Tag: اردو کہانیاں

  • دو بھائی (قدیم داستان)

    دو بھائی (قدیم داستان)

    سُند اور اُپ سُند دونوں سگے بھائی تھے۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہ ہوتے تھے۔

    دونوں کے دل میں سمائی کہ ایسی زندگی حاصل کریں کہ موت کا ڈر نہ رہے۔ دونوں ایک چوٹی پر جاکر ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ برسوں تک بھی جب کوئی دیوتا متوجہ نہ ہوا تو مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر ریاضت کرنے لگے۔

    برہما جی سے اُن کی یہ حالت نہ دیکھی گئی۔ انھوں نے خود دونوں کو وردان مانگنے کو کہا۔ دونوں یک زبان ہوکر بولے:

    مہاراج! ہماری مانگ بہت چھوٹی سی ہے۔ بس اتنی کہ کوئی ہتھیار ہم پر اثر نہ کرسکے اور ہم کسی دشمن کے ہاتھوں نہ مریں۔

    برہما نے کہا، ”یہ ناممکن ہے، موت اٹل ہے۔“

    اس پر دونوں نے سوچ کر کہا۔ ”ہمیں کوئی اور نہ مار سکے، اگر مرنا ہی ہے تو ہم بس ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی مرسکیں۔“

    برہما نے ان کی بات مان لی اور غائب ہو گئے۔ دونوں چوں کہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے، اس لیے انہیں یقین ہوگیا کہ اب وہ امر ہیں اور دنیا میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ انھوں نے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہو وہ آپس میں کبھی نہیں لڑیں گے۔

    اب دونوں نے دنیا میں آفت برپا کردی۔ جس کو چاہتے مار ڈالتے، جس کو چاہتے بادشاہ بنا ڈالتے اور جس کو چاہتے ملک بدر کردیتے۔ ان کے غرور اور تکبر کا یہ عالم تھاکہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے اور لوگوں کو طرح طرح سے ستاتے، تھوڑے ہی دنوں میں انھوں نے جور و جفا اور ظلم و تعدی کا ایسا بازار گرم کیا کہ لوگ ان کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے لگے۔

    بالآخر سب برہما سے فریادی ہوئے۔ لوگوں کا حال سن کر برہما کو بہت دکھ ہوا، مگر وہ زبان دے چکے تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔

    کافی سوچ بچار کے بعد برہما نے ایک حسین عورت کا روپ دے کر تلوتما کو دونوں بھائیوں کے پاس جانے اور ان کو رجھانے کا حکم دیا۔

    تلوتما ان بھائیوں کے پاس پہنچی اور انھیں اپنے رقص کا کمال دکھانے لگی۔ تلوتما نظر اٹھاتی تو معلوم ہوتا بجلی گررہی ہے اور اٹھلا کے چلتی تو محسوس ہوتا بہار مسکرا رہی ہے۔

    نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں بھائی اس کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئے۔ وہ ان دونوں کے بیچ آکر کھڑی ہوجاتی تو ایک طرف سُند اور دوسری طرف اُپ سُند اس کا ہاتھ تھام لیتے۔

    سُند کا اصرار تھا کہ وہ بڑا ہے اس لیے خوب صورت عورت پر اس کا حق ہے۔ اُپ سُند کا کہنا تھا کہ بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کی خوشی کا خیال رکھیں، اس لیے حسینہ اس کو ملنی چاہیے۔

    تلوتما کا جادو چل چکا تھا۔ تکرار بڑھنے لگی اور دونوں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل گئے۔ جھگڑا بڑھ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا اور زمین خون سے سرخ ہوگئی۔ ان دونوں کی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔

    برہما نے کہا، ”دیکھ لو، باہمی عداوت بڑے بڑے سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔“

    (اس قدیم ہندی داستان میں نفسانی خواہشات، دنیاوی اور ظاہری حسن کے دھوکے میں آجانے کا انجام بتایا گیا ہے)

  • دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    کہتے ہیں کسی شہر سے نزدیک ایک گائوں میں دھوبی رہتا تھا جو قریبی ندی کے کنارے گھاٹ پر کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس کہیں سے ایک اچھی نسل کا کتا آگیا جو اسی کے ساتھ رہنے لگا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رخ کرتا اور کام ختم کر کے ہی لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔

    وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتا۔ جب صبح سویرے دھوبی گھاٹ پر چلا جاتا تو وہ اپنے مالک کی دہلیز پر جیسے اس کی واپسی کی راہ تکتے بیٹھا رہتا۔

    دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا لیتی اور گھاٹ پر جانے لگتی تب کتا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا، بیوی تو کھانا دے کر لوٹ آتی مگر کتا وہیں رک جاتا اور اپنے مالک کے ساتھ لوٹتا۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔

    دھوبی کی بیوی کھانا باندھتی تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی ساتھ ہی باندھ دیا کرتی تھی کہ گھاٹ پر اس کا شوہر کتے کے آگے ڈال دے گا۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو اس وقت کتا بھی تقاضا کرے گا۔

    دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر واپس آجاتی اور ادھر وہ بے زبان جانور گھاٹ پر اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکالے اور اسے بھی دے۔ دھوبی کام سے فارغ ہو کر کھانا کھاتا، لیکن یہ سوچ کر کتے کو روٹی نہ ڈالتا کہ گھر پر دے دی گئی ہو گی۔

    دھوبی کتے کی بے چینی کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کتا کم زور ہونا شروع ہو گیا اور ایک روز مر گیا۔ گائوں والوں نے بڑا افسوس کیا۔ سب اس کی موت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

    ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر نکلا کسی نے کچھ پوچھا، کسی نے کچھ، مگر ایک سیانے نے سوال کیا کہ اسے روٹی کتنی ڈالی جاتی تھی؟

    دھوبی نے بیوی کو بلایا کہ بتائو کتے کے آگے روٹی کتنی ڈالتی تھی؟ تب یہ راز کھلا کہ انجانے میں دھوبی سمجھتا رہا کہ گھر اور اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو روٹی مل رہی ہے۔ مگر ماجرا اس کے برعکس تھا۔

    یوں سب اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب "بھوک اور فاقہ” ہے۔ تب کسی سیانے نے کہا:

    "یک در گیر و محکم گیر” (ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو) اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ "دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”

    ARY News Urdu- انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    کیا آج کا دن دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے؟

    آج ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی مناسبت سے دنیا ہر سال 2 اپریل کو بچوں کی کتب کا عالمی دن بھی مناتی ہے۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا ایک عظیم لکھاری اور ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔

    اس کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے۔ 1805 میں پیدا ہونے والے اینڈریسن نے غربت اور تنگ دستی دیکھی تھی اور ایک روز والد کا سایہ بھی سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس سال کا تھا جب معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    اینڈرسن اسکول میں چند ہی جماعتیں ہی پڑھ سکا تھا، مگر جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن کے تخلیقی جوہر اور اس کی صلاحیتوں کو بھانپ کر اس کے ایک محسن نے اسے کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس کا یہ فیصلہ درست تھا۔

    اس نے بچوں اور بڑوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ اس کی کہانیاں دل چسپ، بامقصد اور سبق آموز تھیں جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کے بارے میں‌ نہایت خوب صورتی سے کہانیاں تخلیق کیں جن میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس لکھاری کی تخلیقی صلاحیتوں اور اس کے قلم کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا نے اس کے یومِ پیدائش پر بچوں کی کتب کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا ہے۔ تاہم کرونا کی وبا کے باعث اس سال کہیں بھی اجتماع اور کتب میلوں کا انعقاد نہیں‌ کیا جاسکا ہے۔ ماضی میں اس دن کی مناسبت سے میلے اور دیگر تقاریب منعقد کی جاتی رہی ہیں۔

    آج زمانہ بدل چکا ہے، اور اب کتب بینی کا رجحان کم ہو رہا ہے یا مطالعے کے لیے برقی آلات کا سہارا لیا جارہا ہے، لیکن اس دور میں بھی کتب اور مختلف رسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید آلات اوراقِ رسائل اور کتابوں کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتے۔ ان کی اپنی اہمیت اور افادیت ضرور ہے، لیکن ہمیں اپنے مستقبل کو زیادہ باشعور، کارآمد اور مفید انسان بنانے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے بہترین طریقے اپنانے کی ضرورت ہے اور کتابوں کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

    دنیا بھر میں دانش وروں اور نابغہ روزگار شخصیات کا اصرار ہے کہ بچوں کی کردار سازی اور ان کی تعلیم و تربیت میں معیاری کہانیاں اور معلوماتی کتب بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات کے غیر ضروری اور خاص طور پر بے مقصد استعمال کے نقصانات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو کتب بینی پر آمادہ کریں اور اس دن کی مناسبت سے بچوں کو دل چسپ انداز اور عام فہم انداز سے کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں۔

