Tag: اردو کلاسیکی ادب

  • وہ قصّہ جو ملکہ بیگم سیکڑوں بار سہیلیوں کو سنا چکی تھیں!

    وہ قصّہ جو ملکہ بیگم سیکڑوں بار سہیلیوں کو سنا چکی تھیں!

    ملکہ بیگم نے پہلی بار فرید آباد سے دہلی کی سیر کے لیے ریل کا سفر کیا تھا۔ اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر جانے والی یہ عورت واپسی پر اپنی سہیلیوں کو پُرلطف اور دل چسپ انداز میں سفر کی روداد سناتی ہے۔ دلّی کی سیر کے عنوان سے اس عورت کی کہانی ہندوستان کی معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس رشید جہاں نے رقم کی تھی جس سے یہ اقتباس آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ’’اچھی بہن ہمیں بھی تو آنے دو۔ ‘‘ یہ آواز دالان میں سے آئی، اور ساتھ ہی ایک لڑکی کُرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

    ملکہ بیگم ہی پہلی تھیں جو اپنی سب ملنے والیوں میں پہلے پہل ریل میں بیٹھی تھیں۔ اور وہ بھی فرید آباد سے چل کر دہلی ایک روز کے لیے آئی تھیں۔ محلّہ والیاں تک ان کی داستانِ سفر سننے کے لیے موجود تھیں۔

    ’’اے ہے آنا ہے تو آؤ! میرا منہ تو بالکل تھک گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو سیکڑوں ہی بار تو سنا چکی ہوں۔ یہاں سے ریل میں بیٹھ کر دلّی پہنچی اور وہاں اِن کے ملنے والے کوئی نگوڑے اسٹیشن ماسٹر مل گئے۔ مجھے اسباب کے پاس چھوڑ یہ رفو چکر ہوئے اور میں اسباب پر چڑھی برقع میں لپٹی بیٹھی رہی۔ ایک تو کم بخت برقع، دوسرے مردوے۔ مرد تو ویسے ہی خراب ہوتے ہیں، اور اگر کسی عورت کو اس طرح بیٹھے دیکھ لیں تو اور چکّر پر چکّر لگاتے ہیں۔ پان کھانے تک نوبت نہ آئی۔ کوئی کم بخت کھانسے، کوئی آوازے کسے، اور میرا ڈر کے مارے دَم نکلا جائے۔

    اور بھوک وہ غضب کی لگی ہوئی کہ خدا کی پناہ! دلّی کا اسٹیشن کیا ہے، بوا قلعہ بھی اتنی بڑا نہ ہوگا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی اسٹیشن ہی اسٹیشن نظر آتا تھا اور ریل کی پٹریاں، انجن اور مال گاڑیاں۔ سب سے زیادہ مجھے ان کالے کالے مردوں سے ڈر لگا جو انجن میں رہتے ہیں۔

    ’’انجن میں کون رہتے ہیں؟‘‘ کسی نے بات کاٹ کر پوچھا۔

    ’’کون رہتے ہیں؟ نہ معلوم بُوا کون! نیلے نیلے کپڑے پہنے، کوئی داڑھی والا، کوئی صفا چٹ۔ ایک ہاتھ سے پکڑ کر چلتے انجن میں لٹک جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کا دل سن سن کرنے لگتا ہے۔ صاحب اور میم صاحب تو بُوا دلّی اسٹیشن پر اتنے ہوتے ہیں کہ گنے نہیں جاتے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گٹ پٹ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہندوستانی بھائی بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تکتے رہتے ہیں۔ کم بختوں کی آنکھیں نہیں پھوٹ جاتیں۔ ایک میرے سے کہنے لگا ’’ذرا منہ بھی دکھا دو۔‘‘ میں نے فوراً۔۔۔

    ’’تو تم نے کیا نہیں دکھایا؟‘‘ کسی نے چھیڑا۔

    ’’اللہ اللہ کرو بُوا۔ میں ان موؤں کو منہ دکھانے گئی تھی۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔‘‘ (تیور بدل کر) ’’سننا ہے تو بیچ میں نہ ٹوکو۔‘‘

