Tag: اردو کہانیاں

  • دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    بیربل بادشاہ اکبر کا محبوب اور مشہور رتن رہا ہے جسے اکبر اعظم نے ابتداً اس کی ذہانت، شگفتہ مزاجی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بعد میں وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہوا۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں‌ پڑھیے

    1556ء میں بیربل نے دربار میں قدم رکھنے کے بعد وہ شہرت پائی کہ آج بھی اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں بیربل کی ذہانت و دانائی اور لطیفہ گوئی کے کئی واقعات، قصّے اور کہانیاں مشہور ہوئیں۔ اکبر اور بیربل سے منسوب ان قصوں میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہے۔ مگر یہ سبق آموز اور دل چسپ ہیں۔ تاہم ان کی حقیقت اور صداقت مشکوک ہے۔ انھیں محض خوش مذاقی اور تفریحِ طبع کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔

    ایک بار کسی درباری نے اکبرِ اعظم سے کہا: "جہاں پناہ! بیربل اگرچہ عقل مند آدمی ہے، مگر خاکسار کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ بیربل کی جگہ اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو شاید آپ کا یہ نمک خوار بیریل سے زیادہ اچھا کام کرے گا اور حضور کو اپنی حاضر جوابی اور برجستگی کا ثبوت دے گا۔

    اکبر نے اُس سے کہا: اس میں شک نہیں کہ تم ایک قابل، پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہو۔ لیکن شاید تم بیربل کا مقابلہ نہیں کر سکو۔

    لیکن وہ شخص اصرار کرتا رہا تو اکبر نے کہا: اچھا اس کا فیصلہ کل دربار میں ہو جائے گا کہ تم بیربل کی جگہ لینے کے اہل ہو یا نہیں۔ ساتھ ہی تمھاری عقل مندی، فراست اور حاضر جوابی کا امتحان بھی ہو جائے گا۔

    چنانچہ دوسرے دن دربار میں اکبر اعظم نے اس شخص سے ایک عجیب و غریب سوال کیا کہ "بتاؤ اس وقت جو لوگ دربار میں بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں کیا ہے۔”

    وہ شخص اکبر کا یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور کہنے لگا: "حضور! یہ میں کیسے جان سکتا ہوں بلکہ کوئی بھی کیسے بتا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ جاننا تو ناممکن ہے۔

    تب یہی سوال اکبر نے پیربل سے کیا۔ بیربل! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت یہاں موجود لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

    جی ہاں، کیوں نہیں۔ بیربل نے جواب دیا: ” حضور! سب لوگوں کے دلوں میں ہے کہ مہابلی کی سلطنت ہمیشہ قائم رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ ان سے دریافت کر لیجیے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔

    بیربل کی یہ دانش مندانہ بات سن کر تمام درباری مسکرانے لگے اور اکبر بھی مسکراتے ہوئے اس شخص کو دیکھنے لگا جو بیربل کی جگہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس نے شرمندگی سے سَر جھکا لیا۔

    (اکبر اور بیربل کی کہانیاں سے ماخوذ)

  • حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی کے زمانہ میں ایک شریف زادے پر کڑا وقت آ پڑا اور وہ دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ اسی عسرت کی حالت میں اس کے گھر میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی۔ بیوی پہلے ہی فاقوں سے لاغر ہو رہی تھی اور زچگی کے بعد تو جیسے وہ نیم جاں‌ ہو گئی۔

    مزید حکایات اور سبق آموز واقعات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    دایہ نے کہا کہ اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا اور مقوی غذا نہیں دی تو بچنا محال ہے۔ یہ سن کر وہ غریب اور ناچار شخص اسی وقت روزی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ ہنر اس کو کوئی آتا نہ تھا، مگر پہلے وہ ایک بڑے تاجر کے گھر کے کام سنبھالتا رہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ماہ کے دوران کسی نے اسے ایسی کوئی نوکری نہیں دی۔ اس روز وہ دکانوں‌ پر گیا کہ کوئی کام مل جائے، اور لوگوں سے مزدوری مانگتا پھرا جو کسی کام کے عوض چند دینار دے دیتے تو کھانے کے لیے کچھ لے کر گھر چلا جاتا۔ یہ نہ ہوا تو ایک دو لوگ جن سے جان پہچان تھی، ان کو اپنی بپتا سنائی اور کچھ بطور قرض طلب کیا۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

    اسی پریشانی کے عالم میں وہ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں ایک ملاح اپنی کشتی لئے بغداد کے مختلف محلّوں کے نام لے رہا تھا کہ کسی کو وہاں جانا ہو تو کشتی میں سوار ہو جائے۔ شریف زادے نے خودی کے عالم میں ملاح کو پکارا تو ملاح نے اپنی کشتی کنارے کے ساتھ لگا دی اور اس سے دریافت کیا کہ کس محلّہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ وہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بس ایک ٹُک ملاح کا منہ دیکھنے لگا۔ ملاح نے جھلّا کر کہا عجیب آدمی ہو، مجھے بلایا ہے تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ ملاح کی بات سن کر اس غریب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور اس نے اپنی داستان مصیبت بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ ملاح کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے شریف زادے کو کشتی پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں تم کو ایک محلّہ میں پہنچائے دیتا ہوں، وہاں کی ایک مسجد میں شیخ معروف کرخی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہونا، امید ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔

    شریف زادہ ملّاح کی بتائی ہوئی مسجد میں پہنچا اور وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حسبِ توقع شیخ معروف کرخی وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس مصیبت زدہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ روتا جاتا اور خود پر بیتنے والے حالات بتاتے جاتا۔ حضرت معروف کرخی اسے نہایت توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو آپ پھر نماز میں مشغول ہو گئے۔

    اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ وہ غریب بڑا پریشان ہوا کہ بیوی کو ایڑیاں رگڑتے چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں آکر بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور حضرت صاحب دوبارہ نوافل میں‌ مشغول ہوچکے ہیں۔ اب اس تاریک رات اور موسلادھار بارش میں خالی ہاتھ گھر کیسے جاؤں…. وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک سواری آکر رکی اور ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے شیخ معروف کرخی کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو پانچ سو دینار نذر کروں تو وہ اسے اپنی قدر افزائی خیال کرے گا۔ حضرت معروف کرخی نے اس شخص سے کہا کہ میں یہ دینار قبول کرتا ہوں، اور اس غریب آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تھیلی میرے اس دوست کو دے دو۔ اس شخص نے جو دینار لے کر آیا تھا، حضرت کے کہنے پر دیناروں کی تھیلی اس شریف زادے کے ہاتھ میں دے دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

    اس کے مسجد سے چلے جانے کے بعد حضرت معروف کرخی نے پریشاں حال شخص سے فرمایا کہ بھائی اس تھیلی کو اپنے کام میں لا۔ اللہ نے تیری مدد کی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترسا ہوا وہ شخص حضرت کرخی کے سامنے تعظیم سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ان کی اجازت ملتے ہی اس نے تھیلی کمر سے باندھی اور معروف کرخی کے لیے عزّت اور صحت کی دعائیں کرتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا۔ اس نے بغداد کے بازار سے ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور کشتی میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا۔ بیوی اس کے انتظار میں تھی اور جب خاوند کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دیکھا تو اس کی آنکھوں‌ میں آنسو آگئے۔ خاوند نے چولھے کو بھڑکایا اور پکانے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پورا ماجرا بیان کیا تو وہ بھی معروف کرخی کو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز اس شریف زادے نے ان دیناروں سے کچھ مال خریدا اور بازار میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے محنت اور دل جمعی سے کام کیا اور اللہ نے ایسی برکت دی کہ کچھ عرصہ بعد شہر کے مرکزی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ وہ نہایت فارغ البالی سے گزر اوقات کرنے لگا۔ ایک روز اس شخص کو وہ ملاّح یاد آیا جس نے اسے بغداد پہنچایا تھا۔ وہ دریا پر پہنچا اور اسے تلاش کرکے اس کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔

    دونوں میاں بیوی کو جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، وہ بے اختیار حضرت معروف کرخی کو دعائیں دینے لگتے۔

    (یہ حکایت اولیا اللہ اور صوفیائے کرام سے منسوب اخلاقی اور نصیحت آمیز واقعات پر مشتمل ایک کتاب حکایاتِ صوفیا سے لی گئی ہے)

  • ناقد (حکایت)

    ناقد (حکایت)

    ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنارے ایک سرائے میں پہنچا۔ وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔

    مشہور حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا۔

    صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے۔ وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا۔ نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہوا کہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا۔

    تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔

    پہلے آدمی نے کہا کہ "کیا یہ تمہاری حماقت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا۔”

    دوسرے نے کہا، "اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔”

    تیسرے نے کہا، "اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے۔”

    چوتھے نے کہا، "صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں۔”

    تب مسافر بے حد حیران ہوا اور پھر وہ چلّا کر بولا: "میرے دوستو! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوا رہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہو گیا ہے، لیکن کیا یہ عجب نہیں ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔

    (عالمی شہرت یافتہ شاعر، نثر نگار اور دانش ور خلیل جبران ہیں)

  • تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    تین شرطیں (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔

    جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے لیے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے۔ اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایتیں پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے۔ ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا۔ دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا۔ وہ نہ تو نیک اور عقلمند تھا اور نہ ہی بہادر۔ اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا۔

    چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائے معلوم کرے گی – وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروا دی جائے گی۔

    جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتا کر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی۔ “امی حضور۔ آپ نے میری تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے ماں باپ کے فیصلوں پر سر جھکانے والی لڑکی بن گئی ہوں۔ آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کر لوں گی”۔

    ملکہ یہ بات سن کر خوش ہوگئی۔ اس نے شہزادی نگینہ کو گلے سے لگا کر پیار کیا اور بولی۔“جیتی رہو۔ تمہارے لیے دو شہزادوں کے رشتے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم تفصیل تمہیں بتا ہی چکے ہیں۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے انکار۔ تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی”۔

    “امی حضور۔ شادی کے لیے آپ کا جو فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہوگا”۔ شہزادی نگینہ نے دھیرے سے اپنی بات دوہرائی۔

    “میں کہہ تو رہی ہوں کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا”۔ ملکہ نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
    شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی۔“ تو پھر ٹھیک ہے۔ میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا”۔

    “وہ شرطیں کیا ہیں؟”۔ ملکہ نے حیرانی سے پوچھا۔

    “میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے۔ میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے۔ میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پر سواری کر کے دکھائے”۔ شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ “ اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔ کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا۔ تمہیں پتہ ہے تالاب کا آدم خور مگرمچھ کتنا خوفناک اور بڑا ہے، کس میں ہمت ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے۔ پھر کون سا شہزادہ دیگ بھر کر چاول کھا سکے گا۔ شہزادے تو ویسے بھی نرم و نازک ہوتے ہیں، تھوڑا سا ہی کچھ کھا لیں تو ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور سوتے ہوئے گھوڑے پر بھلا کون سواری کرکے دکھائے گا۔ گھوڑا سوئے گا یا بھاگتا پھرے گا؟”

    اس کی باتیں سن کر شہزادی مسکرانے لگی۔ اسے مسکراتا دیکھا تو ملکہ کو تھوڑا سا غصہ آگیا۔ اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا۔ “ملکہ۔ آپ شائد بھول گئی ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں۔ بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟”

    ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں۔ انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی۔ “امی حضور میری شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کرنا چاہتی تھیں اور وہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ اسی لیے میں نے وہ شرطیں رکھی تھیں۔ پھر میری شرطیں تو ہمت اور جواں مردی والی تھیں۔ ایک آدم خور شیر کو خنجر سے مارنا تھا جس نے کئی انسانوں کو اپنا نوالہ بنا لیا تھا، معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گرفتار کرنا تھا، جنہوں نے غریبوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور پہاڑ کو کاٹ کر ایک نہر نکال کر کسانوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ آپ نے وہ تمام شرطیں پوری کی تھیں۔ آپ بہادر اور ہمت والے بھی تو بہت تھے”۔

    “لیکن ملکہ۔ کبھی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے تو پھر آپ سے تو ہماری شادی ہی نہ ہوتی”۔ بادشاہ نے فکرمند ہو کر کہا۔

    “کیوں نہیں ہوتی”۔ ملکہ نے اٹھلا کر کہا۔ “میں اپنی شرطوں میں یہ تبدیلی کر دیتی کہ آپ انہیں شادی کے بعد بھی پورا کر سکتے ہیں”۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔ “ پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سر و پا شرطوں سے باز آجائے”۔

    “اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو۔ اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔ ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے۔ جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی”۔

    پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا۔ دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے۔

    جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان دار بہت پسند آیا۔ وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پر حکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی۔ ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا۔

    دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ بادشاہ کو محسوس ہوا کہ وہ ایک خوشامدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے۔ اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔

    ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی۔ “بیٹی۔ تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو۔ ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے۔ اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھا گیا تو بہت برا ہوگا”۔

    شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا۔ “اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے۔ شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے”۔ ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی۔

    دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی۔ وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اور ان سے کہا۔ “یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوار مگرمچھ رہتا ہے۔ کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟”۔

    اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنا منہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔

    اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا۔ “جان ہے تو جہان ہے۔ میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔ شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں۔ دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا۔ میں تو چلا۔ مجھے نہیں کرنی یہ شادی”۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا۔ “شہزادی صاحبہ۔ کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا”۔

    رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے۔

    اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے۔ شہزادی نے پوچھا۔“ اس مگرمچھ کا کیا ہوا۔ وہ کہاں ہے؟”۔

    “اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پر اعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا۔ آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں”۔ شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا۔

    ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی۔ بادشاہ، مسکرا رہا تھا۔ شہزادی نے کہا۔ “بالکل ٹھیک شہزادے۔ آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں۔ میری شرط ہی یہ تھی کہ آپ تالاب میں تیر کر دکھائیں۔ میں آپ کی ذہانت کی قائل ہوگئی ہوں”۔

    دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا۔ “شہزادے۔ آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟”

    شہزادے نے کہا۔ “ابھی تھوڑی دیر بعد”۔ یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہا تھا۔ شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اور اپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا۔

    اتنی دیر میں ملازموں نے دسترخوان چن دیا۔ وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا۔ دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے۔ “کیوں میاں صاحبزادے۔ آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟” اس نے شہزادے سے پوچھا۔

    “ایک دیگ تو کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنوا کر لائے تھے۔ اس نے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے۔ میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں”۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے شہزادی سے کہا۔ اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔

    بادشاہ نے ملکہ سے کہا۔ “بیگم۔ اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے”۔

    شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا۔ وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا۔“ شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟”

    شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا۔“ یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔ میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں۔ اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائی کے گھوڑوں کی نسل سے ہے۔ اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے”۔

    گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا۔ شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا۔ اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی۔ “شہزادے۔ کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا ؟” اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

