Tag: اردو کہانی

  • ایک سچا افسانہ

    ایک سچا افسانہ

    بیگم ہُرمُزی جلیل قدوائی پاکستان کے ادب اطفال میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں جن تحریر کردہ یہ کہانی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے اوصاف و کردار سے متعلق ہے۔ اس کہانی کا مقصد بچوں کی اخلاقی تربیت اور ان میں انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھانا ہے۔

    اب سے کوئی پانچ سو برس پہلے کا ذکر ہے کہ ہند دستان پر پہلا مغل بادشاہ بابر حکومت کرتا تھا۔ بابر کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ جس وقت اس کی عمر بارہ سال کی تھی اُس وقت سے اُسے ایک چھوٹی سی سلطنت فرغنہ کی حکومت سنبھالنی پڑی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس چھوٹی ریاست پر حکومت کرتے کرتے کابل کی حکومت اور بعد میں ہندوستان جیسی بڑی سلطنت کا مالک بن گیا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں وہ اس لائق کیسے ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور دیانت داری کی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا کیوں کہ اللہ میاں بھی ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جن میں کسی کام کی سچی لگن ہوتی ہے اور جو محنت سے جی نہیں چراتے۔

    باہر کہنے کو اتنا بڑا شہنشاہ تھا لیکن وہ اور بادشاہوں کی طرح عیش و آرام میں وقت نہیں ضائع کرنا تھا ۔ وہ حکومت کے کاموں سے فرصت پاکر ہمارے تمھارے جیسے کپڑے پہن کر گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت کیا کرتا تھا۔ اگر وہ شاہی لباس میں باہر نکلتا تو اپنی رعایا کے اصل حالات سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا۔

    ایک روز بابر سادہ لباس میں اپنے گھوڑے پر گشت کو نکلا۔ ایک دم بازار میں شور اٹھا اور لوگ جیسے اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ دکان داروں نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں۔ ان کے چہرے خوف و دہشت سے پہلے پڑ گئے۔

    بابر نے بھگدڑ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو روکا اور لوگوں سے پوچھا کہ اس شور کی کیا وجہ ہے۔ معلوم ہوا کہ شاہی فیل خانے سے ایک ہاتھی زنجیر تڑا کر نکل آیا ہے اور اس کے ڈر سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے والی سڑک پر ایک بچہ جس نے ابھی بیٹھنا بھی نہیں سیکھا تھا پڑا ہے۔

    بابر نے تیزی سے اپنے گھوڑے کو بچے کی طرف موڑ دیا۔ اُس کے پاس پہنچ کر جھٹ نیچے اترا اور بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر وہاں سے گھوڑا دوڑا دیا۔ بابر اور ہاتھی کے درمیان کوئی بیس قدم کا فاصلہ رہ گیا ہوگا۔ تمام لوگ اپنی چھتوں اور کھڑکیوں سے یہ خوفناک مگر دلیرانہ منظر دیکھ رہے تھے اور اس بہادر کی تعریف کر رہے تھے۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ان کا بادشاہ ہے۔ باہر اس بچے کو سینے سے چمٹائے اپنے محل میں پہنچا۔ بچہ میلی کچیلی حالت میں تھا۔ بابر نے اُسے غسل دلوایا۔ اس کے لئے صاف ستھرے کپڑے منگوائے جنھیں پہنا کر اسے دودھ پلوایا اور آرام سے نرم نرم بستر پر سلوا دیا۔ دوسرے دن بابر نے ایک شان دار دربار طلب کیا اور منادی کرا دی کہ خلقت کو آنے کی عام اجازت ہے، یعنی عور تیں مرد، امیر، غریب ، بوڑھے، بالے سب آئیں، اور ہوا بھی یہی کہ وقت مقررہ پر شہر کی تقریباً ساری رعایا دربار میں جمع ہو گئی۔ نقیب چوبدار وغیرہ ہر طرف کھڑے انھیں سنبھال رہے تھے۔ سب لوگ بڑے اشتیاق اور بے چینی سے منتظر تھے کہ کب بادشاہ سلامت تشریف لائیں اور کب وہ سب انھیں دیکھیں۔

    آخر وہ گھڑی بھی آگئی کہ بادشاہ سلامت اپنے سادے لباس میں اس بچے کو سینے سے لپٹا کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ تمام لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے کہ یا اللہ یہ کیسا سیدھا سادہ بادشاہ ہے اور یہ بچہ کون ہے۔ کچھ لوگ اس حادثے کے وقت بازار میں موجود تھے جنھوں نے اس شخص کو بچہ اٹھاتے دیکھا تھا، وہ پہچان گئے۔

    اتنے میں بادشاہ کے وزیر خاص نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے اُس بچے کو ہاتھوں میں اٹھا کر سب کو دکھایا اور سارا واقعہ بیان کیا کہ وہ بادشاہ کو کیسے ملا۔ پھر وزیر نے کہا کہ جس کسی کا کبھی بچہ ہو وہ اسے آکر لے جائے۔

    ایک غم زدہ عورت مجمع کو چیرتی پھاڑتی، روتی دھوتی ہزار دقّت سے تختِ شاہی تک آئی اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔ پھر وہ خوشی کے آنسو پوچھتی ہوئی بچہ کی طرف لپکی۔ اُس نے اٹھا کر اس کا منہ چوما ۔ خوب سا پیار کیا اور سینے سے چمٹا کر بادشاہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنی جگہ واپس آگئی۔

    اب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس مہترانی کا تھا جو اس حادثے سے پہلے اسے سڑک کے کنارے لٹا کر صفائی کرنے چلی گئی تھی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر کے واپس آئی تو ہاتھی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی تھی اور وہ بچے تک نہ پہنچ سکی۔ بہت سے لوگ بچے کے نزدیک تھے مگر وہ سب اپنی جان کے خوف سے چھپ گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ کون ایک غریب بھنگن کے بچہ کو بچائے اور یہ کہ وہ اُس کو چھونے سے ناپاک ہو جائیں گے، بچے کو بے بس چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

    بابر کو یہ معلوم تھا کہ بھنگی کے سوا کسی کا بچہ سڑک پر پڑا نظر نہیں آسکتا لیکن اُس نے امیری غریبی یا پاکی ناپاکی کیا بالکل خیال نہ کیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچے کو بچا لیا۔

    اب ہر بڑے چھوٹے امیر غریب کی زبان پر اپنے بادشاہ کی تعریف تھی۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ بھئی واہ کتنا نیک دل کیسا مہربان بادشاہ ہے۔ ایسے بادشاہ پر تو رعایا کو اپنی جان قربان کر دینا چاہیے۔ کسی کا اپنے بادشاہ کے دربار سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر جانا تو تھا ہی… تھوڑی دیر بعد سب اس کی تعریف کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنے گھر واپس ہوئے۔

    اور مہترانی کا کچھ حال نہ پوچھو ۔ کتنی خوش ، کتنی باغ باغ تھی وہ ۔ یوں سمجھو کہ اُس کا کھویا ہوا لحل مل گیا ۔ اس کا تو رواں رواں بادشاہ کو ہزاروں دعائیں دے رہا تھا۔

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    کہتے ہیں خوش قسمتی کو عقل و دانش اور دانائی سے اپنے گھر نہیں بلایا جاسکتا بلکہ نصیب تو مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ جو چیز کسی انسان کے نصیب میں نہ ہو وہ اسے اپنی عقل لڑا کر اور دانائی کی بدولت ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔

    اس کہاوت سے متعلق ایک قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص خچر پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ اس جانور کے دونوں طرف دو بوریاں لٹکی ہوئی تھیں۔ اسے راستے میں ایک شخص ملا۔ وہ کوئی راہ گیر تھا۔ دونوں میں علیک سلیک ہوئی تو راہ گیر نے خچر سوار سے پوچھا کہ ” ان دونوں بوریوں میں کیا ہے۔”

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    وہ شخص جو اس خچر اور مال و اسباب کا مالک تھا، اس نے جواب دیا کہ ” ایک بوری میں گندم ہے، اور دوسری طرف کی بوری میں وزن برابر کرنے کے لیے ریت بھری ہے تاکہ میرا جانور برابر وزن کی وجہ سے آسانی سے چل سکے۔”

    مسافر نے یہ سنا تعجب کیا اور کہنے لگا کہ ” بھائی! ریت کی بوری کی کیا ضرورت تھی، اگر گندم ہی کو برابر برابر وزن میں تقسیم کر کے باندھ دیتے تو بے چارے جانور کو ان کا بوجھ ڈھونے میں آسانی ہوتی اور آپ کو بھی اس بلاوجہ کی مشقت سے نجات ملتی۔”

    یہ سن کر خچر سوار حیرانی سے بولا، ”ہاں بھائی! آپ نے بات تو بڑے پتے کی بتائی، لیکن یہ بتائیے کہ اتنی عقل رکھنے کے باوجود آپ پیدل سفر کیوں کر رہے ہیں؟” اس شخص نے کہا کہ ”یہ اپنی اپنی قسمت اور نصیب ہے۔”

    اس پر خچر سوار شخص نے کہا، ” پھر تو ایسی عقل کو اپنے ہی پاس رکھیے جو آپ کو پیدل چلا رہی ہے اور مجھے خچر اور گھوڑے نصیب ہیں۔ مجھ کو میری کم عقلی اور بے وقوفی مبارک کہ میں اپنے سفر کے لیے ایک خچر تو رکھ سکتا ہوں اور ایک آپ ہیں کہ عقل مند ہونے کے باوجود پیدل کتنی دور دور کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔”

    (مصنف و مترجم نامعلوم)

  • بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی بدقسمت بھی۔ کم از کم اپنی نظروں میں۔ اس کا شوہر اچھے عہدے پر فائز تھا۔ وہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ بظاہر کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ لیکن اسے ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا احساس رہتا۔ یہی سوچتی کہ اگر تھوڑا سا پیسہ اور آ جائے تو زندگی بن جائے۔ اس کے سر پر بس یہی ایک دھن سوار ہتی۔ ”پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔“

    ”امی ہمارے پاس کار کیوں نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ انکل آسکر سے لفٹ کیوں مانگتے ہیں۔“ ایک دن پال، اس کے سات سال کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔

    ”اس لئے بیٹا کہ ہمارے پاس جتنا ہونا چاہیے اتنا پیسہ نہیں ہے۔“

    ”وہ کیوں؟ “

    ”اس لئے کہ ہم بد قسمت ہیں۔“

    ”لیکن امی میں توخوش قسمت ہوں۔“

    ماں نے پیار اور تجسس بھری نظروں سے پال کو دیکھا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہے کہ وہ خوش قسمت ہے۔

    ”اس لئے کہ مجھے خدا نے خود بتایا ہے“

    ”ضرور بتایا ہوگا بیٹا“

    ماں نے مصنوعی مسکراہٹ سے جوا ب دیا۔ اس مسکراہٹ میں ایک تلخی شامل تھی۔ بیٹے کو احساس ہو گیا تھا کہ ماں نے اس کا دل رکھنے کو اس کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ جس پر اسے دکھ بھی ہوا اورغصہ بھی آیا۔ وہ مزید بات کیے نرسری میں چلا گیا جہاں اس کی چھوٹی جڑواں بہنیں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔

    نرسری میں اس کا پسندیدہ کھلونا رکھا تھا۔ یہ کھلونا لکڑی کا ایک گھوڑا تھا اتنا بڑا کہ بچے اس پر سواری کر سکیں۔ سموں کے نیچے کمان دار لکڑی لگی ہوئی تھی جس سے تیز تیز جھولے آتے۔ پال غصے میں گھوڑے پر بیٹھ کر زور زور سے جھولے لینے لگا۔

    ماں کی باتیں سن سن کر پال اس فکر میں رہتا کہ وہ اپنی ماں کی قسمت کو کیسے بدل سکتا ہے۔ اکثر سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا جنوں جھلکنے لگتا۔ وہ کاٹھ کے گھوڑے سے پر اسرار آواز میں مخاطب ہو کر اس سے کہتا۔

    ”مجھے وہاں لے چل جہاں اچھی قسمت ملتی ہے۔ “

    ایک دن وہ اسی جنونی کیفیت میں گھوڑے کو دڑکی لگوا رہا تھا کہ اس کی ماں اور ماموں، انکل آسکر، کمرے میں داخل ہوئے۔

    ”پال اب تم اس کھیل کے گھوڑے کے لئے کچھ بڑے نہیں ہو گئے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔
    پال نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”تمہارے اس گھوڑے کا نام کیا ہے؟ “

    ”اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ کل اس کا نام گڈ لک تھا۔ اور اس سے پہلے ہفتے میں گولڈن ایرو۔“

    ”یہ تو اسکاٹ ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام ہیں۔ تمھیں یہ نام کیسے معلوم ہوئے؟“

    ”مجھے مالی نے یہ نام بتائے ہیں۔“ پال نے جواب دیا

    مالی کو انکل آسکر نے پال کے والدین کے پاس ملازم رکھوایا تھا۔ مالی ریسز کا شیدائی تھا۔ اسے اکثر گھوڑوں کے شجرے زبانی یاد ہوتے تھے۔ پال کی ماں اور انکل آسکر کو فکر ہوئی کہ کہیں مالی بچے کو بگاڑ تو نہیں رہا۔ وہ مالی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ پال سے کیا گفتگو کرتا ہے۔

    مالی نے بتایا کہ پال فارغ وقت میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر گھوڑوں کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ کہیں پال اپنا جیب خرچ گھوڑوں پر تو نہیں لگاتا۔ لیکن مالی نے کہا کہ سرکار میں گستاخی نہیں کر سکتا مگر یہ بات اگر آپ ماسٹر پال سے خود ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

    اگلے دن انکل آسکر نے پال کو اپنی نئی گاڑی میں بٹھایا اور لمبی ڈرائیو کے لئے لے گئے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ اس نے کبھی گھوڑوں پر شرط لگائی ہے؟ جب پال نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا تو انکل آسکر نے کہا کہ وہ خود ریسز کے شوقین ہیں اور دراصل پال سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اگلے ہفتے اسکاٹ کی ریس میں کس گھوڑے کے جیتنے کی امید ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پال نے بتایا کہ وہ اور مالی پارٹنر شپ میں شرطیں لگاتے ہیں اور اس کے خیال میں اگلی ریس میں ڈیفوڈل کی جیت یقینی ہے۔

    ”ہم کافی عرصے سے پارٹنرز ہیں۔ میں اپنا جیب خرچ مالی کو دے دیتا ہوں اور وہ میری طرف سے شرط لگاتا ہے۔“

