کانفرنس کے تمام سیشنز آرٹس کاؤنسل کے یوٹیوب اور فیس بک صفحات سے لائیو نشر کیے جائیں گے۔

    تیرہویں عالمی اردو کانفرنس 3 دسمبر سے 6 دسمبر 2020 تک منعقد کی جائے گی۔

  • کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کراچی: ممتاز مصنف، کالم و نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، قاری اپنےرائٹر سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لکھے۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز کئی ادبی محافل کا انعقاد کیا گیا، چھٹے اجلاس میں ممتاز مصنف، کالم نگار ، ڈرامہ اور نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑھ گئی، پہلے پڑھنے والا لکھنے والے کے پیچھے ہوتا تھا مگر آج قاری  لکھنے والے سے آگے آگے ہوتا ہے، اس لیے وہ مصنف سے بین الاقوامی طرز پر لکھنے کی توقع بھی رکھتا ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ میری کتابوں کی فروخت زیادہ کیوں نہیں ہوتی؟ میرا جواب یہی ہے کہ میں اچھا لکھتا ہوں، پہلے رائٹرز کا ایک ایڈیشن شائع ہوتا تھا اور سال سال بھر پڑا رہتا تھا مگر اس میں مصنف کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ کتاب کے تقسیم کار  کی غلطی تھی کیو نکہ وہ کتاب کی درست طریقے سے تقسیم نہیں کرتے تھے، اگر ڈسٹری بیوٹر درست انداز سے کتاب کی تقسیم کرے تو بیس ہزار سے زائد کتابیں فروخت ہوسکتی ہیں۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ‘میری کتاب ”پیار کا پہلا شہر“کے اب تک 76ایڈیشن شائع ہوچکے، اگر میں لکھاری نہیں ہوتا تو  تو صرف ایک قاری ہی ہوتا کیونکہ میں کتاب کے بغیر نہیں رہ سکتا‘۔

    مزید پڑھیں: عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’میں اکثر ادبی تقاریب میں خود جاتا ہوں جبکہ زیادہ پرگراموں میں مجھے مدعو بھی کیا جاتا ہے، پہلے تو دعوت نامہ دینے والوں سے میں خود ہی معذرت کرلیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ میں 80 سال کا ہورہا ہوں اس لیے مجھے زیادہ نہ بلایا کریں، یہ بات سن کر وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں آئندہ سال کس نے دیکھا ہے ہم ہوں یا نہ ہوں لہٰذا آپ تقریب میں شرکت ضرور کریں، میں ان کے اصرار پر سمجھ جاتا ہوں کہ وہ یہ بات خود کے لیے نہیں بلکہ مجھے ہی مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ پانی، پرندے اور موت یہ تینوں موضوع میرے ناولوں کے لازمی جز ہیں کیونکہ میں موت کے بہت قریب سے کئی بار گزر چکا ہوں۔

    اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ایک بار مجھے حالات غنودگی میں اسپتال لے جایا جارہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سامنے میری والدہ دوپٹہ اوڑھے کھڑی مجھے دیکھ رہی ہیں، میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنے آئی ہوں تب مجھے تسلی ہوئی کہ میری زندگی ابھی باقی ہے کیونکہ اگر یہ میری زندگی کا آخری سفر ہوتا تو میری ماں مجھ سے کہتی کہ میں تجھے لینے آئی ہوں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ نے مزید بتایا کہ میں برطانیہ سے روس اُس دور میں پہنچا جب وہاں غیر ملکیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر انقلابِ روس کے بعد مقامیوں نے مہمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میری تصانیف کے کئی حصے اور تحریریں ماسکو کے مختلف کالجوں کے نصاب میں شامل ہیں اور طالب علم ان سے استفادہ بھی کررہے ہیں‘۔

    ’ماسکو میں پاکستان دو باتوں کی وجہ سے مشہور ہے ایک فیض کی شاعری اور دوسری میری نثر نگاری‘۔

    اس موقع پر بھارت سے آئے ہوئے ممتاز دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ جن لوگوں سے میرا 45سال پرانا ساتھ ہے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، میں نے جب مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں ”نکلی تیری تلاش میں“ اور ”فاختہ“ پڑھیں تو میں ان کا کا دیوانہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو آسمان سے زیادہ زمین سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’تارڑ صاحب کا ناول ”بہاﺅ“ بھارت میں بھی بہت مشہور ہے‘۔

    انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی نجات کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان دوست ہو، نہ جانے انسان نے نفرت کرنے کے لئے اتنے سارے راستے کیسے تلاش کرلیے، روس نے انقلاب کے بعد بڑا ادب تو پیدا نہیں کیا مگر وہاں پر قارئین کی خاصی بڑی تعداد ضرور پیدا ہوئی، ماسکو اور روس کے قارئین ادیبوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر ضیاءالحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ کسی بھی تخلیق کار کی گفتگو کو ہم اس کے کام کے حوالے سے پرکھتے ہیں مگر قاری اس کو تخلیقی عمل سے باہر رہتے ہوئے دیکھتا ہے، ادب میں تارڑ صاحب کا مقام بہت بڑا ہے انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ناول نگاری میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے۔

    اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”منطق الطیر“ کا اجراء بھی کیاگیا۔  اجلاس میں معروف نقاد و ادیب شمیم حنفی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی جبکہ اقبال خورشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔        

  • کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی: صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام گیارہویں اردو کانفرنس 22 نومبر سے شروع ہو رہی ہے جو کہ 25 نومبر تک جاری رہے گی۔

    [bs-quote quote=”اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”احمد شاہ”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے فلسفی، محقق، ادیب اور شاعر شامل ہوں گے۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جن میں ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈراما، فلم، تعلیم، زبانوں، رقص، مصوری، اور صحافت کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا، ان سرگرمیوں کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جب آنگن میں‌ ستارے اتریں گے، گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 22 نومبر کو ہوگا


    احمد شاہ نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اردو کانفرنس کو ترویج دینے میں بہت معاونت کی، میڈیا ہی کی وجہ سے اس وقت عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی ایک بین الاقوامی برانڈ بن چکی ہے۔

    پریس کانفرنس میں سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی، معروف ادیبہ حسینہ معین اور تھیٹر کی نامور شخصیت طلعت حسین بھی موجود تھے۔

    اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ فلم اور ٹی وی کے شعبے میں ضیا محی الدین کو دیا جائے گا جب کہ کانفرنس کے پہلے روز نام ور شاعر جون ایلیا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔

  • کراچی میں سجے کا ادب میلہ، آرٹس کونسل اردو کانفرنس شروع ہونے کو ہے

    کراچی میں سجے کا ادب میلہ، آرٹس کونسل اردو کانفرنس شروع ہونے کو ہے

    کراچی: شہر قائد میں اردو ادب کے ستارے جگمگائیں گے، موضوع بنے کا اردو افسانہ،بات ہوگی شاعری کے سفر پر، اظہار خیال کیا جائے گا ناول پر، زیر بحث آئیں گی اردو کی نئی بستیاں۔

    تفصیلات کے مطابق دسویں عالمی اردو کانفرنس 21 تا  25 دسمبر 2017 آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوگی، جس میں پاک و ہند سمیت دنیا بھر کے معروف دانشور، محقق، شاعر اور ادیب شرکت کریں گے۔

    اس کانفرنس کو پاکستان کے 70 ویں جشن آزادی سے منسوب کیا گیا ہے، اس میں گذشتہ 70 برسوں میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، مصوری، رقص، ڈراما، زبانیں، صحافت، فلم اور دیگر شعبوں میں کیا کھویا کیا پایا کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ اس کانفرنس میں ہندوستان سے ڈاکٹر شمیم حنفی، ڈاکٹر قاضی افضال حسین، ڈاکٹر انیس اشفاق، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، خوشبیر سنگھ شاد، فرحت احساس، رنجیت سنگھ چوہان، لندن سے رضا علی عابدی، جرمنی سے عارف نقوی، جاپان سے ہیروجی کتاﺅکا، مصر سے ابراہیم محمد ابراہیم، ترکی سے خلیل توقار اور دیگر اسکالرز شرکت کریں گے۔

    آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ایک عشرے تک تسلسل کے ساتھ کسی عالمی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف آرٹس کونسل کی انتظامیہ بلکہ کراچی کے شہریوں کے لئے بھی اعزاز کی بات ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کراچی، نویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر

    21 دسمبر کو ہونے والے افتتاحی اجلاس کے موقع پر گزشتہ 9 کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے ایسے ادیب اور اسکالرز جو اس دوران انتقال کرگئے ہیں، ان کی زندگی پر دستاویزی فلم پیش کی جائے گی۔

    ملک کے علمی و ادبی حلقوں نے اس کانفرنس کو خوش آئند ٹھہرایا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے زبان و ادب کو فروغ ملے گا۔

    پروگرام کی تفصیل

     


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • کراچی: عالمی اردو کانفرنس کا آغاز

    کراچی: عالمی اردو کانفرنس کا آغاز

    کراچی: نویں عالمی اردو کانفرنس کا آرٹس کونسل آف پاکستان میں آج سے آغاز ہوگیا۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔

    نویں سالانہ اردو کانفرنس 4 دسمبر تک آرٹس کونسل میں جاری رہے گی۔

    آرٹس کونسل کے جنرل سیکرٹری احمد شاہ کے مطابق 4 دن کے دوران 25 مختلف ادبی نشستوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں ادب، زبان، تاریخ، فلم، ڈرامہ، تھیٹر اور موسیقی سمیت مختلف موضوعات پر اعلیٰ علمی شخصیات کی جانب سے مقالہ جات پیش کیے جائیں گے۔

    افتتاحی روز کے سیشن فیض کی شخصیت پر گفتگو اور ان کی شاعری پر مشتمل ہیں۔

    1

    2

    رواں برس کانفرنس میں امریکا، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات، جرمنی، ڈنمارک، فن لینڈ اور مصر سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب شرکت کر رہے ہیں البتہ اس سال بھارت سے کسی نے شرکت نہیں کی۔

    احمد شاہ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھارتی ادیبوں کو ویزے جاری کیے گئے تاہم بھارتی وزیر اعظم مودی کی انتہا پسندی کے باعث بھارتی ادیب کانفرنس میں شرکت سے گریزاں نظر آئے۔

    کانفرنس میں ایک تھیٹر گروپ مشتاق احمد یوسفی کی کہانی ’حویلی‘ کو پیش کرے گا جبکہ کانفرنس کے آخری سیشن سے قبل انور مقصود شائقین کو ’خدا حافظ‘ نامی شو سے محظوظ کریں گے۔