    “شہزادی صاحبہ۔ میں نے اس کا نام رکھا ہے “سوتا ہوا گھوڑا”۔ چونکہ یہ میرا گھوڑا ہے، میں جو بھی اس کا نام رکھوں، میری مرضی۔ اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر دکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوار ہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کر دوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔

    یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔ شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔ “ابّا حضور۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو۔ ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایسا شہزادہ مل گیا ہے”۔

    اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف مختار احمد ہیں)

  • کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    ایک مرتبہ کوئی گھڑ سوار اپنی سواری کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے شہر مکّہ کے راستے پر جارہا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے ہیں اور لگتا تھا کہ وہ کئی میل کی مسافت طے کرتا ہوا یہاں سے گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی قافلے کی تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے تیزی سے آگے نکل رہا تھا۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    کئی کوس آگے جانے کے بعد اس گھڑ سوار کو چند راہ گیر نظر آئے تو اس نے اپنا گھوڑا روک لیا اور ان سے کسی قافلے کے بارے میں دریافت کیا۔ کسی نے بتایا کہ اس طرف لوگوں کے ایک قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا ہے تو اس نے اپنے گھوڑے کو اسی سمت دوڑا دیا۔ کچھ دور جا کر اسے وہی قافلہ مل گیا جس کی تلاش میں وہ میلوں کا سفر کر کے آیا تھا۔ مقصود کو اتنا قریب دیکھ کر اس کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے ایک شخص کو مخاطب کر کے اس سے پوچھا: ”کیا آپ نے احمد بن طبیب سے کپڑا خریدا تھا؟“

    اس شخص نے گھڑ سوار کو دیکھا اور کچھ تجسس سے بولا، ”جی ہاں! میں نے خریداری کی تھی۔“

    ”دراصل بات یہ ہے کہ میرے دلال احمد بن طبیب نے آپ کو کپڑا بیچ کر پیسے مجھے دیے تو میں نے اس سے پوچھا کہ کپڑا کسے بیچا ہے؟………..اس نے بتایا کہ ”ایک مسافر کو۔“

    ”میں نے استفسار کیا کہ کیا اس کپڑے کا فلاں عیب اسے بتا دیا تھا؟“ اس پر احمد بن طبیب نے کہا کہ ”وہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔“

    نوجوان گھڑ سوار ایک لمحے کو چپ ہوا اور پھر بولنا شروع کیا کہ یہ سن کر مجھے بے حد پریشانی ہوئی، میں اس پر غصے ہوا تو اس کا کہنا تھا، ”میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا بلکہ یہ نسیان کے سبب ہوا، اس لیے جو کچھ ہوا آپ اسے بھول جائیے! آئندہ میں احتیاط کروں گا۔“ لیکن میں اس کے سَر ہو گیا۔ اسے آپ کا پتہ معلوم کرنے کو کہا، بڑی مشکل سے پوچھ تاچھ کی تو آپ کا کچھ ٹھکانہ معلوم ہوا لیکن جب میں اس پتے پر آپ سے ملنے پہنچا، تو معلوم ہوا کہ آپ حاجیوں کے قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ روانہ ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک برق رفتار گھوڑا کرائے پر لیا اور آخرکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ آپ کو بتا سکوں کہ کپڑے میں یہ نقص ہے۔

    قافلے کے سبھی لوگ اس نوجوان تاجر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ خریدار جو اس قافلے کے ساتھ حج کے لیے جارہا تھا، ایک عجیب احساس میں گھر چکا تھا۔ وہ کبھی کپڑے کو دیکھتا اور کبھی میلوں دور تک اپنی تلاش میں آنے والے اس تاجر کو، جو محض کپڑے کا نقص بتانے کے لیے اتنی تکلیف اٹھا چکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا اور پھر کہنے لگا ”کیا وہ دینار جو میں نے آپ کے دلال احمد کو دیے تھے وہ آپ کے پاس ہیں؟“

    تاجر نے جواب دیا ”ہاں یہ لیں۔“ مسافر نے وہ دینار لیے اور دور پھینک دیے اور دوسرے دینار نکال کر اس نوجوان تاجر کی طرف بڑھا دیے۔ تاجر نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ وہ دینار آپ نے کیوں پھینک دیے؟

    مسافر نے جواب دیا کہ ”وہ کھوٹے تھے، لیکن آپ کی راست گوئی اور دیانت داری دیکھ کر میرے ضمیر نے ملامت کی اور مجھے یہ اعتراف کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا، لیکن اب جب کہ آپ نے دیانت داری کا ایسا مظاہرہ کیا ہے تو میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہوں۔ مجھے یہ کپڑا نقص کے ساتھ قبول ہے اور اس کی قیمت حاضر ہے۔“

    (دل چسپ، سبق آموز اور انوکھے واقعات پر مشتمل ایک کتاب سے انتخاب)

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • سب سے چھوٹا غم…

    سب سے چھوٹا غم…

    یہ ایک دکھی اور پریشاں حال عورت کی کہانی ہے جو کئی سال پہلے شیخ الہند حضرت سلیم چشتی کی درگاہ پر اپنے محبوب کے ساتھ جا کر اپنی مراد پوری ہونے کے لیے دھاگا باندھ کر آتی ہے اور آج وہ درگاہ پر اسی دھاگے کو ڈھونڈنے آئی ہے۔ مزار پر کئی پریشان حال مرد اور عورتیں حاضری دینے آرہے ہیں جن کو دیکھ کر اس عورت کو اپنا دکھ بہت چھوٹا معلوم ہو رہا ہے۔

    عابد سہیل معروف صحافی اور افسانہ نگار ہیں جن کی خودنوشت ‘جو یاد رہا’ بہت مشہور ہے یہ انہی کا افسانہ ہے جس کا عنوان سب سے چھوٹا غم ہے۔

    اس نے تینوں طرف کی جالیوں میں بندھے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں دھاگوں کو دیکھا اور ان میں دس سوا دس سال قبل اپنے باندھے ہوئے دھاگے کو تلاش کرنے لگی۔ بائیں طرف والی جالی پر جس کے باہر گیندے کے پیلے پیلے پھول اور ہار ڈھیر تھے اور بہت سے دیے جل رہے تھے، اس نے اپنے دھاگے کو پہچاننے کی کوشش کی۔

    اسے خوب اچھی طرح یاد تھا کہ اس طرف جالی کے بالکل کونے میں اس نے دھاگے میں ایک گرہ لگائی تھی اور پھر دوسری گرہ جاوید نے۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ ابھی اس کی انگلیاں پوری طرح گرہ لگا بھی نہ پائی تھیں کہ جاوید کی انگلیاں وہاں پہنچ گئی تھیں اور انگلیوں کے اس لمس کے بعد جاوید اس کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرانے لگا تھا اور وہ شرما کر نیچے دیکھنے لگی تھی۔ لیکن ان کا باندھا ہوا دھاگا کون سا تھا؟ اس لمحہ اسے خیال آیا کہ اُس وقت اِس جگہ شاید بہت زیادہ بھیڑ تھی اور جاوید نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تھا اور وہ سامنے والی جالی پر چلی گئی تھی۔ یہ سوچ کر اس نے درمیان والی جالی کا رخ کیا لیکن قدم آگے بڑھانے سے قبل اس نے ایک بار پھر اس جالی پر نظر ڈالی جیسے وہ اپنا باندھا ہوا دھاگا پہچان ہی تو لے گی۔

