Tag: اردو کہانیاں

  • کہانی ایک جھیل کی…

    کہانی ایک جھیل کی…

    دور بہت دور، شہروں سے بہت دور، ایک ہرا بھرا، خوب صورت اور پرسکون جنگل تھا۔

    اس جنگل کے بیچوں بیچ ایک بہت حسین چھوٹی سی جھیل تھی۔ اس جھیل کا پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اس کی تہ میں اگے ہوئے پودے اور گھاس تک صاف نظر آتے تھے۔ جھیل کی تہ میں پڑے ہوئے پتھر بہت خوب صورت اور چمکیلے تھے۔ اس کی مچھلیاں اتنے پیارے رنگوں کی تھیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔

    جھیل کا پانی اتنا میٹھا تھا کہ جو ایک دفعہ پی لے بس وہیں کا ہو جائے۔ جھیل کے چاروں طرف گھنے اور اونچے اونچے درخت تھے جو ہوا میں اس طرح جھومتے تھے جیسے وہ جھیل کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ ان درختوں کے قدموں میں پودے اگے ہوئے تھے جن پر طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلتے۔ ان پھولوں پر تتلیاں ناچتیں۔ بھونرے آتے، کیڑے مکوڑے اور مینڈک بھی وہاں خوشی خوشی رہتے تھے۔ درختوں پر پیارے پیارے پرندوں کا بسیرا تھا۔

    جھیل اور جنگل کی ہوا بہت صاف اور صحّت بخش تھی۔ جنگل کے درندے اور چرندے بھی وہاں پانی پینے آتے تھے تو اس کی خوب صورتی، سکون اور صاف اور میٹھے پانی سے اتنے متاثر ہوتے تھے کہ کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔

    یہ جنگل، یہ جھیل، اس کا پانی، اس کی ہوا، پودے، پرندے، پھول، کیڑے مکوڑے، مچھلیاں درخت اس کے پتھر اور اس کے جانور، یہ سب اس جھیل اور جنگل کے ماحول کا حصہ تھے۔ یہ ماحول ہماری دنیا کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نعمت تھا۔

    لیکن پھر پتا ہے کیا ہوا؟ کس طرح انسانوں کو اس جھیل کے بارے میں پتا چل گیا اور انسانوں نے وہاں جانا شروع کردیا۔ جو لوگ شروع شروع میں وہاں گئے وہ بہت اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے نہ تو جھیل کو گندا کیا، نہ پھول توڑے اور نہ پرندوں کا شکار کیا۔ وہ لوگ جھیل پر جاتے، اس کی خوب صورتی، سکون اور اس کی صاف و شفاف اور صحت بخش ہوا سے لطف اٹھاتے اور واپس آجاتے۔

    یہ جھیل اتنی خوب صورت تھی کہ جلد ہی دور دور تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ یہ جھیل اتنی مشہور ہوگئی کہ ہزاروں انسانوں وہاں پہنچنے لگے۔ اوّل تو ان کی گاڑیوں اور بسوں کا دھواں وہاں کی ہوا کو گندا کرنے لگا۔ پھر لوگوں نے وہاں گندگی بھی پھیلانی شروع کردی۔ لوگ وہاں پکنک پر جاتے اور کھانے پینے کی بچی ہوئی چیزیں اور کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے۔ جھیل کے پانی میں طرح طرح کی چیزیں پھینکتے، مچھلیاں پکڑتے، پرندوں کا شکار کرتے، پھول تو توڑتے ہی، پودے تک اکھاڑ لیتے۔ کھانا پکانے کے لیے گھاس، پتے اور درختوں کی ٹہنیاں جلاتے، جس کا دھواں بھی ہوا میں مل جاتا تھا۔

    یہ سب حرکتیں بہت بری تھیں اور انہیں پتا نہیں تھا کہ وہ کتنی بری بے وقوفی کر رہے ہیں۔

    اس ساری گندگی اور اوندھی سیدھی حرکتوں نے ماحول کو تباہ کردیا۔ صاف ہوا صاف نہ رہی۔ جھیل کا صاف اور میٹھا پانی کالا اور بدمزہ ہوگیا۔ تہ میں پڑے ہوئے رنگین پتھر کالے اور بدصورت ہوگئے۔ مچھلیاں مرنے لگیں۔ پرندے دوسرے علاقوں کو پرواز کر گئے۔ جانور دوسرے جنگل میں چلے گئے۔ تتلیاں غائب ہوگئیں۔ پودے اور سبزہ ختم ہوگیا۔ درختوں کے کٹنے سے مٹی ہوا میں اڑنے لگی۔ اس طرح ایک حسین جھیل اور پیارا ماحول برباد ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے پودوں، درختوں اور ہوا کا خیال نہیں رکھا۔ آلودگی یعنی گندگی پھیلائی۔

