Tag: اردو کہانیاں

  • دور کی بانسری

    دور کی بانسری

    پیلی چاندنی، دھندلے ستارے، مدھم چاند اور خاموش پرندوں کا وقت… شاندار رات اور اس سب سے زیادہ خوبصورت دریا پار، دور سے آتی ہوئی ہلکی مگر واضح ہلکورے لیتی ہوئی بانسری کی آواز، آج رات وہ بانسری نواز کے دل میں بسا ہوا سکون بھی صاف سن سکتی تھی۔

    اس میں کوئی جلد بازی نہیں تھی، جذبات بھری مگر دھیمی موسیقی تھی۔ اس میں ایسی تاثیر تھی جو سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے اور دریا کے قریب موجود نمی نے اس کو مہمیز کر دیا تھا۔

    پائیپر نے ہاتھ میں پکڑی کتاب نیچے رکھ کر، مسحور ہو کر سننا شروع کر دیا۔ یہ بانسری بجانے والا شخص کیسا تھا؟ اس نے ادھر ادھر کی باتوں میں کئی لوگوں سے یہ سوال کیا تھا مگر ان کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ مطلب یہ کہ کسی کے جواب سے یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ وہ بانسری نواز مرد تھا کہ عورت، بوڑھا تھا کہ جوان۔ شاید وہ کوئی شکستہ دل لڑکی تھی۔ ’سرخ محلات کے خواب‘ والی ’دائی یو‘ کی طرح یا شاید کوئی بوڑھا آدمی تھا جو ملازمت سے فارغ التحصیل ہو چکا تھا اور اپنی طویل تنہائی کو بانسری کے ذریعے نشر کر رہا تھا، یا شاید یہ کوئی نو جوان تھا، نوجوان ہونا چاہیے تھا ورنہ وہ اتنا اچھا کیسے بجا سکتا تھا، اس کے دل کے تاروں کو اتنی زور سے کیسے چھیڑ سکتا تھا؟

    بانسری نواز واقعی بہت عجیب تھا۔ خلافِ توقع ہر شام دریا کے اس پار کہیں دور سے بانسری کی آواز بن بلائے آنے لگتی۔ یہ آواز ماضی کے کسی دکھ کا رد عمل لگتی تھی مگر اس میں نہ کوئی شکایت تھی نہ ملامت۔ پائیپر یہ کہنے پر تیار نہیں تھی کہ وہ اسے مکمل طور پر سمجھتی تھی اور نہ ہی یہ کہنا چاہتی تھی کہ جتنا اسے سمجھ آیا ہے وہ کیا تھا۔ مگر اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بانسری نواز اپنے دل میں چھپا ہوا کوئی راز بتا رہا تھا۔ اگر دریا کے اس پار بانسری بجانے والا کسی بھی وجہ سے کسی شام خاموش ہو جائے تو یہ پائیپر کے لیے ناقابل برداشت نقصان ہوگا۔ یہ نقصان ہوگا کس چیز کا؟ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔

    کیا اسے بانسری نواز سے محبت ہو رہی تھی؟ شاید نہیں، اس نے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، نہ اسے یہ پتہ تھا کہ وہ کیسا انسان تھا۔ یہ اسے کسی طرح پسند کر سکتی تھی؟ اس نے بس ایسے ہی بانسری کی آواز کے سحر میں اس کی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے تصور میں وہ جذباتی تھا مگر روایتی بھی تھا، یقیناً روایتی اقدار سے وابستہ تھا۔ بعد ازاں بانسری نواز کو دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں گرہ بن کر رہ گئی۔ کئی مواقع پر شام کے دھندلکے کے بعد وہ دریا کے کنارے چلتی ہوئی اس پر بنے ہوئے پل کی طرف گئی۔ جب وہ آواز کا تعاقب کرتے ہوئے دوسری طرف پہنچی تو وہاں کے زیر و بم میں کچھ دیر اس نے اسے تلاش کیا۔ جب اتفاق سے اسے وہ جگہ نظر آگئی جہاں بانسری نواز ہو سکتا تھا تو اس میں اوپر جانے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا۔ اسے ڈر لگا کہ وہ یہ خوبصورت خواب غارت کر دے گی۔ چنانچہ وہ خاموشی سے دریا کے اپنی طرف والے کنارے پر واپس آگئی۔

    بعد میں وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سمندر پار چلی گئی۔ اس نے دریا چھوڑ دیا، اپنا آبائی قصبہ چھوڑ دیا، اب وہ بانسری کی دھیمی، گہری آواز نہیں سن سکتی تھی۔ اجنبی دیس میں اجنبی ہو کر وہ آواز اس کے دل میں گونجتی رہتی تھی۔ بانسری نواز کی آواز ہمیشہ رہنے والی یاد بن گئی تھی۔ پائیپر سوچتی تھی کہ شاید یہ بانسری کی آواز ہی تھی جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی قصبے میں واپس جانا چاہتی تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • ایک کہانی جو ہماری سوچ کو بدل سکتی ہے!

    ایک کہانی جو ہماری سوچ کو بدل سکتی ہے!

    یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے، جس میں ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے اکثر مصیبت اور کسی افتاد کے موقع پر صبر کرنا یقیناً آسان نہیں ہوتا، ہم عام زندگی میں اکثر جلد بازی اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم میں سے بہت کم لوگ مثبت طرزِ فکر اپناتے ہیں۔ مگر یہ ایسی کہانی ہے جو کئی لوگوں کی سوچ کو بدل سکتی ہے۔

    یہ ایک سلطنت کے شہزادے اور اس کے بچپن کے دوست کی کہانی ہے۔ وہ اکٹھے کھیل کود کر جوان ہوئے تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی اور وہ ایک دوسرے کے راز دار بھی تھے۔ جب اپنے باپ کی موت کے بعد اس شہزادے نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے اُس دوست کو فراموش نہیں کیا۔ وہ اسے ہمہ وقت ساتھ رکھتا تھا۔ بادشاہ کے اس کی عادت تھی کہ جب بھی اس کی زندگی میں کوئی اچھی بُری بات ہوتی تو وہ کہتا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے اسی دوست کے ساتھ شکار پر گیا۔ جنگل میں ایک مقام پر پہنچ کر انھوں نے اپنا خیمہ گاڑ دیا۔ بادشاہ کے دوست نے بندوق میں بارود بھرا اور بندوق تیار کر کے بادشاہ کو تھما دی۔ وہ جنگل میں آگے بڑھے تو بادشاہ کو ہرن دکھائی دیا۔ بادشاہ نے ہرن کا نشانہ باندھ کر گولی چلائی تو نشانہ چوک گیا لیکن اچانک بادشاہ کو اپنے ہاتھ میں تکلیف کا احساس ہوا۔ دیکھا تو اُس کا انگوٹھا کٹ چکا تھا۔ بادشاہ کو شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کے دوست نے حسبِ‌ عادت کہا ’جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے، اس میں یقیناً کوئی بہتری ہو گی۔ اس موقع پر بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا غصّہ آیا اور بولا: یہ بہتر نہیں ہے، میرا انگوٹھا ضائع ہو گیا ہے۔ وہ فوراً محل لوٹ آئے اور بادشاہ نے داروغہ کو بلا کر حکم دیا کہ اس کے دوست کو قید خانے میں ڈال دیا جائے۔

    اس واقعہ کو ایک سال گزر گیا۔ ایک روز بادشاہ دوبارہ شکار کھیلنے گیا اور گھنے جنگل میں اپنے ساتھیوں اور محافظ دستے سے بچھڑ گیا۔ جنگل میں‌ اسے توہم پرست اور وحشی صفت قبیلے کے لوگوں نے پکڑ لیا اور اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہ آدم خور بھی تھے۔ انھوں نے بادشاہ کے ہاتھ باندھ دیے اور آگ بھڑکا دی۔ اب دو لمبے چوڑے قبائلی بادشاہ کی طرف بڑھے۔ وہ اسے جان سے مارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اچانک اُن میں سے ایک کی نظر بادشاہ کے انگوٹھے پر پڑی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی اور اپنی زبان میں‌ کہا کہ یہ تو معذور ہے۔ دراصل وہ قبیلہ بہت وہمی اور وہاں کے سب لوگ توہم پرست تھے۔ وہ کسی جسمانی معذوری کا شکار انسان کو نہیں کھاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح دیوتا ان سے ناراض ہوجائے گا۔ لہٰذا انھوں نے بادشاہ کو رہا کر دیا۔

    بادشاہ گرتا پڑتا کسی طرح اپنے محل میں پہنچا اور سب سے پہلے اپنے دوست کو جیل سے نکال کر دربار میں لانے کا حکم دیا۔ اسے جنگل سے بھاگتے ہوئے مسلسل یہ خیال ستاتا رہا تھا کہ کس طرح اُس کا انگوٹھا کٹ گیا تھا اور اُس کے دوست نےت کہا تھا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ جب اُس کا دوست آیا تو بادشاہ اس سے بے اختیار لپٹ گیا اور معافی مانگتے ہوئے اُسے ساری روداد سنا دی اور کہا کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت بُرا کیا اور جیل میں‌ ڈلوا دیا۔ واقعی یہ اچھا ہوا تھا کہ اس روز میرا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔ آج اس انگوٹھے کے نہ ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔

    بادشاہ کا دوست اس کی بات سن کر مسکرایا اور بولا: یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ آپ نے مجھے جیل بھجوا دیا۔ اپنے دوست کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کس طرح‌ بہتر ہوا دوست، تم ایک سال تک جیل میں رہے اور کہہ رہے ہو کہ اچھا ہوا۔ بادشاہ کا دوست بولا: اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو یقیناً تم مجھے شکار پر اپنے ساتھ لے گئے ہوتے اور وہ جنگلی مجھے ہڑپ کر چکے ہوتے کیونکہ میرا انگوٹھا صحیح سالم ہے۔ اس نے مزید کہا، زندگی میں اکثر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقیناً اچھے کے لیے ہوتا ہے، لیکن انسان فطرتاََ جلد باز واقع ہوا ہے جب کہ قدرت کسی اور طرح ہمارا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے۔

  • مفلس شہ زور (حکایت)

    مفلس شہ زور (حکایت)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک پہلوان جو بڑا شہ زور مشہور تھا، لیکن مفلسی کا شکار تھا۔ اسے اپنے اس وصف کی بنا پر اپنے وطن میں باعزّت روزگار نہیں مل سکا تو ایک روز اس نے اپنے باپ سے پردیس جانے کی اجازت مانگی۔ باپ نے اسے سمجھایا کہ صرف طاقتور ہونا ایسی بات نہیں ہے جس کے باعث تو پردیس میں کام یابی حاصل کرسکے۔ صرف پانچ افراد ایسے ہیں جنھیں سفر راس آتا ہے۔ ایک امیر سوداگر، دوسرا مغنّی، تیسرا عالم، چوتھا خوب رو شخص اور پانچواں وہ آدمی جو کوئی ہنر جانتا ہو۔

    پہلوان نے باپ کی نصیحت کو بے دلی سے سنا اور ضد کی کہ وہ اسے پردیس جانے سے نہ روکے۔ باپ نے اسے کچھ نہ کہا اور ایک روز پہلوان دوسرے ملک کو روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے یہ پہلوان ایک بڑے دریا کے کنارے پہنچا۔ دوسری طرف جانے والے مسافر کرایہ ادا کر کے کشتی میں سوار ہو رہے تھے۔ مفلس پہلوان یہ سکت نہیں رکھتا تھا سو اس نے خوشامد کا سہارا لیا اور کشتی میں سوار ہونا چاہا لیکن ملاح راضی نہ ہوئے۔ اسے کنارے پر چھوڑ کر لنگر اٹھا دیا۔ کشتی زیادہ دور نہ گئی تھی کہ پہلوان نے ملاحوں سے کہا، اگر تم مجھے دریا کے پار پہنچا دو تو میں تمھیں اپنی یہ پوشاک دے دوں گا۔ ملاح نجانے کیوں لالچ میں آ گئے اور کشتی کو کنارے پر لے آئے۔ جیسے ہی کشتی کنارے پر لگی پہلوان نے سرعت سے ایک ملّاح کا گربیان پکڑا اور پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کا ساتھی چھڑانے آیا تو اس کی بھی خوب مرمت کی اور انھیں مجبور کیا کہ وہ اسے کشتی میں سوار کر لیں۔ ملّاحوں نے پہلوان کو کشتی میں بٹھا تو لیا لیکن اس سے بدلہ لینے کی خواہش ان کو تنگ کرنے لگی۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ ہوا یہ کہ کشتی قدیم زمانے کی ایک شکستہ عمارت کے قریب سے گزری تو ملاحوں نے چپو روک لیے اور مسافروں سے کہا کہ کشتی میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ اگر کوئی شہ زور شخص عمارت کے منارے پر چڑھ کر کشتی کا لنگر تھامے رکھے تو ہم مرمت کر لیں۔

    یہ جان کر پہلوان کو خیال ہوا کہ اپنی شہ زوری دکھانے کا یہ نادر موقع ہے۔ اس طرح وہ ان لوگوں کی توجہ حاصل کرلے گا اور وہ اسے اہمیت دیں گے۔ اس نے لنگر کا رسہ ہاتھ پر لپیٹ لیا اور منارے پر چڑھ گیا۔ یہ ملاحوں کی چال تھی۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ انھوں‌ نے کچھ اس طرح جھٹکا مارا کہ پہلوان کے ہاتھوں سے رسہ نکل گیا۔ ملاح کشتی کو تیزی سے آگے لے گئے۔ دو دن اور دو راتیں بے چارہ پہلوان اسی منارے پر بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ پھر کچھ نقاہت اور کچھ نیند کے غلبے سے دریا میں گر پڑا لیکن ابھی زندگی باقی تھی، دریا کی لہروں نے اچھال کر کنارے پر پھینک دیا اور یوں اس کی جان بچ گئی۔