    دوسری جالی پر پہنچتے پہنچتے اسے ایسا لگا جیسے پہلی جالی پر جا کر اس نے غلطی کی تھی اور اسے اس کی یادداشت نے دھوکا دیا تھا۔ دھاگا تو اس نے یہیں باندھا تھا، بالکل کونے میں۔ لیکن یہاں بھی لاکھوں دھاگے بندھے تھے۔ کسی میں ایک گرہ تھی، کسی میں دو۔ ان میں اس کا اپنا کون سا تھا؟ اس نے کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرا، آہستہ آہستہ، جیسے جاوید کے ہاتھوں کے لمس سے وہ اپنے دھاگے کو پہچان ہی تو لے گی۔ لیکن کہیں خواہشوں کی گرمی تھی، کہیں آرزوؤں کی نرمی اور کہیں مایوسیوں کی تاریکی اور مصائب کی سختی۔ اس نے دوسری بار اسی کونے کے دھاگوں پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لمبی سی عورت وہاں آ گئی۔ وہ کچھ دیر تو خاموش کھڑی جالی کو ایک ٹک دیکھتی رہی۔ پھر اس نے دائیں طرف کی جالی میں لال دھاگا باندھا، مڑ کر عقیدت سے مزار کی طرف دیکھا اور آنسو پونچھتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    وہ عورت جوں ہی باہر نکلی، اس نے اس کے باندھے ہوئے دھاگے پر انگلی رکھ دی۔ اکتوبر کی ان ابتدائی تاریخوں میں جب دھوپ چھاؤں کے موسم کے باوجود مزار کے باہر وسیع و عریض آنگن کا ایک ایک پتھر تپ رہا تھا، ایک سرد لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ دھاگا سمٹا، پھر پھیلا اور دو آنکھیں بن گیا۔ رحم کی بھیک مانگتی ہوئی آنکھیں۔ دو لب بن گیا، خواہشوں کو گویائی عطا کرتے ہوئے لب ’’اے شیخ تو نے بادشاہوں کی جھولیاں مرادوں سے بھر دی ہیں۔ میری جھولی میں بھی ایک گلاب ڈال دے۔‘‘

    وہ اسی جگہ کھڑے کھڑے کانپ گئی۔ جیسے نیند سے اچانک کوئی کسی کو جگا دے یا کوئی بے حد بھیانک خواب سے جاگ پڑے۔ اس نے اپنے دونوں طرف مسہری پر سوتے ہوئے دونوں بچوں کو ٹٹولنے کے لیے ہاتھ بڑھائے لیکن اس کا بایاں ہاتھ محراب سے اور دایاں نہایت خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ایک عورت سے ٹکرا گیا۔ کمر میں سونے کی کردھنی، کانوں میں سونے کے بندے جن میں ہیرے چمک رہے تھے، گویا خواب سے جاگنے کے بعد حقیقت سے اس کا پہلا ٹکراؤ تھا۔ کھلتا ہوا گندمی بلکہ شاید گورا رنگ جس کو خوشحالی، خوشیوں بھری زندگی نے اور بھی حسین بنا دیا تھا، بلکہ چمکا دیا تھا۔

    اس عورت کو بھی بھلا کوئی غم ہو سکتا ہے؟ اس نے بالائی کی رنگت والے ملائم اور گداز ہاتھوں کو دیکھا۔ نظریں جھکا کر دونوں چھوٹے چھوٹے پیروں کو دیکھا، ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پیر جیسے انھیں بچپن میں لوہے کے جوتے پہنا کر رکھا گیا ہو۔ پھر سر اٹھا کر کنکھیوں سے ان بڑی بڑی آنکھوں کی طرف دیکھا جو تھوڑی دیر قبل اس کو ایسی لگی تھیں جیسے کسی نے گلاب کے کٹورے بھر دیے ہوں۔ لیکن اب یہ گلاب کے کٹورے چھلکنے ہی کو تھے اور آنسوؤں کے دو قطرے دونوں کٹوروں کے کونوں سے ٹپک پڑنے کے لیے پر تول رہے تھے۔

    اس عورت کو بھی بھلا کیا غم ہو سکتا ہے؟ اس نے سوچا۔ غربت اور مفلسی تو اس نے دیکھی ہی نہیں۔ اولادیں یقیناً ہیں ورنہ اس قدر خوش بھلا رہ سکتی تھی۔ مانگ کا سیندور اور چوڑیاں اور بندے۔ چھی چھی کیا برا خیال آیا تھا اس کے دل میں۔ خدا اسے سدا سہاگن رکھے اور اس کے پتی کی عمر دراز کرے۔ لیکن کوئی زخم تو ضرور تھا۔ جسے نہ دولت، نہ شوہر، نہ آل، نہ اولاد، نہ خوبصورت کپڑے، نہ قیمتی زیور، غرض کوئی نہ بھر پایا تھا اور وہ یہاں چلی آئی تھی۔ اس نے ساڑی جس طرح باندھ رکھی تھی، اسی طرح ساڑی باندھنا جاوید کو بھی پسند تھا لیکن وہ اس طرح ساڑی باندھ ہی نہ پاتی تھی۔ اسے اس بات سے ایک اور بات یاد آگئی اور اس کی اداس اور غمگین آنکھوں میں بھی ہنسی کی ایک چمک پیدا ہو گئی۔

    جاوید نے جب تاج محل میں ایک خوبصورت لڑکی کو بار بار پلٹ کر دیکھا تھا تو وہ اداس ہو گئی تھی۔ شادی کو ابھی چند ہی دن تو ہوئے تھے اور خلوتوں میں پیار و محبت لٹانے والا جاوید جلوت میں اور وہ بھی اس کی موجودگی میں اس طرح ہرجائی ہوا جا رہا تھا۔ ویسے اس نے خود کو سمجھایا بھی تھا کہ ہر پرکشش اور خوبصورت چیز کی طرف نظریں خود بخود اٹھ جاتی ہیں لیکن بار بار مڑ مڑ کر دیکھنا بلا ارادہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس نے کئی بار پلٹ پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تھا اور تاج محل کی پشت پر، جمنا کے کنارے، جب وہ عورت مسجد کی طرف کھڑی تھی تو دریا کے اس پار قلعہ کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اس نے نظریں چرا کر اس عورت کی طرف دیکھ لیا تھا۔

    لیکن جاوید کی گفتگو کے انداز، برتاؤ، مسکراہٹ، ہنسی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد تاج کے حسن کے کسی پہلو کی طرف اس کی توجہ دلاتے ہوئے اس کے ہاتھ دھیرے سے چھو دینے کی اس کی عادت میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر یہ بات تو اسے ایک دن خود بخود سمجھ میں آ گئی تھی کہ اس دن جاوید اس عورت کو نہیں بلکہ اس ساڑی کو دیکھ رہا تھا جو وہ عورت ایک خاص طریقہ سے باندھے ہوئے تھی۔

    کہیں اس عورت کو ایسا ہی کوئی وہم، کوئی بے نام غم تو نہیں؟ بے نام غموں کے تو ہم عورتوں کے پاس خزانے ہوتے ہیں جنھیں ہم لٹاتے نہیں بٹور بٹور کر رکھتے ہیں۔ خوشیوں کے لمحوں کو بوجھل بنانے کے لیے، بے محابہ، بے ساختہ قہقہوں کو شائستہ بنانے کے لیے، انتہاؤں کو زندگی کے آداب سکھانے کے لیے۔ لیکن ایسے بے نام غموں کے لیے کوئی اتنی دور تو نہیں چلا آتا۔