    پاکستان میں چند دہائیوں قبل تک بچوں کے جرائد کی اشاعت اور مختلف رسالوں میں ان کے لیے گوشہ مخصوص ہوتا تھا جس کا ہر گھر میں‌ بچے بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ یہ سب نونہالانِ وطن کی اخلاقی اور فکری تربیت، کردار سازی اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ ہے جن کے قارئین کی تعداد کم ہوچکی ہے اور کئی ماہ نامے اور مختلف رسائل بند ہو چکے ہیں جو نہایت افسوس ناک اور قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔

  • حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    ٹامی یوں دیکھنے میں تو بہت تگڑا تھا۔ بھونکتا تو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھا کہ اندھیری رات میں اس پر گدھے کا شبہ ہوتا، لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔

    دو چار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کا مزہ چکھانے کے لیے میدان میں آیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑا جیوٹ سے لڑا۔ پنجے اور دانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دُم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کے ہاتھ رہا، لیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لیے اور کمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کا سہرا ٹامی کے سَر رکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔

    ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اور دانت نکال دیے جو صلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کو منہ نہ لگایا۔

    اتنا صلح پسند ہونے پر بھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابر والے تو اس سے اس لیے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہو کر بھی اس قدر صلح پسند کیوں ہے۔ اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کر ٹامی کی زندگی دشوار ہو جاتی تھی۔ مہینوں گزر جاتے اور پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔

    دو تین بار اسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہو گئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اور مزے دار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھر پیٹ کھانے کو ملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتا رہا تو اس نے مجبور ہو کر مل جل کر کھانے کی روش پھر اختیار کر لی۔

    ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھر گیا ہو، لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اور خرگوش اور بھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کا کوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کا سایہ ہو۔ پینے کو ندی کا صاف ستھرا پانی ہو، وہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اور میٹھی نیند سوؤں۔

    چاروں طرف میری دھاک جم جائے، سب پر ایسا رعب چھا جائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کو ادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔

    اتفاق سے ایک دن وہ انہی خیالوں کے سرور میں سر جھکائے سڑک چھوڑ کر گلیوں میں سے چلا جا رہا تھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کر ٹامی کی گردن پکڑ لی۔

    آخر میں ہار کر ٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دو چار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پر رحم کریں، وہ الٹے ٹامی پر ہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑ دیا۔ وہ جان چھڑا کر بھاگا، لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑ گئی اور ٹامی نے اس میں کود کر اپنی جان بچائی۔

    کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھر گئے۔ تیرتا ہوا اس پار پہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔

    یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہریالی ہی ہریالی نظر آتی۔ کہیں جھرنا بہنے کا دھیما ترنم تھا تو کہیں درختوں کے جھنڈ تھے اور ریت کے سپاٹ میدان۔ بڑا ہی دل فریب منظر تھا۔ بھانت بھانت کے پرندے اور چوپائے نظر آئے، بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرا اٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔

    وہ آپس میں اکثر لڑا کرتے تھے اور اکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ پاسکے گا، اس لیے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دو لڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہو کر گر پڑتا تو ٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کام یابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کر کچھ نہ کہتا۔

    تھوڑے ہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پر جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم، دراز قد اور خوف ناک ہو گیا۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار اب وہ خود بھی کر لیتا۔ جنگل کے جانور اب چونکے اور اسے وہاں سے بھگا دینے کی کوشش کرنے لگے۔

    ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مار ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا فلاں تم کو گالی دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑ جاتے اور ٹامی کی چاندی ہو جاتی۔

    آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔

    ٹامی کو کوئی فکر تھی تو یہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کا چسکا بڑھتا جاتا تھا اور اس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکم راں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگا رہتا ہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانور ایک آواز ہو کر کہتے ’’جب تک جییں گے آپ کے وفادار رہیں۔‘‘

    آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کو لمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اور دن دن بھر ندی کے کنارے ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دَم ہو جاتا مگر ذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکر رہتی۔

    ایک دن اس کا دل خوف سے اتنا بے چین ہوا کہ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اور ادھر سے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا، لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکر لگاتا رہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑ گئیں، بھوک سے بے قرار ہو کر گر گر پڑتا مگر وہ اندیشہ کسی طرح دور نہ ہوتا۔

    آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پر آنسو نہ بہائے۔ کئی دن تک اس پر گدھ اور کوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوا اور کچھ نہ رہ گیا۔

    ( سیاست سے سماج تک پریم چند نے اپنی کہانیوں‌ اور افسانوں‌ کے ذریعے کئی حقیقتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے، یہ کہانی بھی مصنف کی بامقصد اور اصلاحی فکر کا نتیجہ ہے)

  • نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    سفر کا سب سے دل چسپ پہلو مختلف لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی کبھی پورا سفر یادگار بنا دیتی ہیں۔

    ماضی کی یادیں ہماری عمر ایک بار پھر برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ نہ جانے کتنوں نے سفر کی راتیں، رَت جگوں میں بسر کی ہوں گی۔ کسی دور افتادہ گاﺅں میں جہاں ابھی اسٹیم انجن نہیں پہنچا ہے، تمام رات کوچ کا سفر اور کوچ کے سفر میں کسی خوب صورت خاتون کی ہم سفری۔

    کوچ کی مٹیالی روشنی میں اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں۔ وہ حُسن جو تمام راستے صرف جھلک دکھاتا رہا ہے، وہ حُسن جو راستے میں کہیں سے دفعتا سوار ہو کے آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے اور جب سحر نمودار ہونے لگتی ہے، کتنا اچھا لگتا ہے، اپنی ہم سفر کو نیند سے بیدار ہوتے دیکھنا پھر وہ اپنی نشست پر محتاط ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اس کی توجہ آپ پر نہیں بلکہ راستے کے قدرتی مناظر پر ہے۔

    میری یادداشت میں سفر کے ایسے کئی لمحے محفوظ ہیں جو آج بھی مجھے ایک سرور انگیز بے چینی عطا کرتے ہیں۔

    ان دنوں میں فرانس کے ایک دور دراز پہاڑی سلسلے میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ نہ بہت اونچا تھا نہ ہی بنجر، میں نے ابھی ایک مختصر پہاڑی عبور کی تھی اور اب ایک چھوٹے سے ریستوران میں داخل ہو رہا تھا، میری نظر ایک ضعیف عورت پر پڑی۔ ایک اجنبی، کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی نہیں۔ وہ تنہا ایک میز پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔

    کھانے کا آرڈر دے کے میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔ اس کی عمر تقریباً ستّر سال ہوگی۔ نکلتا ہوا قد جوانی کی دل کشی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر نظر آرہے تھے، سفید بال سلیقے سے پرانے فیشن کے مطابق بنائے گئے تھے۔ اس کا لباس انگریز سیاح عورتوں جیسا تھا، یہ لباس اس کی شخصیت سے قدرے مختلف تھا جیسے اب لباس کی اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہ رہ گئی ہو۔

    اسے دیکھ کر ایک قدیم روایتی خاتون ذہن میں ابھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی اور چہرے پر حوادثِ زمانہ کے زخم صاف نظر آتے تھے۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ یہ اکیلی ان تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں کیوں گھوم رہی ہے؟ میں ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کھانا ختم کیا اور بل ادا کرکے شال درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    باہر ایک گائیڈ اس کا منتظر تھا۔ میں ان دونوں کو دور تک وادی کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے بعد میں ایک وسیع سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ سبزہ زار کے کنارے کنارے شفاف دریا بہہ رہا تھا۔ منظر اتنا خوش نما تھا کہ وہیں بیٹھ جانے کو دل چاہ رہا تھا، معاً میں نے اسی عورت کو دیکھا۔

    وہ دریا کے کنارے نظریں نیچی کیے ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔ وہ دریا کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کی گہرائی میں کچھ تلاش کررہی ہو۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے درختوں کے قریب کھڑے ہوئے گائیڈ کی طرف چلی گئی۔

    دوسرے دن شام کے وقت میں سیورولز کے قلعے کی سیر کررہا تھا۔ یہ قدیم قلعہ وادی کے درمیان ایک اونچے ٹیلے پر ایک دیو ہیکل مینار کی طرح کھڑا تھا۔

    میں اکیلا کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ اچانک ایک دیوار کے پیچھے مجھے کسی سائے کا گمان ہوا اور کسی ہیولے کی جھلک دکھائی دی جیسے اس ویران قلعے کے کسی مکین کی بے چین روح ہو۔ میں کچھ ڈرا، لیکن پھر ایک دَم میرا ڈر جاتا رہا۔ میں نے اسے پہچان لیا یہ وہی عورت تھی۔

    وہ رو رہی تھی، زار و قطار رو رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں رومال تھا جس سے وہ بار بار آنسو پونچھتی۔ میں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا، لیکن ابھی میں پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا۔

    ”ہاں موسیو! میں رو رہی ہوں، لیکن ہمیشہ نہیں روتی ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔“

    ”معاف کیجیے گا خاتون! میں آپ کی خلوت میں مخل ہوا۔“ میں شرمندگی سے ہکلانے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔

    ”ہاں…. نہیں۔“ اس نے کہا۔

    وہ رومال آنکھوں پر رکھ کے ہچکیاں لینے لگی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں، خود پر قابو پایا اور اپنی روداد سنانے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنا غم کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے جیسے غم کا بوجھ تنہا سہارنا اب اس کے لیے مشکل ہو۔

    ”یادش بخیر، ایک زمانہ تھا کہ میں بہت خوش و خرم تھی، میرا اپنا ایک گھر تھا، میرے اپنے شہر میں، لیکن اب میں وہاں اپنے گھر جانا نہیں چاہتی، وہاں وقت گزارا اتنا کرب ناک ہے کہ اب میں ہمیشہ سفر میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

    وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ”میرا ایک بیٹا تھا، میرے اس حال زار کی وجہ وہی ہے، اسی کے باعث میں اس حالت کو پہنچی ہوں مگر آہ، بچے کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، انسان کے پاس خوشی کا کتنا مختصر وقت ہوتا ہے، میں اگر اپنے بیٹے کو اب دیکھوں تو شاید ایک نظر میں اسے پہچان بھی نہ سکوں۔

    ”آہ، میں اس سے کتنا پیار کرتی تھی، کتنا چاہتی تھی اسے، ہر وقت اسے سینے سے لگائے رہتی، اسے ہنستاتی، بہلاتی پوری پوری رات جاگ کر اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہتی، لوگ مجھے دیوانی سمجھتے، میرا مذاق اڑاتے لیکن میں ایک پل بھی اسے خود سے جدا نہ کرتی، میں نے اس کے بغیر کہیں آنا جانا ترک کر دیا، کیا کرتی اس سے الگ ہو کر مجھے چین ہی نہیں آتا تھا۔

    وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بورڈنگ میں داخل کرادیا اس کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، وہ میرا نہیں رہا۔ اوہ میرے خدا! وہ صرف اتوار کو آتا اور بس۔

    ”پھر وہ پیرس چلا گیا، وہاں کالج میں اس کا داخلہ ہوگیا، اب وہ سال میں صرف چار مرتبہ آتا، میں ہر دفعہ اس میں نمایاں تبدیلی دیکھتی ہر بار وہ کچھ زیادہ بڑا ہوجاتا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ رہی تھی، ہر بار وہ جب بھی آتا پہلے سے بدلا ہوا لگتا، اب وہ بچہ نہیں تھا لڑکا تھا، میں اس کا بچپنا کھو بیٹھی تھی، یہ دولت مجھ سے لوٹ لی گئی تھی، اگر وہ میرے ساتھ ہی رہتا تو جو محبت اسے مجھ سے ہوتی وہ اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی تھی۔

    ”میں اسے سال میں صرف چار بار دیکھتی تھی۔ ذرا غور کرو، ہر دفعہ اس کی آمد پر اس کا جسم اس کی آنکھیں، اس کی حرکتیں اس کی آواز، اس کی ہنسی وہ نہیں رہتی تھی جو گزشتہ آمد کے موقع پر ہوتی تھی۔ ہر دفعہ وہ نیا بن کر آتا۔

    ایک سال وہ آیا تو اس کے گالوں پر بال آگئے تھے، میں حیرت زدہ رہ گئی اور تم یقین کرو، غم زدہ بھی ہوئی، کیا یہی میرا ننھا سا منا سا بچہ ہے، میری کوکھ سے جنم لینے والا جس کے سر پر ملائم ملائم گھنگریالے بال تھے۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا جسے میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گھٹنوں پر سلاتی تھی، یہ طویل قامت نوجوان نہیں جانتا کہ اپنی ماں کو کیسے پیار کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھ سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔

    ذرا غور کرو، وہ اپنی ماں سے محبت ایک ڈیوٹی سمجھ کر کرتا تھا، وہ مجھے ماں کہہ کر صرف اس لیے پکارتا تھا کہ یہی روایت تھی۔

    میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر میرے ماں باپ کی باری آئی، پھر میں اپنی دو بہنوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، موت کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کام ختم کرلے تاکہ پھر ایک طویل مدت تک اسے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ پورے خاندان میں وہ صرف ایک یا دو افراد اس لیے زندہ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی یاد میں زندگی بھر روتے رہیں۔

    ”میں بھی تنہا زندہ رہی، میرا جوان بیٹا بہت فرض شناس تھا۔ میں اس کے پاس چلی گئی، لیکن اب وہ ایک نوجوان مرد تھا، اس کے اپنے مشاغل تھے، اپنی مصروفیات تھیں، اس نے مجھے یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ میں اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہوں۔ آخر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ اس کے بعد میں نے اسے زیادہ نہیں دیکھا، نہ دیکھنے کے برابر دیکھا۔