    جانتے ہو اس ساری آلودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟ بارشیں ہونا بند ہوگئیں، کیوں کہ درختوں کے کٹنے سے بارش کم ہوجاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے علاقے میں فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کھیت سوکھ گئے۔ لوگ غریب ہوگئے۔ ان کے پاس کھانے کو اناج بھی کم رہ گیا۔

    اب تو لوگ بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیسے ہوگیا؟ ادھر جنگل کے بچے کھچے پرندے اور جھیل کی مچھلیاں بھی چپکے چپکے روتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ہمارا جنگل دوبارہ اگا دے، ہماری جھیل کا پانی صاف کردے، بارش برسا دے اور ان انسانوں کو اتنی عقل عطا فرمادے کہ وہ اپنے ماحول کی ساری آلودگیاں ختم کردیں۔

    آخر کچھ عقل مند لوگوں نے اس مسئلے پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب ہم انسانوں کی غلطی سے ہوا ہے۔ تب انہوں نے اعلان کروا دیا کہ کوئی بھی درخت کو نہ کاٹے۔ نہ تو گھاس اکھیڑے اور نہ خواہ مخواہ آگ جلائے۔ اس کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ہر آدمی ایک درخت لگائے گا۔ لوگوں نے درخت لگائے۔ پودوں اور گھاس کی دیکھ بھال کی۔ بغیر ضرورت کے آگ جلانا بند کر دیا۔ آخر اللہ تعالی کو ان پر رحم آیا اور ایک روز بارش ہوئی۔ جھیل میں صاف پانی آگیا۔ پودے اور درخت دوبارہ اگنے لگے، لیکن آلودگی سے ماحول کو جو نقصان ہوتا ہے وہ اتنی جلدی اور آسانی سے پورا نہیں ہوتا۔

    یہی وجہ ہے کہ جھیل ابھی تک پہلے کی طرح خوب صورت، صاف اور صحت بخش نہیں ہوسکی، لیکن اب وہاں کے لوگ اس کے ماحول کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید ایک دن جھیل پھر اتنی ہی خوب صورت ہوجائے، اس کا پانی پہلے کی طرح صاف اور شفاف اور میٹھا ہوجائے۔

    آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اگر آپ کے گھر کے پاس کوئی جھیل، کوئی درخت، پودے یا سبزہ ہے تو اس کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہماری دنیا کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

    (مصنّف: رؤف پاریکھ)

  • پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    آج جب کہ ہر بچّے کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس پر مختلف گیمز اور اسی نوع کی تفریحات ان کا مشغلہ ہیں تو والدین کو یہ بھی فکر ہے کہ ان کی ذہنی و فکری تربیت، کردار سازی کیسے ممکن ہو۔

    وہ اپنے زمانے کی طرف دیکھتے ہیں جب انھیں ان کے دادا دادی، والدین وغیرہ کہانیاں سناتے تھے اور ان کی ذہانت اور فکر و نظر کو تحریک دینے کے ساتھ اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ زمانہ تو بدل گیا ہے، مگر سبق آموز کہانیوں اور ایسے قصّوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے جو بچّوں کے لیے باعثِ کشش ہوں۔

    یہاں ہم ایک نہایت دل چسپ کہانی نقل کررہے ہیں جسے والدین اپنے بچّوں کو سنا کر ان کی تفریحِ طبع کا سامان کرسکتے ہیں۔

    کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے کام نکلوانا پڑتا تھا۔

    بیساکھ کا مہینہ تھا۔ منسا کے کھیتوں میں گیہوں کی فصل خوب ہوئی تھی۔ اور کھیت کٹ بھی چکے تھے۔ اب بالیوں پر دائیں چلا کر دانے نکالنا باقی تھا۔ دوسرے سب کسان بھی اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ تم جانو ان دنوں جب فصل کٹتی ہے تو سب ہی کو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے۔

    اس نے بہتیرا چاہا کہ کوئی مزدور ملے مگر نہ ملا۔ ادھر آسمان پر دو ایک دن سے بادل آنے لگے اور ڈر تھا کہ کہیں پانی پڑ گیا تو سب دانے خراب ہوجائیں گے۔

    بیچ میں ایک دن کوئی تہوار آگیا۔ سب کسانوں نے اپنے یہاں کام بند رکھا۔ اس گاؤں میں بہت سے آدمیوں کی چھٹی ہوگئی۔ منسا ان کے پاس گیا اور مشکل سے پانچ آدمیوں کو پھسلا کر لایا کہ بھائی ہماری دائیں چلا دو۔ گھر میں بیوی سے کہا کہ تہوار کا دن ہے۔ یہ لوگ آج کام کو آئے ہیں، انھیں پوریاں کھلانا ہے۔ کوئی گیارہ بجے بیوی نے چولھے پر کڑھائی چڑھائی۔ کئی پلی کڑوا تیل کڑھائی میں ڈالا، آٹے کی چھوٹی سی ٹکیا بنا کر پہلے تیل میں ڈالی اور تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا تو یہ ٹکیہ نکال لی۔ اس سے کڑوے تیل کی ہیک کم ہوجاتی ہے۔

    اب بیلن سے بیل بیل کر کڑھائی میں پوریاں ڈالنی شروع کیں۔ کچھ پوریاں پک گئیں تو باورچی خانے میں کسان کا بیٹا بدھو جانے کہاں سے آیا اور ادھر ادھر چیزیں کھکورنے لگا اور ناک سے برابر سڑ سڑ سڑ سڑ کرتا جاتا تھا۔ ناک بہہ رہی تھی۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پلّو سے اس زور سے ناک پونچھی کہ بدھو کن کن کرتا ہوا باورچی خانے سے چل دیا۔

    کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی اور اسے برا لگا کہ بدھو کی ماں نے اس کا ذرا خیال نہ کیا اور اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں اسے رکھ کر تکلیف دی۔ بدھو کی ماں نے جلدی سے جو اسے پلٹنا چاہا تو یہ اور چڑ گئی اور جھٹ سے کڑھائی میں کود کر بھاگ کھڑی ہوئی کہ تم بدھو کی ناک پونچھو میں تو جاتی ہوں۔

    بدھو کی ماں نے بہت چاہا کہ اسے پکڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتی۔ جھٹ گھر میں سے نکل کھیت کی طرف بھاگی۔ راستے میں منسا اور اس کے پانچوں دوست دانوں پر دائیں چلا رہے تھے۔ یہ پوری ان کے پاس سے گزری اور کہا کہ میں بدھو کی ماں سے بچ کر کڑھائی سے نکل کر آئی ہوں تم سے بھی بچ کر نکلوں گی۔ لو مجھے کوئی پکڑو تو۔‘‘

    ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جارہی ہے تو کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو لیے مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی۔ یہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے اور لوٹ آئے۔

    کھیت سے نکل کر پوری کو بنجر میں ایک خرگوش ملا۔ اسے دیکھ کر پوری بولی۔ ’’میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، اور چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر آئی ہوں۔ میاں چھٹ دُمے خرگوش تم سے بھی نکل بھاگوں گی۔‘‘

    خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور اس نے بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتیں تو اس چھٹ دُمے نے پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر بھٹ میں یہ لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

    پوری جو بھٹ میں گھسی تو واقعی اس میں لومڑی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ یہ ایک پوری گھسی چلی آتی ہے تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب آئی ہے تو جائے گی کہاں۔ مگر پوری الٹے پاؤں لوٹی اور یہ کہتی ہوئی بھاگی’’ میں تو کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر، اور میاں چھٹ دُمے خرگوش کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ بی مٹ دُمی لومڑی میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔‘‘

    لومڑی نے کہا، ’’کہاں جاتی ہے ٹھہر تو۔ تیری شیخی کا مزہ تجھے بتاتی ہوں۔‘‘ اور پیچھے لپکی۔ مگر پوری تھی بڑی چالاک۔ اس نے جھٹ سے ایک کسان کے مکان کا رخ کیا اور لومڑی بھلا کتّوں کے ڈر کے مارے ادھر کیسے جاتی۔ ناچار رک گئی۔

    کسان کے مکان کے قریب ایک دبلی سی بھوکی کتیا اور اس کے پانچ بجے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ انھوں نے بھی ارادہ کیا کہ اس پوری کو چٹ کریں۔ پوری نے کہا ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی اماں سے بچ کر چھ جوان جوان مردوں کو ہرا کر میاں چھٹ دمے خرگوش کو الّو بنا کر اور مٹ دمی لومڑی کو چونا لگا کرآئی ہوں۔ اجی بی بی لپ لپ، میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔ ‘‘

    کتیا بڑی ہوشیار تھی۔ آگے کو منہ بڑھا کر جیسے بہرے لوگ کرتے ہیں، کہنے لگی، ’’بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں۔ ‘‘ پوری ذرا قریب کو آئی اور کتیا نے بھی بہروں کی طرح اپنا منہ اس کی طرف اور بڑھایا۔

    پوری پھر وہی کہنے لگی۔’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر چھ چھ جوان جوان مسٹنڈوں کو تھکا کر، میاں چھٹ دمے خرگوش اور بی مٹ دمی لومڑی کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ اجی بی لپ لپ ۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ کتیا نے منہ مارا’ ’حپ‘‘ اور آدھی پوری اس کے منہ میں آگئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ ایسی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کس طرح زمین کے اندر گھس گئی کہ کتیا ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گئی مگر کہیں پتہ نہ چلا۔

    کتیا نے اپنے پانچوں بچّوں کو بلایا کہ ذرا ڈھونڈو تو لیکن بی پوری کا کہاں پتہ لگتا ہے۔ اس کتیا نے اور اس کے بچّوں نے ساری عمر اس آدھی پوری کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ابھی تک سارے کتّے اسی آدھی پوری کی تلاش میں ہروقت زمین سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے اس کا پتہ چلے تو نکالیں۔ اس نے ہماری دادی امّاں کو دھوکہ دیا تھا، مگر اس آدھی پوری کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

  • کھلونوں کی شکایت

    کھلونوں کی شکایت

    بچپن میں ہم سب ہر پریشانی، غم اور ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بچّوں کو فکر ہوتی ہے تو صرف اپنے کھیل کود کی اور نئے نئے کھلونے جمع کرنے کی۔

    اردو ادب میں بچّوں کی تفریح کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ادیبوں نے کہانیاں لکھی ہیں جن میں سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    یہ کہانی والدین بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا جو بچّے اردو پڑھنا جانتے ہیں، انھیں اے آر وائی کی ویب سائٹ پر خود اس کہانی کو پڑھنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ سادہ زبان اور عام فہم انداز میں لکھی گئی یہ کہانی نہایت دل چسپ ہے اور بچّوں میں شعور اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

    اس کا عنوان ہے ’’کھلونوں کی شکایت۔‘‘ آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔

    ’’یااللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا۔

    ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوب صورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن بنایا تھا۔ سَر پر ستاروں کا ٹیکا اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا۔

    زینب کی ساری سہیلیوں نے اس کی تعریفیں کی تھیں اور اب کوئی اس کا یہ حلیہ دیکھے۔ دوپٹہ غائب، لہنگا دھول مٹی میں اٹا اور ٹیکا سنہری بالوں میں الجھا اور گلے کا ہار ٹوٹ کر موتی ادھر ادھر پڑے تھے، لیکن زینب کو کچھ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی گڑیا کہاں اور کس حال میں ہے؟

    غم کے مارے نوری کی آہ نکل گئی۔ ’’کیا ہوا نوری کیوں رو رہی ہو؟‘‘ پلنگ کے نیچے مزید اندر کی طرف پڑے گھوڑا گاڑی کے گھوڑے نے نوری سے پوچھا۔ اسی گھوڑے پر دلہن بنا کر نوری کو بٹھا کر لایا گیا تھا۔ اس وقت اس گھوڑا گاڑی کی شان دیکھنے والی تھی۔ پچھلی نشست پر سرخ کپڑا بچھا تھا، سامنے گھوڑا گاڑی کا کوچوان ہیٹ لگائے بیٹھا تھا۔ چاروں پہیے سلامت تھے۔

    زینب کے چھوٹے بھائی بلال نے دلہن کو احتیاط سے سوار کرایا اور زینب کے اس بستر کے پاس غالیچے پر گھوڑا گاڑی کو آہستہ آہستہ لے کر آیا۔

    یہ غالیچہ دراصل شادی ہال بنایا گیا تھا۔ زینب اور بلال دونوں نے اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کو اس شادی میں بلایا تھا، جو بہت خوشی اور انہماک سے دلہن کی گھوڑا گاڑی کو آتے دیکھ رہے تھے۔

    واہ کیا شان دار استقبال ہوا تھا۔ ایک طرف زینب کی سہیلیاں استقبالیہ گیت گارہی تھیں اور دوسری طرف بلال کے دوستوں نے بانسری، ڈف، پیپڑی (منہ سے بجانے والا کھلونا) جو کچھ میسر تھا سب کے ساتھ دلہن کا استقبال کیا۔

    ایک زبردست شور اور ہنگامہ تھا۔ اس شور و ہنگامے کے درمیان زینب نے اپنی گڑیا دلہن نوری کو احتیاط سے گھوڑا گاڑی سے اتارا اور آہستہ آہستہ چلا کر چھوٹی میز پر بنائے گئے اسٹیج پر لے جاکر صوفے پر بٹھا دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گلابی گدّوں والے صوفے نوری کو بہت پسند تھے اور پھر یوں سب کے سامنے دلہن بن کر بیٹھنا بھی کیسی شان دار بات تھی۔