    وہ عورت جالی پر دھاگا باندھنے لگی تو اس نے کنکھیوں سے اس کے چہرہ کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ اداسی کا ایک پردہ تو ضرور تھا، آنکھیں اب بھی بھیگی ہوئی تھیں لیکن چہرہ کا میک اپ اسی طرح قائم تھا جیسے بیوٹی سیلون سے نکل کر سیدھے یہیں چلی آئی ہو۔ گرد و غبار کا ایک بھی نشان نہ تھا، ساڑی پر ایک بھی شکن نہ تھی۔ اس عورت نے دھاگے میں گرہ لگائی تو اس کی نظریں قدرتی رنگ میں رنگے ہوئے اس کے لمبے لمبے ناخنوں پر پڑیں جن کا یہ حسن، یہ چمک، دیکھ ریکھ اور گھر داری کے کاموں سے بے نیازی کے بغیر ممکن نہ تھا۔

    دھاگے میں گرہ لگانے کے بعد اس نے ذرا سا جھک کر دونوں ہاتھ باندھ کر جیسے جالی ہی کو پرنام کیا۔ پھر مڑی اور مزار کے قریب جا کر کھڑے ہی کھڑے تقریباً دہری ہو گئی اور ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ سارے بندھ ٹوٹ گئے بلکہ بہہ گئے۔ لیکن ان آنسوؤں نے اسے اور بھی خوبصورت اور بھی معصوم بنا دیا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو وہ بھی تجسس کے مارے مزار کے سرہانے تک آ گئی۔ اس نے پرس کھولا، دو بڑے بڑے نوٹ نکالے، پھر اور نوٹ نکالے اور درگاہ کے چندے کے بکس میں ڈال دیے اور الائچی دانے لینے کے لیے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اسی طرح پھیلائے پھیلائے ہاتھ اوپر اٹھائے اور اپنا سر ہاتھوں پر ٹکا دیا۔ پھر دھیرے دھیرے سر اٹھایا، الائچی دانے پہلے ساڑی کے پلو میں ڈال کر پرس میں احتیاط سے رکھ لیے اور چلی گئی۔ چند قدم بعد اس نے پلٹ کر مزار کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور سر جھکائے بلند دروازہ کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔

    اب وہ اسی جالی کے پاس آ گئی جہاں تھوڑی دیر قبل اس عورت نے دھاگا باندھا تھا، لیکن رنگ برنگے دھاگوں کے جنگل میں وہ اس کا دھاگا پہچان نہ سکی، اس کے غم کے راز تک نہ پہنچ سکی۔ اسی درمیان سیاحوں کا ایک ریلا درگاہ میں داخل ہوا تو گائیڈ نے رٹے رٹائے جملے دہرائے، ’’شیخ سلیم چشتی کی دعا سے اکبر کو جہانگیر نصیب ہوا۔ یہاں لوگ آتے ہیں اور دامنِ مراد بھر لے جاتے ہیں۔‘‘

    مزار کے باہر کی جالی پر ایک سیاح نے ہاتھ رکھا تو گائیڈ نے نہایت آہستگی سے وہ ہاتھ ہٹا دیا اور کہا، ’’اس مزار کی جالی دنیا کے سارے مزاروں کی جالیوں سے خوبصورت ہے۔ کچھوے کی ہڈی پر سیپ کے کام کی یہ دنیا میں اپنی آپ مثال ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دیا سلائی جلائی تو مزار کی بیرونی دیوار کا وہ حصہ جس پر روشنی پڑ رہی تھی چمک اٹھا، جھلمل کرنے لگا۔

    سیاحوں کا ریلا چلا گیا تو وہ پھر تقریباً تنہا رہ گئی، ایک بار پھر اس نے مزار کے قدموں کے سامنے کی جالی پر بندھے ہوئے دھاگوں پر ہاتھ پھیرا تو جاوید دروازہ کھول کر کمرہ کے اندر داخل ہو گیا۔ نشہ میں دھت، ٹائی کی گرہ ڈھیلی، بال بکھرے ہوئے، سوٹ شکن آلود، آنکھیں سرخ اور دہاڑتا ہوا، ’’میں کہتا ہوں یہ میرا گھر ہے یا کسی اور کا۔ دو دو گھنٹہ چلّاؤ تب کہیں جا کر دروازہ کھلتا ہے۔ نہ آیا کروں کہیں اور سو رہا کروں؟‘‘

    ’’ذرا آنکھ لگ گئی تھی، تھوڑی دیر پہلے تک تو جاگ رہی تھی۔‘‘ اس نے دھیمے لہجہ میں کہا اور ٹائی کی گرہ کھولنے لگی۔

    ’’ہونہہ جاگ رہی تھیں تھوڑی دیر پہلے تک، تو پھر مر کیوں گئی تھیں میرے آنے پر۔‘‘

    لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کوٹ نرم نرم ہاتھوں سے اتار دیا اور ہاتھ کا سہارا دے کر اسے بستر پر لٹا دیا۔ پھر جوتوں کی ڈوری کھولی، جوتے اتارے، موزے اتارے اور بستر پر اس کی ٹانگیں پھیلا دیں۔

    اب یہ بات ہر رات کا معمول بن گئی تھی۔ ویسے اسے دن میں سب کچھ حاصل ہوتا۔ عزت، دولت، کار، ملازم، اولادیں لیکن یہ سب کچھ ایک باریک دھاگے سے لٹکا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یہ دھاگا کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ اگر اس کے خدشات صحیح ثابت ہوئے تو وہ کیا کرے گی۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دس بارہ برس تک اس طرح کی زندگی گزارنے کے بعد کیا وہ نئے سرے سے بالکل دوسری طرح کی زندگی شروع کر سکے گی۔

    سوالیہ نشان پھیلا اور پھیلتا ہی گیا کہ ایک بوڑھی سی عورت نے دوسری عورت کی گود سے ایک بالکل چھوٹا سا بچہ لے کر مزار کے قدموں میں ڈال دیا۔ دونوں عورتوں نے جن کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے اسی جگہ بیٹھ کر سر کو اتنا جھکایا، اتنا جھکایا کہ سجدے کا گمان ہونے لگا۔ بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے جالی کے پاس جا کر ایک دھاگے کی گرہ کھول دی۔ بچہ کو گود میں اٹھا لیا، دونوں نے ایک بار پھر عقیدت سے مزار کی طرف گردنیں جھکائیں اور مزار سے باہر نکل گئیں۔ اسی لمحہ اس کی نظر ماں کی گود میں مسکراتے ہوئے بچہ پر پڑی اور وہ خود بھی مسکرا دی۔

    لیکن اس کی یہ مسکراہٹ عارضی تھی۔ ساری جالیوں پر محرومیوں، تمناؤں، ناکامیوں کے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے لاکھوں لاکھ دھاگوں کے درمیان ایک پھول کب تک اپنی شادابی برقرار رکھ سکتا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی تو سرخ دھاگا پسینہ میں بھیگ چکا تھا۔ اب وہ جالی کے کسی ایسے کونے کو تلاش کرنے لگی جہاں اس سے قبل کسی نے دھاگا نہ باندھا ہو۔ لیکن ایسی کوئی جگہ نہ تھی۔ ہر جگہ ایک دو نہیں درجنوں دھاگے بندھے ہوئے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے آنسو بہا رہے تھے۔ آنسوؤں کے اس سیلاب میں اس کے ایک قطرہ کی بھلا کیا اہمیت۔ گہرے زخم، غم و اندوہ کے پہاڑ، اور مصائب کے طوفان خیز دھارے جن کی یہ دھاگے علامت تھے، اسے اپنے غم کے مقابلے میں بے حد بڑے اور عظیم معلوم ہوئے۔

    اس نے ایک بڑا دھاگا لیا اور جالی کے چاروں کونوں پر باندھ دیا۔ پوری جالی کو گھیر کر، سارے غموں، دکھوں اور تمناؤں کا احاطہ کیے ہوئے۔ اب وہ رو پڑی۔ اس کی آنکھیں سمندر بن گئیں۔ اس نے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اور رندھے ہوئے گلے سے بولی، ’’شیخ، ان سب کی مرادیں بر آئیں تو میرا غم بھی ہلکا ہو جائے گا۔ اتنے بہت سے دکھوں کے بیچ میں کیسے خوش رہ سکوں گی۔‘‘