    اتفاق سے سوداگروں کا ایک قافلہ ادھر سے گزرا اور اس نے خاص اس جگہ قیام کیا جہاں پہلوان موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ یہ جگہ ایسی ویران، سنسان تھی کہ قافلے والے ڈاکا پڑنے کے اندیشے میں مبتلا ہو گئے۔ پہلوان نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ مجھے اپنے ساتھ لے لو تو میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ قافلے والوں کو یہ شخص اس کام کیلئے موزوں نظر آیا۔ چنانچہ انھوں نے اسے ساتھ لے لیا۔ پہلوان نے خیال کیا کہ قدرت مہربان ہوئی اور اس کی بے روز گاری کا مسئلہ حل ہو گیا، لیکن قافلہ جب اگلے پڑاؤ پر رکا تو ایک بوڑھے سوداگر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بھائیو! مجھے تو یہ شخص ڈاکوؤں کا کوئی ساتھی لگتا ہے جو اس کی مدد سے کسی بھی جگہ ہم کو لوٹ سکتے ہیں۔ قافلے والوں نے اپنے بزرگ کی بات کو اہمیت دی اور اپنا سامان سمیٹ کر روانہ ہو گئے۔ پہلوان کو انھوں نے وہیں چھوڑ دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں بھی نیند کی وادی میں پہنچ گیا اور دوسرے دن بیدار ہوا تو پھر پہلی سی پریشانی کا شکار تھا۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مصیبت میں گھر گیا تھا۔ اسے اب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اپنے وطن سے کتنی دور اور کس علاقے کے دشت غربت میں ہے۔ لیکن زندگی باقی ہو تو غیب سے سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بار پہلوان کی جان اس طرح بچی کہ ایک شہزادہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا اور اس کی پریشانیوں سے آگاہ ہو کر انعام و اکرام سے اس کی دلجوئی کی اور اپنے لشکر کا ایک آدمی اس کے ساتھ بھیج دیا کہ اسے اس کے وطن پہنچا دے یوں وہ اپنے وطن پہنچ گیا۔

    باپ سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنی نصیحت یاد دلائی لیکن چونکہ شہزادے کی مہربانی سے پہلوان کے پلے میں تھوڑی بہت پونجی تھی، اس لیے اس نے ڈینگ ماری کہ میں ناکام نہیں کام یاب لوٹا ہوں۔

    باپ نے کہا بیٹے! اوّل تو یہ تیری کامیابی نہیں۔ اس کے لیے تو تجھے پردیس جانا تھا۔ مگر تو راستے میں اپنی بے وقعتی کا منہ دیکھ کر اور تکلیف جھیل کر لوٹ آیا ہے۔ یہ محض حسن اتفاق ہے کہ تجھے ایک شہزادہ مل گیا ورنہ دیکھ کہ تجھے پہلے ملاح اور بعد میں سوداگروں نے ناکارہ اور بے وقعت سمجھ کر کیسے چھوڑ دیا تھا۔

    (قدیم حکایات اور کہانیاں)

  • سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس ایک پھرتیلا، چمکیلا اور لچکیلا سانپ تھا۔ گہرے سبز رنگ کا سلاس موزمبیق اور انگولا کے درمیان واقع بہت بڑے جنگل میں رہتا تھا، جہاں کیلے کے درختوں کی بہتا ت تھی۔

    کیلے کے درختوں پر بہت بڑے بڑے پتے تھے۔ یہ کیلے کے درخت ہمارے ایشیائی درختوں سے کہیں بڑے ہوتے ہیں۔ سلاس کے مشاغل میں سے ایک یہ تھا کہ وہ خود کو کسی درخت کے گرد لپیٹ کر دم سادھ لیتا اور یوں لگتا جیسے وہ بھی کسی درخت پر اگی ہوئی بھوری شاخ ہے۔ کبھی وہ اپنے جسم کے بل کھول کر ایک لمبی بھوری رسی کی طرح کسی درخت سے لٹک جاتا اور بندروں کے بچوں کو ناریل کا فٹ بال بنا کر کھیلتے دیکھتا۔ اس کی چمکتی موتیوں جیسی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر جوش بھر جاتا۔ اس کی دو شاخہ زبان کبھی اندر اور کبھی باہر لہراتی رہتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی بچوں کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے۔ لیکن بچوں کی ماں جب بھی دیکھتی کہ وہ بچوں کے قریب آ رہا ہے تو شور مچا دیتی "بچو فوراً بھاگو، سلاس آ رہا ہے، وہ ڈس لیتا ہے۔ اسی طرح سلاس جب رینگتا ہوا لمبے لمبے بانس کے درختوں کے پاس جاتا جہاں شیر کے بچے چھپا چھپی کا کھیل کھیل رہے ہوتے، تو ان کی ماں سلاس کو دیکھ کر فوراً غراتی اور شور مچا دیتی کہ "خبردار! سلاس آ رہا ہے۔” شیرنی ماں کی یہ آوازیں سن کر بچے فوراً ادھر ادھر چھپ جاتے یا ماں کے ساتھ چمٹ جاتے۔ کئی مرتبہ یہ ہوا کہ سلاس کسی درخت کے تنے پر رینگتا ہوا چڑھا تو طوطوں نے ٹیں ٹیں کر کے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اسی ٹیں ٹیں میں بڑے طوطے اور ان کی بچے اڑ کر دوسرے درختوں کی شاخوں پر جا بیٹھتے۔ بے چارے سلاس کو قطعی سمجھ نہ آتی کہ وہ ان جانوروں کا اعتماد جیتنے کے لئے کیا کرے۔ یقینا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو ڈسے۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ ہمہ وقت تنہا رہتا ہے، کوئی تو ہو جو اس کے ساتھ کھیلے، جس سے اس کا دل بھی لگ جائے۔ وہ خود کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتا تھا۔

    وہ ایک ایسا دن تھا جب گرمی اپنے عروج پر تھی۔ جنگل کے سارے جانور گرمی سے پریشان اور بے حال ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں اور بلوں میں دبکے پڑے تھے۔ تمام بندر ایک ناریل کے درخت کے چھاؤں میں سوئے ہوئے تھے۔ سلاس کیلے کے درخت کی ایک شاخ پر لپٹا ہوا نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔ بڑے مزے کی نیند تھی کیونکہ جنگل اتنا خاموش تھا کہ کسی پتے کے کھڑکھڑانے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک سلاس کی آنکھ ایک بہت ہی باریک چیخ سے کھل گئی۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ ابھی وہ دوبارہ آنکھیں موندنے ہی لگا تھا کہ اس نے وہی آواز سنی۔ اور یہ آواز اسے کیلے کے درخت کے اوپر سے آ رہی تھی۔ اس نے اپنا چپٹا اور ملائم سر اٹھایا اور اپنی چمکیلی موتیوں جیسی آنکھوں سے اوپر کی جانب گھور کر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کیلے کے درخت پر سب سے اوپر جگنو بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کھیلنے والے بندروں میں سے سب سے چھوٹا بندر تھا۔ وہ کیلے کے درخت کی پھننگ پر سب سے کمزور شاخ پر سہما ہوا بیٹھا تھا۔ جو اس پر لگے ہوئے کیلوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ کیلوں اور جگنو کے بوجھ سے ٹوٹ سکتی ہے۔ جگنو بالکل اکیلا تھا اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ بار بار زمین کی طرف دیکھتا اور ہر دفعہ گہرائی کو دیکھ کر گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ سلاس نے نہایت حیرانی سے جگنو سے پوچھا "تم اوپر بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ تم تو اتنے چھوٹے سے ہو اور تمہیں اتنے بڑے درختوں کی چھتوں تک اتنی اونچائی پر اکیلے نہیں چڑھنا چاہیے۔” جگنو بہت شرمندہ تھا اور سلاس کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ” دراصل مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور اس درخت پر لگنے والے کیلے پورے افریقہ میں پائے جانے والے کیلوں سے مزے دار ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سبھی میٹھی نیند سو رہے ہیں تو کیوں نہ میں کچھ کیلے ہی کھا لوں۔ کسی کو پتا بھی نہیں لگے گا۔ مگر….”جگنو نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات جاری رکھی، کہنے لگا۔ ” میں نے لالچ میں آ کر بہت زیادہ کیلے کھا لئے اور اب میرے پیٹ میں بہت زیادہ درد ہو رہا ہے، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس شاخ سے نیچے کیسے اتر سکتا ہوں۔” یہ سن کر سلاس نے سکون سے جگنو کو کہا، ” فکر نہ کرو جگنو! مجھے کچھ سوچنے دو۔” سلاس نے اپنی دُم کے کونے سے اپنا سَر کھجایا اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے کہا، "میں اس شاخ کے گرد اپنی دم لپیٹا ہوں جس پر تم بیٹھے ہوئے ہو۔ اور پھر تقریباً زمین تک لٹک جاتا ہوں۔ جیسے ایک رسی لٹکتی ہے۔ تم مجھے ایک رسی کی طرح پکڑ کر جھولتے ہوئے زمین پر پہنچ جانا۔” جگنو یہ ترکیب سن کر خوش ہو گیا۔

    سلاس نے حرکت کی اور اپنی دُم کا سرا اس شاخ پر لپیٹ دیا جس پر جگنو بڑی مشکل سے چمٹا ہوا تھا۔ اس نے باقی جسم ایک رسی کی طرح زمین کی طرف لٹکا دیا اور اس کا سَر تقریباً زمین کو چھونے لگا۔ اس نے جگنو سے کہا، "لو اب مجھے پکڑ کر نیچے پھسلتے جاؤ۔” جگنو نے سلاس کی لچکیلی چمکیلی اور پھرتیلی کمر اپنے ننھے گلابی ہاتھوں سے کس کر پکڑ لی اور پھر زوں کی آواز سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا۔ اس کے قدم زمین پر ٹکے تو دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ نیند میں‌ تھی۔ ماں نے اسے دیکھا تو سخت ناراضی سے پوچھا، ” تم کہاں غائب تھے؟ اور میں نے تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اکیلے درختوں پر نہ چڑھا کرو ورنہ سلاس تمہیں پکڑ گا۔” جگنو نے ماں کی یہ بات سن کر اسے پورا واقعہ سنایا۔ جگنو بولا، "امی آپ صحیح کہہ رہی ہیں، سلاس نے ہی مجھے ڈھونڈا ہے اور اس نے میری مدد کی ہے، اور مجھے ایک اونچے درخت سے نیچے اتارا ہے۔” ادھر سلاس ابھی اپنے جسم کے بل اس درخت سے کھولنے میں مصروف تھا جس پر جگنو پھنسا ہوا تھا کہ اس کی نظر جگنو کی ماں پر پڑی جو وہاں اس کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ وہ سلاس کے پاس آئی اور کہنے لگی، "مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تم پر شک کرتی رہی اور تمہیں برا بھلا کہتی رہی۔ لیکن اب مہربانی فرما کر میرے گھر آؤ، میں تمہیں ناریل کا دودھ پینے کو دوں گی۔ اور آج کے بعد تم ہمارے دوست ہو۔”

    سلاس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اب اس کی تنہائی دور ہوچکی تھی۔ اس واقعے کے بعد سلاس نے بندر کے بچوں کو جھولا جھلانا اپنا معمول بنا لیا۔ وہ درخت کی شاخوں سے اپنی دُم لپیٹ کر لٹک جاتا اور بندر کے بچے اس کی چکنی اور ملائم جلد پر پھسلتے ہوئے زمین پر آتے اور خوب ہنستے۔ سلاس کچھ ہی عرصہ میں یہ بات بھول چکا تھا کہ کبھی وہ ہر وقت تنہائی کا شکوہ کرتا تھا اور افسردہ رہتا تھا۔

    (افریقی ادب سے ترجمہ شدہ کہانی)

  • حلوائی کا بیٹا

    حلوائی کا بیٹا

    قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے ساتھ مریضوں کو صحت یاب ہونے تک قیام و طعام پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں‌ کرنا پڑتی تھی بلکہ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ سو، چند ہی روز میں شفا خانہ مریضوں سے بھر گیا۔

    شفا خانہ ایسا بھرا کہ مزید مریضوں کو داخل کرنا ممکن نہ رہا۔ شروع میں حکمیوں کا خیال تھا کہ معمولی تکلیف اور عام درد اور دوسری شکایات میں‌ مبتلا مریض جلد ہی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‌ گے۔ ایسا ہوا بھی، لیکن ان مریضوں کی تعداد بہت کم تھی جو صحت یاب ہوکر شفا خانہ چھوڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو مسلسل علاج اور بھرپور توجہ کے باوجود کوئی نہ کوئی شکایت لے کر بیٹھ جاتی اور حکیم ان کے نئے یا مستقل مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام ہورہے تھے۔ ان میں سے کسی کو مستقل جسم میں درد رہتا، تو کسی کو کوئی ایسا روگ لاحق تھا کہ وہ اس سے نجات ہی نہیں حاصل کر پا رہا تھا۔ الغرض صورتِ حال بہت پریشان کن ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے مریضوں نے شفا خانہ میں‌ ایک طویل عرصہ گزار دیا۔

    جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی مریض صحت یاب نہیں ہورہے اور شفا خانے میں گنجائش باقی نہیں تو بادشاہ بھی پریشان ہوا۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کرے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے حکیم اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو ایک حلوائی کا بیٹا دربار میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ چند ساعتوں میں ایسے تمام روگیوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ’’چلو، تم بھی قسمت آزما لو۔‘‘

    اس لڑکے کو شفا خانہ لے جایا گیا جہاں پہنچ کر اس نے ایک بڑا سا کڑھاؤ، منوں تیل اور ٹنوں کے حساب سے لکڑیاں منگوا لیں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل جوش مارنے لگا تو حلوائی کے فرزند نے شفا خانے کے عملے سے کہا کہ کسی بھی ایسے مریض کو لے آؤ جو برسوں سے یہاں پڑا ہے۔ ایک مریض جو چلنے پھرنے سے قاصر تھا، اسے پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’بڑے صاحب! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘

    معلوم ہوا: ’’پندرہ برس سے۔‘‘

    پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘

    جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے۔‘‘

    اس لڑکے نے جو معالج بن کر آیا تھا، اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور تسلّی دی کہ وہ ابھی اسے ٹھیک کردے گا۔ پھر اس نے کارندوں سے کہا: ’’اس کا مرض میں جان گیا ہوں۔ اب اس کا علاج شروع کرتے ہیں، اسے ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاؤ اور کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں اس کی ٹانگیں تین مرتبہ ڈبو دو۔ اس کے بعد دونوں بازوؤں کو تین مرتبہ کھولتے تیل میں‌ ڈالنا ہوگا۔ اور دیکھو بہت احتیاط سے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگ کو کڑھاؤ میں‌ مت گرا دینا۔‘‘ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں اچھل کود کرنے لگا اور سب کو چل کر دکھایا۔ حکیم نے کہا: ’’اب تم شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘ پھر شفا خانے سے باہر نکل جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اُس کے سامنے ایسے چند اور مریض لائے گئے اور ان کے لیے بھی اس نوجوان حکیم نے وہی علاج تجویز کیا جو پہلے مریض کے لیے کیا گیا۔ وہ بھی طریقۂ علاج سن کر فوراً‌ ٹھیک ہوگئے اور ہر قسم کا درد کافور ہوگیا یوں اس حکیم نے کچھ ہی دیر میں سارے مریض ٹھیک کر دیے اور شفا خانہ ان ہڈ حرام اور مفت خوروں سے خالی ہوگیا۔

    بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور حلوائی کے فرزند کو انعام و اکرام کے ساتھ خلعت سے نوازا گیا۔

    (لوک ادب سے انتخاب)

  • رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    رنگا ہوا سیّار (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے بہت منحوس ثابت ہوا اور اسے دن بھر بھوکا رہنا پڑا۔

    وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘ اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔

    وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگ ریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہیے۔

    وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس طرح کا جانور نہیں دیکھا تھا۔

    گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘

    سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘

    ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔

    چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘

    سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘

    نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    ’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘

    گیدڑ کی اس بات سے سبھی جانوروں کو تسلّی ہوئی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔

    ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سَیّار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر نکل گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔

    ( ترجمہ: ساحر ہوشیار پوری)

  • سرائے والے کا لڑکا (ایک دل چسپ کہانی)

    سرائے والے کا لڑکا (ایک دل چسپ کہانی)

    بہت برسوں پہلے ایک سرائے دار ہوا کرتا تھا جس کی چھوٹی سی سرائے تھی۔ مسافر آتے اور اس کی سرائے میں رات گزارتے، چلے جاتے۔ یوں اس کو کچھ آمدنی ہو جاتی۔

    اس سرائے دار کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام تھا سائمن تھا۔ یہ لڑکا بڑا ہوا تو بالکل بیکار اور نکھٹّو نکلا۔ بس ہر وقت کوئی نہ کوئی مصیبت کھٹری کیے رکھتا۔ اس کا باپ اس کے ہاتھوں بہت تنگ تھا۔ سائمن اپنے گاؤں سے باہر کبھی نہیں گیا تھا لیکن وہ پہاڑوں کی طرف دیکھتا تو کہتا کہ میں ایک دن اِن پہاڑوں سے پرے جاؤں گا اور دنیا بھر کی سیر کروں گا۔ ندی کو دیکھتا تو کہتا کہ میں ایسی کئی ندیاں پار کر جاؤں گا۔ پھر سمندر پار جا کر ایسے ایسے کام کروں گا کہ کسی امیر آدمی کی لڑکی یا شہزادی میری بیوی بن کر فخر کرے گی اور یوں میری زندگی بہت اچھی گزرے گی۔ لیکن یہ سب اس کے خیالی پلاؤ تھے۔ وہ نہ صرف کوئی کام نہ کرتا تھا، بلکہ اپنے باپ کی دی ہوئی رقم بھی ضائع کر دیتا تھا۔ سرائے میں جو مسافر بھی آتا، سائمن کا باپ اس سے کہتا کہ وہ سائمن کو سمجھائے کہ کچھ کام دھندا کیا کرے۔ لیکن سائمن کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔

    آخر لوگوں نے سرائے دار کو مشورہ دیا کہ اس لڑکے کے لیے ایک ہی کام مناسب ہے۔ اسے فوج میں بھرتی کرا دو۔ فوج والے اسے خود ہی ٹھیک کر لیں گے۔ سائمن کے باپ کو یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے بیٹے کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ لیکن فوج میں کافی عرصہ ملازمت کے بعد بھی اس نے کوئی ترقی نہ کی۔ سائمن کو یک دم خیال آیا کہ کیوں نہ فوجی بینڈ میں شامل ہو جاؤں۔ اس نے افسروں کی منت سماجت کی اور فوجی بینڈ میں ڈھول بجانے پر لگ گیا۔

    سائمن کے دوستوں میں ایک چالاک فوجی بھی تھا۔ وہ اس کی ڈینگوں سے تنگ آ چکا تھا۔ ایک دن جب سائمن نے اس سے کہا کہ میرا باپ تو بہت امیر آدمی ہے۔ گھر پر مجھے اتنی عمدہ خوراک ملتی تھی، یہاں تو میں اکثر بھوکا رہ جاتا ہوں، تو اس کے دوست نے اس سے کہا کہ تم ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہو کہ تمہارا باپ امیر ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ اگر وہ اتنا ہی امیر ہے تو اسے لکھو کہ مجھے ترقی دے کر داروغہ بنا دیا گیا ہے۔ اس خوشی میں مَیں اپنے افسروں کو پارٹی دوں گا۔ مہربانی کر کے کی رقم بھیج دے۔ سائمن کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اس نے اسی وقت باپ کو خط لکھ دیا۔

    سائمن کے والد کو یہ خط ملا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے اپنی بیوی کو خط پڑھ کر سنایا اور کہا: ”دیکھ لو، باپ بیٹے کی قسمت آخر جاگ ٹھی۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور روپوں کی ایک تھیلی سائمن کو بھجوا دی۔ اِدھر سائمن کی وہی حالت تھی۔ خوب کھانا پینا اور عیش کرنا۔ دو تین مہینوں میں باپ کی طرف سے آئے ہوئے روپے فضول خرچی میں اڑا دیے اور پھر ایک اور خط باپ کو لکھ دیا کہ مجھے ترقی مل گئی ہے۔ میرے ساتھی افسر امیر گھرانوں کے ہیں اور بڑے ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ میری تنخواہ بہت تھوڑی ہے اور میں ان جیسے ٹھاٹھ باٹ نہیں بنا سکتا۔ مہربانی کر کے کچھ اور روپے بھیجیے۔

    باپ کو سائمن کا دوسرا خط ملا تو وہ اور بھی خوش ہوا کہ چلو لڑ کا کسی قابل تو ہوا۔ اس نے پھر کُچھ رقم اس کو بھجوا دی۔ اب تو سائمن کی موج ہو گئی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے باپ کو ترقّی کی خبر سنا کر اس سے کچھ نہ کچھ رقم اینٹھ لیتا۔ پھر چند ماہ بعد اس نے باپ کو لکھا کہ اب وہ ترقّی کرتے کرتے جرنیل بن گیا ہے۔ اس کا باپ یہ سن کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ ہر آنے والے کو بڑے فخر سے بیٹے کی ترقّی کا حال سناتا۔

    ایک دِن اس نے سوچا کہ اس کا بیٹا اتنا بڑا افسر ہو گیا ہے ، کیوں نہ جا کر اس سے ملاقات کی جائے۔ اس میں اس کی اپنی بھی عزّت تھی اور سائمن بھی خوش ہو جاتا۔
    سائمن کے باپ نے اس خیال سے کہ بیٹا بہت بڑا آدمی ہے، ایک خوب صورت بگھّی کرائے پر لی۔ اس میں چار گھوڑے جتے تھے۔ یوں دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بڑی شان سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔

    شہر میں ہر طرف بڑی رونق اور گہما گہمی تھی۔ فوج کی پریڈ ہو رہی تھی اور پیدل اور گھڑ سوار دستے بینڈ کی دھن پر پریڈ کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔ سارا شہر پریڈ دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ فوجی دستوں کے آگے کھلی گاڑیاں تھیں جن میں کرنیل اور جرنیل بڑے رعب داب سے بیٹھے تھے۔

    بوڑھے سرائے دار نے غور سے ایک ایک افسر کو دیکھا۔ اس کی بیوی نے بھی بہت کوشش کی لیکن کسی بھی گاڑی میں انھیں اپنا لائق بیٹا نظر نہ آیا۔ وہ سمجھے کہ شاید ان کی نظر کو دھوکا ہوا ہے۔ چناں چہ انہوں نے چند لوگوں سے پوچھا کہ کیا ان افسروں میں سائمن نام کا کوئی جرنیل بھی ہے؟ لوگ بوڑھے کی بات سن کر بڑے حیران ہوئے، انہوں نے اسے بتایا کہ اس نام کا تو یہاں کوئی جرنیل نہیں۔ البتہ بینڈ والوں میں ایک ڈھول بجانے والا داروغہ ہے جس کا نام سائمن ہے۔

    بوڑھے کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا کہ اس کا بیٹا ابھی تک داروغہ ہے اور خطوں میں جھوٹ موٹ اپنے کو جرنیل بتاتا ہے۔ وہ سیدھا فوج کے ایک افسر کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا کر کہا کہ اس کا لڑکا اس کے حوالے کیا جائے تا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دے سکے۔

    سائمن کی ماں جو بڑے غصّے میں تھی، لیکن اب اپنے شوہر کو یہ کہتے سنا کہ وہ سائمن کو سزا دے گا تو اس نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کو معاف کر دے، لیکن بوڑھے نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس نے سائمن کو رسیوں میں جکڑا اور بگھّی کے پیچھے ڈال کر چل دیا۔

    سائمن کے جس دوست نے اسے باپ سے روپے منگوانے کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسے سائمن کی حالت پر بڑا رحم آیا اور وہ بگھّی کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

    اِس علاقے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور کچّی تھیں، اس لیے بگھّی کی رفتار بہت سُست تھی۔ وہ تیز تیز بگھّی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور جب ایک جگہ چڑھائی پر بگھّی بہت آہستہ ہو گئی تو اس نے سائمن کو بگھّی سے اتار کر اس کی رسّیاں کاٹ دیں اور اس سے کہا کہ اب تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ یہاں سے فوراً چلے جاؤ اور کہیں اور جا کر قسمت آزماؤ۔ تمہارے باپ کو تم پر اتنا غصّہ ہے کہ وہ تمہیں گولی مار دے گا۔ یہ کہہ کر اس کا دوست چلا گیا اور سائمن جنگل میں اکیلا رہ گیا۔

    صبح کا وقت تھا سورج نکل رہا تھا۔ سائمن نے دور افق کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ مشرق کی طرف جائے گا۔ وہ چلتا گیا۔ کئی شہر، کئی گاؤں راستے میں آئے۔ تھک جاتا تو آرام کر لیتا۔ لوگ سے مسافر سمجھ کر کچھ دے دیتے۔ اس کے ہاتھ میں ایک بنسری تھی۔ وہ بنسری بڑی اچھی بجاتا تھا۔ جب دل گھبراتا تو بنسری بجانے لگتا۔

    چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو قلعے نظر آئے۔ ایک قلعہ پہاڑی کے دامن میں تھا اور دوسرا پہاڑی کے اوپر۔ اوپر والا قلعہ بے آباد اور ویران سا تھا۔ سائمن نے لوگوں سے ان قلعوں کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی کے دامن میں جو قلعہ ہے اس میں ایک شہزادہ اور اس کی پیاری سی بیٹی رہتی ہے۔ یہ شہزادی بہت ہی خوب صورت ہے، لیکن بہت اداس رہتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے ہر وقت آنسو بہتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی کی چوٹی والے قلعے میں ایک رُوح کا بسیرا ہے۔ یہ روح اس لڑکی کے دادا کی ہے جو چند سال پہلے فوت ہوا تھا۔

    شہزادی کا دادا زندگی بھر لوگوں پر ظلم کرتا رہا تھا۔ اس کے پاس بے شمار دولت تھی، لیکن اس نے ساری دولت فضول خرچیوں میں برباد کر دی۔ اس نے دنیا میں اتنے برے کام کیے تھے کہ مرنے کے بعد اس کی رُوح پر آسمان کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور اسے اسی قلعے میں واپس آنا پڑا، جہاں وہ زندگی میں رہا کرتا تھا۔ جب شہزادی جوان ہوئی تو اس کی شادی کے لیے یہ شرط رکھی گئی کہ اس کے ساتھ وہی شخص شادی کر سکے گا جو اس قلعے میں سے اس روح کو نکالے گا۔
    شہزادی اتنی خوب صورت تھی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے شہزادے اور امیر زادے اس قلعے میں گئے تا کہ وہاں سے بوڑھے کی روح کو نکال سکیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا۔ شہزادی کے داس اور غمگین رہنے کی یہی وجہ تھی۔

    جب یہ بات سائمن نے سنی تو اس نے سوچا کہ میری زندگی تو ویسے بھی بیکار ہی ہے، کیوں نہ قلعے میں جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ مر گیا تو اس دکھ بھری زندگی سے نجات مل جائے گی۔ کامیاب ہوا تو عیش و آرام میں زندگی گزر جائے گی۔ شہزادی بھی ملے گی اور اس کی دولت بھی ہاتھ آئے گی۔

    اگلے دِن صبح کو وہ پہاڑ کے دامن والے قلعے کے دروازے کے پاس بیٹھ کر بانسری بجانے لگا۔ بانسری کی دھن اتنی پیاری تھی کہ شہزادی اور اس کا باپ کھڑکی میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ شہزادی نے باپ سے ضد کی کہ اس نوجوان کو قلعے ہی میں رکھ لیا جائے تاکہ جب وه اداس ہو تو اس آدمی سے دھنیں سن کر اپنا دل بہلا لیا کرے۔

    باپ اپنی بیٹی کی ہر بات مانتا تھا۔ اس نے اجازت دے دی۔ شہزادی سائمن کے پاس گئی اور اسے یہ خوش خبری سنائی کہ آیندہ وہ قلعے میں رہا کرے گا۔ شہزادی اور اس کے والد نے سائمن کی آؤ بھگت کی اور نوکروں کو ہدایت کی کہ وہ اِس بات کا خیال رکھیں کہ شاہی مہمان کو اچھے سے اچھا کھانے کو ملے اور وہ ہر وقت خوش رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پہاڑی قلعے کے متعلق سائمن کو بتایا تو اس نے فوراً سینہ ٹھونک کر کہا کہ میں اس بوڑھے کی روح سے قلعے کو نجات دلاؤں گا۔ شہزادی کو سائمن کی اس بات پر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ اگر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہو گیا تو دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے۔ دکھ اس بات کا کہ شہزادی نہیں چاہتی تھی کہ سائمن روح کے ہاتھوں مارا جائے۔

    شہزادی کے والد نے جب دیکھا کہ سائمن کا ارادہ پکا ہے تو اس نے حکم دیا کہ چار گھوڑوں والی بگھی منگوائی جائے اور سائمن کو رات ہونے سے پہلے پہلے پہاڑی قلعے میں پہنچا دیا جائے۔ قلعے کے سامنے پہنچتے ہی سائمن کود کر بگھی سے باہر نکلا۔ پھر قلعے کے دروازے میں سے ہوتا ہوا ایک بہت بڑے کمرے میں پہنچ گیا۔ اندھیرا ہونے والا تھا۔ اس نے میز پر پڑی ہوئی موم بتّی روشن کی اور کمرے کو غور سے دیکھنے لگا۔