    زینب کی گڑیا نوری بہت معصوم شکل والی گڑیا تھی، جس کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس دن لال گلابی اور سنہری کر دوپٹہ پہن کر ستارے والا ٹیکا اور موتیوں کا ہار پہن کر تو نوری بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ گلابی گدّیوں والے صوفے پر بیٹھ کر وہ سب کو دیکھ رہی تھئ، لیکن یہ مزے کا دن کتنی جلدی گزر گیا۔ اس کے بعد زینب کو ہوش ہی نہیں آیا کہ اس کی گڑیا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

    ’’سچ ہے خوشی کے لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔‘‘ نوری نے ایک سسکی لے کر گھوڑا گاڑی کے گھوڑے سے کہا۔

    ’’ہاں! ٹھیک کہا۔ دیکھو ابھی میری گاڑی کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔ میری ایک ٹانگ میں موچ آگئی ہے اور اب میں ایسی حالت میں پڑا ہوں۔ نہیں معلوم کتنے دن تک مجھے ایسے ہی پڑے رہنا ہوگا۔‘‘ گھوڑا گاڑی سے الگ پڑے گھوڑے نے اداسی سے کہا۔

    ’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے گھبرا گئے۔ مجھے دیکھو میں تو پچھلے پورے ماہ سے ایسا بے حال پڑا ہوں۔‘‘ پلنگ کے دوسرے کونے میں پڑا رنگ برنگا لٹّو بھی بول اٹھا جو بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔

    ’’میرے ساتھ تو ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلال مجھے چابی دے کر زور زور سے گھماتا ہے اور جب میں نیچے کہیں جاکر پھنس جاتا ہوں تو وہ مجھے بھول جاتا ہے، کبھی پلنگ کے نیچے، کبھی الماری اور کبھی صوفے کے نیچے پڑے پڑے بے حال ہوتا رہتا ہوں۔‘‘ لٹّو نے بھی اپنی شکایت سنائی۔

    ’’پھر تم کیسے باہر نکلتے ہو؟‘‘ نوری نے ہمدردی سے پوچھا۔

    ’’میں بس اسی صورت میں باہر آتا ہوں جب امی جان ماسی کو کہتی ہیں کہ آج سب چیزوں کو ہٹا کر جھاڑو دینا۔‘‘

    ’’ہائے ہائے ہماری بھی کیا اوقات ہے؟‘‘ لٹّو نے مایوس ہو کر کہا۔

    نوری بولی: ’’اوقات تو ٹھیک ہی ہے، بس ہمیں شکایت ہے بچّوں سے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تو ہیں لیکن ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ہمیں سنبھالتے نہیں ہیں۔ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ یوں ہم ایسے ہی دھول مٹّی میں رُلتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’امی جان نے بھی زینب کو کئی دفعہ سمجھایا ہے، لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ نوری نے افسوس سے کہا۔

    ’’کیا بچّوں کو ہماری یاد بالکل بھی نہیں آتی؟‘‘ پاؤں کی موچ سے پریشان گھوڑے نے حسرت سے کہا۔

    ’’جب ہم بے جان کھلونوں کو بچّوں کی یاد آتی ہے تو بچّے بھی ضرور ہم کو یاد کرتے ہوں گے بلکہ کرتے ہیں۔ ماسی جب بھی مجھے باہر نکالتی ہیں تو بلال بہت خوش ہوتا ہے۔ مجھے صاف ستھرا کر کے دوبارہ کھیلتا ہے۔‘‘ لٹّو بولا۔

    ’’اچھا تو زینب بھی مجھے یاد کرتی ہوگی؟‘‘ نوری گڑیا نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں کیوں نہیں، دیکھنا جب وہ تم کو دوبارہ دیکھے گی تو کتنا خوش ہوگی۔‘‘ لٹّو نے تسلّی دی۔ یہ سن کر نوری گڑیا خوشی سے مسکرائی۔ گھوڑے گاڑی کے گھوڑے نے بھی حوصلہ پکڑا۔

    ’’اللہ کرے کوئی ہماری شکایت بچّوں تک پہنچا دے کہ وہ کھیلنے کے بعد ہم کو سنبھال کر رکھا کریں تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہم بھی۔‘‘

    (مصنّف: نامعلوم)

  • یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    کتنی ہی صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن ایسوپ کی حکایتوں، قصّے اور کہانیوں‌ کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اسے قدیم یونان کا باسی بتایا جاتا ہے جس کے مفصّل اور درست حالاتِ زندگی تو دست یاب نہیں‌، مگر اس قصّہ گو کی حکایتیں آج بھی مقبول ہیں۔ اس کی سبق آموز اور نہایت دل چسپ حکایتوں کا دنیا بھر کی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

    مرزا عصمت اللہ بیگ نے ایسوپ کی کئی حکایات کا اردو ترجمہ کیا تھا جو 1943ء میں کتابی شکل میں‌ شایع ہوئی تھیں۔ اسی کتاب سے ایک نصیحت آموز قصّہ پیشِ خدمت ہے۔