    باہر صحن کے پتھر اب بھی اتنے ہی گرم تھے، سورج اب بھی آگ برسا رہا تھا لیکن ان کا احساس کیے بغیر، خاموش، گردن جھکائے وہ اس طرح باہر نکل آئی جیسے اس کے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔

  • ایک بکری کیوں؟

    ایک بکری کیوں؟

    بہت پرانی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آسودہ حال شخص رہتا تھا۔ اس کا جانوروں کا باڑہ تھا۔ وہ ان کا دودھ بیچتا اور گھی، مکھن وغیرہ نکال کر شہر کی دکانوں پر فروخت کرتا تھا۔ اس سے گھر میں‌ مال و دولت کی فراوانی تھی۔

    مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ایک مرتبہ باڑے میں کوئی بیماری پھیل گئی۔ اس کے جانور ایک ایک کر کے مر گئے۔ وہ بہت پریشان ہوا مگر خوب مال جمع کررکھا تھا۔ اس لیے روزمرہ کے اخراجات پورے کرتا رہا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی دولت خرچ ہوگئی اور نوبت فاقوں تک آگئی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے کہا کہ دوسرے گاؤں کا سردار تمہارا دوست ہے، تم اس کے پاس جاؤ، اسے اپنی ہریشانی بتاؤ اور اس سے مالی مدد کا تقاضا کرو۔ اس نے بیوی کی بات مان لی اور اگلے ہی دن وہ صاف ستھرا لباس پہن کے دوسرے گاؤں اپنے دوست کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا دوست بہت خوش ہوا اور اپنے اس مال دار دوست کی خوب آؤ بھگت کی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب اس کی کیا حالت ہوچکی ہے۔ رات کو بیٹھک لگی تو بدحال دوست نے کہا کہ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ کہہ اس نے اپنے تمام حالات اس کے گوش گزار کر دیے۔

    یہ سب سن کے دوسرا دوست کہنے لگا، کوئی مسئلہ نہیں، میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔ پھر اس نے اپنے ملازم کو آواز دی اور کہا میرے دوست کے لیے ایک بکری لے آؤ۔ اور اس شخص کو تاکید کی یہ بکری لے جاؤ، اگر دوبارہ میری مدد کی ضرورت پڑے تو پھر میرے پاس چلے آنا۔ اس نے اس شخص کی بیوی بچوں کے لیے کچھ تحائف بھی ساتھ کر دیے۔

    حالات کا ستایا ہوا وہ دوست کافی حیران ہوا کہ یہ علاقے کا سردار ہے اور مجھے صرف ایک بکری پہ ٹرخا رہا ہے۔ خیر وہ بکری لے کے چپ چاپ گھر آ گیا۔ اس کی بیوی بھی صرف ایک بکری دیکھ کے حیران ہوئی۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ لوگ بکری کا دودھ نکال کے پیتے رہے، کچھ دودھ اگر بچ رہتا تو اسے بیچ دیتے۔ یوں کسی حد تک بھوک مٹنے لگی۔ ایک ماہ گزرا وہ بکری مر گئی۔ دونوں میاں بیوی بہت پریشان ہوئے۔ بیوی نے پھر یاد دلایا دوست نے کہا تھا ضرورت پڑے تو دوبارہ آ جانا۔

    وہ پھر سے دوست کے پاس گیا جس نے خوب آؤ بھگت کی اور مدعا پوچھا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ بکری مر گئی ہے۔ دوست نے ملازم کو بلایا اور ایک بکری اور منگوا کر اس شخص کو یہ کہہ کے رخصت کردیا کہ جب ضرورت پڑے میرے پاس چلے آنا۔

    وہ شخص بکری لے کے گھر آیا اور پچھلے دنوں کی طرح گزارہ کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد یہ بکری بھی مر گئی۔ وہ پھر دوست کے پاس گیا اور وہ دوست اسی طرح پیار محبت سے پیش آیا اور اپنے قسمت کے مارے اس دوست کو ایک اور بکری دے کر وہی بات دہرا دی کہ ضرورت پڑے تو بلاتکلف چلے آنا۔

    وہ گھر آیا بکری کا دودھ نکالا بیچا اس بار قسمت سے دودھ بیچ کے زیادہ اچھی رقم کمانے لگا۔ یہ شخص سمجھدار تھا۔ اس نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کیا لیکن بچت کر کے ایک اور بکری خرید لی۔ اللہ نے اس میں برکت دی اور اس کے حالات بہتر ہونے لگے۔ اس نے مزید جانور خریدے اور گھر میں پھر خوشحالی آنے لگی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے یاد دلایا کہ یہ سب تمہارے دوست کی مدد کی وجہ سے ہوا ہے۔ تم کو اس کا شکریہ ادا کرنے جانا چاہیے۔

    اگلے دن وہ شخص تیار ہوا اور خوشی خوشی دوست کی طرف روانہ ہوگیا۔ دوست اس کو دیکھ کے بہت خوش ہوا۔ اس کی خوب آؤ بھگت کی اور آنے کا مدعا پوچھا، اس نے دوست کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ اس کی مدد کی وجہ سے اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔

    یہ سن کے وہ دوست بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے ملازمین کو بلایا اور کہا کہ باڑے سے 50 جانور کھولو اور اس شخص کے ساتھ جا کے اس کے گھر چھوڑ کے آؤ۔ وہ دوست یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ جب شدید برا وقت تھا تو صرف ایک بکری اور جب حالات بہتر ہونے لگے ہیں تو 50 جانور دے رہا ہے۔ اگر یہ پچاس جانور اس کا دوست اس وقت دے دیتا تو وہ پہلے ہی سنبھل چکا ہوتا۔ اس نے اہنے دل کی بات اسے کہہ دی۔

    یہ سن کے دوست مسکرایا اور کہنے لگا، جب تم پہلی بار آئے تھے تو میں سمجھ گیا تھا تم پر وقت برا ہے، میں تمہیں ان دنوں میں بہت سے جانور بھی دیتا تو وہ سب مر جاتے یا تم اپنی پریشانی کے دونوں میں ان کو سنبھالنے میں ناکام ہوجاتے اور اس کا نتیجہ بھی نقصان ہی کی شکل میں‌ نکلتا۔ دیکھو! تم کھانے پینے اور ضرورت کے لیے ان میں سے جانور بیچ بھی سکتے تھے۔ تمہاری عقل اس محتاج اور مشکل میں کام نہ کرتی اور تم ایسے فیصلے کرتے جن سے مشکلات ٹلنے کے بجائے بڑھتیں۔ اس لیے میں نے تمہیں ہر مرتبہ صرف ایک بکری دی تاکہ تمہارا گزارہ ہوتا رہے۔ اب جب تمہارا برا وقت ٹل چکا ہے اور خوشحالی تمہارے دروازے پر دوبارہ دستک دے رہی ہے تو میرا فرض ہے میں تمہاری مدد اپنی دوستی کے شایان شان کروں۔ اب مجھے کوئی ڈر نہیں ہے، یہ سب جانور تمہارے کام آئیں گے۔

    یہ سن کے وہ شخص بہت خوش ہوا اور اپنے دوست کی حکمت کا قائل ہو گیا۔

    (قصے کہانیاں اور حکایات سے ماخوذ)

  • فوکس سے باہر زندگی

    فوکس سے باہر زندگی

    وہ اکثر اِسی طرح دیکھتی رہتی ہے۔ آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے اور پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بہت ہوا تو چنری کے پلو سے آنکھیں پونچھ کر ٹھنڈا سانس بھرتی ہے، اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتی۔

    آنگن سے آگے برآمدے میں پلنگ پر لیٹا ہوا پپو اور اس کے قریب تپائی پر شیشیاں، گلاس اور پیالیاں۔ یہ سب اسے پاورچی خانے سے نظر آ رہا ہے۔ جب دوسرے بچے کھا پی کر اسکول چلے جاتے ہیں اور وہ اکیلی بیٹھی ہوتی ہے تو زینو کے نہ ہونے کا احساس اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ اُس وقت ان گنت سوچیں گدھوں کی طرح اس کے دماغ کے ارد گرد چکر لگا لگا کر شور مچاتی رہتی ہیں۔ اور اسے لگتا ہے کہ کہیں وہ پاگل نہ ہو جائے۔

    ابھی پرسوں جب اسے پتہ چلا کہ پپو نے محلے کے ایک گھر سے پیسے چرائے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہو گئی تھی۔ نہ اسے پپو پر غصہ آیا، نہ محلے والوں سے شکایت کرنے گئی۔ بس سر پکڑ کر بیٹھی رہ گئی تھی۔ چپ چاپ۔

    اور جب آج صبح اُسے معلوم ہوا کہ انو کل کلاس سے بھاگ کر فلم دیکھنے چلا گیا تھا تو اس کی پھر وہی حالت ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے آنکھوں میں پپو کا چہرہ چھایا ہوا تھا کہ پھر محلے کے منو کا چہرہ ابھر آیا۔

    ’’دیکھو ماسی، میں تو صرف اس لیے کہتا ہوں کہ کہیں اسے عادت پڑ جائے، بس ۔ ورنہ کہتا بھی نہیں۔ اور دیکھو زیادہ غم نہ کرنا۔ اس عمر میں یہی ہوتا ہے‘‘۔

    اس کے اپنائیت بھرے لہجے کی چبھن اسے اپنے اندر محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے منو کے سامنے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی…

    ’’نہیں بیٹے! ہم یہی سب بھوگنے کے لیے تو ہیں۔ ہمیں تو یہ سہنا ہی پڑے گا… ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے‘‘۔

    منو ہکا بکا رہ گیا۔ پھر کہنے لگا ’’اچھا ماسی، میں چلتا ہوں۔ کالج کو دیر ہو رہی ہے۔ پھر آؤں گا‘‘۔

    اس کے جانے کے بعد ایک دم گھٹن اور خاموشی چھا گئی، بالکل ویسی کاٹ کھانے والی خاموشی جیسی کھٹکے کے بعد چھا جاتی ہے۔ اس وقت وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اسے رہ رہ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سارا گھر اس کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے، یا ہو چکا ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی، کچھ بھی نہیں۔ زینو، انو، پپو، نازو۔ اور ان سب کے بیچ میں وہ۔

    اس کے باوجود وہ اس بارے میں اپنے شوہر سے بہت کم بات کرتی ہے۔ یہ سب کچھ خود سہنے کی کوشش میں لگتا ہے کہ وہ ہانپنے لگی ہے۔

    لیکن وہ کہے بھی کیونکر؟ اسے معلوم ہے کہ وہ نو بجے سے بھی پہلے گھر سے نکلتا ہے اور کہیں شام کو چھ بجے اس کی صورت نظر آتی ہے، تب مہینے میں کہیں ساڑھے چار سو روپے ملتے ہیں۔ اگر اوور ٹائم نہ کرے تو بیس دن بھی نہ نکلیں۔ اس کا ذہن ویسے ہی تھکن اور الجھن میں ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ سب رونا رونے بیٹھ جائے تو شاید وہ اس سے بھی پہلے پاگل ہو جائے۔ پھر اسے لڑائی جھگڑے کی بالکل سہار نہیں۔ کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو ایک دم آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے انو کو کتنا مارا تھا۔ وہ تو نہ جانے کس طرح خود ہی رحم آ گیا اور اس کے بعد پشیمانی میں کتنے ہی دن بولنا چھوڑ دیا تھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتا رہتا تھا۔

    وہ ابھی کھانا کھا کر سوچوں میں گم تھی کہ پپو نے پانی مانگا، تب وہ چونکی۔ پھر اُٹھ کر ہاتھ دھوئے اور پپو کے پاس آکر اسے پانی پلایا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔ پپو نے آنکھیں موند لیں۔

    آنگن میں آکر اس نے کپڑوں کا ڈھیر دیکھا تو سستی چھانے لگی۔ آرام کرنے کی خواہش نے سر اُبھارا۔ لیکن ابھی تو بہت کام پڑا ہے۔ برتن مانجھنے ہیں، کپڑے دھونے ہیں، پپو کو مسمی کا رس پلانا ہے، تب کہیں سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ نل کے آگے برتن اکھٹے کرکے دھیرے دھیرے انہیں دھونا شروع کرتی ہے۔ اچانک اسے وہ بڑھیا یاد آتی ہے جو کئی سال پہلے برتن مانجھنے آیا کرتی تھی۔ صرف پانچ روپے اور روٹی۔ اور برتنوں کا ڈھیر! اب تو کوئی پچاس سے کم بات بھی نہیں کرتا، ایسی باتیں سوچ کر اسے اپنی تنگدستی پر بڑی بے چینی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ تھکی ہوتی ہو۔ لیکن اسے پتہ ہے کہ اور کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ اس لیے سوچنا بیکار ہی لگتا ہے۔

    برتن مانجھنے کے بعد وہ ایک گہرا سانس لیتی ہے جیسے کہہ رہی ہو، چلو کچھ تو بوجھ کم ہوا۔ پھر سستی چھانے لگتی ہے تو پھر دل کو سمجھاتی ہے ’’بس کپڑے ہی تو رہ گئے ہیں۔ دھو لوں تو پھر آرام سے لیٹ جاؤں گی‘‘۔

    وہ بالٹی لا کر پانی بھرتی ہے اور سانس روک کر اٹھتی ہے۔ اسے کچھ تعجب ہوتا ہے، اس عمر میں ایسی تھکن، پینتیس برس بھی کوئی عمر ہے۔ لیکن کچھ بھی کرنے کو اس کا دل نہیں چاہتا۔ پتہ نہیں کس بل پر مشین کی طرح سب کچھ کرتی جاتی ہے … کرتی رہتی ہے۔ لیکن وہ مشین تو نہیں ہو سکتی۔

    کپڑوں میں زینو کی قمیض بھی آ گئی دھلنے کو۔ کپڑے دھوتے دھوتے جب زینو کی قمیض ہاتھ میں آئی تو آنکھیں بھر آئیں۔ گھر سے چلے جانے سے پہلے اس نے یہی قمیض پہنی ہوتی تھی۔ اس پر اس نے اپنی آنکھیں پھوڑ کر کڑھائی کی تھی۔ جب زینو نے اسے پہنا تو سب محلے والے دیکھتے رہ گئے۔’’قمیض کیسی سج رہی ہے۔ جیسی بیٹی ہے ویسی ہی پیاری قمیض بنائی ہے تم نے‘‘۔ بس نظر لگ گئی۔ گیلی قمیض دونوں ہاتھوں سے بھینچ کر چھاتی سے لگاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ بند آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈنے لگتا ہے اور گیلی قمیض سے پانی، وہ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہتی ہے۔ اس کے کانوں میں زینو کے الفاظ گونجتے ہیں۔ جب وہ کپڑا لے کر آئی تھی تو زینو نے کہا ’’ اماں رنگ تو نہیں چھوٹے گا؟ کچا ہے‘‘ پھر وہ قمیض پر پانی ڈال کر اسے دھونے لگتی ہے۔ اس کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ نکھر آتا ہے۔