    کمرے کی چھت پر بیل بُوٹے بنے ہوئے تھے اور ستونوں پر بھی عمده نقش و نگار کھدے تھے۔ مدّت سے بند رہنے کی وجہ سے کمرے میں لگی ہوئی تصویوں اور ریشمی پردوں پر مٹّی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔

    اس نے ایک کھڑکی کھولی تو باہر سے ایک باغ نظر آیا۔ لیکن وہ اجڑ چکا تھا۔ گھاس خشک ہو گئی تھی اور بیلیں سُوکھ گئی تھیں۔ ہر طرف بھیانک خاموشی طاری تھی۔
    سائمن نے ایک الماری کھولی تو اس میں سے ایک گھڑی ملی۔ اس نے گھڑی میں چابی دی اور اندازے سے وقت ٹھیک کیا تا کہ وقت کا پتا چل سکے۔

    پھر اس نے الماری سے ایک پرانا ناول نکالا اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ اس کے دِل میں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ تھا۔ پڑھتے پڑھتے گیارہ بج گئے۔ پھر وہ اکتا گیا تو سوچنے لگا کہ آدھی رات ہونے کو آئی، خدا جانے روح کب آئے گی۔ اس خیال کا آنا تھا کہ اچانک کسی گاڑی کی آواز آئی۔ یہ آواز بہت دور سے آ رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ نزدیک ہوتی گئی۔ سائمن کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ لیکن وہ اسی طرح پڑھنے میں مصروف رہا۔

    کچھ دیر بعد دروازہ آہستہ سے کھلا اور ایک بوڑھا آدمی چابیوں کا گچھا ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا اور اس کا رنگ ايسا سیاہ تھا جسے توا۔ آنکھیں ایسے نظر آ رہی تھیں جیسے ان میں کوئلے دہک رہے ہوں۔ سائمن بالکل نہ ڈرا، نہ اس نے کوئی حرکت کی۔ اسی طرح کتاب پڑھتا رہا۔ بوڑھا گھورتا ہوا اس کے پاس آیا اور رعب دار آواز میں بولا: ”اے! تم یہاں کس کی اجازت سے آئے ہو؟“

    سائمن بولا ”مسافر ہوں۔ راستے میں شام ہو گئی۔ قلعہ دیکھا تو اندر چلا آیا۔“

    بوڑھا گرج کر بولا ”تمہیں ڈر نہیں لگا؟ کسی نے نہیں بتایا تمہیں کہ یہاں کئی بہادر نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں؟ میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑتا۔ سمجھے؟“

    سائمن اطمینان سے بولا ”میں ایک غریب مزدور کا بیٹا ہوں۔ موت کی کم ہی پروا کرتا ہوں۔“

    بوڑھا بولا ”بڑے شیخی خورے معلوم ہوتے ہو۔ دیکھوں گا کب تک شیخی بگھارو گے۔ یہ لو چابیاں اور ایک ایک کر کے قلعے کے دروازے کھولتے جاؤ۔“

    سائمن وہیں بیٹھا بیٹھا بولا ”میں کوئی تمہارا ملازم ہوں؟ تم خود ہی کھولو نا۔ البتّہ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ سکتا ہوں۔“

    بوڑھے کی روح نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چابیاں لے کر چل پڑا۔ سائمن اس کے پیچھے چل دیا۔ بوڑھا ایک دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سائمن نے دیکھا کہ بوڑھے کے سر کے بال ایک دم سفید ہو گئے ہیں۔ بوڑھے نے دوسرا دروازہ کھولا اور پھر تیسرے دروازے پر رک کر ایک بار پھر سائمن سے کہا کہ چابیاں لے کر دروازه کھولو۔ سائمن نے انکار کیا تو اس نے خود ہی تیسرا دروازہ بھی کھول دیا۔ سائمن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سر کے بالوں کے علاوہ پورے کا آدھا جسم بھی سفید ہو گیا ہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا رہا، لیکن خاموش رہا۔ جوں جوں بوڑھا دروازے کھولتا گیا، اس کا جسم سفید ہوتا گیا۔ ساتواں دروازہ کھولنے پر وہ گھٹنوں تک سفید ہوا اور جب باره کے بارہ دروازے کھل گئے تو وہ پورے کا پورا سفید ہوگیا۔

    بارھویں کمرے میں انسانی ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ یہ ان بہادر لوگوں کی ہڈّیاں تھیں جنہیں اس روح نے مار ڈالا تھا۔ بوڑھے نے آہستہ سے کہا ”دیکھو، یہاں کتنے نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہ تھا کہ یہاں کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے۔ میں بہت عرصے سے ایک مزدور ہی کے بیٹے کا انتظار کر رہا تھا۔ تم نے اپنے آپ کو بھی بچا ليا، مجھے بھی اس قید سے آزاد کر دیا اور قلعے کو بھی تباہی سے بچا لیا۔ اب یوں کرو کہ یہ کلہاڑی اٹھا کر میرا سَر کاٹ دو۔“ سائمن بہت بہادر تھا، لیکن یہ بات سن کر گھبرا گیا اور ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

    بوڑھا پھر بولا، ”دیکھو اگر تم نے میرا سر نہ کاٹا تو تمہاری ساری محنت بیکار جائے گی۔ میری روح یہیں اسی قلعے میں رہے گی اور تمہیں اپنے سَر کی قربانی دینی پڑے گی۔“ اب سائمن مجبور ہو گیا۔ اس نے کلہاڑی اٹھائی اور گھما کر بوڑھے کی گردن پر دے ماری۔ گردن ایک جھٹکے کے ساتھ جسم سے الگ ہو کر سائمن کے پیروں میں گِری۔ اگلے ہی لمحے وہاں گردن کے بجائے مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر کھڑکی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ یہی شہزادی کے دادا کی روح تھی۔

    سائمن بہت تھک چکا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ لیٹ گیا اور گہری نیند سو گیا۔
    صبح اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب شہزادی اور اس کے والد کی بگھّی کی آواز آئی۔ وہ بھاگ کر باہر نکلا تو شہزادی اور اس کا والد بڑے غور سے اسے دیکھنے لگے۔ آج تک اس قلعے سے کوئی زنده واپس نہ نکلا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا۔

    جب سائمن نے انہیں بتایا کہ بوڑھے کی روح قلعے سے جا چکی ہے تو وہ کود کر بگھّی سے اترے۔ سائمن انہیں لے کر قلعے میں داخل ہوا اور تمام کمرے دکھائے۔ اَب انہیں یقین آیا۔

    شہزادی سائمن کی کام یابی پر بہت خوش تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔ جہاں بے شمار شہزادے اور بہادر نوجوان ناکام ہو چکے تھے، وہاں سائمن نے یہ مہم سر کر لی تھی۔

    سب سے پہلے شہزادی کے والد نے حکم دیا کہ ان تمام نوجوانوں کی ہڈیوں کو، جو روح کے ہاتھوں مارے گئے تھے، عزّت کے ساتھ دفن کیا جائے۔ پھر اس نے قلعے کی صفائی کرا کے رنگ و روغن کروایا۔ اس کے بعد سائمن اور شہزادی کی شادی کا جشن منانے کا حکم دیا لیکن سائمن نے کہا: ”بہت عرصہ ہو گیا میں اپنے والدین سے نہیں ملا۔ میں نے ان کو بہت تکلیفیں دی ہیں۔ میں اِس خوشی میں ان کو ضرور شامل کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی کا والد راضی ہو گیا۔ اس نے بجائے شادی کے سائمن اور شہزادی کی منگنی دھوم دھام سے کر دی۔ پھر سائمن کے سفر کی تیاری کی گئی۔ سائمن کے جانے پر شہزادی بہت اداس ہوئی۔ اس نے سائمن سے وعدہ لیا کہ وہ اپنے والدین سے مل کر جلد واپس آئے گا۔ شہزادی نے سائمن سے اس کے گھر کا پتا بھی لیا تا کہ اگر وہ واپس نہ آئے تو وہ خود اس کے گھر پہنچ سکے۔ سائمن بہت سے نوکروں اور درباریوں کو ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔ وہ خوش تھا کہ اب بڑا آدمی بن کر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہا ہے۔ موسم خوش گوار تھا۔ قا فلہ نو دن تو خیر و خوبی چلتا رہا لیکن دسویں روز سے ایک گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑا۔ جب وہ جنگل میں داخل ہوئے تو چاند نِکلا ہوا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھا گئے۔ اندھیرا ہو گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ جنگل میں دور دور تک کوئی ایسی محفوظ جگہ نہ تھی جہاں یہ لوگ پناہ لیتے۔ ایک تو اندھیرا، دوسرے سخت بارش۔ راستہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بھوکے پیاسے، تھکے ہارے آہستہ آہستہ چلتے گئے۔ لیکن جنگل ختم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔ اچانک درباریوں میں سے کسی کو دور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی جو درختوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ وہ اسی طرف چل دیے۔

    یہ روشنی ایک سرائے میں سے آ رہی تھی۔ یہ لوگ اندر داخل ہوئے تو ایک بوڑھی عورت کو چولھے پر کھانا پکاتے ہوئے پایا۔ اتنے میں سرائے والا بھی آ گیا اور ان کو خوش آمدید کہا۔ وہ لوگ اندر تو چلے گئے تھے لیکن انہیں سرائے دار کی آنکھوں سے شرارت ٹپکتی نظر آ رہی تھی۔ وہ سب اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ لیٹتے ہی گہری نیند سوگئے۔ سرائے دار اسی موقعے کے انتظار میں تھا۔ دراصل یہ سرائے مسافروں کو لوٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہاں مسافروں کو لوٹ کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا تھا۔

    جب یہ لوگ سو گئے تو سرائے والا آہستہ سے نکل کر جنگل میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ یہ لوگ تعداد میں بارہ اور نہایت ظالم قسم کے ڈاکو تھے۔ سرائے والا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا: ”کیا خبر لائے ہو؟“

    سرائے والا بولا ” بہت بڑی خوش خبری ہے۔ ایک بہت بڑا نواب اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرائے میں آ کر ٹھہرا ہے۔ ان کے پاس گھوڑے، ہیرے، جواہرات ریشمی کپڑا اور بہت سا قیمتی سامان ہے۔“

    ڈاکوؤں نے کہا ”ان کی تعداد کتنی ہے ؟“

    ”تعداد تو بہت ہے، لیکن وہ لوگ اس قدر تھکے ہوئے ہیں کہ انہیں سر پیر کا ہوش نہیں۔ یہی موقع ہے ان کے گلے کاٹنے کا۔“

    ڈاکو دبے پاؤں سرائے میں داخل ہوئے اور سائمن کے ساتھیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ جب سائمن کو اپنے ساتھیوں کی چیخیں سنائی دیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ساتھیوں سے پستول مانگا۔ لیکن ڈاکو زیادہ تیز تھے۔ ان کے سردار نے سائمن پر پستول کی گولی داغ دی اور وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑا۔ ڈاکوؤں نے سائمن کو مردہ سمجھ کر پہلے اس کے گلے کا ہار اور انگوٹھی اتاری پھر سارا سامان اٹھایا اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیے۔

    سائمن زخمی ہوگیا تھا لیکن مرا نہیں تھا۔ اس کے ساتھیوں میں کوئی بھی زندہ نہ بچا تھا۔ ڈاکو چلے گئے تو اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور چپکے سے سرائے میں سے نکل کر جنگل کا راستہ لیا۔ وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے سے پہلے جنگل میں سے نکل گیا۔ اب وہ اپنے باپ کی سرائے سے صرف ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کے پاؤں ننگے اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور ڈاکوؤں کے حملے سے اس کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ وہ ایسی حالت میں اپنے باپ کے سامنے جانا نہ چاہتا تھا۔ وہیں بیٹھ کر رات کا انتظار کرنے لگا۔ یہاں چند گڈریوں نے سے پہچان لیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے: ”ارے سائمن! تم تو فوج میں جرنیل ہو گئے تھے۔ جرنیل صاحب ننگے پاؤں کہاں سے بھاگ کر آ رہے ہو؟“

    سائمن بولا ”میرا مذاق مت اڑاؤ۔ میں اب وہ بھوکا ننگا سائمن نہیں ہوں۔ اب میں بہت امیر اور ایک بادشاہ کا داماد ہوں۔ البتہ مجھ پر ایک مصیبت آن پڑی ہے۔ میرے تمام ساتھیوں کو ڈاکوؤں نے قتل کر دیا اور سارا سامان چھین کر لے گئے۔ دیکھ لو، میرے کپڑے کتنے قیمتی ہیں لیکن پھٹے ہوئے ہیں۔“

    گڈریوں نے سائمن کو اپنے کپڑے دیے اور اپنے ساتھ گاؤں لے گئے۔ سائمن کا باپ گھر پر نہیں تھا۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر بھاگی ہوئی آئی اور اسے چمٹا کر رونے لگی۔ بُرے حال میں سہی، لیکن اس کا بیٹا زندہ تو تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی لیکن شوہر کے غصّے کے ڈر سے اس نے سائمن کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ سائمن کا باپ واپس آیا تو اس نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے۔ بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پوچها ”کیا بات ہے، روتی کیوں ہو؟“

    ”یہ تو خوشی کے آنسو ہیں“ بڑھیا بولی ”ہمارا سائمن زندہ ہے۔“

    ”کس بے وقوف کا نام لے رہی ہو۔“ بوڑھا بولا ”اگر مجھے پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو میں اسے گولی مار دوں گا۔“

    لیکن جب اس نے دیکھا کہ بڑھیا کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ہیں تو وہ نرم پڑ گیا اور بیوی سے پوچھا: ”کہاں چھپایا ہے تم نے سائمن کو؟“ بڑھیا نے اسے قسم دی کہ وہ سائمن کو کچھ نہیں کہے گا اور پھر سائمن کو آواز دی۔ وہ سامنے آگیا۔

    بوڑھے نے سائمن کو پرانے کپڑے پہننے کو دیے اور اپنی اور گاؤں والوں کی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ سائمن بنسری ساتھ لے جاتا۔ بکریاں چرتی رہیں اور وہ بنسری بجاتا رہتا۔ اسے یقین تھا کہ شہزادی ضرور اسے تلاش کرتی ہوئی آئے گی۔
    جب سائمن کو گھر گئے تین ہفتے ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو شہزادی کو بہت فکر ہوئی اور وہ باپ سے اجازت لے کر اسے ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی۔ باپ نے اس کے ساتھ بہت سے سپاہی کر دیے تھے۔

    شہزادی بھی اسی راستے سے ہوتی ہوئی اسی سرائے میں پہنچ گئی جہاں سائمن ٹھہرا تھا۔ اتفاق سے سرائے والا اس وقت موجود نہ تھا۔ وہی بڑھیا جو سائمن کو کھانا پکاتی ہوئی نظر آئی تھی، شہزادی کے پاس آ کر بولی: ”بیٹی تم یہاں نہ ٹھہرو۔ یہ ڈاکوؤں کا ڈیرا ہے۔ وہ ظالم مسافروں کو لوٹ کر ان کا گلا کاٹ دیتے تھے۔ ابھی تین ہفتوں کی بات ہے، ایک امیر آدمی یہاں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ ڈاکوؤں نے ان کا سامان چھین کر ان سب کو مار ڈالا۔“

    شہزادی کو یہ سن کر بہت صدمہ ہوا۔ لیکن جب بڑھیا نے اسے بتایا کہ اور سب لوگ تو مارے گئے تھے لیکن ان کا سردار زخمی ہونے کے باوجود بچ نکلا تھا تو اس کی جان میں جان آئی۔

    شہزادی بہت بہادر تھی۔ وہ ان ڈاکوؤں سے بالکل نہ گھبرائی بلکہ سائمن کی تکلیف کا سن کر تو اس کا اور بھی دل چاہا کہ ان کو خوب مزہ چکھائے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار تیار رکھیں اور آنکھیں بند کرلیں لیکن سوئیں نہیں۔

    سرائے والا واپس آیا تو شہزادی کا سامان دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ بھاگا بھاگا ڈاکوؤں کے پاس گیا اور انہیں بلا لایا۔ شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو گہری نیند سوتا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ لیکن اس بار سب الٹا ہو گیا۔ شہزادی کے ساتھیوں نے ڈاکوؤں کو ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا۔ جب بارہ کے بارہ ڈاکو اور سرائے کا دھوکے باز مالک مارے گئے تو شہزادی نے بڑھیا کو ساتھ لیا اور سائمن کی تلاش میں چل نکلی۔

    آخر کار وہ اِس علاقے میں جا پہنچی جہاں سائمن بکریاں چرا رہا تھا۔ شہزادی کو بانسری کی آواز آئی تو اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ سائمن ہے۔ اس نے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود گھوڑے سے اتر کر چھپتی چھپاتی سائمن کے قریب پہنچ گئی۔ یہ سچ مچ سائمن ہی تھا۔ شہزادی کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا لیکن اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور فوراً ہی واپس آ گئی۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر سائمن کے باپ کی سرائے کی طرف چل دی۔

    بوڑھا سرائے دار شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور جب شہزادی نے اس کی سرائے میں ٹھہرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ گھبرا گیا اور بولا کہ وہ غریب آدمی ہے۔ اس کی سرائے شہزادی کے لائق نہیں ہے۔ لیکن شہزادی نے نہ صرف وہاں ٹھہرنے پر ضد کی، بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ کسی اور ملازم کے بجائے وہ اپنے لڑکے کو اس کی خدمت پر لگائے۔ بوڑھے نے شہزادی سے کہا کہ اس کا لڑکا بہت نالائق، بے وقوف اور بدتمیز ہے۔ آپ کی خدمت کرنے کے قابل نہیں لیکن شہزادی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ناچار بوڑھے نے سائمن کو شہزادی کے دروازے کے باہر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد شہزادی نے پانی مانگا۔ سائمن نے پانی کا گلاس لیا اور نظریں نیچی کر کے اندر چلا گیا۔ شہزادی نے پانی پیا اور جب دیکھا کہ سائمن نظریں اوپر نہیں اٹھاتا تو گلاس زمین پر پھینک دیا۔ سائمن فرش پر سے گلاس کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگا۔ شہزادی بھاگ کر اس کے پاس آ بیٹھی۔ سائمن نے شہزادی کو دیکھا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔

    شہزادی سائمن کے لیے بہت عمدہ کپڑے لے کر گئی تھی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دونوں زرق برق لباس میں سائمن کے والدین سے ملنے گئے۔ بوڑھا سائمن کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ شہزادی بولی ”ابّا جان، آپ اپنے بیٹے کو نہیں پہچانتے۔“

    بوڑھا ہکا بکا ہو کر بولا: ”یہ شہزادہ ہے تو میرے لڑکے جیسا ہی، لیکن میرا لڑکا تو شہزادہ نہیں ہے۔“

    بوڑھا کبھی شہزادی کو دیکھتا کبھی سائمن کو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا۔ آخر کار سائمن جھکا اور اپنے باپ کے پیروں کو چھوتے ہوئے بولا ” ابا جان! میں آپ سے اپنی غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں۔“ اور پھر جب اس نے اور شہزادی نے قلعے والی بات، منگنی کی بات اور ڈاکوؤں والا واقعہ سنایا تو بوڑھا اور بڑھیا بہت ہی خوش ہوئے۔ یہ سب باتیں ہو چکیں تو شہزادی سائمن اور اس کے ماں باپ کو لے کر واپس چلی گئی۔ سائمن اور شہزادی کی شادی دھوم دھام سے ہوئی اور وہ دونوں پہاڑی والے قلعے میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    شادی کے بعد سائمن کے بوڑھے والدین اپنی سرائے میں واپس آ گئے ، کیوں کہ وہ سرائے کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لیکن اب انہیں کوئی دکھ، تکلیف یا پریشانی نہ تھی۔

    (پولینڈ کی کہانیوں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے، ایک سوداگر پڑوسی ملک سے واپس اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ کئی مہینوں بعد اپنے گھر جا رہا تھا اور اسی لیے وہ بہت خوش بھی تھا۔

    سوداگر جس چھکڑے پر سفر کر رہا تھا، وہ تجارتی سامان سے لدا ہوا تھا۔ لیکن سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی تھی اور گھوڑے چھکڑے کو بڑی مشکل سے کھینچ پا رہے تھے۔ وہ جس جگہ تھا، وہاں ایک اور راستہ جنگل میں سے بھی گزرتا تھا۔ سوداگر کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اس لیے اس نے جنگل والے راستے کا اںتخاب کیا۔

    اندھیری رات تھی۔ نہ چاند، نہ ستارے۔ سوداگر کی بدقسمتی تھی کہ جنگل میں ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ بارش ہونے لگی۔ ایک تو اندھیرا دوسرے کیچڑ بھی ہوگئی۔ گھوڑے بڑی مشکل سے ایک جگہ سے چھکڑا کھینچ کر نکالتے تو وہ تھوڑی دور جا کر دوسری جگہ پھنس جاتا۔ بجلی کڑک رہی تھی، بادل گرج رہے تھے کہ اچانک چھکڑا ایک گڑھے میں پھنس گیا۔ پہیے آدھے سے زیادہ پانی میں ڈوب گئے تھے اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی تھی۔ سامان قیمتی تھا۔ سوداگر اُسے چھوڑنا بھی نہ چاہتا تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھوڑوں کو کھولا، جو سامان ان پر لادا جا سکتا تھا، لاد دیا، جو خود اٹھا سکتا تھا وہ اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اور آگے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا: ”میں بھی تھکا ہوا ہوں، گھوڑے بھی تھک چکے ہیں۔ آخر ہم اس کالی رات میں کہاں تک چلیں گے۔ اور کوئی جنگلی جانور ہمیں کھا گیا تو کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ اگر کوئی جن بھوت، شیطان یا انسان مجھے اس خوف ناک جنگل سے باہر نکال دے تو میں اپنا آدها سامان اسے دے دوں گا۔“

    جوں ہی یہ بات اُس کے منھ سے نکلی، بادل زور سے گرجا، بجلی زور سے کڑکی اور پھر بادل کے پیچھے سے چاند نکل آیا ۔ چاند کی روشنی میں سوداگر نے دیکھا کہ راستے کے ایک طرف ایک چھوٹی سی عجیب و غریب مخلوق کھٹری ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے قدر کا انسان تھا، جس کے سر پہ لمبوتری ٹوپی تھی۔ پاؤں میں ایسے جوتے تھے جن میں سے اُس کے نوکیلے پاؤں باہر نکلے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا چہرہ خوف ناک تھا۔ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور ہاتھ ایسے تھے جیسے شیر کے پنجے ہوں۔

    اب تو سوداگر بہت گھبرایا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ ضرور کوئی جن یا بھوت ہے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ چھلاوا آگے آیا اور گرجتی ہوئی آواز میں بولا: ”تمہاری خواہش کے مطابق میں تمہیں جنگل سے نکال کر گھر کے راستے پر ڈال سکتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے ۔“

    ”کیسی شرط ۔۔۔۔“ سوداگر گھبرا کر بولا۔

    چھلاوا بولا: ”تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ اگر تم گھر پہنچ کر وہاں کوئی ایسی چیز دیکھو جو اس سے پہلے تمہارے گھر میں نہیں تھی اور جس کا تمہیں اس وقت پتا نہیں ہے، تو وہ میری ہو جائے گی اور میں جب چاہوں اسے تم سے لے لوں گا۔“

    سوداگر نے بہت غور کیا، خوب خوب سوچا لیکن اُس کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہ آئی جو اس کی غیر حاضری میں گھر میں آ سکتی ہو۔

    وہ بولا: ”ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔“

    یہ بات سنتے ہی چھلاوے نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا جس پر شرطیں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر اُس نے سوداگر کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں اپنا ناخن مارا۔ خون نکلا تو اس نے اُس میں پَر ڈبویا اور سوداگر کو کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔

    اس کام سے فارغ ہو کر چھلاوے نے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز جنگل میں گونجتے ہی ہر طرف اسی کی شکل کے چھلاوے نظر آنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے سوداگر کا تمام سامان، چھکڑا، گھوڑے جنگل کے پار صاف ستھرے راستے پر پہنچا دیے۔ اس کے بعد وہ سب غائب ہو گئے۔ ان کے غائب ہوتے ہی جنگل میں جگہ جگہ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور پھر ایسی آوازیں آئیں جیسے بہت سے لوگ قہقہے لگا رہے ہوں۔

    سوداگر نے اس علاقے سے نکلنے میں ہی خیریت سمجھی اور چھکڑے کو تیز تیز ہانکتا ہُوا بہت دور نکل گیا۔ یہاں اس نے ایک کھلے میدان میں ڈیرا ڈال دیا تاکہ آرام کر سکے۔ صبح اٹھا تو موسم صاف تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    چند دن کے سفر کے بعد، جس میں اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، سوداگر اپنے شہر کراکو کے باہر پہنچ گیا۔ جب وہ گھر کے پاس پہنچا تو اس کی بیوی بھاگی ہوئی آئی اور اپنے شوہر کو بچے کی پیدائش کی مبارک دی جو اس کی غیر حاضری میں پیدا ہوا تھا۔ سوداگر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بچے کو سینے سے لگا لیا۔

    اب جو اُس نے بیوی کو سفر کے حالات سنائے اور اُس معاہدے کا خیال آیا جو وہ جنگل میں چھلاوے سے کر آیا تھا تو اس پر بجلی گر پڑی اور اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ انجانے میں اپنے معصوم بچے کا سودا کر بیٹھا ہے۔ جب اُس کی بیوی نے یہ سنا کہ اس بچے کو چھلاوا لے جائے گا تو اسے اتنا غم ہوا کہ اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔ وقت گزرتا گیا۔ اس دوران میں اور تو کچھ نہ ہو البتہ جب کبھی وہ بچے کو گھمانے پھرانے کے لیے باہر جانے کا ارادہ کرتے تو ایک دم بادل گھر آتے، بارش ہونے لگتی، بجلی کڑکنے لگتی اور وہ گھبرا کر بچّے کو واپس گھر لے آتے۔

    بچہ بہت خوب صورت اور صحت مند تھا۔ اس کے ساتھ ہی ذہین بھی تھا اور درس گاہ کے امتحان میں ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ اس پر کسی چھلاوے کا سایہ ہے۔ ماں باپ نے اس کا نام نکولس رکھا تھا۔

    جب نکولس جوان ہوا تو اُسے احساس ہوا کہ ماں باپ ہر وقت چُپ چُپ سے رہتے ہیں۔ ہنسنا تو بڑی بات ہے، کبھی مسکراتے بھی نہیں۔ آخر اس نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا: ”ابّا جان، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آپ کو اور امّی کو کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا۔ کیا بات ہے؟ آپ ہنستے کیوں نہیں ؟ آخر آپ کو کیا غم ہے ؟“

    باپ اپنے بیٹے کو کچھ بتانا نہ چاہتا تھا۔ اس نے ہوں ہاں کر کے اُسے ٹالنا چاہا تو وہ بولا:
    ” جب کبھی میں جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ کبھی آگے سے گزرتا ہے کبھی پیچھے سے۔ کبھی درختوں سے آواز آتی ہے، نکولس، تمہارا پڑھنا لکھنا سب بیکار ہے تمہیں تو آخر کار وہی کچھ کرنا ہے جو میں تمہیں سکھاؤں گا۔“

    یہ سُن کر اس کا باپ رونے لگا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بولا ”بیٹے میں وہ بدنصیب ہوں جس نے تمہاری زندگی کے راستوں میں کانٹے بو دیے ہیں۔ تم ابھی بچّے ہی تھے کہ میں نے انجانے میں تمہارا سودا ایک چھلاوے سے کر لیا تھا۔“ یہ کہہ کر اس نے اُس رات والا تمام قصّہ اُسے کہہ سنایا۔ اس کے بعد پھر رونے لگا۔

    بیٹے سے باپ کا رونا دیکھا نہ گیا۔ وہ بولا: ”ابّا جان آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے جنگلوں میں گھوم پھر کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میں اس چھلاوے سے وہ کاغذ جس پر آپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے، چھین کر لے آؤں گا۔ آپ اور امی اپنا دل خراب نہ کریں۔ خوش رہیں۔“
    نکولس نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے لیے اپنے والدین کو خدا حافظ کہہ کے گاؤں سے چلا گیا۔ ابھی زیاره دور نہیں گیا تھا کہ اُسے ایک ایسا بوڑھا ملا جس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے اور چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔

    نکولس نے سلام کیا تو بوڑھے نے پُوچھا: ”اچھّے بیٹے، کہاں جا رہے ہو؟“

    نکولس بولا: ”میں اُس چھلاوے کی تلاش میں نکلا ہوں جس نے میرے باپ کو دھوکا دے کر اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُس سے ایک کاغذ پر دستخط کروا لیے تھے۔“

    ”تو ایسا کرو۔۔۔“ بوڑها بولا۔ ” اسی راستے پر چلتے جاؤ۔ جب سُورج چھپ جائے تو سب سے پہلی جو جان دار چیز نظر آئے، اُسی کے پیچھے پیچھے چل دینا۔ تمہارے من کی مراد پوری ہو گی۔“

    نکولس اسی راستے پر چلتا گیا۔ جب شام ہوئی اور سورج ڈوبنے لگا تو بڑا پریشان ہوا کہ اب کِدھر کو جائے؟ ابھی تھوڑا سا اُجالا باقی تھا کہ ایک بھورے رنگ کی چھوٹی سی چوہیا اچانک کہیں سے نکلی اور نکولس کے آگے آگے بھاگنے لگی۔ نکولس کو بوڑھے کی بات یاد آ گئی۔ وہ چوہیا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب بالکل اندھیرا ہو گیا تو نکولس نے سوچا کہ اب آرام کرنا چاہیے۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر چوہیا بھی رُک گئی ہے۔ رات کو پہلو بدلتے ہوئے نکولس کی آنکھ کھلتی تو اسے دو موتی سے چمکتے نظر آتے۔ یہ چوہیا کی آنکھیں تھیں جو لگاتار نکولس کو گھور رہی تھیں۔

    اب ہوتا یہ کہ اگلی صبح کو نکولس اس چوہیا کے پیچھے چلتا اور وہ آگے اور اسی طرح وہ ہر شام کو کسی جگہ رک جاتے تھے۔ نکولس روٹی کھاتا تو اس کے ذرے زمین پر گر جاتے۔ وہ چوہیا کھا لیتی۔ وہ کبھی کبھی آنکھوں سے اوچھل بھی ہو جاتی ۔ لیکن جب بھی نکولس راستہ بھول جاتا اور سوچنے لگتا کہ اب کِس طرف جانا ہے تو چوہیا فوراً بھاگتی ہوئی آ جاتی۔
    اب راستہ اونچا ہوگیا تھا۔ اس کے دونوں طرف اونچی نیچی پہاڑیاں، ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ سبزے کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ بڑی خوف ناک جگہ تھی۔ چرند، پرند، اِنسان کوئی بھی جاندار نظر نہ آتا تھا۔ نیچے لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ اُوپر پہنچو تو میتھیو کے غار سے بچ کے رہنا۔ اس کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا تھا کہ میتھیو ایک بدمعاش ہے اور اس پہاڑی پر رہتا ہے اور لوگوں کو جان سے مار ڈالتا ہے۔ چوہیا نکولس کو راستہ دکھا رہی تھی اور نکولس تھک ہار کر آرام کرنے کی سوچ رہا تھا کہ دُور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ وہ اُسی سمت چل دیا۔ یہ راستہ چٹانوں کے اندر ایک غار تک جاتا تھا۔ غار کے باہر دروازہ تھا۔

    نکولس نے دروازے پر دستک دی۔ کافی دیر بعد ایک بڑھیا باہر نکلی، جس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ نکولس نے جھانک کر اندر دیکھا تو اسے لکڑیاں جلتی ہوئی نظر آئیں۔

    نکولس نے بڑھیا کو سلام کیا تو وہ بولی: ”لڑکے یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ، ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔ میرا ظالم بیٹا میتھیو واپس آنے والا ہے۔ وہ اپنے کوڑے سے تمہاری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ تم ابھی نوجوان ہو اور اچھے گھرانے کے نظر آتے ہو۔ جاؤ، جلدی کرو۔ یہاں سے بھاگ جاؤ۔“

    ”اچھی امّاں“ نکولس بولا: ”میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ آپ مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دیں۔ آگے جو میری قسمت۔“

    بڑھیا نے نکولس کو لکڑیوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا دیا۔ آدھی رات کے قریب میتھیو واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سیب کے درخت کا کوڑا تھا۔ غار کے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے ناک اُوپر کر کے کچھ سونگھا اور پھر گرج کر بولا: ” بڑھیا! مجھے انسانی جسم کی بُو آ رہی ہے۔ بتا، کہاں چھپا رکھا ہے تُو نے اُس کو؟“

    بڑھیا نے بہت کوشش کی لیکن میتھیو کو ٹال نہ سکی اور جب میتھیو نے خود ہی تلاش کرنا شروع کر دیا تو بڑھیا نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کو سب کچھ بتا دے۔ اس نے میتھیو کو بتایا کہ کِس طرح ایک نوجوان لڑکا آیا تھا اور اس نے اُسے پناہ دی ہے۔ یہ سنتے ہی نکولس لکڑیوں کے نیچے سے نکل آیا۔ میتھیو نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا اور گرج کر بولا: ”کون ہو تم ؟ کیا لینے آئے ہو یہاں؟“

    نکولس نے ساری بات کہہ سنائی تو میتھیو نے کہا: ” میں زندگی میں پہلی بار رحم کھا رہا ہوں، اور تمہیں ایک شرط پر زندہ چھوڑتا ہوں۔ جس راستے پر تم جا رہے ہو یہ تمہیں سیدھا اُسی چھلاوے کے علاقے میں لے جائے گا جس کی تلاش میں نکلے ہو۔ میں نے بھی اپنی نوجوانی میں اُس سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ تمہارے والد نے یہ معاہدہ انجانے میں کیا تھا، لیکن میں نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، میری پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ خدا جانے وہ کس دن مجھے لینے آجائے۔ تمہیں اس شرط پر زندہ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو واپسی میں ادھر سے ہو کر جانا اور مجھے بتانا کہ میرے متعلق چھاوے کے کیا ارادے ہیں۔“

    نکولس نے میتھیو کی شرط مان لی۔ پھر وہ آرام سے سو گیا۔ صبح اٹھا تو بڑھیا نے اس کا تھیلا کھانے کی چیزوں سے بھر دیا اور وہ پھر سفر پر روانہ ہوگیا۔ چوہیا اسی طرح اُس کی راہ نمائی کر رہی تھی۔

    اب راستہ اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں کہیں اُوپر کو جاتیں اور کہیں ڈھلان کی صورت میں نیچے کو۔ ارد گرد کی پہاڑیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ برف کے تودے پھسل پھسل کر گرتے تو نکولس بڑی مشکل سے جان بچاتا۔ وہ اِس سرد پہاڑی علاتے سے گزر گیا تو آگے گرم علاقہ شروع ہو گیا۔ یہاں اُس نے ابلتے پانی کا ایک سمندر دیکھا۔ مختلف ملکوں کے پرندے یہاں سردیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ یہاں اُس نے ایک آنکھ والے آدم خوروں کو بھی دیکھا جن کے پیر بیلچوں جیسے تھے۔

    نکولس یہ بات سمجھ چکا تھا کہ کوئی خاص طاقت اسے اِن سب مصیبتوں سے بچائے لیے جارہی ہے۔ یہاں ہوا میں جگہ جگہ آگ کے شعلے اُڑ رہے تھے اور بہت بری بُو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ ب وہ جنوں، پریوں اور چھلاوں کے علاقے میں آ گیا ہے۔ دلدلوں میں سے درختوں کے جلے ہوئے تنے اُچھل اُچھل کر باہر گر رہے تھے۔ جنگل سانپوں، بچھّوؤں سے بھرے پڑے تھے۔ سو سو سروں والے اژدھے دانت نکالے پھر رہے تھے۔ آخر کچھ آگے جا کر نکولس کو چھلاوے کا محل نظر گیا۔ یہاں زمین صاف اور ہموار تھی اور اس پر گھاس اُگلی ہوئی تھی۔

    نکولس محل میں داخل ہو گیا۔ وہ جس طرف بھی جاتا دروازے خود بخود کھل جاتے۔ چوہیا اب بھی اُسے راستہ دکھا رہی تھی۔ جب وہ آخری دروازے میں سے ہو کر بڑے کمرے میں داخل ہوا تو اسے میز پر وہ کاغذ پڑا نظر آیا جس پر اس کے باپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔
    اس نے جھپٹ کر کاغذ اٹھایا اور اِدھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کمرے میں لمبی لمبی میزوں پر عمده عمده لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ لیکن بھوکا ہونے کے باوجود اُس نے اُن کی طرف دھيان نہ دیا۔ اُس نے کاغذ جیب میں ڈالا تو اُسے وه وعده ياد آ گیا جو اُس نے میتھیو سے کیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں جانا چاہیے جب تک میں چھلاوے سے میتھیو کے بارے میں نہ پوچھ لوں۔

    اس کا یہ سوچنا تھا کہ چوہیا کمرے میں ایک جگہ بار بار گھومنے لگی۔ نکولس نے اُس جگہ تہ خانہ دیکھا۔ نیچے سیڑھیاں جاتی تھیں۔ وہ نیچے اُتر گیا۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ پہلے پہل تو اُسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اچانک ابلتے ہوئے تیل کی بُو آئی، جیسے پکوڑے تلنے والی کڑاہی سے آتی ہے۔ وہ کمرے کے دائیں کونے کی طرف گیا تو اس سے آگے ایک اور کمرا تھا اور اس میں روشنی ہو رہی تھی۔ نکولس وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی کڑاہی میرا تیل کھول رہا ہے اور پاس ہی دیوار پر لکھا ہے:

    ”میتھیو کی قبر۔“

    نکولس کو بہت دکھ ہوا اور وہ فوراً ہی محل سے باہر نکل آیا۔ اب چوہیا اس کے آگے آگے نہ تھی۔ بلکہ جوں ہی وہ محل سے نِکلا اس نے ایک اُلّو نے اس چوہیا کو پنجوں میں پکڑ رکھا تھا۔
    واپسی میں اُسے سب کچھ بدلا ہوا نظر آیا۔ نہ وہ آدم خور، نہ سانپ، نہ دلدلیں اور نہ وہ پہاڑیاں۔ وہ بغیر کسی دقّت کے میتھیو کے غار تک پہنچ گیا۔ یہاں اب وہ بڑھیا نہ تھی۔ میتھیو رات کو آیا اور نکولس نے اُسے بتایا کہ چھلاوا اُس کو تیل میں تل کر کھانے کا انتظام کر رہا ہے تو اُس نے گھبرا کر کہا ”اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

    نکولس بولا ”یہ جو تمہارا کوڑا ہے نا، یہ خونی کوڑا جس سے تُم نے نہ جانے کتنے لوگوں کو قتل کیا ہے، اِسے زمین میں بو دو۔ پھر اسے ایک چشمے کے پانی سے سینچو، لیکن چشمے سے پانی کِسی برتن میں نہیں، منھ میں بھر کر لانا ہے اور گھٹنوں کے بل چل کر آنا ہے۔ جب تک یہ کوڑا پھوٹ نہ نکلے اور اس میں شاخیں اور پتّے نکل نہ آئیں، اسے اسی طرح پانی دیتے رہنا۔ تمہاری مصیبت ٹل جائے گی۔“

    میتھیو کو یہ ہدایت دے کر نکولس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی کیوں کہ ان کا بیٹا بڑی بہادری کا کام کر کے آیا تھا۔ جب نکولس کے بوڑھے والدین فوت ہوگئے تو اس نے ان کی چھوڑی ہوئی تمام دولت غریبوں میں بانٹ دی اور خود دنیا چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا۔ جنگل سے اُسے بچپن سے پیار تھا۔

    ایک دن وہ ذرا دور نکل گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ نکولس کے ساتھ ایک گڈریا لڑکا بھی تھا۔ اس نے سیب کے ایک درخت کے نیچے گرے ہوئے سیب اکھٹے کر لیے۔ لیکن جُوں ہی اس نے درخت کی شاخ پر سے سیب توڑنا چاہا تو ایک آواز آئی: ”یہ پھل مت توڑو۔ یہ درخت تم نے نہیں بویا تھا۔“ گڈریا یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور اس نے یہ بات نکولس کو بتائی۔ نکولس کو اپنی جوانی کا واقعہ یاد آگیا، بھاگ کر سیب کے درخت کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ درخت کا تنا دراصل خود میتھیو تھا اور اس کے بازو، داڑھی کے بال اور سر کے بال ٹہنیوں اور پتّوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

    نکولس کو دیکھتے ہیں وہ چلّایا: ”تم نے مجھے سیب کے درخت کی لکڑی کا کوڑا زمین میں دبانے کو کہا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا، اسے پانی دیتا رہا اور ایک دن خود ہی درخت بن گیا۔“
    نکولس درخت کے تنے کے پاس بیٹھ گیا اور میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا ایک ایک کر کے اقرار کرنا شروع کر دیا۔

    جب وہ اپنے کسی گناہ کی معافی مانگتا، درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر گرتا اور لڑھک کر دور چلا جاتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا اقرار کرلیا اور کہا کہ وہ اپنے کیے پر سخت نادم ہے تو نکولس نے دیکھا کہ درخت کے تمام سیب گرچکے ہیں اور وہ درخت خاک ہوچکا ہے۔ خاک کے اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر آسمان کی طرف پرواز کرگیا اور ایک آواز آئی: ”اب میں آزاد ہوں۔ اب چھلاوا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“

    (کتاب پولینڈ کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    کسی بادشاہ کے محل میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے بہت سے مالی بادشاہ نے مقرّر کر رکھے تھے۔

    لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ روزانہ رات کو کوئی مخلوق باغ میں آتی اور درختوں کی شاخیں توڑ دیتی۔ بادشاه مالیوں سے بڑا ناراض تھا۔ مالی ہر طرح کوشش کر رہے تھے کہ اُن لوگوں کو پکڑا جائے جو باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر بہت کوشش کے بعد مالیوں کو پتا چلا کہ آدھی رات کے قریب تین ہنس، باغ میں آتے ہیں لیکن صبح جب پڑتال کی جاتی تو گھاس پر انسانی پاؤں کے نشان نظر آتے۔

    بادشاہ نے باغ کی رکھوالی کے لیے چوکی دار رکھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ جوں ہی ہنسوں کے آنے کا وقت ہوتا چوکی داروں کو نیند آ جاتی اور اگلی صبح درختوں کی کئی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہوتیں۔

    اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو بیٹے تو کافی چاق و چوبند تھے لیکن چھوٹا بہت سست اور ڈھیلا سا تھا۔ لوگ اُسے بے وقوف سمجھتے تھے۔

    بادشاہ کے بڑے بیٹے باپ کی پریشانی پر خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح باغ اُجاڑنے والوں کا پتا چل جائے۔ چناں چہ سب سے بڑے شہزادے نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اُن لوگوں کا پتا چلاؤں جو ہمارے باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

    بادشاہ بولا ”ضرور ضرور۔ تم یہ کام نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا۔“

    بڑا شہزادہ شام ہوتے ہیں باغ میں داخل ہوگیا اور بادام کے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھ بند نہیں کرے گا۔ لیکن عین اُس وقت جب اُسے ہوشیار ہو کر بیٹھنا چاہیے تھا اُس کی آنکھ لگ گئی۔ باغ میں آندھی آئی اور اُس آندھی میں تینوں ہنس اُڑتے ہوئے باغ میں اترے۔

    صبح جب بادشاہ شہزادے کا کارنامہ دیکھنے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہُوا کہ شہزادہ گہری نیند سویا ہوا ہے، اور اُس درخت کی تین شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کے نیچے وہ لیٹا تھا۔ بادشاہ کو بہت غصّہ آیا۔ وہ ناراض ہو کر بولا: ”اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو میں تمہارے کان اور ناک کٹوا کر گدھے پر سوار کر کے، تمام شہر میں گھماتا! دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“

    اگلے دن دوسرے شہزادے نے چوروں کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہُوا جو پچھلی رات بڑے شہزادے کے ساتھ ہوا تھا۔

    تیسرے دن سب سے چھوٹے شہزادے نے باغ میں جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہ نے کہا ”تم تو بالکل ہی گئے گزرے ہو۔ تمہارے بڑے بھائی جو بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، یہ کام نہ کر سکے۔ تم کون سا تیر مار لو گے۔“

    لیکن جب چھوٹے شہزادے نے بہت ضد کی تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور وہ شام کو باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ یہ سن چکا تھا کہ عین اُس وقت جب ہنس باغ میں داخل ہوتے ہیں، چوکی داروں کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی سو جائے۔ اس نے چاقو سے اپنی انگلی پر زخم لگایا اور اُس کے اُوپر تھوڑا سا نمک چھڑک لیا تا کہ درد کی وجہ سے اُسے نیند نہ آئے۔

    اندھیرا چھا گیا۔ پھر چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلا اور تمام باغ چاندنی سے جگمگا اٹھا۔ پھر بہکی بہکی ہوا چلنے لگی جو آہستہ آہستہ بہت تیز ہو گئی۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اب ہنسوں کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

    اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دور فضا میں تین چوٹے چھوٹے دھبّے دکھائی دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوتے گئے اور پھر تین سفید ہنس تیزی لیکن خاموشی سے باغ میں اُترے۔ اُن کے پروں کی آواز بھی سُنائی نہ دی۔

    شہزادہ چوکس ہو گیا اور جلدی سے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں ہنسوں نے اپنے پر اُتار کر اُسی جھاڑی کے پاس رکھ دیے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اُن پروں کے اندر سے تین خوب صورت لڑکیاں نکل کر گھاس پر ناچنے لگیں۔ اُن کے سنہری بال چاندنی میں بڑے ہی خوب صورت لگ رہے تھے ۔

    شہزادے نے سوچا کہ اگر میں نے پھرتی سے کام نہ لیا تو یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آئی تھیں، اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی جائیں گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتے وقت یہ کِسی درخت کی ٹہنیاں توڑ جائیں۔ پھر میں ابّا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لوگ تو پہلے ہی مجھے بے وقوف اور سُست کہتے ہیں۔

    یہ سوچ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے جھاڑی میں سے نِکلا اور جھپٹ کر ایک لڑکی کے پَر اُٹھا لیے۔ جتنی تیزی سے اُس نے پَر اُٹھائے اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ باقی دو لڑکیوں نے اپنے پَر اُٹھا کر بازوؤں پر لگائے اور ہنس بن کر اُڑ گئیں۔

    اب ایک ہی لڑکی باقی رہ گئی تھی۔ وہ کانپتی ہوئی شہزادے کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی:

    ” خدا کے لیے میرے پَر واپس دے دو۔“

    ”ہرگز نہیں۔“ شہزاده بولا ” پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟“

    لڑکی نے شہزادے کو بتایا ”میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہوں جس کی سلطنت یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جو ابھی ابھی گئی ہیں، میری بڑی بہنیں ہیں۔ ہمارے اُوپر کسی دشمن نے جادو کر دیا تھا۔ وہ ہمیں مجبور کرتا تھا کہ ہم ہنس کا بھیس بدل کر یہاں آئیں اور اس خوب صورت باغ کے کسی درخت کی ایک ایک شاخ توڑ کر لے جائیں۔“

    شہزادہ بولا ”لیکن اب تو تم ایسا نہیں کر سکو گی۔ اب میں تمہیں اپنے باپ کا خوب صورت باغ ہرگز اجاڑنے نہیں دوں گا۔“

    لڑکی نے کہا ”اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ جادوگر نے کہا تھا کہ جب تمہارے پَروں کو کِسی اِنسان کا ہاتھ لگے گا تو تمہارے اُوپر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔“

    لڑکی شہزادے سے باتیں کر رہی تھی اور شہزادہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ شہزادے نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی کرے گا تو اِسی لڑکی سے کرے گا۔

    شہزادے نے لڑکی کو اپنے باپ کے محل اور اس کی سلطنت کے قصّے سُنائے، اپنے بھائیوں کے متعلق بتایا اور پھر آخر میں کہا: ”اگر تُم مجھ سے شادی کر لو تو ہماری زندگی بڑی ہی خوش و خرّم گزرے گی۔“

    شہزادی بولی ”افسوس ! ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔“

    ”کیوں؟“ شہزادے نے کہا۔

    ”اس لیے کہ پہلے مُجھے ہنس کی صورت میں واپس اپنے دیس میں پہنچنا ہے۔“

    شہزادہ بولا ” وہ تو تُم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتیں جب تک میں تمہارے پَر واپس نہیں کرتا۔“

    ”نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہ“ شہزادی بولی ”ایسا ظلم نہ کرنا۔ اس طرح تو ہم ہنسی خوشی زندگی نہ گزار سکیں گے۔ اگر تُم نے مجھ سے زبردستی شادی کی تو جب بھی میرا دل چاہے گا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“

    شہزاده بولا ” تو پھر کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکو۔“

    شہزادی نے کہا ”اس وقت تو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھے تلاش کرنا پڑے گا۔ میرے باپ کا ملک دنیا کے اُس پار ہے اور اُس کا نام ہے ‘کہکشاں’۔ میں تمہیں اپنے باپ کے محل میں ہی ملوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ ملک کہکشاں کو جو سڑک جاتی ہے، وہ بہت لمبی اور رُکاوٹوں سے پُر ہے۔ اِس ملک کا راستہ تلاش کرنا اِتنا آسان نہیں ہے۔“

    شہزادے نے کہا ”کوئی اتا پتا تو بتاؤ۔“

    شہزادی بولی ”چاند سے پَرے، سُورج سے بھی پرے اور اس جگہ سے بھی پَرے جہاں سے ہوائیں اور آندھیاں آتی ہیں، میرا ملک ہے۔“

    یہ کہتے ہوئے شہزادی ذرا پیچھے کو ہٹی۔ شہزادہ بے دھیان ہو گیا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے پَر بازوؤں پر لگائےاور پلک جھپکتے میں ہنس بن کر اُڑ گئی۔

    صبح کو بادشاه چھوٹے شہزادے کی خیر خبر لینے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا کہ درختوں کی کوئی شاخ ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ وہ کام جو سمجھ دار اور تیز طرار بڑے شہزادے نہ کر سکے تھے، چھوٹے اور سست شہزادے نے کر دکھایا تھا۔

    بادشاہ نے شہزادے کی بہت تعریف کی اور اُسے بہت سا انعام دیا ۔ لیکن شہزادہ تو شہزادی کے غم میں اُداس تھا۔ اُس نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان میں ایک شہزادی کی تلاش میں جا رہا ہوں جس سے میں شادی کروں گا۔“

    بادشاہ نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی، بہت سمجھایا لیکن شہزاده نہ مانا اور سفر پر چل دیا۔ جِس گھوڑے پر وہ سوار تھا، وہ بہت تیز رفتار تھا۔ لیکن شہزادہ اِس قدر بے چین تھا کہ اُسے گھوڑے کی رفتار سُست معلوم ہو رہی تھی۔

    سات روز کے بعد آخر وہ ایسے علاتے سے گزرا جہاں دُور دُور تک آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف پتھّر اور چٹانیں تھیں۔ اب اُسے کچھ اُمید ہوئی کہ شاید شہزادی ایسے ہی کسی علاقے میں رہتی ہو گی۔ دن گزرتے گئے اور اُسے پتھّروں چٹانوں اور کھلے آسمان کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔

    وہ اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ دور، کچھ فاصلے پہ تین جنّ نظر آئے جو خنجر نکالے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیّار تھے۔ شہزاده اُن کے پاس گیا اور دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟ کیوں لڑ رہے ہو؟“ اُن میں سے بڑا جِن بولا ”ہم تینوں بھائی ہیں۔ ہمارا باپ ہمارے لیے کچھ جائداد چھوڑ گیا ہے۔ اسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہم جھگڑ رہے ہیں۔“

    شہزادے نے پوچھا ”کیا جائداد چھوڑی ہے تمہارے باپ نے؟“

    اس پر جنوں نے اُسے بتایا کہ اُن کا والد جوتوں کا ایک جوڑا چھوڑ گیا ہے اور ان کو پہن کر انسان ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایک چادر ہے جسے اوڑھنے والا دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک ٹوپی ہے جس کے پیچھے ایک پَر لگا ہے۔ اگر ٹوپی کے پَر والا رُخ بدل کر آگے کر دیا جائے تو اِتنے زور کی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے سات توپیں ایک دم داغ دی گئی ہوں۔

    شہزادہ کچھ دیر غور کر کے بولا ”اِن چیزوں کو تقسیم نہ کرو بلکہ تُم میں سے جو سب سے زیادہ اِن کا حق دار ہو وہ تینوں چیزیں لے لے۔ لاؤ یہ مجھے دے دو اور جب میں ایک دو تین کہوں تو تینوں بھاگو۔ وہ جو سامنے پہاڑ نظر آ رہا ہے، اُس کی چوٹی کا پتھّر جو سب سے پہلے اُکھاڑ کر لائے گا وہی خوش قسمت تینوں چیزیں لے لے گا۔“

    جِنوں نے اُس کی یہ تجویز مان لی اور جب اُس نے ایک دو تین کہا تو تینوں دوڑ پڑے۔ جوں ہی اُنہوں نے دوڑنا شروع کیا، شہزادے نے فوراً جوتے پہنے، چادر اوڑھی اور ٹوپی سر پر رکھ کر غائب ہو گیا۔

    اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اُسے اب گھوڑے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اُس کا ایک قدم سات میل کا تھا۔ وہ چلتا گیا۔ عجیب عجیب علاقے آتے گئے۔ شام تک وہ ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے جانا ممکن نہ تھا۔ وہ رات کاٹنے کے لیے وہیں رُک گیا۔

    سونے سے پہلے اُس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دُور جنگل میں روشنی سی نظر آئی۔ وہ اُسی طرف چل دیا۔ یہ روشنی ایک جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔ شہزاده اُسی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی ۔ شہزادے نے اُس سے جھونپڑی میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو وہ بولی: ”میں چاند کی ماں ہوں۔ آج وہ آسمان کا سفر جلدی ختم کر کے واپس آ جائے گا۔ اگر اُس کی روشنی تم پر پڑ گئی تو اچھی بات نہ ہوگی۔“

    لیکن شہزادے نے اتنی ضد کی کہ بڑھیا نے مجبور ہو کر اِجازت دے دی۔ شہزادے کی ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ چاند واپس گھر آ گیا اور آتے ہی پوچھنے لگا: ”کون ہو تم؟“

    شہزادہ بولا ” اے چاند، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم ساری دنیا پر اپنی روشنی کی کِرنیں بکھیرتے ہو۔ مُجھے کہکشاں کا راستہ بتا دو۔“

    چاند بولا ”کہکشاں کو جانے والا راستہ یہاں سے بہت دُور ہے۔ تمہیں ابھی ایک دِن اور ایک رات اور چلنا ہو گا ۔ پھر کسی جگہ کوئی ملے تو اس سے پوچھنا۔“

    شہزاده چلتا گیا۔ شام کے قریب وہ پھر ایک جنگل میں پہنچا۔ یہاں بھی اُسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھوپڑی میں داخل ہوا۔ جھونپڑی میں ایک بڑھیا بیٹھی تھی۔ اُس نے بڑھیا سے رات گزارنے کی اجازت چاہی تو وہ بولی: ”میں سُورج کی ماں ہوں ۔ میرا بیٹا اب واپس گھر آنے والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو اچھّا نہ ہو گا۔“

    لیکن شہزادے نے ضد کی تو اُس بڑھیا نے بھی اُسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بعد سُورج آ گیا اور اُس نے شہزادے سے وہی سوال کیا: ”کون ہو تُم اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

    شہزادہ بولا ” اے سورج ، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم نے ضرور یہ ملک دیکھا ہو گا۔ مجھے اُس کا راستہ بتا دو۔“

    سُورج نے کہا ”میں نے یہ ملک کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اِتنی دور ہے کہ چاند اور سورج کی روشنی وہاں نہیں پہنچتی۔ تم ابھی اور آگے جاؤ۔ پھر کِسی سے راستہ پوچھنا۔“

    شہزادہ بے حد اُداس ہو گیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن شہزادی کی یاد اُس کے دِل سے نہ جاتی تھی۔ وہ پھر آگے چل دیا۔ رات کو اُسے ایک بڑھیا ملی۔ یہ بڑھیا پہلی دو بڑھیوں سے زیادہ رحم دل تھی ۔ اُس نے شہزادے کو بتایا ”میری سات بیٹیاں ہیں، اور یہ ساتوں وہ ہوائیں ہیں جو دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں ۔ تُم ذرا انتظار کرو۔ شاید اُن میں سے کسی کو کہکشاں کا پتا معلوم ہو۔“

    تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو شہزادے نے اُن سے کہا: ”اے ہواؤ، تم ساری دنیا میں گھومتی پھرتی ہو۔ مجھے کہکشاں نامی ملک کا پتا تو بتاؤ۔“

    لیکن اُن میں سے کوئی بھی شہزادے کی مدد نہ کر سکی۔ اب تو شہزادے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ رونے لگا۔ بڑھیا نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بولی: ”حوصلہ نہ ہارو۔ ابھی تو میری چھ بیٹیاں ہی آئی ہیں۔ ساتویں جو سب سے زیادہ تیز ہے اور جسے طوفان کہتے ہیں، ابھی آنے والی ہے۔ ذرا انتظار کرو، شاید وہ کچھ بتا سکے۔“

    اِتنے میں بڑھیا کی ساتویں بیٹی بھی آ گئی۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی، شہزادے نے اُس سے کہا: ”خدا کے لیے مجھے ملک کہکشاں کا پتا بتا دو؟“