    ”اس نے شادی کرلی، میں بہت خوش تھی۔ ماں بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اب ہم پھر ایک ساتھ رہ سکیں گے، میں اپنے پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلوں گی، ننھے ننھے گلابی گلابی روئی کے گالے اپنی گود میں پروان چڑھاﺅں گی۔

    میں وہاں پہنچی اس کی بیوی ایک انگریز لڑکی تھی، وہ روز اول سے مجھے ناپسند کرتی تھی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اس کے شوہر کو اس سے زیادہ چاہتی ہوں اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے اس کے گھر سے نکلنا پڑا، میں ایک بار پھر تنہا رہ گئی، ہاں موسیو! میں ایک بار پھر بالکل تنہا رہ گئی تھی۔

    پھر وہ انگلستان چلا گیا، اپنی بیوی کے والدین کے پاس، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے حسرت سے سوچا اب وہ ان کا ہو کر رہے گا جیسے وہ میرا نہیں ان کا بیٹا ہو، انھوں نے اسے مجھ سے چھین لیا، چرا لیا، وہ وہاں سے ہر ماہ مجھے خط لکھتا، شروع شروع میں کبھی کبھی وہ مجھ سے ملنے بھی آتا، لیکن اب اس نے آنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔

    ”اب مجھے اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی پڑنے لگی تھیں اور بالوں میں کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی تھی، میں اسے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ آدمی، یہ تقریباً بوڑھا آدمی میرا بیٹا ہے! ماضی کا چھوٹا سا گلابی گلابی گل گوتھنا سا۔

    ”اب میں شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ اب میں اپنا تمام وقت سفر میں گزارتی ہوں، کبھی مشرق میں، کبھی مغرب میں، بالکل تنہا جیسے تم دیکھ رہے ہو۔“

    اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”گڈ بائی موسیو!“ مجھے رخصت کر کے وہ وہیں راستے میں کھڑی رہ گئی، میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ ایک ٹیلے پر کھڑی دور افق میں دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ تلاش کررہی ہو، تیز ہوا سے اس کے کندھے پر پڑی ہوئی شال کا ایک سرا اور اس کا اسکرٹ کسی جھنڈے کی طرح لہرا رہا تھا۔

    ( فرانسیسی ادیب موپساں‌ کی کہانی کا اردو ترجمہ)

  • عورتوں کی "مرضی اور من مانیوں” کی جھلکیاں!

    عورتوں کی "مرضی اور من مانیوں” کی جھلکیاں!

    دنیا تیزی بدل رہی ہے۔ حیران کُن ایجادات اور تسخیرِ کائنات کے راستے میں‌ انسان کا ہر قدم اس کے فہم و تدبّر، علم، قابلیت اور کمال کی دلیل اور روشن مثال ہے۔

    اسی فہم و تدبّر اور شعور نے انسان کو سکھایا کہ معاشروں میں‌ مرد کے "نصف” یعنی عورت کا کردار، گھروں اور سماج میں‌ بدلاؤ، ترقی اور خوش حالی کے سفر میں نہایت اہمیت رکھتا ہے جسے تسلیم کرتے ہوئے عورت کو بنیادی حقوق دینے کے ساتھ بااختیار بنانا ہو گا اور تب دنیا نے خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ ریاستیں عورت کے بنیادی حقوق کے ضامن ہوں، معاشرے عورتوں‌ کو انفرادی طور پر باختیار، آزاد اور زیادہ محفوظ بنائیں اور اسے عزت اور وقار دیں‌ جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔

    پاکستان میں‌ بھی مختلف شعبہ ہائے حیات میں عورت پہلے کی نسبت زیادہ بااختیار، خود کفیل اور گھر سے سماج تک کسی حد تک فیصلہ کُن کردار کی حامل بھی ہے۔ عورتیں اپنے گھروں‌ میں بنیادی وظائف اور ذمہ داریوں‌ کو نبھانے کے ساتھ ساتھ معاشی میدان میں‌ مردوں کا ہاتھ بٹارہی ہیں اور ان کے اس کردار نے انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔

    پاکستان میں‌ گزشتہ سال "عورت مارچ” کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے چند بینروں اور نعروں نے تنازع اور گرما گرم مباحث کو جنم دیا۔ انہی میں ایک نعرہ ‘‘میرا جسم میری مرضی’’ بھی تھا۔ آج اسی دن کی مناسبت سے ہم آپ کے سامنے محمد عثمان جامعی کی چند کہانیاں‌ رکھ رہے ہیں‌ جن میں آپ ایک پاکستانی عورت کی "مرضی” اور "من مانی” کی جھلکیاں‌ دیکھ سکتے ہیں۔