    پال کبھی ریس کورس نہیں گیا تھا۔ انکل آسکر نے پال کو اگلی ریس میں ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا جس میں ڈیفوڈل دوڑ رہا تھا۔ انکل آسکر نے پال کے اصرار پر پانچ پاؤنڈ ڈیفوڈل پر اور بیس دوسرے گھوڑوں پر لگائے۔ پال نے تین سو ڈیفوڈل پر لگا دیے۔ خلافِ توقع ڈیفوڈل جیت گیا۔

    ”تم ان تین ہزار پاوْنڈ کا کیا کرو گے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔

    ”میں سب پیسے مالی کے پاس جمع کرا دیتا ہوں۔ یہ ملا کر اب اس کے پاس پانچ ہزار پاونڈ ہو جائیں گے۔ “

    اگلے ہفتے انکل آسکر نے پال اور مالی سے دوبارہ اس بات پر گفتگو کی اور پال سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔

    پال کی بجائے مالی نے جواب دیا۔ ”سر یوں لگتا ہے جیسے ماسٹر پال کوکسی غیبی طاقت کی طرف سے اشارے ہوتے ہیں۔ “

    اب انکل آسکر نے بھی اس پارٹنر شپ میں شرکت کر لی تھی۔ اس کے بعد اگلی ریس میں پال نے ہزار، مالی نے پانچ سو اور انکل آسکر نے دو سو پاؤنڈ ایک اور گھوڑے پر لگائے جس کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن وہی گھوڑا اوّل آیا اور پال دس ہزار پاؤنڈ جیت گیا۔

    ریس کے بعد انکل آسکر نے ایک اندیشے کا اظہار کیا۔ ”دیکھو بیٹا سچی بات یہ ہے کہ مجھے اب کچھ گھبراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ اس عمر میں تم اتنے پیسے کا آخر کیا کرو گے؟ “

    ” میں یہ سب صرف اپنی امی کے لئے کر رہا ہوں۔ اور شاید اسی بہانے وہ خوفناک آوازیں بھی بند ہو جائیں۔“

    ”کون سی خوفناک آوازیں؟ “

    ”مجھے یوں لگتا ہے جیسے گھر کی دیواروں سے آوازیں آ رہی ہوں۔ بد قسمت، بد قسمت، پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ یہ آوازیں مجھے پاگل بنا رہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ امی کو اتنا پیسہ مل جائے کہ وہ اپنے آ پ کو بد قسمت سمجھنا بند کر دیں۔ اور یہ آوازیں آنی بھی بند ہو جائیں۔“

    ” تو پھر تم اب کیا کرنا چاہتے ہو پال؟“

    ”میں امی کو یہ رقم دینا چاہتا ہوں لیکن بغیر بتائے۔

    پال نے دس ہزار پاؤنڈ انکل آسکر کو دے دیے جو اس نے فیملی اٹارنی کو اس ہدایت کے ساتھ دیے کہ وہ دینے والے کا نام نہ بتائے۔ صرف یہ کہے کہ ایک دور کے رشتے دار نے یہ رقم چھوڑی ہے اور وہ اگلے دس سال تک اپنے یوم پیدائش پر ایک ایک ہزار پاؤنڈ وصول کرتی رہے گی۔

    وکیل نے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے یہ ہدایات دہرائیں۔ لیکن پال نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کچھ خوش نہیں تھی۔ وہ مقروض تھی اور چاہتی تھی کہ اسے ساری رقم یک مشت مل جائے۔ کچھ دن کے بعد وکیل نے سب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے۔

    اب اچانک گھر کے حالات میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی۔ مخملیں پردے، نئے صوفے، ڈائننگ سیٹ، حتیٰ کہ ایک نئی کار تک آ گئی۔ گھر سے ”بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے“ کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔

    لیکن پل جھپکنے میں ماں کی فضول خرچیوں میں سب پیسہ ختم ہو گیا اور پھر سے قرض پر نوبت آ گئی۔ وہی آوازیں دو بارہ آنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب وہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔

    اب پال کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی تھی۔ آوازوں سے بچنے کے لئے پال اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن آوازیں ایسے گونجتیں کہ لگتا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا۔

    ڈربی کی ریس چند ہفتوں میں ہونے والی تھی۔ یہ انگلینڈ کی بہت بڑی ریس سمجھی جاتی تھی۔ پال کے سر پر اس ریس کی دھن سوار تھی۔ ماں حیران تھی کہ ڈربی کی ریس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا پال اتنی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔

    پال کے ریس جیتنے کے راز میں ایک اور راز پوشیدہ تھا جو اس نے نہ تو مالی کو بتایا تھا نہ انکل آسکر کو۔

    جب پال ذرا بڑا ہوا تو نرسری سے اس کا بستر ایٹک میں پہنچا دیا گیا تھا۔ پال نے اصرار کیا کہ وہ لکڑی کے گھوڑے کو بھی اپنے نئے کمرے میں لے جائے گا۔ انکل آسکر اور مالی سمجھتے تھے کہ پال کو کوئی غیبی اشارہ ہوتا ہے جس سے اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ پال جب گھوڑے پر بیٹھتا تو اس پر جیسے کسی آسیبی قوت کا غلبہ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک وحشت چھا جاتی۔ چہرہ اور بال پسینے سے تر ہو جاتے۔ وہ اس فرضی سواری پر پورا زور لگا کر نڈھال ہو جاتا۔ گھوڑے کو چابک مارتا اور اسے تیز دوڑنے کی شہ دیتا اور ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام دہراتا رہتا۔ ایک ایک کر کے باقی نام غائب ہو جاتے صرف ایک نام رہ جاتا۔ وہی گھوڑا ریس جیت جاتا تھا۔

    ماں کے ساری رقم لٹانے کے بعد سے پال بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس کی نظریں دور افق کے پار دیکھتی رہتیں۔ اس کی ماں کا فکر سے برا حال تھا۔ وہ پال کی وجہ سے اب ہر وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رہنے لگی تھی۔

    ڈربی سے ایک رات پہلے وہ ایک ڈانس پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو جب پارٹی عروج پر تھی اس پر اچانک جیسے اضطراب کا دورہ پڑا۔ گھبرا کر اس نے گھر فون کیا جہاں آیا بچوں کی نگہبانی کر رہی تھی۔ آیا نے بتایا کہ وہ دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ہے جو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پال کافی پہلے سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

    پارٹی ختم ہونے میں ابھی دیر تھی لیکن ماں نے شوہر سے کہا کہ وہ ابھی گھر جانا چاہتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دبے پاؤں پال کے کمرے کا رخ کیا۔ جب وہ ایٹک جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اسے کچھ عجیب سی آوازیں پال کے کمرے سے آتی سنائی دیں۔ اس نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو لگا جیسے کوئی بھاری بھاری سانس لے رہا ہے اور ایک ہی لفظ دہرائے جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کھڑکی کی روشنی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔

    یہ سایہ لکڑی کے گھوڑے کا تھا جس پر پال سوار تھا۔ ماں کا دل خوف اور تجسس سے ایسے دھڑک رہا جیسے پھٹ جائے گا۔ اب اس نے دروازہ پورا کھول دیا لیکن پال کو کچھ احساس نہیں ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ ماں نے بجلی کا سوئچ آن کیا اور روشنی میں دیکھا کہ پال پسینے میں شرابور گھوڑے پر بیٹھا جیسے اسے سر پٹ دوڑا رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں چابک جس کو وہ پوری قوت سے گھوڑے کی گردن پر مار رہا تھا۔