    ہوا بولی ”میں تو وہیں سے آ رہی ہوں۔ وہ اِتنی دور ہے کہ تمہارا وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔

    لیکن پہلے مجھے یہ تو بتاؤ تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“

    شہزادے نے ساری کہانی سنائی تو ہوا افسوس کرتے ہوئے بولی :”اگر تم وہاں پہنچ بھی گئے تو کوئی فائده نہ ہو گا۔ اُس شہزادی کی تو کل دوپہر کو شادی ہو رہی ہے۔ میں آج سارا دن محل کی چھت پر شہزادی کی شادی کے کپڑے سکھاتی رہی ہوں۔“

    شہزادہ بولا: ”تم چاہو تو میری مدد کر سکتی ہو۔ شہزادی کی شادی کے تمام کپڑے اڑا کر کیچڑ میں پھینک دو۔ اِس طرح شادی رک جائے گی۔“

    ہوا نے کہا ”یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اگر میں شادی رکوانے ہیں کامیاب ہو گئی تو پھر تمہیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔ شہزادی اِس شادی سے خُوش نہیں، میں نے دیکھا تھا، وہ بہت اُداس تھی۔“

    ہوا نے شہزادے کو اپنے ساتھ اڑانا چاہا تو وہ ہنس پڑا اور بولا ” میرے بوٹ دیکھے ہیں تُم نے۔ میرا ایک قدم سات ميل کا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔“

    اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ شہزادہ ہوا سے میلوں آگے تھا، اور ہوا کو اُس کا ساتھ دینے کے لیے بہت تیز چلنا پڑ رہا تھا۔

    آخر تنگ آ کر ہُوا نے کہا۔ ”دیکھو شہزادے، تم شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر میں زیادہ تیز چلوں تو دنیا میں تباہی آ جاتی ہے، درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، مکانات گِر جاتے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہ ہے کہ ذرا آہستہ چلو۔“

    اب اُن کی رفتار پہلے سے کچھ کم ہوگئی تھی، وہ ایک بہت بڑے صحرا سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف ریت کے تودے اُڑتے پھرتے تھے۔ اس سے آگے ایسا علاقہ آیا جہاں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایسے پہاڑ آ گئے جن پر صدیوں سے برف جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا یہی سلسلہ مُلک کہکشاں کی سرحد تھی۔

    اِن پہاڑوں کو عبور کرتے ہی وہ محل نظر آنے لگا جہاں شہزادی کی شادی کی تیّاریاں ہو رہی تھیں۔ ہوا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اِتنے زور سے چلی کے تمام جھنڈیاں، جھاڑ، فانوس اور قناتیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ شادی کے کپڑے اُڑ اُڑ کر دور پانی اور کیچڑ میں جا گِرے۔ ہر طرف آفت سی مچ گئی اور شادی ملتوی کر دی گئی۔

    شہزادے نے جادو کی چادر اوڑھ لی۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اُس کمرے میں گیا جہاں شہزادی اداس اور غمگین بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شہزاده اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں پڑی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔ اُسے سخت بھوک لگی تھی۔

    خوش قسمتی سے میز پر ایک کیک اور چھری پڑی تھی اور ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل بھی رکھی تھی۔ اس نے کیک کاٹ کر کھانا شروع کیا اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پیا۔ وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہُوا کہ کاٹنے کے باوجود کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ پانی پینے کے بعد بھی بوتل اُسی طرح بھری رہی۔

    جب اُس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اطمینان سے شہزادی کے پاس آیا اور بولا ”حضور، میں آ گیا ہوں۔“

    شہزادی اتنے قریب ایک مردانہ آواز سُن کر ڈر کے چیخی تو محل کا چوکی دار بھاگا آیا۔ شہزادے نے اپنی ٹوپی کا رخ بدل لیا اور پَر والا حصّہ سامنے کر لیا۔ ایک دم محل توپوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ تمام چوکی دار اور محافظ بھاگے چلے آئے۔ بادشاہ اور ملکہ بھی آ گئے۔ بادشاه نے کہا:

    ”تم جو کوئی بھی ہو، ہمیں بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟“

    شہزاده بولا ” میں شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص، جو دِکھائی نہیں دیتا، جِنوں کے ملک کا شہزادہ ہے۔ اگر آپ نے اِس کے ساتھ شادی نہ کی تو یہ آپ کے ملک کو تباہ کر دے گا۔

    بادشاه ڈر گیا اور اُس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کر کے شہزادے کی بات مان لی۔ شہزادی اور شہزادے کی شادی بڑی دھُوم دھام سے کر دی گئی۔ تین دن خُوب جشن رہا۔ شادی کی تمام رسمیں پوری ہوئیں لیکن اِس دوران میں شہزادے نے چادر اوڑھے رکھی اور سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ چوتھے دِن شہزادے نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک تلوار اتاری، اُس کے دستے پر پہلے اپنا نام لکھا، پھر لکھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

    یہ سب کچھ لکھ کر اُس نے تلوار دیوار پر لگا دی۔ پھر جادو کے بوٹ پہنے، کیک اور پانی کی بوتل ساتھ لی اور واپس چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک ایسا ملک آیا جہاں قحط پڑا ہُوا تھا۔ لوگ اِتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کی ہڈّیاں نِکل آئی تھیں اور وہ ہڈیوں کے پنجر نظر آتے تھے۔ شہزادے نے جادو کا کیک اُنہیں دے دیا۔ لوگ کھاتے گئے لیکن کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کے بدلے میں اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے بچّے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو وہ اُس کی خوب آؤ بھگت کریں اور پھر اُسے اگلے ملک کی سرحد پر چھوڑ آئیں۔

    اِس کے بعد شہزادہ ایک ایسے ملک میں داخل ہُوا جہاں برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی، کنویں اور دریا سب سوکھ گئے تھے۔ لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے تھے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ شہزادے نے پانی کی بوتل اُن لوگوں کو دے دی۔ اُنہوں نے خوب جی بھر کے پانی پیا، لیکن بوتل ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ یہاں بھی اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے لڑکے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو اُن کی پوری مدد کریں اور اگلے مُلک کی سرحد تک چھوڑ آئیں۔

    اُدھر شہزادے کے جانے کے بعد شہزادی بُہت اداس ہو گئی تھی۔ اُس کا کِسی کام میں دِل نہ لگتا تھا۔ اگلے موسمِ بہار میں اُس کے ہاں ایک خوب صورت شہزاده پيدا ہوا۔ وہ بہت ہی حسین تھا۔ سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور گلابی رنگت۔ لڑکا بڑا ہوکر نہایت تَن درست نکلا۔ جب وہ چھ سال کا ہُوا تو ایک دِن اُس نے ماں سے ضد کی کہ دیوار پر لٹکی ہوئی تلوار اُسے دِکھائی جائے۔ شہزادی نے تلوار اُتاری تو اُس کی نظر تلوار کے دستے پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑ گئی۔

    یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ شہزادہ اپنا پورا پتا تلوار کے دستے پر لکھ گیا ہے۔ یہ تو وہی شہزاده تھا جِس کے باپ کے باغ میں شہزادی ہنس بن کر جایا کرتی تھی۔

    شہزادی نے اپنے لڑکے سے کہا ”چلو بیٹا اب ہم تمہارے بابا کی تلاش میں نِکلتے ہیں۔“ اگلے ہی دِن وہ روانہ ہو گئی۔ اُس کے ساتھ ایک فوجی دستہ، بے شمار نوکر چاکر اور سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں تھیں۔

    جب وہ اُس ملک میں پہنچے جہاں کے لوگوں کو شہزادے نے کیک دیا تھا تو اُنہیں شہزادے سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا اور اُنہوں نے شہزادی اور اُس کے بیٹے کا شان دار استقبال کیا۔ پھر وہ شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کو دوسرے ملک کی سرحد تک چھوڑ آئے۔

    یہ ملک وہ تھا جس کے باشندوں کو شہزادے نے پانی کی بوتل دی تھی ۔ یہاں بھی شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ لوگ بھی شہزادی کو اگلے ملک کی سرحد تک حفاظت سے پہنچا آئے۔ ایک دِن کا سفر کرنے کے بعد شہزادی شہزادے کے شہر کے نزدیک پہنچ گئی لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے میدان میں رُک گئی۔

    میدان میں خیمے لگا دیے گئے، قالین بچھا دیے گئے اور تمام قیمتی اور خوب صورت سامان اور جو شہزادی ساتھ لائی تھی، سجا دیا گیا ۔ پھر شہزادی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ میں مُلک کہکشاں کی شہزادی ہوں اور آپ کی بہو بننا چاہتی ہوں۔ مہربانی فرما کر اپنے بیٹوں کو باری باری میرے پاس بھیجیے تا کہ میں اُن میں سے ایک کو چُن لوں۔

    سب سے پہلے بڑا شہزاده بن سنور کر نِکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے ملنے گیا۔ شہزادی کے بیٹے نے پُوچھا:

    ”امّی، کیا یہ میرے ابّو ہیں؟“

    شہزادی بولی ”نہیں بیٹے۔ یہ تمہارے ابّو نہیں ہیں۔“

    بڑا شہزادہ واپس چلا گیا تو دوسرا شہزادہ قسمت آزمانے آیا۔ اُسے دیکھ کر بھی لڑکے نے وہی سوال کیا۔ شہزادی نے جواب دیا کہ بیٹے، یہ بھی تمہارے ابّو نہیں ہیں۔

    سب سے آخر میں چھوٹا شہزادہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔ شہزادی نے خیمے کے اندر ہی سے پہچان لیا اور لڑکے کو بتایا کہ بیٹا یہی تمہارے ابّو ہیں۔

    لڑکا بھاگ کر خیمے سے باہر نِکلا اور اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ خوشی کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اور جب ایک دوسرے کو سارا قصّہ سُنا چُکے تو شہزاده اُن کو لے کر اپنے محل میں آ گیا۔ اُس کے بھائی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ یہ سُست اور نالائق لڑکا شہزادی کو کیسے پسند آ گیا۔ لیکن اُنہیں کیا پتا تھا کہ شہزادی کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔

    شہزادی اور شہزادہ وہاں زیادہ دِنوں نہیں رکے، فوراً ہی کہکشاں کی طرف چل پڑے جہاں شہزادے نے بہت عرصے تک حکومت کی اور شاید آج بھی وہاں اُسی کی نسل حکومت کر رہی ہو۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ٹھیک پتا نہیں چل سکتا کیوں کہ کہکشاں تک جانا آسان نہیں۔ وہاں تو وہی پہنچ سکتا ہے جو پہلے چاند اور سورج کے پاس سے گزرے ۔ پھر کچھ ہواؤں سے راستہ پوچھنے کے بعد ساتویں ہوا کے ساتھ ایسے جوتے پہن کر سفر کرے جو ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہوں۔ پھر ویران صحراؤں اور برفانی پہاڑوں میں سے گزرے۔ تب کہیں جا کر اُسے پتا چلے گا کہ کیا ملک کہکشاں پر آج بھی اُسی شہزادے کی نسل حکومت کرتی ہے۔

    (پولینڈ کی دل چسپ لوک کہانی، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔

    ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔”

    دوسرے نے کہا، ” ہاں، اور ہم سب کے گھر والے خوب مزے لے کر مچھلیاں کھائیں گے۔” باقی دو دیہاتی کچھ نہیں بولے اور ان کی باتوں پر صرف سَر ہلا دیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ان میں سے ایک اچانک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔

    اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟”

    اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟”

    باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”

    وہ بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟”
    اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔” اس نے خود کو چھوڑ کر باقی کو گنا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر باقی دو دیہاتیوں نے بھی باری باری سب کو گنا اور چونکہ ہر دیہاتی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین ہوگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں اور ان میں سے ایک غائب ہے۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ سوچنے لگے چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے، وہ سب تو ساتھ ہی تھے۔

    آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بے وقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہو گا۔”

    اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو کوئی بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟”

    ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔”

    وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چور آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔

    وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟”

    ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔”

    وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟”

    ان میں‌ سے ایک دہیاتی نے سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ چالاک شخص دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا مگر بناوٹی لہجے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟”

    چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔” "اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔”

    مکّار اور کام چور آدمی نے مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔”

    "ہاں ہم چار تھے۔”

    "دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟”

    "ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔”

    "لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔” وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔

    چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔”

    وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!”

    وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟”

    وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔”

    وہ بے وقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔”

    مکّار شخص کانپتے ہوئے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔”

    چاروں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟”

    مکّار آدمی بولا، "وہ؟ وہ تو جنّ تھا۔ وہ جن تھا جنّ۔۔۔۔”

    یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جنّ تھا جنّ۔”

    وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کام چور آدمی جو ان سے پہلے بھاگ نکلا تھا، کدھر ہے۔ وہ تو ایک پیر کے پیچھے چھپ گیا تھا اور ان بے وقوفوں کے بھاگتے ہی پیڑ کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کرنے لگا۔ وہ ان بے وقوفوں‌ کی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنے گھر لے گیا۔

    اس مکّار اور کام چور شخص کی بیوی اس سے بڑی تنگ تھی۔ وہ کوئی کام دھندا نہیں‌ کرتا تھا اور دن بھر گھر سے باہر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی محنت مزدوری کرکے کسی طرح کنبے کا پیٹ بھرنے پر مجبور تھی۔ آج اس عورت نے سوچ رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔

    اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیر ساری مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک دریا پر مچھلیاں پکڑتا رہا، بہت تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک بڑی مچھلی پکا کر مجھے کھلا دو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ باقی کو اس طرح رکھ دو کہ وہ خراب نہ ہوں۔”

    "ہاں، ہاں، کیوں نہیں‌، اتنی محنت تم نے کی ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ تم کو مزیدار سالن بنا کر دوں، آج تو کمال ہی ہوگیا۔” بیوی نے کہا اور چولھے کی طرف بڑھ گئی۔ کام چور چارپائی پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ دل ہی دل میں ان بے وقوفوں پر ہنس رہا تھا اور اپنی بیوی کو دھوکا دینے پر خوش بھی تھا۔

    سچ ہے کاہل اور کام چور آدمی سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نہیں‌ بچ پاتے اور وہ سب کو یکساں طور پر دھوکا دیتا ہے۔

    (ملایا کی یہ لوک کہانی بچّوں کے ماہ نامہ ‘نونہال’ میں‌ 1988ء میں شایع ہوئی تھی جس کے مترجم اشرف نوشاہی ہیں)