    ایک سرسبز میدان میں بہت سی بھیڑیں اور ان کے بچّے چرتے پِھر رہے تھے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی سے عقاب اڑتا ہوا آیا اور ایک بچّے پر جھپٹ پڑا۔ وہ اسے پنجوں میں‌ دبا کر تیزی سے اڑ گیا۔

    ایک کوّا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل میں‌ خیال کیا کہ میں‌ بھی ایک جانور پر جھپٹ کر اور اسے اپنے پنجوں میں پکڑ کر کیوں نہ اڑ جاؤں۔

    یہ ارادہ کرکے وہ بھی بھیڑ کے ایک بچّے پر جھپٹا اور اس کے بالوں میں‌ اچّھی طرح اپنے پنجے گاڑ کر اڑنا چاہا، مگر وہ تو بھیڑ کے بالوں‌ میں‌ اس طرح الجھے کہ کوّے کو اپنے پنجے نکالنا مشکل ہو گیا۔ آخر کار بے دم ہو کر اپنے پَر مارنے لگا۔

    بھیڑوں کا مالک قریب ہی بیٹھا کوّے کی اس حرکت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اٹھا اور کوّے کو پکڑ کر اس کی دُم اور پَر کاٹ ڈالے۔ شام کو اپنے گھر پہنچ کر اسے اپنے بچّوں کے حوالے کر دیا۔

    بچّوں نے پوچھا، "بابا یہ کیا جانور ہے؟”

    باپ نے جواب دیا، "اگر تم اس جانور سے پوچھو گے تو یہ اپنا نام عقاب بتائے گا، مگر میں‌ خوب جانتا ہوں کہ یہ صرف ایک کوّا ہے۔”

  • چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

    اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

    بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

    بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

    اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

    یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

    بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

    اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

    بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

    اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

    اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

    اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

    اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

    کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

    اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

    بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

    "اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

    بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

    اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

    یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)

  • محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    تاریخ و سیرت، سفر نامے، احوال و تذکرۂ اقوام، واقعات اور قصائص عام طور پر سبھی کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے زیادہ تر قدیم حکایات اور داستانیں فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں اور ’’جوامعُ الحکایات و لوامع الرّوایات‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کے مصنّف محمد عوفی ہیں۔ یہ فارسی زبان میں ان کی تحریر کردہ حکایات کی نادر اور مقبول کتاب ہے جس کی منتخب حکایات کا ترجمہ اختر شیرانی نے کیا تھا۔

    اختر شیرانی کا یہ ترجمہ 1943ء میں انجمنِ ترقی اردو سے شایع ہوا تھا۔ اختر شیرانی نے محمد عوفی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے مفصّل حالات کسی کتاب اور تذکرے میں نہیں ملتے، یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا سنِ پیدائش کیا ہے اور انھوں نے کب وفات پائی۔ ان کا نام محمد اور لقب سدید الدین ہے۔ وہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد میں سے تھے اور اسی نسبت سے عوفی کہلائے۔

    محمد عوفی کا وطن بخارا تھا جہاں انھوں نے تعلیم و تربیت پائی۔ ایک زمانہ تھا جب بخارا علم و فنون اور نابغہ روزگار شخصیات کا وطن تھا۔ اختر شیرانی لکھتے ہیں، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بخارا کا تعلیمی دور ختم ہونے پر عوفی نے علمی، تعلیمی اور ادبی مذاق کی نشوونما کی خاطر، نیز کسی معقول ذریعہ معاش کی جستجو میں ماوراءُ النہر اور خراسان کے مختلف دیار و احصار مثلاً سمر قند، آموسی، خوارزم، نیشا پور، ہرات، سجتان اور فرہ کا سفر کیا اور ہر زمین کے علما، آئمہ، فضلا، مشائخ اور خاص کر شعرا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آئمہ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی اور شعرا سے ان کا کلام سنا۔ ان سیّاحتوں کے دوران وعظ و تذکرہ کا مشغلہ جاری رہا۔ اسی مشغلے کے ذریعے امرا و سلاطین کی خدمت میں رسائی حاصل ہوتی رہی اور انعام و اکرام ملتا رہا۔ ‘‘

    اختر شیرانی لکھتے ہیں کہ خراسان سے عوفی سندھ اور ملتان کے حکم راں، ناصر الدین قباچہ کے دربار میں چلے گئے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عوفی کب سندھ پہنچے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ 617 ہجری (1220ء) سے پہلے یہاں آگئے تھے۔ وہ چند سال قباچہ کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’لبابُ الالباب‘‘ لکھی اور دوسری ’’جوامع الحکایات‘‘ کی تالیف اور ترتیب بھی شروع کر دی۔

    یہ کتاب تاریخی، مذہبی اور اخلاقی روایتوں اور فارسی لطائف کا مجموعہ ہے۔ خصوصاً اس میں ساتویں صدی ہجری کے واقعات و روایتیں بکثرت موجود ہیں۔ نیز معاصر دنیائے اسلام، بالخصوص ایران کے تاریخی و تمدنی حالات کا بھی ذکر ہے۔ انہی خصوصیات نے اسے بعد کے مصنفین کا مقبول ماخذ بنایا۔ فارسی میں محمد عوفی کی کتاب کی چار جلدیں ہیں جو ایک سو ابواب پر منقسم اور دو ہزار ایک سو تیرہ حکایاتوں پر مشتمل ہیں۔

    محمد عوفی اور ان کی اس مشہور کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک ایسا واقعہ نقل کررہے ہیں جسے حکایت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

    اس حکایت کا عنوان ہے، ’’قصائی یا رعایا‘‘

    مصنف نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ سمر قند کے سلطان طمغاج خان کی خدمت میں ایک مرتبہ شہر کے قصائیوں نے درخواست کی کہ گوشت کے موجودہ نرخوں میں ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، کام زیادہ ہے۔ محنت کے مقابلے میں آمدنی بہت کم ہے، اگر بادشاہ گوشت مہنگا کرنے کی اجازت دیں تو ہم نذر کے طور پر ایک ہزار دینار خزانے میں پہنچا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خزانے میں رقم پہنچائی جائے اور گوشت کے نرخ میں اضافہ کر دیا جائے۔

    جب قصائی ایک ہزار دینار شاہی خزانے میں داخل کر کے گوشت کا نرخ بڑھا چکے تو بادشاہ نے شہر میں منادی کرائی کہ جو شخص قصائیوں سے گوشت خریدے گا اسے سزا دی جائے گی چناں چہ لوگوں نے گوشت خریدنا بند کر دیا اور چار چار، چھے چھے آدمی مل کر بکرا خریدنے اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قصائیوں کی آمدن کا دروازہ بند ہو گیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔

    آخر تھک ہار کر انھوں نے ایک رقم اور خزانے میں داخل کی اور اسی پچھلے نرخ پر گوشت فروخت کرنے کی ہامی بھری تب بادشاہ نے اپنا حکم واپس لیا اور قصائیوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ کسی نے پوچھا تو طمغاج نے کہا،’’یہ اچھی بات نہ تھی کہ میں اپنی رعایا کو ایک ہزار دینار میں قصائیوں کے ہاتھ بیچ دیتا۔‘‘

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • خوش قسمت

    خوش قسمت

    کسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا۔ ایک دن وہ کچھ بیمار ہو گیا جس کے سبب اس کی جسمانی طاقت جاتی رہی اور نقاہت کی وجہ سے اس چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ چوہا کسی طرح دوپہر کو سخت گرمی میں گرتا پڑتا علاج کے لیے اُلّو کے مطب جا پہنچا۔ وہ جنگل کا مشہور حکیم تھا۔ اُلّو نے چوہے کا معائنہ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ وہ تو قریب المرگ ہے۔

    اُلّو نے کہا کہ بس اب تمھاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ جان کر چوہا اداس ہوگیا۔ حکیم اُلّو نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ موت تو ہر نفس کو ایک دن آنی ہے، تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں پہلے ہی علم ہوگیا کہ تمھارے جانے کا وقت قریب ہے، ورنہ کتنے ہی چوہے آخری وقت تک خوابِ غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ اپنی عیش کی زندگی اور دنیوی مصروفیت میں اس بات کی فکر ہی نہیں‌ کرتے کہ کوئی اچّھائی اپنے نام کرلیں۔ خلقِ خدا کے لیے کچھ نیک کام کرتے جائیں۔ ہر موقع پر ہمّت اور بہادری کا ثبوت دیں، تم تو خوش قسمت ہو کہ ابھی کچھ وقت ہے جس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔

    چوہا اس کی باتوں‌ پر غور کرتا واپس گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک جنگلی بلّی کی اس پر نظر پڑگئی۔ بلّی نے چوہے کو ہڑپ کرنے کے لیے جھپٹا مارا، چوہے کے اندر نجانے کہاں سے اتنی توانائی آگئی کہ اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا اور بلّی کی دھنائی کردی۔ یہ اتنا غیرمتوقع درعمل تھاکہ بلّی اپنا بچاؤ نہ کرسکی اور خوف کے مارے وہاں‌ سے بھاگ نکلی۔ وہ حیران تھی کہ کل تک جو معمولی جانور اس کی آواز سے ڈر جاتا تھا، آج اس کی یہ درگت بنا رہا ہے۔

    ادھر چوہے کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا چار دن کی زندگی ہے، اسے بھی ڈر کے کیوں‌ گزاروں۔ اب میرے پاس کھونے کو بچا ہی کیا ہے، موت تو آنی ہی ہے، کیوں‌ نہ حالات کا مقابلہ دبنگ طریقے سے کروں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھا تو دیکھا کہ آسمان سے ایک باز اُسے اچکنے کے لیے نیچے آ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی چوہے نے ایک پتھر اُٹھایا اور نشانہ باندھ کر پوری قوّت سے باز کے منہ پر دے مارا۔ پتھر باز کی آنکھ پر لگا اور وہ تکلیف سے چلّاتا ہوا وہاں‌ سے آگے نکل گیا۔ اب تو چوہا جیسے شیر ہو گیا۔

    اُسے لگ رہا تھا کہ ساری زندگی تو بیکار اور ناحق ڈرتے ہوئے گزار دی۔ اُس نے سوچا کہ میں تو صرف قد میں ہی چھوٹا ہوں، میری ہمّت کے آگے تو پہاڑ بھی نہ‌ ٹھہرے۔ ان خیالات نے اسے بہت طاقت اور توانائی دی۔ اس کی نظر میں اب جنگل کا بادشاہ شیر بھی کسی بکری جیسا تھا۔

    چوہا اس بلّی اور باز کے مقابلے میں اپنی جیت پر خوشی سے پھولے نہیں‌ سما رہا تھا۔ راستے میں اچانک پیر پھسلا تو ایک گہرے گڑھے میں جا گرا۔ اس کا سَر کسی پتھر سے ٹکرایا اور خون نکلنے لگا۔ چند منٹ بعد اپنے حواس بحال کرکے وہاں‌ سے نکلا اور دوبارہ حکیم کے پاس پہنچ گیا تاکہ وہ اس کی مرہم پٹّی کردے۔

    وہاں‌ پہنچا تو سورج ڈھلنے کو تھا۔ حکیم نے زخم پر دوا لگائی اور چوہے کو بغور دیکھا تو اُسے سمجھ آیا کہ دوپہر میں اس نے جس مرض کی تشخیص کی تھی وہ غلط تھی۔ چوہے کو تو معمولی بخار ہے جو دوا کی چند خوراکوں‌ سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔

    اُلّو نے چوہے کو یہ بات بتانے سے پہلے کہاکہ زخم گہرا ہے، اسے بھرنے میں کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا۔ چوہا یہ سن کر افسردگی سے بولا میری تو موت سَر پر ہے، اوپر سے چوٹ اور یہ زخم بھی لگ گیا۔ اس پر حکیم نے سچ بتا دیا اور غلط تشخیص پر معافی بھی مانگ لی۔ چوہا یہ جان کر بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی گھر کو جانے لگا۔ خوشی کے ساتھ اس نے اپنے اندر عجیب سی تبدیلی بھی محسوس کی لیکن اسے سمجھ نہ سکا۔

    شام گہری ہوچلی تھی۔ راستے میں اُسے ایک چھوٹا سا بچّھو نظر آیا۔ چوہے نے سوچا کہ اس موزی کو مار بھگائے، مگر فوراً ہی اُسے بچھو کا خطرناک زہر اور نوکیلا ڈنک یاد آگیا۔ خوف کے احساس نے اس کے بدن میں‌ سنسنی پیدا کردی۔ وہ راستہ بدل کر نکلنے لگا۔ تب اچانک ہی بچّھو گویا اڑتا ہوا اس تک پہنچ گیا اور چوہے کو ڈنک مار کر آناً فاناً ختم کر دیا۔

    اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص میّسر و موجود کو کھو دینے سے نہیں‌ ڈرتا، وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب ایسا شخص اپنی منزل کا تعین کرکے اس کی سمت بڑھنا شروع کرتا ہے تو راستے کی مشکلات کا مقابلہ بھی ڈٹ کرتا ہے، وہ گھبراتا نہیں‌ ہے اور کام یابی ایسے ہی لوگوں کا مقدّر بنتی ہے۔

    (غیرملکی ادب سے ماخوذ، سائرہ جمال کا انتخاب)

  • شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

    ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشکوں‌‌ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

    ایک دن اس گدھے کو شاہی اصطبل کے داروغہ نے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

    یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آ یا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہ تر و تازہ گھاس ، چنے اور جو کا دانہ کھا کھا کر دنوں میں پھول کر موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ نے اسے لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جاکر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

    ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

    یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

    شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔

    جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

    سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔

    چند دنوں بعد داروغہ نے ماشکی کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔ گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے اور ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