    سوچ کی کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے۔ عید قریب آ رہی ہے۔ انو، پپو اور نازو کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ وہ کہتا تھا، بڑی مشکل سے پچاس ساٹھ روپے بچے ہیں، احتیاط سے خرچ کرنا۔ سوچتی ہے کہ وہ تو پیسے دے کر آزاد ہو گیا۔ مصیبت میں میں پڑ گئی۔ اب میں کیسے کروں؟۔

    کپڑے پھیلا کر پپو کے پلنگ کے پاس بیٹھ کر مسمی کا رس نکالنے لگتی ہے۔ پپو کے زرد چہرے اور کمزور جسم پر نگاہ پڑتی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے اور اسے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔

    ’’پپو تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ، تو پھر عید پر اچھی اچھی مٹھائیاں…‘‘ پھر اچانک اپنی غلطی محسوس کرکے وہ چپ ہو جاتی ہے۔

    ’’سویاں بھی پکیں گی نا اماں؟ مجھے بھی ملیں گی نا؟‘‘ اس کی آواز کا لگاؤ اس کا دل چھو لیتا ہے۔ بیماری میں سب بچے ایسا ہی کہتے ہیں، وہ سوچتی ہے۔

    ’’ہاں ہاں، اپنے بیٹے کو کیوں نہیں دوں گی‘‘۔

    پیالی سے رس پلا کروہ اس کا بستر ٹھیک کرنے لگتی ہے۔ پھر قریب ہی کھڑا دوسرا پلنگ بچھا کر بغیر بستر کے لیٹ جاتی ہے اور ٹھنڈا سانس لیتی ہے۔ اس کی آنکھیں سامنے فریم کئے ہوئے گروپ فوٹو پر جم جاتی ہیں۔ یہ فوٹو زینو نے پچھلے سال میٹرک کے امتحان سے پہلے اسکول سے رخصت پر فیرویل کے موقع پر کھنچوایا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب زینو یہ فوٹو فریم کرا کے گھر لائی تھی تو اس نے کہا تھا:’’ اماں جب میں تمہارے پاس نہیں ہوں گی تو یہ فوٹو تمہیں اور سب کو میری یاد دلائے گا۔ گروپ فوٹو میں زینو مسکرا رہی تھی اور اس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

    زینو جب میٹرک میں پاس ہوئی تو محلے والوں سے لے کر رشتہ داروں تک سب کو حیرت ہوئی تھی کہ وہ کس طرح پاس ہو گئی۔ اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں! اس کا سر اونچا ہو گیا تھا۔ مگر اب کے تو اس نے ناک ہی کٹوا دی۔ کسی کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ پھر وہ سوچتی ہے کہ اس میں اس کا کیا قصور؟ اسے وہ راتیں یاد آتی ہیں جب زینو کرسی پر بیٹھی پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتی تھی۔ رات کو جب اس کی آنکھ کھلتی تو اسے بتی کی روشنی میں کتابوں پر سر جھکائے پڑھنے میں محو دیکھتی تھی۔ وہ کہا کرتی: ’’بیٹی زینو، اب سو جا، رات بہت ہو گئی ہے، کہیں طبیعت …‘‘ مگر وہ جواب دیتی’’ بس اماں، تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ ابھی سوتی ہوں‘‘ وہ کروٹ بدل کر سو جاتی تھی۔

    اب وہ کرسی خالی پڑی ہے۔ جیسے ابھی زینو آئے گی اور اس پر بیٹھ کر پڑھنے لگے گی۔ کتاب اس کے سامنے کھلی ہو گی۔ زینو کی تلاش میں اس کی نظریں اس کے پلنگ کی طرف جاتی ہیں لیکن وہ بھی خالی پڑا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ابھی زینو اس پر آکر سوئے گی۔ وہ آنکھ جھپکتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ جاگ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگتی ہے کہ ان باتوں میں کیا رکھا ہے؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ کسی کا کسی پر کیا بس چلتا ہے۔ حالات آزاد ہیں۔ میرا تو کسی پر کوئی بس نہیں۔ میرا حالات پر بھی بس نہیں۔ اپنے آپ پر بھی نہیں رہا شاید! وہ سوچ کر اسے تسکین سی ہوتی ہے۔ گھڑی پر نگاہ پڑتی ہے تو اس کا سانس آہستہ آہستہ کھنچنے لگتا ہے ’’دو بجے ہیں‘‘۔ کچھ دیر میں بچوں کے آنے کا وقت ہو جائے گا۔

    وہ آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرتی ہے لیکن نیند اس سے کوسوں دور ہے۔ سوچوں کے ہجوم اور یادوں سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ماضی اور مستقبل کے دروازوں پر زنجیر لگانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ یہ دروازے کھڑکھڑاتے رہیں گے۔ وہ تنہائی سے بچنے کی خاطر پرانے اخبار کے صفحے الٹنے لگتی ہے لیکن نظر نہیں جمتی۔ اسے لگتا ہے جسے زندگی اس سے ہاتھ چھڑا کر چلی گئی ہو اور وہ زندگی کے فوکس سے باہر رہ گئی ہو۔

    (افسانہ نگار اور شاعر ولی رام ولبھ کی کہانی جس کا سندھی سے اردو زبان میں ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے)

  • بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند خاص مصاحبوں کے ساتھ شکار کے لیے نکلا۔ جاڑوں کے دن تھے، وہ سب دور نکل گئے اور اسی اثناء میں رات سر پر آ گئی۔

    اندھیرا بڑھنے لگا اور بادشاہ اور اس کے مصاحبوں کو واپسی کا راستہ سجھائی نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ بادشاہ کو ایک مکان نظر آیا۔ یہ کسی کسان کا گھر تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ آج رات وہ اس کسان کے گھر میں قیام کرے گا تاکہ سردی کے اثر سے بچ جائے۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ایک وزیر نے یہ سنا تو کہا کہ یہ بات بادشاہ کے بلند مرتبہ کے لائق نہیں ہے کہ ایک کسان سے رہنے کی جگہ مانگے۔ ہم اسی جگہ خیمے لگا دیں گے اور آگ جلائیں گے تاکہ کھانا بھی تیار کرا لیں۔ کسان کو بادشاہ کے قافلے کی خبر ہو گئی۔ اس کے یہاں جو کچھ کھانے کے لیے موجود تھا وہ لا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا اور آداب بجا لایا اور کہا کہ بادشاہ سلامت آج رات میرے گھر گزاریں تو مجھ غریب پر احسان ہوگا۔ وزیر نے پھر مداخلت کی اور اپنی بات دہرائی تو کسان نے ادب سے کہا کہ حضور اس سے آپ بلند مرتبہ ہرگز کم نہ ہوگا لیکن شاید لوگ نہیں چاہتے کہ ایک کسان کی عزت بڑھ جائے۔

    بادشاہ کو کسان کی یہ بات بہت پسند آئی۔ اس نے حکم دیا کہ رات کو اس کا قیام کسان کے گھر ہوگا اور یہ کہہ کر کھانا کھانے لگا۔ کسان کی خوشی کا عالم ہی اور تھا۔ بادشاہ نے صبح کو رخصت ہوتے وقت اسے انعام دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کسان کچھ دور تک بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کہتا جاتا تھا کہ بادشاہ نے ایک کسان کے گھر قیام کیا، مگر بادشاہ کی عزت اور بڑائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن بلند مرتبہ بادشاہ کی مہربانی کا سایہ کسان کے سر پڑا تو اس کا سر آسمان کی بلندی تک جا پہنچا۔

    (گلستانِ سعدی سے ایک حکایت)