    ایک دَم خاموشی چھاگئی۔ ایسی مزے دار باتیں فرید آباد میں کم ہوتی تھیں اور ملکہ کی باتیں سننے تو عورتیں دور دور سے آتی تھیں۔

    ’’ہاں بُوا سودے والے ایسے نہیں، جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ صاف صاف خاکی کپڑے اور کوئی سفید، لیکن دھوتیاں کسی کسی کی میلی تھیں، ٹوکرے لیے پھرتے ہیں، پان، بیڑی، سگریٹ، دہی بڑے، کھلونا ہے کھلونا، اور مٹھائیاں چلتی ہوئی گاڑیوں میں بند کیے بھاگے پھرتے ہیں۔ ایک گاڑی آ کر رکی۔ وہ شور غل ہوا کہ کانوں کے پردے پھٹے جاتے، ادھر قلیوں کی چیخ پکار ادھر سودے والے کان کھائے جاتے تھے۔ مسافر ہیں کہ ایک دوسرے پر پِلے پڑتے ہیں اور میں بچاری بیچ میں اسباب پر چڑھی ہوئی۔

    ہزاروں ہی تو ٹھوکریں دھکّے کھائے ہوں گے۔ بھئی جل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو، گھبرا گھبرا کر پڑھی رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ریل چلی تو مسافر اور قلیوں میں لڑائی شروع ہوئی۔

    ’’ایک روپیہ لوں گا۔‘‘

    ’’نہیں، دو آنہ ملیں گے۔‘‘

    ایک گھنٹہ جھگڑا ہوا جب کہیں اسٹیشن خالی ہوا۔ اسٹیشن کے شہدے تو جمع ہی رہے۔

    کوئی دو گھنٹہ کے بعد یہ (شوہر) مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے دکھائی دیئے اور کس لا پرواہی سے کہتے ہیں، ’’بھوک لگی ہو تو کچھ پوریاں ووریاں لا دوں، کھاؤ گی؟ میں تو ادھر ہوٹل میں کھا آیا۔‘‘

    میں نے کہا کہ، ’’خدا کے لیے مجھے میرے گھر پہنچا دو، میں باز آئی اس موئی دلّی کی سیر سے۔ تمہارے ساتھ تو کوئی جنّت میں بھی نہ جائے، اچھی سیر کرانے لائے تھے۔‘‘

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شعر و سخن کی دنیا میں مرزا رفیع سودا کو ان کے قصائد اور شہر آشوب کی وجہ سے خوب شہرت ملی۔ انھوں‌ نے اردو شاعری کی محبوب صنف غزل میں‌ بھی زور مارا، لیکن بعض ناقدین کہتے ہیں کہ پیچیدہ اور مشکل زمینوں کے ساتھ ان کی غزل پر جو رنگ غالب تھا، اس نے ہم عصروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت و مرتبہ گھٹایا ہے، لیکن ان کی کچھ غزلوں کے اشعار مشہور بھی ہیں۔ اس ضمن میں‌ یہ واقعہ باذوق قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    فخرِ شعرائے ایران، شیخ علی حزیں ہندوستان آئے اور پوچھا! شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحبِ کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا۔ سودا نے سنا تو خود ملاقات کو پہنچ گئے۔ شیخ صاحب کی نازک مزاجی اور عالی دماغی مشہور تھی۔ سودا سے کلام سنانے کو کہا تو انھوں‌ نے اپنا یہ شعر سنایا۔

    ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
    تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

    شیخ نے شعر سنا اور پوچھا کہ تڑپے کا معنیٰ کیا ہے۔ سودا نے جواب میں‌ کہا کہ ہند میں ’طپیدن‘ کو تڑپنا کہتے ہیں۔ شیخ نے ان سے دوبارہ شعر سنا اور زانو پر ہاتھ مارکر کہا! مرزا رفیع سودا، تم نے قیامت کردی۔ ایک مرغ قبلۂ نماز باقی تھا، تم نے تو اسے بھی نہ چھوڑا۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور بغل گیر ہوکر ساتھ بٹھا لیا۔

    1713 کو مغل دور میں‌ پیدا ہونے والے مرزا رفیع‌ سود 1781 میں‌ راہی ملکِ عدم ہوئے تھے۔