    اس کی زبان پر صرف ایک لفظ کی تکرار تھی ”مالا بار، مالا بار، مالا بار۔“ ماں لپک کر پال کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا، پال ایک پتھر کی طرح فرش پر گر پڑا۔ ماں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکی۔ ہولناک چیخ سن کر شوہر کمرے میں آیا اور پال کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔

    ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ پال بخار میں تپتا رہا۔ ماں باپ گیلی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتے رہے۔ انکل آسکر کو فون کیا۔ ڈاکٹر کو بلایا لیکن بخار کی تپش ویسی ہی رہی۔ دوپہر کے وقت پال نے پھر مالا بار، مالا بار، مالا بار کی رٹ شروع کر دی۔ اتنے میں مالی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سرگوشیوں میں انکل آسکر کو بتایا کہ مالا بار جیت گیا ہے اور ایک کی بازی پر بیس کے حساب سے پال کو شرط پر بیس ہزار پاؤنڈ ملے ہیں۔

    پال کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ماں سے مخاطب تھا۔ ”امی، مالا بار ڈربی جیتے گا۔ وہ پہلے نمبر پر آئے گا۔ سب سمجھ رہے ہیں اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس پر بہت کم لوگ پیسے لگائیں گے۔ اس لئے مالا بار کی جیت کا انعام بہت بڑا ہو گا۔ میں نے اس پر ایک ہزار پاؤنڈ لگائے ہیں۔ امی اب آپ کو پیسے کی کوئی فکر نہیں رہے گی۔ اب بد قسمت۔ بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے کی خوفناک آوازیں آنی بند ہو جائیں گی۔ اب مکان خاموش ہو جائے گا۔ آپ خوش قسمت ہو جائیں گی امی۔ آپ کی قسمت جاگ جائے گی۔ اب آپ کو پیسے کی کمی نہیں رہے گی۔“

    یہ کہ کر نئی نئی دولت مند لیکن بد قسمت ماں کے بیٹے نے آخری سانس لی اور ماں کے بازؤں میں دم توڑ دیا۔

    (ڈی ایچ لارنس کی کہانی کا ترجمہ از شاہد اختر)

  • فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    کسی ملک میں لٹیروں کا کوئی گروہ بڑا طاقت ور ہوگیا۔ اس میں شامل لٹیروں کے پاس بہت سے ہتھیار بھی تھے۔ وہ لوگوں سے لوٹ مار کرتے اور قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ہر طرف اس گروہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کی شکایات پر بادشاہ نے اپنی فوج کو ان لٹیروں کی سرکوبی کا حکم دے دیا۔ یہ چور ملک کی ایک پہاڑ کی چوٹی پر قابض تھے۔ یہی ان کی کمین گاہ تھی۔

    ایک روز فوج کے چند سپاہیوں نے علاقے کو گھیر کر لٹیروں کے خلاف کارروائی شروع کی لیکن ناکام ہوگئے۔ کیونکہ لٹیرے پہاڑی کی ایسی پوزیشن پر تھے کہ ان کو نقصان ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی بادشاہ کے سپاہیوں کو نشانہ بناتے اور خود محفوظ رہتے۔ شاہی فوج کی یہ چھوٹی سی ٹکڑی انھیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکام لوٹ گئی۔ اس طرح اس گروہ کی ہمّت بڑھ گئی۔ وزیرِ دفاع نے صلاح مشورہ کے بعد ایک فیصلہ کیا اور ایک جاسوس نے جب یہ اطلاع دی کہ لٹیرے کہیں گئے ہوئے ہیں تو چند تجربہ کار، جنگ آزمودہ لوگ اس پہاڑ کی طرف نکلے اور وہاں ایک گھاٹی میں چھپ گئے۔ رات گئے ڈاکو کہیں سے لوٹ مار کے بعد واپس آئے، ہتھیار اتارے، لوٹا ہوا مال غار میں رکھا اور تھکن کی وجہ سے پڑ کر سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا تو وہ ماہر لڑاکا گھاٹی سے نکلے اور انھیں نیند کے عالم میں‌ پکڑ لیا۔ تیزی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور صبح بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ ابھی بادشاہ کے حکم پر ان کو مار دیا جائے گا۔ ان لٹیروں میں ایک خوب صورت نوجوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی پھوٹ رہی تھی۔ ایک وزیر کو اس پر ترس آیا اور بادشاہ سے اس کی سفارش کی کہ اس بے چارے نے ابھی اپنی جوانی بھی نہیں دیکھی۔ میری سفارش قبول کرتے ہوئے اس کا خون معاف کیا جائے۔ یہ آپ کا اس سے زیادہ مجھ پر احسان ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر لال پیلا ہو گیا کیونکہ یہ بات اس کے مزاج کے خلاف تھی۔ جس کی اصل بری ہو وہ نیکوں کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔ بادشاہ نے کہا کہ ان چوروں کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ کو بجھا کر چنگاری چھوڑ دینا یا سانپ کو مار دینا اور اس کے بچّے کی حفاظت کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر بادل سے آبِ حیات بھی برسے تب بھی تجھے بید کی شاخ سے پھل نہ ملے گا، کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر، کیونکہ بوریے کے نرکل سے شکر نہیں ملے گی۔

    وزیر نے بادشاہ کی یہ بات سن کر بادلِ نخواستہ رضا مندی ظاہر کی اور بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا آپ کا فرمان بجا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہو گیا ہے۔ اب اگر اس کو معاف کر دیا جائے تو نیکوں کی صحبت میں رہ کر ہو سکتا ہے نیک ہو جائے۔ ابھی بچّہ ہے اور ان کی صحبت کے اثر نے بھی اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی۔ وزیر کی یہ بات سن کر دربار میں سے کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔چنانچہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کردیا۔ اس لڑکے کو وزیر نے اپنے ایک شاہی خادم کے سپرد کردیا۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ایک استاد نے اس کو آداب سکھائے، بات چیت کا طریقہ بتایا، شاہوں کی بارگاہ میں بیٹھنے کا سلیقہ تک سکھایا اور واقعی سب اس کو پسند کرنے لگے۔ ایک دن وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہ عقلمندوں کی کوششوں نے اس کی طبیعت پر بہتر اثر کیا ہے اور اس نے پرانی عادتیں چھوڑ دی ہیں۔

    بادشاہ نے مسکرا کر کہا!آخر کار بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے، اگرچہ انسانوں کے ساتھ تربیت پائے۔ وزیر یہ سن کر چپ ہوگیا مگر دل میں بادشاہ کی اس بات کا بڑا ملال ہوا۔ تقریباً دو سال گزرے ہوں گے کہ اس لڑکے کی چند آوارہ مزاج اور بدمعاش قسم کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔ اس کا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ وزیر کے شاہی خادم نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اور نہ ہی وزیر سے اس کا ذکر کیا۔ ایک روز عجیب بات ہوئی۔ وہ لڑکا اور اس کے دوست کسی طرح وزیر کے گھر میں‌ گھس گئے۔ انھوں نے وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر کے اس کا سارا مال جمع کیا اور بھاگ گئے۔ وہ لڑکا اب اپنے انہی ساتھیوں‌ کو لے کر چوروں کی گھاٹی میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا، گھٹیا لوہے سے اچھی تلوار نہیں بن سکتی، سکھانے پڑھانے سے نالائق، لائق نہیں ہو سکتا، جس کی طبیعت میں برائی رچ بس جائے اس پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی لہٰذا ہر وقت اس کے شر سے محتاط رہنا چاہیے۔

    (ماخوذ از سبق آموز کہانیاں اور حکایت)

  • تین مچھلیاں (حکایت)

    تین مچھلیاں (حکایت)

    کسی دریا کے کنارے چھوٹا سا جوہڑ تھا جس میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ ان میں ایک بہت عقلمند اور ہوشیار تھی، دوسری نسبتاً‌ کم ہوشیار اور تیسری بہت ہی کاہل تھی، لیکن آپس میں بہت پیار اور اتفاق سے رہتی تھیں۔ اس پیار محبت اور اتحاد میں بڑا کردار عقلمند مچھلی کا تھا۔ وہ دوسری دونوں مچھلیوں کو اچھے اچھے مشورے دیتی اور ان کا خیال رکھتی تھی۔

    جس جوہڑ میں وہ تینوں مچھلیاں رہتی تھیں وہاں انسانوں کی آمدورفت بہت کم تھی، مگر اس کا پانی دریا سے ایک چھوٹی سی کھاڑی کے راستے ملا ہوا تھا۔ کبھی دریا کا پانی اس جگہ پر آ جاتا اور کبھی تینوں مچھلیاں کھاڑی کے راستے کھلے دریا میں چلی جاتیں اور پھر کچھ دیر گھوم پھر کر خوش و خرم واپس آ جاتیں۔

    ایک دن دو مچھیرے ادھر آ نکلے۔ وہ سارا دن دریا میں جال ڈالے بیٹھے رہے، مگر آج ان کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ کھلے دریا میں مچھلیوں کو مچھیروں کے جال سے بچنے کے زیادہ مواقع میسّر تھے۔ تھک ہار کر دونوں مچھیرے کچھ دیر کے لیے اپنے جال دریا کے کنارے پر چھوڑ کر سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ اتفاقاً وہ ان تینوں مچھلیوں کے جوہڑ کی طرف ہی آ نکلے تھے۔ تینوں مچھلیاں اپنی عادت کے مطابق اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔

    "ارے! وہ دیکھو مچھلیاں!” ایک مچھیرے کی نظر جوہڑ کے پانی پر پڑ گئی تھی۔

    "واقعی! یہ تو بڑی موٹی تازی ہیں۔ دوسرے نے کہا۔ آؤ جلدی سے جال لے آئیں۔” دونوں مچھیرے جلدی سے اپنے جال لینے چلے گئے۔

    ان دونوں مچھیروں کی گفتگو عقلمند مچھلی نے سن لی تھی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ اسے خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے فوری طور پر اپنی دونوں سہیلیوں کو خطرے سے آگاہ کیا۔ اب تو وہ دونوں بھی بہت پریشان ہوئیں۔ ان دونوں مچھلیوں نے عقلمند مچھلی کی منت و سماجت کی کہ جان بچانے کا کوئی طریقہ بتائے۔

    "چلو یہاں سے دریا کی طرف بھاگ چلیں۔” عقلمند مچھلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

    "مگر وہاں بھی مچھیرے ہوں گے۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    "ہاں، یہ تو ہے، مگر کھلے دریا میں ہم زیادہ محفوظ ہوں گے۔” عقلمند مچھلی نے جواب دیا۔

    "بات تو ٹھیک ہے۔” دوسری مچھلی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

    "لیکن اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ کچھ دیر تو رک جاؤ۔ مچھیروں کو آنے میں دیر لگے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آج ادھر آئیں ہی نہیں۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    عقلمند مچھلی نے اسے سمجھایا، "دیکھو، وقت بہت کم ہے۔ ہمیں اس طرح‌ نہیں سوچنا چاہیے بلکہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اپنی حفاظت کا سامان کریں۔”

    مگر دوسری مچھلیوں کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ ایک تو تھی کم عقل اور دوسری بہت کاہل۔ مجبور ہو کر عقلمند مچھلی کھاڑی سے ہوتی ہوئی کھلے دریا میں چلی گئی۔ اس اثنا میں مچھیرے اپنا جال اٹھائے اس جوہڑ کی طرف آچکے تھے، جہاں انہوں نے مچھلیاں دیکھی تھیں۔ ان کی آوازیں اس مچھلی نے سنیں جو کم ہوشیار تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ عقلمند مچھلی نے صحیح کہا تھا۔ اب بھی وقت ہے یہاں سے نکل جائے تو جان بچ سکتی ہے، چناچہ فوراً ہی اس نے کھاڑی میں راستہ دیکھا اور اس سے پہلے کہ مچھیرے جال پھینک کر کھاڑی کا راستہ بند کرتے وہ دریا میں پہنچ گئی۔ لیکن تیسری اور کاہل مچھلی اس بات کا انتظار کررہی تھی کہ اسے مچھیروں کا جال نظر آئے۔ وہ یہ خیال کیے ہوئے تھی کہ شاید مچھیرے اپنا ارادہ بدل لیں گے اور یہ سوچیں‌ گے کہ اتنے سے پانی میں شکار کرنا کسی شکاری کو زیب نہیں دیتا۔ جوہڑ کی مچھلی شکار کی تو کیا تیر مارا۔ اصل میں یہ باتیں‌ بہت پہلے اس طرف آنے والے کچھ مچھیروں سے سن چکی تھی۔ وہ جوہڑ کے پاس بیٹھے ایسی باتیں‌ کررہے تھے۔ اس مچھلی کو سستی اور کاہلی نے گویا مفلوج کردیا تھا کہ وہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احتیاط کرنے سے غافل ہوگئی۔ آج برا دن تھا۔ مچھیروں نے کھاڑی پر جال پھینک کر آہستہ آہستہ کھینچنا شروع کیا۔ اب تو کاہل مچھلی بہت پچھتائی مگر وہ کھاڑی سے کھلے دریا میں‌ نہیں جاسکی اور لمحوں میں جال میں پھنس گئی۔ آخر وہ مچھیروں کو پیاری ہوگئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • میٹھے جوتے

    میٹھے جوتے

    ننھّے بھائی بالکل ننھّے نہیں بلکہ سب سے زیادہ قد آور اور سوائے آپا کے سب سے بڑے ہیں۔ ننھے بھائی آئے دن نت نئے طریقوں سے ہم لوگوں کو الّو بنایا کرتے تھے۔

    ایک کہنے لگے، ’’چمڑا کھاؤگی؟‘‘

    ہم نے کہا، ’’نہیں تھو! ہم تو چمڑا نہیں کھاتے۔‘‘

    ’’مت کھاؤ!‘‘ یہ کہہ کر چمڑے کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لیا اور مزے مزے سے کھانے لگے۔ اب تو ہم بڑے چکرائے۔ ڈرتے ڈرتے ذرا سا چمڑا لے کر ہم نے زبان لگائی۔ ارے واہ، کیا مزے دار چمڑا تھا، کھٹا میٹھا۔ ہم نے پوچھا، ’’کہاں سے لائے ننھّے بھائی؟‘‘

    انہوں نے بتایا، ’’ہمارا جوتا پرانا ہو گیا تھا، وہی کاٹ ڈالا۔‘‘

    جھٹ ہم نے اپنا جوتا چکھنے کی کوشش کی۔ آخ تھو، توبہ مارے سڑاند کے ناک اڑ گئی۔

    ’’ارے بے وقوف! یہ کیا کر رہی ہو؟ تمہارے جوتے کا چمڑا اچھا نہیں ہے اور یہ ہے بڑا گندا۔ آپا کی جو نئی گرگابی ہے نا (ایک قسم کی جوتی جو فیتوں کے بغیر پنجوں تک ہوتی ہے)، اسے کاٹو تو اندر سے میٹھا میٹھا چمڑا نکلے گا۔‘‘ ننھے بھائی نے ہمیں رائے دی۔

    اور بس اس دن سے ہم نے گرگابی کو گلاب جامن سمجھ کر تاڑنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا۔

    عید کا دن تھا۔ آپا اپنی حسین اور مہ جبین گرگابی پہنے، پائنچے پھڑکاتی، سویاں بانٹ رہی تھیں۔ آپا ظہر کی نماز پڑھنے جونہی کھڑی ہوئیں، ننھے میاں نے ہمیں اشارہ کیا۔

    ’’اب موقع ہے، آپا نیت توڑ نہیں سکیں گی۔‘‘

    ’’مگر کاٹیں کاہے سے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    ’’آپا کی صندوقچی سے سلمہ ستارہ کاٹنے کی قینچی نکال لاؤ۔‘‘

    ہم نے جونہی گرگابی کا بھورا ملائم چمڑا کاٹ کر اپنے منہ میں رکھا، ہمارے سر پر جھٹ چپلیں پڑیں۔ پہلے تو آپا نے ہماری اچھی طرح کندی(مار پیٹ) کی، پھر پوچھا ’’یہ کیا کر رہی ہے؟‘‘

    ’’کھا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے نہایت مسکین صورت بنا کر بتایا۔

    یہ کہنا تھا سارا گھر ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ہماری تکا بوٹی ہو رہی تھی کہ ابا میاں آ گئے۔ مجسٹریٹ تھے، فوراً مقدمہ مع مجرمہ اور مقتول گرگابی کے روتی پیٹتی آپا نے پیش کیا۔ ابا میاں حیران رہ گئے۔ ادھر ننھے بھائی مارے ہنسی کے قلابازیاں کھا رہے تھے۔ ابا میاں نہایت غمگین آواز میں بولے، ’’سچ بتاؤ، جوتا کھا رہی تھی؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم نے روتے ہوئے اقبالِ جرم کیا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میٹھا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’جوتا میٹھا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ہم پھر رینکے۔

    ’’یہ کیا بک رہی ہے بیگم؟‘‘ انہوں نے فکر مند ہو کر اماں کی طرف دیکھا۔

    اماں منہ بسور کر کہنے لگیں۔ ’’یا خدا! ایک تو لڑکی ذات، دوسرے جوتے کھانے کا چسکا پڑگیا تو کون قبولے گا۔‘‘

    ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی چمڑا سچ میں بہت میٹھا ہوتا ہے۔ ننھے بھائی نے ہمیں ایک دن کھلایا تھا، مگر کون سنتا تھا۔

    ’’جھوٹی ہے۔‘‘ ننھے بھائی صاف مکر گئے۔ بہت دنوں تک یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ خود ہماری عقل گم تھی کہ ننھے بھائی کے جوتے کا چمڑا کیسا تھا جو اتنا لذیذ تھا۔

    اور پھر ایک دن خالہ بی دوسرے شہر سے آئیں۔ بقچیہ کھول کر انہوں نے پتوں میں لپٹا چمڑا نکالا اور سب کو بانٹا۔ سب نے مزے مزے سے کھایا۔ ہم کبھی انہیں دیکھتے، کبھی چمڑے کے ٹکڑے کو۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ جسے ہم چمڑا سمجھتے تھے، وہ آم کا گودا تھا۔ کسی ظالم نے آم کے گودے کو سکھا کر اور لال چمڑے کی شکل کی یہ ناہنجار مٹھائی بنا کر ہمیں جوتے کھلوائے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور افسانہ نگار عصمت چغتائی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی)

  • رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

    وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    ( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

  • موامبا کی یاد

    موامبا کی یاد

    جب سے موسم انتہائی ابرآلود رہنے لگا تھا، جب سے مضحکہ خیز اور نشے کی حد تک مصرف پسند انگریز پورٹ سعید میں اترے تھے، ہمارے لیے دن بہت طویل ہو گئے تھے۔ تب بحری جہاز پر گزارے جانے والے بہت سے دنوں اور ہفتوں کے دوران ایک فضول سی بلاوجہ اداسی اور شوریدگی کی ایک غیر واضح سی عادت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی سر اٹھانے لگا تھا کہ جیسے دنیا بھر کا سفر کرنے والے بیٹھے بیٹھے ضائع ہونے لگے ہوں۔ میں ان دو یا تین ہفتوں کے بارے میں کبھی سوچوں بھی تو ناخوشی سے اور مجبوری میں ہی سوچتا ہوں۔

    ایک روز ہم ایک بار پھر کچھ کچھ کانپتے، سمندر میں پیدا ہونے والی آوازوں اور انجن کی چھک چھک کو سنتے عرشے پر ادھر ادھر کھڑے تھے۔ آسمان سیسے کی طرح سرمئی رنگ کے روئی جیسے بادلوں کی ایک دوسرے کے بہت قریب تک سرکتی جا رہی ٹکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سمندر ہمیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لیے ہوئے اور کم آواز تھا، ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں جیسی اس کی لمبی لہریں دور تک جانے کے باوجود کافی نیچی رہتی تھیں اور وہ ہلکا پیلا اور افسردہ تھا۔

    ہمارے سامنے ایک ڈرم پر موامبا بیٹھا تھا، وہ سیاہ فام جس کا جہاز پر کام یہ تھا کہ وہ بوریت کے اوقات میں داستان گوئی، ہلکے پھلکے مزاح اور شرارتوں کے ساتھ ہماری تفریح کا سامان کرے۔ وہ یہ کام اپنی مضحکہ خیز نیگرو انگریزی میں کرتا تھا، جس دوران وہ جگہ جگہ زبان کی چبھنے والی لیکن دانستہ غلطیاں کر کے اپنے بیان کو بہت دلچسپ بھی بنا دیتا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا سگار پی رہا تھا اور جہاز کے انجن کی چھک چھک سے ہم آہنگ ہو کر دائیں بائیں جھومتا، اپنی آنکھیں گھماتا، چھوٹے چھوٹے حصوں میں اپنا پرجوش بیان جاری رکھے ہوئے تھا۔

    ہر کہانی سنانے کے بعد اسے ایک سگار دیا جاتا، جو دیکھا جائے تو اس کے کام کی کافی اچھی اجرت تھی۔ اس لیے کہ اس کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں بالکل دلچسپ نہیں ہوتی تھیں اور کئی مرتبہ تو کوئی اسے سن بھی نہیں رہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی بوریت اور بیزاری کا شکار ہو کر ہم سب اس کے قریب جگہ جگہ کھڑے اس کو سنتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ “اور سناؤ!” ہر چند منٹ بعد ہم میں سے کوئی ایک یہ کہتا اور ایک سگار اس کی طرف بڑھا دیتا۔ “شکریہ، میرے آقا۔ میں سناتا ہوں۔”

    “ایک آدمی تھا، جو بیمار تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دائیں پہلو میں بھی اور بائیں میں بھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھا اور بار بار درد سے چیخنے لگتا۔ بڑا شدید درد تھا جو محسوس ہوتا تھا اس آدمی کو۔ پھر ایک دوسرا آدمی اس کے پاس آیا اور اپنے ساتھ دو پاؤنڈ سفید کاڑھا لایا، سؤر کی چربی سے بنا ہوا۔ بیمار آدمی وہ چربی والا کاڑھا پی گیا۔ اس کے بعد اسے متلی ہونے لگی تو اسے قے بھی کرنا پڑی۔ لیکن پھر وہ دوبارہ بالکل صحت مند ہو گیا۔” اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ اس کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔

    “کیا فضول باتیں کر رہے ہو،” ہم میں سے ایک بولا۔ “یہ لو، پکڑو اسے۔ اور اب ہمیں کوئی ڈھنگ کی بات سناؤ، تمہاری اپنی، کوئی مزیدار سی بات، سمجھے کہ نہیں؟”

    “ٹھیک ہے۔ میں سناتا ہوں۔ طویل عرصہ پہلے، جب میں ابھی ایک برا انسان تھا۔ میں نے، موامبا نے، کچھ برے کام بھی کیے تھے۔ اب موامبا ایک اچھا انسان ہے، اور سفید فام مردوں کو طرح طرح کی کہانیاں سناتا ہے۔ جب میں ابھی ایک لڑکا ہی تھا، تو میں نہ تو چکی میں مکئی پیسنا چاہتا تھا اور نہ ہی بوریاں اٹھانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کام کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ میرا باپ مجھ سے مطمئن نہیں تھا اور مجھے کھانے کو کچھ نہ دیتا تھا۔ تب میں گاؤں میں ادھر ادھر گھومتا رہتا اور جو کچھ بھی کہیں سے ملتا، کھا لیتا۔ میں چھپ کر لوگوں کے برتنوں سے میٹھا دودھ بھی پی لیتا تھا یا دیہاتیوں کی بکریوں کے تھنوں سے۔ لوگوں کے برتنوں سے تو میں دودھ بڑی چالاکی سے دور سے ہی پی لیتا تھا۔ میں دودھ کے کسی برتن میں بہت لمبے سے کھوکھلے تنکے کا ایک سرا ڈال کر کہیں قریب ہی چھپ پر بیٹھ جاتا اور دودھ پی جاتا۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا، تو میرے باپ نے ایک ایسے چور کے بارے میں کچھ سنا، جو ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ بڑا ماہر چور تھا، اپنے پیشے کی مشہور شخصیت، اور میرے باپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس چور کے پاس جانا چاہیے اور اس سے اس کے پیشے کے تربیت لینا چاہیے۔ میرا باپ مجھے لے کر اس کے پاس گیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر اس نے مجھے ایک اچھا چور بنا دیا، تو اسے معاوضے کے طور پر رقم بھی ادا کی جائے گی۔ یوں ان کا آپس میں اتفاق رائے ہو گیا، انہوں نے زمین پر تھوکا، ایک دوسرے کو کمر پر تھپکی دی اور مجھے اس آدمی کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔”

    موامبا کچھ دیر کے لیے رکا اور اپنی ٹانگوں کو کسی جھومتے ہوئے درخت کی طرح دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے ہمیں دیکھنے لگا۔ “آگے!” ہم میں سے چند ایک اس سے اونچی آواز میں مخاطب ہوئے۔ “آپ بھی تو مزید کچھ کیجیے،” وہ بولا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر دیا۔ اس پر میں نے ایک چھوٹا سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ “شکریہ، میرے آقا! موامبا آپ کا شکر گزار ہے۔ تو میں اس ماہر چور کی کہانی سنا رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بڑا مشہور چور تھا۔ میں اس کے پاس ٹھہر گیا اور وہ مجھے سکھانے لگا کہ چوری کیسے کی جاتی ہے۔ لیکن میں نے اس سے کچھ نیا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔ ہم ادھر ادھر جاتے اور چوریاں کرتے۔ لیکن اکثر ہمارے حالات خراب ہی ہوتے اور ہمارے پاس کھانا بھی کم ہی ہوتا۔ ایک بار ہم ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ چلتے چلتے ایک ایسے راستے پر آ نکلے، جو جنگل کو جاتا تھا۔ ہم نے دور سے ایک آدمی کو آتے دیکھا، جس کے پیچھے رسی سے بندھی ایک بکری بھی چلی آ رہی تھی اور رسی کا سرا اس آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ ہم اس راستے پر ایک طرف کو ہو کر چھپ گئے تھے۔
    “تب میرے استاد نے ایک آہ بھری اور کہا، اگر یہ بکری کسی طرح مجھے مل جائے۔ لیکن یہ میرے ہاتھ آ کیسے سکتی ہے؟ یہ بکری تو کبھی بھی میری نہیں ہو سکتی! اس پر میں اس کا مذاق اڑانے لگا اور میں نے اسے کہا، یہ تو میں کر دوں گا کہ یہ بکری تمہاری ہو جائے۔ اس بات پر وہ خوش ہو گیا اور اسے کچھ حوصلہ بھی ہو گیا۔ تب میں نے اسے کہا، اس آدمی کے پیچھے پیچھے اس راستے پر چلتے رہو، یہاں تک کہ تم دیکھو کہ وہ اس جانور کو کہیں باندھ کر کھڑا کر دیتا ہے۔ پھر تم اسے چوری کر کے جلدی سے جنگل سے باہر لے جانا۔ استاد میری بات بڑے دھیان سے سنتا رہا تھا۔ اسی وقت میں جنگل میں اندر تک چلا گیا اور وہاں چھپ گیا۔ جب وہ بکری والا آدمی قریب پہنچا، تو میں نے زور زور سے ویسی آوازیں نکالنا شروع کر دیں، جیسی کوئی بکرا نکالتا ہے۔ اس آدمی نے یہ آوازیں سن کر سوچا کہ شاید جنگل میں کوئی بکرا راستہ بھول گیا تھا۔ اس بکرے کو پکڑنے کے لیے اس نے اپنی بکری کو ایک درخت کے ساتھ باندھا اور راستے سے ہٹ کر جنگل کے اندر چلا گیا۔

    “پھر میں نے ممیاتے ہوئے اس آدمی کو تب تک جنگل میں بکرے کی تلاش میں مصروف رکھا، جب تک میرا استاد درخت سے بندھی بکری کھول کر اسے جنگل سے باہر نہ لے گیا۔ اس کے بعد کافی دور ایک جگہ پر میں اپنے استاد اور ماہر چور سے ملا۔ ہم نے بکری کو ذبح کیا اور اس کی کھال اتار لی۔ تب مجھے افسوس ہوا کہ میں نے بکری چوری کرنے کو کام اپنے استاد پر چھوڑ دیا تھا اور اسے خود چوری نہ کیا۔ موامبا جو کچھ کہہ رہا ہے، سب سچ ہے، حرف بہ حرف۔ پھر میرے استاد نے مجھے سامنے دریا کی طرف بھیج دیا تاکہ میں گوشت اور کھال دھو لاؤں۔ تب تک شام ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں پیدل دریا تک گیا۔ وہاں میں نے ایک ڈنڈا تلاش کیا اور اسے بکری کی کھال پر اس طرح برسانا شروع کر دیا کہ یوں آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی میں نے زور زور سے چیخ و پکار بھی شروع کر دی تھی۔ کیا آپ سننا چاہتے ہیں کہ موامبا تب کس طرح چیخنے لگا تھا؟ ۔۔ نہیں؟ اچھا ٹھیک ہے!

    “میرے استاد نے میری چیخ و پکار سنی، تو دور سے ہی چلا کر پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا۔ میں نے اسے جواب تو دیا لیکن ساتھ ہی منت سماجت کرتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست بھی کر دی، اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے کہ بکری کا مالک ایک آدمی کو ساتھ لیے وہاں آ گیا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ مجھے جان سے مار دے گا۔ ساتھ ہی میں نے بہت اونچی آواز میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرے استاد کو فوراً میری مدد کو آنا اور مجھے بچانا چاہیے۔ لیکن استاد نے جب میری آواز سنی، تو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر میں بکری کا گوشت اور کھال لے کر اپنے باپ کے پاس گھر چلا گیا۔”
    اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ ہم اس پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ کہانی سنانا جاری رکھے۔ “مجھے پیاس لگی ہے،” اس نے کہا۔ اس سے ایک وہسکی کا وعدہ کیا گیا تو وہ بولا، “مجھے وہسکی ملے گی۔ میں کہانی کا باقی حصہ سناتا ہوں۔ تو حضرات! اگلے روز وہ ماہر چور ہمارے گھر پہنچ گیا تاکہ میرے بارے میں دریافت کر سکے۔ جب میں نے اسے آتا دیکھا تو میں نے جلدی سے بکری کا خون اپنے چہرے پر ملا اور چٹائی پر لیٹ گیا۔ وہ آیا اور پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا اور میں کیسا تھا۔ میں نے بھی جی بھر کر شکایتیں کر دیں۔ گوشت تو ہم نے پہلے ہی چھپا دیا تھا۔ میرے باپ نے اسے کہاکہ وہ مجھے دوبارہ اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر استاد بولا کہ وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ دے سکے اور پھر ویسے بھی میں کافی کچھ سیکھ چکا تھا۔ لیکن یہ کہ میں بکری کے معاملے میں اسے دھوکا دے چکا تھا، یہ بات وہ نہیں جانتا تھا۔ میرے باپ نے میری تربیت کرنے پر اسے کچھ رقم ادا کی، لیکن طے شدہ معاوضے سے آدھی۔ بکری کا گوشت اور کھال ہمارے پاس تھے اور میرا استاد واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔” “موامبا! کیا یہ کہانی پوری ہو گئی؟” “ہاں، اتنی ہی تھی۔ میں سنا چکا۔ اب مجھے ایک وہسکی ملے گی۔”
    اس طرح سیاہ فام موامبا نے ہمیں کہانی سنائی، جسے ہم نے دھیان سے سنا، تھوڑا سا اس کی اس بکری والی کہانی پر ہنسے بھی اور پھر اسے پینے کے لیے ایک وہسکی بھی دے دی۔ وہ جب اظہار تشکر کے لیے ہمیں دانت نکال کر دیکھتا، اپنا باؤلر ہیٹ سر سے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر احترام کا اظہار کرتا اور اپنی زرد اور بھورے رنگ کی دھاریوں والی ٹانگوں سے ڈرم بجانے لگتا تھا، تو بڑا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ اس کے جوتے رنگین پٹیوں والے سرخ بادبانی کپڑے کے بنے ہوئے تھے۔ اس نے گھٹنوں سے اوپر تک آنے والی موٹی جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اکثر افسوس ہوتا۔ کئی بار تو میں اس کی وجہ سے شرمندگی بھی محسوس کرتا تھا اور تقریباً اتنی ہی مرتبہ مجھے ہم سب کی وجہ سے بھی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ کئی مرتبہ واضح طور ہر ہم سب ہر ہنستا بھی تھا۔ اے موامبا، میں بعد میں کتنی مرتبہ تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ میری بے چینی بعد ازاں مجھے مزید کتنی ہی مرتبہ دور پار کے ملکوں میں لے گئی۔ کتنی ہی مرتبہ پھر ایسا بھی ہوا کہ مجھے ایک ہی طرح کی ناامیدی ہوئی؛ جس بیماری کی وجہ وطن بنا ہو، اس کا علاج بار بار کے سفر اور نت نئے اجنبی مناظر کیسے کر سکتے ہیں؟

    ہم نے اپنے نیگرو (تب سفید فام باشندوں کی طرف سے عمومی حقارت کے باعث افریقی باشندوں کو “نیگرو” یا “نِگر” کہہ کر بلایا جانا عام تھا، جو اب بجا طور پر بہت برا سمجھا جاتا ہے: مترجم) کو دیکھ کر اپنے سروں کو تھوڑا تھوڑا آگے کی طرف جھکایا اور ہم میں سے شاید ہر ایک کا دل میں تو اس سے مطلب کچھ اچھا ہی تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے کوشش کی کہ اچھے موامبا کے ساتھ گفتگو میں نفرت کا مظہر کوئی ایسا لہجہ اختیار نہ کیا جائے، جس لہجے میں سفید فام اپنی نوآبادیوں میں سیاہ فام باشندوں سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے سست ہو چکے ہاتھ پاؤں پھیلا دیے، کبھی کبھی تھوڑا سا عرشے پر ادھر ادھر بے مقصد گھومتے رہے، اپنے ٹھنڈے ہو چکے ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے طویل خاموشی سے لیکن عدم اطمینان کی کیفیت کے ساتھ دیر تک اپنے سامنے پھیلی بنجر وسعتوں کو دیکھتے رہے، روئی جیسے نرم بادلوں سے بھرے آسمان کو اور غروب آفتاب کے وقت کسی سرمئی شیشے کی طرح اس ہلکے زرد سمندر کو جو ہمارے سامنے دور تک پھیلا ہوا تھا۔

    (نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب ہیرمان ہَیسے کی برطانوی نوآبادیاتی دور کے عروج پر 1905ء میں لکھی گئی کہانی، جرمن سے براہ راست اردو ترجمہ: مقبول ملک)

  • سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    سچ کا نام بڑا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    آج انگریزی املا کا دن تھا۔ کمرۂ جماعت میں موجود سبھی بچّے گھر سے خوب خوب املا یاد کر کے آئے تھے۔

    گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آ گئے۔ سب بچّے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا، ’’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے۔‘‘

    ’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب۔’’ اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔

    ’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہو جانا پھر جب وہ کہیں (Please Sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (Dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔‘‘

    انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھرپور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘

    ’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے۔’’ انگریزی کے استاد نے جواب دیا، ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچّے کیا پڑھتے ہیں۔‘’ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچّے املا لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔

    ’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘

    ’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ’’تو لکھو میں بولتا ہوں۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کر دیا۔ Forest فاریسٹ، Man مین، Cup کپ، Teacher ٹیچر، Kettle کیٹل۔

    سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔

    انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔

    ’’تم کو‘’ کیٹل ‘‘کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘

    ’’نو سَر‘‘ اس بچّے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا۔

    انسپکٹر صاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘

    انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔

    ’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    اس نے اپنا نام بتایا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔ ’’تم ضرور ایک اچھے آدمی بنو گے اور معاشرے میں مقام پیدا کرو گے۔ کیوں کہ ذہین وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اکثر بڑے بڑے فراڈ اور نہایت منظم طریقے سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں‌، لیکن ذہانت کے ساتھ ایمان داری اور سچ بولنا وہ صفت ہے جو سب کو نصیب نہیں‌ ہوتی۔‘‘

    دوستو! دنیا میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو ذہین تو تھے ہی لیکن ان کی ایک بڑی خوبی جھوٹ سے ان کا نفرت کرنا اور ہر حال میں سچ بولنا تھا۔

    (مصنّف: نامعلوم)