    یہ چند مختصر کہانیاں ہیں جو پاکستانی عورت کی ‘‘مرضی’’ اور ‘‘من مانی’’ کے جائز جذبے کی نہایت دل گداز اور حسین و جمیل تفہیم ہیں۔ یہ کہانیاں بتاتی ہیں کہ ایک عورت کی مرضی اور اختیار میں کیسے محبت کی چاشنی، آزادی کی مسرت شامل ہوسکتی ہے، وہ کس پیار بھرے زعم اور مان کے ساتھ، کس لطیف بھرم سے اپنا حق جتا سکتی ہے، من مانی کرسکتی ہے۔

    دیکھیے کہ عورت مختلف روپ میں ایک مرد کو اپنے مہکتے ہوئے بھروسے، چہکتے ہوئے زعم اور دمکتے ہوئے غرور سے کیسے اپنی مرضی اور اشارے کا پابند کرتی ہے۔

    آج مرد و زن سے متعلق ہر تنازع اور حقوق و فرائض کی ہر بحث سے دُور رہ کر ‘‘پاکستانی عورت’’ کا یہ اُجلا، خوش رنگ، حیا بار، بامقصد، تعمیری اور مثبت روپ دیکھیے۔

    بیٹی کی من مانی

    ”بابا! آج سے آپ سگریٹ نہیں پییں گے“
    بیٹی نے سگریٹ کا پیکٹ اٹھاکر کوڑے دان میں پھینک دیا۔
    باپ ”ارے ارے، کیا کر رہی ہے لڑکی“ کہتا رہ گیا۔ ماتھے پر ہاتھ مارا اور مسکرادیا۔

    بیوی کا اختیار

    ”بس بہت ہوگیا، اٹھیں اور جاکر بال کٹوائیں، کتنے بڑھ گئے ہیں، کلر ضرور لگوائیے گا ورنہ گھر میں نہیں گھسنے دوں گی“
    بیوی نے کرکٹ میچ دیکھنے میں مگن شوہر کے ہاتھ سے ریموٹ چھین کر ایک طرف اچھال دیا۔
    ”ابے یار میچ ختم ہونے والا ہے پھر چلا جاﺅں گا“
    ”بس بہت ہوگئی، اتنے دن سے یہی سُن رہی ہوں“
    شوہر کا احتجاج اور جھنجھلاہٹ کسی کام نہ آئی، اس کی چوڑی کلائی نازک انگلیوں کی گرفت میں آئی اور ہاتھ اس اعتماد سے کھینچا گیا کہ اسے اٹھنا ہی پڑا۔
    ”کلر لگواکر آئیے گا، ورنہ گھر میں نہیں گھسنے دوں گی“
    شوہر کو بڑے مان سے اس گھر میں داخل نہ ہونے دینے کی دھمکی دی گئی جس کے کاغذات پر اسی کا نام تھا۔
    دروازہ بند ہوتے ہی بیوی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ”شرافت کی زبان تو سمجھتے ہی نہیں“

    ماں کی مرضی

    ”تو بیٹھ، میں بس آ رہا ہوں“
    کال ختم ہوتے ہی نوجوان دروازے کی طرف لپکا۔
    ”کہاں چلے؟“
    دہاڑ نے اس کے قدم روک لیے۔
    ”امی بس ابھی آیا“
    جوان مردانہ آواز منمنائی۔
    ”کہیں جانے کی ضرورت نہیں، میں کھانا لگا رہی ہوں کھانا کھاﺅ۔“
    جلالی لہجے میں حکم دیا گیا۔
    ”امی بس پانچ منٹ“
    بھاری آواز کی منمناہٹ اور بڑھ گئی۔
    ”قدم گھر سے باہر نکال کر دیکھو، ٹانگیں توڑ دوں گی، روز باہر کے کھانے کھاکھا کر کیا حال بنالیا ہے اپنا۔“
    چھے فٹ قد اور بیس سال کا بیٹا جاتنا تھا کہ ٹانگیں توڑنا تو کجا ماں چپت بھی نہیں لگائے گی، مگر بڑبڑاتا ہوا دبک کر وہیں بیٹھ گیا جہاں سے اٹھا تھا۔

    بہن کی زور آوری

    ”امی میں میچ کھیلنے جا رہا ہوں“
    وہ جاگرز پہن کر انگلی میں بائیک کی چابی گھماتا ہوا بولا۔
    ”رکیں بھائی مجھے نبیلہ کے گھر چھوڑدیں“
    چھوٹی بہن جانے کہاں سے کودتی پھاندتی آئی اور بھائی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
    ”کیا پاگل ہوئی ہے، تیری دوست اُس طرف رہتی ہے مجھے ادھر جانا ہے“
    بھائی نے ایک ہاتھ سے مشرق دوسرے سے مغرب کی سمت اشارہ کیا۔
    ”اب جا کے دکھائیں“
    بہن نے پُھرتی سے بائیک کی چابی جھپٹ لی۔
    ”میچ شروع ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں، تیری دوست کے گھر صرف جانے میں پندرہ منٹ لگ جائیں گے، چابی دے شرافت سے“
    بھائی غرایا۔
    ”کیا حرکت ہے دو اسے چابی“
    ماں کی ڈانٹ تنازع نمٹانے آپہنچی۔
    ”ٹھیک ہے نہیں جاتی“
    بہن نے چابی بھائی کے ہاتھ پر پٹخی اور منہ پھلا کر چل دی۔
    ”اچھا چل مصیبت چھوڑ دیتا ہوں“
    بھائی کی مسکراتی آواز نے بہن کے قدم روک دیے، چہرہ کِھل اُٹھا اور وہ جھٹ جانے کی تیاری کرنے لگی۔

    (ان مختصر کہانیوں‌ کے خالق سینئر صحافی، معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی ہیں)

  • یک نہ شد  دو  شُد!

    یک نہ شد دو شُد!

    آپ نے یہ کہاوت تو سنی ہی ہو گی، اور اس کے لفظی معنیٰ بھی جانتے ہوں‌ گے۔

    یہ کہاوت اس وقت سننے کو ملتی ہے جب کوئی شخص ایک مسئلے یا مصیبت میں‌ گھرا ہوا ہو اور اسی وقت دوسری افتاد بھی ٹوٹ پڑے۔ یعنی جب کوئی ایک مسئلہ حل نہ ہوا ہو یا کسی ایک مصیبت سے نجات ملی نہ ہو اور اسی وقت دوسری مصیبت سَر پر آجائے تو اس کیفیت کا اظہار کرنے لیے اردو میں اس کہاوت سے کام لیا جاتا ہے۔

    ہر کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، اس کی وجہ یا اس کا پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتی ہیں‌ اور داستان یا گھڑی ہوئی باتیں‌ بھی۔ ہماری اس کہاوت سے متعلق زیادہ مشہور بات یقینا غیر حقیقی اور من گھڑت ہے، مگر ہمارے ہاں‌ یہ قصہ اس طرح‌ مشہور ہے:

    کہتے ہیں‌ کہ ایک شخص ایسا منتر جانتا تھا جس سے وہ مُردوں کو اٹھا کر ان سے سوالات کرتا اور اپنا مطلب پورا ہو جانے پر انھیں‌ دوبارہ جادو کے زور پر قبر میں جانے پر مجبور کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔

    اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔

    اب وہ بہت گھبرایا اور اسی گھبراہٹ میں اچانک اسے قبرستان سے بھاگنے کا خیال آیا، اس نے سوچے سمجھے بغیر اچانک دوڑ لگا دی، مگر کچھ دور جانے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آرہا تھا جسے اس نے منتر کے زور سے جگایا تھا۔ وہ جہاں جہاں‌ جاتا مردہ اس کے پیچھے ہوتا۔ اس دوران اس نے استاد کا سکھایا ہوا وہ منتر یاد کرنے کی بہت کوشش کی، جس سے مردے کو واپس قبر میں‌ بھیجا جاسکتا تھا، لیکن ناکام رہا۔

    تب اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو اٹھانے کا منتر پڑھا، استاد کے قبر سے نکلنے پر اس نے وہ دوسرا منتر پوچھا جو مردے کو قبر میں‌ بھیجتا، لیکن معلوم ہوا کہ مرحوم استاد جس دنیا میں پہنچ چکے تھے، وہاں ایسا کوئی منتر اور جادو یاد نہیں‌ رہتا تھا۔

    شاگرد نے دیکھا کہ ایک طرف وہ پہلا مردہ کھڑا ہے اور دوسری طرف استاد جسے اس نے دوسرا منتر پوچھنے کے لیے جگایا تھا۔ اب تو وہ بہت پچھتایا، مگر اس بار بھاگنے کے سوا واقعی کوئی راستہ نہ بچا تھا۔

    شاگرد "یک نہ شد دو شد” کہتا ہوا ایک بار پھر بھاگ کھڑا ہوا۔

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی