Tag: اردو کہانیاں

  • ایک آنہ دام اور پھانسی کا پھندا (دل چسپ حکایت)

    ایک آنہ دام اور پھانسی کا پھندا (دل چسپ حکایت)

    ایک گرو اور اس کا چیلا محوِ سفر تھے کہ ایک ملک کے سب سے بڑے شہر کے قریب شام ان کے سَر پر آ گئی۔ دونوں کئی میل کی مسافت طے کرچکے تھے۔ اب اگرچہ انھیں آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ مگر گرو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا اور چیلے کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ کہیں قیام نہیں‌ کرے گا۔

    چیلے نے یہ دیکھا تو اپنے گرو سے کہا، حضرت یہاں رات گزار کر صبح سفر پر روانہ ہو جائیں گے، ویسے بھی میں تھک گیا ہوں اور بھوک بھی زوروں کی ہے۔

    گرونے اپنے اس خدمت گزار کو ٹوکا اور بولا، چلتے رہو کسی اور جگہ رکیں گے، مجھے یہاں نحوست نظر آرہی ہے۔ مگر چیلا جو اس کا بڑا لاڈلا اور ضدی بھی تھا، گڑ گڑانے لگا کہ حضور اب اور نہیں چلا جاتا، رک جائیے۔

    گرو نے اس کو یوں گڑگڑاتے پایا تو رحم کھا کر خیمہ لگانے کی ہدایت کردی۔ ساتھ ہی کہا کہ قریبی آبادی سے کھانے پینے کا سامان لے آؤ، ہم یہاں‌ سے صبح سفر پر نکلیں‌ گے۔

    چیلے نے فوراََ خیمہ گاڑ دیا اور قریبی آبادی میں ایک دکان پر پہنچا۔ اس نے دکان دار سے پوچھا، ماچس کتنے کی ہے؟ دکان دار نے ایک آنہ قیمت بتائی تو اس نے وہاں لٹکے ہوئے گوشت کے نرخ پوچھے۔ دکان دار نے کہا یہ ایک سیر گوشت بھی ایک آنہ کا ہے۔ چیلے نے ایک کلو نمک کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ایک آنہ میں مل جائے گا۔ اب اس نے ایک سیر گھی کا بھاؤ پوچھا اور جواب میں دکان دار نے پھر ایک آنہ کہا تو چیلا حیران و متجسس نظر آیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیسا عجیب شہر ہے کہ جہاں تمام چیزوں کا بھاؤ یکساں ہے۔ وہ خوشی خوشی سامان لے کر گرو کے پاس پہنچا اور کہا حضور اب ہم مستقل یہیں قیام کریں گے، آپ اللہ اللہ کیا کریں اور میں آپ کی خدمت۔ یہاں سب کچھ سستا ہے۔ گرو نے اسے ڈانٹا اور حکم دیا فوراََ خیمہ اکھاڑو۔ اورجلدی نکلو، عنقریب یہاں کوئی عذاب آنے والا ہے۔ گرو کی بات سن کر اس کے لاڈلے چیلے نے کہا، حضور آپ بھی کمال کرتے ہیں، ہم نہیں جائیں گے، میں آپ کا پرانا خدمت گزار ہوں، میری مانیں یہیں رہیں۔

    گرو کو واقعی اپنا یہ خادم بہت عزیز تھا۔ وہ کچھ سوچ کر چپ ہوگیا اور وہیں مستقل قیام کرلیا۔ اب چیلا روزانہ شہر جاتا اور اپنی پسند کا سامان خرید لاتا۔ وہ دن بدن فربہ اور اس کی گردن موٹی ہو رہی تھی۔ ایک دن چوروں نے ایک کچے مکان میں نقب لگائی چوری کر کے جب نکل رہے تھے تو دیوار گر گئی۔ ایک چور دیوار کے نیچے آکر موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ مزے کی بات دیکھو کہ چور خود ہی بادشاہ کی عدالت میں مقدمہ لے کر پیش ہوئے اور مالک مکان کو طلب کر کے سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ مکان کی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ان کے ایک ساتھی کی جان چلی گئی۔ مالک مکان پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم نے اتنی کمزور دیوار کیوں بنائی کہ ایک معصوم کی جان چلی گئی۔ مالک مکان نے جان بچانے کے لئے ذمہ داری مستری پر ڈال دی۔ حکم ہوا کہ مستری کو پیش کیا جائے۔ اس سے بادشاہ نے کہا کہ تمہاری بنائی ہوئی کمزور دیوار گرنے کی وجہ سے ایک معصوم شہری کی جان چلی گئی اور حکم دیا کہ اس ظالم مستری کو فوراََ پھانسی دے دی جائے۔

    مستری گڑگڑایا اور خوشامد کرتے ہوئے بولا حضور کا اقبال بلند ہو، یہ گارا بنانے والے مزدور کا جرم ہے، اس نے پتلا گارا بنایا جس کی وجہ سے کمزور دیوار بنی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مزدور کو پیش کیا جائے۔ مزدور نے ایک عذر پیش کیا کہ حضور ایک ہاتھی میری جانب دوڑا چلا آتا تھا، میں گھبرا گیا اور جان بچانے کے لئے بھا گ نکلا۔ گھبراہٹ میں پانی کا نل کھلا رہ گیا جس کی وجہ سے گارا پتلا ہو گیا۔ اب بادشاہ نے ہاتھی کے مالک کو طلب کرلیا۔ دربار میں‌ رتھ بان ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور بتا رہا تھا کہ حضور سنار کی بیوی سونے کے زیورات سے لدی ہاتھی کے سامنے آگئی تھی، ہاتھی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہاتھی بوکھلا کر بھاگ نکلا۔ میں اسے سنبھال نہیں پایا۔ اب سنار کو پیش کیا گیا اور سنار کوئی جواب نہ دے پایا۔

    بادشاہ نے کہا کہ جرم ثابت ہوچکا ہے اور فوراََ سنار کو پھانسی دے دی جائے۔ سپاہی آئے اور سنار کو پکڑ کر جلاد کے پاس لے گئے۔ جلاد نے پھندا اس کی گردن میں ڈالا تو پریشان ہوا کہ وہ اس کی کمزور و نحیف گردن میں فٹ نہیں آ رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی تو حکم ہوا کہ آبادی میں کوئی ایسا انسان دیکھو جس کی گردن میں پھندا فٹ آئے تاکہ شاہی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ ہو۔ سپاہی موٹی گردن والے کسی بھی انسان کو ڈھونڈتے ہوئے چیلے تک پہنچ گئے۔ وہ اس شہر میں‌ کھا پی کر پھول چکا تھا اور اس کی گردن کافی موٹی ہوچکی تھی۔ سپاہیوں نے اسے جکڑ لیا تو چیلا چیخا کہ حضور مجھے بچائیں۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ گرو نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا یہاں سے نکل چلو، کوئی عذاب آنے والا ہے۔

    خیر، اب گرو جسے اپنا وہ خادم بہت عزیز تھا، پریشان ہوا، مگر ایک ترکیب ذہن میں‌ آہی گئی۔اب صورت حال یہ تھی کہ چیلا پھانسی گھاٹ پر پھندا پکڑے کہہ تھا کہ مجھے پھانسی لگائیں۔یہ میرا ہی حق ہے۔ اور گرو اپنی جانب پھانسی کا پھندا کھینچتا اور کہتا کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو یہ سعادت حاصل نہ کرنے دے گا۔ صورت حال بہت عجیب ہو چکی تھی۔ دو لوگ بیک وقت پھانسی کا پھندا پکڑے پھانسی چڑھ جانے کی ضد کر رہے تھے۔ سپاہی اور جلاد سب حیران ہی نہیں پریشان بھی تھے۔ یہ دونوں ان کے گلے ہی پڑ گئے تھے۔ مشاورت کے بعد انھوں‌ نے بادشاہ کو اس کی اطلاع دی۔ بادشاہ نے پھانسی گھاٹ پر جانا پسند کیا اور ان دونوں سے پوچھا کہ وہ کیوں پھانسی لگنا چاہتے ہیں۔

    گرو نے موقع غنیمت جانا اور اپنا کام دکھا دیا۔ وہ بولا، حضور! یہ وقتِ قبولیت ہے، اس وقت جو بھی پھانسی گھاٹ پر جھولے گا، وہ بخشا جائے گا اور بہت سی نعمتیں اس کی منتظر ہیں۔

    یہ سنا تو بادشاہ نے کہا، میرے ہوتے ہوئے کوئی پھانسی چڑھ کر بخشش اور جنت کیسے پا سکتا ہے۔ یہ بادشاہ کا حق ہے۔ کچھ دیر بعد ہی بادشاہ پھانسی کے پھندے پر جھول رہا تھا۔

    یوں وہ عجیب و غریب بادشاہ اپنے انجام کو پہنچا اور اس کے بعد شہر میں‌ کوئی چیز ایک آنہ کی نہ رہی بلکہ ہر شے کے اس کی خاصیت اور طلب کے مطابق نرخ مقرر ہوئے۔ دنیا کا نظام اسی طرح‌ چلتا ہے جس میں اجتماعی فائدہ ہو۔ الٹے سیدھے اور دکھاوے کے فیصلے اور اقدامات سے قومیں نہیں سدھرتیں۔

  • اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    آپ نے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھی ہوں گی جو اچھی تربیت کا ایک ذریعہ ہیں اور ابتدائی عمر میں‌ بچّوں کو بہت کچھ سکھاتی ہیں۔

    یہ کہانیاں عام طور پر بچّوں کی اخلاقی تربیت اور تفریحِ طبع کا سامان کرتی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بچّوں کو ہنسی مذاق اور کھیل کھیل سیکھنے اور کئی باتوں کو سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ یہ کہانی ان بچّوں کے لیے ہے جن کا خاندان ایک نئے ملک میں بسنے جارہا ہو اور اپنا وطن، اپنے عزیزوں اور دوستوں سے دور ہوجانے کا سوچ کر بچّے اداس ہوں۔ یہ درست ہے نئے ماحول اور لوگوں کے درمیان کسی کو بھی گھلنے ملنے میں مشکل پیش آتی ہے، لیکن بچّے عام طور پر شرمیلے ہوتے ہیں اور انھیں عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تو وہ گھبراہٹ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے والدین پر بھروسہ کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا بہت خوب‌ صورت لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جہاں بھی جائیں گے انھیں بہت مخلص لوگ اور اچھے اچھے دوست مل سکتے ہیں۔

    کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

    ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔‘‘

    نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

    مزید کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہو گا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ’’میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔‘‘

    اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب وہ انگلینڈ میں اسکول شروع کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

    ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا۔‘‘ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچا جب خاندان نے جانا تھا۔ ’’میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!‘‘

    اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

    سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

    جب یہ خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھر جیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

    پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

    نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

    ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔ اس کی ماں نے کہا، ’’آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہو گا۔‘‘

    لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

    جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

    ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک استانی سے ہوئی۔ استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آ کر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

    صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

    جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

    دوستانہ بنے چاولتھے نے کہا، ’’ڈیلیسے اندر آؤ۔ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔‘‘

    نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

    ’’یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

    دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

    اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

  • لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    روسی لوک کہانیوں میں عموماً پرندوں، مینڈکوں، بکریوں اور میمنے یا مختلف اشیاء کی مزاحیہ اور دل چسپ کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اصلاح، کوئی سبق دینا ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی ایک کہانی ہے جو دل چسپ ہے اور بچّوں کے لیے سبق آموز ہے۔

    یہ ایک لڈو کی لوک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑھیا نے ایک بڑا لڈو بنا کر اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے کھڑکی پر رکھ دیا۔ لڈو وہاں سے لڑھک کر بھاگ نکلا۔ وہ بہت زعم میں تھا۔ لڑھکتے ہوئے سڑک پر جا رہا تھا اور یہ گیت گا رہا تھا: ’’میں گول گول ہوں، لال لال ہوں، خوبصورت ہوں، خوب کمال ہوں، بوڑھیا کو چکمہ دے کر بھاگ گیا ہوں، میں چالاکی کی مثال ہوں۔‘‘

    یہ گیت گاتے ہوئے لڈو جنگل میں پہنچ گیا۔ راستے میں اسے پہلے ایک خرگوش ملا، پھر ایک بھالو ملا، پھر ایک بھیڑیا ملا۔ سب نے لڈو کو کھانے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی آسانی سے سب کو چکمہ دے کر نکل گیا۔ اس کے بعد لڈو کا سامنا چالاک لومڑی سے ہوا۔ لومڑی کے من میں بھی لڈو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے لڈو سے کہا: ’’ارے، تم کتنا اچھا گاتے ہو! لیکن میں ذرا بہری ہوں اور تمہارا گیت ٹھیک سے نہیں سن پا رہی ہوں۔ ایسا کرو! میری زبان پر بیٹھ جاؤ اور میرے کان کے پاس آ کر پھر سے اپنا گیت سناؤ۔‘‘ لڈو اپنی ستائش سن کر پھولا نہ سمایا۔ دوسرا اسے یقین تھا کہ وہ بہت چالاک ہے اور جس طرح‌ سب کو چکمہ دے کر نکل آیا ہے اس لومڑی کو بھی اگر خطرہ محسوس کیا تو آسانی سے چکمہ دے کر بھاگ نکلے گا۔ وہ پھدک کر لومڑی کی زبان پر چڑھ گیا اور لومڑی اسے ہڑپ کر گئی۔

    اس لوک کہانی سے بتانا یہ مقصود ہے کہ غرور اور زعم عقل و ہوش اور فہم و فراست کا دشمن ہوتا ہے اور کسی بھی موقع پر انسان نقصان اٹھا سکتا ہے۔

  • دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

    بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

    مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
    ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

    نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

    جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

    پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

    سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔

  • ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ایک تھی بڑھیا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ بڑھیا اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔

    ایک روز بڑھیا نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    بڑھیا نے سوچا، میں کیا کروں۔ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں۔

    بڑھیا کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، ’’کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔‘‘

    بڑھیا خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔

    مٹکے نے کہا، ’’جلدی کر، چلیں۔‘‘

    ’’بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔ مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔‘‘

    بڑھیا بولی، چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔

    جانوروں کو دیکھ کر بڑھیا ڈر گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’ڈر کاہے کا؟‘‘

    بڑھیا نے کہا، ’’جنگل میں شیر بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکا بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں لکڑ بگا بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’ہوتا رہے۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’جنگل میں ریچھ بھی ہوگا۔‘‘

    مٹکے نے کہا، ’’شیر، لکڑبگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔‘‘

    یہ سن کر شیر، لکڑبگا اور ریچھ آ گئے۔

    شیر بولا، ’’ہام ہام ہام بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ بڑھیا کو میں کھاؤں گا۔‘‘

    ریچھ کہنے لگا، ’’مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ بڑھیا کو مجھے کھانے دو۔‘‘

    بڑھیا بولی، ’’کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر۔ اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔‘‘

    شیر بولا، ’’ہوں۔‘‘ لکڑبگا اور ریچھ بولے، ’’ہوں‘‘

    بڑھیا کی جان میں جان آئی تو بولی،
    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ بڑھیا، جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے بڑھیا نے جی بھر کر کھایا۔

    بڑھیا، کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن بڑھیا کہنےلگی، ’’بیٹا ، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔‘‘

    بیٹا بولا، ’’خیر سے جائیں۔‘‘ بڑھیا مٹکے میں بیٹھ گئی۔

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔

    جنگل میں شیر، لکڑبگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی بڑھیا کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا،

    ’’بڑھیا تو خوب موٹی تازی ہوکر آئی ہے۔‘‘

    لکڑبگا بولا، ’’خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔‘‘

    ریچھ نے کہا، ’’آؤ اب بڑھیا کو کھالیں۔‘‘

    جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، ’’اچھا، تو اب ہم بڑھیا کو کھائیں گے۔‘‘ یہ سن کر بڑھیا بولی، ’’پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔‘‘ وہ مان گئے۔

    دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لکڑبگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔ بڑھیا اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی،

    ’’آؤ، اب مجھے کھاؤ۔‘‘ جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو بڑھیا نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے۔

    بڑھیا بولی،

    چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم
    کہاں کی بڑھیا، کہاں کے تم

    مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور بڑھیا اپنے گھر پہنچ گئی۔

    (مصنّف: مرزا حامد بیگ)

  • کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کسی ملک کے ایک قصبہ میں کوئی کنجوس شخص رہتا تھا لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کا بیٹا بڑا بہت دریا دل اور سخی مشہور تھا۔ باپ جس قدر کنجوس تھا، بیٹا اس سے کہیں زیادہ فیاض تھا۔

    آخر وہ وقت آیا جب اس کا کنجوس باپ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا اور ظاہر ہے کہ اس نے جو مال بچایا تھا اور جو دولت اکٹھا کی تھی، وہ اس کے مرنے کے بعد اولادوں کو مل گئی۔ اس شخص کے فیاض بیٹھے کو جو دولت ملی وہ اس نے فراخ دلی سے خرچ کرنا شروع کر دی۔ وہ اپنے قصبے کے غریب اور نادار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے لگا اور کوئی سوالی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے ایک خیر خواہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو میاں ایسی دریا دلی بھی اچھی نہیں جو تم کو کنگال کر دے۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، حالت بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ خزانوں کے مالک پل بھر میں خاک چھاننے لگتے ہیں۔ کچھ اپنے آڑے وقت کے لئے بھی بچا رکھو۔ کون جانے کل کیا ہو۔ اس لڑکے نے یہ سنا تو پوچھا کہ اگر میں نے اسی طرح اپنی دولت غریبوں کو دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور کنگال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟

    اس آدمی نے کہا، یہ کیسی بات پوچھی، کیا تم نہیں‌ جانتے کہ آج متمول ہو اور کل خدانخواستہ مفلس ہو گئے تو فقیروں کی جھولیاں بھرنے والا خود فقیر بن کے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہے گا؟ دیکھو میاں میں تمہارے بھلے کی بات کہتا ہوں۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہیں۔

    اس سخی نوجوان نے اس آدمی کا جواب سنا اور بولا ’’اے میرے ہمدرد و ناصح سنو، تم مجھے جس دولت کے بارے میں نصیحت کر رہے ہو، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشے میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے یہ دولت کوڑی کوڑی جوڑ کر جمع کی تھی، جسے آخرت کے سفر پر جاتے ہوئے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ یہی معاملہ میرے ساتھ پیش آئے گا۔ میں بھی اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ ایسی صورت میں کیا یہ اچھا نہیں کہ میں اسے مستحق لوگوں میں خرچ کر دوں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مجھے یقین ہوگا کہ میں اللہ کے گھر میں اس کا اجر پاؤں گا۔ یہاں میرے بعد میں جمع پونجی میری اولاد کیسے اڑائے گی یہ میں نہیں‌ جانتا۔ اس لیے مجھے اپنا کام کرنے دو اور میرے حق میں دعا کرو۔

  • نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے؟

    نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے؟

    صدیوں سے انسان کہانی کہنے اور سننے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پر قدیم دور کی دل فریب اور سبق آموز حکایات نے فرد اور معاشروں کو متاثر کیا ہے۔ یہ حکایات ہمیں سیکھنے، سمجھنے کا موقع دیتی ہیں اور زندگی گزارنے کے اصول بھی بتاتی ہیں۔ اکثر حکایات مختلف خطّوں کی دانا و بینا شخصیات اور صاحبانِ بصیرت سے منسوب ہیں تاہم کسی داستان، قصّہ و حکایت کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اسے پہلی مرتبہ کس نے الفاظ کا جامہ پہنایا اور اس کا پس منظر یا محرکات کیا تھے۔ یہ سب متنازع فیہ رہا ہے اور یہ بھی ایک ایسی ہی حکایت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہے اور آج کتابوں میں محفوظ ہے۔

    کہتے ہیں کہ ایک نوجوان خطّہ عرب کے کسی حکیم (دانا شخص) کی مجلس میں آیا اور اس سے پوچھا کہ کام یابی کا راز کیا ہے۔ حکیم نے اس نوجوان کی بات سنی اور بولا: ‘تم مجھے دن کے وقت دریا کے قریب ملو تو تمھارے سوال کا جواب دے سکوں گا۔’

    اگلے دن وہ دانا حکیم دریا پر پہنچا تو وہاں نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ اس نے مسکرا کر نوجوان سے کہا: ‘مجھے یقین ہے کہ آج تم کام یابی کا راز ضرور جان جاؤ گے۔’ یہ کہہ کر اس نے نوجوان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور کہا کہ انھیں دریا میں اترنا ہوگا۔ نوجوان اس کے ساتھ آگے بڑھا یہاں تک کہ وہ دریا کے پانی میں کمر تک ڈوب گئے۔ نوجوان اس وقت تک تو مطمئن نظر آرہا تھا، لیکن پھر اس دانا شخص نے نوجوان کی کلائیوں پر اپنی گرفت سخت کردی اور کچھ آگے بڑھا تو پانی لگ بھگ ان دونوں کی گردن تک آگیا۔ اب نوجوان گھبرا گیا اور چیخنا شروع کر دیا۔ وہ اس دانا شخص کو دریا سے باہر نکلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ مگر یوں لگتا تھا کہ وہ شخص جیسے اس کی فریاد سن ہی نہیں رہا۔

    بچوں کی کہانیاں

    نوجوان نے یہ دیکھا تو ہاتھ پیر مارنے لگا اور پانی سے باہر نکلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اس دانا شخص کی گرفت سے خود کو آزاد کروا لے۔ لیکن اوّل تو وہ دریا میں اس دانا شخص کی طرح اپنا توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہا تھا اور دوسری طرف نوجوان نے محسوس کیا کہ وہ دانا شخص اس کے مقابلے میں قوی ہے اور ہاتھوں‌ پر اُس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ نوجوان حیرت اور بے بسی سے اس دانا شخص کو دیکھنے لگا۔ کچھ وقت گزرا تو نوجوان کا جسم سرد پڑنے لگا۔ تب اچانک اس نے اپنا پورا زور لگایا اور لمحوں میں خود کو اس شخص کی گرفت سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگیا۔

    اب دونوں ایک دوسرے سے کچھ فاصلہ پر تھے اور نوجوان اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے بمشکل مگر تیزی سے کنارے کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ آدمی بھی اس کے پیچھے آرہا ہے۔ جب نوجوان ہانپتا کاپنتا کنارے پر پہنچا تو زمین پر لیٹ گیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اتنے میں وہ دانا شخص بھی اس کے سَر پر پہنچ گیا اور اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ نوجوان کو حیرت ہورہی تھی کہ اس شخص نے ایسا کیوں کیا؟ وہ ڈوب بھی سکتا تھا۔ تب اس دانا آدمی نے نوجوان سے پوچھا، ‘تم پانی میں مجبور اور بے بس ہوگئے تھے تو سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟ نوجوان نے جواب دیا، ” ظاہر ہے میں فراوانی سے ہوا چاہتا تھا اور سانس لینا چاہتا تھا۔’ سقراط نے کہا، ’’یہی کام یابی کا پہلا زینہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان ایک خواہش کرے اور پھر اس کی جستجو میں نکل پڑے۔ دریا سے باہر نکلنا تمھاری کام یابی ہے اور اس کام یابی کا راز تمھارا وہ جذبہ ہے جس کا اظہار تم نے پوری شدت کے ساتھ کیا اور تم کام یاب ہوئے۔’

  • خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ہر سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ سب بچے دیو کے باغ میں کھیلنے کو جایا کرتے تھے۔ یہ باغ بہت ہی خوب صورت تھا، نرم ملائم گھاس کے فرش سے آراستہ، جا بجا خوشنما پھول کھلے ہوئے، یوں محسوس ہوتے جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ یہی نہیں وہاں بارہ آڑو کے درخت بھی تھے جو بہار کے آتے ہی نازک نازک گلابی اور آبی رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتے اور خزاں کے آنے تک مزے دار پھلوں میں تبدیل ہو جاتے۔

    پرندے ان درختوں پر آ کر بیٹھتے اور اتنے مسحور کن گیت گاتے کہ بچے اپنا کھیل روک دیتے اور انہیں سننے میں محو ہو جاتے، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہم کتنے خوش ہیں یہاں۔

    ایک دن کیا ہوا، دیو واپس آ گیا، وہ دراصل اپنے دوست کورنش اوگر سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ چونکہ بہت ہی مختصر گفتگو کیا کرتا تھا اس لئے اسے اپنی بات مکمل کرنے میں سات سال لگے، جب سات سال مکمل ہو گئے اور اس نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا تو اپنے قلعہ میں واپس آنے کا ارادہ کیا۔ جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بچے باغ میں کھیل رہے ہیں۔

    ’’تم سب یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ اس نے غراتے ہوئے اتنے زور سے کہا کہ بچے ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    ’’یہ میرا باغ ہے اور میں اپنے سوا کسی کو بھی یہاں کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘ دیو نے غرور سے کہا۔ پھر اس نے باغ کے گرد ایک بہت اونچی دیوار تعمیر کی اور اس پر ایک نوٹس بورڈ آویزاں کر دیا جس پر لکھا تھا ’’بلا اجازت باغ میں آنے والوں کو سزا دی جائے گی۔‘‘

    دیو کی خود غرضی نے بچوں کو بہت آزردہ کر دیا۔ اب ان کے پاس کھیلنے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی، انہوں نے سڑک پر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ دھول مٹی اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھی، انہیں یہاں کھیلنے میں بالکل مزہ نہ آیا۔

    وہ اسکول سے واپسی پر اس اونچی دیوار سے گھرے ہوئے باغ کے آس پاس منڈلایا کرتے اور باغ کے متعلق باتیں کیا کرتے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے: ’’ہم باغ میں کتنی خوشی سے کھیلتے تھے۔‘‘
    ٭٭٭
    پھر بہار آن پہنچی، درختوں میں پھول کھلنے لگے اور تمام علاقہ ننھے پرندوں سے بھر گیا لیکن خود غرض دیو کے باغ میں ابھی تک موسم سرما باقی تھا۔ وہاں پرندے گیت گانے نہیں آتے تھے کیونکہ بچے جو وہاں نہیں تھے اور درختوں میں بور آنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔

    ایک خوب صورت پھول نے گھاس سے سر اٹھایا لیکن جب نوٹس بورڈ کی طرف دیکھا تو بچوں کے لئے بہت اداس ہو گیا اور دوبارہ زمین میں دبک کر گہری نیند سو گیا۔

    وہاں صرف دو ہی لوگ خوش تھے اور وہ تھے برف اور کہر۔ بہار تو اس باغ کا راستہ ہی بھول چکی تھی۔ وہ دونوں خوشی سے چلّاتے ’’اب تو ہم سارا سال یہیں رہیں گے۔‘‘

    برف نے اپنے سفید دبیز کوٹ سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور کہرے نے تمام درختوں کو چاندی سے رنگ دیا، پھر انہوں نے کرّۂ شمالی سے آنے والی سرد ہواؤں کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر رہیں۔ چنانچہ ہوا کا طوفان بھی ان کے ساتھ آ کر رہنے لگا، اس نے بھاری فر کا کوٹ پہن رکھا تھا اور سارا دن زور زور سے باغ میں دھاڑتا رہتا یہاں تک کہ اس نے آتش دان تک الٹ پلٹ کر ڈالے۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھیں
    ’’آہا یہ تو بہت اچھی جگہ ہے‘‘ وہ خوش ہو کر بولا اور اولوں کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور وہ بھی وہاں آ کر رہنے لگے۔ وہ ہر روز تین گھنٹے تک قلعہ کی چھت پر دھما چوکڑی مچاتے یہاں تک کہ چھت کے کئی کنگرے ٹوٹ کر گر گئے پھر وہ باغ میں نہایت تیزی سے دائروں کی صورت گھوما کرتے، انہوں نے سرمئی لبادہ پہنا ہوتا اور ان کی سانس برف کی طرح سرد اور کاٹ دار ہوتی۔

    خود غرض دیو پریشان تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس بار بہار کو آنے میں اتنی دیر کیسے ہو گئی۔ وہ اپنے کمرے کی باغ کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا جو سفید دودھیا برف سے ڈھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’مجھے امید ہے موسم جلد ہی تبدیل ہو جائے گا‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا۔ لیکن وہاں بہار کبھی نہ آئی اور نہ ہی موسم گرما۔ خزاں نے سارے باغوں کو لذیذ پھل تقسیم کئے لیکن دیو کے باغ کو ایک بھی نہ دیا، وہ بولی ’’ہنھ دیو بہت خود غرض ہے۔‘‘

    سو وہاں موسم سرما ہی رہا اور شمال سے آنے والی سرد ہوا اور اولے، برف، ژالہ باری اور کہرا درختوں پر ادھر سے ادھر کودتے پھاندتے پھرا کرتے۔

    ایک صبح دیو اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اس نے نہایت ہی دلفریب اور مسحور کن موسیقی کی آواز سنی، وہ اس کے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی اس نے سوچا شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزر رہے ہیں، لیکن در حقیقت وہ بہت ہی نازک اور خوش الحان بلبل نما پرندہ تھا جو اس کی کھڑکی کے باہر گیت گا رہا تھا۔ دیو نے عرصے سے اپنے باغ میں کسی پرندے کا گیت نہیں سنا تھا اس وقت یہ مدھر آواز اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔

    تب ہی اولوں نے برسنا چھوڑ دیا اور شمالی سرد ہوا کے جھکڑ بھی ٹھہر گئے۔ یک بیک بہت خوشبو کی لہر نے فضا کو معطر کر دیا جب یہ لہر کھلی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی ناک سے ٹکرائی، تو اس نے بے اختیار اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر باغ کی طرف دیکھنے لگا، اس نے خود کلامی کی۔ … اب مجھے یقین ہو گیا ہے بالآخر بہار آ ہی گئی‘‘
    ٭٭٭

    آخر اس نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا؟ اس نے بہت ہی شاندار نظارہ دیکھا تھا۔ دیوار میں کئے گئے چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے بچّے باغ میں داخل ہو گئے تھے، اور درختوں کی شاخوں پر براجمان تھے۔ اسے ہر درخت پر ایک بچہ بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا تھا ان کے واپس آ جانے سے درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے خود کو پھولوں سے لبریز کر لیا تھا اور ان کی پھولوں بھری ڈالیاں اپنے بازو بچوں کے سروں کے گرد حمائل کئے محسوس ہو رہی تھیں۔ پرندے خوشی سے چہچہاتے پھر رہے تھے اور پھول ہری گھاس سے ایک بار پھر جھانکنے اور مسکرانے لگے تھے۔

    یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ تھا، لیکن باغ کے ایک کونے میں ابھی بھی موسم سرما موجود تھا، یہ باغ کا سب سے آخری سرا تھا جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اتنا ننھا منا سا تھا کہ درخت کی شاخوں تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی، وہ درخت کے تنے سے لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ بے چارہ درخت ابھی بھی کہرے اور برف سے اٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف شمالی سرد ہوا منڈلا رہی تھی۔ درخت نے بچے سے کہا ’’ننھے لڑکے اوپر آ جاؤ۔‘‘ اس نے اپنی شاخیں اتنی نیچے تک جھکا دیں جتنا کہ وہ جھک سکتا تھا مگر بچہ بہت ہی چھوٹا تھا وہ پھر بھی کسی شاخ کو نہیں تھام سکا۔

    دیو نے یہ منظر دیکھا تو اس کا دل موم ہو گیا۔ اس نے سوچا میں بھی کتنا خود غرض تھا، اب میری سمجھ میں آیا کہ بہار میرے باغ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ میں اس ننھے بچے کو درخت پر بٹھا دوں گا اور باغ کے اطراف کی اونچی دیواریں ڈھا دوں گا، میرا باغ بچوں کے کھیلنے کے لئے ہمیشہ وقف رہے گا۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا۔ پھر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا اور صدر دروازہ آہستگی سے کھول کر باغ میں چلا گیا، لیکن جب بچوں نے اسے دیکھا تو بہت خوف زد ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ باغ پھر سے برف اور کہرے سے بھر گیا موسم سرما نے اسے پھر سے گھیر لیا تھا۔ صرف وہ ننھا لڑکا بالکل نہ ڈرا اور نہ وہاں سے بھاگا۔

    اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، دیو نے اسے پشت سے تھاما اور آہستگی سے اپنے ہاتھ میں لے کر درخت کی شاخ پر بٹھا دیا، اور یوں درخت ایک بار پھر بور سے لد گیا، ہر طرف پھول ہی پھول کھل گئے۔ پرندے وہاں آ کر چہچہانے اور گیت گانے لگے، ننھے لڑکے نے اپنے بازو دیو کی گردن میں حمائل کر دیے اور اسے پیار کیا۔ جب دوسرے بچوں نے یہ دیکھا کہ اب دیو پہلے جیسا برا نہیں رہا تو وہ بھاگتے ہوئے واپس آ گئے اور بہار دوبارہ سے باغ میں ہر طرف پھیل گئی۔

    ’’یہ اب تمہارا باغ ہے ننھے بچّو!‘‘ دیو نے کہا۔ اس نے بڑی کلھاڑی اٹھائی اور دیوار کو مسمار کر ڈالا۔ جب دوپہر کے بارہ بجے لوگ مارکیٹ جانے کے لئے وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا دیو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اتنا خوب صورت باغ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
    ٭٭٭

    بچّے سارا دن وہاں کھیلتے رہے۔ شام کو دیو کو خدا حافظ کہنے آئے تو اس نے پوچھا ’’تمہارا وہ ننھا دوست کہاں ہے؟، وہی جسے میں نے درخت پر بٹھایا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا اس نے مجھے پیار بھی کیا تھا‘‘

    بچوں نے جواب دیا، ’’وہ تو چلا گیا، ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم‘‘

    دیو نے ان سے کہا، ’’اس سے کہنا وہ کل ضرور یہاں کھیلنے آئے‘‘ لیکن بچے تو اسے جانتے ہی نہیں تھے نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، انہوں نے تو اسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔

    دیو اس بات پر اداس ہو گیا۔ ہر دوپہر اسکول کی چھٹی کے بعد بچے دیو کے ساتھ کھیلنے اس کے باغ میں آتے مگر وہ لڑکا دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا۔

    دیو اب بچوں کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا۔ وہ اکثر ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کرتا اور اس کی باتیں کرتا وہ کہتا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔

    وقت گزرتا گیا۔ ….. یہاں تک کہ دیو بوڑھا اور کمزور ہو گیا، وہ اب بچوں کے ساتھ کھیل نہ پاتا بس اپنی بڑی سی وہیل چیئر پر بیٹھا انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا۔ بچے اس کے باغ کو بہت سراہتے، اس پر وہ کہتا ’’میرے باغ میں بہت سے خوب صورت پھول ہیں لیکن بچوں سے بڑھ کر خوب صورت پھول کوئی نہیں۔‘‘

    سردیوں کی ایک صبح وہ اپنے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اسے اب موسم سرما برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بہار اور پھولوں کے آرام کا وقت ہے، انہیں کچھ وقت کے لئے سونا بھی ہوتا ہے، باہر دیکھتے ہوئے اس نے حیرت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور خوب غور سے بار بار دیکھا جیسے اسے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا ہو، یہ بلا شبہ بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا، باغ کے انتہائی کونے میں ایک درخت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا اس کی شاخیں سنہری اور نقرئی پھلوں کے بوجھ سے زمین پر جھک آئی تھیں۔ ….. اور۔ …. ان کے نیچے وہی ننھا لڑکا کھڑا تھا۔

    دیو خوشی سے اچھلتا کودتا سیڑھیوں سے اتر کر باغ میں پہنچ گیا اور گھاس پر لوٹتا جب لڑکے کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے بے چینی سے لڑکے سے پوچھا ’’تمہارے جسم پر زخموں کے نشان کیسے ہیں، کس نے تمہیں زخمی کیا‘‘ لڑکے کی ہتھیلیوں اور پیروں پر کسی کے تیز ناخنوں کے نشان تھے۔
    ٭٭٭

    ’’وہ کون ہے، جس نے تمہیں زخم دیے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘ دیو بے تابی‘‘ چلّایا۔ ’’میں اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘

    ’’نہ۔۔۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’یہ تو پیار کے زخم ہیں‘‘دیو نے اچنبھے سے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوال کیا ’’آخر تم کون ہو؟‘‘ ایک تکلیف دہ کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بچّے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

    لڑکا دیو کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’ایک بار تم نے مجھے اپنے باغ میں کھیلنے دیا تھا، آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے باغ میں لے جانے کو آیا ہوں۔ جانتے ہو میرا باغ کہاں ہے؟

    جنّت میں ہے میرا باغ!‘‘
    ٭٭٭
    اسکول سے واپسی پر بچے جب کھیلنے کے لئے باغ میں آئے تو انہوں نے دیکھا باغ کے آخری سرے پر درخت کے نیچے دیو لیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا وہ تو مر چکا تھا اور سفید پھولوں نے اس کے جسم کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔

    (آسکر وائلڈ کی کہانی جسے سلمیٰ‌ جیلانی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)

  • احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    یہ رمز و نکتہ آفریں حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے اور اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سعدی کہیں جارہے تھے اور انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، جس کی ایک بکری اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی۔

    شیخ سعدی اسے دیکھنے لگے۔ وہ جوان جس سمت منہ کرتا اور آگے بڑھتا بکری بھی اسی جانب چل پڑتی۔ حضرت سعدی نے اس سے سوال کیا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسّی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟

    شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس جوان نے اپنی بکری کے پٹے کو کھول دیا۔ اب دیکھتا ہوں کہ بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی ہے۔ وہ جوان آگے بڑھ رہا ہے اور پٹے سے آزاد ہونے کے بعد بھی بکری اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے چلتی رہی، کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ بکری نے اس جوان کے ہاتھ سے چارہ کھایا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ جوان سیر کرکے واپس ہوا اور مجھے وہیں راستے میں پایا تو بولا، اے صاحب، اس بکری کو یہ رسّی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    جوان مزید بولا، حضرت! ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کرنا چاہیے، کیونکہ جو تیری روٹی کھائے گا وہ کہیں تجھ سے وفا ضرور کرے گا۔

  • بے زبان کا خوف (حکایت)

    بے زبان کا خوف (حکایت)

    اگرچہ سینہ بہ سینہ اور قدیم کتابوں سے لی گئی اکثر کہانیوں کے مصنّف اور حکایتوں‌ کے اصل وطن کا علم ہمیں نہیں‌ ہے، مگر یہ عقل و شعور اور آگاہی کا خزانہ ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی حکایت ہے۔

    آپ نے بھی ایسی کہانیاں‌ اور قصّے پڑھے ہوں گے جو بہت دل چسپ ہوتے ہیں اور ان میں‌ ہمارے لیے کوئی سبق بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہاں‌ ہم قارئین کی دل چسپی اور توجہ کے لیے جو حکایت نقل کررہے ہیں‌، اسے عربی ادب سے ماخوذ بتایا جاتا ہے۔

    کسی بستی کے لوگ جھوٹ بولنے کے عادی تھے اور مقدمات میں سچ بات کہنے کے بجائے عدالت کے سامنے جھوٹی گواہی دینے اور مکر جانے کے لیے مشہور تھے۔

    اس بستی کے ایک مرد و عورت نے نکاح کرلیا جس کا کھل کر اعلان تو نہیں‌ کیا مگر نکاح شریعت کے مطابق تھا۔ یہ نکاح قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں انجام پایا تھا۔

    کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور اسے تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ خاتون نے قاضی سے رجوع کیا اور اس کے روبرو کہا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے۔

    قاضی نے کچھ سوالات پوچھے اور تفصیل جاننے کے بعد کہا، تمہارے اس نکاح کی تو کسی کو خبر ہی نہیں۔ خاتون بولی، جناب ہمارا نکاح شریعت کے عین مطابق ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ہم نے اس کو عام نہیں‌ کیا۔

    قاضی نے پوچھا: کیا تمھارے پاس اس نکاح کا کوئی گواہ ہے؟

    خاتون نے کہا، جی قاضی صاحب! دو گواہ بھی تھے، ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔ قاضی نے عورت کے کہنے پر اس کے سابق شوہر اور ان گواہوں کو طلب کرلیا جن کا نام اور پتہ عورت نے بتایا تھا۔ مگر شوہر نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے سے انکار کردیا جب کہ گواہوں‌ نے بھی جھوٹ کا سہارا لیا وار کہا کہ وہ اس عورت کے نکاح کی تقریب میں شریک نہ تھے۔ انھوں نے بیک زبان ہور یہ تک کہہ دیا کہ ہم نے تو آج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔

    قاضی صاحب نے ان کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا۔ کیا تمہارے شوہر کے گھر پر کتّے ہیں؟

    خاتون نے کہا جی ہاں۔

    قاضی نے خاتون سے پوچھا۔ کیا آپ ان بے زبانوں کی گواہی کو قبول کریں گی؟

    خاتون نے کچھ سوچ کر کہا، جی قاضی صاحب مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ اس پر قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر وہ کتّے اس خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو یہ عورت جھوٹی ہے۔ اور اگر وہ اسے دیکھ کر خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو مجھے خبر کرو۔ یہ حکم جاری ہوا تو قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے اس عورت کے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ ان کے چہروں پر خوف نمایاں‌ تھا اور وہ اپنا جھوٹ پکڑے جانے کی وجہ سے پریشان نظر آنے لگے تھے۔

    تب قاضی کی آواز کمرۂ عدالت میں گونجی کہ فیصلہ تو ہوچکا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ وقت برباد کیا جائے اور انصاف میں تاخیر ہو۔ اس کے ساتھ ہی قاضی نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا کہ طلاق دینے والے اور نکاح کے گواہوں کو گرفتار کیا جائے اور جھوٹ بولنے اور ایک عورت کی حق تلفی کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں۔

    قاضی نے اپنے مشاہدے میں لکھا، وہ بدترین بستیاں ہوتی ہیں جن میں منصف کو انسانوں کے بجائے عقل و شعور سے عاری اور بے زبان جانوروں کی گواہی پر فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔”